Salam Korea
by vaiza zaidi
قسط 7
وہ حقیقتا کانپ رہی تھی غصے سے۔ ایڈون انکی بچپن کی دوستی دائو پر لگانے چلا تھا۔ اسکا بس نہیں تھا کہ اس وقت ایڈون کا کیا حشر کر دے۔ ہایون نے اسے بغور دیکھا وہ اسکے ساتھ ہو کر بھی ساتھ نہیں تھی۔ وہ یونہی سڑک کنارے دھیرے دھیرے چلتے رہے۔ہوٹل دو گلی پیچھے رہ گیا تھا آہستہ آہستہ اسکا پارہ نیچے آنا شروع ہوا اس نے آنکھیں رگڑیں پھر اپنے گرد و نواح پر نظر ڈالی اور چونکی۔ پر ہجوم سڑک کنارہ بھاگتا دوڑتا ٹریفک انجان شکلیں اور شہر۔
تمہیں ہاسٹل چھوڑ دوں؟
ہایون نے پوچھا تو وہ سٹپٹا سی گئ۔ مانا اسکا کلاس فیلو تھا مگر اس کے ساتھ اتنی بےتکلفی تو نہ تھی کہ منہ اٹھا کے چل پڑتی۔
میں کیب لے لیتئ ہوں۔
اسے یہی مناسب لگا تھا۔
ہایون نے اسکو غور سے دیکھا۔
میں چھوڑ دیتا ہوں ہاسٹل تمہیں ۔
اسکے کہنے پر اریزہ نے اسکی شکل دیکھی۔
سادہ سا چہرہ سادہ سا انداز ۔
اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔وہ اسے لیکر اپنی گاڑی کے پاس آگیا۔۔ شام ڈھل رہی تھی ہوا میں بہت خنکی ہو رہی تھی۔۔
اسے بٹھا کر وہ گھوم کر آکر ڈرائیونگ سیٹ پر آبیٹھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم بھی تو ہیں ۔۔ نہ ملک ایک نہ زبان ایک نہ نسل ایک اور کم سن کا تو مزہب بھی الگ ہے ہم سب آرام سے ایک جگہ سکون سے بیٹھ کر کھا رہے ہیں کہ نہیں؟ یہ مسلمان ہوتے ہی ایسے ہیں ہر جگہ مسلہ کھڑا کر دیتے۔۔ خود بتا ئو ان تینوں کے ہوتے ہم سب نے اکٹھے مل کر کچھ کھایا ہے؟
ایڈون کم سن اور یون بن سے کہہ رہا تھا دونوں بالکل خاموش تھے سنتھیا چڑی
اس وقت تم بلا وجہ جھگڑے ہو ایڈون۔۔ اریزہ نے تمہیں کچھ ایسا نہیں کہا تھا۔۔ اور یہ تینوں سوائے اسکے کہ خود نہیں کھاتے تھے تمہیں تو نہیں روکتے تھے کھانے سے انکی وجہ سے تمہیں کیا مسلہ تھا۔۔
مجھے لگا تھا کہ سالک نے زیادتی کی ہے مگر کہیں نہ کہیں تمہاری بھی غلطی ہوگی اب مجھے یہی لگ رہا ان سے بھی تم ہی جھگڑے ہوگے ۔۔
سنتھیا اردو زبان میں بات کر رہی تھی۔۔
یون بن زچ ہوگیا ہمیں بھی تو بتائو ایسا کیا مسلہ ہو گیا ہے؟
مجھ پر یقین نہیں نا۔۔ ایڈون کو دکھ ہوا۔
ان سے پوچھ لو انکے سامنے ساری بات ہوئی ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سالک نے کچھ عرصے سے ایک گرم چادر اوڑھنے والی نماز کیلیے علیحدہ کر رکھی تھی اسے وہ دراز میں الگ رکھتا تھا۔۔ یون بن اسے اکثر اس چادر پر بیٹھ کر نماز پڑھتے دیکھتا تھا۔۔ عموما وہ جب نماز پڑھنے لگتا تو ایڈون اور یون بن خاموش ہوجایا کرتے تھے یا کمرہ چھوڑ دیتے تھے۔۔ اس دن وہ وضو کر کے آیا تو دیکھا اسکی چادر زمین پر پڑی ہے اور ایڈون الماری سے کچھ نکال رہا تھا۔۔ اس نے اسے ٹوکا تو اس نےسوری کہہ کر چادر بیڈ پر رکھ دی۔۔
اس نے چادر اٹھائی تو عجیب سی بوتل اسکے بیڈ پر رکھی لیک ہو رہی تھی شائد ڈھکن صحیح بند نہین تھا اسکی چادر بھی گیلی ہوگئی تھی۔۔ ایڈون نے اسے بوتل اٹھانے کو ہاتھ بڑھاتے دیکھا تو فورا ٹوکا۔۔
اسے ہاتھ نہ لگائو شراب ہے ابھی رولا ڈال دوگے تم ۔۔
کیا۔۔ وہ بھنایا۔۔
یہ میری نماز کی چادر اس پر رکھ دی تم نے۔۔
اب میں نماز کس پر پڑھوں گا۔۔
سوری یار میں نے بند کرکے رکھی تھی پتہ نہیں کیسے لیک ہوگئی۔۔ میرا بستر بھی گیلا ہوگیا۔۔ وہ سادے سے انداز میں کہتا اپنا بیڈ جھاڑنے لگا۔۔
حد ہے۔۔ میں وضو کرکے آیا تھا۔۔ وہ چادر ایک طرف ڈالتا بیڈ کیطرف بڑھ گیا۔۔
میں کل دھودوں گا۔۔ تو میری چادر لے لے اب وضو کر لیا ہے تو نماز پڑھ لے لیٹ مت۔۔ اس نے الماری سے اپنی چادر نکال کر اسے دینی چاہی
یار پاک چادر پر نماز ہوتی ہے۔۔
اسکے منہ سے نکل گیا تھا۔۔ اس نے کہتے ساتھ ہی زبان دانتوں تلے دبا لی۔۔
یون بن اس ساری گفتگو کے درمیان اپنے بیڈ پر لیٹا لیپ ٹاپ میں مگن تھا۔۔
ایڈون کے چہرے پر سایہ سا لہرایا مگر سنبھل کر بولا۔۔
ویسے یہ دھلی ہوئی ہے ابھی تک میں نے استعمال نہیں کی۔۔
ابھی یہ بات ہو رہی تھی کم سن اور شاہزیب بولتے ہوئے اندر چلے آئے۔
اوئے ایڈون تو نے میری ناک کٹوا دی یار
پورے ایک ہزار وون کی شرط ہار بیٹھا میں تیری وجہ سے کمینے۔۔
کیوں میں نے کیا کیا۔۔
ایڈون حیران ہوا۔۔
اس دن کم سن پورک بیلی کھا رہا تھا ایسے ہی بات نکلی تو میں نے بتایا کی پاکستانی تو کرسچن بھی پورک نہیں کھاتے اس نے کہا ایڈون نے تو کھایا ہوا ہے۔۔ میرے ساتھ بھی کھایا ہے۔۔ تو نے کب کھایا پورک پاکستان میں؟
وہ یار ایمبیسی میں ایک انکل ہوتے ہیں میرے فارنرز کی کیوزین انکے زمے تھی انکے یہاں کھایا وہان لیگلی تو نہیں بکتا مگر ال لیگلی تو پاکستان میں سب کچھ ہوتا ہے۔۔
وہ لاپروائی سے بولا۔۔
بس کم سن نے ہتھیلی پھیلائی شاہزیب نے منہ بنا کر پیسے ہاتھ پر رکھے۔۔
یار تو خنزیر بھی کھا کے بیٹھا ہے۔۔ سالک نے منہ بنایا ۔۔ گندے۔۔ گھن نہیں آئی کھاتے
کیوں جانور ہے وہ بھی۔۔ جیسے گائے بکرا مرغی
تمہیں کھاتے گھن آتی؟
ایڈون نے سادے انداز سے کہا۔۔
پھر بھی یار غلیظ جانور ہے غلاظت کھاتا۔۔ یہ لوگ توچلو جانتے ہی نہیں مگر تو تو پاکستانی ہے ہمارے ساتھ رہا ہے تو تو نہ کھاتا۔۔ شاہزیب نے اردو میں کہا۔۔
تو؟ پاکستانی ہوں تو کیا ہوا مسلمان تو نہیں ہوں۔تم لوگ کیا اپنا مزہب تھوپتے ہو سب پر۔۔ تم لوگوں کے ہاں حرام ہے میرے یہاں نہیں ۔۔۔۔شراب نہیں پی سکتے سور نہیں کھا سکتے اچھی زبردستی ہے۔۔
گیٹ آ لائف۔۔
ایڈون تپ چکا تھا سچ تو یہ ہے کہ اسے آگ سالک کے جملے نے لگائی تھی اسکی دھلی صاف چادر اسے ناپاک لگی اسے نری بےعزتی محسوس ہوئی تھی کیا وہ اسے انسان نہیں سمجھ رہا تھا۔۔
اب ذیادہ مت بول سور تو کھاتا ہے پاکستان میں شراب کا الگ پرمٹ بنتا تم لوگوں کا تو کس منہ سے کہہ رہا ۔۔شاہزیب کو تھوڑا غصہ آگیا تھا۔۔
کم سن آنکھیں پھاڑے کبھی ایک کو دیکھتا کبھی دوسرے کو یون بن نے بھی لیپ ٹاپ بند کرکے رکھ دیا۔۔ اور کم سن سے پوچھنے لگا۔۔ کیا ہوا۔۔
مجھے لگ رہا یہ لوگ لڑ رہے ہیں یا لڑنے والے ہیں اس نے ہنگل میں کہا تو یون بن بستر سے اٹھ کر انکے پاس آگیا۔۔
ہاں آزاد ملک کا آزاد شہری ہوں سور چھپ کر کھاتا ہوں شراب چھپ کر پیتا ہوں ورنہ مجھے جیل ہو سکتی آگے تم لوگوں کا رمضان آئےگا کھانا پینا بھی کھلے عام منع ہو جائے گا۔۔ کبھی گھر میں پریر کر لیں محلے والے آجاتے گانا بجانا بند کرو۔ خود دن میں پانچ پانچ مرتبہ لاوڈ اسپیکر پر دس جگہوں سے ازان
بس ۔۔ ایڈون ایک لفظ مزید مت بولنا۔۔ سالک تحمل سے بولا
