Salam Korea
by vaiza zaidi
قسط 2
میں اندھیروں کی باسی۔۔۔
روشنی سے خوفزدہ ۔۔۔
ہر صبح۔۔۔
سے۔۔۔
ڈر لگتا ہے۔۔۔
آنکھ کھل نہ جائے۔۔۔
مجھے اندھیرے ہی راس آتے ہیں۔۔۔۔
میں آغاز صبح ۔۔۔
پلکیں موند کر کرتی ہوں۔۔۔
دن ڈھلے مگر۔۔۔
اٹھنا پڑتا ہے۔۔۔
یہ دنیا مجھ سے الٹ چلتی ہے۔۔۔
میں بیزار سی
دن گزرنے کا انتظار کرتی ہوں۔۔۔
خوش قسمتی سے وقت گزر جاتا ہے۔۔۔
پھر شام ہوتی ہے۔۔۔
رات آتی ہے۔۔۔
یہ دنیا جب سو جاتی ہے۔۔۔
میں آزادی سے۔۔۔
رات بھر ۔۔۔
رات ہونے کا جشن مناتی ہوں۔۔۔
اس نےگہری سانس بلکہ آہ بھر آنکھیں بند کر لی تھیں۔ اسکی آنکھوں کے کنارے اب خشک تھے مگر
چندی کھنچئ ہوئی آنکھوں والی وہ لڑکی بنا آنسئوں کے روئی تھئ۔ تڑپ تڑپ کر مگر اندر سے۔ برف طوفان تکلیف چیخیں۔۔ فائرنگ۔ کی آواز دھائیں دھائئں۔۔ ایک ایک منظر اسکی آنکھوں میں یوں تازہ تھا جیسے ابھی یہ سب گزرا ہو۔ اس نے آنکھیں کھول کر اپنے سامنے اس دنیا بھر سے آئے صحافیوں کے مجمعے کو دیکھا۔ سب ساکت خاموش بیٹھے اسکی بپتا سن رہے تھے۔ اسکا لہجہ رواں تھا اس نے جزب سے انگریزی میں یہ نظم پڑھی تھی۔ پورے ہال پر شائد ان الفاظ کا اثر ہوا تھا جو اسکے چپ ہو جانے کے باوجود چند لمحوں تک سب پر۔ خاموشی کی صورت طاری رہا تھا۔
اسکے خاموش ہونے کے چند لمحوں کے بعد ڈھیر ساری تالیاں بجائی گئی تھیں۔۔
ہوپ یہ سچ مچ بہت خوبصورت نظم تھی۔ بالکل آپ جیسی ۔۔ آپ نے خود لکھی ہے۔۔۔ میزبان نے تالیوں کا شور تھمنے پر اس سے سوال کیا تھا۔۔۔
آنیا۔۔۔یہ مجھے پسند آئی تھی ایک فورم پر پڑھی گئ تھی میں نہیں جانتی کس نے لکھی کیوں لکھی۔ مگر مجھے لگتا ہے میرے لیئے میرے حالات پر لکھی گئ ہے۔۔ یہ نظم خوب صورت تو نہیں۔۔۔۔ یہ نظم تو بالکل میرے جیسی ہے بدصورت اور تلخ۔ ۔ ۔۔ ہوپ نے استہزائیہ انداز میں کہا تھا۔میزبان چپ سا رہ گیا۔
جنوبی کوریائی خوبصورتی کے معیار کے مطابق واقعی ایک بد صورت ترین لڑکی اسکے سامنے کھڑی تھی۔ بےتحاشہ کھنچی ہوئی آنکھوں ابھری ہوئی گالوں کی ہڈیوں کے بیچ ستواں ناک چھوٹا سا دہانہ۔ اس لڑکی کے نقش اتنے برے نہ تھے مگر فاقہ ذدہ شکل جو پیلی پھٹک چمڑی سے سجی تھی۔ اسے دیکھ کر لگتا تھا ابھی جھڑ جھڑ کر گرنا شروع ہوجائے گی۔ اسکا دبلاپن اسکے طویل عرصے سے بھوکےرہنے یا کم خوراکی کا نتیجہ تھا۔ بے چارئ شمالی کوریائی محاجر۔
اسے دیکھ کر ان دل میں تاسف افسوس ترس ہی ابھرتا تھا۔۔
اسکی خاموشی پر ہوپ مسکرائی تھی۔ میزبان کو پروڈیوسر کی جانب سے کان میں سوال کیا گیا جو اس نے من و دن دہرایا۔
ہوپ جنوبی کو ریا میں ہو تم نے بہت کچھ سہا ہے کوئی ایسی فرق جو تم جنوبی کوریا کے باشندوں کے رویے میں دیکھتی ہو شمالی کوریائی باشندہ ہونے کی وجہ سے وہ تمہارے ساتھ کوئی الگ رویہ رکھتے ہوں۔۔۔
جنوبی کوریائی مجھ پر ترس کھاتے ہیں جو اچھی بات ہے مگر مجھے یہ بات بہت دکھی بھی کر دیتی ہے۔۔۔ میں نے جو جتنا کھونا تھا شمالی کوریا سے جنوبی کوریا تک کے سفر میں کھو دیا میں جب سے سیول میں ہوں مجھے صرف ملا ہے آپ سب کا ساتھ پیار حوصلہ………
مجھے اب ترس کی ضرورت نہیں۔۔۔ مجھے بس ہوپ کہلانا ہے ہوپ بننا ہے ہر شمالی کوریائی کیلیے۔۔۔۔
شکریہ۔۔۔۔۔ وہ بہت حوصلے سے مسکرائی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھیبا( زبردست)۔۔۔۔۔
اسٹیج پر الوداعیہ چل رہا تھا سب مہمان کھڑے اختتامی تقریر سن رہے تھے۔ دو درجن لوگ سب کے سب اونچے اونچے عہدوں پر فائز کوئی سفارت کار تھا کوئی سماجی کارکن کوئی شاعر۔ ان سب میں اس ایک سب سے فالتو لڑکی کے چپکے سے اسٹیج سے اتر جانے کو کسی نے محسوس بھی نہیں کیا۔ وہ آرام سے اتر کر اندر جانے لگئ جب پیچھے سے انی نے آکر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
انی ۔ وہ چونک کے مسکرائی۔
تھیبا ۔۔ شاباش۔
گنگشن نے باقائدہ اسے گلے سے لگایا تھا۔
اتنے بڑے مجمعے کے سامنے ایک لفظ بولا نہیں جاتا اور تم نے اتنے اعتماد سے تقریر کی سب کے پے در پے سوالوں کے مفصل جواب دیئے مجھے کہنے دو ہوپ تم بہت باصلاحیت لڑکی ہو۔
گنگ شن انی کے اس محبت بھرے برتائو نے اسکے چہرے پر مضمحل سی مسکراہٹ بکھیر دی۔
انی جو ایک بار تماشہ بن جائے اسکے دل سے سب خوف جاتا رہتا ہے میرا تو کئی بار تماشہ بن چکا ہے۔
اسکے الفاظ سخت انداز بے رحم سا تھا۔
میں یہ تو نہیں کہوں گی کہ ماضی بھلا دو مگر یہ ضرور چاہتی ہوں کہ تم حال میں جینا شروع کردو۔
وہ ٹوکے بنا نہ رہ سکی گنگشن کے چہرے پر ہمیشہ سی پرشفقت مسکراہٹ تھی جو اس جیسی لڑکی کے دل میں بھی امید جگا دیتی تھی۔ شائد اب کچھ اچھا ہو جائے۔ گنگشن اسکا ہاتھ تھام کر باتیں کرتی بیک اسٹیج کی طرف بڑھیں۔
ابھی یہیں صحافیوں نے گھیر لینا ہے تم اب بس آرام کرو یہ کانفرنس ہی چار گھنٹے مسلسل بٹھا کر تمہیں Exausted کر گئ ہوگی۔
ایسا ہی تھا مگر اسے اپنی تکلیفیں بیان کرنے کی عادت ہی نہ تھی۔
ویسے تمہاری انگریزی اچھی ہے لہجہ رواں ہے ۔ یہ نظم بہت اچھی پڑھی تم نے۔ دیکھنا یہ کلپ وائرل ہو جائے گا۔ وہ سیدھا باہر کھلی فضا میں لے آئی تھیں۔
وائرل۔ اس نے الجھن سے دیکھا۔
اس طرح تو آہموجی مصیبت میں پڑ جائیں گی۔جانے انکے ساتھ کیا سلوک ہو۔۔۔
وہ بری طرح گھبرا گئ
انی اسی لیئے میں نے کہا تھا میں میڈیا کے سامنے نہیں آنا چاہتی اس طرح تو میرے خاندان والے مزید مصیبت میں پڑجائیں گے۔۔
گنگشن نے زبان دانتوں تلے دبا لی۔
میرا مطلب تھا کہ تم۔۔۔ دراصل میں تعریف کر رہی تھی۔ تمہاری۔ مثال کے طور پر کہا ہے۔ وہ کچھ نہ کچھ جملہ سوچ ہی گئیں۔
وہ یونہی شآکی نگاہ سے دیکھتی رہی۔
اب تم گھر جائو آرام کرو او ردعا کرو کہ جلداپنے خاندان سے مل سکو۔ ۔۔
انہوں نے مزید کہا تو وہ بحث میں نہیں پڑی سر جھکا کےرہ گئ۔ ڈرائور انکی گاڑی انکے پاس گھما کے لیکر آیا۔۔ انہوں نے ہوپ کو بٹھایا تسلی دینے والے انداز میں کندھے پر ہاتھ رکھا ۔ پھر جب تک گاڑی نظروں سے اوجھل نہ ہوگئ وہیں کھڑی دیکھتی رہیں۔۔ ذہن میں اپنے منتظم اعلی کے جملے گونج رہے تھے۔
یہ کلپ اگلے دو گھنٹے میں وائرل ہونا چاہیئے۔۔ہمیں اس کلپ سے بہت سے نئے اسپانسرز مل سکتے ہیں۔
مگر سر اس طرح تو ہوپ کے خاندان کی زندگی اور مشکل ہوجائے گی۔ انکی بیٹئ دشمن ملک میں کانفرنس اٹینڈ کر رہی ہے اس بات کا کتنا ردعمل آسکتا ہےہم نہیں جانتے کہ شمالی کوریا میں ہیں وہ یا کہیں اور۔۔
گنگشن چلبلا اٹھی تھیں۔
نارتھ کوریا میں غیر ملکی ذرائع ابلاغ نہیں پہنچ پاتا ہے اور ویسے بھی ہوپ یہاں ہے اس بات کو ہم چھپا نہیں سکتے۔ ہاں اس معاملے کا پرچار کرکے ہم غیر ملکی امداد لے سکتے ہیں جو ہوپ جیسے اور بچوں کو معاونت فراہم کرنے میں مددگار ہوگئ۔
ان پچاس پچپن سال کے منتظم اعلی کے لب و لہجے میں تجربہ بول رہا تھا یقینا وہ ان معاملات کو ان سے بہتر جانتے تھے۔
ہوپ آئی ہوپ کہ تمہاری ہوپ ختم ہونے سے قبل تمہیں جینا آجائے۔۔۔۔
وہ گہری سانس لیکر رہ گئیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام و علیکم سر۔
وہ ہلکی سی دستک دے کر اسٹاف روم میں داخل ہوئی۔۔ درجن بھر چھوٹے کیبنز سے سجا بڑا سا اسٹاف روم اس نے متلاشی نظروں سے تلاشا ۔۔ سر کامران سامنے اپنے کیبن میں ہی بیٹھے تھے۔ اسے دیکھ کر خوشدلی سے مسکرائے
آئو بیٹا بیٹھو۔
وہ ڈھیر سارے کاغذات میں الجھے ہوئے تھے۔
کیسی ہو۔ انہوں نے یونہی پوچھا تھا مگر وہ پھیکی سی ہنسی ہنس دی۔
ٹھیک ہوں سر۔ انہوں نے اسکے جواب پر بغور اسکی شکل دیکھی۔
موسم کی مناسبت سے موٹا کھدر کا گلابی سوٹ پہنے تھی جسکا دوپٹہ شال کی طرح لے رکھا تھا۔ چہرے کی رنگت دوپٹے کا ہالہ بھی گلابئ نہ کر سکا تھا ۔ وہ بالکل سفید چہرہ لیئے سپاٹ اور بےزار سے تاثرات سجائے بیٹھی تھئ۔ ۔۔ انہوں نے بشاش سے انداز میں مخاطب کیا۔
تمہیں پتہ ہے تمہاری نظم ہوپ بین القوامی مقابلے میں ناصرف انعام جیتی ہے بلکہ ایک انٹرنیشنل فورم پر پڑھی بھی گئ ہے۔۔۔۔
انہیں لگا تھا وہ خوشی سے اچھل پڑے گی۔ مگر وہ چپ چاپ کرسی کے ہتھے پر انگلی پھیرتی رہی۔
کیا ہوا پریشان ہو۔ خوش نہیں ہوئیں؟
سر کامران اسکے ردعمل پر متفکر ہوئے
نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں۔ وہ ذرا سا ہنسی۔
سر ترجمہ تو آپ نے کیا تھا میں نے تو اردو میں لکھی تھی۔ وہ بات بدل گئ
تو کیا ہوا۔ سر کامران نے کان پر سے جیسے مکھی اڑائی۔
اصل تھیم اور کانسیپکٹ تو تمہارا تھا۔سچی بات یہ کہ اردو کی بد قسمتی ہے کہ یہاں اسکی ترویج کیلئے خاطر خواہ کام نہیں کیئے جاتے اگر انڈیا میں بھی ہوتیں نا تم تو یہ نظم تمہیں مشہور کر دیتی ادبی حلقوں میں۔ وہ اسکا حوصلہ بڑھانا چاہ رہے تھے۔
اسکو کم از کم کسی ڈایجسٹ وغیرہ میں بھیجو دیکھنا چھپ جائے گی۔
جی۔ اس نے سر ہلادیا۔ بحث میں نہیں پڑی۔
اچھا میں نے تم سے کچھ پوچھنے کیلئے بلایا تھا۔ تم نے اسکالر شپ کیلئے اپلائی نہیں کیا کیوں؟
وہ بھئ بات بدل کر بولے
سر امی مری نہیں جانے دیتیں یونیورسٹی ٹرپ پر کوریا کہاں جانے دیں گئ۔
وہ بےزاری سے بولی
مگر مرتضی ایسا نہیں ہے۔ وہ ٹوک گئے
تم نے مرتضی سے بات کی؟
اس نے سر جھکا لیا۔
کرکے دیکھو ۔ مرتضی مان جائے گا بھیجنے کو۔ وہ بچیوں پر پابندیاں لگانے والا انسان نہیں ہے۔ خاص کر پڑھائی کے معاملے میں تو بالکل نہیں۔ پھر یہ بہت اچھا موقع ہے تمہیں اعزازی ڈگری مل جائے گی ۔ کوریا کا تعلیمی نظام ایشیا کا سب سے بہترین تعلیمی نظام ہے وہاں کے انٹرنیشنل اسکول کی ڈگری دنیا میں مانی جاتی ہے۔ اور تم تو پی ایچ ڈی تک کے خواب دیکھتی ہو آگے کینڈا جا کر بھئ مواقع۔۔۔
وہ اسے سمجھا ریے تھے وہ باتیں جو اسکی عقل میں بھی آتی تھیں مگر۔۔
سر بات کی تھی بابا سے۔ وہ کہہ رہے تھے اگر سجاد اجازت دیں گے تو ہی میں جا سکتی ہوں۔ اس نے صاف بتا دیا۔
وہ اسکے باپ کے بچپن کے دوست تھے ان سے کچھ چھپا نہیں تھا۔ وہ بچپن سے ان کی گود میں بھی پلی بڑھی تھی۔
ہاں۔ وہ ذرا تھمے۔
کہہ تو ٹھیک رہا وہ بھی۔ تو تم نے سجاد سے بات کی؟
انکے سوال پر اس نے نفی میں سر ہلادیا
کرو۔ وہ فورا بولے۔ سمجھدار انسان ہے سجاد کبھی منع نہیں کرے گا۔ پھر تمہیں کینڈا میں آگے تعلیم حاصل کرنے میں بھی فائدہ ہی ہوگا اس اسکالر شپ کا۔ بلکہ اسکو ایکسچینج پروگرام کہنا ذیادہ مناسب ہوگا۔ انکے پانچ طلباء یہاں آکر تعلیم حاصل کریں گے اور جوابا ہمارے پانچ وہاں جا کر۔ ہم تو دس بلا رہے تھے مگر پاکستان کوئی آنا ہی نہیں چاہتا۔اور مزید مضحکہ خیز بات یہ کہ پاکستان سے کوریا بھی جانے والے کم ہی لوگوں نے اپلائی کیا۔ اب کوریا کی شرط ہے دو لڑکیاں بھیجی جائیں۔ ایک لڑکی نے درخواست دی ہے بس اس اسکالر شپ کیلئے وہ بھی تمہاری سہیلی سنتھیا نے۔ اپنی امی کو بتائو سنتھیا بھئ جا رہی ہے مان جائیں گی۔
