Salam Korea
by vaiza zaidi
salam korea episode 38
قسط 38
صبح سب سے پہلے گوارا کی آنکھ کھلی تھی۔ آنکھ کھلتے ہی جھلا گئ۔ کیونکہ آنکھ کھلنے کی وجہ تھی مسلسل بجتا موبائل۔ اس نے ہاتھ مار کر سائیڈ ٹیبل سے موبائل اٹھایا تو دس بج رہے تھے۔ کروٹ بدلی تو ہوپ کا چہرہ سامنے تھا۔
کم چاگیا۔ وہ بے ساختہ ڈر کر پیچھے ہوئی۔
ہوپ نے آنکھیں کھول کر کینہ توز نگاہوں سے گھورا۔
ذیادہ ڈرائونی شکل بنانے کی ضرورت نہیں تم ویسے ہی خوفناک ہو۔
وہ کہاں باز آسکتی تھی۔
فون تو اٹھا لو۔ ہوپ نے دانت کچکچائے۔
میرا نہیں بج رہا۔ وہ خود جھلائی ہوئی تھی۔ اس کے کہنے پر ہوپ نے کروٹ بدل کر پہلو میں بے خبر سوئی اریزہ کو گھورا۔ سر پر بجتے فون سے بے نیاز گہری نیند میں گم۔
اے اریزہ۔
گوارا جھلا کر ہوپ کے کندھے پر تھوڑی ٹکاتی کہنی کے بل اسکے اوپر سے جھانک کر چلائی۔
ہوں۔ وہ کسمسائی۔
فون آرہا ہے تمہارا۔
ہوپ اور گوارا اکٹھے بولی تھیں۔ اس نے مندی مندی آنکھوں سے کروٹ لیکر سائیڈ ٹیبل سے موبائل اٹھایا۔ نا واقف نمبر تھا۔ اس نے سائلنٹ کرکے رکھا اور دوبارہ نیند میں گم ہونے کو تھی۔
اٹھو۔ہماری نیندیں اڑا کر تم سکون کی نیند نہیں سو سکتیں۔
ہوپ نے اسکے اوپر سے کمبل کھینچا۔
سونے دو نا پلیز۔
وہ نیند میں ڈوبی آواز میں بولی مگر گوارا اور ہوپ بخشنے کو تیار نہیں تھیں۔
اسے اٹھا کر بٹھا دیا۔
پہلے باتھ روم سے تو فارغ ہو لو۔
وہ دہائی دے رہی تھی۔
ہم قربانئ دے لیں گے پہلے تم جائو۔
گوارا نے حقیقتا قربانئ دی۔ وہ مشکوک نظروں سے دیکھتئ اٹھی باتھ روم میں گھسی۔ منہ ہاتھ دھو کر واپسی ہوئی تو بے ساختہ گوارا کی طرح ہی چلا اٹھی۔دونوں منہ تک کمبل تانے بے خبر سو رہی تھیں بظاہر کم از کم۔
اے ۔۔ےےے ۔ اٹھو دونوں۔
پھر خیال آیا تو انگریزی بولی۔
یا۔۔ کہتے ہیں ۔ آگاشی۔
گوارا کمبل سے سستی سے نمودار ہونا شروع ہوئی۔
ہم اے کہتے ہیں۔
اس نے جتایا۔
اے؟ اور بی کسے کہتے ہیں۔ ہوپ نے شائد مزاق کرنا چاہا تھا۔
بی بڑی بی کو کہتے۔ ہوپ بی اٹھ جائییے آپ کو دیر ہو گئ ہے آہجومہ۔
اریزہ نے گھڑی کی طرف اشارہ کرتے یاد دلایا۔
مجھے نہیں جانا آج میں کل استعفی دے آئی تھی۔
ہوپ سرسری سے انداز میں کہتی کمبل ہٹاتی اٹھ بیٹھئ۔
گوارا اور اریزہ ایک دوسرے کو دیکھنے لگی۔
ہوپ تمہیں نہیں لگتا تمہیں سیشن لینے چاہیئے تھے۔ خود کشی کی ایک بار سوچ آجائے تو بار بار ذہن ایسے ہی گھمن گھیریاں کھاتا ہے۔ ہر چیز سے دل اٹھتا جاتا ہے او رصرف موت ہی پناہ گاہ
گوارا مزید بھی کہتی اس بار اریزہ او رہوپ اکٹھے چلائیں۔
یا۔ منہ بند کرو گوارا۔ اریزہ بھنائی
کھوجو۔ ( دفع ہو)۔ ہوپ نے بدمزہ منہ بنایا
میں دو نوکریاں کرکے ڈھیروں پیسہ جس مقصد کیلئے جمع کر رہی تھی وہ مقصد ختم ہوچکا تو مجھے اتنی بیگار لینے کی ضرورت نہیں۔
پھر اب کیا کروگی؟ اریزہ ہمدردانہ انداز میں اسکے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھنے لگی۔
فی الحال سوچا نہیں۔ سوچنے کیلئے وقت ہی نہیں تھا۔ پینٹنگ کو سنجیدگی سے لوں یا۔
اس نے ابھی اتنا ہی کہا گوارا نے ہاتھ اٹھا دیئے
کچھ اور سوچو پینٹنگ تمہارے بس کا روگ نہیں۔ اتنا موٹا منہ بناتی ہو عمر میں دس پندرہ سال کا اضافہ ہوجاتا ہے پورٹریٹ مکمل ہوتے تک اوپر سے ۔
وہ مزید بھی خوبیاں گنواتی اریزہ نے بستر سے کشن اٹھا کر اسکے منہ پر مارا۔ گوارا صدمے سے گھورتی رہ گئ۔
بس کرو ۔۔
اریزہ نے آنکھیں دکھائیں۔
تم بے وفا لڑکی۔ تمہاری تو۔ اس نے لپک کر زمین سے کشن اٹھا کر واپس اسے دے مارا وہ تیزی سے پیچھے ہوئی اس بار ہوپ نے بدلہ لیا اور تکیہ اسے دے مارا۔ گوارا اپنے مخالف ٹیم بنتے دیکھ کر خم ٹھونک کر میدان میں اتری۔
ہوپ اور گوارا میں گولا باری شروع ہوئی تو اریزہ کو ہی صلح کا جھنڈا لہرانا پڑا۔ دونوں اپنے اپنے تکیئے تلوار کی طرح چلاتی آگے بڑھیں تو اریزہ رضاکارانہ طور پر بیچ میں آکر وار سہہ گئ۔
بس کرو تکیئے پھٹ جائیں گے۔
اریزہ کے کہنے پر دونوں کو ہاتھ روکنے پڑے۔
بیڈ پر ٹک کر دونوں ہانپنے لگیں۔ اریزہ بھی دھپ سے دونوں کے بیچ آ بیٹھی۔
یاد ہے پہلی دفعہ جب میں آئی تھی تب بھی تم لوگ ایسے ہی تکیوں سے لڑ رہی تھیں۔ تب ایک لڑکی اور تھی ۔
ہوپ کے ذہن میں یاد تازہ ہوئی۔
جی ہائے۔ گوارا نے گہری سانس لی۔
ہاں نام تو نہیں یاد مجھے۔ سچ تو یہ شکل بھی۔
ہوپ یونہی ہنس کر بولی۔
گوارا تم جی ہائے کو یاد نہیں کرتیں؟
اریزہ نے پوچھ لیا۔ گوارا نے کندھے اچکا دیئے۔
مجھے پکا یقین وہ مجھے یاد نہیں کرتی ہوگی۔
یعنی تم کرتی ہو۔
اریزہ نے جیسے راز پالیا۔
تم سنتھیا کو یاد نہیں کرتیں کیا۔
اسکے الٹا سوال کرنے پر وہ چپ ہوگئ
یہ سنتھیا اور جی ہائے کون ہیں؟ ہوپ نے انکی آنکھوں کے آگے چٹکی بجائئ تو دونوں چونک گئیں۔
سنتھیا میری دوست تھی اور جی ہائے اسکی۔
اریزہ نے کہا تو گوارا جملہ مکمل کرتی بولی
اور اب نہ سنتھیا اسکی دوست ہے نا جی ہائے میری۔۔ اور اب لگتا ہے اریزہ بھی میری دوست نہیں رہ گئ۔
گوارا منہ لٹکا کر بولی۔
کیوں بھئ اریزہ کیوں؟ ہوپ کا سوال بنتا تھا۔اریزہ بھی سوالیہ ہوئی۔
تمہاری وجہ سے۔ ہر دو دوستوں کے بیچ کوئی تیسرا آجاتا پھوٹ ڈلوانے۔ چار دن گائوں کیا گئ تم دونوں ذیادہ سگی بن گئ ہو مجھے کاٹ کے علیحدہ کردیا ابھی بھی تم دونوں مل کر مجھے مار رہی تھیں۔ ذرا خیال نہ آیا۔۔ اس نے باقائدہ بین کرنے شروع کیئے تو دونوں اکتا کر اٹھ گئیں۔
ہائیش۔۔۔
میرا تو کوئی اپنا نہیں رہا۔وہ ہنگل میں اب شروع ہوگئ۔
سرکتے ہوئے دوبارہ بیڈ پر دراز ہوئی ارادہ کمبل میں گھس کر مزید نیند پوری کرنے کا تھا۔
سچی دوستی و محبت کی کوئی قدر نہیں رہی۔ کوریا مادہ پرست معاشرہ بنتا جا رہا ہے۔ کہتی ہے اس دنیا میں جاپانی دوست بن سکتے ہیں مگرمسلمان نہیں۔ کیوں بھلا؟
اس نے موبائل اٹھا کر دیکھا ریمائینڈر جگمگا رہا تھا۔