کیوں سچائی کڑوی لگی نا۔۔ یہ ملک دیکھو۔۔ غیر مسلم ملک ہے کتنا امن ہے یہاں اک دھماکا تک نہیں ہوتا تم لوگ نہ چین سے جیتے ہو نہ جینے دیتےہو
بس کر دے ایڈون بہت ہو گیا۔۔ شاہزیب نے مٹھیاں بھینچی
اتنا پسند ہے یہ ملک تو یہین رہ جا شراب پی سور گدھے کھا تیری اوقات ہی نہیں پاک کھانے کی کھا غلاظت
سالک نے کہا تو ایڈون نے اسکے منہ پر طمانچہ مار دیا۔
تمہارے باپ کا نہیں ہے پاکستان جو مجھے وہاں سے نکلنے کو کہہ رہا۔۔
سالک نے پلٹ کر اسکے منہ پر گھونسا دیا۔۔ یون بن نے ایڈون کو پکڑا کم سن نے سالک کو۔۔
پاکستان پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ ہے تو اس کے قابل نہیں رہا۔۔ ۔۔۔
سالک نے نفرت بھرے انداز میں کہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مارا ایڈون نے پہلے تھا بول بھی ایڈون ہی رہا تھا اب ہمیں واقعی کچھ پتہ نہیں کیا کہہ رہے تھے یہ لوگ آپس میں مگر شاہزیب سالک کو کھینچ کر اپنے کمرے میں لے گیا تھا۔ انکا ڈورم دو بیڈ کا ہے تو کم سن کل پھر ہمارے کمرے میں آکر سویا۔۔
آخر مسلہ کیا ہے تم لوگ کل کیوں لڑے اور آج اریزہ سے کس بات پر جھگڑا ہوا ہے بتائو تو سہی۔۔
یون بن نے بتایا۔۔
تمہیں میں بتا چکا ہوں ساری بات وہ سب سن کر پھولوں کے ہار تو نہیں پہنانے تھے میں نے ایڈون نے اردو میں سنتھیا کو کہا تو وہ گہری سانس لے کر رہ گئ۔۔
مجھے لگ رہا انکا کوئی آپس کا ایسا مسلہ ہے جو انکے ملک کے متعلق ہے نہ شاہزیب کچھ بول کے دیا نا یہ کچھ بتا رہا۔۔ پوچھنے کا فائدہ نہیں کوئی۔۔
کم سن نے ہنگل میں یون بن سے کہا تو وہ بھی سر ہلا کر چپ ہو گیا۔۔ تبھی کھانا سرو ہونے لگا تو وہ خاموشی سے کھانا کھانے لگے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گاڑی اسی چائینیز ریسٹورنٹ کے سامنے رکی تھی۔ وہ چونک کر اسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔۔
آٹھ ہو رہے ہیں صبح کا ناشتہ کیا ہوا میں نے ۔۔ کچھ کھا نا لیں ؟ میرے دونوں سینڈوچ ہضم ہو چکے تم نے تو خیر کچھ کھایا ہی نہیں تھا۔۔
بھوک تو اسے لگ رہی تھی سینڈوچ لے تو لیا تھا مگر روز روز ایک ہی چیز کھا کھا کے دل اوب گیا تھا۔۔
مگر تمہیں تو چائینیز پسند ہی نہیں۔۔ اسے خیال آیا۔۔ اب یہ اسکے ساتھ کھا کر کل کو اس سے لڑے گا۔۔ تمہاری وجہ سے میں چائینیز کھاتا رہا ہوں۔۔
اس نےتصور میں اسے خود پر چلاتے دیکھا۔۔
ہمم مگر میں یہ بھی دیکھ رہا ہوں تین چار بار تم لوگوں کے ساتھ کھایا بھی کہیں تم نے کھانا ٹھیک سے نہیں کھایا کم از کم یہاں چاول تم نے کھا تو لیے تھے۔۔
اس کا منہ اتر گیا۔۔ سر جھکا لیا۔۔
میرا مقصد تمہیں جتانا نہیں تھا ۔۔ ہایون نے سفید جھنڈی لہرائی۔۔
کوئی بات نہیں۔ہایون کو اتنے دنوں سے دیکھ رہی ہوں۔ اسکی باجی کے ساتھ بھی میں یہاں آچکی ہوں۔ اور یہ بات میرے لیئے عجیب ہے مگر ان لوگوں کے لیئے معمول کی بات ہے اپنی کلاس فیلو کو لفٹ دے لینا یا ڈنر کرلینا اسکے ساتھ۔
سب ٹھیک ہے۔ کھانا کھانے میں کوئی حرج نہیں۔ اسکے ہمراہ چلتے وہ خود کو یہی سب کہتی آئی دل ہی دل میں۔
دونوں ریستوران میں داخل ہوئے تو وہی مخصوص میز اتفاق سے خالی تھی۔۔۔
بھاگو۔ ہایون نے کہا تواسے بھی تھا مگر وہ بھاگ نہ سکی۔ البتہ ہایون بھاگ کر اس میز پر قبضہ۔کر گیا۔ اسے بے ساختہ انی یاد آئیں اور انکی حرکت بھی۔ ہایون میز قبضے میں کرکے فاتحانہ انداز میں بیٹھا تھا
وہ سر جھٹکتی اسی میز کی جانب چلی آئی۔ ہایون نے اسی دن والا آرڈر دیا تھا۔
کچھ اور کھانا پینا ہے۔ وہ آرڈر دینے کے بعد پوچھ رہا تھااس نے دھیرے سے نفی میں سر ہلادیا۔۔ دونوں خاموش بیٹھے تھے جبھی آج اسے موقع ملا اس ہوٹل کا انٹیریر دیکھنے کا۔ وہ بہت شوق سے گردن گھما گھما کر دیکھ رہی تھی۔میز کرسیاں وغیرہ تو سب کسی بھئ اچھے ریستوران جیسی ہی تھیں آرام دہ مگر دیواروں پر لکھی چینی زبان کی تحاریر درج تھیں۔ ایک جانب کونے میں بڑا سا پورٹریٹ دیوار گیر سجا تھا چینی شہزادی ستار کی طرح کا کوئی۔ساز بجا رہی تھی اسکے برابر چینی شہزادہ کھڑا نہارتی نگاہوں سے بانسری بجاتا اسے دیکھ رہا تھا۔ چھت پر بڑا سا چینی فانوس سجا تھا۔ سنہری او رسرخ امتزاج کی دیواریں قمقموں سے سجی تھیں۔
یہ سب چینی لوگ ہیں؟
چندی آنکھوں والے ویٹر ویٹرسسز دیکھ کر اس نے یونہی پوچھا تھا۔
یہ چینی ریستوران ضرور ہے مگر یہاں کام کرنے والے چینی نہیں ہیں۔۔
ہایون کے جواب پر وہ سر ہلا گئ۔ اسے تو فرق نہیں پتہ لگ رہا تھا۔ سب چندی آنکھوں والے تھے یہاں بھی۔
چینیوں کی آنکھیں ذیادہ کھنچی ہوئی ہوتی ہیں انکی رنگت بھئ زردی مائل ہوتی ہے تاہم کورینوں کی تھوڑی سی کشادہ آنکھیں ہوتی ہیں۔ کچھ قدرتی ذیادہ تر نے سرجری کروا کر پپوٹے اونچے کرا رکھے ہوتے ہیں۔
اس نے وضاحت کئ
سرجری پپوٹوں کی کون کراتا۔
اسے حیرت ہوئی۔
ہم۔ ہایون مسکرایا۔
کوریا میں دنیا میں سب سے ذیادہ سرجریز ہوتی ہیں۔ ہر پانچ میں سے ایک کورین اپنے چہرے میں تبدیلی لا چکا۔ہے سرجری کے ذریعے۔
اور تم ؟ تمہاری آنکھیں بڑی بھئ ہیں اور پپوٹے اونچے بھئ ہیں تم۔نے بھی کروائی ہے؟
اسکے سوال پر اسکا چہرہ پھیکا سا پڑا تھا۔ اسے شرمندگی سی ہوئی۔یوں کسی کے خدوخال پر اسے تبصرہ نہیں کرنا چاہیئے تھا۔
آئیم سوری۔
اس نے فورا معزرت کر ڈالی۔ ہایون سنبھل کر مسکرا دیا
میری قدرتی آنکھیں ایسی ہیں میں نے سرجری نہیں کروائی۔
اس نے سر ہلادیا۔ یہ بات معزرت کروائے بنا کہہ دیتا۔وہ قصدا پھر کچھ نہ بولی
آج جب چاول آئے تو جانے اریزہ کو کیا سوجھی چمچ کی بجائے چاپ اسٹک اٹھا لی۔ دو ایک بار اس نے غور سے ہیونگ سک کو چاپ اسٹک پکڑتے دیکھا خود دو یا تین کوشش میں ناکامی کے بعد تھوڑے چاول پھنسا کر کھانے لگی تھی۔ اس نے نوالہ منہ میں ڈالا تو ہیونگ سک نے باقائدہ تالی بجائی اسکیلیئے۔ اسے لگا تھا وہ چھپ کے کر رہی یہ کام مگر پکڑے جانے پر بلش ہوگئ۔۔
اس نے کھسیا کر چاپ اسٹک رکھ دی۔۔
ہایون کو ہنسی آگئ۔۔
سیول کیسا لگا تمہیں۔۔ اس نے یونہی بات برائے بات پوچھا۔۔
اچھا لگا ہے ۔۔ اس نے دل سے کہا۔۔
کیا سب سے ذیادہ اچھا لگا۔۔
میں نے زیادہ کچھ دیکھا نہیں ہے ہاں صاف ستھرا ہے روشنیوں کا شہر ہے۔۔ اونچی اونچی بلڈنگز اور اچھا موسم ۔۔ اسلام آباد جیسا ہی ہے۔۔ اسے بتانے میں لفظوں کی کمی کا احساس ہوا۔۔
اسلام آباد؟ اس نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔
میرے ملک کا کیپیٹل سٹی۔۔
تم وہاں رہتی ہو۔۔ ؟
وہ اٹکی۔۔
