Salam Korea
by Vaiza Zaidi
قسط 28
اسکی صبح خوشگوار ہوئی تھی۔ اتنے دنوں میں پہلی بار اس نے گوارا اور اریزہ سے پہلے بیدار ہو کر ناشتہ بنایا۔۔
بناتے ہوئے گنگناتی بھی رہی تھی۔ گوارا جمائی لیتی کمرے سے نکلی تو کچن میں اسے دیکھ کر بھونچکا سی رہ گئ آہٹ کیئے بنا واپس دوڑی آنکھیں ملتی اریزہ کو ادھ سوئی کیفیت میں ہی کھینچ کر کچن کے باہر لاکھڑا کیا۔
اسکی آنکھیں پٹ سے کھلی تھیں تھوڑا تھوڑا منہ بھی۔۔
آہٹ پر ہوپ نے مڑ کر دیکھا تو دونوں کو ہکا بکا دیکھ کر مسکرا کر بولی
آجائو میں نے ناشتہ بنا دیا ہے تم دونوں کا آئو مل کر کرتے ہیں ناشتہ۔
اب دونوں کا منہ بھاڑ سا کھلا رہ گیا تھا۔۔ ہوپ کھسیا کر مسکرا دی
سنکے ہوئے توس چیز آملیٹ بھاپ اڑاتی کافی کے مگ۔ وہ دونوں ناشتے پر ٹوٹ پڑی تھیں۔
آج کیسے خیال آگیا تمہیں؟۔ گوارا پوچھے بنا نہ رہ سکی
آج مجھے تھوڑی دیر سے جانا تھا۔۔ ہوپ نے قصدا لاپروا انداز اپنایا۔۔
اچھی بات ہے کاش تمہیں روز دیر سے جانا ہوا کرے۔۔
گوارا کھلکھلائی۔۔
اریزہ توس کھاتے کسی گہری سوچ میں گم تھی
گوارا نے ٹہوکا دیا
کیا سوچ رہی ہو۔۔
جاب کا سوچ رہی مجھ سے بچے سنبھلتے نہیں اور کل تو ایک بچے نے مجھ پر سو سو بھی کر دیا ۔۔
اسکے کہنے پر گوارا کو اچھو لگا۔۔
واقعی ۔۔ وہ بے ساختہ ہنسی تھی۔۔
اریزہ نے بے چاری سی شکل بنائئ۔۔
پہلی جاب بہت مشکل ہوتی ہے۔ میری بھی پہلی جاب سیلز گرل کی تھئ اور کبھی ٹارگٹ پورا نہیں کر پائی تھئ۔۔ چینی تو پیسے کے معاملے میں بالکل رعائیت نہیں برتتے۔۔آدھی تنخواہ ملتی تھی مجھے۔۔ ہوپ نے کہا تو وہ دونوں سنجیدہ ہوگئیں
ہوپ تمہارے گھر والے کہاں ہوتے ہیں؟ اریزہ نے جھجکتے ہوئے پوچھا
پتہ نہیں ۔ اب تو زمین کے اوپر ہوتے ہیں یا نیچے یہ بھی معلوم نہیں مجھے۔
وہ لاپروا سے انداز میں کہتی اٹھ کر برتن سمیٹنے لگی
کافی دکھی لگتی ہے یہ مجھے۔۔
گوارا کا انداز ترس کھانے والا تھا
تمہارے پیرنٹس کہاں ہوتے گوارا؟اریزہ کے پوچھنے پر اسے اچھو سا لگا۔ کافی کا مگ رکھ کر اسے حیرت سے دیکھنے لگی
تمہیں انکا خیال کیسے آگیا۔ مجھے نہیں آتا۔۔
وہ ہنسی مگر اریزہ کو جواب طلب نظروں سے دیکھتا پا کر بتانے لگی
گائوں میں ۔ بلکہ گائوں کم قصبہ ہے بلکہ شہر ہی سمجھ لو وہاں تھوڑی سی زمین پر کاشتکاری کرتے ہیں آہبوجی۔ آہموجی ڈھابہ چلاتی ہیں وہاں۔
اور بہن بھائی؟ اریزہ فل انٹرویو موڈ میں تھی
دو بہنیں ایک بھائی ہے سب پڑھ رہے ہیں اسکول میں بھائی اگلے سال یہاں آجائے گا میرے پاس اسکی یونیورسٹی شروع ہو جائے گی۔
تم تو ان سے ملنے بھی نہیں جاتی ہو۔۔ اریزہ کا انداز حیران ہونے والا تھا
سمسٹر اینڈ پر جاتی ہوں نا اس بار نہیں گئ اب مڈ بریک ہوگی اگلے ہفتے تو گھر جائوں گی۔
گوارا کافی ختم کرتی اٹھ کھڑی ہوئی۔۔
ہیں تم چلی جائو گی گھر تو میں کیا کروں گی یہاں اکیلی ۔
اسے نئی فکر سوار ہوئی۔۔
اکیلی کیوں میں ہوں نا یہاں۔ ہوپ اسکو کہہ رہی تھی گوارا نے اسے آنکھوں آنکھوں میں ہنس کر میں اشارہ کیا
اریزہ بمشکل مسکرا کر بڑ بڑائی
اسی کا تو ڈر ہے۔۔
مگر یار میں کیسے مارٹ جائوں گئ؟ مجھے تو راستہ بھی یاد نہیں ہوا ہے۔
اسکی فکر بجا تھی گوارا سوچ میں پڑی۔
آٹھ بجے ہیں ابھی تمہاری ڈیوٹی ایک کے بعد ہے ابھی سے چھوڑ بھی آئوں تو کیا کروگی چار پانچ گھنٹے۔۔
میں کسی قریبی پارک میں بیٹھ جائوں گئ۔
وہ جانے کیلئے تیار تھی۔ گوارا نے اسے دیکھا۔پھر ہوپ سے بولی
ہوپ تم اریزہ کو ساتھ لے جائو۔ اسکو روٹ سمجھا دینا بس کا۔
گوارا کے کہنے پر اریزہ کی آنکھیں ابل پڑی تھیں۔ اس سے قبل کہ کچھ کہہ پاتی ہوپ کا جواب اسکی آنکھوں کو مزید کھول گیا تھا مزید آنکھیں نہ کھل سکیں تو تھوڑا سا منہ بھی کھل گیا۔
وہ کہہ رہی تھی۔
ہاں کیوں نہیں۔ اکٹھے چلتے ہیں۔ میرا اسٹور مارٹ کے قریب ہی ہے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوپ اسکے ساتھ ساتھ خاموشی اور لا تعلقی سے چل رہی تھی ۔گوارا کے ساتھ وہ میٹرو ٹرین میں گئ تھی اسکا راستہ مخالف تھا۔ ہوپ اسکو میٹرو اسٹیشن کی جانب رخ کرتے دیکھ کر بس اتنا بولی
بس سے جانا ذیادہ بہتر رہے گا۔۔
وہ اسکے ساتھ بس کی جانب بڑھ گئ۔۔ بس کارڈ اسکا بنا ہوا نہیں تھا سو وہ اپنا پرس کھنگالنے لگی۔ اسکے پیچھے رش بننے لگا ہوپ کارڈ کو آٹومیٹک مشین سے لگا کر لمحے بھر میں آگے بڑھ گئ۔
مس آپ ۔ راستہ چھوڑ دیجئے بعد میں اترتے ہوئے پیسے ڈال دیجئے گا ۔
نہایت شائستہ انداز میں ڈرائور نے ٹوکا تھا وہ بھی انگریزی میں۔ اس نے چونک کے سر اٹھایا وہ کوئی جوان سا ہی چندی آنکھوں والا آدمی تھا سلیقے سے سنورے بال استری شدہ یونیفارم ۔ سچ پوچھو تو حسن میں کسی کورین اداکار سے کم نہیں تھا۔ ہلکی سی مسکراہٹ سے اسے کہہ کر وہ اب رخ بدل گیا تھا۔ وہ فورا ایک۔طرف ہوئی۔ ریزگاری وہ ہمیشہ الگ جیب میں رکھتی تھی۔ جب مسافرچڑھ گئے تو وہ آگے بڑھ کر اس صندوق میں پیسے ڈالنے لگی۔
آہجوشئ میں نے پیسے ڈال دیئے ہیں۔
اس نے متوجہ کرنا چاہا مگر وہ بس اسٹارٹ کر چکا تھا سو سڑک پر نگاہ جمائے بس اونچی آواز میں بولا
دے۔
وہ اسکے اخلاق سے خوامخواہ میں متاثر ہو گئ۔ بس کھچا کھچ بھر گئ تھئ ذیادہ۔تر طلبا ء تھے مخصوص وردی چڑھائے۔ اس نے بےتابی سے ہوپ کو تلاشا۔ پھر اس رش میں بھئ زبردستی سب کو دھکے دے کر جگہ بناتی ہوپ تک پہنچ گئ۔ ہوپ نے حیرت سے اسکی شکل دیکھی جو اسکے پاس آکر اب مطمئن ہوگئ تگئ۔
کھچا کھچ بھری بس جس میں سنبھل کر اسے کھڑے ہو کر جانا تھا۔ گو آگے پیچھے طلباء ہی تھے۔ مرد و زن بلا امتیاز کھڑے تھے۔ بس کا اسٹاپ آتا تو خوب دکھم پیل نچا کے اترتے۔مگر چونکہ ذیادہ تر اسکول کے یونیفارم میں تھے لڑکے لڑکیاں وہ ناگواری کے احساس کو جھیل گئ۔ ہوپ بظاہر لاتعلق مگر اس پر گاہے بگاہے نظر رکھے تھے۔ اسکا چہرہ سرخ ہو چکا تھا۔
۔ بس نے اسے عین اس مارٹ کے سامنے اتارا تھا۔۔ یہ آسان تھا اسکے لیئے مگر کیا بس میں روز اتنا ہی رش ہوتا ہے یہ سوال اطمینان غارت کیے تھا۔
بس سے اتر کر قدم بڑھاتے ہوئے وہ یونہی بات برائے بات بولی
یہ ذیادہ آسان رہا میرے لیئے بس کا نمبر یاد رکھوں گی اب۔
تمہاری چھٹی کب ہو گی۔ وہ ہوپ سے پوچھ رہی تھی۔
واپسی پرمیں دوسری جاب پر جائوں گی۔ تم نے نوٹ کرلیا نا بس نمبر اسی میں واپس چلی جانا۔
ہوپ سمجھ گئ تھی اسکی مشکل۔
آ۔ اسکا منہ کھلا
اس نے نوٹ نہیں کیا تھا۔ نا ہی ابھی اسکے ساتھ ساتھ چلتے یہ احساس ہوا تھا کہ جو مارٹ اسے سامنے فورا نظر آگیا تھا اب ہوپ کے ساتھ چلتے چلتے وہ اس سے دور نکل آئی ہے۔
وہ مجھے واپسی پر تو مدد چاہیئے ہوگی اگر تم ۔۔
اس کی شکل دیکھ کر بولتے بولتے باقی جملہ منہ میں ہی رہ گیا۔ تو وہ بنا تاثر چہرے پر لائے بولی
واپسی کی بعد کی بات ہے ابھی بھی تم نے میرے ساتھ جانا ہے کیا؟
اس نےچند بلاک پیچھے رہ جانے والے مارٹ کی جانب اشارہ کیا۔
اریزہ خفت زدہ سی ہوکر رک گئ ہوپ سر جھٹک کر تیز تیز قدم اٹھاتی آگے بڑھ گئ۔۔
اخیر بونگی ہوں میں۔ اندھوں کی طرح چل کر آئی ہوں میں۔
۔ وہ دانت کچکچا کر رہ۔گئ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریں ریں کرتے بچوں میں وہ پھر گھری کھڑئ تھی۔۔ شکل ایسی بنی ہوئی تھی کہ اب روئی یا تب۔ ہیون اسے دیکھ کر مسکراہٹ ضبط کرتا اسکے پاس چلا آیا
اآننیانگ۔۔
اس نے پرتپاک انداز میں بچوں کو مخاطب کیا تھا۔۔ بچے ہم زبان کو دیکھ کر اسکی جانب بھاگے تھے۔ وہ بہت خندہ پیشانی سے انکو جھیلتے ہوئے جانے کیا گٹ پٹ کر رہا تھا۔۔