فرینڈیسری ۔ ٹھیک ڈھائی سال قبل اسی دن ان دونوں نے دوستی کا عہد لیا تھا۔ اکٹھے تصویر بنواتے ہوئے دونوں نے مسکرا کر انگلیوں سے دل کی شکل بنا رکھی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم دونوں میرے ساتھ چلو گائوں۔ سچ مچ بہت مزا آئے گا وعدہ تم دونوں کو خوب سیر کرائوں گی۔ میلہ دیکھنا میرے ساتھ کرسمس منانا اور ہم فورا چھٹیاں ختم ہوتے ہی واپس آجائیں گے۔ناشتہ کرتے ہوئے گوارا لالچ دے رہی تھی۔ ہوپ سوچ میں پڑی۔ اریزہ کی نئی فرمائش تھی۔
اب یہی سب ہنگل میں کہو۔
گوارا نے لمحہ ضائع کیے بنا دہرادیا۔ مجال ہے ایک لفظ سمجھ آسکا ہو اس نے منہ لٹکا لیا۔
ہمت نہ ہارو وقت لگے گا ہنگل اتنی مشکل زبان تھوڑی ہے۔ آجائے گئ تمہیں بھی۔ گوارا نے تسلی دی۔
پتہ ہے میں اور جی ہائے ہر سال جاتے تھے جب سے ہماری دوستی ہوئی اسے میرا گائوں اتنا پسند تھا کہ گرمیوں میں ہم ویک اینڈ منانے بھی گائوں جایا کرتے تھے۔
گوارا اریزہ کو بتا رہی تھی۔
میں تیار ہوں۔ ہوپ نے ایکدم سے اسے مخاطب کیا۔
کس لیئے۔ ؟ گوارا بے دھیانی سے پوچھ رہی تھی۔
تم نے چاہے یونہی مروتا پوچھا ہوگا مگر میں جانا چاہتی ہوں ۔ میں دوسری جاب سے کچھ دن کی چھٹیاں لے لیتی ہوں۔ مجھے تبدیلی آب و ہوا کی شدید ضرورت ہے۔میں کافی مددگا رثابت ہو سکتی ہوں تمہاری امی کے ریستوران کیلئے۔
ہوپ کاوہی قنوطی انداز۔
دو سینڈوچ پر مشتمل اسکا ناشتہ ختم ہو چکا تھا۔ اب کافی کا مگ اٹھا کر جانے ہی لگی تھی کہ اریزہ نے ہاتھ پکڑ کر روک لیا۔
بیٹھو ابھی ہمارا ناشتہ باقی ہے اور ہم باتیں بھی کر رہے ہیں۔
ہوپ نے اجازت طلب نگاہوں سے گوارا کو دیکھا۔ اس نے اپنے چہرے پر در آنے والی مسکراہٹ فورا کافی کا مگ ہونٹوں سے لگا کر چھپائی۔ ہوپ بیٹھ ہی گئ۔
تم جی ہائے سے بھی پوچھ لو کیا پتہ اب اسکی ناراضگی کم ہوچکی ہو۔
اریزہ نے کہا تو گوارا گہری سانس لیکر سیدھی ہوئی
اسکی ناراضگی کی وجہ جانتی ہو۔
اریزہ نے نفی میں سر ہلایا۔
تم ہو۔
گوارا کے کہنے پر وہ چونک سی گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہلکی سی کھٹر پٹر سے اسکی آنکھ کھلی تھی۔ وہ کسمساتے ہوئے اٹھی تو جی ہائے صوفے کے ساتھ رکھی چھوٹی سی میز پر ناشتے کے باکس رکھےناشتہ کر رہی تھی۔ ایک نظر اسے دیکھ کر دوبارہ ناشتے میں مشغول ہو گئ۔ کم سن اسی وقت بڑے بڑے شاپر اٹھائے اندر داخل ہوا۔
تم ناشتہ کر رہی ہو؟ ابھی تو میں آیا تھا تو سوئی پڑی تھیں میں تمہارے لیئے بھی ناشتہ لے آیا۔
کم سن کی ابھی اس پر نظر نہ پڑی تھی۔
اسکو کھلا دینا ۔ اٹھ گئ ہے یہ۔
وہ ہاتھ جھاڑتے رسان سے بولی۔ اسکا ناشتہ ختم ہو چکا تھا۔
تم اٹھ گئیں۔ لو ناشتہ کرلو۔ تمہیں تو گوشت سے پرابلم نہیں ہے نا؟ میں چکن سوپ لایا ہوں ساتھ ویجی ٹیبل سوپ بھی ہے۔
وہ ایک کونے میں کھڑی مریضوں کی اسٹینڈ والی میز گھسیٹ کر اسکے بیڈ پر ہی ناشتہ لگانے لگا۔جی ہائے جیکٹ پہن کرپرس کندھے پر لاد کر جانے کیلئے تیار ہوگئ۔
میں جا رہی ہوں۔ اب میری تو کوئی ضرورت ہے نہیں۔ باقی اگر پڑے بھئ تو سنتھیا برائے مہربانی مجھے یاد مت کرنا۔
یہ اسکا الوداعیہ تھا۔ کھردرا انداز سخت لہجہ چہرے پر اجنبیت۔ کم سن نے حیرت سے مڑ کر اسکی شکل دیکھی۔
وہ جملہ مکمل کرکے دروازے کی طرف بڑھی جب سنتھیا نے اسے پکارلیا۔
جی ہائے۔ دروازے کی ناب پر اسکا ہاتھ لمحہ بھر کو رکا۔
تم نے مجھ پر بہت احسان کیا ہے میں اسے ہمیشہ یاد رکھوں گی۔ تمہارا بہت شکریہ۔ میں ویسے کسی قابل تو نہیں مگر کبھی بھی ضرورت پڑے میری تو ۔۔۔
سنتھیا ابھی بول ہی رہی تھی کہ وہ دروازہ کھول کر باہر نکل گئ۔ اسکی بدتمیزی پر کم سن نے دانت کچکچا کر گھورا۔ سنتھیا دل مسوس کر رہ گئ۔
جانے دو۔اسکا غصہ ایسا ہی ہے۔ تم ناشتہ کرو۔
کم سن نے سر جھٹک کر اسے کہا۔ دو طرح کے سوپ تھے ابلے چاول تھے سبزیوں کی کچومر سی کوئی ترکاری تھی۔ رول آملیٹ تھے۔
سنتھیا ہونٹ کاٹنے لگی۔
کم سن خفت زدہ سا ہوگیا۔
مجھے بالکل اندازہ نہیں کہ پاکستانی ناشتے میں کیا کھاتے ہوں گے۔ گوگل کیا تو جو قریب ترین بھی ناشتہ مل رہا تھا وہ آنے جانے میں گھنٹہ لگا دیتا اور مجھے لگا تمہیں
شکریہ۔ بہت بہت شکریہ۔ میں تم لوگوں پر اتنا بوجھ بن گئ ہوں مجھے بالکل اچھا نہیں لگ رہا تم جی ہائے تم دونوں نے میرے لیئے جو کیا ہے اسکا میں کبھی بدلہ نہیں اتار سکتی میں چاہوں بھی تو
وہ بات کاٹ کر بولتے بولتے روپڑی۔ دونوں ہاتھوں میں منہ چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر۔
کم سن ہونٹ بھینچ کر اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ اسکی دوست نہیں تھی۔ کبھی انکی ذیادہ بات چیت نہ رہی تھی۔اسکو سمجھ نہیں آرہا تھا اسے کیسے چپ کرائے۔ کتنے مناظر اسکی نگاہوں میں گھوم گئے تھے جب اسے ناک چڑھا کر گھورتے دیکھتا تھا۔ایڈون کے سوا کسی کی جانب نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھتے دیکھا تھا۔اریزہ اور وہ کبھی اکیلے بیٹھی بھی نظر آتی تھیں تو تنی گردن اور تیکھی نظروں سے دیکھتی وہ کتنی مغرور لڑکی دکھائی دیتی تھی۔ اس وقت وہ اس لڑکی کا سایہ بھی نہیں لگ رہی تھی۔ چند مہینوں میں کوئی کیسے اتنا بدل سکتا ہے۔
مجھے اسی لیئے محبت سے نفرت ہے۔ محبت کمزور کر دیتی ہے۔ انسان کو بدل دیتی ہے انسان سے وہ کچھ کروا لیتی ہے جو سوائے اس فالتو جزبے کے دنیا کی کوئی طاقت بھی نہ کرواسکے۔محبت کرنی نہیں چاہیئے۔
جی ہائے رواں ہنگل میں چبا چبا کر بولی تھی۔
کم سن اور سنتھیا چونک کے اسکی شکل دیکھنے لگے۔سنتھیا نے باقی سسکیاں روک کر جلدی سے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔
ائیر بڈز رہ گئے تھے میرے یہاں۔ وہ صوفے کی طرف اشارہ کرکے بولی۔پھر آگے بڑھ کر تکیہ ٹٹول کر پینل اٹھانے لگی
سنتھیا شکریہ ادا کر رہی تھی تمہارا اور رو پڑی۔
کم سن نے جتایا۔ یعنی یہ فالتو کا لیکچر کس خوشی میں دیا محبت پر۔
سنتھیا کو کہا بھی نہیں میں نے ورنہ ہنگل میں نہیں انگریزی میں کہتی۔
جی ہائے مصروف سے انداز میں بولی۔
پھر کسے کہا۔ کم سن سوالیہ ہوا
تمہیں کہا۔
وہ بھنوئیں اچکا کر بولی۔
مجھے؟ وہ ہکا بکا رہ گیا۔
تمہیں پہلے اسکا اپنا درد مشترک لگتا تھا اب مشترکہ کے درد میں ہی مبتلا لگتے ہو۔ اگر وقت ہے تائب ہو جائو
ارے کیا مطلب ہوا اس بات کا؟