وہ انکی لمبی تقریر کے جواب میں بس سر ہلاتی رہ گئ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈورم کا دروازہ کھولتے ہی وہ بری طرح چونکی
کم چاگیا۔
جی ہائے سامنے بنکر بیڈ کے لوہے کے ریلنگ پر الٹی سی لٹکی تھی۔ جیسے آسمان کی طرف اکڑوں بیٹھی ہو۔
ڈرا دیا مجھے۔ گوارا دھڑ دھڑ کرتے دل کو سنبھالتی گھور رہی تھی۔
جی ہائے اطمینان سے لٹکی تھئ۔۔۔۔
ڈرا تو تم نےمجھے دیا ہے۔ جی ہائے اچھل کر قلابازی کھاتی سیدھئ زمین پر اتری۔۔
یہ۔۔ اس نے آگے بڑھ کر اسکے ڈورم کے ساتھ جڑی رائٹنگ ٹیبل سے ایک پلندہ اٹھاکر اسکی جانب بڑھایا۔
یہ کیا۔
اس نے نا سمجھتے ہوئے پلندہ کھولا اندر سے اسکی فل سائز پورٹریٹ نکلی۔
اسکے چہرے پر بے ساختہ جوش و خوشی پھیلی تھی۔ بیڈ پر آرام سے آلتی پالتی مار کر بیٹھ کر دیکھنے لگی۔ یہ اسکی تصویر تھی مکمل فوٹو شاپ مگر یہ گوارا ہے اس بات کا یقین کرنا مشکل تھا۔ اسکی چندی آنکھوں پر گرے پپوٹے اب نسبتا اٹھ چکے تھے اسکی پھینی ناک ستواں ہوچکی تھی۔ اسکے بھرے بھرے ہونٹ لبا لب بھر کر انجیلینا جولی سے مقابلے پر اترے تھے اسکا گول چہرہ لمبوترا ہو گیا تھا۔
یہ سب کرنے والے۔ اس نے تصویر ایک طرف رکھ کر پلندے کے اندر سے مزید کاغذات نکالے۔۔
کوریا کی بہترین پلاسٹک سرجری کرنے والی کلینک کی جانب سے اسے مکمل پرپوزل بنا کر دیا گیا تھا جس میں اسکی شکل میں مندرجہ بالا تبدیلیاں کرنے کی لاگت بتائی تھی۔
اور لاگت تھی۔
صرف فیس لفٹ کے 5,397,130.00 وون
اس نے آنکھیں پھاڑیں۔
4,795,800.00 وون آئی لڈ کے۔۔
اسکو پے درپے صدمے لگ رہے تھے۔
کین چھنا۔۔ گوارا۔۔ اتنے پیسے تو ہیں تمہارے پاس بس یہ بوٹوکس۔۔۔خود کلامی۔۔۔
صرف ہونٹوں پر وہ قربانی دے سکتی تھی۔ فی الحال اپنے چہرے پر یہ ہی مناسب لگتے تھے اسے بس۔
پورے پیکج کے تو وون مجھ سے گنے نہ جا سکے دوبارہ پیدا ہونا پڑے گا تمہیں اسکی فیس اور سیشن کے پیسے جمع کرنے کیلئے۔۔۔۔ جی ہائے تولیہ سے پسینہ پونچھتی اسکے برابر بیٹھتی طنز سے بولی۔
مگر یار پیسہ وصول کام ہوگا۔ دیکھو میں کتنی حسین لگنے لگوں گئ اس کے بعد۔
وہ بڑے شوق سے تصویر دکھانے لگی۔
حسین ؟ ۔جی ہائے نے پورٹریٹ ہاتھ میں لیکر دیکھا۔
بالکل نہیں۔ تم ابھی اس سب کچھ سے ذیادہ۔بہتر لگتی ہو۔اتنے پیسے لینے کے بعد انہوں نے تمہیں یہ کارٹون بنانا تو بہتر ہے تم یہ پیسے مجھے دے دو۔
وہ کہہ کر اپنے بیڈ کی۔جانب بڑھ گئ۔
تمہیں پیسے چاہیئیں۔ گوارا اسکے برعکس سنجیدہ سی ہو کر اٹھئ۔۔
دے۔ اس نے بیڈ پر گر کر ترنگ میں کہا تھا مگر گوارا کو۔متوحش سا ہوکر اپنے سر پر کھڑے دیکھا تو اٹھ بیٹھی
تمہیں تمہارے آہبوجی نے ٹیوشن فیس نہیں دی ؟
ہائش۔۔
اس نے سر پیٹ لیا جیسے۔
دے دی ہے۔ اپنے سو کالڈ فرایض نبھاتے ہیں وہ۔۔
اپنے ہر فرض سے منہ پھیر کر وہ یہ ڈرامے بازی جاری رکھے ہیں۔
اسکا لفظ لفظ ذہر میں بجھا تھا۔
ویسے آہجوشی پیار تو کرتے ہیں تم سے۔
گوارا نے ڈرتے ڈرتے کہا تھا۔ جی ہائے نے ترچھی نگاہ ڈالی
کیہہ سوری۔۔ ( بکواس)۔۔ تم ذیادہ اس شخص کی وکالت نہ کیا کرو۔ اسے میرا یا میری ماں کا ذرہ برابر بھی خیال ہوتا تو دوسری شادی رچا کے میری ماں کو طلاق دے کر عیش نہ کررہا ہوتا۔۔۔۔ آیا بڑا۔۔ ( گالی)
ہائش۔ گوارا نے سخت ناپسندیدگی سے دیکھا۔۔۔
کوئی کہہ سکتا ہے کہ اتنی نرم مزاج اونچی آواز میں بات نہ کرنے والی جی ہائے اپنے باپ کے بارے میں بات کرتے اتنا سخت لب و لہجہ لحظے بھر میں اپنا لیتی ہے۔
وہ سوچ کے رہ گئ۔ اس وقت اسے ٹوکنے کا مطلب مزید بھڑکانا ہی تھا۔
اچھا یہ دیکھو مجھے لگتا ہے انہوں نے گال تھوڑے ذیادہ دھنسا دیئے ہیں۔۔
گوارا اپنا پورٹریٹ اٹھالائی۔ جی ہائے نے افسوس بھرے انداز میں اسے دیکھا۔
دنیا کی تم پہلی لڑکی ہوگئ جو پیسے دے کر اپنی شکل بگڑوائے گئ۔
آئو باہر چلیں۔کافی پی کر آتے ہیں۔ گنگم تک۔
جی ہائے کو اپنا موڈ خود ہی ٹھیک کرنا آتا تھا۔
گنگم کیوں؟
گوارا حیران ہوئی
اسٹریٹ شو بھئ دیکھ لیں گے کوئی۔ جی ہائے سرسری سے انداز میں کہتی الماری کی جانب بڑھئ۔
چلو۔ گوارا نے کہا ضرور مگر مزید پھیل کر اسکے بیڈ پر بیٹھ گئ تھئ۔اپنا بیگ نکال کر پیسے دیکھنے کے بعد جب جی ہائے نے سر اٹھایا تو اسے ڈھیٹ بنے دیکھ کر آگے بڑھی اور غصے سے اسکے ہاتھ سے پورٹریٹ چھینا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہے۔
سخت بیزار ہوئی تھی اریزہ۔ کمبل میں منہ چھپائے وہ درحقیقت پوری دنیا سے منہ چھپائے تھئ۔ سنتھیا نے آکر اسکے منہ پر سے کمبل کھینچا تھا۔
اٹھو بہت سو لیں تم چلوباہر چلیں۔ سنتھیا نے کہا تو وہ گھور کر رہ گئ
کہاں باہر ؟
کوریا۔۔ سنتھیا کھلکھلائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گنگم کی سڑکوں پر شام کا لطف اٹھاتی زندگی۔ وہ دونوں ونڈو شاپنگ کر رہی تھیں۔ ہر اسٹال پر رک کر قیمتیں پوچھتے چیزیں اٹھاتے رکھتے کافی ختم کر رہی تھیں۔ سیول میں بہار کی آمد تھئ۔ خنکی کم ہو چکی تھی۔ قہوے ، تلے ہوئے پکوان کی خوشبو۔
تھوڑا سا آگے جا کے اسٹریٹ شو ہو رہا تھا۔ غیر معروف نئے اسٹریٹ سنگرز اپنے موسیقی کے آلات لگائے کھڑے تھے۔ایک نوجوان جیکٹ پہنے کان میں بالی ڈالے اپنے لمبے پف والے سر کو جھٹکتا ریپ سانگ گا رہا تھا۔ اسکا ساتھی ایک جانب گٹار بجاتا اسے محظوظ انداز میں بک اپ کر رہا تھا۔ ایک جملہ یہ لڑکا بولتا دوسرا لڑکا خود کو کسی اسٹیج پر ہی سمجھ رہا تھا۔ گنگناتے ہوئے بہت اچھے اسٹیپس بھی اٹھا رہا تھا مگر اس خیال کے ساتھ کہ سانس نہ پھول جائے۔
یا آئی ایم الائیو۔
وکس کا موریم اسکول کا نیا ٹائٹل سانگ تھا یہ۔ جو گانا اس بینڈ کے آدھے درجن گلوکاروں نے ٹکڑے ٹکڑے کرکے گایا تھا یہ اکیلا کھڑا سب کے انداز کی بھر پور نقل کر رہا تھا۔
اس نے بند مکمل کرکے جھک کر سلام کیا تو سب نے بھرپور تالیاں بجا کر داد دی۔
تھیبا۔ اعلی۔
جی ہائے نے بے حد خوش ہو کر داد دی تھی اسے۔
ایک جانب خوبصورت سا باکس نذرانے کیلیئے رکھا ہوا تھا جس میں تمام شائقین خوشی خوشی پیسے ڈال رہے تھے۔ ریز گاری یا بڑے نوٹ۔ اپنی خوشی یا مرضی سے۔ جتنا جو چاہے۔ کوئی قیمت نہیں۔نہ بھی دو تو بھی چلے گا۔ یہ بھیک نہیں مانگ رہے۔ اپنے ہنر اپنی صلاحیت کا خراج وصول کر رہے ہیں۔ وصولی انکا حق کتنا ملے گا دینے والے کا ظرف۔
ہائئ اسکولر لگ رہے۔۔
گوارا نے ان چار پانچ لڑکوں کو دیکھتے تبصرہ کیا جو اب اپنے ساز سمیٹ رہے تھے۔ سب کے چہروں پر نوعمری تھی۔
مجھے ہائی اسکولرز پر ضرورت سے ذیادہ ترس آتا ہے۔ اور یہ لڑکا باصلاحیت بھئ ہے۔ دینا بنتا ہے۔ گوارا نے فورا اپنا والٹ نکال کر نسبتا بڑا نوٹ نکال کر آگے بڑھ کر انکے شیشے کے باکس میں ڈالا۔ گوارا جیسے ہی ہٹی جی ہائے نے اپنے بیگ سے خاکی لفافہ نکالا اور اس ڈبے کی درز میں گھسیڑنے لگی۔ لفافہ بھاری تھا اس چھوٹی سے درز سے پار نہ ہوسکا۔ اس نے زور لگایا۔ وہ لڑکے انکی۔جانب متوجہ ہوئے
کیا کر رہی ہو ؟ گوارا نے آنکھیں پھاڑیں۔
جی ہائے نے باکس پر زور لگانا جاری رکھا۔
نونا کیا کر رہی ہیں یہ ٹوٹ جائے گا۔
باکس نازک سا تھا وہ لڑکے بھاگ کے انکے پاس آئے
اس میں صرف کیش یا کوائنز ڈالیں۔
ایک نے ٹوکا جوابا جی ہائے نے ترچھی سی نگاہ ڈالی۔ اور وہ لفافہ نکال کر انکی جانب بڑھا دیا۔
تھوڑے سے تو بچا لو۔
گوارا منمنائی۔۔
یہ کیا ہے۔ اس نوعمر لڑکے نے حیرت سے لفافہ تھاما۔ ذرا سا کھول کے دیکھا تو گنگ سا رہ گیا۔ بھاری موٹی بڑے نوٹوں کی گڈی۔
اسکے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ اتنی بڑی رقم تھما رہی ہے۔
نونا۔ وہ بے یقینی سے دیکھ رہے تھے
تم سب کی کارکردگی بہترین تھی مجھے بے حد پسند آئی۔ یہ چھوٹا سا تحفہ ہے۔ تم لوگ ہمت نہ ہارنا ایکدن ضرور کامیاب ہوگے فائٹنگ۔
جی ہائے نے پرخلوص سے انداز میں ان بچوں کو کہا۔ گوارا ہکا بکا سی کھڑی تھی البتہ وہ بچے بے حد خوش ہوئے
گھمسامنیدہ۔
تینوں چاروں نے آدھا جھک کر شکریہ ادا کیا تھا۔ انکے معصوم چہرے دمک اٹھے تھے۔جانے کتنے دن کی کمائی انکو یوں اچانک تحفتا مل گئ تھئ۔ نونا یقینا بڑے دل والی تھی۔
انکے خوشی سے دمکتے چہرے دیکھ کر جی ہائے کو دلی سکون ملا تھا۔
کھاجا۔ ( چلو) وہ جیسے ہلکی پھلکی سی ہو کر گوارا سے بولی
آہش۔ گوارا نے مڑ کر جشن مناتے ان لڑکوں کو دیکھا پھر سر پیٹنے والے انداز میں بولی
پچھلی بار وہ بے گھر آہجومہ اس سے پچھلی دفعہ یتیم خانہ اس سے پچھلی دفعہ۔۔
وہ جیسے ایک ایک بار گنوانے لگی تھی۔ جی ہائے نے گھورا
ہاں میں ہر دفعہ ہی یہ رقم ایسے ہی کسی کو دیتی ہوں۔پھر؟
تمہیں اگر یہ پیسے استعمال نہیں کرنے ہوتے تو آہجوشی کو منع کیوں نہیں کر دیتیں یہ پیسے بھیجنے سے ؟
گوارا کی بات میں وزن تھا۔جی ہائے نے گہری سانس لی۔
چہ۔ کیوں منع کروں۔؟ یہ میرا حق ہے جو وہ مجھے بھیجتے ہیں یہ پیسے میں استعمال نہیں کرنا چاہتی جبھی انکو آگے کسی اور کو دے دیتئ ہوں۔ کم ازکم یہ پیسے انکی دوسری بیوی بیٹییوں یا اس سوکالڈ انکے مقصد پر خرچ نہیں ہوتے۔ وہ پیسے کسی نئے آہجوشی کو اپنی طرح بنانے پر خرچ نہیں کر پاتے۔ کم از کم ان پیسوں سے کوئی نئی جی ہائے اپنے باپ کو کھونے نہیں والی۔ کم ازکم
وہ بولتے بولتے فرسٹریٹ سی ہو کر چلااٹھئ ۔۔
گنگم کی اس گنجان سڑک پر سینکڑوں لوگ آ جا رہے تھے۔
ترقی یافتہ مصروف زندگی گزارنے والے اس شہر کے باسیوں نے لحظہ بھر کوبھی رک کر اس چلا اٹھنے والی لڑکی کو دیکھنے کی زحمت نہیں کی۔ ہوگی کوئی وجہ جو چیخی ہمیں کیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دائیں بائیں سامنے سب گھروں کی چھتوں پر اندھیرا تھا
اسکے کمرے سے ملحقہ اس کھلے سے ٹیرس کی گیلری سے جھانکتے باتیں کرنا ان دونوں کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔
باہر سے مراد سنتھیا کا گھر سے باہر بھی مراد نہیں تھا۔ ٹیرس تو گھر کا ہی حصہ۔ہوتا ہے نا۔
ریلنگ پر بازو ٹکائے کھڑے وہ سامنے والے گھر کی چھت سے جھانکتئ اس سفید بلی کو گھورتی رہی۔ جو اندھیرے میں بھی خوب چمک رہی تھی۔
کاش میں بلی ہوتی۔
اس نے حسرت سے دیکھا جو ایک۔جست لگا کر اس گھر پھر دوسرے گھر اور دیکھتے ہی دیکھتے نظروں سے اوجھل۔
مجھے تمہارے گھر آکر کبھی یہ احساس نہیں ہو پاتا کہ میں مہمان کے طورپر کسی کے گھر آئی ہوں۔
سنتھیا بڑبڑاتے ہوئے ٹرے تھامے ٹیرس میں آئی تھئ۔
اریزہ نے مڑ کر دیکھا۔ اس نے ٹرے لا کر ٹیرس میں رکھی لوہے کی میز کرسی پر رکھی۔
کینڈی بسکٹس کا رول اور دو کپ کافی۔۔۔
کبھئ تو خاطر مدارت کر دیا کرو میری۔
سنتھیا مظلوم سی شکل بنا کر کرسی پر بیٹھی پھر فورا ہی کھڑی بھی ہوگئ۔ اریزہ نے کمرے سے آگے شیڈ میں لگی دیوار گیر الماری سے سیٹس اور کشن نکال کر لا کر رکھے۔
کین کا صوفہ رکھوانا چاہیئے تھا یہ لوہے کا پنجر کیوں بنوا لیا۔
سنتھیا نے اسکے ہاتھ سے سیٹ اور کشن چھینا