پھر وہ اطمینان سے اسٹول پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھ گئ کہنی کائونٹر سے ٹکا کر دلچسپی سے اسے دیکھنے لگی۔ہیون نے پورے بیس ڈبے بکوا دیئے۔ اتنا ہینڈسم لڑکا وہ بھی قیمتی جیکٹ برانڈڈ جینز جوتے پہنے خواتین جوق در جوق اسکے اسٹال پر آئی تھیں۔
اوپا اوپا کی صدائیں۔ اور ہینڈسم آہجوشی کہہ کہہ کر اسکے بازو سے لٹکی جا رہی تھیں۔
ایک خاتون نے ہنستے ہنستے ساتھ کھڑے لڑکھڑا کر اسکے کندھے پر سر ہی رکھ دیا۔ وہ ناگواری سے دیکھ کر سیدھی ہوئی۔ بے ساختہ کڑخت سے انداز میں ڈپٹ کر پکار بیٹھی
آہجومہ۔
ہنستی آہجومہ ٹھٹک کر اپنے جامے میں واپس آئیں تو ہیون بھی ایکدم تیر کی طرح سیدھا ہوا
اگر آپ دو ڈبے لیں گی تو آپکو یہ بائول اور اسپون بھی ملے گا۔۔ اس نے دانت کچکچا کر کہا تھا
دے؟۔ وہ سمجھ نہ پائیں دوبارہ آنکھیں پٹپٹا کر ہیون کو جواب طلب نظروں سے دیکھنے لگیں۔
اس نے مسکرا کر ترجمہ کیا۔۔
وہ خوشی خوشی چار پیکٹ لے گئیں۔
لو بھئ تمہارا آج کا تو ٹارگٹ پورا ہوگیا۔۔ ہیون نے خوشگوار سے انداز میں اسکے پاس آکر پیسے جمع کرائے
شکریہ۔ مگر میں خود بھی کر لیتی یہ تمہیں زحمت کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔۔
اس کے رکھائی سے کہنے پر اسکا روشن چہرہ بجھ گیا۔۔
ہاں جانتا ہوں۔ وہ سنبھل کر اسکے ساتھ اسٹال سمیٹوانے لگا۔
اریزہ کو جانے کیوں غصہ آرہا تھا۔
ساری دنیا کے لڑکے ٹھرکی ہی ہوتے ہیں جتنے بھی شریف دکھائی دے جائیں۔۔ لڑکی گود میں آگرنے کو تیار ہوگی توخود اسکے سامنے لیٹ ہی جائیں گے۔۔
وہ سوچتے ہوئے چیزیں پٹخ رہی تھی۔ ہیون دھیرے سے ایک جانب ہو گیا وہ اسٹال سمیٹ کر کیش جمع کرانے کائونٹر پر چلی گئ۔۔ وہ اسے دیکھ کر رہ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسٹور میں چیزیں کارٹن سے نکال کر احتیاط سے ریک میں لگاتے یونہی اسکی نگاہ گلاس وال سے باہر پڑی۔ چھے بج رہے تھے۔ آسمان پر بارش کے آثار تھے ہوپ کی آسمان پر نظر پڑی تو فورا خیال آیا۔ جلدی سے سامان وہی چھوڑ کر کائونٹر کے پاس چلی آئی۔ اسٹور کا مالک ٹی وی پر بیس بال کا میچ دیکھنے میں مگن تھا۔
آہجوشی میں آج جلدی جا سکتی ہوں؟
اسکی فرمائش اتنی غیر متوقع تھئ کہ وہ حیرت سے دیکھنے لگا۔
میں جلدی جلدی سب چیزیں ریک میں لگاکر جائوں گی۔
اس نے تسلی دینی چاہی۔
آ۔ آنئ۔ ٹھیک ہے جائو تم۔ سامی ( ہیلپر)لگا دے گا باقی کارٹن۔جائو تم سب خیریت ہے نا۔
آہجوشی پر شفقت انداز میں پوچھ رہے تھے۔
دے۔ حسب توقع جواب مختصر تھا۔
نہایت چابک دستی سے کام کرنے والی ایماندار اس لڑکی نے پچھلے چھے مہینوں میں ایک چھٹی نہ کی تھی ابھی بھی شفٹ ختم ہونے میں صرف پینتالیس منٹ ہی باقی تھے اسکو اس نے بخوشی اجازت دی تھی۔
وہ تیزی سے اپنا بیگ اٹھاتی اسٹور کی جیکٹ او رکیپ کھونٹی پر لٹکاتی باہر آئی تو آہجوشی نے باقاعدہ آواز دے کر روکا۔
ہوپ شی۔
وہ مڑ کر سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگی۔
بارش ہونے والی ہے چھتری لے جائو۔
وہ نئی پیکنگ والی چھتری اسکی جانب بڑھا رہے تھے۔ اسکی آنکھوں میں حیرت اتر آئی تھئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیش جمع کروا کر وہ متلاشی نظروں سے اسٹور میں اسے دیکھنے لگی۔ نظر نہ آیا تو حیران سی اسٹور سے باہر نکل آئی۔ وہ کچھ ہی فاصلے پرچھتری تھامے سڑک کنارے کھڑا زمین کوجوتے کی نوک سے کھود رہا تھا۔۔وہ اسے دیکھتی رہی دیکھتے دیکھتے جانے کیا ہوا بری طرح بوکھلا کر رخ موڑ لیا۔ تبھئ اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا ۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتی بس اسٹاپ کی جانب بڑھ رہی تھی۔۔ اسکا حیرت سے منہ کھلا رہ گیا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بارش کی بوندیں تڑا تڑ برسنے لگی تھیں۔تیز تیز قدم اٹھا کر ہوپ مارٹ تک آئی تھی۔ اریزہ شائد ابھی باہر نہیں نکلی تھی۔ وہ وہیں شیڈ میں رک کر انتظار کرنے لگی۔
اریزہ نکلی تو وہ فورا مستعد ہوئی مگر اریزہ کہیں اور ہی متوجہ تھی۔ اسکی نظروں کا مرکز شخص ابھئ بے نیاز تھا۔ وہ پلٹ کر مخالف سمت جانے لگی
ہایون کی اریزہ پر نگاہ پڑی تو بھاگ کے اسکی جانب بڑھا۔
ان دونوں کو دیکھتے ہوئے چھتری کی اوٹ کے باوجود اسکا چہرہ گیلے ہونے لگا تھا۔
اسکے اندر بھی بارش ہونے لگی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اریزہ۔۔ اسکےپکارنے پر بھی وہ نہ رکی تو وہ برستی بارش میں بھی بھاگ کر اسکے برابر پھر مقابل آن رکا
کیا ہوا ہے سنائی نہیں دے رہا تھا میں پکار رہا تھا ؟ ساری بھیگ گئیں
اس نے حیرت بھری خفگی سے اس پر چھتری کی۔ ذرا سی دیرمیں وہ خاصی بھیگ گئ تھی۔ اپنے بیگ کے اسٹریپ کو سختی سے تھامے وہ قصدا نگاہ چرائے تھی۔
چلو میں گھر ہی جا رہا ہوں تمہیں بھی ڈراپ کردیتا ہوں۔
ہایون نے کہا تو وہ منع کرگئ
نہیں کیا ضرورت ہے میں بس سے چلی جائوں گی۔
وہ بس اسٹاپ کے قریب پہنچ چکے تھے۔ وہ کہہ کر اسکے برابر سے ہو کر تیزی سے بس اسٹاپ کے شیڈ میں آکھڑی ہوئی۔ بس آ کر رکی تھی۔ اسٹاپ پر بارش کی وجہ سے رش تھا۔ جلدی جلدی کئی سواریاں چڑھ گئیں۔ہایون ہونٹ بھینچے دیکھتا رہا۔جگہ خالی ہونے پر وہ قریبی بنچ پر ٹک گئ
بس اپنی منزل کی جانب رواں ہو گئ تھی
وہ گہری سانس بھرتا اسکے برابر آن بیٹھا۔ چھتری بند کرکے نشست سے ٹکائی۔اور اسکی آنکھوں میں جھانکنے لگا۔
کیا ہوا ہے؟
کچھ نہیں۔ وہ رخ موڑ گئ۔
مجھ سے کسی بات سے خفا ہو ؟
اسکی بات۔ بیگ کے اسٹریپ پر اسکی گرفت مزید سخت سی ہوگئ۔
کیوں۔خفا ہوں گی۔ ہم میں ایسی تو کوئی بات نہیں ہوئی
سردی کی وجہ سے شائد اسکی آواز کانپ سی گئ۔ وہ قصدا مسکرا کر اسکی جانب رخ کرکے بولی۔
اسکے ہونٹ نیلے ہو چلے تھے اور ناک سرخ۔ کندھوں تک آتے بال اونچئ پونی میں قید تھے مگر گہرے سیاہ بالوں پر پانی کے قطرے جیسے جم سے گئے تھے۔
پھر میرے ساتھ گاڑی میں کیوں نہیں چل رہیں۔ ؟
اسکا سوال دوٹوک تھا۔
کیا ضرورت ہے مطلب مجھے روز آنا جانا ہوگا بس میں آتے جاتے عادت ہونی چاہیئے نا ۔ پھر بس اسٹاپ گھر سے بھی قریب ہے بس اسلیئے۔
اسکی۔لمبی تاویل پر وہ خاموشی سے اسے دیکھتا رہا
کونسی بس پر جائو گی؟
سامنے سے بس آرہی تھی وہ جواب دینے کی بجائے اٹھ کھڑی ہوئی۔
لو بس آگئ۔ اب تم جائو۔ آننیانگ۔
وہ کہہ کر آگے بڑھنے کو تھی۔ہایون بھی اٹھ کھڑا ہوا۔چھتری کھول کر تانی اسکو اپنے پیچھے آتا محسوس کرکے وہ جھلائی
تم جائو نا کیوں بارش میں یہاں ٹھنڈکھا رہے ہو۔ ۔
وہ سٹپٹا رہی تھی۔ بس کا دروازہ کھل چکا تھا۔
کونسی بس پکڑنی پتہ ہے؟ یہ بس تمہارے گھر سے بالکل مخالف راستے جاتی ہے۔
ہایون کی بات پر وہ ٹھٹک کر رکی تھی۔
آگاشی؟ جانا ہے؟
بس کے کھلے دروازے سے ڈرائیور آواز لگا رہا تھا۔
آنی۔ معاف کیجئے گا۔
ہایون نے جھک کر معزرت کرتے ہوئے کہا تھابس آگے بڑھ گئ۔
چلو میں گھر چھوڑ دوں۔
وہ نرمی سے بولا۔
مجھے بالکل اچھا نہیں لگتا روز روز تمہاری مدد لینا۔ مانا تم امیر ہو اتنی بڑی گاڑی ہے افورڈ کر سکتے ہو مگر مجھے احسان لینا بالکل پسند نہیں۔میں ٹیکسی کر لوں گی تم جائو ۔
وہ ضدی لڑکی شیڈ سے باہر کھڑی بارش میں بھیگتی بحث کر رہی تھی۔
کیوں ؟ دوست نہیں ہوں میں کیا ؟ دوستوں کا احسان لینا گناہ ہے کیا ؟