نہیں اسکے ساتھ ہی شہر ہے راولپنڈی اس میں رہتی۔۔ پڑھتی اسلام آباد کی یونی میں تھی۔۔
روز دوسرے شہر جانا مشکل نہیں۔۔
وہ دوسرا شہر اتنا دوسرا بھی نہیں۔۔ جڑواں شہر ہیں دونوں۔۔ اس نے دونوں چاپ اسٹکس ساتھ جوڑیں
ایسے۔۔
تمہارا شہر کیسا ہے؟ وہ بات برائے بات پوچھ رہا تھا۔۔
بہت صاف ستھرا۔۔
جب سے البراق سے کانٹریکٹ ہوا ہے کافی صاف ہو تو گیا ہے۔۔ اس نے دل میں سوچا۔۔
ایسے ہی۔۔ ہے جیسا سیول۔۔
اور کیا بتائے۔۔ وہ سوچ میں پڑی
مالز ہیں۔۔
(تھوڑے چھوٹے ہیں تو کیا ہوا۔۔ )
میٹرو ہے۔۔ سیول جیسی۔۔
(ٹرین بھی ہو جائے گی کبھی نہ کبھی)
یہاں تو ہنگن ریور یے وہاں بھی کوئی ہے؟ہایون کو دلچسپی ہوئی
ہے نا ۔۔
ڈیم ہے (یاد آیا اسلام آباد میں ہے)
سواں دریا ہے۔۔ نالہ لئی بھی ہے۔۔
شہر کے بیچوں بیچ بہتا ہے۔۔ دنیا میں اپنی طرز کا اکلوتا خوشبودار نالا۔۔
وہ منہ بنا کر بولی۔۔
(scented)وہ حیران ہوا۔۔
ہاں اس علاقے سے گزرو دور سے خوشبو آتی ۔۔
اس نے بتایا تو ہایون کی حیرانی دو چند ہو گئ
میں نے کبھی ایسے انوکھے نالے کے بارے میں نہیں سنا مجھے تو شوق آرہا دیکھنے کا تمہارے پاس تصویر ہوگی کوئی۔اسکے ساتھ۔؟
نالہ لئی کے ساتھ تصویر۔۔ اسے اچھو ہوا۔۔
اسکے ساتھ تو شائد ہی کوئی ایسا ہو جو کھنچوائے
اس نے ناپسندیدگی سے کہا۔۔
کیوں؟
ہایون کا اشتیاق عروج پر تھا
سینٹڈ نالا ہے نا۔۔ وہ گڑبڑائی۔
اسکے قریب بہت تیز خوشبو ہوتی ہم دور دور رہتے۔۔
اچھا۔۔ اس نے سمجھ کر سر ہلایا۔۔
بڑی چول ماری ہے اریزہ۔۔ اس نے دزدیدہ نظروں سے دیکھا پھر جلدی سے بات پلٹ دی
انی بس ایک ہی بہن ہیں تمہاری؟
اس نے یونہی بات برائے بات پوچھا
ہاں کیوں۔۔
ہیونگ سک نے سرسری انداز میں پوچھا۔۔
کاش میری بھی کوئی بڑی بہن ہوتی۔۔ اس نے اردو میں کہا۔۔ ہیونگ سک نے اسے جتاتی نظروں سے دیکھا۔۔
تو سنبھل کر فوری ترجمہ کیا۔۔
مجھے انی بہت اچھی لگی تھیں بہت خوبصورت اور گریس فل کاش کچھ عرصے میں میں بھی اتنی کانفیڈنٹ ہوجائوں۔
ہیونگ سک نے ایک نظر اسے دیکھا اسکا چہرہ اسکے لفظوں کا ترجمان تھا
انی کو بھی تم کافی پسند آئی ہو۔۔۔
اس نے یونہی کہا مگر وہ خوش ہوگئ
اچھا کیا کہہ رہی تھیں۔۔
وہ دلچسپی سے پوچھ رہی تھی۔۔
بس یہی تم پیاری ہو باتونی ہو اچھی گپ شپ رہی تمہارے ساتھ۔۔ اس نے سوچ سوچ کر کہا۔۔
واقعی ۔۔ وہ بچوں کی طرح خوش ہوئی۔۔
وہ لوگ کھانا کھا چکے تو ویٹر بل لے آیا۔
دونوں نے اکٹھے اس فائل پر ہاتھ رکھا۔۔
بل میں پے کروں گی۔۔
ٹریٹ میری جانب سے ہے ۔۔
اس نے اریزہ کے ہاتھ کے اوپر ہاتھ رکھ دیا تھا۔۔ اریزہ نے فورا ہاتھ کھینچا
مگر تم یہاں میری وجہ سے آئے تھے سو ٹریٹ میری جانب سے۔۔
ہایون نے ایک نظر اسے دیکھا اور پیسے فائل میں رکھ دیا۔۔ وہ ہاتھ ہٹا چکی تھی سو بحث بےکا ر تھی
چلو۔۔
پہلے مجھ سے پیسے لو۔۔ وہ اٹھی ہی نہیں۔۔۔
کسی پاکستانی کیساتھ آنا تو ضرور پے کرنا مگر کورین کلچر میں دعوت لڑکے ہی کرتے۔۔ اس نے نرمی سے کہہ کر بات ختم کی۔۔ اریزہ نے کچھ کہنے کو منہ کھولا پھر بند کر لیا۔۔ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کھانا کھا کر اٹھنے لگے تو خلاف معمول چاروں چپ تھے۔۔
اریزہ کا پتہ کرو کہاں ہے۔۔ ایڈون نے ہوٹل سے نکلتے ہوئے سنتھیا سے کہا۔۔
سنتھیا اسے گھور کر اپنے پرس سے موبائل۔ نکالنے لگی
کم سن نے مسکرا کر اسے دیکھا۔۔
ہایون نے اسے ڈراپ کر دیا ہے۔۔ ابھی ٹیکسٹ آیا ہے اسکا۔ یون بن نےا سکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔
ایڈون اس وقت تھوڑا شر مندہ تھا۔۔ کل کی جو بھی بات تھی کم از کم اس وقت اسی کی غلطی تھی اس نے کل کا غصہ ناحق اریزہ پر اتارا۔۔ سنتھیا الگ خفا ہو گئ تھی۔۔
ہاسٹل کے باہر سنتھیا کو ڈراپ کیا تو وہ تیز تیز قدم اٹھاتی بنا پیچھے مڑ کر دیکھے چلی گئ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایڈون اسے پکارنا چاہ رہا تھا مگر کم سن نے اسکےکندھے پر ہاتھ رکھ کر روک دیا۔۔
گاڑی پارک کرکے وہ پیدل اپنے ڈورم کی طرف بڑھنے لگے۔۔
اسٹریٹ لائٹ کی مدھم روشنی میں چلتے چلتے درختوں کے پارگھپ اندھیرے کو دیکھتے یون بن کو یاد آیا۔۔
پتہ ہے کم سن جب چھوٹا تھا تو اسے اندھیرے سے ڈر لگتا تھا۔۔
چپ ہو جائو۔۔ کم سن کو اندازہ ہو گیا وہ کیا بتانے والا ہے۔۔
یون بن ہنسا۔۔ اور بولنے کو منہ کھولا تو کم سن نے اسکے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔
یون بن ہنگل میں کچھ بولا کم سن نے اسکو گھونسا لگایا یون بن ہنستے ہنستے بولتا گیا۔۔
ایڈون کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آگئ۔۔
وہ دونوں ہنستے لڑتے بے دم ہونے لگے۔۔
کم سن نے اچانک مڑ کر اس سے پوچھا۔۔
تمہیں سمجھ آئی اس نے کیا بتایا۔۔
اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔۔
یون بن ہنسا۔۔
میں ترجمہ بھی کر سکتا ہوں۔۔
وہ کم سن کو چھیڑ رہا تھا اس نے سر جھٹکا۔۔
کم سن نے چلتے چلتے دیکھا جوتے کے تسمے کھل رہے تو وہیں رک کر اکڑوں بیٹھ کر باندھنے لگا یون بن ایک قدم رک کر پیچھے ہوا اسکے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر دونوں پائوں اٹھا کر آگے کود گیا۔ کم سن الٹ کر پیچھے گرا۔۔ یون بن ہنستا ہوا بھاگا۔۔ کم سن اٹھا اور اسے مارنے کو بھاگا وہ بچپن کی دوستی کا لطف اٹھا رہے تھے وہ ہنس کر سر جھٹک گیا۔ پھر خیال آیا تو انکو غور سے بھاگتے دیکھنے لگا
انہیں دیکھتے دیکھتے ایڈون کو اپنے دوست یاد آگئے تھے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔
ایسے ہی تو نہیں کہا گیا یہود و نصاری تمہارے کبھی دوست نہیں ہو سکتے۔۔ سالک نے کہا تو شاہ زیب نے مڑ کر اسے گھورا۔۔
اپنی مرضی کا اسلام خوب یاد رہتا۔۔ قل یا ایھا الکفرون کا ترجمہ سنائوں؟ تمہارےلیئے تمہارا دین میرے لیئے میرا دین۔تو بحث میں کیوں پڑا؟
سالک چپ ہو گیا۔۔
اس نے جو بھی کہا کیا مجھے اس پر غصہ آیا مگر تجھے بھی اسے غلیظ اورنجس کھانے والا نہیں کہنا چاہیے تھا وہ بہت کڑے الفاظ تھے۔۔دل دکھانا بھی بہت بڑا گناہ ہوتا ہے اگر یاد ہو تو۔۔
۔شاہزیب بستر جھاڑتے ہوئے بولا۔۔ سالک چپ رہ گیا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہایون۔۔ کمرے میں آکر کپڑے چینج کرنے لگا تھا ابھی شرٹ اتاری ہی تھی کہ اسے گفٹ یاد آیا۔۔ اٹھا کر نونا کو دینے کے ارادے سےوہ کپڑے ٹھیک کرتا دروازہ کھولنے لگا۔۔
نوناسامنے کھڑی شائد دستک ہی دینے لگی تھیں دونوں نے بیک وقت ہاتھ بڑھایا
یہ لو۔ انہوں ایک پلندہ اسے تھمایا۔۔