محترمہ ہم پنڈی میں رہتے ہیں بارشیں ہوتی ہیں یہاں۔کین کا صوفہ رکھواتی تو ہر دوسرے دن مجھے اندر کرنا پڑتا اسے۔
اریزہ اپنی نشست ٹھیک کرتے ہوئے جتا کر بولی۔۔
محترمہ مت کہا کرو مجھے۔ سنتھئا نے منہ بنایا۔ کپ اٹھا کر گھونٹ بھرا۔۔۔
اریزہ نے بھی اسی وقت گھونٹ بھرا تھا
سنتھیا کے چہرے پر لطف اٹھانے والے تاثرات آئے تھے اور اریزہ نے برا سا منہ بنایا
دودھ ہی گرم کرکے لے آتیں ۔کافی ڈالنے کی زحمت ہی کی۔
اس کو کڑک چائے کڑک ہی کافی پسند تھی۔ جبکہ سنتھیا الٹ تھی۔ کینڈی بسکٹ ڈبوتے چسکے لےرہی تھی۔ ذیادہ میٹھا اسکی کمزوری تھئ۔
مزا آگیا۔ آج تو غلطئ سے آدھا چمچ کافی۔ڈل۔گئ تھئ مجھے لگا تھا کڑوی ہوجائے گی۔مگر شکر ہے دودھ ذیادہ ڈالنے سے ذائقہ۔ٹھیک ہو گیا۔
سویٹ پینٹ شرٹ میں ملبوس سنتھیا آلتی پالتی مار کر صوفہ نما اس لوہے کے پنجر پر سکون سے بیٹھی بسکٹ ڈبو ڈبو کر اب اسے جان بوجھ کے چڑا رہی۔تھئ۔۔ اریزہ نے گرم شال اپنے گرد لپیٹئ۔سویٹ شرٹ پینٹ میں وہ بھی ملبوس تھی مگر اسے ٹھنڈ ذیادہ لگتی تھئ۔
تمہیں کچھ ذیادہ ہی سردی لگتی ہے۔ کینڈا میں کیا کرو گی وہاں تو سنا ہے برف پڑتی ہے ۔۔
سنتھیا نے یونہی کہا تھا اریزہ کا منہ سوکھتا گیا۔۔
ایک تو۔
وہ بسکٹ منہ میں ڈالتی ہاتھ جھاڑتی سیدھی ہوئی
مجھے یہ۔بتائو کہ جب سجاد اتنا برا لگتا ہے تو انکار کیوں نہیں کیا اس رشتے سے؟ کتنا کہا تھا انکل سے میں بات کرتی ہوں۔
یہ بات نہیں ہے۔ اس نے بےزاری سے ٹوکا۔
اور ویسے بابا اور اماں دونوں کو سجاد پسند آگئے تھے۔ بابا سے بات کرنے کا کیا فائدہ تھا۔میرا کونسا کوئی افئیر چل رہا تھا جس کے لیئے میں انکو مناتی ۔
پھر ؟ سنتھیا کا سوال وہیں تھا۔
پھر کیوں اتنا سا منہ نکلاہواہے تمہارا۔
وہ اسے جانچتی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔
آج کامران سر بھئ کہہ رہے تھے مجھے اسکالر شپ۔کیلئے اپلائئ کرنا چاہیئے۔یہ بھی کہ وہ باباسے خود بات کریں گے وغیرہ۔ تم تو جانتئ ہو مجھے نیوز اینکر بننا ہے مجھے خوب پڑھنا ہے قابل بننا ہے بلاگنگ کرنی ہے میں چاہتی ہوں اریزہ زہرا جب کچھے لکھے تو ایک دنیا پڑھے، کہنے لگے تو ایک دنیا اسکی سنے۔ مگر میری تو اس سب سے پہلے ہی شادی ہونے لگی ہے۔۔
وہ حقیقتا آنکھوں میں آنسو بھرے کہہ رہی تھی۔ سنتھیا کے دل پر بوجھ سا اگرا۔
جو اریزہ کو چاہیئے تھا اسے پلیٹ میں رکھ کر ملا تھا۔۔
اسے اسکالر شپ کا فارم بھرتے اپنی بے زاری یاد آئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
لائبریری میں میز پر درجنوں کاغذوں کے بیچ ایڈون اسکے کان کھا رہا تھا یہاں یہ لکھو وہاں وہ ۔ اس نے پین پٹخ دیا۔
کیا فائدہ ہے کوریا جانے کا۔ یہی ڈگری یہی سب ہم یہاں بھی پڑھ رہے ہیں ۔ اور تم تو چلو سمجھ آتا ہے صحافی بننا ہے تمہیں میں یہ ڈگری لے ہی بس تمہاری وجہ سے رہی ہوں نا مجھے کوئی کیریئر بنانا نہ مجھے آگے پڑھنا بس گریجوایشن ہوجائے کافی ہے میرے لیئے۔
میرے لیئے کافی نہیں۔ ایڈون خاطر میں نہ لایا۔
میں نے ہر قیمت پر جانا ہے اور میں تمہیں بھی ساتھ لیکر جائوں گا۔۔ کیاکروں گا یار میں وہاں اکیلے۔
اس نے معصوم سی شکل بنا کر اکسانا چاہا۔
مجھے تم پر پورا بھروسہ ہے۔ تم کوریا جائو ہم روز باتیں کیا کریں گے بلکہ اسکائپ پر وییڈیو چیٹ بھی کریں گے۔
اس پر اثرہوا تو تھا مگر بے نیازی سے بولی۔
تمہیں کیا پریشانی ہے میں ہوں نا۔ ہم دونوں اکٹھے وہاں پڑھائی کریں گے۔۔
ایڈون چڑا۔
یہی تو۔ وہاں صرف تم ہوگے یہاں میری فیملی بہن بھائی سہیلی۔ میں ان سب کے بغیر کیسے رہوں گی۔
اس نےمسمسی سی شکل بنائئ
سر کامران اریزہ کے پاپا کو منا لیں گے انہوں نے کہا تھا۔ تمہاری سہیلی جائے گئ ہمارے ساتھ۔۔۔ اور جو یہ بہانے کر رہی ہو۔؟ میں کچھ نہیں ؟ وہ۔خفا ہوا۔
بعد میں بھئ تو سب کچھ چھوڑ کر میرے پاس آنا ہوگا۔۔ شادی نہیں کروگی کیا مجھ سے۔
بولتے بولتے اسکا لہجہ گمبھیر ہوتا گیا۔ گہری سیاہ آنکھیں اس پر پرشوق سی نظریں جما کر گھورتا ایڈون۔ اسکی سانولی رنگت میں بلا کی ملاحت تھی ہمیشہ اسکا مددگار رہنے والا سادہ پرخلوص ساتھی۔ جس کے پیار پر اسکو کوئی شبہ نہ تھا جبھی اسکی پر حدت نگاہوں نے اسکا دل پگھلانا شروع کردیا تھا۔ اسکے سانولے گالوں پر سرخی سی لہرائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیلو؟ کہاں کھو گئیں میڈم؟
اسے سوچوں میں گم دیکھ کر اریزہ نے چٹکی۔بجائی۔
وہ گڑبڑا کر سیدھی ہوئی۔ پھر بولی
یار میں بھی تو جا رہی ہوں تم آنٹی کو بتائو نا۔ انکو یہی مسلئہ نا اتنی دور تمہیں اکیلے نہیں بھیجنا ؟
ہاں کینڈا تو جیسے اشفاق صاحب کے گھر کا نام ہے۔
اس نے پڑوسی انکل کا نام۔لیا۔۔
مسلئہ دور بھیجنے کا ہے ہی نہیں۔ میں ہوں امی کی واحد اکلوتی ذمہ داری جسے سر سے اتار دینا چاہتی ہیں وہ بس اور کچھ نہیں۔
اریزہ نے بدمزہ کافی کا بڑا سا گھونٹ بھر کر مزید کڑوا سا منہ۔بنایا۔
تم سجاد بھائئ سے بات کرو پڑھے لکھے ہیں انکو اپنے ایمز ایمبیشنز بتائو کینڈا میں رہتے ہیں اتنے دقیانوسی تو نہ ہوںگے۔ مجھے یقین ہے مان جائیں گے۔
سنتھیا کے انداز میں جوش در آیا۔ اریزہ نے منہ بنایا
ایک تو سب کو یقین ہے کہ سجاد مان جائیں گے۔۔۔۔
بات تو کرکے دیکھو۔
سنتھیا نے اکسایا۔
اس نے لمحہ بھر سوچا پھر سر ہلادیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آرام سے لیٹے ایل ای ڈی میں نیٹ فلیکس کی کوئی سیریز دیکھ رہے تھے۔ جب انکا فون بجا۔
نمبر انجان تھا۔
ہیلو۔ انہوں نے ریموٹ سے والیم کم کیا۔۔
ہیلو سجاد میں اریزہ بات کر رہی ہوں۔۔
وہ تھوڑا سا جھجک۔کر بولی۔۔
ہاں اریزہ کیسی ہو۔
وہ نو عمر لڑکے تو تھے نہیں۔ اگلے ہفتے نکاح تھا ان دونوں کا اگر وہ بات کرنا چاہ۔رہی تھی تو یقینا یہ۔کوئی اچنبھے کی۔بات نہیں تھی۔
میں ٹھیک ہوں آپ۔۔۔۔۔
اسکے الفاظ منہ میں اٹکنے لگے۔ دل زو رزور سے دھڑکنے لگا۔
میں بھئ ٹھیک ہوں۔ وہ نرم سے انداز میں بولے۔ اسے بولنے کا۔موقع دینا چاہتے تھے۔
دراصل۔۔ اس نے تھوک نگلا۔۔ سنتھیا جو اسے گھور کر دیکھ رہی تھی اشارے سے اسے بولنے کا کہنے لگی۔۔
وہ ایک بات پوچھنی تھئ آپ سے۔۔
اس نے کہہ دیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں بیڈ کرائون سے ٹیک لگایے منہ لٹکائے بیٹھی تھیں۔
اگلے ہفتے نکاح ہے کہہ تو صحیح رہے ہیں وہ۔
سنتھیا نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ اسکی۔جانب سے سخت ردعمل کا خطرہ تھا مگر بچت رہی ۔ وہ فون کے بعد سے یونہی چپ تھی۔ سنتھیا سے رہا نہ گیا۔
آگے ہو کر اسکے مقابل آن بیٹھی
دیکھو سجاد مجھے اچھے لگے۔ انہوں نے تم سے سبھائو سے بات کی ہے۔ پوری بات سنی ہے تمہاری۔ وہ صحیح کہہ رہے ہیں کہ تمہاری ڈگری بیچ میں رہ ہی جانی ہے چاہے تم یہاں پڑھو یا کوریا جائو۔ بہتر یہی ہوگا کہ تم اپنے پیپرز بنوانے تک انتظار کرو کینڈا جا کر ایک سے ایک بہترین یونیورسٹی میں داخلے کا موقع ہوگا تمہارے پاس۔ وہاں جا کر داخلہ لینا۔ کونسا کوریا کہاں کا۔کوریا۔ سب پانی بھرتے ہیں کینڈا کے آگے۔
سنتھیا اسے بہلا رہی تھئ۔ وہ مسکرادی۔
ایک بات کہوں۔۔
اس نے سنتھیا پر نظر جماتے ڈرامائی وقفہ لیا۔
سجاد مجھے بھی آج اچھے لگے۔
وہ ہنس دی۔
رئیلی۔ سنتھیا۔خوش ہو گئ۔
ہاں یار۔ مجھے تو ایروگنٹ سے لگتے تھے اوپرسے منگنی والے دن تو صحیح کھڑوس بنے ہوئے تھے مگر آج۔۔آج احساس ہوا کہ وہ ۔۔۔
وہ بولتے بولتے شائد شرما گئ تھئ۔
آہاں۔ ایسا کیا احساس ہوا میری بنو۔۔
سنتھیا شرارت سے کہتی اسے گدگدانے لگی۔
نہ کرو۔۔ سنتھیا کی بچی۔
وہ ہنستے ہنستے بے حال۔ہو رہی تھی۔
چپکے چپکے اور کیا باتیں کر ڈالیں ذرا ہمیں بھی بتائو۔۔۔۔
سنتھیا مائل بہ شرارت ہوئی۔۔
ارے خوامخواہ۔۔ اریزہ مصنوعی خفگئ سے کہہ رہی تھی
کچھ تو کہا ہے وہ جب آہستہ آہستہ بولنے لگی تھیں تم۔۔ سنتھیا کہہ رہی تھی۔۔
انکی ایک ایک۔بات کان لگا کر سننے والی سنتھیا کو رومانس تو نظر نہیں آیا تھا مگر انکا نرم لب و لہجہ اگر اسکی سہیلی کا دل موہ گیا تھا تو بس اتنا ہی کافی تھا۔۔ ہے نا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئو گنگشنا۔۔ بیٹھو۔
آہبوجی۔سگار منہ میں دبائے اپنی میز پر فائلوں میں الجھے بیٹھے تھے جب وہ ہلکی سی دستک دے کر اندرچلی آئیں۔
آہبوجی نے ذرا کی ذرا نگاہ اٹھا کر دیکھا تھا۔
ابھی بھئ فائل پر۔نگاہ گاڑے تھے۔ گنگشن جز بز سی ہونے لگیں۔
تم نے آگے کا کیا سوچا ہے؟
وہ فائل سے نگاہ اٹھا نہیں رہے تھے۔
وہ اس سوال کا مقصد سمجھ نہیں پائی تھیں۔۔ سو جواب دینا مناسب نہ لگا۔ آہبوجی نے نگاہ اٹھا کر دیکھا پھر فائل۔بند کرکے میز پر رکھے شراب کے چھوٹے سے گلاس کو اٹھا کر گھونٹ بھرتے انکو پرسوچ نظروں سے دیکھتے رہے۔
اپنی حماقت سے تم طلاق تو لے چکی ہو اب دوسری شادی کرنے کا کیا سوچا۔۔
انکے جملے تھے سفاک آری۔ انہوں نے شاکی نگاہ سے اپنے باپ کو دیکھا جس کی زبان کے زخم انکو اپنی روح میں محسوس ہوتے تھے۔
میں نے آپکو صاف بتایا ہے کہ وہ شخص۔۔۔
انہوں نے تڑپ کر ہزار بار کی اپنی دی گئ صفائی دوبارہ دینا چاہی۔
خیر۔۔
انہوں نے ہنکارہ۔ بھرا۔
اپنے لیئے کوئی فیصلہ کرلو۔ اور ہایون کو منائو کہ امریکہ جائے اس میڈیا ویڈیا میں کچھ نہیں رکھا۔مجھے اپنی اس بزنس ایمپائر کو چلانے کیلئے ایک ٹرینڈ ذہن درکار ہے۔
میں اسکو۔۔۔
ہایون ہی کیوں؟
۔ گنگشن تیز ہو کر بولیں۔
میں بھی آپکی اولاد ہوں۔ آپکے حسب خواہش بزنس ہی پڑھا ہے میں نے۔ مجھے آپ کیوں نہیں۔۔۔
کیا بکواس لے بیٹھی ہو۔ انہوں نے بےزاری سے بات کاٹی
تم جیسی جزباتی لڑکی بزنس کے معاملات بھی ذہن سے ذیادہ دل سے حل کرتی۔ ایک شادی تک کا معاملہ تم سے نبھایا نہ جا سکا۔پورا کاروبار۔ انہوں نے سر جھٹکا۔
گنگشن اٹھ کھڑی ہوئیں
آہبوجی میں ہزار دفعہ آپکو بتا چکی ہوں کہ مجھے شادی کا طعنہ مت دیا کریں۔ کیایہی سب کہنے کیلئے بلایا تھا آپ نے مجھے؟
ظاہر ہے نہیں۔ اسکے تنتنے کو وہ کبھی خاطر میں نہیں لائے تھے۔
ہایون تمہاری بات مانتا ہےاسے منائو۔ مجھے اگلے چھے مہینے میں وہ ہر قیمت پر امریکہ میں تعلیم حاصل کرتا چاہیئے۔
ہایون بزنس نہیں پڑھنا چاہتا۔
وہ کبھی اپنے لیئے باپ کے آگے نہیں کھڑی ہوئی تھیں مگر ہایون کیلئے وہ دنیا سے لڑ سکتی تھیں
آپکے کہنے پر اسے انٹرنیشنل اسکول میں داخلہ لینے پر مجبور کیا میں نے انگریزئ بھئ سیکھتا ہے وہ مگر میں اسے اسکے ناپسندیدہ مضامین پڑھنے پر مجبور نہیں کرسکتی۔
وہ اٹل انداز میں بولیں۔
جب ان مضامین کی فیس دینے کے قابل نہیں رہے گا تو وہ وہی۔پڑھے گا جس کی فیس دی جا چکی ہوگی۔
آہبوجی نے بوتل سے مزید ایک جام بنایا تھا۔
گنگشن مٹھیاں بھینچ کر رہ گئئیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے ہر کوشش کر لی تھی۔ اب سب معاملہ۔خدا پر چھوڑنے لگی تھی۔ خوب دل سے نماز پڑھ کر خدا کی۔بارگاہ میں ہاتھ اٹھا لیئے۔