ہایون نے مان بھرے انداز میں پوچھا۔وہ نہیں کہتے کہتے رک گئ۔
پھر بھئ۔ مجھے اچھا نہیں لگتا۔
وہ جانا نہیں چاہ رہی تھی ہایون کئی قدم آگے بڑھ کراسکے قریب چلا آیا۔برستی بارش پر چھتری نے فورا آڑ کی تھی۔ اسکے کلون کی خوشبو محسوس کرکے اسکے دل کی دھڑکن جیسے تھم گئ۔ ہایون کا چہرہ بالکل سپاٹ تھا۔
اس نے اسکا ہاتھ پکڑ کر چھتری تھمائی۔
میں گاڑی لیکر آتا ہوں ۔ وہ کہہ کر رکا نہیں تھا۔تیز تیز قدم اٹھاتا گاڑی لینے چلا گیا تھا۔
اس کو جاتے دیکھتے ہوئے اس کی چھتری ہتھیلی سے چھوٹنے لگی تھی۔ ہونٹ بھینچ کر ناک چڑھا کر بولی
احمق ۔ میں شیڈ میں کھڑی ہو لیتی اب خود بھیگتا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سارا دن اکیلے کمرے میں بند رہ رہ کر وہ عاجز آگئ تھئ۔ بیزاری سے اپنے چھوٹے کمرے میں چیزیں ادھر سے ادھر کرنے کے باوجود بھئ جب وقت کٹ کے نا دیا تو وہ اپر پہنتی باہر نکل آئی۔ باہر کمپائونڈ میں آکر احساس ہوا تھا کہ اتنے چھوٹے تنگ کمرے میں وہ باہر کے موسم کی شدت کا ایک فیصد بھئ نہیں پا رہی تھی۔ پوری سڑک گیلی تھی۔ شائد بارش ہو کر رکی تھی ۔اتنی شدید برفانی ہوا چل رہی تھی کہ وہ بے ساختہ جھر جھری سی لیکر رہ گئ۔ ایک پل کو سوچا پلٹ جائے مگر ہمت نہ تھی دوبارہ اس قبر نما کمرے میں جانے کی سو قریبی سیون الیون چلی آئی۔ نوڈلز سوپ بڑے شوق سے بنا کرکھانے بیٹھی ہی تھی کہ ابکائی سی آئی۔پہلی دوسری۔ اس نے سوپ ایک طرف کردیا۔دل بری طرح متلا رہا تھا۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ اسٹور سے نکل کر سیدھا گوشی وون جانا چاہ رہی تھی مگر فاصلہ میلوں پر محیط ہو گیا جیسے۔
یا خدا۔۔ اسکا سر بری طرح چکرا گیا اس سے قبل کہ وہ چکرا کر وہیں سڑک پر ڈھیر ہو جاتی کسی نے بے حد نرمی سے اسے تھام لیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایڈون اسے سہارا دے کر آسکے کمرے تک لایا تھا۔
تمہیں کہا تو ہے جو چاہیئے ہوا کرے مجھے بتا دیا کرو۔ ابھی باہر گر جاتیں تو؟ اتفاقا ہی میری نظر پڑ گئ ورنہ۔۔۔
ایڈون اسے ڈانٹ رہا تھا مگر انداز میں فکر تھی۔اسے ڈورم کی تنگ راہداری مزید تنگ لگنے لگی۔ اگر باہر موسم سرد محسوس ہو رہا تھا تو اندر یہاں گرمی لگنے لگی تھی۔ سر ابھئ بھی چکرا رہا تھا ۔۔
بیڈ پر بیٹھتے ہی اسے کمرے کی گھٹن اور گرمی بے حد محسوس ہو نے لگی تھی۔
میرا دم گھٹ رہا ہے مجھے باہر جانا ہے۔
وہ فورا اٹھ کھڑی ہوئی۔ ایڈون اسے بس دیکھ کر رہ گیا
مجھے شدید گرمی لگ رہی ہے۔سانس بھی ٹھیک سے نہیں آرہا۔
اسے ایڈون کا دیکھنا محسوس ہوا تھا جبھی اپنی کیفیت بتاتے روہانسی سی ہوگئ۔
باہر اچھی خاصی ٹھنڈ ہے۔ کم از کم کچھ گرم کپڑے تو پہن لو۔
وہ خود جیکٹ پہنے تھا اسکے کہنے پر اس نے فورا اپنے اٹیچئ کی جانب ہاتھ بڑھایا پھر کچھ سوچ کر رک سی گئ۔
اسکے پاس گرم کپڑے نہیں تھے۔ ایک آدھ سوئٹر بھی نہیں۔یہی سوچا تھا جب سردیاں آئیں گی تو یہیں سے لے لے گی۔ اسے متذبزب دیکھ کر ایڈون نے گہری سانس بھری۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایڈون اسے قریبی عوامی پارک لیکر آیا تھا۔ اپنی جیکٹ اسے پہنا کر وہ خود اس وقت بس ایک اپر میں ملبوس تھا جو سردی کیلئے ناکافی تھا جبھی ہڈ بھی سر پر چڑھا لیا تھا۔ اسے بھئ جیکٹ پہن کر بھئ سردی لگ رہی تھی ۔ سرد ہوا نے طبیعت پر اچھا اثر ڈالا تھا۔ اسکا موڈ خوشگوار ہونے لگا
اس اتوار چلنا کچھ گرم کپڑے لے لینا۔یہاں برفباری ہوتی ہے برفبارئ سے قبل کا موسم بھی تمہاری برداشت سے ذیادہ سرد ہوگا۔
سرخ ہوتی ناک کو ٹشو سے پونچھتے ایڈون نے اسکے چہرے کے خوشگوار تاثرات کو تھوڑا حیرانی سے دیکھا تھا۔
ایڈون مجھے پینگ دو گے ؟
جھولے دیکھ کر اسکا بے ساختہ پینگ لینے کو دل کرنے لگا۔ اسکی بات تو شائد اس نے غور سے سنی بھی نہ تھی۔ بچوں کی طرح ٹھنک کر فرمائش کرنے لگی۔
ایڈون بنا چوں چراں کئے اسکے ساتھ جھولے کی جانب چل پڑا۔ وہ احتیاط سے سنبھل کر بیٹھ گئ تو وہ دھیرے دھیرے پینگ دینے لگا۔
کتنے عرصے کے بعد جھولے پر بیٹھی ہوں۔نانو کے جھولا جھولا تھا آخرئ بار یاد ہے انہوں نے خاص ہمارے لیئے برآمدے میں جھولا ڈالا تھا۔ میں اور تم تپتی دوپہر میں بھی جھولا جھولتے رہتے تھے۔
سرد ہوا میں گہری سانس بھر کر وہ خوش سی ہو گئ تھی۔ چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ در آئی ۔۔ بچپن کی یادیں ذہن پر دستک دینے لگیں۔
ہمم۔۔ ایڈون مختصرا بولا۔
تم کتنی اونچی پینگ دیتے تھے میری چیخیں نکل جاتی تھیں۔
مگر مزا بھی بڑا آتا تھا لگتا تھا آسمان چھو لوں گی اتنی اونچی پینگ لی ہے۔۔
اسے یاد آیا۔
آسمان؟ ایڈون ہنسا
تم ڈرپوک ذیادہ تھیں۔ورنہ وہ اس جھولے سے چھوٹا ہی تھا۔
ایڈون نے جتایا تو وہ خفیف سی ہوگئ
مگر تم ہمیشہ سے ہی بہادر تھے۔ کھڑے ہو کر جھولا لیتے تھے۔میں سوچتی تھی تم مجھے سے دو سال بڑے ہو نا اسلیئے بہادر ہو۔ میں بھی جب بڑی ہوں گی تو ایسے ہی کھڑے ہو کر جھولا لیا کروں گی اور مجھے ڈر بھی نہیں لگے گا۔
وہ ہنس پڑی۔
کبھی کھڑےہو کرپینگ لی بڑے ہونے کے بعد ؟
وہ اب ایڈون سے پوچھ رہی تھی۔
نہیں۔ ایڈون کو بہت زور کی جمائی آئی تھی۔
ہمیں لگتا ہے ہم بڑے ہو کر بہادر ہوجائیں گے جبکہ بڑے ہو کر مزید ڈرپوک ہو جاتے ہیں۔ ویسے تم بچپن میں تو میرے چیخنے منتیں کرنے پر بھی آہستہ پینگ نہیں دیتے تھے اب تو بس ہلا رہے ہو جھولا۔۔
وہ پیر اونچے کیئے تھک گئ۔تو مڑ کر خفگی بھرے انداز میں بولی
ابھئ تو الٹی چکر آرہے تھے اب اونچی پینگ چاہیئے۔ اول تو تمہیں جھولا ہی نہیں جھولنا چاہیئے کوئی مزید کھڑاگ نہ کھڑا کردینا۔ آگے ہی پولیس میں تصویر لگوا دی ہے میری کچھ ہو ہوا گیا تو شامت پکی ہے۔۔
وہ جتانا چاہتا نہیں تھا مگر منہ سے پھسل گیا۔ یہ بھی سچ ہے اسکا دل کافئ دکھا ہوا تھا۔شائد وہ کھل کر معزرت کر لیتی تو دل صاف ہو جاتا ۔
سنتھیا چپ سی رہ گئی۔ ایڈون کو بھی احساس ہوا کہ ذیادہ بول گیا سو سنبھل کر بات بدلنی چاہی
اب بہتر ہوگئ ہے طبیعت تو گھر چلومجھے صبح جلدی اٹھ کر انٹرویو دینے جانا ہے ۔۔
اسکے جملے تیر کی طرح لگے تھے اسے چٹخ کر بولی
تمہیں لگ رہا میں مکر کر رہی؟ میری واقعی طبیعت خراب تھی۔ میرا سچ مچ دل گھبرا رہا تھا۔
اب تو ٹھیک ہو گیا نا ؟ اب تو گھر چلو مجھے شدید نیند آرہی ہے صبح آٹھ بجے کا اٹھا ہوا ہوں۔
ایڈون زچ سا ہو رہا تھا۔وہ ہونٹ بھینچ کر اٹھ کھڑی ہوئی
چلو۔
اسکا انداز خفا خفا سا ہی تھا۔ اس وقت منانے کا مطلب اگلا آدھا پونا گھنٹہ مزید یہیں گزرنا تھا سو جان کے نظر انداز کردیا۔ گوشی وون تک وہ بالکل خاموشی سے آئی۔ ایڈون اپنے کمرے کے سامنے رک گیا تھا۔وہ سیدھا اپنے کمرے میں چلی آئی۔ کمرے میں آکر جیکٹ اتار کر رکھنے لگی تو اتارنے میں جیب میں کوئی ریپر چرمرایا اس نے بے تابی سے جیب میں ہاتھ ڈالا وہ چھوٹی سی چاکلیٹ تھی۔ اس نے نعمت غیر مترقبہ سمجھ کر جھٹ نکال لی پہلا لقمہ ہی لیا تھا کہ ایڈون نے دروازہ کھول لیا۔
ابھی بھئ لاک نہیں کیا کمرہ کب۔۔
وہ بڑبڑاتا داخل ہوا تھا اس پر نگاہ پڑی تو جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
وہ اپنی جیکٹ لینے آیا تھا۔ وہ مربھکوں کی طرح چاکلیٹ کھا رہی تھئ۔ شرمندہ سئ ہوگئ۔
وہ مجھے ۔۔ بھ۔ اس سے بھی جملہ مکمل نہ ہوسکا۔سر جھکا لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے انسٹنٹ نوڈلز بھاپ اڑاتے اسکے سامنے لا کر رکھے تھے۔ تین چار سیب کا پیکٹ اور کیک رس۔