یہ کیا ہے۔۔ وہ حیران ہوا۔
یہ کیا ہے۔۔ وہ حیران ہوئیں۔۔
ہیونگ سک نے کندھے اچکائے
گفٹ ہے۔۔ کسی نے بھجوایا ہے آپکو۔۔
کس نے۔۔
انی نے بھنوئیں اچکا کر دیکھا اسے۔
دیکھ لیں نام لکھا ہے۔۔ اس نے بے نیازی سے کہا۔۔ نونا کو فی الحال ہایون کو دیے گئے لفافے میں دلچسپی تھی ۔
اس نے لفافہ نکال کر دیکھا۔۔ تو مزید ایبسٹریکٹ آرٹ کے نمونے تھے۔۔
اوہ۔۔ اس نے سر ہلایا۔
ویسے تم انکا کروگے کیا۔۔؟ نونا کو واقعی حیرانی تھی۔۔
دیکھ لیجئے گا۔۔ وہ کہہ کر اندر آگیا۔۔ پلندہ اٹھا کر درازکھول کر اس میں ڈالا۔
بائے اینی چانس کہیں ایسا تو نہیں تمہیں ہوپ پسند آگئی ہے؟
وہ اندر چلی آئیں ۔۔
ہیونگ سک کے دراز بند کرتے ہاتھ رکے۔۔
اگر ایسا ہوا تو آپ کو اعتراض ہے؟
اس نے یونہی پوچھا نونا کا جیسے منہ ہی اتر گیا۔۔
واقعی ایسا ہے کیا؟
انی نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔۔
نہیں۔ وہ انکی شکل دیکھ کر ہنس پڑا۔۔
انی سنجیدگی سے اسے دیکھتی رہی تھیں
ہوپ کے بارے میں کچھ ایسا بھی ہے جو تم نہیں جانتے ۔۔ اور اگر تم اس میں دلچسپی نہیں لے رہے تو ٹھیک ہے مگر اگر کبھی ایسا ارادہ ہو تو پہلے مجھ سے وہ سب جان لینا۔۔ پھر۔۔
ارے نونا۔۔ اس نے انہیں کندھوں سے پکڑ کر سامنے بٹھایا۔
مجھے ہر لڑکی ایک جیسی لگتی یہاں۔۔ اس نے اپنے دل پر ہاتھ رکھا۔۔ یہاں ابھی تک کوئی درد نہیں اٹھتا ۔
لگتا ہے یہاں کچھ ہے ہی نہیں۔۔ آپ فکر نہ کریں ایسا کبھی کوئی درد اٹھا سب سے پہلے آپ کو بتائوں گا۔۔
پنکی پرامس۔۔
نونا نے اپنی چھنگلیا آگے بڑھائی۔۔ وہ بے حد سنجیدہ تھیں
ارے۔۔ وہ ہنسا پھر انکی سنجیدگی دیکھ کر اپنی چھنگلیا انکی انگلی میں پھنسا کر مٹھی بنا کر پکی مہر بند کردی۔۔
انکو اب اطمینان ہوا۔۔ کم از کم ہایون کا چہرہ وہ ایسے پڑھ سکتی تھیں جیسے کھلی کتاب۔۔
وہ سچ کہہ رہا تھا۔
چلو پھر میں چلتی ہوں۔۔
وہ اٹھنے لگیں تو یاد آیا۔۔
یہ کس نے بھجوایا ہے وہ الٹ پلٹ کر دیکھنے لگیں
آپکی دوست نے آپکو تحفہ بھجوایا ہے۔
کس۔نے ؟ وہ حیران ہوئیں
اریزہ نے ۔۔ اس نے مسکرا کر بتایا
وہ بھی آپ کیلیے تحفہ لائی ہوئی تھی جب میں نے اسے آپکا تحفہ دیا تو اس نے یہ دیا۔۔
وہ خوشگوار حیرت سے دیکھ رہی تھیں۔۔ انکے تحفے کے اوپر کار ڈ بھی لگا ہوا تھا۔۔ جس پر انکو ہمیشہ کامیاب رہنے کی دعا دی گئ تھی۔۔
انہوں نے اشتیاق سے تحفہ کھولا
انتہائی خوبصورت سنہرا ستاروں والا بریسلیٹ
یہ بہت پیارا ہے۔۔ وہ بچوں کی طرح خوش ہوئیں فورا کلائی میں پہن لیا۔۔
کیسا لگ رہا ہے۔۔ انہوں نے پوچھا
بہت اچھا۔۔ اسے عادت تھی انی تیار ہو کر بھی اس سے پوچھا کرتی تھیں اسی طرح جب وہ تیار ہو رہا ہوتا تھا تو اسکو بھی مشورہ دیتی تھیں۔۔
بہت شکریہ ادا کرنا اسکا میری جانب سے خاص طور سے۔۔
اسے بتانا مجھے بہت اچھا لگا۔۔
ہوں۔۔ اس نے سر ہلایا۔۔
وہ بھئ یہی کچھ کہہ رہی تھی کہ اسکارف بہت پسند آیا۔۔
اور۔ انی ہمہ تن گوش تھیں
اور۔۔ اس نے زہن پر زور ڈالا
اور یہ کہ کاش آپ جیسی اسکی بھی انی ہوتیں
آااہ۔۔ انی فدا ہو گئیں
وہ خود بہت اچھی لڑکی ہے معصوم سی ۔۔ اب انی اسکی تعریفوں کے پل باندھ رہی تھیں بالکل اریزہ کی طرح۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمرے میں آکر وہ سیدھا سیڑھیاں چڑھ گئ۔۔ مگر اریزہ وہاں نہیں تھی۔۔ وہ اسے ڈھونڈتی باہر ٹیرس میں چلئ آئی ٹیرس خالی تھا اس کو ہلکی ہلکی باتوں کی آواز اآئی تو ریلنگ سے نیچے جھانکنے لگی
اریزہ اور جی ہائے نیچے باتیں کرتی ٹہل رہی تھیں
وہ پلٹ کر کمرے میں آگئ ۔۔ کپڑے چیینج کرنے کیلیے بیڈ پر سے اپنے کپڑے اٹھائے تو اریزہ کا دیا گفٹ بیڈ کنارے پر لڑھکا تھا۔۔ وہ سر پر ہاتھ مار کر رہ گئ ابھی تک گفٹ آدھا کھلا پڑا تھا اسے خود پر افسوس ہوا۔۔
کیا سوچتی ہوگی اریزہ۔۔ اس نے آگے بڑھ کر گفٹ اٹھایا اور آرام سے آلتی پالتی مار کو اطمینان سے بیٹھ گئ۔۔
احتیاظ سے گفٹ پیپر اتاد کر سائیڈ میں رکھا۔ چھوٹا سا گول سا جیولری باکس تھا۔۔ اسے کافی پسند آیا۔۔ اس نے یونہی کھول کر اندر بھی جھانکا تو بے حد خوبصورت سے نازک چین سے صلیب لٹک رہی تھی۔ اریزہ۔۔ اس نے زیر لب مشکور ہو کر کہا۔۔ تھینک یو۔۔ اس وقت اریزہ ۔ اسکا دل چھو گئی تھی۔ ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جب کمرے میں آئی تو سنتھیا لائٹ آف کرکے سو چکی تھی۔۔ وہ دبے قدموں اسکی نیند خراب ہونے کے خیال سے اوپر چڑھنے لگی تبھی اسکا موبائل پوری طاقت سےچیخ اٹھا۔۔ اس نے گھبرا کر سائلنٹ کیا۔۔ سنتھیا نے کسمسانا شروع کر دیا تھا۔۔ ہوف۔۔
اس نے گہری سانس لی۔۔ صارم کا فون تھا۔۔ وہ واپس اتر کر کمرے سے باہر نکل آئی۔۔ ٹیرس پر آ کر اس نے کال اٹینڈ کی۔۔
اسلام و علیکم۔۔ کیسے ہو۔۔
اسکا موڈ خوشگوار ہو گیا تھا۔۔
وعلیکم السلام ٹھیک ہوں تم کیسی ہو؟
خلاف عادت وہ شرافت کے جامے میں تھا۔۔
میں بھی ٹھیک ہوں۔۔مس یو۔
وہ واقعی اسے یاد کر۔رہی تھی وہ جوابا ہنس دیا۔
مس یو ٹو۔ اور پڑھائی کیسی جا رہی ہے دل لگ گیا کوریا میں۔
ہوں۔ مزے کا ملک ہے کافی کچھ ہمارے جیسا ہے کافی کچھ مختلف بھی ہے۔
اس نے گول مول ہی جواب دیا۔
اچھی بات ہے۔ وہ تھکا تھکا سا تھا۔
کیا ہوا طبیعت خراب ہے۔ اس نے فورا پوچھا۔
نہیں یار بس تھک گیا ہوں صبح سے کام کر کر کے۔۔ اس نے انگڑائی لی۔۔
کیا کام کر رہے تھے۔۔
اس نے یونہی پوچھا۔۔
بس وہ یتیم خانے میں دیگ پہنچائی گھر میں فاتحہ خوانی تھی اسکا سب انتظام دیکھا اب جا کر فری ہوا ہوں تو تمہارا میسج دیکھا۔۔ تو سوچا کال کر لوں۔۔
اریزہ چپ ہی رہ گئ۔۔
ہیلو؟ اسے لگا کال کٹ گئ۔۔
کیا ہوا۔آج حماد بھائی کی سالگرہ تھی نا۔
نہیں۔ اس نے گہری سانس لی۔۔
مجھے یاد نہیں رہی تاریخ۔ پہلی دفعہ بھولی ہوں سالگرہ۔
صارم بھی چپ سا رہ گیا۔۔
خالہ صبح سے روئے جا رہی تھیں۔۔ تمہیں بھی بہت یاد کر رہی تھیں میں نے کہا بھی کہ تم سے بات کروادوں تو نہیں مانیں۔
اریزہ استہزائیہ ہنسی۔
مجھ سے بات کر کے کونسا غم ہلکا ہونا تھا انکا۔۔ پہلی دفعہ ہے میں اتنی دور ہوں ورنہ تو نظروں کے سامنے رہتی تھئ الٹا انہیں مجھے دیکھ کر لگتا تھا انکا غم تازہ ہوگیا۔ہے۔۔
ایسی بات نہیں ۔ دلاور بتانا چاہتا تھا۔۔
ایسی ہی بات ہے۔۔ وہ زور دے کر بولی
اتنے سالوں میں ہزار بار سوچا ہے میں نے کاش اس دن حماد بھائی کی جگہ میں۔۔
خدا نہ کرے۔۔ دلاور تڑپ کر بولا۔۔
فضول باتیں مت کرو۔۔
میں تو بس یہ چاہ رہا تھا تم خالہ سے بات کر لو۔۔ وہ واقعی بہت شرمندہ ہیں میں نے کئی بار انہیں چھپ چھپ کر روتے دیکھا جب جب خالو کی تم سے بات ہوئی یہ تذکرہ کرتے۔۔ ۔۔۔