یا اللہ میرے دل کے نہاں خانوں میں چھپے رازوں سے بھی واقف ہے تو۔ مجھے پر رحم کر ۔ جو تو بہتر سمجھ میرے لیئے وہ کردے۔ مجھے سجاد اچھے نہیں لگتے تو برے بھی نہیں لگتے ۔ یہ فیصلہ میرے والدین میرے لیئے کر رہے ہیں تو مجھے اس پر راضی برضا کر دے۔ میرے نصیب میں اگر اینکر بننا نہیں لکھا تو ٹھیک ہے جیسے تیری مرضی۔ بس تو مجھ پر رحم کردے۔۔۔۔یا مجھے اینکر بنا دے۔ تو تو سب کر سکتا ہے۔
وہ۔یونہی ہمیشہ دعا مانگا کرتی تھئ دل سے باتیں کرتی تھی
اکیلےکمرے میں نماز پڑھتے تو بڑبڑا کر دعا مانگتی تھی۔ بس دل۔کو جیسے تسلی ملتی۔تھی کہ جیسے خدا سن رہا ہے۔ ابھی بھئ خوب جزب سے دعا مانگ کر اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔ خوب لمبا سجدہ کیا اٹھئ نماز تہہ کی مڑ کر دیکھا تو صارم اسکی اسٹڈی ٹیبل پر بیٹھا غور سے اسے دیکھ رہا تھا
تم۔کب آئے۔
وہ دہل گئ تھئ
ابھئ۔۔۔۔ ۔ تمہارے روم کا دروازہ کھلا تھا ۔۔ اس نے جیسے وضاحت کی۔
تم اینکر بننا چاہتئ ہو؟۔ وہ پرسوچ اندازسے دیکھ رہا تھا۔
۔ سب سن لیا کمینے نے۔ دل میں اسے کوس کر رہ۔گئ۔
ہاں تو۔ اسےخفت محسوس ہو رہی تھی
یوں دعائیں مانگنے کی بجائے اپنے ابا کو کہنا تھایہ۔
صارم چڑا۔
کیا ؟ وہ حیران ہو کر پوچھنے لگی۔
یہی کہ تم نے اینکر بننا ہے۔ سجاد سے شادی کرکےکونسا اینکر بننا ہے تم نے؟ نوکرانی لیکر جا رہی ہیں نعمانہ خالہ۔
کینڈا لیجا کر جھاڑو پوچھا کروائیں گی بن گئیں تم اینکر دعائیں مانگ مانگ کے۔
وہ سخت چڑا ہوا تھا جیسے اسکے انداز پر ہنسی آگئ اسے۔
دعائیں عرش ہلا دیتی ہیں۔ انکو کم مت سمجھو۔
اس نے یونہی کہا تھا۔
مگر تقدیر بدلنے کیلئے محنت اور کوشش کی بھی تاکید ہے۔
صارم کے پاس بھی مضبوط دلیل تھئ۔
وہ چپ سی ہوکر بیڈ پر بیٹھ گئ۔
میں بابا اماں کو معمولی سا بھی پریشان نہیں کرسکتی۔ انکا اب میرے سوا ہے ہی کون۔ حماد بھائی ہوتے تو اور بات تھئ۔۔ اسکی بات پر صارم نے تاسف سے اسے دیکھا۔
میرے پاس بس ایک راستہ تھا لڑنے ہٹ دھرمی دکھانے کا اسکی بجائے مجھے یہی بہتر لگا کہ سمجھوتہ کرلوں۔
اسکی آنکھوں بھر آئی۔تھیں۔ سمجھوتہ اتنا آسان بھی نہیں ہوتا۔۔
صارم اٹھ کر اسکے برابر آن بیٹھا
ویسے سجاد بھائئ ہیں اچھے۔ بس تھوڑا سا غصہ ور ہیں۔
ہوں۔۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
تھوڑے سے عمر میں بڑے ذیادہ ہیں۔ باقی شکل ٹھیک ہے۔
ہوں۔ وہ پھر سر ہلا رہی تھی۔
تھوڑے سے کالے ذیادہ ہیں کینڈا میں رہ کر بھی اتنے کالے یہاں ہوتے تواندھیرے میں نظر نہ آتے۔
ہوں۔ اریزہ نے ترچھی نگاہ ڈالی۔
قد اچھا ہے مگر تمہیں پتہ ہے توند نکل رہی ہے انکی۔
وہ بھولپن سے بول رہا تھا۔ اریزہ نے رخ پھیر کر اپنا تکیہ قبضے میں کیا۔
انگریزی اچھی ہے انکی مگر اردو بولتے بالکل گرائیں لگتے ہیں ۔۔ عجیب لہجہ۔
اسکے منہ پر تکیہ لگا وہ اچھل کر کھڑا ہوا۔۔
اور۔ اتنے کنجوس ہیں کہ آئی فون کا لیٹسٹ ماڈل آئے مہینہ ہوگیا ابھی تک خریدا۔۔اور
پے در پے اریزہ کے بیڈ پر رکھے سب کشن تکیئے اسکی جانب اڑتے ہوئے آتے گئے چہرے پر شرارت لیئے۔ وہ بمشکل ان سے بچ رہا تھا مگر بولنے سے باز نہیں آرہا تھا۔
اریزہ سائیڈ ٹیبل کے گلدان کی جانب بڑھی تب بھاگا تھا وہ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈارک میرون میکسی شرارے میں نک سک سے تیار وہ کیا مکمل دلہن لگ رہی تھی گوری رنگت دمک رہی تھی روشن پیشانی پر نازک سا ٹیکا سرخ لب دلہناپے کا روپ یہ تو کوئی اور ہی اریزہ تھی ۔۔ سنتھیا اپنا ہیئر اسٹائل بنوانا بھول کر اسکے پاس اٹھ آئی۔
نازک سی ستواں ناک میں چپکانے والی نتھ لگانے کی کوشش میں بیوٹیشن اسکی ناک سوجا چکی تھی۔۔
رہنے دیں نتھ۔ ناک سوج گئ ہے اسکی۔ سنتھیا نے اسکی جان چھڑائئ۔پھر اس سے لپٹ کر جھولا دے ڈالا
ماشااللہ اتنی پیاری لگ رہی ہو ایکدم حسینہ۔۔۔
بےساختہ اس نے گال چومنا چاہا پھر خیال آیا۔ ۔میک اپ بیس پر لپ اسٹک کا نشان لگتا تو بیوٹیشن نے اسکی شکل بگآڑ دینی تھی ابھی تو اسکا اپنا دل اچھل۔کر حلق میں آیا۔لگتا تھا۔اسے بری طرح گھور رہی۔تھی۔ اس نے بے نیازی سے رخ پھیرا فورا موبائل سے ایک تصویر بھی کھینچ ڈالی
دلہن بنی ہوئی منہ پھلائے اریزہ اور پائوٹ بنائے سنتھیا۔۔۔
میک اپ خراب ہو جائے گا۔۔۔
بیوٹیشن منمنائی
میری ناک چینئ ناک بن گئ ہے چپٹی نہیں لگ رہی سوج کے۔
اس نے کراہتے ہوئے ناک دبائی
کنٹورنگ کا بیڑا غرق۔ بیوٹیشن کندھے اچکا کر رہ گئی۔۔۔
سنتھیا نے موبائل سنگھار میز پر رکھا پھر ناقدانہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی
یہاں سے کنٹورنگ ٹھیک نہیں۔۔
ظاہر ہے۔ بیوٹیشن بڑبڑا کر رہ۔گئ۔
آپ اپنا میک اپ۔تو کروالیں۔
اسکی ساتھی بیوٹیشن نے یاد دہانی کروائی مگر سنتھیا ناقدانہ نظروں سے اریزہ کو دیکھ رہی تھی۔
یہ یہاں سے ڈارک لگ رہا ہے۔
۔اس نے ہدایات دینی شروع کی پھر بیوٹیشن کے ہاتھ سے برش لے کر خود شروع ہوگئی
ٹچ اپ کے بعد اسکا روپ دو آتشہ ہو چکا تھا۔
وہ اب ماہر کیمرہ مین بنی اسکی ہر ذاویئے سے تصویر لے رہی تھئ۔
بس کرو۔ اریزہ کو۔ہنسی آگئ۔
اسکے ہنسنے پر سنتھیا کا ڈی ایس ایل آر حرکت میں آیا اور یہ منظر بھئ قید ہوا۔
یارکپل فوٹو شوٹ تو کروانا تھا۔ ایڈون کا فرینڈ اتنا اچھا پیکج دے رہا تھا۔
سنتھیا کو افسوس ہورہا تھا
گھر میں بیوٹیشن کی ٹیم تو انہوں نے اچھی منگوائی تھی
مگر فوٹو شوٹ وہ خود تو پروفیشنل نہیں کرسکتی تھی۔
سجاد کئ امی کو نہیں پسند۔نکاح سے قبل کوئی شوٹ نہیں ہوگی ۔۔
اریزہ کو خود بھی اعتراض نہ ہواتھا۔ اسے جانے کیوں ابھی بھی سجاد کی شکل۔دیکھ کر ہاتھ پیر ٹھنڈے ہوتے محسوس ہوتے تھے۔۔
تیار ہوئی نہیں تم لوگ۔۔
امی بھی چلی آئیں بیٹی پر نظر پڑی تو دیکھتی رہ گیئں مگر منہ سے تعریف نہ نکلی الٹا ٹوک دیا
لپ اسٹک تو ہلکی کرو۔ اتنی تیز لگا دی ہے دلہن۔۔۔
وہ روانی میں بولتے ٹھٹکیں۔۔
دلہن ہی تو ہے۔۔۔
انکی آنکھیں جھلملا گئیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاتھوں میں ان ہاتھوں میں لکھ کے مہندی سے سجنا کا نام۔۔۔
فل آواز میں چلتا ڈیک۔۔۔ سہج سہج کر چلتی دلہن اسپاٹ لائٹ کے فوکس میں مومی گڑیا سی اریزہ ایک لمحے کو سجاد کی نظر پلٹنا بھول گئی۔۔۔ نکاح ہو چکا تھا اب اسے اسٹیج پر لایا جارہا تھا دو کزن سب سے آگے بکے تھامے چل رہے تھے تو بہنوں اور سہیلیوں نے اسے تھام رکھا تھا دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی لہنگے کو تھام کر اسٹیج پر چھڑھتے وہ پہلی سیڑھی پرچڑھی ۔۔۔ سجاد جو اسکو آتے دیکھ کر کھڑا ہو گیا تھا آگے بڑھ کر اسے سہارا دینے لگا ۔۔۔ اسے نہیں معلوم تھا ذرا سا ہاتھ وہ بھی اپنی بیوی کا تھام لینا اتنی بڑی بات بن جائے گی اسکی سہیلیوں اور کزنوں نے زوردار اوووہ کی تھی پھر ہوٹنگ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا۔۔۔ گھونگھٹ کی اوٹ سے اریزہ کے چہرے پردمکتی مسکراہٹ بھی اسے نظر آگئ تھی
اس طرح موضوع بننا اسے پسند نہیں آیا نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی پیشانی پر ایک نا گواری کی شکن آہی گئی تھی۔۔۔
اسٹیج پر بیٹھتے ہی رسموں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا تھا دودھ پلائی کیلئیے سنتھیا اور اسکی ایک اور کزن آئی تھیں
ڈیڑھ لاکھ مانگے تھے
اس نے سنجیدگی سے پوچھا تھا
کس طرح پیمنٹ چاہیے ؟ کریڈٹ کارڈ کیش یا چیک۔۔۔ سنتھیا تو ایک لمحہ چپ ہی رہ گئ
پھر مسکرا کر بولی
ابھی جتنا بھی کیش دے سکیں چلے گا
۔۔۔ اس نے والٹ کھولا جتنے بھی نوٹ تھے تھما دیے اور پیچھے مڑ کر اپنی ماں سے بولا
چلیں۔۔۔
سنتھیا ہکا بکا نوٹ سارے ڈالرز تھے
وہ تو کچھ نہ بولی مگر اریزہ کی کزن بھنا کر کچھ بولنے کو تھی سنتھیا نے اسکا ہاتھ تھام کر روک دیا پھر شکریہ کہہ کر اسٹیج سے اتر آئی۔۔۔
بیٹا آرسی مصحف تو ہو جائے دلہن تو دیکھ لو۔۔ آئنہ لائو
نعمانہ خالہ کے ہاتھ پائوں پھول گئے
دیکھ تو لیا ہے ۔۔۔ وہ ہلکے سے بڑ بڑایا مگر سب الرٹ ہو چکے تھے دلہا کا موڈبگڑنے کو تھا سو جھٹ پٹ سب انتظام کرلیا گیا بڑے سے آئنے کو گود میں رکھ کر جب دلہن پر نظر پڑی تو پلکیں جھکائے وہ چھوٹی سی لڑکی حقیقتا کانپ رہی تھی۔ انہوں نے گہری سانس لی۔۔بلا تمہید انہوں نے کہا تھا۔
تم کوریا چلی جانا۔ ۔
اریزہ پوری آنکھیں کھول کر آئنے سے جھانکتے اسکے عکس پر نظر جما کر رہ گئ
جی؟
اسے کچھ سمجھ نہ آیا تھا
اپنی تعلیم مکمل لو وقت ضائع کرنے کی۔ضرورت نہیں۔۔ دو ایک سال تو مجھے لگیں گے۔
رواں شستہ انگریزئ دھیمی سی آواز۔
اریزہ دم بخود رہ گئی سر اٹھا کر پہلو میں بیٹھے شوہر کو دیکھا جو بات مکمل کر کے سر سیدھا کر چکا تھا دوپٹہ اسکے سر اونچا کرنے سے گر گیا۔۔ دھیمے دھیمے سرگوشیاں کرتا دلہا حیران پریشان سر اٹھا کر اسے دیکھتی دلہن اور سر پر سوار سب رشتے دار۔۔۔ کیا کہہ رہے ہیں ہمیں بھی بتائیں۔۔۔ دلہن شرما لو تھوڑا ساری عمر انکو ہی دیکھنا۔۔۔ سجاد بھائی ادھر دیکھیں کوئی تصویر کھینچ رہا تھا کوئی مزاق اڑا رہا تھا
سب کورس میں بول رہے تھے۔۔۔۔
اسٹیج پر ایک ہنگامہ مچا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اتنے دنوں کی کلفت بے چینی رخصت ہوئی تھی۔۔ کمرے میں آکر کتنی ہی دیر وہ آئنے میں خود کو دیکھتی رہی۔۔۔ تبھی دروازے پر دستک ہوئی۔۔۔
وہ سٹپٹا کر دھپ سے اسٹول پر بیٹھ گئی
کون ہے آجائو۔۔۔
دھیرے سے دروازہ کھول کر صارم اندر آیا۔۔۔
چھوڑ آیا تمہاری سہیلی کو بحفاظت اسکے گھر۔۔۔
کیا نام ہے اسکا ویسے سانولی ہے مگر ہے کشش والی۔۔۔ وہ مزے سے بولتا ہوا اسکے سامنے ہی سنگھار میز ہر جگہ بنا کر ٹک گیا۔۔۔
سنتھیا کرسچن ہے کسی کام کی نہیں تمہارے منگنی ہو چکی اسکی۔۔۔
وہ بھی جتاتے ہوئے بولی۔۔۔
تمہارے جملے میں شکریہ سنائی نہیں دیا۔۔۔ اس نے منہ بنایا
کیونکہ میں نے کہا ہی نہیں۔۔۔ اس کی بھی بے نیازی دیکھنے لائق تھی۔۔ وہ اسکے انداز پر ہنسا۔۔۔
سیلفیاں لی ہیں کوئی نہیں؟ وہ پوچھ رہا تھا اسکی سیلفیاں لینے کی عادت تو مشہور تھی
وہ بازو اونچا کر کے دوپٹے سے پن نکال رہی تھی ۔۔۔
نہیں یار پتہ نہیں سیل فون کہاں رکھ کر بھول گئی صبح سے گم ہے۔۔۔
لائو میں لے دیتا ہوں تصویر اس نے فورا اپنا موبائل نکال لیا ۔۔۔ ایک دو تصویر کھنچوا کر وہ جھینپ گئ بس کرو اتنی تو ہو گئی ہیں تصویریں۔۔۔
ایک میرے ساتھ بھی لے لو بعد میں یہی یاد آئیں گی تصویریں ۔۔۔ اس نے یاسیت سے کہا تھا۔۔۔ اریزہ نے پیار سے اسے دیکھا بظاہر ہر وقت چڑانا اسکا شغل تھا مگر یہ بھی تھا اسکو اریزہ سے لگائو بھی بہت تھا۔۔۔
ابھی بہت وقت ہے۔۔۔ اس نے اسکے ہاتھ سے موبائل لے کر خود اسکے ساتھ پوز بنا کر تصویر لی۔۔۔
صارم کے کندھے سے لگ کر بہت پیار بھرے حق سے اس نے تصویر کھینچی تھی۔۔۔