کم سن سمجھا نہیں۔
ہنگل میں ہی بولا ہے سمجھ کر نہ سمجھو تو الگ بات۔کرم
وہ جتا کر ایک نظر اسے او رپھر سنتھیا کو دیکھتی ہوا کے جھونکے کی طرح گزر گئ
خوامخواہ۔ کم سن کو ہوش آیا تو جھلائے بنا نہ رہ سکا۔
کچھ بھئ ۔ہائش۔ یہ لڑکی کھسک چکی ہے۔
وہ بڑبڑا رہا تھا
کیا ہوا کیا کہہ رہی تھی۔
سنتھیا کو بات تو نہیں انداز سے یہی لگا کہ اسکے بارے میں ہی بات ہو رہی ہے۔
کچھ نہیں۔ تم کھانا کھائو ٹھنڈ اہو رہا ہے۔
وہ ہلکے پھلکے انداز میں کہہ کر اسکا دھیان بٹاگیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاسٹل واپس آکر ابھی وہ بیڈ پر آکر بیٹھی ہی تھی کہ اسے گوارا کا میسیج کاکائو ٹاک پر موصول ہوا تھا۔ سال بھر پرانی یاد تازہ کی گئ تھی۔ ایک خوبصورت لمحے کی یاد گارتصویر میں قید تھئ۔
ساتھ لکھا تھا۔ ہم پچھلے سال اکٹھے یہاں یادیں اکٹھی کر رہے تھے۔ میں آج یہاں جاتے سوچ رہی ہوں کہ کیا ایسا دن دوبارہ کبھی آسکے گا۔
نہیں۔
اس نے فورا جواب لکھ کر بھیجا تھا۔
جوابا اس نے میسج دیکھ کر جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔ وہ چند لمحے منتظر رہی۔ پھر دوبارہ تصویر کو ذوم کرکے دیکھنے لگی۔ اس دن فارم پر جانے سے پہلے اپنے گھر کے صحن میں یہ تصویر اس نے لی تھی۔ بظاہر سیلفی تھی مگر پس پردہ بھاگتے اسکے تینوں چھوٹے بہن بھائی بھی اس تصویر کا حصہ بن گئے تھے۔ اسے تصویر دیکھ کر وہ دن یاد آگیا تھا۔
اس دن تیز دھوپ نکلی ہوئی تھی ۔ اسکا اور گوارا کا قریبی باغ سے سیب چننے کا ارادہ تھا اس چھوٹے سے باغ سے پھل چننے کی ذمہ داری گوارا نے اٹھا لی تھی وہ اسکا۔چھوٹا بھائی جا رہے تھے تو اس نے بھئ گھر بیٹھ کر بور ہونے سے بہتر یہی سمجھا کہ انکے ساتھ چلی چلے۔ گوارا نا صرف خود فٹا فٹ تیار ہوئی بلکہ اپنے دونوں چھوٹے بہن بھائیوں کو بھی ہمراہ لے لیا
انکو کیوں ٹانگ رہی ہو اپنے ساتھ ہم کام کریں گے یا انکو سنبھالیں گے۔
اس نے سخت ناگواری سے کہا تھا جو شائد ساتھ چلتے سوینگ کو برا لگا تھا جبھی بچوں کو اپنے ساتھ آنے کا کہہ کر رفتار بڑھا لی تھی۔
کیا کہیں گے یہ ہمیں؟ درخت سے پھل توڑنے جتنا قد ہے نہیں انکا فارم ہائوس اتنا بڑا نہیں کہ گم جائیں کھیلتے رہیں گے یہ وہاں ہم اپنا کام کر لیں گے۔گھر میں تو اتنی جگہ ہے نہیں پھر آہمونی انکو وہاں بھاگنے دوڑنے بھی نہیں دیتیں دیکھو کتنے خوش ہیں ۔
اچھلتے کودتے جاتے بہن بھائی کو دیکھ کر گوارا نے پیار بھرے انداز میں اسے بالتفصیل بتایا۔
تم واقعی ان سے پیار کرتی ہو؟
جی ہائے نے حیرت سے سوال کیا تھا۔
میرے بہن بھائئ ہیں سوتیلے ہیں تو کیا ہوا۔ دیکھا جائے تو ان بچوں سے مجھے کیا پرخاش ہو سکتی ہے۔ اسکا انداز سادہ سا تھا۔ مگر جی ہائے چڑ گئ
تم مجھے جتا رہئ ہو؟ مگر یہ دیکھو کہ ان کے والد صاحب تمہارا اور تمہارے بڑے بھائی کا خرچہ اٹھانے کو تیار نہیں تمہیں ان کے بچوں پر پیار لٹانے کی کیا ضرورت ہے۔ تم بھی انکو اگنور کرو۔
اگرایسی بات ہے تو تمہارے والد تو تمہارا خرچہ مزید بچوں کے باوجود اٹھاتے ہیں تمہیں تو اپنی بہنوں سے پیار ہونا چاہیئے تھا۔
گوارا نے بنا لحاظ اسے جتایا تھا
تم مجھے اب اس بات کا طعنہ دوگی؟
غصے کے مارے اسکی آواز کانپ گئ۔
میں طعنہ نہیں دے رہی سمجھا رہی ہوں۔ اسکو غصے میں آتے دیکھ کر گوارا نے بھی اپنا لہجہ دھیما کیا۔
میرے والدین کی آپس میں نہیں بنی وہ الگ ہوگئے ۔ ہم دونوں بہن بھائی اتنے بڑے تھے کہ اپنا خیال خود رکھ سکتے تھے۔ میں آہجوشی سے امید کیوں رکھوں کہ وہ میرا خیال کریں میرا باپ میرا خیال رکھتا رہا تھا میرے نام سےانشورنس پالیسی بھری ہے اس نے۔
آہجوشی میرے باپ نہیں ہاں میری ماں کیلئے میں اور سوینگ بھی انکی اولاد ہیں اور رودا اور سنگ گون بھی۔ ایک ٹوٹے لڑتے بھڑتے مگر اکٹھے رہنے پر مجبورخاندان سے بہتر دو الگ خوشحال خاندانوں کا حصہ بننا بہتر نہیں؟
میرے تو میرے والد کی بیوی سے بھئ اچھے تعلقات ہیں۔ تم بھی اگر چاہو تو۔۔
تمہارے والدین لڑ کر الگ ہوئے میرے باپ نے میری ماں کو ایک نئے مذہب کے پیچھے چھوڑا۔ میری ماں آخری وقت تک مصالحت چاہتی تھئ میرا باپ اسکو چھوڑ گیا ہمارے حالات ایک جیسے نہیں۔۔ میرے باپ کی بیوی میری ماں کی اور اسکی اولادیں مجھے اپنی ہنستی بستی زندگی اجاڑنے کی ذمہ دار لگتی ہیں جسکے لیئے میں اس بڈھے کو کبھی معاف نہیں کر سکتی۔۔ سمجھیں تم۔
گوارا اسے سمجھانا چاہ رہی تھی مگر جی ہائے کو اتنا غصہ آیا تھا کہ اس پر چلا چلا کر وہیں سے پیر پٹختی واپس ہوئی تھئ۔ اس وقت بھی یہ یاد اسے غصہ ہی دلا گئ تھئ۔ اس نے موبائل بیڈ پر پٹخا اور بازو آنکھوں پر رکھتی وہیں دراز ہوگئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ اس لڑکی سے کیوں نہیں پتہ کرتے ؟ کیا آپ نہیں جانتے وہ اس وقت کہاں رہ رہی ہے؟
سنتھیا کے والد کا بس نہیں تھا کہ اس ڈیٹیکٹو کا سر بجا دیتے۔اس وقت وہ کمشنر کے دفتر میں بیٹھے تھے۔ انکی بیٹی کی بازیابئ کیلئے جو ٹیم تشکیل دی گئ تھی اسکے ٹیم لیڈر علاقے کا ایس پی اور پاکستانی سفارتخانے کا نمائندہ بھی موجود تھا۔ سیموئل صاحب کا اصرار تھا کہ اریزہ سے تفتیش کی جائے۔۔
گو انکی بات جزئیات کے ساتھ ان سب کو سمجھ آچکی تھی پھر بھی مترجم کے ترجمے کا انتظار کیا۔
ہم اریزہ سے تفتیش کیوں نہیں کر رہے؟
کمشنر بیک نے سوالیہ نگاہوں سے ٹیم کے منتظم کو دیکھا۔
یہ لڑکی اریزہ ، سنتھیا سیموئل کی گمشدگی سے مہینوں قبل سے اپنی سہیلی کے ساتھ اپارٹمنٹ شئیر کر رہی ہے۔ سنتھیا کی گمشدگئ کی اطلاع ملنے پر خود تھانے آکر اس نے بیان بھی ریکارڈ کروایا۔ سیموئیل صاحب کا دعوی ہے کہ یہ لڑکی سنتھیا کے ساتھ رہ رہی ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ سنتھیا درمیانے درجے کے ایک گوشی وون میں رہتی تھی۔ اور سی سی ٹی وی کے مطابق وہ خود اپنے ہوش و حواس میں گوشی وون سے نکل کر گئ تھی۔
ٹیم لیڈر نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا تھا۔
کیا کہہ رہا ہے یہ ۔ سیموئیل جھلا کر مترجم سے بولے۔