وہ روتی ہونگی مگر اس بات پر کہ وہ جو چاہ رہی تھیں وہ نہیں ہوا۔۔ اسلیئے نہیں کہ انھیں دکھ ہوا کہ انہوں نے اپنی بیٹی کا دل توڑ ڈالا ہے۔۔
وہ سختی سے بولی۔۔
اچھا چھوڑو کوئی اور بات کرتے ہیں۔۔ صارم نے بات بدل دی۔۔ اریزہ چپ رہی۔۔
پلیز رو تو مت۔۔وہ سمجھ گیا تھا اسکی خاموشی۔ سے۔۔
اس نے چہرے پر پھیل آنے والے آنسو بے دردی سے پونچھے۔۔
اچھا یہ بتائو تمہا را دل لگ گیا چینیوں میں؟
چینی نہیں کورین۔۔ اس نے فورا تصحیح کی۔۔
ایک ہی بات ہے ایک جیسے ہی لگتے۔۔ اس نے مکھی اڑائی۔
چھوٹی آنکھوں موٹے گالوں والے۔ پھنی ناک والے۔
نہیں فرق تو ہے ان میں۔ اسے ہایون کی بات یاد آئی۔
سو دھرا دی۔
کورینز کی آنکھیں تھوڑی کھنچی ہوئی او رپپوٹے اونچے ہوتے ہیں۔ کچھ کے قدرتی باقی سرجری کروا کے اونچے کرا لیتے۔
پھینکو میں نے کونسا تصدیق کروانی کسی کورین سے۔
وہ صاف مزاق اڑا رہا تھا۔
نا مانو۔ وہ برا مان گئ۔
اچھا کوئی وزن کم کیا یا نہیں؟موٹو۔ وہ چھیڑ رہا تھا
نہیں ڈھیر سارا نہ کھانے کے باوجود بھئ وزن کم نہیں ہو رہا
وہ جھلارہی تھی۔ جوابا وہ کھل کر ہنسا۔۔
اسی لیئے کہتا ہوں ورزش کیا کرو۔
جی ہائے بھئ مجھے ورزش کرنے کا کہتی رہتی ہے۔
اس نے منہ بنایا
جی ہائے ۔۔ اسکا انداز سوالیہ تھا۔جوابا وہ پرجوش ہو کر بتانے لگی
میں نے یہاں ایک دوست بنائی ہے اسے جمناسٹک آتا۔۔ وہ اولمپکس کی تیاری کر رہی ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ صبح باتھ روم میں برش کرر ہی تھی جب سنتھیا پیچھے سے آئی اور اسکو بھینچ لیا۔۔
یہ صبح صبح رومینٹک موڈ کیوں آن ہوگیا تمہارا۔
وہ حیران ہوئی۔۔
اتنا پیارا گفٹ دیا ہے تم نے کہ مجھے تم پر پیار آگیا ہے۔۔ اس نے مزید بازو کسے۔۔
اوور۔ اس نے سر جھٹکا۔۔ اور اسے پیچھے کیا۔۔
پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا۔۔ وہ ٹوائلٹ بول کی طرف بڑھی اریزہ چیخی۔۔ خبر دار۔۔ مگر سنتھیا نے بول کا ڈھکن اٹھا لیا۔۔ اف وہ تیزی سے جھاگ تھوکتی باہر نکل آئی اندر سنتھیا کھلکھلا رہی تھی۔۔
جان سے مار دوں گی باہر تو نکلو۔ اس نے تھوڑی صاف کرتے غصے سے کہا۔۔ پھر کچھ سوچ کر باہر نکل آئی اسکا رخ جی ہائے کے کمرے کی طرف تھا
دھیمی دھیمی آواز میں بریو ہارٹ سر بکھیر رہے تھے اور وہ گنگناتی تولیہ سے بال جھٹک رہی تھی۔۔
اس نے ہلکے سے دروازہ کھٹکایا۔۔
کم ان۔۔ اس نے مصروف انداز میں اجازت دے دی۔
تمہارا واشروم استعمال کر لوں۔۔
اریزہ نے پوچھا تو سنتھیا نے پلٹ کر اسکا جھاگو جھاگ چہرہ دیکھا۔۔
ہاں ہاں کر لو۔۔
وہ فورا باتھ روم میں گھس گئی۔۔
منہ ہاتھ دھو کر آئی تو جی ہائے تیار ہو رہی تھی۔۔
تم صبح صبح بھی گانے سنتی ہو اسکے۔۔ اس نے یونہی پوچھا۔۔
ہاں۔۔ میری آنکھ نہیں کھلتی اسکی آواز کے بغیر۔۔ اس نے مسکرا کر کہا پھر تولیہ اسکی جانب اچھال دی۔۔
وہ مسکرا کر منہ پونچھنے لگی تو خیال آیا۔۔ اسکی تولیہ احتیاط سے ڈورم کی ریلنگ پر سوکھنے کیلیے لٹکا دی اور شکریہ ادا کرتی چلی گئ۔ جی ہائے کندھے اچکا کر دوبارہ بال۔بنانے لگی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہزیب اور سالک آج الگ بیٹھے تھے ایڈون یون بن اور کم سن کے ساتھ تھا۔۔
سنتھیا اور وہ حسب عادت پہلی رو کی طرف بڑھیں۔۔
تم نے بتایا نہیں انکی لڑائی کیوں ہوئی۔۔ اریزہ کو یاد آیا۔۔
ہمم یاد ہی نہیں رہا۔۔ سر آگئے تھے تو اریزہ بھی انکی جانب متوجہ ہوگئ
آپ لوگوں نے آج کی افسوس ناک خبر سنی۔۔۔۔
سر کا چہرا اترا ہوا تھا۔۔ کافی دکھی انداز میں بولے۔
کونسی خبر۔۔
اریزہ نے سنتھیا سے پوچھا
اسپین میں انتہا پسندوں نے وین کرائوڈ پر چڑھا کر کئ لوگوں کو کچل ڈالا ۔۔۔ سنتھیا نے آہستہ سے بتایا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اریزہ اریزہ کہاں جا رہی ہو۔۔
سنتھیا پکارتی اسکے پیچھے بھاگی آئی۔۔
وہ رک کر اسکے قریب آنے کا انتظار کرنے لگی۔۔
تم مجھ سے کیوں خفا ہو رہی ہو۔۔ میں نے کیا کیا۔۔
وہ قریب آکر اسکے کندھے پر ہاتھ مار کر لڑنے والے انداز میں بولی۔۔
نہیں میں ناراض نہیں بس مجھے تھوڑا غصہ آگیا تھا تو سوچا تھوڑی دیر اکیلے رہ لوں۔۔
میں چلی جائوں یعنی۔۔ سنتھیا نے منہ پھلایا۔
اریزہ مسکرائی نہیں مگر اس کے بازو میں جھول کر اس کے کندھے سے سر ٹکا لیا۔۔ دونوں آہستہ آہستہ چلنے لگیں۔
سر پارکر امریکی ہیں ان سے اور امید بھی کیا کی جا سکتی ہے۔۔ بکنے دو انکے بکنے سے تمہارا کیا جاتا۔۔
مجھے آج اتنا افسوس ہوا کہ میری انگریزی اچھی کیوں نہیں جتنا میں کہنا چاہ رہی تھی اتنا کہہ نہیں پائی۔۔
تو کیا ہوا شاہزیب نے ٹھیک ٹھاک کر دی تھی انکی۔۔ سنتھیا نے اطمینان سے کہا۔۔
پھر بھی ۔۔ میں نے فیصلہ کیا ہے اپنی انگریزی ٹھیک کرکے رہوں گی۔ہم آپس میں بھی انگریزی میں بات کریں گے
اریزہ نے کہا تو سنتبھیا نے ہاتھ جوڑ دیئے۔۔
معاف کرو مجھے۔۔ آگے ہی انگریزی بول بول منہ ٹیڑھا ہو گیا ہے ۔۔ اتنا سکون ملتا اردو میں بات کر کے۔۔ اف۔۔میں تو ترس گئی ہوں جیسے۔۔
اریزہ نے منہ بنایا۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی سر کافی افسوس ہوا ہے۔۔
کئی طلبا بولے تھے۔۔
مجھے ٹرمپ کبھی پسند نہیں رہا ووٹ بھی اسے نہیں دیا تھا میں نےمگراسکی پالیسی سے مجھے اتفاق کرنا پڑا ہے۔جو اس ان ممالک کے لوگوں کے داخلے پر پابندی لگائی ہے جہاں مسلم اکثریت ہے۔ جہاں جس ملک میں ان مسلمانوں کا داخلہ آسان ہے وہاں کا امن واقعی خطرے میں ہے۔۔
سر یہ ریسسٹ کمنٹ ہے۔۔ ایک کوریائی فورا بولا۔
نہیں یہ فیکٹ ہے۔آپ دیکھ لیں جن جن ملکوں میں دہشت گردی ہوئی ہے وہاں کی ابتدائی تحقیق سے ہمیشہ کسی مسلمان کا ہاتھ ہے ثابت ہوا ہے۔۔ وہ اٹل تھے
اسی حملے میں دیکھ لو مشتبہ شخص مصری نژاد مسلمان ہے۔۔
انہوں نے مضبوط دلیل دی۔۔
سر تحقیق بھی تو عیسائی کر رہے ہمیں کیا یقین کہ صحیح کر رہے۔۔
سالک بولا تو وہ اسے غور سے دیکھنے لگے۔۔
مسلمان سب برے نہیں ہوتے نہ ہی سب حملے کرتے مگر حملے کرنے والے عموما مسلمان ہی نکلتے ہیں کبھی سوچا ہے ایسا کیوں؟
مسلمان میں برداشت نہیں ہوتی یہ کٹر اور انتہا پسند ہوتے ہیں اپنے مزہبی معاملات میں یہ دوسروں پر بھی اپنے عقائد تھوپنا چاہتے ہیں ۔
ایسا ہرگز نہیں ہے میں جس ملک سے تعلق رکھتا ہوں وہاں 98فیصد آبادی مسلم ہے مگر ہم اقلیتیوں کے حقوق کا پورا خیال رکھتے انہیں بھی وہی مزہبی آزادی حاصل جو مسلمانوں کو حاصل ہے وہ آرام سےجیسے مرضی آئے رہتے ہیں آزادی سے پھرتے۔۔۔