دکھائو ۔۔۔ تصویر دیکھ کر دونوں ہی اداس سے ہوگئے۔۔۔
ویسے تم موٹی دلہن ہی بنیں نا کیا تھا تھوڑا وزن ہی کر لیتیں ڈولی والا ارینج کرلیتے جبران کہہ تو رہا تھا میں نے بتایا
سکسٹی کے جی اٹھانا پڑے گا تو کینسل کردیا پروگرام۔۔۔ اسکے آدھے جملے میں ہی اریزہ نے اسکی پٹائی شروع کر دی تھی مگر وہ ڈھیٹ ہنستے ہنستے مار کھاتے جملہ مکمل کر کے ہی چپ ہوا۔۔۔
خدا کرے تمہاری بیوی خوب موٹی بھینس ہو ۔۔۔ میری بد دعا ہے ۔۔ کلس کر کوسا تھا اس نے۔۔۔
میں کروں گا ہی اسمارٹ سی لڑکی سے شادی۔۔۔ وہ بھی ایک کائیاں تھا
پھر وہ شادی کے بعد بھینس بن جائے گی دیکھنا۔۔۔
وہ دوبارہ دوپٹے کی پنوں میں الجھی تو دلاور اٹھ کر پنیں نکالنے میں اسکی مدد کرنے لگا
اس نے میک اپ اتارنا شروع کیا۔۔۔
ویسے موبائل جھونکا کہاں ہے ۔۔۔ اتنے تو مہمان تھے ملازم بھی پھر رہے تھے چوری ہی نہ ہو گیا ہو۔۔۔
پنیں نکال کر وہ بیڈ پر بیٹھ گیا۔۔۔
یار وہ صبح عاصمہ آنٹی کالیں کر رہی تھیں امی سے بات کروائی بعد میں وہ آکر یہیں کہیں رکھ گئیں میں مصروف اتنی تھی موبائل کا خیال ہی نہیں آیا۔۔۔
بیل دو یہاں سائڈ ٹیبل پر ہوگا یا نیچے گرا ہوگا قالین پر۔۔۔ اسے بھی فکر ہوئی۔۔۔
دلاور نے سر جھٹکا اور اسے کال ملا لی۔۔۔
سائلنٹ نہ ہو۔۔۔ اریزہ نے بے چاری شکل بنا لی۔۔۔
دلاور نے گھور کر دیکھا
بس اسکی کسر تھی۔۔۔
میں ڈھونڈتی ہوں۔۔۔ وہ جزباتی ہوکر اٹھی
دلاور نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر خاموش رہنے کا اشارہ کیا شسس۔۔۔
اریزہ دم سادھ کر رہ گئی۔۔
ہلکی ہلکی جھرجھری سی جیسی آواز ۔۔۔
دلاور نے آواز کے تعقب میں بستر جھاڑا تکیہ اٹھایا بیڈ کے نیچے جھانکا سایڈ ٹیبل۔۔۔ ہاں اسی کے نیچے موبائل کی بتی جل بجھ کر رہی تھی۔۔۔
اس نے بڑھ کر اٹھا لیا۔۔۔
شکر۔۔۔ اریزہ مطمئن ہو گئ۔۔۔
پندرہ مسڈ کالز اور۔۔۔ دیکھتے دیکھتے فون بند۔۔۔ بیٹری تمام ہو چکی تھی
سایڈ ٹیبل کی ایکسٹینشن میں ہی چارجر لگا تھا اس نے اسکا موبائل چارجنگ پر لگا دیا۔۔
اچھا میں چلتا ہوں بہت تھک گیا ۔اس نے زوردار انگڑائی لی۔۔۔
تم بھی سو جائو۔۔۔ اب ۔۔۔ وہ جمائی لے کر بولا تھا
ہاں مگر نماز پڑھ کر سوئوں گی آج تو سارے دن کی رہ گئ۔۔۔ وہ مصروف انداز میں میک اپ اتارتے ہوئے بتا رہی تھی
اوکے ڈئیر گڈ نائٹ۔۔۔ وہ شب بخیر کہتا نکل گیا۔۔۔ اس نے شاور لیا جاء نماز بچھا کر نماز پڑھی حسب عادت خدا سے دعا میں باتیں کرنے لگی
بہت شکریہ اللہ میاں میں اب کافی مطمئن ہوں مجھ پر رحم کرنے اور صبر دینے کا شکریہ۔۔۔ میں نے بہت شکوے کیئے آپ سے اپنے والدین کی شکایت بھی کر ڈالی مگر آپ انہیں کسی آزمائش میں مت ڈالیئے گا انکا سایہ ہمیشہ میرے سر پر قائم رکھیے گا انہیں صحت دیں اور میری سب شکایتوں کو ان سنی کر دیجیئے گا۔۔۔۔
۔۔ دعا مانگ کر مطمئں سی وہ نماز مکمل کرنے لگی یہ سوچے بغیر کہ خدا کچھ بھی ان سنا نہیں کرتا وہ بھی سننے والا جو کبھی کہا بھی نہ جائے وہ کیسے ان سنا کر سکتا جو کہا بھی گیا ہو اس سے۔۔۔
جاء نماز سمیٹ کر اس نے دوپٹہ اتار کر رکھا بال جھٹکتی بیڈ پر دھم گری موبائل چارج ہو چکا تھا۔۔۔۔ صارم کی مسڈ کال تھی۔
اس نے موبائل اٹھایا۔ اور میسج ٹائپ کرنے لگی۔
آپ کیا کہہ رہے تھے کوریا کے بارے میں وہ شور میں سن نہیں پائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ یونہی ونڈو شاپنگ کر رہا تھا مال میں جیولری کلچز ٹاپس یون بن نے آدھی دکان الٹوا لی لی تھی مگر مطمئن نہیں ہو رہا تھا ہیون کو کوئی تجربہ نہیں تھا لڑکیوں کی شاپنگ کا سو بس ادھر ادھر تانک جھانک کر وقت گزار رہا تھا اسے ایک کلچ پسند آیا تھا گلابی سا اس نے یون بن کو دکھایا مگر وہ کچھ الگ دینا چاہتا تھا گوارا کو سو صاف انکار کردیا
پتہ نہیں کیا انوکھا دینا چاہ رہا ہے۔۔۔ اس نے بےزاری سے واپس رکھ دیا۔۔۔
سر آپ کو پسند آرہا تو آپ تو لے لیجئے خاص ڈیزائنر کولیکشن ہے شاز چیز ہے آپ اسے کھوئے مت۔۔
سیلز گرل نے پکی سیل مار دی تھی۔۔۔
وہ۔ہنسا
نہیں شکریہ۔۔۔ وہ لے بھی تو دے گا کسے یہی سوچ کر واپس رکھ دیا۔۔
سر اسپیشل ڈسکاوئنٹ ہے اس پر۔۔۔اور نیا ترین فیشن کے مطابق آپ اپنی گرل فرینڈ کو دیں گے تو وہ کافی امپریس ہوگی آپکی پسند سے۔۔۔
تھا تو واقعی بہت خوبصورت
لے لے۔۔ شگون کر لے کیا پتہ آج تحفہ لو کل کو گرل فرینڈ بھی مل جائے۔۔۔
یون بن نے شرارت سے کہا۔۔۔ اسے ایک نیوی بلیو ٹاپ پسند آگیا تھا۔۔۔
ہیون نے کچھ سوچا پھر خرید ہی لیا۔۔۔ نونا کو پسند آئے گا یہ سوچا اس نے یہی تھا
یون بن اب کائنٹر پر کھڑا بحث میں الجھا تھا اس نے پرس سامنے رکھا سیلز گرل نے جان چھٹی لاکھوں پائے کی طرح جھپٹا اور بل بنانے لگی۔۔
میں ہر دفعہ یہاں سے اپنی گرل فرینڈ کو تحفہ لے کر دیتا ہوں آدھی دکان خرید چکا آپ مجھے تین سو یو آن جیسی قلیل رقم رعائیت نہیں کر سکتیں۔۔۔ وہ سراسر جھوٹ بول رہا تھا مگر اعتماد دیدنی تھا۔۔۔ ہیون جونگاسکے انداز پر بمشکل ہنسی روک پایا۔۔۔سر معزرت فکسڈ پرائس ہے۔۔۔ لڑکی نے اخلاق کا دامن نہیں چھوڑا مگر اسکی برداشت کا مادہ ختم ہو چکا تھا۔۔۔
سر آپ پیمنٹ کیش کریں گے یا کریڈٹ کارڈ ۔۔۔ وہ اب اس سے مخاطب تھی اس نے خاموشی سے کارڈ آگے کیا۔۔۔
دیکھیئے اس طرح تو آپ اپنے وفادار کسٹمر کھوتے جائیں گے۔۔۔ اور فکسڈ پرائس کی خوب کہی ابھی مہینے بھر میں موسم بدل جائے گا کوڑیوں کے بھائو بکے گا یہ۔۔۔
دیکھیں اگر آپکو ایسا لگتا تو آپ پھر دو مہینے بعد لی لیجئے گا۔۔۔ وہ عاجز ہی آگئ۔۔۔
کریڈٹ کارڈ مشین سے گزار کر اسے واپس دیا
یہی کرتا مگر میری گرلفرینڈ کی سالگرہ کل ہے اب یہ تو نہیں کر سکتا اسے کہوں دو مہینے بعد سالگرہ منانا
۔۔۔
دیکھئے۔۔۔ دونوں نہ ختم ہونے والی بحث میں الجھے تھے
اس نے دوسری سیلز گرل کو اشارے سے بلا کر کہا اس نے سر ہلا کر کارڈ لے لیا۔۔۔
سنیے آپ آپ اسکی پیمنٹ بھی اسی سے ادا کیجئے
اس نے کریڈٹ کارڈ لہرایا۔۔۔
اس نے اپنا بیگ اٹھایا اور بحث میں الجھے یون بن کو کندھے پر ہاتھ مار کر بیگ اٹھا کر باہر آنے کو کہا
اس نے ہڑ بڑا کر جیب سے والٹ نکالا تو سیلز گرل نے بتایا کہ پیمنٹ ہو چکی ہے۔۔۔ وہ شاپر اٹھاتا ہیون کے پیچھے بھاگا۔۔۔
دکان سے باہر نکل کر دائیں بائیں دیکھا تو وہ برقی سیڑھیوں سے اوپر جاتا دکھائی دیا۔۔۔ اس نے سر جھٹک کر تقلید کی۔۔۔ ہایون کا رخ اپنی پسندیدہ کافی شاپ کی طرف تھا۔۔۔ آرڈر دےکر جب مڑا تو یون بن ایک کونے میں منہ پھلائے گھور رہا تھا
میری گرل فرینڈ ہے مجھے ہی تحفہ خریدنا تھا۔۔
تمہاری گرل فرینڈ ہے مگر ہمیشہ میں ہی اسکے لیے تحفہ خریدتا ہوں ۔۔۔
اس نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔۔
یون۔بن نے کھسیا کر سر کھجایا
ہاں تب میں بے روزگار تھا اب تو نہیں ۔۔۔
بس تین سو یو آن کم تھے میرے پاس ۔۔ اس نے جیب سے پیسے نکال کر رکھے میز پر
باقی ایک دو دن میں دے دوں گا۔۔۔
رہنے دو مجھے نہیں چاہیئے۔۔۔ ہیون نے سہولت سے انکار کیا۔۔۔
نہیں لینے پڑیں گے ۔۔۔ پہلے کا حساب تو بےباق نہیں کر سکتا مگر اب سے قرض فورا اتارا کروں گا۔۔۔
ہیون نے غور سے دیکھا۔۔۔
اگر ایسی بات تو پھر پورا قرض اتارنا ۔۔۔ تم میری گرل فرینڈ کو گفٹ لے دے نا ٹھیک۔۔۔
اس نے تجویز دی۔۔۔
یی بھی ٹھیک۔۔۔ جون تائی فورا مان گیا اور پیسے واپس بٹوے میں رکھنے لگا۔۔۔ بہر حال یہی اسکا کل اثاثہ تھا اور ہیون جونگکی گرل فرینڈ دور دور تک تو وجود رکھتی نہیں تھی جب تک ملتی کیا خبر وہ تب تک کروڑ پتی بن چکا ہو۔۔۔ یہ ہرگز مہنگا سودا نہیں تھا۔۔۔
ویسے ہایون تمہیں آج تک کسی لڑکی نے بھی منہ نہ لگایا ایسا کیوں۔۔۔
ہایون نے گھور کر دیکھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسا اس لیے ہے کہ میں سو کالڈ شریف لڑکی ہوں۔۔۔
وہ او۔لیول میں جو معاز ہوا کرتا تھا یاد ہے۔۔۔۔
اریزہ کے کہنے پر
سنتھیا نے یاد داشت کے گھوڑے دوڑائے ۔۔
ہاں۔۔۔۔۔ وہ دونوں ٹیرس میں سردی کی پروا نہ کرتے کھڑی تھیں۔۔ آج تو اریزہ نے بھی شال نہ اوڑھی تھی شائد موسم بدل رہا تھا اسلییے۔۔
کتنا مرتا تھا مجھ پر۔۔۔ اس نے کرکرے منہ میں ڈال کر آنکھ ماری۔۔۔ اسکے چہرے پر محسوس کی جا سکنے والی یاسیت تھئ۔۔۔ سامنے والے گھر کی چھت پر بیٹھی اسی سفید بلی کو دیکھتے وہ کہہ رہی تھی۔
جب ایک بار ٹیسٹ کرتے ہوئے میرے پین میں انک ختم ہو گئ تھی تو اس نے اپنا پین دےدیا تھا جب میں نے کہا وہ۔خود کیا کرے گا تو جھوٹ بولا میں نے ٹیسٹ کر لیا۔۔ اور پھر فیل ہو گیا تھا میرے پیچھے۔۔۔
ہاں ہاں۔۔۔ سنتھیا نے اثبات میں سر ہلایا۔۔
بے چارہ۔۔۔۔ تاسف۔۔
اور وہ اکیڈمی والے سر رضا۔۔۔
جب ہم اے لیول میں میتھ کی ٹیوشن کینے جاتے تھے۔۔۔
یاد آیا۔۔۔
سنتھیا نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔
وہ تب ایم بی اے کر رہے تھے۔۔۔ وہ تو اتنا سیریس ہو گئے تھے حالانکہ میں بات بھی نہیں کرتی تھی۔۔۔ نہیں کرتی تھی نا ۔۔۔ اس نے گواہی چاہی
سنتھیا نے سر ہلادیا۔۔۔
ہاں وہ مجھے ایک بار بلا کر بولے میں اپنے والدین کو آپکے گھر بھیجنا چاہتا ہوں ۔۔۔ میں نے صاف انکار کر دیا تھا۔۔۔
اور وہ جو تمہارا پڑوسی تھا کتنا گھورتا تھا جب میں اور تم چھت پر واک کرنے جاتے تھے۔۔۔ اور وہ میری جو دور کی چچی کا لڑکا صارم کی بہن کی منگنی پر مجھ پر لٹو ہو گیا تھا۔۔۔ تین بار اسکی امی رشتہ مانگنے آئیں وہ تو امی کی ان سے بنی نہیں تھی کبھی ورنہ وہ ۔پائلٹ ہے اب۔۔۔۔۔
وہ بڑا بھی تو بہت تھا نا تم سے تم تب سترہ سال کی تھیں تمہاری امی نے ٹھیک کیا تھا۔۔۔ سنتھیا کو وہ بھی یاد تھا۔۔۔
ہان تو سجاد کونسا ننھا کاکا ہے۔۔۔ خیر اسے بھی چھوڑو۔۔۔ یہاں یونیورسٹی میں دیکھ لو کتنے لڑکے مجھ سے دوستی کے خواہشمند ہے میں نے آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا کسی کی طرف حالانکہ فیضان کتنا ہینڈسم ہے بہانے بہانے سے بات کرنے کی کوشش کرتا۔۔۔
اس سب کا کیا فائدہ ۔کیوں سوچ رہی ہو ان سب کے بارے میں ۔۔۔ سجاد ان سب سے زیادہ سیٹل پڑھا لکھا اور ہینڈسم ہے۔۔۔ سب سے بڑھ کر اب شوہر ہے تمہارا ۔۔مجھے تو لگا تھا تم ۔۔۔ سنتھیا نے بات ادھوری چھوڑ دی
اریزہ اسکی ادھوری بات بھی سمجھ گئی۔۔۔
ہاں میں مان گئی تھی بلکہ یوں کہو ماننا پڑا۔۔۔ مگر کل سے میں رہ رہ کر پچھتا رہی ہوں کوئی افئر چلا لیا ہوتا کسی کو اس نظر سے بھی دیکھا ہوتا جب امی میرے صاف انکار پر مشکوک ہو کر پوچھ رہی تھیں کہ کوئی اور پسند تو بتا دوتو چپ نہ رہ جاتی کوئی بھی نام لینے والی ہوتی تو کم ازکم آج مجھ پر سو احسان دھر کے موٹی کم شکل یا بے ڈھنگی سمجھ کر شادی کے احسان کا ٹوکرا میرے سر پر نہ دھرا جاتا۔۔۔ یہ سب جیسے بھی سہی مگر کم ازکم انکو میں پسند تھی مجھے خود اپنا آپ پسند تھا پر اب تو لگتا میں دنیا کی بے کار ترین لڑکی ہوں ایک شادی تک کے قابل نہیں کہاں میں دنیا فتح کرنے کے خواب دیکھتی تھی۔۔۔ بولتے بولتے روہانسی ہو گئ۔۔۔