ڈیٹیکٹو نے مترجم کی جانب دیکھا ۔ اس نے گہری سانس لیکر ترجمہ کیا۔
ہاں تو اسکے سوا کوئی دوست نہیں ہے اسکا یہاں اس نے یقینا اسے اطلاع دی ہوگی رابطہ کرنے کی کوشش کی ہوگی۔ کیا کر رہے ہیں یہ لوگ میری بیٹی نا جانے کہاں کس حال میں ہے۔
عجیب نا اہل لوگ ہیں۔ یہاں بیٹھے ہیں ڈھونڈ رہے ہوتے تو مل چکی ہوتی نا وہ۔
سیموئل کا غصہ بڑھ رہا تھا۔ مترجم نے انکی سب باتوں کا ترجمہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے بس اسی بات پر زور دیا کہ وہ دوست ہے کچھ تو جانتی ہوگی۔
ہمارے پاکستان سے تعلقات ہیں یہ دونوں ممالک کے تعلقات کی طرف معاملہ جا سکتا ہے۔ ہم کسی غیر ملکی طالبہ کی گمشدگی کا الزام اپنے سر نہیں لے سکتے۔۔ ہمیں سخت فیصلے لینا ہوں گے۔
کمشنر صاحب نے تنبیہا کہا تھا۔
مگر سر ہم پہلے ہی ایڈون کو تحویل میں لے چکے ہیں۔ اتنی تفتیش کے باوجود وہ لڑکا براہ راست ملوث نہیں لگ رہا ہے۔ ہم ایک اور ملزم حراست میں کیسے لے سکتے۔ ؟ جبکہ وہ لڑکی لی خاندان کی ہونے والی بہو بھی ہے۔
ٹیم لیڈر نے انکو جھجکتے ہوئے یہ اطلاع دی تھی۔
دے؟(کیا۔)؟
کمشنر صاحب کا حیرت سے منہ کھلا رہ گیا۔
کیا کیا کہہ رہے ہیں یہ لوگ۔
ان سب کے تاثرات دیکھ کر سیموئل کو کھد بد ہوئی۔
کیا بکواس ہے یہ؟ عجیب جاہل لوگ ہیں اتنے اونچتے عہدوں پر ہیں پھر بھی کسی کو انگریزی ہی نہیں آتی۔۔
وہ جھلا رہے تھے۔ مترجم نے دھیرے سے ترجمہ کیا تو لمحہ بھر کو وہ سن ہی رہ گئے
کیا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا؟
کم سن اسکی شکل دیکھ کر رہ گیا۔
وہ سنجیدہ تھی۔
میرے لیئے نوکری سب سے اہم ہے۔ اگر میں مسلسل نقاب کیئے رکھوں تو میرا پہچانے جانا مشکل ہے۔ میں نے یہاں اکثر لڑکیوں کو ماسک پہنے دیکھا ہے۔ میں اسکارف کر لوں گی۔
رہو گی کہاں؟
کم سن نے جتایا۔ وہ ایکدم کچھ کہتے کہتے رک گئ۔ پھر قصدا رخ بدل کر بولی
میں اسکا انتظام کر لوں گی۔
وہ اس وقت ہنگن دریا کنارے کھڑے تھے۔ بیچ دوپہر میں بھی دھوپ میں چبھن نہیں تھی۔ سیول کے باسی ہونے کی وجہ سے وہ ایسی جگہوں کے بارے میں جانتا تھا جو سی سی ٹی وی کیمروں سے اوجھل ہوں۔ اس وقت سنتھیا نے سر پر اسکارف لپیٹا تھا گہرے رنگ کے گاگلز او رماسک بھی پہن رکھا تھا۔
کم سن نے جیکٹ اور ہڈی پہن رکھا تھا۔ پھر بھی سرد ہوا چبھ رہی تھی جبکہ سنتھیا سویٹ سوٹ اور جیکٹ میں ملبوس تھی مگر پیشانی پر پسینے کے قطرے دمک رہے تھے۔
میں خود غرض ہو رہی ہوں ہے نا۔
اسکی خاموشی سے وہ یہی اندازہ لگا پائی۔
کم سن دونوں ہاتھ اپر کی جیبوں میں ڈالے دریا پر نگاہ جمائے تھا۔ بالکل باریک پرت برف کی اس دریا پر جمی تھی۔ جیسے دریا پر شیشے کی تہہ سی ہو۔ یہ اتنی ہی غیر محفوظ تھی جیسے ہلکا سا کانچ ۔ اس پرت پر چلا جاسکتا تھا قسمت پر منحصر تھا یا آپکے وزن پر جتنا یہ برف سہہ جائے ورنہ ایک دراڑ اور گہرا شگاف اور بے رحم سرد دریا کی موجیں۔۔
مجھے لگا تھا میں جب تمہیں بتائوں گا کہ ایڈون جیل میں ہے تو تم فورا اسے چھڑوانے کیلئے بے تاب ہو جائو گی۔ مگر مجھے تمہارا ایسا کوئی ارادہ نہیں لگتا۔
کم سن گہری سانس لیکر بولا
ہاں نہیں ہے۔ سنتھیا ضدی سے انداز میں بولی
اب تمہیں کوئی ابارشن کیلئے مجبور نہیں کرسکتا۔ کم از کم کوریا میں۔
کم سن نے اسے تسلی دینا چاہی تھی۔
اور اگر مجھے ڈی پورٹ کردیاگیا تو؟
سنتھیا نے تیکھی نگاہ سے دیکھا اسے۔
وہ کہتے کہتے رہ گیا کہ اس سب کے بعد ہوگا تو یہی۔
ایڈون اگر اغوا کار ثابت ہو تا تو شائد پھر اسکی بازیابی کے بعد کیس چلتا مگر جس طرح وہ بنا اطلاع غائب تھی اسکے بعد اسکی غیر ذمہ داری پر سب سے کم سزا یہی ہونی تھی کہ اسے واپس وہیں بھیج دیا جائے جہاں سے آئی ہے۔
اسے ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ایڈون کو بچانے کا مقصد ذہن میں تھا یہ سوچ بھی نہیں آئی کہ سنتھیا کیا چاہتی ہے؟ اسکی بھی تو کوئی مرضی سوچ خواہش ہوگی۔
لڑکی کو سمجھنا ناممکن ہے۔
اسکا ذہن تھک رہا تھا سوچ سوچ کے کہ کیا کرے۔ اس وقت وہ سنتھیا کے ساتھ نیکی کرکے بھی پھنس رہا تھا اور سخت دل بن کے اسکے حال پر بھی چھوڑ نہیں سکتا تھا۔
وہ حقیقتا سر کھجا رہا تھا۔
مستقل تنائو سے تنگ آکر اس نے جیب سے چاکلیٹ نکال کر کھانی شروع کردی۔
ایسے موقع پر جی ہائے ہونا کم سن ہونے سے بہتر ہے۔
اس نے دانت پیسےریپرپھینکا۔ ۔ تبھی اسکا موبائل بج اٹھا۔
ہیون کالنگ۔
اسکو اتنی خوشی ہوئی کہ جھٹ فون اٹھا لیا۔
ہیونگ ( بھائی) میری نوکری دائو پر لگی ہے آکرہیون سر کو سنبھالیں۔ مدہوش ہو چکے ہیں اور پورا سوئیٹ سر پر اٹھایا ہوا ہے۔
ہیون کے کلب کا منتظم تھا گھبرایا ہوا۔
اس وقت؟ بھری دوپہر میں کون کم بخت پی کے ٹن ہوتا ہے۔
وہ جھلا ہی تو گیا۔
برائے مہربانی سر آجائیں ۔ غیر ملکی مہمان ہیں آئے ہوئے ہم ان میں سے کسی کو روک بھی نہیں پائیں گے اگر کسی نے ویڈیو بنا لی تو۔
منتظم رو دینے والا تھا۔
کر کیا رہا ہےدکھائو ۔ اس نے ویڈیو کال پر کلک کیا۔
سامنے جو منظر تھا بے ساختہ ہنسی آگئ اسے۔
سوئم سوٹ میں باتھ گائون پہنے وہ سوئمنگ پول کے کنارے بوتل لہراتا ناچ ناچ کر گا رہا تھا۔ اور اسے ناچنا تو آتا ہی نہیں تھا۔ الٹے سیدھے ہاتھ پائوں مارتا وہ خاصا مضحکہ خیز لگ رہا تھا۔ منتظم کو صحیح ڈر لگا تھا۔ دو تین امریکی لڑکے اور لڑکیاں اسکے ساتھ شغل میں ناچ رہے تھے ہاتھ میں شراب کے گلاس تھامے ۔ ہنسی قہقہے۔ اسکو ناچتا دیکھ کر تالیاں بھی بجا رہے تھے۔ صد شکر فی الحال کوئی ویڈیو بناتا دکھائی نہ دیا۔۔
آتا ہوں۔
اسے تسلئ دے کر فون بند کیا ۔ چہرے پر محظوظ مسکراہٹ تھی۔ لمحہ بھر کو بھول ہی گیا جیسے کہ چند لمحے قبل کس موڈ میں تھا۔ مسکرا کر سر جھٹکتے ہوئے سنتھیا کی جانب رخ کرنا چاہا تو نا صرف مسکراہٹ سکڑ گئ بلکہ دل بھی اچھل کر حلق میں آگیا تھا۔
سنتھیا جمے ہوئے دریا کی اسی برف کی پتلی دبیز تہہ پر چلتی چلی جا رہی تھی۔
سنتھیا۔
وہ حلق کے بل چلایا تو وہ چونک کے رکی۔
کیا کر رہی ہو۔ واپس آئو۔
آتی ہوں۔۔
وہ اطمینان سے بولی۔
کیا؟ کم سن کو لگا اسکا دماغ چل گیا ہے۔