شاہزیب نے کہا تو ایڈون نےترچھی نظر ڈالی اس پر۔۔ جیسے پوچھ رہا ہو واقعی۔۔
شراب عام مل جاتی ہے آپکے ملک میں؟ بارز ہیں؟ نان مسلم سور کھا سکتے ہیں آسانی سے مل جاتا؟
سر گنوا رہے تھے۔۔ شاہزیب چپ ہوگیا۔۔
آپ جب کسی دوسرے ملک جاتے تو آپکو آپکے عقائد پر کوئی نہیں روکتا مگر آپ دوسروں کو انکی مرضی سے جینے نہیں دیتے۔۔
ابھی امریکہ میں گے بار پر حملہ دیکھ لو۔۔ میں بنیاد پرست عیسائی ہوں مجھے بھی گے میرجز پر اعتراض ہے۔۔
مگر میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا اس بات کو بنیاد بنا کر انسانوں کی جان لینے پر۔۔ کیونکہ مجھے جو بھی اعتراض ہو مگر ہر انسان کو جینے کا حق ہے۔۔ ہم جیزز کے پیروکار ہیں جنہوں نے مردوں کو جلا بخشی مسلمانوں کے پیغمبر کی طرح۔۔بات بے بات سزا
سر اسٹاپ اٹ آپ مسلمانوں کو جو مرضی کہہ لیں ہمارے پیغمبر کے بارے میں ایک لفظ نہیں۔۔ سالک بھڑک اٹھا۔۔
سی۔۔ وہ مسکرائے۔۔ یہ ہے انتہا پسند رویہ۔۔ جو تمام مسلمانوں کے خون میں دچا بسا ہے۔۔
سر آپ گوتم بدھ کے بارے میں کچھ کہیں گے تو میں بھی ایسے ہی چیخوں گا۔۔ کیا میں بھی انتہا پسند ہوں؟
کم سن نے اس بحث میں حصہ لیا۔۔
برما میں بدھسٹ انتہا پسند چن چن کر مسلمانوں کی نسل کشی کر رہے ہیں کیا میں کم سن کا گریبان پکڑ لوں اس بات پر۔۔ شاہزیب بولا۔۔
کم سن نے چونک کر اسکی شکل دیکھی۔۔
آپ لوگ بحث برائے بحث کر رہے ۔برما میں مسلمان دوسرے ملک سے زبردستی آبسے ہیں انکا برما پر حق نہیں تھا ہر ملک ایسے آباد کاروں کو اپنے ملک سے نکالنا ہی چاہے گا ویسے بھی۔ یہ ایک ملک کی مثال ہے مسلمان کس کس ملک میں دہشت گردی نہیں کر رہے۔۔ جرمنی نے عراقی مہاجروں کو پناہ دی جرمنی بھی اس دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا ہے۔۔ انکا موقف اٹل تھا۔۔
عراقی محاجر بھی امریکی پالیسیوں سے بنے ہیں۔۔ ایک اچھا بھلا پر امن ملک امریکہ کی مسط کی گئی جنگ کا شکار ہوا ہے اس پر وہ کہیں اور نہ جائیں مرتے رہیں۔۔ اس بار اریزہ بولی۔۔
آپ بھی مسلمان ہیں۔۔ سر نے الٹا سوال کیا۔۔
کس ملک سے ہیں۔۔
پاکستان۔۔ وہ تینوں بولے
ہاہاہہاہاہاہہاہاہاکہا
سر زور سے ہنسنے لگے
مطلب کہہ کون رہا ہے۔۔ وہ ملک جو دہشتگردوں کی سب سے بڑی پناہگاہ ہے۔۔ ہر دوسرے دن جہاں خود کش حملے ہو رہے ایران افغانستان ہندوستان سب جس ملک کی وجہ مسلسل سیکیوریٹی ٹھریٹ میں ہیں
افغانستان میں تو امریکی فوجی موجودہے نا ؟ وہاں کیوں دہشت گردی ہوتی امریکہ کے پاس اتنی بھی سہولت موجود نہیں کہ ٹھکانوں کا پتہ لگائے طالبان کے اور اگر پھر بھئ ایسا ہے تو مان لیجئیے افغانستان میں امن قائیم کرنا آپکے بس میں نہیں چھوڑیے اس ملک کی جان۔۔ شاہزیب جزباتی ہوکر بولا۔۔
اور ہندوستان ایران کوئی ایک واقعہ بتائیں جس میں کسی پاکستانی کی انوالومنٹ ثابت کر سکا ہو انڈیا۔۔ الٹا ہم جو ہر دوسرے روز خود کش حملے سہتے ان میں بارہا سازش کے تانے بانے انڈیا سے ملتے اور افغانستان سے تعلق ثابت ہوتا۔۔ سالک بھی بول اٹھا۔۔
امریکہ پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کرنا چاہتا اس پر پاکستان راضی نہیں ہوتا خود انکے خلاف کاروائی نہیں کرتا اس پالیسی کو ہم کیا سمجھیں؟
سر چڑا رہے تھے
پھر اگر پاکستان میں امن نہیں تو مان لیجیےپڑوسیوں کے گھر جلاتے ہوئے کچھ شعلے آپ کے گھر بھی آگرتے ہیں۔۔۔
سر کے مئوقف میں وزن تھا۔
ہم اس جنگ میں کودے بھی امریکہ کی وجہ سے ہیں۔۔
سالک بولا۔۔
تو امریکہ سے امداد بھی خوب لی ہے آپ نے۔۔ ۔وہ ترکی بہ ترکی بولے۔۔
امریکہ آپکے ملک میں اسکول بناتا ہے اور آپ اسکول جاتی بچی کے سر پر گولی مار دیتے وہ امریکہ ہی ہے جس نے پناہ دی ملالہ کو اسکو پڑھایا کچھ بنایا کہ آج اس نے امن کا نوبل انعام حاصل کیا پاکستان نے کیا کیا ہے ؟
انتہائی غیر زمے دار قوم ہیں پاکستانی۔۔ انکے پاس نیوکلیئر پاور ہے ہمیں یہ بھی ڈر کہ کسی دن یہ اسکو بھی یونہی استعمال کر ڈالیں گے۔۔
امریکہ کی طرح ؟
سداکو بولا۔۔
اگر غیرزمےداری کی بات ہے تو امریکہ کی غیرزمےداری کا ثبوت ہیروشیما اور ناگا ساکی کی صورت دنیا کے پاس موجود ہے۔۔ اگر پھر بھی امریکہ نیوکلیر پاور ہے اسے ود ڈرا نہیں کرتا تو دنیا کے ہر ملک کو حق ہے نیوکلیر پاور بننے کا۔۔
آپ مسلمانوں بالخصوص پاکستانیوں کو ایسے جج کر سکتے مگر ہم پر انکے بڑے احسان ہیں اور ہم احسان فراموش ہرگز نہیں۔۔
اچانک ہی ایکدم خاموش بیٹھے جاپانی لڑکے سداکو نے کہا تو سب چپ ہو کر اسے ہی دیکھنے لگے تھے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم لوگ ایک دوسرے سے کبھی بات نہیں کروگے۔۔
شاہزیب اور سالک جان بوجھ کر ان سے کترا کر آگے نکل گئے تھے کم سن شاہزیب کو آواز دیتا تیز قدم اٹھاتا ان کے ساتھ ہو لیا روم میٹ ہونے کی وجہ سے اسکی شاہزیب سے دوستی ہوچکی تھی
یون بن نے ان تینوں کو جاتے دیکھ کر ایڈون سے پوچھا۔۔
مجھے ان سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں۔۔ اس نے سر جھٹکا۔۔
تم اس دن بھڑکے کس بات پر تھے؟ ہمیں بتائو تو سہی تب ہی تم لوگوں کی صلح کروائیں گے نا
۔۔ یون بن اسکو منانا چاہ رہا تھا دیکھنے سے تو یہی لگا تھا کہ ایڈون کی غلطی ہے کچھ حد تک تھی بھی مگر ایڈون کو ابھی احساس نہیں ہوا تھا بلکہ اسکا غصہ بڑھا ہی تھا۔۔
یہ لوگ جیسے نظر آتے ہیں نا ویسے ہیں نہیں۔۔ بچپن کا دوست ہوں انکا انکے گھر تک آنا جانا تھا میرا مگر کب کہاں کیسے مجھے انکے گھر والے پیچھے کر دیتے تھے۔۔ عیسائی ہونے کی وجہ سے ۔۔ تو بتا مجھے میں انسان ہوں نا ؟ میری دھلی ہوئی چادر پر یہ نماز نہیں پڑھ سکتے میں نے سور کھایا ہے یہ جان کر اس نے مجھے گندہ غلیظ کیا کچھ نہ کہہ ڈالا۔۔ یہ بھی کہا کہ چونکہ میں نے سور کھایا ہے تو میں اب پاکستان میں رہنے کے قابل بھی نہیں رہا۔۔
وہ پھٹ پڑا تھا۔
ابھی سر جو کہہ رہے تھے نا اندر۔۔ سب صحیح تھا۔۔
یہ مسلما ن ایسے ہی ہیں اپنے سوا کسی کو انسان بھی نہیں سمجھتے۔۔ دوسرے درجے کے شہری بھی یہاں بہتر زندگی گزارتے ہونگے ہم ان سے بھی گئے گزرے ہیں پاکستان میں۔۔کھلے عام شراب چھوڑو انکے مقدس مہینے میں کھا پی تک نہیں ۔۔ سکتے جیل ہو سکتی ہے اس بات پر ہمیں
اپنے گھر میں عبادت کرتے ہیں تو محلے والے آجاتے کہ گانا بجانا بند کرو خود یہ لوگ پانچ پانچ مرتبہ ازان سناتے لاوڈ اسپیکر پر وہ بھی۔۔