انسٹںٹ نوڈلز کو وہ بے چارگی سے دیکھ کر رہ گئ تھی۔
ذیادہ اس لیئے نہیں لایا ہوں کہ فریج تو ہے نہیں خراب ہو جائیں گے۔ اس نے ایک جملہ کہنے میں دو بار جمائی لی تھی۔ وہ جو کہنے جا رہی تھی موسم توسرد ہو چکا ہے ایکدم چپ کر گئ۔
اچھا میں چلتا ہوں لاک کر لینا۔۔ وہ منہ پر ہاتھ رکھتا مڑ گیا تھا۔ جیکٹ پہنے گرم ٹوپی سر پر ٹکائے۔
خدا حافظ۔ اس کے منہ سے اتنی مدھم آواز نکلی تھی کہ شائد ایڈون نے سنی بھئ نہ ہو۔ شدید بھوک لگ رہی تھی اور نوڈلز تو اسے کبھی پسند نہ رہے تھے ۔ جب سے کوریا آئی تھی اتنے نوڈلز کھائے کہ مزید ناپسند ہو گئے۔ بھوک لیکن ظالم شے ہے۔ چند لمحے بھاپ اڑاتے نوڈلز کے پیالے کو دیکھتے ہوئے آہ بھر کر نوالہ لینا پڑا۔ بے تابئ سے پیالے سے کئی لقمے لے ڈالے۔۔۔ تبھی کھڑکی کا کھلا پٹ ہوا سے ہلا تھا۔ وہ پیالہ کارنس پر ٹکاتی کھڑکی میں آن کھڑی ہوئی۔ باہر یکا ئک موسم بدلا تھا۔ تیزہوا کے ساتھ بارش کی تیز پھواریں۔ لمحوں میں سڑک جل تھل ہو گئ تھی۔ اسکی آنکھیں بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے کمپائوںڈ میں ڈراپ کرکے وہ تیزی سے گاڑی نکال لے گیا تھا۔ سارا راستہ ان میں کوئی بات نہ ہوئی تھی۔ وہ تھکے تھکے قدم اٹھاتی اپارٹمنٹ میں آئی تھی۔ گوارا کچن میں کھڑی برتن دھو رہی تھی۔
ہوپ نہیں آئی؟ گوارا نے اس سے پوچھا تھا۔
نہیں میں تو ہایون کے ساتھ آئی ہوں۔
وہ جوتے بدلتی اندر چلی آئی۔
لو مجھے تو کہہ رہی تھی میں اریزہ کولینے جا رہی ہوں۔ میں نے فون کیا تھا اگر وہ نہ لینے جائے تو میں تمہیں لینے آجائوں۔
گوارا کی۔بات پر وہ کمرے کا ہینڈل کھولتے کھولتے رکی۔
کیوں میں چھوٹی بچی ہوں کیا خود نہیں آسکتی ؟
وہ بلا وجہ چڑی
تم بچی نہیں ہو مگر بچوں کی طرح راستوں سے بے نیاز میرے ساتھ چلتی ہو اتنے دن میرے ساتھ یونی گئ ہو عادت جان گئ ہوں میں تمہاری شرط لگاکے کہتی ہوں تم اتنے دن جانے کے باجود یونیورسٹی اکیلے میٹرو سے نہیں جا سکتیں تمہیں روٹ ہی یاد نہیں ہوگا۔
گوارا کا انداز مزاق اڑانے والا نہیں تھا۔ وہ ٹھنڈی سانس بھر کے اسکے پاس چلی آئی۔
واقعی۔ میں اتنئ احمق کیوں ہوں۔
احمق نہیں پیمپرڈ ہو۔
گوارا نے اسکی پیشانی پر ٹھونگا بجایا۔۔
پھر پریشان ہو کر بولی۔
یہ کیا تم تو پوری بھیگی ہوئی ہو جائو فورا کپڑے بدلو۔
مروگی سردی میں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہا کر کپڑے بدل کر نکلی تو ہوپ بستر پر دراز نظر آئی۔
کافی پیو گی؟
اس نے پوچھا مگر ہوپ نے جواب نہ دیا یونہی ساکت پڑی رہی۔ وہ کندھے اچکا کر باہر نکل آئی۔
گوارا کمچی نکال کر ریمن بنانے لگی تھی۔ وہ انسٹںٹ کافی کا ساشے نکالنے لگی۔
کھانا نہیں کھائو گی ؟ بریانی رکھی ہے۔
گوارا کو اب اسکی بھوک کی فکر ہوئی۔
ایک تو تمہیں نخرے اٹھانے والے فورا مل جاتے ہیں۔ مجھ سے خالو سے تو چلو بنتا یہ سنتھیا او رایڈون تک ماں باپ والا خیال کیوں رکھتے ہیں تمہارا۔
صارم اسکو کندھا مار کر بولا۔
جوابا وہ چمک کر بولی۔
تو تم کیوں جلتے ہو۔چلو ہیں تو سہی میرا خیال رکھنے والے ورنہ تم نے میری اماں پر قبضہ کر رکھا ہے ان سب کی بجائے ایک میری اماں مجھ سے رتی برابر لاڈ کر لیتیں نا تو
گوارا نے پیچھے سے آکر ہلکی سی دھپ لگائی تھی اسکی پشت پر۔۔
کھانا کھا لو لڑکی کہاں گم ہو
ہوں۔ نہیں ابھی بھوک نہیں۔
وہ چونک کے حال میں واپس آئی اور اپنا کافی کا کپ بنانے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ٹیرس کے شیڈ کے نیچے سکون سے گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹے بیٹھی سامنے برستی بارش دیکھ رہی تھی۔
اتنا بھیگ کے آئی ہو اب یہاں سردی میں بارش دیکھنے بیٹھ گئیں۔پکا خودکشی کا پروگرام ہے۔ کہو تو گلا دبا دوں۔۔
گوارا فل سائز پیالہ بھرے ریمن بنا کر لائی تھی۔ اسے سردی سے ڈراتی خود بھئ اسکے برابر آن بیٹھی تھی۔ پیالہ ایک طرف رکھ کراسکی گردن پر ہیڈ لاک لگا دیا
چھڑانے کی کوشش کرتی وہ پھڑپھڑا کر رہ گئ پھر جل کر گالی دے دی۔
کمینی۔
گوارا جیسے شاد ہوگئ گالی سن کے لہک کے دہرایا
کمینی۔۔ پھر سر ہلا کر بولی
پہلا لفظ سیکھنے لگی ہوں اردو کا اور مجھے پکا یقین ہے اسکے معنی اچھے نہیں یہ کوئی گالی ہے ہے نا۔
وہ تائید چاہنے والے انداز میں پوچھ رہی تھی۔ اریزہ کو ہنسی آگئ۔
آنی۔ اسکا مطلب ہے اچھی لڑکی۔
اس نے چکمہ دینا چاہا۔ گوارا حسب عادت سڑک سڑک کر نوڈلز سے منہ بھر چکی تھی۔ چبا کر نگلنے کئ درمیان مشکل سے وقت نکال کر بولی
اچھی لڑکی کا متضاد کمینی لڑکی۔ تو اس گالی کا مطلب ہے کمینی۔ ہے نا۔
گوارا کا ذہن بہت چلتا ہے۔ اسے ماننا پڑا۔ ہنس کر سر ہلا گئ۔
گوارا تکا درست لگنے پر خوش ہوگئ۔
ایسے ہی تو نہیں میں کہتی گوارا کے جی میں جینیئس کا عنصر ہے۔ میرے نام میں ہی جینئس پن ہے۔
کب کہتی ہو ایسا۔ اریزہ نے کان سے پکڑا۔
اکثر اب غور کرنا۔ وہ ڈھٹائی سےآنکھ مار کر ہنسی۔
اف مجھے بھی بارش بہت پسند ہے۔ پتہ ہے بارش میں میرا دل مچل مچل جاتا ہے نوڈلز کھانے کو اور ساتھ سوجو ہو تو کیا ہی بات۔ مگر بدقسمتی سےسوجو ختم ہے مگر ریمن اف۔۔ اخیر حد کی لذیز ہے زندگی اس وقت میرے لیئے۔
گوارا کے کہنے پر اسے خوشگوار حیرت ہوئی تھی۔
مجھے بھئ ۔ سنتھیا تو اتنا مزاق اڑاتی تھی کہتی تھی کیسی لڑکی ہو بارش میں پکوڑے کھائے جاتے ہیں۔
گلگلے تلے جاتے ہیں او رتم نوڈلز چبانے کی شوقین ہو۔ مجھے کبھی بھی بہت گلے ہوئے نوڈلز نہیں پسند ۔ ربڑ جیسے چبانے پڑیں ویسے پسند ہیں۔
اریزہ کے کہنے پر گوارا نے حیرت سے دیکھا۔
میں کبھی ریمن ذیادہ نہیں گلاتی چبانے والے اچھے لگتے ہیں ۔۔
یہ دیکھو۔ اس نے پیالہ اریزہ کی جانب بڑھایا۔
وہ بے دھیانی میں اسکی چاپ اسٹکس کی جانب ہاتھ بڑھانے لگی تھئ کہ ایکدم خیال آیا۔ پھر اسکی چاپ اسٹکس سے تھوڑے سے نوڈلز اٹھا کر واپس رکھ کر نارمل سے انداز میں بولی
ہاں واقعی۔ تمہارے نوڈلز لجلجے (soggy) سے نہیں ہوئے نوڈلز۔
کھا کر دیکھتیں نا۔ گوارا نے اصرار کیا
میں کھانا کھا چکی ہوں تم کھائو۔
اس نے سہولت سے انکار کیا۔ تو گوارا اسے پرسوچ سے انداز میں دیکھنے لگی۔
تم کبھی ہماری پلیٹ سے کھانا نہیں لیتیں تمہیں لگتا ہم کچھ غلط سلط کھاتے ہیں؟
اسے شائد برا لگ گیا تھا اریزہ کو اپنی بے اختیاری پر افسوس ہوا۔ انجانے میں اسکا دل دکھا دیا تھا شائد۔
نہیں یار ایسی بات نہیں۔ بس گوشت حرام ہوتا ہے نا اسلیئے احتیاط کرتی ہوں۔
مانا سور حرام ہے مگر یہ ریمن چکن فلیور ہے ۔اریزہ یہ تو چکھ سکتی ہو۔ مجھے تمہارے اصول سمجھ نہیں آتے ۔نوڈلز پسند ہیں تمہیں پھر بھی انکو کھانے سے انکار کر رہی ہو۔ حالانکہ چکن فلیور ہے یہ
گوارا کے کہنے پر وہ چند لمحے اسے دیکھنے لگی۔
جانے دو ۔
اس نے سر جھٹکا اورکھانے لگئ۔
یقینا وہ بھی خفا ہونے لگی تھی۔ اتنی سی بات پر؟ اریزہ کو افسوس ہوا۔
تمہیں پتہ ہے کوریا میں موسم نے رخ بدلا ہے۔ بارشوں میں سات فیصد تک کمی آئی ہے۔۔ ایسا چلتا رہا تو جانے اگلے چند برسوں میں کتنی موسمیاتی تبدیلی آجائے۔
وہ فکرمند سے انداز میں کہہ رہی تھی۔ اریزہ نے گردن موڑ کر اسکی شکل دیکھی۔ خفگی کا دور تک شائبہ نہ تھا وہ بالکل آرام سے اگلا موضوع شروع کر چکی تھی۔۔
ہمارے گائوں میں بارش ہوتی ہے نا تو۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے شہر میں بارش ہوتی ہے جب بھی۔۔