سنتھیا نے حیرت سے اسے دیکھا۔ دھوپ اس پر پوری طرح پڑ رہی تھی۔ وہ اسی دھوپ میں سینے پر مٹھیاں باندھے عاجزی سے آنکھیں بند کیئے کھڑی تھی
تم پاگل تو نہیں ہو گئ ہو؟
کم سن چلایا۔
مت کرو ایسے ڈوب جائو گی بظاہر جما ہوا ہے مگر اس پرت کے نیچے ٹھاٹھے مارتی سرد لہریں ہیں۔ کوئی بچا بھی نہیں سکے گا تمہیں۔
وہ کنارے پر کھڑا چلا چلا کر اسے اسکی حماقت کے مضمرات بتا رہا تھا۔
خدا وند میں یہاں خود کو اس بچے کو تیرے رحم و کرم پر چھوڑتی ہوں۔ کوریا یا پاکستان میرے حق میں جو بہتر ہو مجھے وہاں پناہ دے دے۔
اس نے گہری سانس لیتے ہوئے صلیب کا نشان بنایا۔
آمین۔ آنکھیں بند کر زرا سا کندھے جھکا کر جیسے رب کی رحمت کو محسوس کرنا چاہا۔
واپس آئو پلیز۔ خودکشی کوئی حل نہیں۔ جس بچے کے لیئے لڑ رہی ہو اسے قتل کردوگی؟
اس نےجھلا کر اسے جزباتی جھٹکا دینا چاہا۔وہ بے بسی سے ساحل کنارے پیر پٹخ رہا تھا۔ سر بھی پٹختا تو کم تھا۔ دھوپ تیز تھی اگر برف کی پتلی تہہ ذرا سا بھی پگھل جاتی تو وہ اس وقت اسے بچا بھی نہیں سکتا تھا۔
اسکی بات پر وہ ذرا بھر چونکی۔ پھر جھلائی
خود کشی۔۔ میں کیوں خود کشی کروں گی بھلا؟۔
کم سن اسکی بات سن کر لمحہ بھر کو بھونچکا رہ گیا۔
اس نے اشارے سے اسے نیچے دیکھنے کا کہا۔وہ سر جھٹکتی سر جھکا کر دیکھنے لگی تو جیسے قدم وجود کا وزن اٹھانے سے انکاری ہوگئےاپنے گرد کانچ سی زمین کو دیکھتے وہ بری طرح گھبرائی۔ خداوند پر چھوڑا تھا۔ کیا اسے زمین ہی نصیب نہیں ہونی ہے کیا۔ اسے ڈر سا لگا جو اگر یہ برف پگھل گئ تو؟
اسکے قدم لڑکھڑا سے گئے۔ کڑچ کڑچ کانچ کے فرش پر دراڑ سی پڑی۔
وہ تیزی سے کنارے کی جانب بڑھی تو پھسل کر گرتے گرتے بچی ۔۔ پیروں تلے کڑچ کڑچ کی آواز بڑھتی جا رہی تھی۔ اس نے بھاگ کر واپس آنا چاہا تو کم سن کی پریشانی بھری پکار سنائی دی
بھاگنا مت۔
وہ موت کے تعاقب سےخوف میں مبتلا ہوئی تھئ سو تیز تیز قدم اٹھاتی واپس آرہی تھی اتنے تیز کہ کڑچ کی آواز بڑھتی چلی گئ وہ ایکدم رک گئ۔ موت سے کہاں کوئی بھاگ سکا ہے۔ اگر ایسے لکھی تو ایسے سہی۔ اس کی ٹانگیں جیسے بے جان سی ہوتئ گئیں وہ وہیں گھٹنوں کے بل بیٹھتی گئ۔ آوازیں شور سب سکوت طاری تھا برف ٹوٹتی اور وہ سیدھا دریا برد۔
ہائیش۔
کم سن کو اپنی عقل سمجھ بالائے طاق رکھ کر اسکی جانب بڑھنا پڑا۔
دانت کچکچاتے ہوئے وہ تیز تیز قدم اٹھاتااسکے سر پر پہنچا تھا۔کانوں پر ہاتھ رکھے وہ اکڑوں بیٹھی لرز رہی تھی۔
میں آج مرا تو تمہاری ذمہ داری ہوگی۔
وہ خشمگیں نظروں سے گھور رہا تھا۔ مانوس آواز سن کر اس نے سر اٹھایا۔ ارد گرد دریا پر جمی برف سالم تھئ۔ یقینا وہ اسکا وہم تھا وہ شرمندہ سی ہو کر اٹھنے لگی۔
میں آ تو رہی تھی۔
کم سن نے سہارے کیلئے ہاتھ بڑھایا مگر وہ خود ہی اٹھ کھڑی ہوئی۔
کورٹ شوز میں سٹر پٹر کر رہی تھیں ابھی پھسل جاتیں تو یہیں دفن ہوجانا تھا تم نے۔
اسکے منہ سے فی الحال اچھے الفاظ نکلنا مشکل تھا۔وہ چپ ہی رہی۔ اسے واقعی سوچوں میں گم اندازہ نہ ہوا کہ وہ چلتے ہوئے کدھر نکل آئی
اسکے ہم قدم سنبھل سنبھل کر قدم اٹھاتے ایکدم کڑک کی آواز تیز ہوئی۔ اب یقینا اسکا وہم نہیں تھا برف کی پرت پر شگاف پڑا تھا۔۔ سنتھیا بے اختیار کم سن کا سہارا لے بیٹھی۔
کم سن بھی لمحہ بھر کو خوفزدہ ہوا تھا۔ باقائدہ سر گھما گھماکر گرد و نواح کے حالات پر نگاہ ڈالی۔ ارد گرد برف سالم تھی مگر آواز اچھی خاصی تھی۔ پر تھی کس چیز کی۔
کین چھنا۔ اسکا کندھا تھپتھپاتے اس نے منظر سے سب خطرات دیکھ داکھ کر اطمینان دلایا۔ کنارے تک وہ مضبوطی سے اسکا ہاتھ تھامے رہی تھی۔ کنارے تک کڑچ کڑچ کی آواز مدہم پڑ گئ تھی۔ کسی نہایت بے مروت خود غرض انسان کی طرح کنارے تک پہنچتے ہی سنتھیا نے اسکا نا صرف ہاتھ چھوڑا بلکہ رفتار بھی بڑھا لی۔ تبھی کم سن کی نگاہ اسکے جوتے کے تلے چپکے چاکلیٹ کے ریپر پر پڑی تھی۔بے ساختہ مسکراہٹ اسکے لبوں پر در آئی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گائوں کی گوری کی طرح وہ ریل گاڑی کی شیشے کی کھڑکی سے ناک چپکائے قدرتی مناظر دیکھ رہی تھئ ۔برف سے ڈھکے کوہساروں میں تیزئ سے دوڑتی اسے ہمیشہ ریل کا سفر کرنے کا شوق ہوتا تھا۔ جتنا اسے شوق تھا اتنا ہی باقی گھر والے ریل کے سفر کو غیر محفوظ وقت کا ضیاع اور غیر آرام دہ قرار دے کر اسے موٹر وے سے سفر کراتے رہے تھے۔ آج برسوں پرانا شوق پورا ہوا بھی تو کوریا میں۔ فلک بوس پہاڑوں اونچے بڑے سے کھمبوں تو کبھئ کسی کھیت میں چرتے جانور ہر منظر کے ساتھ اسکے تاثرات بدل رہے تھےاسکے چہرے پر ان تمام مناظر کو پڑھا جا سکتا تھا۔
ہوپ اور گوارا اسکے مقابل بیٹھی اسکا شوق ملاحظہ کر رہی تھیں۔
پاکستان میں ٹرین نہیں ہوتی کیا۔ ہوپ نے یونہی پوچھا تھا۔
سرچ کرو ذرا۔
گوارا موبائل احتیاط سے تھامنے کہنی ٹکائے ساکت بیٹھئ اریزہ کی ویڈیو بنا رہی تھی۔
غیر اخلاقی حرکت ہے یہ ویسے۔ ہوپ نے منہ بناتے اپنا موبائل نکالا۔
گوارا نے ہونٹ بھینچ کر گھورا۔۔
خود جو تم سوتے میں بناتی رہی ہو اسکی وہ کیا تھا؟
ہوپ نے جواب دینا ضروری نہ سمجھا۔
صرف دنیا میں ایک ملک ایسا ہے جہاں ریلوے کا نظام نہیں اور وہ ہے افغانستان۔
ہوپ کی تلاش مکمل ہوئی۔اب اعتراض ہوا
پھر اسکو ٹرین کیوں درکار تھی۔ چار گھنٹےلگیں گے بوسان پہنچنے میں ۔ آگے پھر گائوں تک کا سفر الگ بس سے۔ مجھے سوچ کے تھکن ہو رہی۔
ہوپ نے جمائی لیتے ہوئے کہا۔ اسکا ارادہ سو جانے کا ہی تھا۔
اریزہ ٹرین کی سیر کروگی؟
گوارا نے اس سے پوچھا۔ اریزہ چونکی پھر زور و شور سے اثبات میں سر ہلایا
ہاں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈبے سے جڑا ڈبہ وہ آرام سے ہر ڈبے سے گزرتی پوری ٹرین کا دیدار کراتی اسے ٹرین کے کیفے ٹیریا تک لائی تھی۔ بھانت بھانت کے لوگ مختلف بولیاں الگ منزلیں ایک سفر وہ ٹرین کے ہلکے پھلکے جھٹکوں کا بھی مزا لے رہی تھئ۔ ۔ کیفے ٹیریا تقریبا خالی تھا مگر یہاں نشستیں مختلف طرز کی تھیں ایک دو جوڑے بیٹھے تھے۔ بڑی بڑی کھڑکیاں شفاف شیشے انکے ساتھ لگی بنچ نما فوم کی نشستیں۔ ایک جانب وینڈنگ مشین لگی تھئ۔ وہ تو سیدھا جا کر کھڑکی کے پاس بیٹھ گئ۔ گوارا کم باپ بسکٹ چپس اور کولڈڈرنک لیکر اسکے پاس آبیٹھی۔ سامنے لگے چھوٹے سی دیوار سے جڑی میز پر اسکے لیئے سجا دیا۔