کیا ہوا ہے ۔۔۔سنتھیانے گھبرا کر اس کو لپٹا لیا۔۔۔
کچھ کہا ہے سجاد نے اسکی امی نے۔۔
بتائو۔۔۔
کیا کہنا ۔۔۔ وہ بے چارگی سے ہنسی۔۔۔
میں اپنی قسمت پر حیران ہوں ۔۔ اتنی بے وقعت ہوں میں۔۔۔ اتنی بد نصیب ۔۔۔ میں نے ایسا آج تک زندگی میں کیا برا کیا ہے جسکی مجھے سزا ملے۔۔۔ بتائو سنتھیا۔۔۔ وہ اسکا بازو دبوچ کر پوچھ رہی تھی
پہیلیاں نہ بجھوائو صاف صاف بتائو۔۔۔
میرا دل گھبرا رہا۔۔ سنتھیا بری طرح پریشان ہوئی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب میں اسے کال ہی آگئ تھئ۔۔ وہ الرٹ سی ہو کر اٹھ بیٹھی۔
ہیلو۔
ہیلو۔۔۔ ہاں یہی بتانے کیلئے تمہیں فون کرتا رہا تھا میں مگر تم نے اٹھایا نہیں۔۔
جی وہ۔بس۔۔
وہ۔اتنا ہی کہہ سکی۔
مجھے کل ہی پتہ لگا تھا میرے وکیل نے مجھے ای۔میل کیا تھا مگر یہ پاکستان عجیب ملک ہے اتنا فالتو خرچہ ایک نکاح کیلیے بھی اتنے فنکشن مہندی وغیرہ رکھ دییئے۔مصروف اتنا رہا کہ ۔۔۔۔خیر ۔ وقت ضائع۔۔
وہ ابھی بھی انگریزی میں شروع تھا۔
خیر سینڈی پریگننٹ ہے۔ اور وہ شائد کوئی مصالحت بھی چاہتی ہے۔ میرا ارادہ تو نہیں مصالحت کا مگر بہر حال۔باپ ہوں ذمہ داری سے جان نہیں چھڑا سکتا۔ مجھے کچھ قانونی معاملات دیکھنے ہوں گے۔
وہ اپنے مخصوص سنجیدہ دوٹوک انداز میں بات کر رہے تھے۔
کون سینڈی۔۔۔۔
وہ بمشکل بول۔پائی۔ ۔ باپ ہوں اسکی سماعتوں پر۔ہتھوڑے کی۔طرح برسا تھا
میری بیوی۔ اسکا نام سینڈی ہے نا۔
انہوں نے وضاحت کی۔
اریزہ ساکت سی بیٹھی رہ۔گئ۔
خیر تمہیں پڑھنے کا شوق ہے اسکالر شپ بھی مل۔رہی ہے مجھے بھی فوری طور پر تمہیں کینڈا بلوانا مشکل ہے تم چلی جائو کوریا تعلیم مکمل۔کرو تب تک میں یہاں کے۔۔۔
وہ مزید بھی کچھ کہہ رہا تھا اس نے چیخ کربات کاٹ دی
آپکی ہمت کیسے ہوئئ اتنا بڑا جھوٹ بولنے کی؟ آپ شادی شدہ ہیں اور یہاں مجھ سے نکاح کر لیا۔۔۔
میں نے کوئی جھوٹ نہیں بولا۔
اسکے چیخنے پر انکی تیوری پر۔بل پڑے۔
میں شادی شدہ ہوں یہ بات خالہ جانتی ہیں اور یقینا تمہارے والد بھئ۔ میں نے کوئی حقیقت نہیں چھپائی کسی سے۔
اسکے دعوے پر۔وہ گنگ سی ہوگئ۔
میں سیدھی صاف بات کرنا پسند کرتا ہوں جھوٹ بے ایمانی دھوکا اس سے مجھے نفرت نہ سہی کبھی نہ کبھی میں نے بھی کیا ہی ہوگا مگر بے وجہ کسی کو اپنی وجہ سے مشکل میں ڈالنا مجھے پسند نہیں ۔۔۔شائد تمہارئ والدین نے تمہیں اعتماد میں نہیں لیا۔ وہ ذرا سا تھمے۔ اریزہ کو اپنی دھڑکنیں کانوں میں سنائی دے رہی تھیں۔ اسکے اپنے والدین اسکے ساتھ اتنا بڑا دھوکا کیسے کر گئے؟
سو جو کہہ رہا اسے غور سے سنو۔۔
میں نے آج سے چھے سال پہلے ایک لڑکی سے شادی کی تھی ہم دونوں مطمئن تھے خوش تھے مگر کچھ عرصے قبل ہم اختلافات کا شکار ہوئے اور سینڈی نے مجھ سے طلاق مانگ لی۔۔۔ ہم علیحدہ رہ رہے تھے ابھی کائونسلنگ جاری تھی کہ امی نے تم سے میرا رشتہ طے کر دیا۔۔۔ مجھے تم سے کوئی مسلئہ نہیں تھا میں نے ان سے کہا تم لوگوں سے یہ شادی والی بات نہ چھپائیں۔۔۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ تم لوگوں سے زکر کر چکی ہیں۔۔۔ انہوں نے مجھے شارٹ نوٹس پر بلوا کر منگنی کر دی۔۔اور اب یہ نکاح۔۔
خیر سنڈی نے وکیل کو بتایا ہے کہ وہ ماں بننے والی ہے اور دوبارہ اس شادی کو ایک موقع دینا چاہتی ہے۔۔۔ میں جانتا ہوں یہ بچہ میرا ہے میری زمہ داری ہے میں فوری طورپر ابھی اسے طلاق نہیں دے سکتا ہوں ہمارا کیس چل رہا ہے۔ مجھے کافی بھاری جرمانہ ہوگا ابھی بچے کے پیدا ہونے تک کے اخراجات اور دیگر معاملات طے ہونے تک نہ صرف بہت پیسہ درکار بلکہ سال ایک کا وقت بھی درکار ہے اس عرصے میں اپنی بیوی کی حیثیت سے نہ میں تمہیں بلا سکوں گا نہ ہی مالی طور پر مدد کر سکوں گا۔۔۔
اسی لیئے میں نے تمہیں اجازت دی تھی کہ تم اپنی تعلیم مکمل کرنے اگر کوریا جانا چاہو تو چلی جائو۔ مگر تم تو اس سب معاملے سے انجان ہو۔۔۔
اریزہ کی۔خاموشی پر وہ کچھ پگھلے۔۔
اگر کسی نے تمہیں دھوکا دیا ہے تم سے یہ سب چھپایا ہےتو وہ تمہارے اپنے والدین ہیں میں نہیں۔۔
یہ تمہاری زندگی تم بنا کسی دبائو اور ہچکچاہٹ کے خود فیصلہ کرو بہرحال تم ایک پڑھی لکھی باشعور جوان لڑکی ہو اپنا اچھا برا سمجھ سکتی ہو۔۔۔
میں جواب کا انتظار کروں گا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ یہ کیا کہہ رہی ہو اریزہ۔۔۔۔۔
سنتھیا کا بس نہیں تھا کیا کر ڈالے
اس کی جرات کسے ہوئی تمہاری زندگی کیساتھ اتنا گھنائونا مزاق کرنے کی۔۔۔ تم نے سب جان کر اس سے نکاح کیسے کر لیا مجھے یہ بتائو۔۔۔ بتایا نہیں انکل آنٹی کو۔۔۔
سنتھیا کا غصے سے برا حال تھا
۔۔۔ اس نے تھکے تھکے انداز میں کہا۔
رات کو کال بند کرنے کے بعد مجھے تو کچھ سمجھ نہ آیا فورا باہر امی کے پاس بھاگی ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کچن میں کھڑی پانی پی رہی تھیں۔۔۔
اسے حواس باختہ کمرے سے نکلتے دیکھا تو گھبرا کر پکارا۔۔۔
کیا ہوا اریزہ؟
اریزہ جو بھاگ کر انکے ہی کمرے میں جا رہی تھی پلٹ کر ان سے آکر لپٹ کر رو دی
کیا ہوا بیٹا کچھ بتائو تو سہی۔۔۔
وہ گھبرا گئیں۔۔۔
امی سجاد پہلے سے شادی شدہ ہے امی۔۔۔ اس نے مجھے خود بتایا اور اسکا بچہ بھی ہے امی ان لوگوں نے ہمیں دھوکا دیا۔۔۔
آہستہ بولو۔۔ امی نے گھرکا
وہ بے یقینی سے ان سے الگ ہو کر انکی شکل دیکھنے لگی۔۔۔
ادھر آئو۔۔۔
وہ اسے لے کر اسی کے کمرے میں آگئیں پہلے دروازہ بند کرتے ہوئے ادھر ادھر دیکھ کر تسلی کی پھر اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے دھیرج سے بیڈ پر بٹھایا۔۔
انہوں نے دھوکا نہیں دیا بیٹا۔۔۔ بتا دیا تھا ہمیں۔۔۔
ارے عیسائنی گوری کہاں گھر بساتی ہیں پھنس گیا تھا سجاد اسکے چکر میں ۔۔۔ طلاق دے دی ہے بس ارے لڑکے تو وہاں بنا شادی۔۔۔ سجاد نے تو پھر نکاح کیا ہے۔۔۔ بچہ وچہ کوئی نہیں اسکا تم دل میلا نہ کرو۔۔۔
آپ جانتی تھیں یہ سب پھر بھی۔۔۔ وہ چیخ اٹھی۔۔۔ اتنی بھاری تھی میں آپ پر مجھے ایک بڑی عمر کے شادی شدہ بیوی بچوں والے شخص کے منڈھ دیا۔۔۔
بچہ نہیں ہے۔۔۔ وہ زچ ہوئیں
ہاں ابھی نہیں ہے مگر ہونے والا ہے خود بتایا ہے ۔۔۔ وہ ہچکیاں لے لے کر رو پڑی
۔۔۔ مجھے سجاد نے مگر امی کیوں آخر کیوں کیا آپ نے میرے ساتھ ایسا کیا بگاڑا تھا میں نے۔۔۔کیا کمی تھی مجھ میں جو۔۔۔
تم میں کوئی کمی نہیں بیٹا سجاد بھی لاکھوں میں ایک ہے اپنی ماں پر بھروسہ کرو۔۔
کبھی کبھی نہیں کرونگی آئندہ آپ پر بابا پر بھروسہ توڑ دیا ہے آپ نے میرا بھروسہ افسوس ہو رہا مجھے اپنے آپ پر کیوں اندھا یقیں رکھا اپنے ماں باپ پر۔۔۔
شسس آہستہ بولو۔۔ ابھی تم غصے میں ہو صبح بات کروں گی میں تم سے ابھی سو جائو۔۔۔
مجھے اب آپ سے کوئی بات نہیں کرنی نہ آپ سے نہ بابا سے مرگئ سمجھیں آپکی بیٹی۔۔۔
وہ ہزیانی انداز مین چلائی۔۔۔
آہستہ بولو بیٹا تمھارے بابا اٹھ جائیں گے۔۔۔ ان سے اس بارے میں بات بھی مت کرنا وہ بہت جزباتی ہیں صورت حال کو نہیں سمجھیں گے
بیٹا تم بھی سمجھو بات کو تمہارا نکاح ہو چکا ہے شوہر ہے اب سجاد تمہارا۔۔
آپ اب بھی مجھے دبا رہی ہیں۔۔۔ میں ابھی بابا سے بات کرتی ہوں کیوں کیا ہے انہوں نے میرے ساتھ ایسا ۔۔ میری زندگی برباد کر کے آپ لوگ سونا چاہتے۔۔۔ کم از کم آج میں ایک نہیں سنوں گی ۔۔وہ آنسو پونچھتی دروازے کی طرف بڑھی۔۔ امی نے گھبرا کر کہا۔۔۔
انہیں خود اس بارے میں نہیں پتہ۔۔۔
اریزہ کا ہینڈل گھماتا ہاتھ رک گیا۔۔۔
پلٹ کر بے یقینی سے دیکھنے لگی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ۔۔۔ سنتھیا ہکا بکا رہ گئی
آنٹی ایسا کیسے کر سکتی ہیں۔۔۔اتنی بڑی بات انکل سے بھی چھپا لی۔۔۔
اریزہ کے چہرے پر پھیکی سی مسکراہٹ آئی
کہتی ہیں ۔۔ وہ مجھے مطمئن خوش اور محفوظ دیکھنا چاہتی ہیں ۔۔۔۔وہ ہنسی۔۔۔ کہتی ہیں حماد کی جوان لاش دفناتے ہوئے وہ اندر سے ٹوٹ گئی تھیں تب انہوں نے فیصلہ کیا تھا وہ اب مجھے نہیں کھو سکتی ہیں۔۔ میں کینڈا جیسے محفوظ ملک میں رہوں جہاں میں ان سے دور سہی مگر محفوظ اور زندہ تو رہوں گی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیٹا تم ماں کی حالت نہیں سمجھ سکتیں مگر میں تمہاری دشمن نہیں ہوں ۔۔۔ تم جتنی دیر گھر سے باہر رہتی ہو جلے پیر کی بلی کی طرح تمہاری ماں چکراتی پھرتی ہر وقت دعائوں کا حصار باندھتی رہتی ہوں ۔۔ میرے پاس تمہارے سوا اب کچھ نہیں ہےاس ملک میں ہے کیا کبھئ بم دھماکے کبھی ٹرگٹ کلنگ۔ ۔۔۔ میں تمہیں کھو نہیں سکتی بیٹا۔۔۔ میں نے کتنی کوشش کی کہیں کسی دوسرے ملک کا رشتہ ڈھونڈنے کی مگر بالکل انجان لوگوں کو بھی تو نہیں سونپ سکتی تھی بیٹا۔پھر یہاں بھی خاندان میں تمہارے جوڑ کا کوئی ہے بھلا؟ میں بس سجاد یا صارم ہی ہےصارم بھی تمہارا دودھ شریک بھائی نہ ہوتا تو سوچ لیتے اسکے بارے میں
۔ بہرحال۔۔۔ سجاد بہت اچھا لڑکا ہے صاف دل اس نے ماں سے وعدہ لیا تھا سب بتا کر رشتہ طے کریں مجھے آپا نے سب بتا دیا تھا۔۔۔
اسے پھر بھی تسلی نہ ہوئی خود تمہیں سب بتا دیا۔۔اتنا کھرا لڑکا ہے ۔۔۔ مجھ سے غلطی ہوئی تم سے یہ سب چھپایا۔۔۔مجھے معاف کردو بیٹا۔۔۔ انہوں نے روتے ہوئے ہاتھ جوڑ دیے۔۔۔
وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے ماں کو تکے گئ
مگر یقین کرو میں سب تمہیں نکاح کے بعد بتانے والی تھی۔۔۔ تم پہلے اگر جان لیتیں تو منع کر دیتیں بس اس خوف نے تمہاری ماں سے یہ غلطی کروا دی ہے۔۔۔
اسکی ماں ہاتھ جوڑے بیٹھی تھی اسکی آنکھوں کے سامنے۔۔۔ رو رہی تھی مگر اسکا دل نہ پگھلا
آپ چلی جائیں یہاں سے مجھے اکیلا چھوڑ دیں۔۔۔
اس نے سختی سے کہا۔۔ وہ لجاجت سے اسکا گال چھو کر بولیں
میری بات
چلی جائیں آپ یہاں سے مجھے کچھ نہیں سننا۔۔۔ وہ بلا لحاظ ہاتھ جھٹک کر چلائی۔۔۔
امی مایوس سی ہو کر اٹھ گئیں۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اف میرے اللہ۔۔۔ اسکو گلے لگا کر رو ہی دی۔۔۔
یہ کیا ہو گیا ہے اریزہ۔۔۔
مجھے خود سمجھ نہیں آرہا۔۔۔ کل میں بہت روئی ہوں ساری رات روتی رہی ۔۔۔ اریزہ کی آنکھیں ضبط سے سرخ ہو رہی تھیں۔۔۔
تم طلاق لے لو۔ سنتھیا جزباتی انداز میں بولی۔
اریزہ اسے دیکھ کر رہ گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اریزہ ۔۔۔ امی اسے گھر میں داخل ہوتے دیکھ کر کچن سے نکل کر پکارتی آئیں اس نے صاف نظر انداز کیا اور دھپ دھپ کرتی سیڑھیاں چڑھ گئ۔۔۔
مرتضی کی صبح سے طبیعت تھوڑی بوجھل تھی سو جلدی گھر آگئے تھے سوچا تھا اریزہ کے آنے کا وقت ہے سو اکٹھے کھانا کھا لیں گے ۔۔۔ صفیہ کے پکارنے کی آواز سن کر وہ بھی باہر بکل آئے صفیہ روٹیاں ڈال رہی تھیں شائد اسے کھانے پر ہی روکنا مقصد تھا مگر اریزہ کو ماں کو صاف نظرانداز کرکے اوپر جاتے دیکھ کر وہ حیران رہ گئے تھے۔۔۔