میرے شہر میں بارش ہوتی ہے جب بھی۔۔
میرا تکیہ بھیگ جاتا ہے۔۔۔۔
سنتھیا اسکے بیڈ پر دراز موبائل استعمال کررہی تھی۔ کہ شعر وارد ہوا جھوم کے شاعرانہ انداز میں تکیہ کھینچ کر اس کو آغوش میں دبوچ کر آنکھیں میچ کر بولی۔
تو بارش سے قبل بستر اٹھا لیتیں نا پھوہڑ ۔
اریزہ اپنے کمرے کی بڑی سی فرنچ ونڈو میں بیٹھی ٹیرس کا نظارہ کرتی آنکھیں میچ کر بولی تھی۔ اس کھڑکی میں اس نے بابا سے کہہ کر چبوترہ بنوایا تھا جس پر نرم آرام دہ کائوچ سا بنا ہوا تھا۔ یہ اسکی پسندیدہ جگہ تھی بیٹھنے کی کشن سے کمر ٹکائے وہ دونوں سہیلیاں گھنٹوں یہاں بیٹھ کر باتیں کیا کرتی تھیں۔
سنتھیا نے اسکے بیڈ پر رکھا کشن اٹھا کر اسے دے مارااور دانت پیس کر بولی۔
شعر تھا یہ میرا۔۔ ٹانگ توڑ دی میرے شعر کی۔
بے وزن تھا۔
کشن کا وار کڑا تھا سیدھا سر پر لگا تھا سو بدلا فرض ٹھہرا گھور کر بے نیازی سے بولی۔
سارا وزن تمہارے پاس جو ہے میرا شعر تو بھوکا مررہا ہے۔ کوئی پکوڑے شکوڑے ہی بنا دو۔۔بھوک لگ رہی ہے۔
سنتھیا کونسا کم تھی۔ فورا بدلا لیا۔
ہاں تو جائو نیچے کچن ہے دل بھر کر پکوڑے بنانا اور میرے لیئے دو نوڈلز کے پیکٹ بھی بنا لانا۔ اور سنو ذیادہ نا گلانا۔ چبانے والے ہوں بس۔
اریزہ کے حکم شاہی پر اسکی آنکھیں ابل پڑیں ۔
میں مہمان ہوں تمہارے گھر آئی ہوں شرم کر لو بجائے اسکے کہ میری خاطر مدارت کرو الٹا مجھ سے فرمائشیں کر رہی ہو۔۔
ہاں تو تمہیں غیر تھوڑی سمجھتی ہوں میں۔ بنا لائو نا نوڈلز بہن نہیں ہو۔ چھوٹی بہن ہو نا میری۔
اریزہ نے منت بھرے انداز میں کہا تو وہ اسے دیکھ کر رہ گئ۔
ایک پیکٹ بنائوں گئ۔ ایک کافی ہوتا ہے نرا فیٹ ہوتے ہیں نوڈلز۔
اس نے وارننگ دینے والے انداز میں کہا۔
اچھا اچھا ایک ہی بنا لائو بارش ختم ہونے سے قبل۔
اریزہ کی اگلی ہدایت تیار تھئ۔
دنیا بارش میں پکوڑے کھاتی ہے گلگلے تلتی ہے ایک تم ہو نوڈلز چبانے کی شوقین۔
ہائے بارش میں نوڈلز کتنا مزا دیتے تم کیا جانو۔ میرا دوسرا پیار ہیں نوڈلز۔۔
وہ جھوم کر بولی۔ تو سنتھیا جو چپل پہن رہی تھی چونکی
دوسرا؟ پہلا کون ہے بھئ؟
میرا پہلا پیار ہیں۔بارشیں دل کرتا بس ہوتی رہیں ہوتی رہیں میں دیکھتئ رہوں ۔۔
اس نے لمحے بھر کا بھی توقف نہ کیا تھا جواب دینے میں۔
ایک ہفتے سے تو لگاتار ہو رہی ہیں۔اور کتنی بارشیں کروانی ہیں۔اور ابھئ تو جتنی تیز ہو رہی ہے نا اس سے نالہ لئی ابل جاناہے۔
سنتھیا کو بھی بارش پسند تھی مگر اریزہ جتنی جنونی نہ تھی۔ ابھئ بھی اسکا مزاق اڑاتی اسکے برابر آن بیٹھی بڑی فکر ہے نالے کی۔ جیسے تم تو نالہ لئ کے اوپر رہتی ہو۔
اریزہ نے گھورا۔
ہاں تو اسکے ارد گرد رہنے والے بھی تو میرے تمہارے جیسے انسان ہیں کتنی مصیبت اٹھانی پڑتی ہوگی انہیں۔۔
سنتھیا نے کہا تو چھیڑنے کیلئے تھا مگر اریزہ سنجیدہ ہوگئ
واقعی۔۔ یہ تو سوچا ہی نہیں تھا میں نے۔ ۔ بس اب اور بارش نہ ہو اللہ کرے۔
جھٹ دونوں ہتھیلیاں پھیلا کر دعا مانگنے لگی۔
کیا چیز ہو تم اریزہ۔ جیسے دعا کرنے سے فورا رک جائے گی۔ ایڈی تسی لاڈلی آسمان والوں کی۔
سنتھیا کی اسکو دیکھ کر ہنسی چھوٹ گئ۔ وہ اسکا مزاق اڑا رہی تھی۔
اریزہ ہتھیلیاں نیچے کرکے غور سے باہر جھانکنے لگی۔
بارش تواتر سے برس رہی تھی۔
اسکے چہرے پر واضح مایوسی چھانے لگی۔
واقعی بارش تو رکنے والی نہیں لگ رہی۔نالہ لئی ابل جائے گا۔
توبہ ہے اریزہ اب اداس نہ ہو جانا ویسے ہی کہا تھا۔ ایک تو تم فورا ہی ایمو ہو جاتی ہو۔
سنتھیا کو اپنے مزاق پر افسوس ہوا۔ تو آگے ہو کر اسکے گلے میں بانہیں ڈال لیں۔مگر اریزہ کا قنوطی موڈ آن ہوچکا تھا۔ یاسیت سے بولی
نہیں یار واقعی۔ میں تو یہاں سکون سے گھر میں بیٹھی بارش کے مزے لے رہی جانے کتنے لوگوں کو اس بارش سے یہ پریشانی ہو رہی ہوگی کہ انکے گھر پانی نہ آجائے۔ اور۔
خدا کا واسطہ ہے۔ ہر چیز کو اتنی گہرائی سے سوچنا چھوڑدو۔ زندگئ ایسے نہیں گزرتی۔ ہر وقت دوسروں کی فکر میں رہو گی تو خود خوش کب ہو پائو گئ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہے۔۔
گوارا نے اسکی بے توجہی محسوس کرکے ہلایا۔تو وہ چونک اٹھی۔
تم نے نہیں سنا نا میں نے کیا قصہ سنایا ؟
گوارا کو یقین تھا۔اس نےشرمندگی سے سر ہلایا۔
بکواس سا ہی قصہ تھا جانے دو۔ تم کس کے بارے میں سوچ رہی تھیں۔
وہ مائل بہ شرارت ہوئئ۔
سنتھیا۔ اس نے بلا توقف کہا تھا۔گوارا چپ ہی رہ گئ۔
مجھے یاد آرہی ہے وہ۔ مگر اسے کیا میں بالکل یاد نہیں آتی؟
اسے جیسے دکھ ہو رہا تھا۔
تم مل لو جا کے اس سے ۔ مجھے ویسے حیرت ہورہی ہے وہ لڑکی دیکھتے ہی دیکھتے بدلی ہے۔ کہاں تو تم دونوں میں اتنا پیار تھا کہ میں اور جی ہائے حیران ہوتے تھے اور۔
گوارا کے کہنے پر وہ بھی جوابا بات کاٹ کے پوچھ بیٹھی۔
جی ہائے یاد نہیں آتی تمہیں؟
آتی ہے۔ گوارا نے بھی بلا توقف جواب دیا۔
تم نے اسے منانے کی کوشش بھی نہ کی ؟
اریزہ کرید رہی تھئ۔
کی تھی۔ مگر وہ مجھ سے بات تب کرے گی جب میں تمہیں اس گھر سے نکل جانے کا کہوں گی۔ یہ اس نے شرط رکھی ہے جو ظاہر ہے میں نہیں مانوں گی۔
اسکا انداز قطعی تھا۔
تم مجھے چھوڑ سکتی تھیں وہ تمہاری پرانی دوست ہے۔
اریزہ کے کہنے پر اس نے بغور اسے دیکھا۔ پھر جتا کر بولی۔
دوست نیا پرانا نہیں پرخلوص ہوتا ہے۔
گوارا کے کہنے پر وہ چپ سی ہوگئ۔
ویسے سنتھیا تمہیں کیوں یاد آرہی؟ اس دن ایڈون بھی آیا تھا ملنے سے اس نے کچھ کہا کیا؟
گوارا کو لگا تھا وہ خود ہی اسے بتا دے گی مگر اس کا ایسا ارادہ نہ تھا شائد جبھی پوچھ لیا۔
اریزہ برستی بارش پر نگاہیں جمائے بیٹھی تھی۔ وہ خالی پیالہ لیکر اٹھ کھڑی ہوئی ۔ اندر جانے کو مڑی تب اسے پیچھے سے اریزہ کی آواز آئی۔
ایڈون چاہتا ہے میں سنتھیا کو منائوں کہ وہ ابارشن کروالے۔
کیا ؟
اسکے منہ سے حیرت بھری چیخ سی برآمد ہوئی تھی۔
کیوں ؟ وے؟
یہ تو انکا پہلا بچہ ہے نا ؟ کیسے سوچ سکتا ہے وہ ایسا۔۔
گوارا کے پے در پے سوال وہ حیران ہی تو رہ گئ۔ اسکا ردعمل بالکل غیر متوقع تھا۔
تمہیں پتہ تھا اس بات کا کیسے؟؟؟
اریزہ یہیں اٹک گئ۔۔
گوارا نے کندھے اچکائے۔
ہاں یون بن نے بتایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسنوکر لگا ہوا تھا اس نے سیدھا نشانہ لیا تھا۔ سفید بال ہایون کی ہاف بال کو اچھال کر دور کرتی راستہ بناتی سیدھا میز کی جیب میں گئ تھی۔کوئی اور موقع ہوتا تو ہایون نے شور ڈال دینا تھا مگر اس وقت بظاہر میز پر ہی نظر جمائے وہ مکمل طور پر کہیں اور گم تھا
یون بن نے اسکی بے توجہی محسوس کرکے فورا فائدہ اٹھایا اور اپنی دو تین گیندیں سیدھی غائب کر لیں۔
تم ہار گئے ہایون۔
کم سن جو سوجو پیتے ہوئے سکون سے کائوچ پر دراز میچ دیکھ رہا تھا یون بن کی آواز پر چونک کر مڑا۔
ہیں واقعی؟
دے ؟ ہایون چونکا پھر مسکرا کر سر ہلاتا ہوا کم سن کے پاس آن بیٹھا۔
سامنے میز پر سوجو اور ووڈکا رکھے تھے۔ اس نے سوجو بھر کر گلاس منہ کو لگا لیا۔
تم واقعی ہار گئے؟ یقینا یون بن نے بے ایمانی کی ہوگی۔
کم سن حیرت کے مارے اٹھ بیٹھا ۔ یون بن دانت نکالتا انکے پاس فلور کشن گھسیٹ کر بیٹھتے ہوئے کندھے اچکا کر بولا
میں ماہر ہوتا جا رہا ہوں۔ تم یہ بھی کہہ سکتے تھے۔
نہیں تمہیں میں کبھی یہ نہیں کہہ سکتا۔ بچپن سے آج تک تم کسی چیز میں ماہر نہیں ہو نا بن سکتے ہو کیونکہ تمہیں سوائے لڑکیوں کے کسی چیز میں دل لگانے کی عادت ہی نہیں ہے۔