گوما ویو۔ وہ بے ساختہ خوش ہوئی۔
کتنے کا ہے۔ فورا کندھے سے لٹکے اپنے ہینڈ بیگ سے پیسے نکالنے لگی۔
بہت مہنگا ہے تم نہیں دے پائوگی۔
گوارا نے جس طرح کہا تھا وہ چپ ہو کر زپ بند کرنے لگی۔
اس نے کھڑکی سے کہنی ٹکائی ہوئی تھی۔ اسکے زخم پر کھرنڈ آرہا تھا جبھی اس نے بس اوپر سے دوا لگائی ہوئی تھی۔ یہ دوا خشک سی ہوجاتی تھی زخم پر اور ایک تہہ بنا دیتی تھی۔ شائد اسی لیئے زخم مندمل ہورہا تھا۔ اریزہ اسکی نظروں سے بے نیاز باہر کے نظاروں میں گم تھی۔ چپس وہ جتنی تیزی سے کھا رہی تھی یقینا اسے بھوک لگی ہوئی تھی۔
تم سے ایک بات پوچھوں؟
کم باپ کا ریپر اتارتے گوارا سنجیدگی سے بولی۔
پوچھو۔ وہ بے دھیان تھی۔
تم نے ہیون کا پرپوزل قبول کر لیا ہےنا؟
اس نے بنا تمہید باندھے پوچھا تھا۔ اریزہ کا چپس منہ تک لے جاتا ہاتھ رک گیا۔ وہ حیران سی ہو کر اسکی شکل دیکھنے لگی۔
تمہیں ہیون نے کہا ہے؟
تمہارے خیال میں ہیون مجھے یہ کہے گا؟پورا سوشل میڈیا ٹیبلائڈ بھرے پڑے ہیں تمہاری اور ہیون کی تصویروں سے۔ میں نے صبر سے انتظار کیا کہ تم خود مجھے بتائوگی مگر مجھے تمہارا تو ایسا کوئی ارادہ نہیں لگا ۔ دوست نہیں سمجھتی ہو مجھے تم۔ ہے نا۔
گوارا منہ بنا کرکم باپ کھانے لگی۔ ۔
اگرمیں نے ہیون کا پرپوزل قبول کیا ہوتا تو یقینا خود تمہیں بتاتئ مگر یہ ایک غلط فہمی تھی۔مجھے اتنا غصہ آیا تھا کہ بتا نہیں سکتی۔
مجھے نہیں پتہ تھا کہ کوریا میں کسی کی شادی میں دعوت کھانا بھی اسکینڈل بنایا جا سکتا ہے۔اخباروں میں چھپ گیا حد ہے۔کوئی کام نہیں کیا یہاں لوگوں کو۔
وہ بےنیازی سے دوبارہ چپس کھانے لگی۔گوارا کو شدید حیرت ہوئئ۔
مجھے تم حیران کر رہی ہو؟ تم نے۔۔ نہیں ایک سیکنڈ تم اور ہیون ایک دوسرے کو پسند کرتے ہو نا۔ تم نے اس اسکینڈل کی وجہ سے انکار کردیا اسے؟
گوارا حیرت کے مارے بیہوش ہونے کو تھئ۔
اریزہ نے اثبات میں سر ہلانے پر اکتفا کیا۔
مجھے اندازہ تو تھا کہ تم نے ہیون کو انکار کردیا ہے مگر اتنی سی بات پر؟ ظاہر ہے وہ کوریا کے ایک اہم خاندان کا فرد ہے اسکی ذاتی زندگی میں رپورٹروں کو دلچسپی ہوتی ہے مگر یہ تو بہت سخت ردعمل ہے تمہیں اتنی سی بات
گوارا بولی تو بولتی چلی گئ۔اریزہ کو ہاتھ اٹھا کراسے ٹوکنا پڑا۔
ویٹ۔ تھمو ذرا۔میں نے انکار کرنا ہی تھا میں اور وہ بس اچھے دوست ہیں بس۔ میں اس رشتے کو آگے بڑھانا نہیں چاہتی اتنی سی بات ہے۔
اپنی طرف سے اریزہ نے سبھائو سے بات ختم کردی۔
لیکن کیوں؟ گوارااتنئ حیران ہوئی تھی کہ کم باپ چبانا بھول گئ۔
ہیون تمہیں بہت پسند کرتا ہے تمہیں اندازہ نہیں ہوا کبھی اسکے دل میں تمہارے لیے الگ مقام ہے؟اور تم بھی تو پسند کرتی ہو نا اسے؟
نہیں پسند کرتی میں اسے۔میرا مطلب ہے اس نظر سے نہیں پسند کرتی میں۔ ہم اچھے دوست تھے ہیں اور رہیں گے۔
اریزہ اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ رہی تھی۔ گوارا کچھ کہتے کہتے رک کر چپ سی اسکی شکل دیکھنے لگی۔ اتنے غور سے کہ وہ گڑبڑا سی گئ
کیا ہوا؟ قصدا اسے ٹوک کر اس نے اپنے کولڈ ڈرنک کا کین اٹھا کر منہ سے لگا لیا۔
مجھے لگتا ہے تمہیں خود کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
گوارا نے گہری سانس لی پھر اپنا بقیہ کم باپ ختم کرنے لگی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جب تک پہنچا ہیون کی سب توانائیاں ختم ہو چکی تھیں۔ وہیں کائوچ پر اوندھا پڑا تھا اسکے ساتھ شغل میں مصروف غیر ملکی سیاح تھک تھکا کر اپنے اپنے کمروں میں جا چکے تھے۔
ہیون ۔۔
اس نے آگے بڑھ کر بمشکل ہیون کو سیدھا کیا۔
پسینے میں تر پیشانی سرخ چہرہ۔ وہ تاسف سے اسکا پسینہ صاف کرنے لگا۔ مینجر پاس آکھڑا ہوا تو اسے ڈانٹے بنا نہ رہ سکا
اسکو اندر تو لے جاتے کوئی گرم کپڑا تولیہ ہی ڈال دیتے اسے نمونیا ہوگیا تو کون ذمہ دار ہوگا؟
یہ سریہ گائون یہ تولیہ سب سر نے ابھی اٹھا کے پھینکی ہیں ۔
وہ منمنایا۔
واقعی اسکے کائوچ کے گرد گائون تولیہ کمبل تک پڑا تھا۔
کم سنا۔ کہاں تھے اتنی دیر سے پکار رہا تھا میں۔
ہیون بہکے بہکے انداز میں بول رہا تھا۔
چلو میں تمہیں لینے ہی آیا ہوں۔ اس نے اسکو سہارا دے کر اٹھایا تو وہ بنا چوں چراں کیئے اٹھنے لگا۔ اسکا نشہ مدہوش کر رہا تھا اسے جبھی گرنے ہی لگا جیسے۔
سہارا دو اب اسے۔
اس نے مینجر کو کہا تو ایک طرف سے اس نے سہارا دیا دوسرے سے کم سن نے اسے گھر لے جانے کی بجائے اسکے سوئیٹ لے آیا تھا۔ اسکو لٹا کر کمبل اڑھایا۔اس نے تکیئے پر سر پٹخا۔
کھوجے مار۔۔ ( جھوٹی)
مینجر نے چونک کے اسکی شکل دیکھی تھی۔
اس نے اسے جانے کا اشارہ کیا۔ ہیون نے اسکا ہاتھ تھام لیا وہ اب نشے میں بڑبڑا رہا تھا۔
اس کو مجھ سے پیار ہوا ہی نہیں۔۔۔۔ہچکی ۔ کھوجے مار۔۔۔ اسکو ہوا تھا اسکو ہے مجھ سے۔ میں نے دیکھا ہے اسکو پروا تھی میری۔ وہ بس مانتی نہیں۔ وہ مانتی کیوں نہیں۔۔
کم سن نے اسکا ہاتھ تسلی آمیز انداز میں تھپکا۔ وہ بڑبڑا کر کروٹ بدل گیا۔
اس پر کمبل درست کرکے وہ الٹے قدموں واپس ہوا۔
گاڑی میں بیٹھی سنتھیاتھک کر اونگھنے لگی تھی جب وہ واپس آیا۔
بیان مجھے ذیادہ وقت لگ گیا۔
اس نے فورا معزرت کی۔ سنتھیا نے سر ہلا دیا۔اور کر بھی کیا سکتی تھی۔
ضرورت کے وقت دوست ہی دوست کے کام آتا ہے۔
کم سن نے گاڑی روکتے ہوئے اسے مخاطب کیا تھا وہ نا سمجھنے والے انداز میں اسے دیکھنے لگی پھر گردن گھما کر دیکھا تو وہ گوارا کی بلڈنگ کی پارکنگ میں کھڑے تھے۔
نو نو۔نو وے میں اریزہ کے ساتھ جا کر ہرگزنہیں رہ سکتی۔ اس سے بہتر ہے مجھے پولیس کے حوالے کردو۔
وہ یکدم سمجھ کر بپھر کر بولی
پولیس کے حوالے کرنے سے بہتر نہیں کہ تم اریزہ سے مدد لے لو۔
کم سن رسان سے بولا
کس منہ سے سامنا کروں گئ میں اسکا تم نہیں جانتے میں نے اسکو کیا کچھ کہا ہے وہ میری شکل بھئ نہیں دیکھنا چاہے گی تھوک دے گی مجھ پر۔