مسلمان نہیں ہوں۔۔ دو درجن آیتیں زبانی یاد ہیں اتنا بچپن سے آج تک سنی ہیں اسکول میں اسلامیات پڑھی ہے ایک بارایسے ہی کلاس میں بس ہیلے لویا گایا تھا میری شکایت گھر والوں کو بلا کر کی گئی اورکہا گیا آئندہ ایسا ہوا تو اسکول سے نکال دین گے مجھے۔۔ یہ ہے انکا حال یہ ہے انکی برداشت کا عالم۔۔ پھر صحیح ہے ایسے ہی انکو کوئی پارکر کوئی جان زلیل کرے انکا تمسخر اڑائے ۔۔۔ ایڈون بولتے بولتے ہانپ گیا تھا۔۔
یون بن بالکل خاموش دیکھ رہا تھا اسے۔۔
چھوڑو۔۔ اس نے سر جھٹکا۔۔ تبھی بالکل پیچھے خاموش کھڑی سنتھیا اور اریزہ پر نظر پڑی۔۔
تمہاری شکائیتیں بجا صحیح مگر تمہیں یہ سب یہاں ایسے نہیں کہنا چاہیئے تھا۔۔ اریزہ نے کہا تو اسے بھی احساس ہوا۔۔ اسے زور زور سے بولتے دیکھ کر کئی طلبا رک کر اسے دیکھ رہے تھے۔۔ یہ راہ داری تھی کلاس سے باہر کتنے ہی طلبا کلاس ختم ہونے پر باہر نکلتے ہوئے اس کی ان سب باتوں کو سننے کھڑے ہوگئے تھے۔۔
اریزہ اسکے ساتھ سے ہو کر تیزی سے چلی گئ تھی۔۔۔ ایڈون بھی ایک طرف ہو کر نکل گیا۔۔
سوری سنتھیا۔۔ تمہارے درخواست کرنے پر میں نے کوشش تو کی ہے مگر مجھے نہیں لگتا میں اور کم سن انکی دوستی کرا پائیں گے۔۔
سنتھیا تشویش سے دیکھ کر رہ گئ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیفے میں آکر اس نے تین کافی کا آرڈر دیا ۔۔ کم سن اور سالک ایک طرف جا کر بیٹھ گئے وہی تینوں کیلیئے گلاس اٹھا لایا۔۔
سالک کو خیال آیا۔
کم سن اس وقت میں نے جو برما والی بات کی وہ بس سر پارکر کر جواب دینے کیلیئے کہا تھا تم برا تو نہیں مانے نا؟
کم سن مسکرا دیا ۔۔
میں صرف اپنے عمل کا جواب دہ ہوں باقی دنیا کے بڈھسٹ کا میں نے ٹھیکا نہیں لیا ہوا کہ انکے بارے میں بات ہو اور میں یہاں لڑتا پھروں۔۔۔
اسکا انداز جتاتا ہوا ہرگز نہیں تھا مگر سالک اور شاہزیب چپ سے رہ گئے۔۔
وہ تو دنیا کے ہر مسلمان کےلیے بولنا فرض سمجھتے تھے۔۔ امریکی پالیسی وجہ ہو یا کچھ بھی بہرحال مسلمانوں کا نام آرہا تھا ہر دہشت گردی کے واقعے میں تو دنیا برا بھلا مسلمانوں کو ہی کہے گی پھر جو یہ نام نہاد نام کے مسلمان تھے انکی کس حرکت سے لگتا تھا کہ مسلمان ہیں؟ انکیلیئے لڑنا بحث کرنا کیوں؟
دونوں چپ تھے تو کم سن نے غور سے انہیں دیکھتے ہوئے بظاہر یونہی سرسری سا انداز اپنایا۔۔
ویسے تم لوگ صرف سور نہیں کھاتےنا۔۔ مگر میں دیکھ رہا تم لوگ جب سے یہاں آئے ہو سرے سے گوشت نہیں کھا رہے کیوں؟
جانور کو زبح کرنے کا خاص طریقہ ہوتا جو مسلمان استعمال کرتے کلمہ پڑھ کر گردن پر چھری پھیر کر جو جانور زبح کیا جاتا بس وہی گوشت ہم کھا سکتے۔۔ شاہزیب نے اسے تفصیل سے بتایا۔۔
اچھا۔۔ کم سن نے کندھے اچکائے۔۔
اس دن میری اور شاہزیب کی یہی بات ہو رہی تھی تو مجھے یاد آیا کہ ایڈون گوشت کھا لیتا ہے ہمارے ساتھ یہ فرق کیوں ہے۔۔ سو تم دونوں مسلمان ہو تم پانچوں میں۔۔
اریزہ بھی۔۔ سالک نےبھی تصحیح کی۔۔
اچھا ہمم وہ بھی گوشت نہیں کھاتی۔۔ صحیح۔۔
اس نے سر ہلایا۔۔
اور شراب بھی نہیں پیتے تم لوگ؟ کم سن کرید رہا تھا انہیں
ہاں وہ بھئ منع ہے۔۔
کبھی نہیں پی تم دونوں نے؟
اس نے پوچھا تو دونوں سرہلاتے ہوئے رک گئے۔۔
مطلب بہت سی باتیں مزہبی یا معاشرتی طور پر منع ہوتی ہیں مگر لوگ کرتے ہی۔۔ یا تم لوگ شائد بہت اچھے مسلمان ہو۔۔ ہر رکن پورا کرتے۔۔
وہ دونوں کم سن کی باتوں سے جز بز ہو رہے تھے۔۔
بہت اچھے مسلمان؟ شراب چکھ رکھی تھی پنج وقتہ نمازی بھی نہیں تھے مگر یہ تھا خدا سجدے کی توفیق دے دیتا تھا۔۔ ہاں سور کبھی چکھا تک نہیں تھا۔۔
مجھے ویسے کافی انسپائرنگ لگا تم لوگ اپنے مزہب پر کافی کاربند رہتے ہو۔۔ اتنی پابندی سہنا جب کہ کسی دوسرے ملک میں ہو میرا مطلب کوئی یہاں روک ٹوک نہیں ہے پھر بھی۔۔ اس نے کندھے اچکائے۔
خدا بدل تو نہیں جاتا ملک بدلنے سے۔۔ ۔سالک نے مسکرا کر کہا۔۔
جو کام پاکستاں میں رہتے گناہ وہ یہاں بھی گناہ ہی ہے۔۔
ہم میں متفق ہوں۔۔ کم سن نے جیسے سمجھ کر سر ہلایا۔
مگر مجھے ایک چیز تنگ کر رہی ہے۔۔ یہ مزہب اتنا مشکل کیوں ہے۔۔
مطلب۔۔ شاہزیب اور سالک اکٹھے بولے۔۔
کم سن نے گہری سانس لی۔۔
ہمارا ایک دوست بھی مسلمان ہو گیا ہے۔۔ وہ اب ہم سے ملتا نہیں۔۔ ملتا ہے تو ہمارے ساتھ کھاتا پیتا نہیں۔۔
چلو بات سمجھ آتی مگر مزہب الگ ہو جانے سے کیا دوستی ختم ہو جاتی؟ مطلب مجھے فرق نہیں پڑتا وہ پہلے کرسچن تھا تب بھی اب مسلمان ہے اب بھی۔۔ مگر وہ بس ہم سب سے کٹ گیا ہے۔۔ کیا تم لوگوں کا مزہب اتنا مشکل ہے کہ کسی دوسرے مزہب کے لوگوں سے تم لوگ تعلق نہیں رکھ سکتے؟
کم سن نے کہا تو شاہزیب فورا بولا۔۔
ایسی بات نہیں ایڈون اور میں تو بچپن کے دوست ہیں
ہم اکھٹے پلے بڑھے ہیں وہ پڑوسی ہے میرا ابھی بھی۔۔
میں ان دونوں کے ساتھ ہائی اسکول سے ہوں۔۔
سالک بھی فورا بولا
اور اب۔۔ کم سن نے انہیں جتاتی نظروں سے دیکھا۔۔
دونوں چپ رہ گئے۔۔
اس نے اس دن کچھ ایسا تو کہا ہے جو مسلمانوں کے بارے میں تھا اس نے تم لوگوں کے عقیدے کو برا کہا؟
کم سن پوچھ رہا تھا۔۔
نہیں۔۔
پھر۔۔ کم سن واقعی جاننا چاہتا تھا
چھوڑو کوئی اور بات کرتے ہیں۔۔۔
سالک نے بات ٹالی۔۔
مجھے بہت انسپائر کرتا تھا تم لوگوں کا اکٹھے رہنا۔۔ تین مخختلف رنگ نسل کے لوگ الگ زبان بولنے والے جن کا مزہب بھی الگ مگر اکٹھے رہتے۔۔ تم تینوں کی دوستی ساتھ رہنا ہزار ڈفرینسز کے ساتھ انوکھی تھی۔۔ تم لوگ لڑے ہو وہ بھی بہت بری طرح مجھے اچھا نہیں لگا۔۔
ایڈون نے شائد بات غلط نہیں کی ۔۔ اسکا انداز غلط تھا۔۔۔سالک نے سوچ کر کہا۔
ہم کچھ معاملوں میں مجبور ہیں۔۔ ہمیں اپنی عبادت کیلیے کچھ کام ایسے درکار ہوتے جن پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔۔
اس دن اتنی بڑی کوئی بات نہیں تھی بس مزہبی عقائد کے مطابق میں نماز ادا کرنا چاہ رہا تھا۔۔ اس نے میری نماز کی چادر پر شراب گرا دی تھئ
مجھے احساس ہے مجھے اسکے منہ پر کہنا نہیں چاہیئے تھا مگر شراب جس چادر پر گری ہو اس پر عبادت نہیں کی جا سکتی۔۔
سالک نے کہا۔۔ تو کم سن نے کندھے اچکائے۔۔
ہمارے مونک بھی کچھ چیزوں میں اتنی ہی صفائی کا خیال رکھتے پانی سے دھونا پائوں لازمی ہوتا عبادت سے قبل ۔۔
بدھا کے بت کو دھلانا پاک پانی سے عبادت کا ایک خاص تہوار ہوتا ہمارا۔۔
اس میں ہماری کوشش یہی ہوتی کی صرف بدھ مت کے لوگ ہی آگے رہیں۔۔
شاہزیب نے حیرت سے دیکھا۔۔