کھا کے آئی ہوگی ۔۔ انہیں سیڑھیوں کو تکتا دیکھ کر وہ کھسیا کر بولیں۔۔۔
آپ۔ہاتھ دھو لیں میں بس کھانا لگا رہی ہوں۔۔۔
وہ سر ہلا کر باتھ روم کی طرف بڑھ گئے۔۔۔
ہاتھ دھو کر آئے تو صفیہ کھانا چن چکی تھیں میز پر اب بیٹھی انکے آنے کا انتظار کر رہی تھیں
تم شروع کر لیتیں میں بس آہی رہا تھا۔۔
انہیں ہمیشہ یہی جملہ کہنے کی عادت تھی صفیہ نے مصنوعی ناراضگی سے دیکھا
کبھی کھایا ہے آپ سے پہلے ۔۔۔
وہ ہنکارہ بھر کر خاموش ہو رہے۔۔۔ مٹر قیمہ بنا تھا انکا پسندیدہ۔۔۔ مگر اریزہ قیمہ شوق سے نہیں کھاتی ۔۔۔
اریزہ مٹر قیمہ نہیں کھاتی تم اسکی پسند کا بنایا کرو کھانا۔۔۔انہوں نے ٹوک دیا۔۔ جبھی کھانے نہیں رکی۔۔۔ وہ یہی سوچ سکے۔۔
الگ کر دیا ہے سادہ قیمہ بھی بھوک لگے گی تو کھا لے گی۔۔ صفیہ نے لاپرواہ انداز اپنایا۔۔۔
بہت خاموش نہیں ہے کچھ دن سے دیکھ رہا جلدی سو بھی جاتی ہے صبح بھی جلدی چلی جاتی ہے۔۔۔
کوئی بات ہوئی ہے کیا۔۔۔
کیا ہونا۔۔ صفیہ گھبرا گیئیں
بچی ہے نکاح ہو گیا ہے تھوڑا گھبرا گئی ہے بس ٹھیک ہو جائے گی پھر پڑھائی میں مصروف ہے امتحان ہونے والے ہیں۔۔۔ آپ ناحق فکرمند ہوتے ہیں۔۔۔
اور لیں نا۔۔۔
وہ بیوی کی رگ رگ سے واقف تھے اس وقت بھی ٹٹولتی نظروں سے دیکھ رہے تھے وہ گڑبڑا کر پانی کا گلاس منہ سے لگا گئیں اچھو سا ہوا ۔۔۔
کامران ملا تھا مجھے آج بہت معزرت کر رہا تھا کہ نکاح میں شریک نہ ہو سکا۔۔۔ انہوں نے بات بدل دی
ہاں بس بیوی آئی تھی یہ وہی کامران نا جو اریزہ کی یونیورسٹی میں پروفیسر ہے۔۔۔ انہوں نے بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا کے مصدق سکون کا سانس لیا تھا۔۔۔
ہمم ۔۔۔ انہوں نے ہنکارہ بھرا
۔۔۔بتا رہا تھا ایک بین القوامی تعلیمی ادارے نے پینتیس ممالک کے بچوں کے درمیان تحقیقی مقالا لکھنے کا مقابلہ کروایا تھا اور اس میں پاکستان سے دو بچے ٹپ ٹین میں شامل ہوئے ان میں سے ایک اریزہ بھی ہے۔۔۔
ہاں ہاں دو مہینے پہلے کی بات ہے بتا تو رہی تھی سرٹیفیکیٹ بھی ملا تھا ڈرائنگ روم میں سجا ہے۔۔۔
انہیں یاد آیا
مجھے کیوں نہیں بتایا تھا؟ وہ تو ہر بار کوئی بھی انعام ملنے پر میرے پاس آتی ہے دکھانے۔۔۔
وہ حیران تھے نوالہ پلیٹ میں ہی چھوڑ دیا۔۔۔ آج ریحان سے ملاقات نہ ہوتی تو مجھے پتہ بھی نہ چلتا۔۔۔
وہ فورا اٹھ کر ڈرائنگ روم کی طرف بڑھے
کھانا تو کھا لیں۔۔۔ صفیہ انکے اتائولے پن سے چڑیں پھر خود بھی انکے پیچھے چل پڑیں وہ بہت شوق سے سرٹیفیکیٹ پڑھ رہے تھے اولاد بھی کیا شے ہوتی لگ رہا تھا یہ انکی اپنی کامیابی ہے وہ بہت خوش ہو رہے تھے۔۔۔ صفیہ ٹوکتے ٹوکتے رہ گئیں
جس دن آپا رشتہ لے کر آئیں تھیں اس دن خوش خوش آئی تھی پھر منگنی نکاح ان چکروں میں پھنس کر بھول بھال گئی ہوگی۔۔۔ انہوں نے بتایا تو وہ سر ہلا کر کسی گہری سوچ میں گم ہو گئے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اریزہ ۔۔ وہ بستر پر اوندھی لیٹی اپنے موبائل میں پرانی تصویریں دیکھ رہی تھی جب نیم وا دروازے سے ہلکی سی دستک کے ساتھ پاپا پکارتے ہوئے داخل ہوئے
بابا آیئے۔۔۔ وہ فورا سیدھی ہو کر اٹھ بیٹھی
کیسی طبیعت ہے بیٹا ۔۔۔
وہ اسکے قریب ہی بستر پر آکر بیٹھ کر فکر مندی سے پوچھ رہے تھے
ٹھیک ہوں پاپا مجھے تو کچھ نہیں ہوا۔۔۔ وہ حیران ہوئی
میری بیٹی کئی دن سے چپ چپ ہے کوئی بات ہے تو بتائو مجھے۔۔۔ انہوں نے اسکی آنکھوں میں جھانکا
کچھ نہیں پاپا ہٹی کٹی تگڑی ہے آپ کی بیٹی۔۔۔ اس نے پینترا بدل لیا خوب شرارت سے ڈولے بناتی ہنس دی
ماشاللہ سے ۔۔۔ انہوں نے بے ساختہ کہا تھا وہ مسکرا دی
اچھا میں مبارکباد دینے آیا تھا میری بیٹی نے زندگی میں پہلی بار ایسا کیا کہ کوئی مقابلہ جیت کر آئی اور باپ کو نہیں بتایا۔۔۔
اب انعام دینے کا تو دل کر نہیں رہا میرا ۔۔۔وہ منہ پھیر کر بیٹھ گئے
بابا ۔۔ سوری۔۔ وہ انکے کندھے پر جھول گئی
کان پکڑ کے والا پکا والا سوری۔۔۔ بس وہ اس سب ہنگامے میں ۔۔۔ وہ بولتے بولتے چپ ہوگئ
انہوں نے اپنی مصنوعی ناراضگی ختم کی اور مڑ کر اسکی پیشانی چوم لی
مجھے تم پر بہت فخر ہے بیٹا ہمیشہ کامیاب رہو اور بلند مقام پائو۔۔۔
انکی دعا پر قسمت اور اریزہ دونوں استہزائیہ ہنس دیئے
یہ میں تمہارے لیے لایا ہوں ۔۔ انہوں جیب سے ایک پیارا سا بریسلٹ نکال کر دیا
واہ یہ تو بہت پیارا ہے۔۔۔ وہ بچوں کی طرح خوش ہوئی تھی۔۔۔ وہ پیار سے اسے تکتے رہے اس نے فورا کلائی میں پہن بھی لیا اور گھما گھما کر دیکھنے لگی
اسے دیکھتے دیکھتے انہیں خیال آیا
بیٹا تمہاری اسکالر شپ کا کیا بنا پوچھا تھا تم نے سجاد سے؟
اسکے بریسلٹ گھماتے ہاتھ لمحہ بھر رکے پھر خود کو لاپروا ظاہر کرتی بولی
نہیں اور اب ضرورت بھی نہیں ہے میں یہاں پڑھ تو رہی ہوں کیا فائدہ دوسرے ملک جانے کا کھڑاگ پالنے کا۔۔۔
منع کر دیا ہے سجاد نے۔۔۔ وہ پرسوچ انداز سے دیکھ رہے تھے
نہیں بابا ان کو اعتراض نہیں بس میں کونسا اکیلی اتنی دور آپ سب کے بغیر رہ سکتی۔۔۔ اور ملک بھی کونسا بڑا مشہور ہے۔۔۔ چھوڑیں۔۔ اس نے اپنی طرف سے بات ختم کر دی تھی
مگر میرا بیٹا اس وقت تو بہت پر جوش تھا جانے کیلیئے تمہاری امی نے روکا ہوگا ہےنا
۔۔۔ وہ ٹٹول رہے تھے۔
نہیں پاپا بس ہونہی اب موڈ بدل گیا۔۔۔
میں خود بات کروں گا تمہاری امی سے۔۔ سجاد ابھی تو یہیں ہے اگلے ہفتے جا رہا ہے انکی دعوت کیلئے بلاوے کا فون کروں گا تو اس سے لگے ہاتھ پوچھ لوں گا تم فکر مت کرو وکیل ہوں منوا لوں گا اس سے بس تم جانے کی تیاری کرو ۔۔۔
رہنے دیں پاپا۔۔ کوئی فائدہ نہیں چھوڑیں
اس کی بے دلی ان سے چھپی نہ رہ سکی۔۔۔
مجھے کل کامران ملا تھا دفتر آیا تھا کسی کام سے بتا رہا تھا اسکالر شپ پر تمہارے شعبے کی کوئی لڑکی جانے کو تیار نہیں جبکہ تمہارا نام آرام سے اسکالر شپ میں آجانا ہے وہ بتا رہا تھا کہ ایچ او ڈی خود دلچسپی لے رہے تھے کہ اگر تمہارے والدین کو وہ خود بات کرکے راضی کر سکیں مگر تم نے صاف انکار کر دیا کیون بیٹا۔۔۔ میں کیا اتنا تنگ ذہن باپ ہوں؟ مین نے کبھی تم میں اور حماد میں فرق نہیں کیا بیٹا۔۔۔
مین جانتی ہوں پاپا۔۔۔ اس نے سر جھکا لیا
بس آپ لوگ اکیلے ہو جائیں گے میں بھی چلی گئی تو ۔۔۔
یہی سوچ کر۔۔۔
اور کیا سوچیں گے کوریا والے ہم اپنی بیٹیوں کو اعلی تعلیم نہیں دلاتے یا ہماری بیٹییان نالائق ہیں ۔۔۔ وہ ہلکے پھلکے انداز میں منہ پھلا کر دیکھ رہے تھے وہ انکے انداز پر ہنس پڑی۔۔
ہر گز نہیں پاکستانی لڑکیاں سب کچھ کر سکتی ہیں میں جا کر کوریا والوں کو بتائوں گی۔۔۔
ڈیل ۔۔۔ انہوں نے ہاتھ بڑھایا
ڈیل۔۔۔ وہ بھی ہنس دی۔۔۔
اور مجھے کینڈی کرش کی ریکویسٹ تو بھیج دو کب سے پانچ سو بیالیسویں لیول پر اٹکا ہوں ۔۔۔
وہ ہونٹ نکال کر بے چارگی سے بولے
واقعی؟میرے خدا۔۔۔ وہ حیران رہ گئ
آپ مجھ سے دو سو لیول آگے ہیں پاپا۔۔۔
دیکھ لو تمہارا باپ کتنا ٹیلنٹڈ ہے۔۔۔ وہ اترائے۔۔۔
دروازے پر ابھی تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر صفیہ نے جھانکا دونوں کو خوشگوار موڈ میں گپ شپ کرتے دیکھ کر سکھ کا سانس لیا۔۔۔انہیں ہر دم دھڑکا لگا تھا کہیں اریزہ باپ سے کچھ کہہ نہ دے۔۔ اور اریزہ نہ بھی کہتی ان سے یہ حقیقت کتنی ہی کوئی دیر چھپی رہ سکتی تھی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیول کی شام سے بہتر یا خوب صورت بھی کوئی دنیا کی شے ہو سکتی ہے۔۔۔ اس نے ڈوبتے ہوئے سورج کو بغور دیکھا وہ اس وقت ہنگن دریا کے کنارے موجود تھا۔۔ اکثر اکیلے ہی وہ یہاں آیا کرتا تھا شام سے کچھ پہلے سورج کو ڈوبتا دیکھتا رہتا۔۔۔ ہر بار اسے لگتا سورج اسے کچھ کہہ کر جاتا ہے جیسے آج اسے کہہ رہا تھا
گما وویو
کیوں اس نے سورج سے اس اچانک شکریہ ادا کرنے کی وجہ پوچھی
روز ہی تقریبا آجاتے ہو دیکھنے مجھے ڈوبتے لگتا میں دنیا سے انوکھا کام کرتا جو روز مجھے کوئی آجاتا ہے دیکھنے ۔۔۔ ایویں سلیبرٹی سلیبرٹی سی فیل آتی ۔۔ اس نے شرارت سے کہا۔
ہایون ساختہ ہنس دیا
اس سے کچھ فاصلے پر اسیکیچ بک پر منظر نگاری کرتی اس لڑکی نے ہنسی کی آواز پر مڑ کر دیکھا
وہ ایک چندی آنکھوں والا خالص کوریائی خدو خال والا دراز قد گورا سا لڑکا تھا بے ساختہ ہنسنے پر اسکے چھوٹے سے دہانے سے جھانکتے ایک قطار میں سجے موتیوں جیسے دانت سورج کی پڑتی کرنوں سے دمک اٹھے تھے۔۔۔ وہ اپنے آپ میں مگن تھا تو ہنسا کیوں ۔۔۔ اس نے اسکی مطمئن ہنسی کو یونہی قائم رہنے کی زیر لب دعا دے ڈالی
اور دوبارہ بک میں نقش بنانے میں مگن ہوگئ
یہ ایک منظر تھا جو بنتا جا رہا تھا
ایک چھوٹا سا گھر اسکے آگے کھیت اور دور کہیں سے ڈوبتا سورج مگر کھیت ہل چلانے کے بعد جو زمین پر لکیریں پڑ جاتیں ہیں ویسا تھا یعنی ابھی بیج بونے کا عمل باقی تھا۔۔۔
کیا اگائوگی اس میں۔۔۔
کوئی اسکے قریب اچانک سے انگریزی میں بولا وہ بری طرح ڈر گئ۔۔ مخاطب کوئی غیر ملکی تھا نقوش سے امریکی لگتا تھا۔۔ اسے اسکے یوں ڈر جانے کی امید نہیں تھے سو فورا معزرت کرنے لگا
معزرت میرا مقصد ڈرانا نہیں تھا
میں بس ابھی آیا تم تصویر بنا رہی تھیں تو رک کر دیکھنے لگا کھیت اچھا ہے مگر سر سبز زیادہ اچھا لگے گا تم اس پر کونسی فصل بونا چاہوگی ؟
وہ بہت دلچسپی سے اسکی بنائی تصویر دیکھ رہا تھا
اس پر بارود بویا جا چکا ہے اب بس تباہی لہرا سکتی یہاں۔۔۔
وہ ہنگل میں بولی تھی
نیور مائنڈ مگر یہ واقعی اچھی ہے تم میں ٹیلنٹ ہے کیپ اٹ اپ۔۔۔
اس کو لگا تھا وہ انگریزی نہیں جانتی جبھی بات سمجھانے کیلیئے اس نے اشاروں کنائوں سے کام لیا
انگوٹھے اور شہادت کی انگلی ملا کر زبردست کا اشارہ کیا وہ جوابا مسکرا دی اور دوبارہ تصویر پر جھک گئ۔۔۔ امریکی نے جیب سے یوآن نکال کر اس کے سامنے دھرے ۔۔۔ اس نے حیران ہو کر پیسے اٹھائے اور سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی
یہ انعام ہم جب امریکہ میں ساحل پر کسی کو ایسا کرتے دیکھتے تو حوصلہ افزائی کیلیے کچھ پیسے دیتے ۔۔ دونوں ہاتھوں کو چلاتا بازو پھیلا پھیلا کر اسے اپنی بات سمجھانے کی کوشس کرتا وہ کافی مزاحیہ لگ رہا تھا وہ ہنس دی
تھینک یو۔۔۔ اس نے مسکرا کر قبول کر لیے تھے وہ بھی جواب میں اس سے زیادہ خوشی سے اس کے قبول کر لینے کا شکریہ ادا کرتا پلٹ گیا
ایکسکیوز می آر یو امیرکن
اسے جانے کیا خیال آیا اس نے پکار کر پوچھا وہ چلتے چلتے ہی پلٹ کر اسے اثبات میں سر ہلا کر جواب دیا پھر بائے بائے کہتا ہاتھ ہلاتا آگے بڑھ گیا
اس نے بھی مسکرا کر ہاتھ ہلا دیا
اپنے ہی الفاظ اسکے کانوں مین گونجے
اگر چھے کمینے امریکی سامنے کھڑے ہوں اور تم بندوق اٹھا کر چار کمینے امریکیوں کو مار دو تو کتنے کمینے امریکی بچیں گے ؟
دو کمینے امریکی۔۔۔