وہ کہتے کہتے روہانسی ہو چلی تھی۔
جہاں تک میں اریزہ کو جانتا ہوں وہ ایسا کچھ نہیں کرے گی۔ اور مجھ سے ذیادہ تو تم اپنی دوست کو جانتی ہوگی ہے نا۔
کم سن کی بات پر وہ چپ ہی رہ گئ۔ وہ اپنی طرف کا دروازہ کھول کر اترا تو سنتھیا کو بھی اترنا پڑا۔
کم سن کے ہمراہ قدم اٹھاتے اسکے قدم من من کے ہو رہے تھے۔۔ اس پر چلاتے ہوئے دھکا دینے سے لیکر اسکے منہ پر حقیقتا سوپ کا پیالہ مارنے تک اپنی ہر بدتمیزی یاد آرہی تھی تواپنے کہے جملوں کی سختی الگ اسے شرمندہ کر رہی تھی۔ ہتھیلیاں مسلتے اسکی بے چینی کم سن کی نگاہوں سے پوشیدہ نہ رہ سکی تھی۔کاش اریزہ اس پر واقعی تھوک دے۔اتنا لڑے کہ وہ اریزہ کے ساتھ کیئے اپنے برے سلوک پر پشیمان ہونے کی بجائے سوچے اس نے صحیح کیا۔ وہ خود کو ہر طرح کی صورتحال کیلئے تیار کر رہی تھی۔ تبھئ اسکی نگاہ سامنے پڑی۔ لفٹ میں لگے دیوارگیر آئینے میں وہ خود کو دیکھ کر حیران رہ گئ تھی۔ اسکا رنگ بالکل سیاہ پڑ چکا تھا۔ وہ برسوں کی بیمار دکھائی دیتی تھی۔
چلو یہ بھی ٹھیک ہے۔ یہ شکل دیکھ کر اریزہ ترس کھا کر رکھ لے گی۔
خود ترسی کی انتہا پر پہنچتے اس نے سوچا تھا۔ لفٹ رک گئ تھی۔ کم سن اسے مستقل نوٹ کر رہا تھا۔
کاش اریزہ ہو ہی نہ گھر پر۔
یہ آخری سوچ دعا بن گئ تھی ۔ اس نے بہت دل سے دعا کی۔۔
جانتی ہو اریزہ بیمار ہے اسپتال میں داخل تھی وہ پچھلے کئی دنوں سے۔
کم سن نے اسکو بتانا ضروری سمجھا۔
کیوں؟ اس نے لمحہ بھر کے توقف کے بنا پریشان ہو کر پوچھا تھا۔
کم سن کے حسب توقع وہ فکر مند ہوئی تھی۔
اسکو نروس بریک ڈائون ہوا تھا۔ کم سن نے سرسری سے انداز سے کہتے اسکے اپارٹمنٹ کی بیل بجائی تھی۔
کیا؟ کیوں ؟ اب کیسی ہے وہ ٹھیک تو ہے نا؟
وہ بے اختیارئ سے اسکا بازو ہلا کر پوچھ رہی تھی۔
کم سن مسکرا دیا
خود پوچھ لینا۔
سنتھیا اسکے انداز پر شرمندہ سی ہوگئ۔ کئی بار بیل بجانے کے بعد بھی دروازہ نہ کھلا تو اس نے گوارا کو کال ملا دی۔
کہاں ہو؟ میں بیل بجا رہا ہوں اپارٹمنٹ کی ۔
آگے سے جو جواب ملا اس پر وہ ہونٹ بھینچ کر رہ گیا۔
کب آئوگی واپس؟
وہ ہنگل میں بات کر رہا تھا اسکے پلے تو نہ پڑا مگر اندازہ ہوا کہ آج اسکی دعائوں کی قبولیت کا دن ہے۔پہلے پتہ ہوتا تو کچھ اور مانگ لیتئ اب بنا سوچے سمجھے مانگنے کا نتیجہ یہ تھا کہ اس شہر میں واحد جگہ جہاں اسے پناہ مل سکتی تھی وہ بھی اب میسر نہیں تھی۔
کم سن کال بند کرکے پیشانی مسلنے لگا۔
پولیس اسٹیشن چلو۔ اب جو ہوگا دیکھ لوں گی میں۔
اس نے ایکدم سے فیصلہ کیا تھا۔ مضبوط انداز میں کہتی سنتھیا کو دیکھ کرکم سن چونکا تھا اسےاتنے دنوں میں پہلی دفعہ اس میں پرانی والی سنتھیا نظر آئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بوسان پہنچ کرانہیں بس پکڑنی پڑی جب اسکے گائوں کے پاس اسٹاپ پر اتریں تو دن ڈھل چکا تھا شام کے سائے پھیل رہے تھے۔ یہاں سے انکو پیدل مزید چلنا تھا۔ انکے سامان کے بیگز میں تو پہیئے تھے پھر بھی اتنے سفر کی تھکن روم روم میں اتر رہی تھی۔
گوارا نے کال کرکے اپنے بھائی کو بلایاہوا تھاوہ کھلے کیبن والی سامان اٹھانے والی پک اپ نما گاڑی لیکرانکے پہنچنے کے دس پندرہ منٹ بعد پہنچا تھا۔بمشکل اٹھارہ انیس سال کا وہ ہائی اسکولر تھا جسے گوارا نے بنا لحاظ دو لگا بھی دی تھیں کہ دس منٹ انتظار کیوں کروایا۔جوابا وہ بس من من کر سکا۔ ان دس پندرہ منٹوں میں کھلی ٹھنڈی ہوا ہڈیوں کو جما رہی تھی اریزہ کی۔ سامان پیچھے رکھ کر گوارا نے خاص طور پر اسے آگے کی نشست پر بٹھایا خود وہ اور ہوپ پیچھے ہی سامان کے ساتھ بیٹھ گئیں۔
میں بھی پیچھے بیٹھ جاتی ۔۔ وہ منمنائی مگر گوارا نے ایک نہ سنی۔
تم سے یہاں کا موسم برداشت نہیں ہوگا بیمار پڑ جائو گئ۔
باہر خالی کھڑے سرد ہوا قلفی بنا رہی تھی یہ دونوں کھلی گاڑی میں جانے کیسے بیٹھی تھیں۔
خدا خدا کرکے گاڑی اونچئ نیچی تنگ سڑکوں سے گزر کر اس چھوٹے سے مگر خوب روشن پرانے کوریائئ طرز کے بنے ریستوران کے آگے جا کر رکی تھی۔
بڑی بڑی شہتیروں والا گھر جس کا ایک حصہ ریستوران بنا دیا تھا باقی رہائشی عمارت ملحقہ ہی تھی۔ اس وقت ریستوران بھرا ہوا تھا ڈھیر ساری چندی آنکھوں والی شکلوں سے۔ خوش گپیوں کی آوازیں گرم تازہ کھانے کی مہک ، شیشے کی دیواروں سے نظر آتی رونق۔ گوارا انکو ریستوران سے ملحق رہائشی عمارت میں لے آئی تھی۔ لکڑی کے فرش کھپچیوں شہتیروں سے سجے ورانڈے سے گزر کر چھوٹا سا پکا مکان تھا۔ اسکا بھائی انکا سامان لا رہا تھا۔ ہوپ اپنا سامان خود اٹھائے تھی مگر گوارا نے حقیقتا اسے گدھا ہی بنا دیا تھا اسکا اریزہ کا بیگ اٹھائے وہ غبارے کی طرح منہ پھلائے تھا۔
اندر لائونج میں ایک سات آٹھ سال کی بچی اور ایک دس بارہ سال کا بچہ کھانا کھاتے ہوئے ٹی وی دیکھ رہے تھے۔
آننیانگ۔
گوارا نے خوشگوار سے انداز میں کہا۔
دونوں کھانا چھوڑ کر بھاگ کر آکر اس سے لپٹ گئے تھے۔
انی۔۔ نونا۔۔۔ ہم آپکو ہی یاد کر رہے تھے۔ آپ اتنی جلدی کیوں واپس چلی گئ تھیں آپ نے وعدہ کیا تھا کرسمس تک یہیں رہیں گی۔
دونوں اکٹھے بول رہے تھے۔حیرت انگیزطور پر اریزہ کو ان بچوں کا لہجہ سمجھ آگیا تھا۔ پوری نہ سہی مگر کرسمس تک رکنے کا وعدہ یاد دلانے والا جملہ پورا سمجھ آگیا تھا۔
تحفے دے کر تو گئ تھئ پھر بھی یاد کررہے تھے مجھے؟
گوارا نے بچے کی ناک کھینچتے چھیڑا
ہاں کیونکہ بے وقوف بچے ہیں نا یہ۔
اسکےبھائی نے منہ پھلاکر جتایا اورسامان وہیں ڈھیر کر دیا۔
ارے کمرے تک تو پہنچا دو۔
گوارا نے کہا مگر وہ ان سنی کرتا باہر نکل گیا۔
ہائش۔ وہ گھور کر رہ گئ۔ بچے اسے گھور رہے تھے
اب تم لوگوں کو کیا ہوا بھئ؟ وہ حیران ہوئی۔
ہم تحفوں کے بھوکے تھوڑی ہیں خوامخواہ ہی ۔
وہ خفا ہوگیا۔
ایک تو ہم یاد کررہے تھے آپکو نونا۔
دوسری نے بھی ٹھنک کر کہا۔
جانتی ہوں مزاق کر رہی تھی۔
اس نے پیار سے انکو ساتھ لپٹایا پھر ان دونوں کی جانب مڑ کر تعارف کرانے لگی۔
یہ سب میرے سوتیلے بہن بھائی ہیں۔نام بتانے کا فائدہ نہیں یاد نہیں رہے گا یہاں رہوگی تو یاد ہو ہی جائے گا۔