کم سن نے ناک چڑھا کر کہا تو یون بن نے کھل کر قہقہہ لگایا۔
بات تو سچ ہے۔مگر یہ ہمارا چیمپئین کہاں کھوتا جا رہا ہے؟ مجھے لگ رہا ہے اسکو بھی کسی سے پیار ہوتا جا رہا ہے۔
وہ آنکھیں مٹکا کر قافیہ ملا کر بولا۔
ہایون نے ایک نظر اسے دیکھا پھر گلاس بھرنے لگا۔
ڈرائیو کرنا ہے ابھی تمہیں۔
کم سن نے اسکا ہاتھ تھام لیا۔ وہ رک بھی گیا۔ ہاتھ میں تھاما جام واپس میز پر رکھ دیا۔
میں ویسے ہایون پر رشک کرتا ہوں۔ کتنا سیلف کنڑول ہے اس میں۔ کوئی شراب ہاتھ سے رکھ سکتا ہے بھلا وہ بھی کسی کے کہنے پر۔
یون بن اسکا مزاق اڑا رہا تھا سراسر
میرے کہنے پر ہر کسی کو یہ اعزاز حاصل بھی نہیں ہو سکتا۔
کم سن نے جتایا۔
میں تو گوارا بھئ اگر میرے ہاتھ میں آیا جام واپس رکھنے کو کہے تو نہیں رک سکتا۔ فی الحال اس سے ذیادہ اہم اور محبوب میری زندگی میں اور کوئی نہیں۔
وہ کندھے اچکا کر اپنے لیئے جام بنانے لگا۔۔
ایڈون جاب کیلئے کہہ رہا تھا تمہارے دفتر میں کوئی سین بن سکتا ہے اسکا ؟
یون بن نے کہا تو کم سن سوچ میں پڑا۔
ہاں چاہیئے تو ہیں۔ اس سے کہنا آکر مل لے۔ وہ کر کیا رہا ہے آجکل۔ ؟
پھنسا ہوا ہے اپنے مسلئوں میں دو جابز کر رہا ہے مگر پیسے کم پڑ رہے ہیں۔۔
یون بن سرسری سے انداز میں ذکر کر رہا تھا۔
ایڈون کو بھی واپس چلا جانا چاہیئے تھا۔ اور ساتھ اسکی منگیتر کو بھی یہاں انکو دوبارہ ایڈمیشن لیکر نئے سرے سے پڑھائی شروع کرنی ہوگی سالک شاہزیب دونوں اسی لیئے رکے نہیں کہ دو سال ضائع ہو جائیں گے۔
کم سن کے کہنے پر یون بن کچھ کہتے کہتے رکا۔ پھر ہایون کوبغور دیکھتے ہوئے بولا۔
اریزہ بھی تو نہیں گئ۔ اسے کم از کم ضرور چلے جانا چاہئے۔ بے کار میں یہاں وقت ضائع کر رہی ہے۔
کم سن فورا بولا
اریزہ جاب کر رہی ہے ہمارے یہاں۔
ہایون چپ بیٹھا تھا بے تاثر چہرے کے ساتھ وہ اسکے چہرے سے اندازہ نہ لگا سکا۔
مجھے تو لگتا ہے اریزہ ایڈون کی وجہ سے نہیں گئ۔
یون بن کی بات پر ہایون نے چونک کے اسے دیکھا تھا۔
یون بن نے مسکراہٹ چھپانے کو گلاس منہ سے لگا لیا۔
کم سن الجھن آمیز انداز میں دیکھنے لگا۔
کیوں؟ بھلا ۔
کیونکہ اریزہ اور ایڈون ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔
یون بن نے جیسے دھماکا کیا تھا۔ہایون کا رنگ واضح طور پر بدلا تھا۔
کییہہ سوری۔ ( کیا بکواس ہے)
ہایون تپ کر بولا تھا
مجھے ایڈون نے خود بتایا ہے۔ نشے میں دھت ہو کر وہ اریزہ کا نام پکار کر رو رہا تھا۔ شاہزیب بھی ساتھ تھا۔ بول تو وہ اپنی زبان رہا تھا مگر جس طرح شاہزیب نے اسکے منہ پر ہاتھ رکھا اور چپ کرادینا چاہا اس سے میں نے اندازہ لگایا اور یہ بالکل غلط اندازہ نہیں ہے۔
یون بن نے بتایا تو کم سن سر کھجانے لگا۔
اچھا واقعی حیرت ہے۔ سنتھیا کو نہیں پتہ کیا ؟ اگر ایسی بات ہے تو اسے ان دونوں کے بیچ سے ہٹ جانا چاہیئے۔
وہ مزید بھی کچھ کہتا مگر خاصی آواز کے ساتھ
ٹھک کرکے ہایون نے گلاس میز پر خالی کرکے رکھا تھا کہ دونوں خاموش ہو کر اسے دیکھنے لگے۔
میں پہلے جاتا ہوں ۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا
کیا ہوا۔ ہایون؟ چڑھ تو نہیں رہی؟ ڈرائیو کرلوگے؟
کم سن نے ہاتھ تھام کر روکنا چاہا۔
کین چھنا ( ٹھیک ہے) وہ ہاتھ چھڑاتا تیز تیز قدم اٹھانا باہر نکل گیا
اسے کیا ہوا؟ کم سن نے حیران ہو کر یون بن سے پوچھا۔ جوابا وہ بوتل سے اگلا جام بناتے لاپروائئ سے بولا
پیار۔۔ اسکو اریزہ اور ایڈون والی بات ہضم نہیں ہوئی
کم سن نے اسے گھور کر دیکھا۔
یہ جو سب کہانی بنائی ہے خود سے بنائی ہے نا؟
تھوڑی سئ۔ یون بن نے آنکھ ماری۔
کیا چیز ہو تم۔ کیا ضرورت تھی۔ ایویں۔ کم سن سر جھٹک کر اپنا جام اٹھا کر منہ سے لگانے لگا۔
کہانئ میں صرف اتنا میں نے شامل کیا ہے کہ اریزہ بھی ایڈون کو پسند کرتی ہے۔ اریزہ کا پتہ نہیں۔ وہ اگر کرتی بھی ہوگئ تو اپنی سہیلی کے پریگننٹ ہونے کا سن کے پیچھے ہٹ گئ ہوگئ۔ یہ میرا اندازہ۔
اسکی بات ادھوری رہ گئ تھی کیوںکہ کم سن کو اچنبھے کے مارے اچھو ہوا تھا منہ میں بھری شراب کی پھوار نکلی تھی جو سیدھا اسکے منہ پر آئی تھی۔
کیا؟
وہ حیرت کے مارے آنکھیں کھولے گھور رہا تھا۔
کیا کیا ؟ سارے شاک آج ہی لگنے۔ ساری شراب ضائع کردی۔
یون بن اپنے چہرے ہر ہاتھ پھیرتے بھنا رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پولیس اسٹیشن میں بیٹھے اسے اور کوئی نام ذہن میں نہ آسکا ۔ یون بن کو کال کی تو وہ آدھے گھنٹے میں پہنچ گیا تھا۔ اپنے والد کے اثر رسوخ کا استعمال کرکے وہ اسے چھڑا کر ہی اسٹیشن سے نکلا تھا۔ پولیس نے اسے ہر اسپتال کے چکر لگنے پر رپورٹس کی نقل جمع کروانے کی ہدایت دی تھی۔
تمہار ابہت بہت شکریہ۔ میرے ذہن میں مدد کیلئے تمہارے سوا کوئی نام نہ ذہن میں آیا۔
ایڈون کی آواز بھرا رہی تھی۔ یون بن اسے لیکر قریبی کنوینس اسٹور لے آیا تھا۔ اسے باہر کھلی فضا میں بٹھا کر اسکے لیئے سوجو اور ریمن لیکر آیا
ا س نے بھاپ اڑاتے ریمن کو ایک نظر دیکھا تھا پھر سوجو اٹھا لی تھی۔
اگر سنتھیا تیار نہیں تو تم ابارشن کروانا کیوں چاہتے ہو۔؟
یون بن حیران ہوا تھا۔۔
تم پاکستانی معاشرے کو نہیں جانتے۔ یہ بچہ ہم دونوں کیلئے پاکستان داخلہ بند کروادے گا۔ میرے والدین مجھ سے قطع تعلق کرلیں گے۔ سنتھیا کے والدین اسکو اپنا بھی لیں تو بھی میری شامت آجائے گی۔ سب سے بڑھ کر ابھی میری عمر کیا ہے تعلیم ادھوری ہے میں بچے کا کھڑاگ کیسے پال سکتا ہوں وہ بھی ایسا بچہ۔
ایڈون جیسے پھٹ پڑا تھا۔ ایک ایک ممکنہ مسلئہ جو وہ سنتھیا کو سناتا رہا سب اسکے گوش گزار کیا وہ بھی خاموشی سے سنتا رہا۔
کہہ تو صحیح رہے ہو۔ یون بن نے سر ہلایا۔
بہت جلدی ہے۔ سنتھیا نہیں جانتی کیا اپنے اس فیصلے کےمضمرات۔
جانتئ کیوں نہیں ہے۔ بس ضد سوار ہے اسے۔ اس بہانے وہ مجھے عاجز کرنا چاہتی ہے بس۔ اپنی زندگی دائو پر لگا رہی ہے ساتھ میری بھی۔۔
وہ دانت کچکچا رہا تھا۔
میں اور گوارا ہائی اسکول میں تھے جب ایکدن گوارا نے آکر مجھے بتایا تھا کہ وہ ماں بننے والی ہے۔ میں بالکل ایسے تمہاری طرح گھبرایا تھا پریشان ہوا تھا ۔ پھر جب میں نےگوارا کی شکل دیکھی تو وہ مجھ سے بھی ذیادہ گھبرائی پریشان تھی۔ میرے نزدیک سب سے اہم چیز جانتے ہو کیا بن گئ تھئ؟
یون بن نے ریمن کا پیالہ گھسیٹ کر اپنی جانب کر لیا تھا۔ ایڈون سوالیہ نگاہ سے دیکھنے لگا
گوارا کی پریشانئ دور کرنا۔ میں نے اسے گلے لگایا تسلی دلاسے دیئے سمجھایا اتنا کہ وہ مسکرادی۔اسے لگنے لگا اسکی ساری پریشانئ میں نے اپنے سر لے لی ہے۔
وہ نوڈلز سے منہ بھر کے چبا رہا تھا۔ اچھا خاصا بد تمیزی سے کھاتا یون بن ساتھ بول بھئ رہا تھا۔ ایڈون نے اسے دیکھ کر سرجھٹکا۔
کروایا تو ابارشن ہی نا بن رہا ہے سادھو۔
اس نے سوچا تھا۔
ہم اکٹھے کلینک گئے تھے ٹیسٹ ہوئے اور نتیجہ آنے میں دو دن لگے۔ ہمیں پتہ لگا کہ گوارا کا محض یہ اندازہ تھا اور وہ پریگننٹ نہیں تھی۔
ہم کافئ احمق تھے چند سال قبل تک۔ وہ ہنسا۔
ان دو دنوں میں ہم نے اپنے بچے کی شادی تک بھئ سوچ لی تھی اور ابارشن کا فیصلہ بھی لے لیا تھا۔
ایڈون اس بار چونک کے دیکھنے لگا تھا۔ یون بن مسکرادیا۔
محبت سے منائو گے تو مان جائے گئ ۔۔
نہیں اریزہ کبھئ نہیں مانے گی۔ ایڈون روانی میں بولا پھر ٹھٹک کر درستگی گی