اس نے سر جھٹکا سورج ڈوب چکا تھا فضا میں اندھیرا اور شام کی خنکی پھیل رہی تھی وہ اپنا بیگ اٹھا کر پائوں جھاڑتی اپنے جوتے پہننے لگی
یونہی خیال آیا تو مڑ کر اس دراز قد کو دیکھنا چاہا مگر اب وہ کونا خالی تھا وہ شائد ڈوبتے سورج کا منظر دیکھ کر جا چکا تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گوارا کی برتھ ڈے پارٹی تھی اس کو رات کو سرپرائز دینا تھا سب اسکے اپارٹمنٹ پر دھاوا بولنے والے تھے۔۔۔ یون بن ہایون کم سن تینوں سب کو اکٹھا کرکے اوپر جاتے سو عمارت کے باہر ساز و سامان کے ساتھ آٹھ لڑکے لڑکیاں تھےجمع تھے
پتہ چلے وہ اوپر کھڑکی سے جھانک رہی ہو سارا سرپرائز دھرا رہ جائے۔۔۔
ہایون نے خیال ظاہر کیا۔۔۔
نا ممکن ۔۔یون بن نے قطعی انداز میں کہا
میں نے اسے کہا ہے کہ میں گائوں جا رہا ہوں پرسوں لوٹوں گا تو اسے غصہ آگیا تھا اس نے مجھ سے پوچھا کیا مجھے یاد ہے آج کیا تاریخ تو میں نے معصوم سے انداز میں بتا دیا اس نے جواب میں مجھے دفع ہو کہہ کر فون بند کر دیا تھا یہ اس کے غصے کی شروعات تھی۔۔۔ پہلے وہ کمرے میں پیر پٹخ پٹخ کر چکر کھا رہی ہوگی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوووف آہش۔۔۔ وہ جلے پیر کی بلی کی طرح ادھر سے ادھر چکر لگا رہی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے غصے میں بھوک بہت لگتی سو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یون بن ہنسا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے دھڑ سے فریج کھولا اور کمچی فرائڈ رایس کا بائول نکالا اور اسی میں شروع ہو گئ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھا پی کر اب منہ بسور کر مجھے کوسے گی۔۔۔۔
یون بن کے کہنے پر کم سن نے اسے ذرا غور سے دیکھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زہریلے انسان مر جائو ایک برتھ ڈے تک یاد نہیں آٹھ سال ہو رہے تم پر بھی لعنت ہو گوارا ابھی تک ہائی اسکول کے بوائے فرینڈ پر اکتفا کیے ہوئے ہو۔۔۔۔
وہ نوالے چباتے ہوئے گالیاں دے رہی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گوارا زیادہ دیر خود کو برا بھلا نہیں کہہ سکتی وہ خود سے بہت پیار کرتی ہے سو اب تک بستر پر گر کر لمبی تان کر سو چکی ہوگی۔۔۔
یون بن نے ہاتھ جھاڑے۔ کم سن نے سر اٹھا کر اوپر فلیٹ کو دیکھا جس کی۔بتیاں بجھی ہوئی تھیں
اور اگر وہ اس وقت اپنے فلیٹ کی بجائے ڈورم میں ہوئی تو ؟
یہ۔کم سن تھا۔
جی ہائے ہمارے ساتھ ہے احمق۔
یون بن کے چڑ کر کہنے پر وہ سب کھل کر ہنسے۔۔کم سن سر کھجانے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گوارا کے ہلکے یلکے خراٹے گونج رہے تھے کمرے میں۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہعنی ہم دروازہ بجا بجا کر مر جائیں گے اور وہ سوئی پڑی رہے گی سمجھو غارت ہوا آج کا پلان۔۔۔
یہ کم سن نے اظہار خیال کیا۔۔۔
مت مرو مجھے اسکے فلیٹ کا سیکیورٹی پاسورڈ معلوم ہے ہم اسکو اسکے بیڈروم میں جا کر ڈرا کر جگائیں گے۔۔۔
یاااااہہہہ
جون تائی اور دیگر نے خوفناک ہیلووین ماسک نکال۔لیے تھے
یہ کچھ زیادہ ہے وہ ڈر جائے گی ۔۔۔ کم سن کو فورا فکر ہوئی
ہم اسے ڈرانا ہی چاہتے۔۔۔ جون تائی بے فکر تھا
ہایون کو بھی یہ آئیڈیا کچھ پسند نہیں آیا
مجھے بھی مناسب نہیں لگ رہا اس وقت رات کے بارہ بجے کسی کو سوتے سے جگا کر وش کر دینا ہی بہت بڑا سرپرائز ہے یہ ڈرائونے ماسک پہن کر ڈرانے کی کیا ضرورت۔۔۔
اسکی بات سے کوئی متفق نہیں تھا سب شور کرنے لگ گئے۔۔۔
چلو چلو بارہ بج رہے ہیں ۔۔۔ سب بھاگتے ہوئے اندر داخل۔ہوئے سب شاپر وغیرہ پکڑے تھے ہایون نے آگے بڑھ کر لفٹ کا بٹن دبایا دو تین بار دبایا تب کھلاکم سن کے ہاتھ میں کیک تھا مورگن ڈیکوریشن تھامے تھا سو چن کے۔۔۔ ہاتھ میں ماسک تھامے تھا باقی سب ساتھ لائے گفٹس بکے تھامے تھے جون تائی کا ہاتھ بھی خالی نہیں تھا خالی ہاتھ تھا تو بس ہیونگ سک۔۔۔
اس نے گھبرا کر جیب ٹٹولی۔۔۔ کیا ہوا لفٹ نیچے آچکی تھی پہلی شفٹ سوار ہو رہی تھی۔۔۔
گفٹ تو لایا نہیں تھا کار کی چابی کیا کی؟
گاڑی میں لگی چھوڑ دی خیال روح فرسا تھا
وہ فورا پلٹا اسے بھاگنے کو تیار دیکھ کر کم سن نے آواز لگائی
کدھر جا رہے ؟
چابی بھول گیا آتا ہوں ۔۔۔ اس نے بھاگتے بھاگتے بتایا۔۔۔
چوتھے فلور پر آجانا چودہ نمبر فلیٹ ہے۔۔
کم سن نے زور دار آواز سے کہا تو اس نے سر ہلا دیا۔۔۔
باہر پارکنگ میں دوڑ کر آتے سانس پھول چکی تھی چابی گاڑی کے دروازے کے نیچے پڑی تھی۔۔۔ شکر۔۔۔ اس نے اندر لاک نہیں کر دیا تھا۔۔۔ اس نے جلدی سے چابی اٹھائی گاڑی پر سرسری نظر ڈال کر اطمینان کرتا ہوا خراماں خرامان چلتا ہوا واپس آیا۔۔۔
سب جا چکے تھے وہ کندھے اچکاتا لفٹ میں داخل ہوا تبھی سامنے سے ملگجے اندھیرے میں اسے محسوس ہوا کوئی بھاگتا ہوا آرہا تھا۔۔۔ وہ چودھویں فلور کا بٹن دبا چکا تھا دروازہ بند ہونے کو تھا اس نے آنے والے کے خیال سے پائوں اڑا کر دروازے کو بند ہونے سے روکا۔۔۔
بھاگتے بھاگتے سایہ قریب آیا۔۔ آنے والی لڑکی تھی۔۔ ہلکے گلابی لانگ اسکرٹ سفید بلائوز میں ملبوس تیزی سے اندر آتےہوئے اسے دیکھ کر ٹھٹھک کر رک گئ۔۔۔ ہایان نے نہ سمجھنے والے انداز میں اسے دیکھا وہ دروازے میں کھڑی تھی لفٹ کا دروازہ دو بار بند ہوتے ہوتے رکا تھا۔۔۔ اس نے اسے حیرانی سے دیکھتے اسکے سامنے ہلکے سے چٹکی بجائی۔۔۔ وہ جیسے ہوش میں آئی پھر سر کے اشارے سے معزرت کرتی اندر داخل ہو گئی اسکی منزل بھی شائد چودھواں فلور تھی ایک نظر بورڈ کو دیکھ کر اس نے انتخاب کیلیے اٹھایا ہاتھ نیچے کرلیا
وہ ایک نظر اسے دیکھ کر اپنا موبائل نکال کر مگن ہو گیا۔۔۔ یونہی اسکو خود پر جمی نظر کا احساس ہوا تو سر اٹھا لیا وہ لڑکی اسے شائد بے خیالی میں دیکھے جا رہی تھی گڑبڑا کر رخ پھیر گئ
وہ اسکے گھبرانے پر مسکرا دیا تبھی لفٹ رک گئ اور لفٹ کی لائٹ بند ہو گئ
ہا ہ آہ۔۔۔ وہ۔لڑکی شائد ڈر گئی تھی اسکے منہ سے گھٹی گھٹی سی آواز نکل رہی تھی جیسے وہ چیخنا چاہ رہی ہو مگر چیخ نہ پارہی ہو۔۔
اطمینان رکھو سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔ پریشان تو وہ بھی ہوا تھا
مگر لڑکی کو شائد لفٹ سے کوئی فوبیا تھا
بات سنیں ریلکس کریں ابھی لفٹ ٹھیک ہو جائے گی۔۔ وہ کہہ رہا تھا مگر لڑکی سن بھی نہیں رہی تھی اس نے موبائل کی لائٹ فورا آن کر لی تھی وہ لڑکی اکڑوں بیٹھی گھٹنوں میں سر دیے سسک رہی تھی
تین سے چار منٹ کا وقفہ پڑا تھا لفٹ کی لائٹ دوبارہ جل اٹھی تھی۔۔
دیکھئے آگئ لائٹ۔۔۔
لفٹ میں کوئی ہے۔۔۔ انتظامیہ سے اعلان ہو رہا تھا اس نے ایمرجنسی بٹن دبا دیا
ہاں ہم دو لوگ ہیں ۔۔۔ اس نے آگے بڑھ کر کر اسپیکر میں پیغام دیا
گھبرائے مت ہم یہیں ہیں تھوڑا سا پاور کٹ تھا ہم جلد سے جلد خرابی دور کر کے آپ کو نکال لیں گے ۔۔۔ آپ پلیز ہم سے بات کرتے رہیے۔۔
ہاں ہاں میں موجود ہوں
آپ زخمی تو نہیں۔۔۔ آپریٹر کے پوچھنے پر وہ مڑ کر دیکھنے لگا
کہیں جھٹکا لگنے سے گر ور تو نہیں گئ جو رو رہی اسے خیال آیا۔۔۔ جھٹکا بہت زور کا نہیں تھا مگر تھا تو وہ ابھی بھی گھٹنے میں منہ دیے تھی
میں تو ٹھیک ہوں
میں اس لڑکی سے پوچھتا ہوں۔۔۔
وہ اسکے سامنے اکڑون بیٹھ گیا
سنو اوپر دیکھو۔۔۔
دیکھو لائٹ بھی آگئ اور لفٹ بھی ٹھیک ہو رہی
۔۔۔ اسکے دھیرے سے کہنے پر اس نے آہستہ آہستہ سر اٹھا کر اپنے گرد پھیلی روشنی کو دیکھ کر اطمینان کیا۔۔۔
تبھی لفٹ کو زوردار جھٹکا لگا اس لڑکی نے اسکا ہاتھ تھام لیا تھا۔۔۔
وہ الٹ کر پیچھے گرتےگرتے بچا تھا۔۔۔
گوما وویو۔۔۔ شکریہ
لفٹ پرسکون ہو چکی تھی۔۔۔
دروازہ کھل رہا تھا۔۔۔
آپ دونوں سے گزارش ہے لفٹ جس بھی منزل پر رکی ہے آپ لفٹ سے باہر آجائیں اور سیڑھیوں کا استعمال کیجئے آپ کو تکلیف دینے کیلیے معزرت خواہ ہیں برائے مہربانی جلدی کیجئے۔۔۔
وہ لڑکی تھر تھر کانپ رہی تھی اسے اب احساس ہوا اس لڑکی نے اسے بچانے کیلیے نہیں بلکہ خود خوفزدہ ہو کر اسکا ہاتھ تھاما تھا
چلیں باہر نکلنا پڑے گا ہمیں وہ اٹھ کھڑا ہوا اور اسے بھی سہارا دے کر اٹھایا۔۔۔ لڑکی کا بیگ شانے سے اتر کر گرنے کو تھا اس نے اسے بھی پکڑ لیا
جلدی کیجئے اور لفٹ سے باہر نکل آیئے۔۔
آپریٹر انہیں سی سی ٹیوی سے دیکھ رہا تھا
ہم نکل رہے ہیں وہ کہتا ہوا باہر نکلا لڑکی ابھی بھی مکمل اسکے سہارے پر تھی۔۔ اس نے اسے سامنے سیڑہیوں پر بٹھایا۔۔ پھر ادھر ادھر دیکھا تو دور چلر نصب نظر آیا۔۔۔ وہ تیزی سے اس کی طرف لپکا ایک گلاس بھر کر پہلے خود پیا۔۔۔ سچی بات دل اسکا بھی قابو سے باہر ہو رہا تھا۔۔۔
یہ گیارہواں فلور تھا۔۔۔ وہ پانی بھر کر گلاس لے کر آیا تب تک لڑکی آنسو وغیرہ پونچھ چکی تھی۔۔۔
شکریہ۔۔۔ اس کے ہاتھ سے گلاس لے کر وہ ایک سانس میں پی گئ تھی۔۔۔
آپ کو کس فلور جانا ہے ۔۔۔ وہ پانی پی کر اٹھ کھڑی ہوئئ۔۔
فورٹین۔۔۔ دھیرے سے بولی۔۔
ہیون جونگنے بہت دلچسپی اسکے گھبرائے روپ کو دیکھا تھا۔۔۔
اپنے ہی الفاظ کان میں گونج گئے
لڑکی ایسی ہو نازک سی کہ اسکی ڈھال بن جانے کو دل چاہے ۔۔
وہ لڑکی اسکے غور سے دیکھنے پر گھبرا گئ۔۔۔
ہایون چونکا۔۔۔
میں بھی وہیں جا رہا ہوں چلیے اکٹھے چلتے ہیں ۔۔ اس نے کہا تو لڑکی اثبات میں سر ہلا کر اسکی پیروی کرنے لگی۔۔۔ وہ اس سے ایک قدم پیچھے چل رہی تھی چودھویں فلور پر وہ بنا ایک لفظ کہے دائیں جانب تیز تیز چلتی چلی گئ۔ہیون نے سامنے والے فلیٹ کے نمبر سے اندازہ لگایا اسے بائیں جانب مڑنا تھا نویں فلیٹ کے سامنے سب جمع اسے گھور رہے تھےاس نے مڑ کر دیکھا تو وہ لمبی سی راہداری کے آخری فلیٹ میں داخل ہو رہی تھی۔۔۔۔
کہاں رہ گئے تھے تم ؟ یون بن جھنجھلا کر دبی دبی آواز میں پوچھ رہا تھا
اس کم سن نے ہمیں اندر بھی جانے نہیں دیا ۔۔۔ جب تک ہیون نہیں آتا نہ جائو۔۔ کسی لڑکے نے چڑ کر کہا
یار لفٹ بند ہو گئی تھی ۔۔۔
ہیں کیا۔۔۔
تم ٹھیک تو ہو۔۔۔ سب فکر مند ہوئے
میں ٹھیک ہوں اس نے اطمینان دلایا بارہ بج کر پانچ منٹ ہو رہے تھے
چلو اندر وقت ضائع نہ کرو۔۔ چلو اس نے جلدی مچائی تو یون بن نے بھی ہاں ہاں کرتے آگے بڑھ کر پاسورڈ لگا کر دروازہ کھولا۔۔
فلیٹ ملگجے اندھیرے میں ڈوبا تھا۔۔۔
یہ لوگ سرگوشیوں میں باتیں کرتے سیدھا گوارا کے کمرے میں داخل ہوئے یون بن سب سے آگے تھا۔۔۔
ماسک لگا کر اس نے گوارا پر جھکتے دھیرے سے گوارا کا کندھا ہلایا۔۔
گو ارا۔۔۔
گوارا ٹس سے مس نہ ہوئی۔۔۔
گوارا اس نے اس بار زور سے ہلایا گوارا بے سدھ تھی یون بن کی شرارت تشویش میں بدل رہی تھی ۔۔۔
گوارا۔۔۔ اس نے پریشانی سے کہا
گوارا اس بار وہ چیخ پڑا تھا۔۔۔
گہرا گاڑھا سیال گوارا کی۔گردن سے بیڈ تک آرہا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام ۔۔۔
جاری ہے
Kesi lagi apko Salam Korea ki qist? Rate us