وہ ہنسی۔
یہ کون ہیں انی؟
بچوں کو اسکے نقوش مختلف لگے تھے جبھی خاص اسی کا پوچھا۔
یہ میری دوستیں ہیں انکا تم سب کو خیال رکھنا پڑے گا تھا سمجھے؟
گوارا نےتاکید کی تو وہ سب زور و شور سے سر ہلانے لگے۔
اریزہ کو پھولے پھولے گالوں والی بچی پر اتنا پیار آیا کہ بے ساختہ آگر بڑھ کر اسکے گالوں پر چٹکی بھر لی۔
بچی اس پیار کے مظاہرے پر شرما گئی۔
چلو تم دونوں منہ ہاتھ دھو لو میں کھانا لگواتی ہوں۔
گوارا آگے بڑھ کر بیگ اٹھانے لگی ۔
یہ جوتے بدلے بغیر اندر آگئ ہے۔
اس بچے نے ناگواری سے اسکے جوتوں کی جانب اشارہ کرکے کہا۔ وہ بری طرح شرمندہ ہوگئ۔ ایک اسکے سوا سب عادتا جوتے بدل چکے تھے ہوپ بھی ۔
بیان۔ اس نے فوراجھک کر معزرت کی۔اور جوتے اتار کر ہاتھ میں پکڑ لیے۔ گوارا انہیں اپنے کمرے میں ہی ٹھہرا رہی تھی۔ اسکا کمرا چھوٹا سا ہی تھا مگر سلیقے سے سامان رکھا سمٹاہوا۔ اٹیچ باتھ روم بھی تھا۔ پرانے طرز کی روائتئ کوریائی طرز تعمیر بس گھر کے باہر تک ہی محدود تھئ اندر سے کافی نئے انداز کا پکا مکان تھا باتھ روم بھی جدید طرز کا تھا۔اتنی سردی میں نہانے کا تو ارادہ نہ بنا منہ ہاتھ دھو کر باہر آئی تو گوارا انکے لئے چھوٹی سی میز پر کھانا رکھ کے اند رہی لے آئی۔
چاول مٹر پکے ہوئے تھے۔ ساتھ چکن ویجی ٹیبل سوپ۔
خاص کر تمہارے لیئے چاولوں میں مٹر ڈلوانے کا کہا تھا آہموجی سے۔مکمل ویج کھانا ہے سکون سے کھائو۔
اس نے تسلی بھی دے دی۔ ہوپ سوپ پی رہی تھی۔
ابلے ہوئے چاول ابلے ہوئے مٹر کے ساتھ پکے ہوئے تھے۔ اس نے ڈرتے ڈرتے منہ میں رکھا نمکین مختلف ذائقہ۔ حیرت انگیز طور پر برا نہیں تھا۔وہ رغبت سے کھا رہی تھی گوارا کی آہمونی ان سے ملنے چلی آئیں۔ روائتی کوریائی نقوش کی گوری چٹی گوارا سے خطرناک مشابہت ۔ نہایت ہی پیاری مسکان سجائے وہ محبت سے ملنے آئی تھیں۔
ہوپ اور اریزہ ان سے ملنے فورا اٹھ کھڑی ہوئیں۔
آنیا آنیا۔ بیٹھو کھانا کھائو۔
دونوں ہاتھ ہلا ہلا کر وہ انکو منع کر رہی تھیں۔ ہوپ نے تو کوریائی انداز سے جھکنےپر اکتفا کیا۔ اریزہ آگے بڑھ کر ان کے گلے لگ گئ۔ یہ انکے لیئے غیر متوقع تھا مگر بہت پیار سے انہوں نے اسے ساتھ لگایا۔ گوارا نے مسکراہٹ دبائی۔
پھر جانے ہنگل میں کیا پوچھنے لگیں۔
آہمونی پوچھ رہی ہیں کھانا کیسا لگا تمہیں؟
گوارا نے ترجمہ کیا۔
۔ماشیتا۔ ( بہت مزے کا)چھائے موکے سبندا۔
اریزہ نے ساری ہنگل جھاڑی تو وہ خوش ہو کر کچھ بتانے لگیں۔ انکی بات سنتی گوارا چیخ پڑی
کیا؟ آپکو منع کیا تھا نا میں نے۔۔
مزے لیکر چاول کھاتی اریزہ حیرت سے اسکا برتائو دیکھنے لگی۔ ایکدم اچانک کیا ہوا۔ ہوپ نے اریزہ کے ہاتھ سے پلیٹ لے لی۔
دونوں ماں بیٹی میں بحث جاری تھی ۔ آہمونی جھک جھک کر معزرت کرنے لگیں۔
کوئی بات نہیں جانے دیں اس بات کو۔
ہوپ نے اخلاقا دخل دیا اور گوارا کو بھی چپ کرایا۔
ہائش۔ گوارا سر پکڑ کر رہ گئ۔
کیا ہوا۔
اریزہ حیران پریشان تھی۔
اب اسے نہ بتا دینا ورنہ یہیں کھانا چھوڑ دے گی۔
گوارا نے ہوپ سے کہا۔ تو جوابا وہ نفی میں سر ہلاگئ
نہیں بتانا تو چاہیئے یہ اتنی سخت ہے اپنی مزہبی رسومات میں ہمیں اسے دھوکا نہیں دینا چاہیئے
ہوا کیا ہے کچھ مجھے بھئ تو بتائو۔
اریزہ جھلا گئ
در اصل آنٹی نے مٹرچاول میں سور کا سالن بھی ڈال دیا تھا۔ گوشت نکال کے۔
ہوپ نے بتایا تو وہ سر ہلا کر بولی۔
اوہ اچھا ۔ پلیٹ دوبارہ اٹھانے لگی تو دماغ میں گھنٹی بجی۔
اتنے مزے لے لے کر وہ آدھی پلیٹ کھا چکی تھی۔ اس نے پلیٹ چھوڑ دی۔ گوارا نے ہوپ کو گھورا
دیکھا کہا تھا نا میں نے۔۔
سچ بتانا بھی تو ضروری تھا نا۔
ہوپ بے نیازی سے بولی۔
اریزہ کو نیا غم لاحق ہوچکا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہی ہو نا میں بات کر رہا تھا میری بات کاٹ کر فون بند کردیا کوئی کام پڑتا ہے تو میں فورا یاد آتا ہوں تمہیں۔
صارم کو موقع ملا تھا کیسے نہ بدلہ لیتا۔
اوفوہ ۔ وہ جھلا گئ۔ ایک تو اتنی سردی میں جیکٹ مفلر لپیٹ کر باہرصحن میں آکر اس کو کال ملائی اوپر سے وہ اصل مسلئے کی بجائے اپنی بے پر کی ہانک رہا تھا۔
صارم پلیز میں سنجیدہ ہوں۔ وہ رودینے کو تھی۔
میں بھی سنجیدہ ہوں۔ مجھ سے بدتمیزیاں کرنے سے پہلے سوچتی کیوں نہیں ہو میرے سوا اس دنیا میں تمہارا ہے ہی کون۔ اب منتیں بھی کرلوگی مگر دوبارہ میٹر گھومے گا اور تو کون میں کون ۔
وہ چمک کر بولا۔
صارم کے بچےآٹھ بجے ہیں اندر سب سونے لیٹ گئے ہیں میں اکیلی باہر اتنی سردی میں پھر رہی ہوں بھائی نہیں ہو ؟ ذرا ترس نہیں آرہا تمہیں مجھ پر۔
ہاں تو میں بھی باہر ہی ہوں ٹیرس پر۔یہاں بھی پانچ ڈگری ہو رہا ہے درجہ حرارت۔
وہ ترس کھانے کو تیار نہ تھا۔
میں اس نے موبائل کان سے ہٹا کر ویدر ایپ دیکھی۔ سیول کا ہی درجہ حرارت بتا رہی تھی ابھی لوکیشن اپڈیٹ ہی نہیں کی تھی۔ وہاں تو شائد پھر برفباری ہو رہی تھی سنو بنی آرہی تھی ساتھ منفی تیرہ۔
یہاں منفی تیرہ ہو رہا ہے۔
اس کی بتاتے آواز کانپ کانپ گئ۔ دانت جو بج رہے تھے۔
ہیں؟ وہ پہلی بار چونکا۔
ہاں ۔ وہ کونسا ابھی بوسان کا ویدر دیکھ کر اسے شرمندہ کرے گا۔ اس نے ڈھٹائی سے کہا۔
ٹھہرو میں دیکھتا ہوں اتنی سردی میں تم زندہ کیسے ہو یہاں تو اکتوبر سے دو سوئٹریں چڑھا لیتئ تھیں۔
وہ سچ مچ ویدر نکالنے لگا تھا۔
سو کمینے مرے تھے جو تم پیدا ہوئے۔
وہ غصے میں چلا اٹھی۔
اسکے ایکدم زور سے بولنے پر مین گیٹ سے اندر داخل ہوتے اس شخص کے ہاتھ سے تھیلی چھوٹ کر نیچے گر گئ۔
گرنے کی آواز پر وہ چونک کے مڑی ۔ تیز بلب کی روشنی میں نووارد کا چہرہ واضح تھا۔ اسکے چہرے پر اسکو دیکھ کر خوشگوار حیرت در آئئ تھئ۔ اریزہ بھی اسے دیکھ کر فون کال بھول گئ تھی۔
جھک کر شاپر اٹھاتے وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اسکے پاس چلا آیا۔
اسلام و علیکم اریزہ ۔کافی خوشگوار سرپرائز ہے ۔ کیا حال ہے تمہارا؟
علی مسکراتے ہوئے اسکا احوال پوچھ رہا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد
جاری ہے
kesi lagi apko salam korea ki yeh qist ? rate us below