سنتھیا نہیں مان رہی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایڈون نے گہری سانس لی۔ اور اٹھ بیٹھا۔ چند لمحے سوچنے کے بعد اٹھ گیا۔ رخ سنتھیا کے کمرے کی جانب ہی تھا۔ اس نے ہینڈل گھمایا تو دروازہ کھلتا گیا۔ اس احمق لڑکی نے پھر لاک نہیں کیا تھا۔ کھڑکی کی چوکھٹ پر کہنیاں ٹکائے باہر جھانکتی وہ دھیرے سے دروازہ بند کرتا اسکے پیچھے آن کھڑا ہوا تو احساس ہوا بے آواز رو بھی رہی تھی۔چوکھٹ پر دھرا اسکا سانولا ہاتھ بارش کی پھوار سے نم ہورہا تھا مگر وہ بے حس سی دنیا و مافیہا سے بے خبر کھڑی تھی۔ اسکی آمد کا جانے احساس ہی نہ ہوا تھا یا نظر انداز کر گئ تھی۔ اس نے مگر اسکےلرزتے وجود کو بہت احتیاط سے اپنی بانہوں میں لے لیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں زندگئ بھر صبح دوپہر شام بریانی کھا سکتی ہوں۔
اسے یاد تھا ایک دن ترنگ میں آکر اس نے صارم سے کہا تھا
اس وقت ناشتے کی میز پر بیٹھی بریانی سے پلیٹ بھرے وہ یہی سوچ رہی تھئ کہ انسان کتنا ناشکرا ہے۔ چار دن لگاتار صبح دوپہر شام بریانی گرم کرکے کھا کھا اسکا دل اوب گیا تھا۔
پہلا دن بریانی کی پلیٹ ناشتے میں گرم کی چٹخارے لیکر کھائی۔ گھر واپس آکر پھر بریانی کھائی خدا کا شکر ادا کیا۔ رات کو کھائی۔ صبح کھائی۔ اگلے دن دوپہر کو کھائی رات کو کھائی پھر ہوپ کا بنایا ناشتہ کھایا پھر بریانی آج ہوپ گھوڑے بیچ کے سو رہی تھی گوارا جا رہی تھی اسے بریانی کھاتے دیکھ کر بولی۔
تمہاری تو موج ہوگئ کہو تو اگلے ایک ہفتے کا بھی اسٹاک کردوں بریانی کا ؟
شرارت سے ہنستی وہ اسکی شکل دیکھتی سراسر مزاق اڑا رہی تھی۔ اس نے جل کر بھر کر چمچ منہ میں رکھ لیا۔ تیار ہو کر بے مقصد پھرتی رہی ہوپ کا اٹھنے کا ارادہ نہیں لگتا تھا۔ ایک دو بار کمرے میں گئ مگر موصوفہ بے سدھ تھیں۔
آخر جب ساڑھے گیارہ ہونے لگے تو قریب جا کر ہلا بھی دیا۔
کیا ہوا۔ اس نے اپنی سرخ سرخ آنکھیں اس پر جمائیں۔
آج نوکری پر نہیں جانا ؟ اریزہ کے پوچھنے پر اس نے بمشکل جواب دیا اور کروٹ بدل لی جواب تھا
نہیں۔۔
بتاتو دیتیں۔ وہ روہانسی ہوگئ۔ اتنی دیر سے اسکے اٹھنے کا انتظار کرتے اس نے بے مقصد ٹہلتے وقت گزار دیا۔ اب جانے دیر ہی نہ ہو جائے۔ وہ لشتم پشتم بیگ سنبھالتی اپارٹمنٹ سے نکلی تھی۔
کاکائو ایپ سے اس نے اپنی منزل کا تعین کیا تھا۔ بس اسٹاپ تک تو آگئ تھی یہاں سے اب بس کونسی پکڑنی تھی ۔ وہ گومگو میں تھی۔ ایک لڑکی شارٹ اسکرٹ پہنے تیار شیار بے نیازی سے کھڑی موبائل استعمال کر رہی تھی۔ اس نے اسی سے مدد لینے کا فیصلہ کیا۔
چھوگیو( معاف کیجئے گا) یہ اس جگہ پر کونسی بس جائے گی۔
اس نے ذرا کی ذرا اسکی رواں انگریزی کو دیکھا پھر شستہ انگریزی میں بولی۔
میں انگریزی نہیں سمجھ سکتی۔
دے ؟ اسکا منہ کھلا وہ موصوفہ سر جھٹکتی بس میں سوار ہو گئیں۔
آگاشئ بس میں سوار ہونا ہے؟ ڈرائور پوچھ رہا تھا ۔۔
اس نے بس نمبر دیکھا پھر نفی میں سر ہلا دیا۔
بس کا دروازہ بند ہوا اور بس آگے بڑھ گئ۔ ایپ میں صرف ہنگل لکھی تھی ۔
کیا مصیبت ہے۔ وہ بھنائئ۔
دھوپ اس وقت تیز تھی کل کے برعکس موسم خشک اور سرد ہو چکا تھا۔۔ اب کیسے جائوں ٹیکسی لوں؟ جانے کتنا کرایہ لگے میرے پاس تو ابھی پیسے بھئ نہیں پاپا نے بھجوائے یا نہیں پتہ نہیں۔
وہ منہ بناتی اسٹاپ کے شیڈ میں بنچ پر آن بیٹھی۔ لی منہو کی کوئی فین میٹنگ کا اشتہار تھا۔اتنا اصلی دکھائی دے رہا تھا پورے قد کا پوسٹر نہیں تھا۔ پیٹ تک کا تھا مگر انسانی قد کے حساب سے ہی تھا دور سے دیکھو تو لگے کھڑا ہی ہے لی منہو۔ مگر اسکی ٹانگیں نہیں ہیں۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا پھر پوسٹر کے پاس آکھڑی ہوئئ۔ پہلی تصویر ۔۔ناکام کوشش۔۔ ذرا سا زاویہ بدلا دوسری تصویر یہ بھی ناکام۔ غلطی کہاں ہو رہی تھی۔ اب سمجھ آئی۔ ذاویہ دیکھ کر ذرا سا لی منہو کی جانب جھکا کر سیلفی لی تو تصویر اتنی شفاف اور اصلی لگی کہ خود حیران رہ گئ لگ رہا تھا اس نے لی منہو کے ساتھ ہی تصویر کھنچوائی ہے۔
کراپ کر لوں تو ڈینگئیں مار سکتی ہوں صارم کے آگے۔ وہ سب بھول بھال کے اگلی منصوبہ بندی کر رہی تھی۔ دستی کراپ کی موبائل لاک کرکے ترنگ میں مڑی تو بس سے اترتے کئی لوگوں کو دبی دبی ہنسی اسے دیکھ کر ہنستے پایا۔
وہ کھسیا گئ۔ بال کان کے پیچھے اڑس کر ایک ہلکی سی چپت بھی لگا لی خود کو۔
چھٹی کر لیتی ہوں۔ اجنبئ شہر میں اجنبئ بس میں بیٹھ کر اجنبی منزل پر اترنے سے تو بہتر ہے۔
یہ سوچنا تھا کہ ہلکی پھلکی ہوکر واپسی کیلئے مڑی۔ تو ایکدم ترنگ میں مڑنے سے وہ سامنے سے آتے اس چندی آنکھوں والے سے ٹکراتے ٹکراتے بچی۔
چھے سو۔۔
بولتے ہوئے زبان دانتوں تلے دبا لی۔ ایک تو یہ بندہ زندگی بھر جب کبھی کورین میں معزرت کروں گئ یہ بندہ ذہن میں آن وارد ہوگا۔ علی کے چہرے پر اسکا گریز سمجھ کر بے ساختہ مسکراہٹ در آئی۔
اس دفعہ آپ درست لفظ کا ہی انتخاب کر رہی ہیں۔
اسکا انداز سادہ تھا مگر وہ ناک چڑھا گئ۔
سوری۔
ہے تو لڑکا ہی نامعلوم اسکے نرم رویئے سے کیا مطالب نکال لے۔ یہاں کے تو لڑکے ہیں بھئ ٹھرکی۔ سوچتے ہوئے ذہن میں کل کی ہایون کی حرکت تھی۔
اٹس اوکے۔ وہ مسکرا دیا۔ وہ اسکے برابر سے ہو کر آگے بڑھ آئی۔
بس جو کوئی بھی تھی اسکی آنکھوں کے سامنے سے گزر گئ۔ شائد اسے ٹھہرے وقت ہو گیا۔تھا۔
اس نے بس تو نہیں کل والا ڈرائیور پہچان لیا تھا۔
آہجوشی۔ وہ پکاری اور بس کے پیچھے تھوڑا سا بھاگی بھی۔ مگر بس کی رفتار بڑھ ہی گئ۔ آگے بڑھتے علی نے حیرت سے اسے دیکھا۔
شٹ۔ وہ مٹھیاں بھینچ رہی تھی۔
پانچ منٹ بعد دوسری بس آجائے گئ۔
اس نے تسلی دینے کو کہا تو وہ جھلا گئ۔
مگر مجھے کیسے پتہ لگے گا کہ کونسی بس پکڑنی ہے۔ ابھی تو یہ کل والے ہی بھائی میرا مطلب ہے کل والا ہی ڈرائور تھا۔مجھے یہی بس پکڑنئ تھئ۔
اسکی منطق پر وہ اسے یوں دیکھنے لگا جیسے اسکے سر پر سینگ ہوں۔
ڈرائور کون یاد رکھتا میرا مطلب بس نمبر یاد کرتے ہیں نا۔
بھئ مجھے نہیں یاد نا بس نمبر گوارا نے بتایا تھا بھول گئ۔ وہ بچوں کی طرح منہ پھلا کر بولی تھی۔
کہاں جانا ہے آپکو۔ علی مسکراہٹ دبا کر پوچھنے لگا۔ اس نے لمحہ بھر سوچا پھر موبائل میں بک مارک ہوئی منزل اسے دکھائئ۔
یہ ۔ یہ جگہ ہے لی شاپنگ کمپلیکس مگر مجھے یہ نہیں پتہ کونسی بس وہاں جائے گئ۔
علی اسکا موبائل لیکر آگے بڑھ گیا۔ وہ بھاگ کے پیچھے آئی وہ بس اسٹاپ کے شیڈ آکر ایک جانب گلاس وال پر ڈیجیٹل روڈ میپ میں روٹ دیکھ رہا تھا۔ بس کی آمدو رفت کے اوقات بمعہ روٹ ہنگل اور انگریزی دونوں زبانوں میں موجود تھے۔
یہ دس منٹ بعد بس نمبر 11 آئے گی آپ اس میں سوار ہو جائیئے گا۔ ابھی بس نمبر 15 آنے والی ہے۔
اس نے انگریزئ میں بتاتے ہوئے موبائل واپس کیا۔ وہ ششدر کھڑی تھی۔ چونکی۔
گھمسائےو۔۔۔ وہ پھر شائد کچھ غلط بول گئ تھی کیونکہ مخاطب کے چہرے پر محظوظ مسکراہٹ آئی تھی۔ اس نے فورا انگریزی پر تبدیل کیا خود کو
آنیا۔ ۔شکریہ۔
ہلکا سر جھکا کے شکریہ کہا ۔
مائی پلیژر۔کرم۔ اس نے بھی اجازت چاہی۔ کندھے پر لیپ ٹاپ بیگ ٹھیک کرتا وہ پیدل آگے بڑھ گیا تھا۔
اسے دور جاتے دیکھ کر اس نے گہری سانس لی پھر اس دو بالشت کی اسکرین کو دیکھتے ہوئے بڑبڑائی
میری آنکھیں واقعی پھٹو ول ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکی کسلمندی سے کروٹ بدلتے آنکھ کھلی تو کھڑکی سے آتی مدہم روشنی میں نک سک سے درست ایڈون شاپر احتیاط سے اسکے سرہانے رکھتا نظر آیا۔
اٹھ گئیں۔وہ خوشگوار انداز میں مسکرایا۔
ہمم۔۔ وہ انگڑائی لیتی اٹھ بیٹھئ۔
تم اتنی صبح صبح کہاں جا رہے ہو۔
جمائی لیتے ہوئے اس نے پوچھا تو ایڈون ہنس دیا
صبح؟ بارہ بج رہے۔ آنکھ ہی نہیں کھلی میری صبح ایک جگہ جانا تھا انٹرویو دینےمس ہو گیا اب ڈیوٹی پر۔جا رہا ہوں۔ تم بتائو ٹھیک سے سوئیں۔۔۔
اسکے پوچھنے پر وہ جھینپ سی گئ۔
سر ہلا کر جواب دیا۔ اسکے چہرےکی رنگت ایکدم سرخ پڑ گئ تھی۔ ایڈون مسکرا دیا
اچھا یہ کچھ ناشتے کا سامان ہے ناشتہ کرلینا میں چلتا ہوں۔
وہ دھیرے سے اسکے سر کے بال بکھیرتا ہوا بولا۔
ہممم۔ وہ قصدا نگاہ چرا رہی تھی۔
اوکے خدا حافظ۔ وہ کہتا ہوا احتیاط سے دروازہ بند کرتا چلا گیا تب اس نے سر اٹھایا۔ کمرے میں دھوپ کی روشنی پھیلی تھی۔ وہ کھڑکی سے باہر جھانکنے لگی۔ کل۔کی نسبت اس وقت طبیعت کی سب کثافت دور تھی۔ بھوک کا احساس بھی ہو رہا تھا۔ وہ یونہی دیکھنے کیلئے کہ ناشتے میں سامان کیا ہے شاپر میں جھا نکنے لگی۔ چیز کیک کریم چیز چیز سینڈوچ دودھ پیکٹ اسے ایکدم بو چڑھی تھی ۔ ابکائی سی آئی۔ وہ فورا پیچھے ہوئی اسکا سب کھایا پیا جیسے باہر آنے کو تھا روکنے کی کوشش کرتی وہ دروازے کی جانب بڑھی مگر الٹی رک نہ سکی۔ دروازہ خراب ہو گیا۔ پے در پے دو الٹیاں۔
اسکا وجود کانپنے لگا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باتھ روم جا کر چہرے پر چھپاکے مارے تو طبیعت کچھ بحال ہوئی۔ پوچھا لاکر صفائی بھی خود کرنی پڑی۔ کمرے میں ناگوار بو پھیل گئ تھی۔ پنکھا ونکھا تو تھا نہیں اس نے کھڑکی اور دروازہ کھولا خود پوچھا واپس رکھ کر واپس آئی تو لابی سے گزرتے ان دو لڑکیوں کو واضح طور پر اسکے کمرے سے باہر گزرتے ہوئے ناک بند کرتے اور بڑبڑاتے دیکھا۔ کمرے میں آکر والٹ میں پیسے دیکھے۔ یا تو کچھ باہر سے لیکر کھا لیتی یا ؟ اس نے دوسرے آپشن کا سوچا۔ اسٹور جا کر ائئر فریشنر خریدا کمرے میں ڈھیر سارا اسپرے کیا۔ شاپر پر بھئ کر دیا۔ بھوک کے مارے دم نکلنے لگا تھا۔ چیز سینڈوچ کو سانس روک روک کے کھایا مگر دودھ پیتے ہوئے پھر ابکائی سی آنے لگی ۔ اس نے دودھ رکھ دیا۔ اسکی بھوک بھی ختم نہ ہوئی تھی طبیعت بھی بے حد بوجھل ہو رہی تھئ اور جزباتئ طور پر بھی سہارا درکار تھا۔
وہ وہیں گھٹنوں میں منہ دے کر گھٹ گھٹ کر رونے لگی۔
آپ اپنا کھانے پینے کا خوب خیال رکھیں آپ بہت کمزور ہیں۔
ڈاکٹر کی ہدایت ۔۔۔
وہ بستر پر گر سی گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میز پر طرح طرح کے کھانے سجے تھے بریانی مٹن کڑاہی نان سلاد شاہی ٹکڑے کسٹرڈ۔وہ ہرپلیٹ سے تھوڑا تھوڑا چکھتی ہوئی بریانی پر رکی۔۔ وہ بریانی پر کسٹرڈ ڈال کر مزے لیکر کر کھا رہی تھی۔
اس نے کروٹ بدلی۔
اریزہ اسکے لیئے فروٹ کیک لائی تھی کافی کے ساتھ۔
چلو ہم کمرشل چلتے ہیں گول گپے کھانے۔
اس نے پھرکروٹ بدلی۔
بخار چڑھ چکا تھا اسے سرد ہوا ٹھٹرارہی تھی اس نے جسم سکیڑ کر خود کو گول مول کرلیا تھا۔
تیسرا خواب تھا۔
وہ ایک چھوٹا سا بچہ تھا جو اسکی گود میں رو رہا تھا۔اسکے ہاتھ میں فیڈر تھا اس نے اس بچے کو پلانا چاہا مگر بوتل یکا یک خالی ہوگئ۔
بچہ مزید زور و شور سے رو پڑا۔
بتائو کہاں سے پورا کروں میں اسکا خرچہ۔ میری بات مان لیتیں تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔
ایڈون چلا رہا تھا۔
سنتھیا یہ تم نے کیا کیا تم نے ہمیں کسی کو منہ دکھانے لائق نہ چھوڑا۔ بیٹا۔ میری ایسی تربیت تو نہ تھی۔۔ امی رو رہی تھیں۔
نہیں امی وہ تڑپ کر انکی جانب بڑھی۔پس پردہ بچے کے رونے کی آواز حاوی تھی۔
بیٹا ہم نے تو بھروسہ کرکے بھیجا تھا تمہیں۔۔ تم تو میری اچھی بیٹی تھیں۔
بابا ایکدم بوڑھے لگنے لگے تھے۔
بابا ایڈون ۔۔ ایڈون بھی تو۔
اس نے صفائی میں جانے کیا کہنا چاہا تھا۔۔ کیا وہ یہ بتا رہی تھی کہ قصور وار ایڈون بھئ ہے۔۔
یہ بچہ فساد کی جڑ ہے۔ ایڈون غصے سے بچے کی جانب بڑھا تھا۔
نہیں ایڈون چھوڑو۔۔۔
وہ خواب سے حقیقت میں واپس آئی تھی۔اسے روکتے ایک۔جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔ پسیینے پسینے ہو رہی تھی کمرے میں ابھی بھی روشنی تھی۔ جانے وہ کتنی دیر سوئی مگر اسکی آنکھیں کھل گئ تھیں۔جن باتوں سے وہ نگاہ چرائے تھی جن حقیقتوں سے قصدا دھیان ہٹا رکھا تھا وہ خواب میں آکر اسے جھنجھوڑ گئ تھیں۔
اسے نہیں یاد تھا کہ اس نے کبھی لگاتار روزے رکھے ہوں۔ کبھی بہت دیر بھوک برداشت کی ہو۔ وہ تو اریزہ سے ذیادہ کھا جاتی تھی اسے لگتا نہیں تھا اس کا وہ بھرپور فائدہ اٹھاتی تھی۔ اسے سردی کبھی نہیں لگتی تھی اریزہ کو ٹھنڈ ذیادہ لگتی تھی وہ اسکا مزاق اڑاتی تھی مگر یہاں سردی اسکی جان لینے پر تل گئ تھی۔ اس نے کبھی کٹھنائیاں نہیں جھیلی تھیں ہر مسلئے ہر پریشانی کا حل بابا نکالتے تھے ماما لاڈ اٹھاتی تھیں بابا کی تو وہ جان تھی۔ اسکی کبھی کوئی فرمائش نہ ٹالی تھی۔ یہاں تک کے ایڈون کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہونے کے باوجود انہوں نے اسکی خوشی کو مقدم جانتے ہوئے خود بہن سے بات کی تھئ۔ او راس نے کیا کیا تھا۔ انکی تربیت پر سوالیہ نشان لگا دیا؟ انکی محبتوں پر ایک محبت کو حاوی کردیا۔ اپنے لیئے خود مسلئے پیدا کر لیئے تھے۔
وہ۔گھبرا کر بستر سے اتری۔ کھڑکی سے فراٹے سے ہوا آرہی تھی۔ اس نے پورا زور لگا کر اسے بند کیا۔ کھڑکی کی چوکھٹ پر ہاتھ رکھتے کل کا منظر تاذہ ہوا تھا۔ایڈون اسکے پیچھے آکھڑا ہوا تھا وہ جان کے انجان بنی تھی۔ اس نے رات یہیں گزاری تھی ۔۔۔۔وہ اپنی ماں باپ کی تربیت ایڈون کے پچھلے رویئے سب بھلا گئ تھی۔ یاد تھا تو بس اتنا کہ ایڈون کو نہ کھو دے کہیں۔ مگر کیا اس نے ایڈون کو پا لیا تھا ؟ ایڈون اسکو مستقل ابارشن پر اکسا رہا تھا ناراض ہو رہا تھا غصہ کرتا تھا۔اسے بھی ضد ہوگئ تھی کہ جب قصوروار وہ اکیلی نہیں تو کچھ مضمرات ایڈون بھی بھگتے مگر نقصان میں کون رہا ؟ وہ خود۔ اس وقت وہ اپنی ماں کے پاس ہوتی تو وہ اسے زمین پر پیر نہ رکھنے دیتیں۔۔ وہ اب انکو اپنا چہرہ تک دکھانے جوگی نہ رہی تھی۔
بھوک کمزوری سردی ایڈون کی سردمہری ان تمام۔محاذوں سے لڑتے وہ پریگننسئ کی سب کٹھنائیاں کیسے جھیلے گی کسی بڑے یا تجربہ کار کی مدد کے بنا ؟
خود سے لڑتے خود سے سوال کرتے وہ دونوں ہاتھوں میں سر تھام کے وہیں چکرانے لگی۔ بیڈ تک جانے کی کوشش میں بے خیالی میں اپنے ہی بیگ سے ٹھوکر لگی تھی۔ پائوں کے انگوٹھے کا ناخن شائد ہل گیا ہوگا۔ درد کی شدید لہر نے اسے لپیٹ میں لیا تھا۔بمشکل کارنس کا سہارا لیتی بیڈ تک آئی تو صبح یا پیا آدھا دودھ کا ڈبہ اچھل کر زمین پر آگرا۔ بقیہ بچا دودھ فرش رنگین کر گیا تھا۔ اسے رونا آگیا تھا۔ اس کی صفائی کیلئے بھئ اسے خود ہمت کرنی تھی۔
میں یہ سب نہیں جھیل سکتی۔ نہیں ۔۔ اس نے بے بسی سے سر ہلایا۔
بہت مشکل ہے یہ سب۔۔
میں نہیں کر سکتی یہ۔۔
اس سے جو فیصلہ ایڈون اتنے دنوں میں نہ کرواسکا وہ اس نے چند لمحوں میں کر لیا تھا۔
تکیئے کے پاس سے فون اٹھا کر اس نے فوری میسج ٹائپ کیا تھا۔
ڈاکٹر سے اپائنٹمنٹ لے لو میں ابارشن کیلئے تیار ہوں۔۔
پیغام ایڈون کو جیسے ہی سینڈ ہوا چند لمحوں میں ہی جواب آگیا تھا۔۔
جواب تھا
۔واقعی؟؟؟؟
موبائل پر اسکی گرفت سخت ہوگئ تھی۔
۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد۔
جاری ہے۔۔۔
kesi lagi apko salam korea ki yeh qist? rate us below