میرا ایک انڈین روم میٹ تھا وہ گوشت نہیں کھاتا تھا۔۔ چھوتا بھی نہیں تھا ایک بار میں کمرے میں اسٹیک کھاتا آگیا تھا اس نے مجھے کمرے سے باہر نکال دیا تھا۔۔ مجھے جانا پڑا مگر اس بات کو میں نے انا کا مسلئہ نہیں بنایا کھا پی کے واپس آگیا تھا۔۔ ایڈون نے اوور ری ایکٹ کیا تھا۔
۔ کم سن انکو کچھ سمجھانا چاہ رہا تھا اور شائد کامیاب بھی رہا۔۔
نہیں ہم بھی اس دن کچھ زیادہ بول گئے۔۔ شاہزیب کو احساس ہوا۔۔
اسے گندہ برا غلیظ کچھ زیادہ ہی کہہ ڈالا میں نے۔۔ سالک اب اردو میں بولا تھا
دل دکھانا سب سے بڑا گناہ ہے ۔۔ اور ہماری باتوں سے واقعی ایڈون کا دل کافی دکھا ہوگا۔۔
ہم چاروں قل ہر وقت پڑھتے مگر بھول جاتے۔۔ تمہیں تمہارا دین مجھے میرا دین۔۔
شاہزیب نے سر جھکاتے کہا۔۔ تو سالک کو بھی اپنے کہے الفاظ یاد آئے۔۔
کم سن کو اب ان دونوں کی باتیں سمجھ تو نہیں آرہی تھیں مگر انداز سے لگ رہا تھا چوٹ صحیح جگہ لگائی ہے سو آرام سے کافی ختم کرنے لگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اسکیچ بنا رہی تھی جب وہ خوبصورت سی لڑکی اسکے پاس آئی۔۔
آنیاگ واسے او۔۔
اس نے جھک کر سلام کیا۔۔
اس نے بھی جھک کر جواب دیا۔۔
آپ تصویر بنا رہی ہیں۔۔
کیا احمقانہ سوال تھا وہ کہہ کر کھسیانی سی ہوئی۔۔
وہ ہلکے سے مسکرا دی اور دوبارہ ایزل پر جھک گئ۔۔
اس نے ساتھ ہی ایک اور ایزل سیٹ کر رکھا تھا جس پر ہایون کی بڑی تصویر لگا رکھی تھی۔۔
وہ ہایون کا ہی پورٹریٹ مکمل کر رہی تھی۔۔ اسے غور سے دیکھ کر نووارد بڑبڑائی۔۔
ایسا دکھائی دینے میں تو تمہیں دس سال لگ جائیں گے ہایونا
ہوں۔؟
وہ چونکی۔۔ مجھ سے کہا۔۔
آنیو۔۔ وہ جلدی سے بولی۔۔
وہ آپ بہت اچھی تصویر بنا رہی ہیں میرا دل کر رہا میں بھی آپ سے بنوائوں۔۔
اچھے پیسے دوں گی۔۔ اس نے مزید کہا۔۔
یہ آجکل سب کو پورٹریٹ بنوانے کا وہ بھی اس سے شوق کیوں چر آیا ہے۔۔ وہ سیدھی ہو کر اسے مشکوک نظروں سے دیکھنے لگی۔۔
گوارا گبھرا گئ۔۔ اسے شک ہوگیا کیا۔۔ اس نے کان کھجایا۔۔
اگر آپ مصروف ہیں تو کوئی بات نہیں۔۔ میں پکاسو سے بنوا لوں گی۔۔ اسے ایک ہی نام یاد تھا۔۔ وہ کہتی پیٹھ موڑ کر بھاگنے ہی والی تھی۔۔
پکاسو مر چکا ہے۔۔
اسے ہوپ کی آواز آئی۔۔
اس نے زبان دانتوں تلے دبائی۔۔ پھر پلٹ کر ہنسی
آہ دہاں۔۔ دے دے۔۔ (ہاں ہاں)۔
بے چارا ۔۔ اب میں کس سے بنوائوں گی۔۔ وہ جیسے خوش ہو کر بولی۔۔ پھر خیال آیا تو اداس سی شکل بنا لی۔۔
اب کیا ہو سکتا۔۔
صرف اسکیچ بنوانا یا پراپر پورٹریٹ بنوانا ہے؟
دے۔۔ وہ حیران ہوئی۔۔ پھر جلدی سے بولی۔۔
جو جلدی بن جائے۔۔
پھر خیال آیا۔۔
میرا مطلب پہلے آپ اسکیچ بنائیں اگر مجھے پسند آیا تو پورٹریٹ بھی۔۔ بنوا لوں گی۔۔
ہوپ نے ایک نظر اس پر ڈالی پھر اپنا کام چھوڑ دیا۔۔
ایک گھنٹہ لگے گا۔ اسکیچ میں۔۔
وقت ہی وقت ہے میرے پاس۔۔
اس نے بانچھیں چیریں۔۔
اسکو کندھے سیدھے کرکے پوز بنوا کر ہوپ اسکے سامنے زمین پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی۔۔
اس طرح تو سر چھوٹا دھڑ بڑا بنائے گی۔۔
گوارا بنچ پر بیٹھی اسکا اینگل ایسا ہی بنتا مگر بس بڑبڑا کر رہ گئ۔۔ بیٹھے بیٹھے وہ اونگھ گئ
ایک گھنٹہ جانے ہو گیا تھا یا نہیں البتہ ہوپ کے ہلانے پر اسکی آنکھ کھلی تھی۔۔
یہ لو۔۔
وہ اپنا سامان سمیٹ کر بیگ کندھے پر ڈالے جانے کو تیار کھڑی تھی۔۔ اسکا اسکیچ ایک اسٹینڈرڈ پیپر پر بن چکا تھا۔۔
گوما وویو۔۔
وہ آنکھیں مسلتی اسکے ہاتھ سے اسکیچ لے کر دیکھنے لگی۔۔ جھلک آگئی تھی اسکی اس تصویر میں مگر وہی آنکھیں بے جان اور گول چہرہ۔۔
اسے موٹی سی گوارا بالکل پسند نہیں آئی۔۔ مگر مسکرا کر شکریہ ادا کیا۔۔
کتنے پیسے ہوئے۔۔ ؟
وہ بیگ کھول کر نکال رہی تھی ہوپ رکی ہی نہیں۔۔
اگر پورٹریٹ بنوانے کا ارادہ ہو تب بتانا۔۔ اس نے مڑ کر دیکھے بنا کہا۔۔ گوارا کندھے اچکا کر رہ گئ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے اپنے اپارٹمنٹ میں آکر بیگ حسب عادت دروازے کے پاس پھینکا خود بیڈ پر گر سی گئ۔۔
ہاتھ میں رول کیا ہوا اسکیچ سیدھا کیا اور غور سے اسے دیکھنے لگی۔۔ اب دیکھنے میں اتنا برا بھی نہیں لگ رہا تھا۔۔
اب یہ کیا ہے؟
باندری لگ رہی ہو۔۔بیڈ سائیڈ پر رکھے فریم میں تصویر سے اسکی ماں بولی تھی۔۔
آپ کو کیا ۔ وہ چڑی۔
اب اس میں پیسے پھینک آئیں۔۔
یہ کروانا تھا اپنی آنکھیں چھوٹی اور منہ گول ۔۔ چلو پلاسٹک سرجری کا خرچہ تو بچا۔۔ جب آئندہ خیال آئے تو یہی دیکھ لینا۔۔
ماں کی بات پر چونکی اٹھ کر غور سے تصویر دیکھنے لگی۔۔
نہیں۔۔ ایسا تھوڑی کروانا میں نے۔۔ اس نے بے زاری سے تصویر پھینکی۔۔ اپنی سینڈل اتار کر پیر سہلارہی تبی جب موبائل پر بیپ بجی۔۔
یون بن ۔۔ وہ خوش ہو کر لپکی۔۔
میسج تھا مگر ہایون کا۔۔
بنوائی تصویر؟
ہااش۔۔ اس نے منہ بنایا اور جواب ٹائیپ کیا۔۔
دے۔۔ ہاں۔۔
جھوٹی۔۔ اسکا فوری جواب آیا۔۔ اسکی ناک بھویں چڑھنے لگیں۔۔
اس نے تصویر ڈھونڈی وہ ہوا سے اڑ کر بیڈ کے نیچے جا چکی تھی۔۔
اس نے تصویر اٹھائی سیدھی کی اپنے موبائل میں تصویر کھینچی۔۔ اتنی دیر میں ہایون کا میسج آچکا تھا۔۔
تم کو یون بن بھی کہتا تو تم نے مہینہ ایک نکال کر اسکا کہا کام کرنا تھا۔۔ خیر اسی سال بنوا لینا تصویر احسان ہوگا۔۔
لو کر لو یقیں۔اس نے فورا اسے تصویر بھیجی۔۔
تمہارے بڑھاپے کی تصویر بھی لو۔۔ اس نے چپکے سے اسکے پورٹریٹ کی بھی تصویر کھینچ لی تھی وہ بھی بھیج دی۔۔
ہاہاہاہہا۔ گوارا موٹی ہو جائو سچ میں بھالو بھالو ذیادہ پیاری لگ رہی ہو۔۔ اسکا فورا جواب آیا تھا۔۔
ہااش۔۔
اس نے جواب نہیں دیا موبائل رکھ کر باتھ روم میں گھس گئ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ گوارا کی تصویر دیکھ کر خوب ہنسا تھا۔۔ ابھی کوئی بہتری نہیں آئی تھی۔ اس نے گوارا کے خدو خال بھی موٹے کر دیے تھے۔۔۔ یہاں اسے خیال آیا۔ وہ غور سے تصویر دیکھنے لگا۔۔ تبھی اسے ایک اور تصویر موصول ہوئی۔۔ گوارا کو میسج بھیج کر اس نے وہ تصویر کھول لی۔۔ یہ اسکے ادھورے پورٹریٹ کی تصویر لی گئ تھی۔۔ تھو ڑا فاصلے سے لی گئی تھی دور سے کھنچی ہونے کی وجہ سے اس کے نقوش نسبتا کم پھیلے لگ رہے تھے یہاں وہ اسکی غلطی پکڑ گیا۔۔
وہ کینوس زیادہ گھیرتی تھی اسکی آنکھوں کا درمیانی فاصلہ زیادہ تھا اسکی ناک پھیلی ہوئی بنی تھی جیسے اسکے منہ کو کسی نے پچکا دیا ہو۔۔
وہ موبائل گھما گھما کر مختلف زاویے سے دیکھ رہا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ایم پی تھری کی ہینڈ ز فری کانوں میں ٹھونسے موبائل میں لگی تھی جب سنتھیا۔۔ کمرے کا دروازہ کھولتی داخل ہوئی۔۔ گیارہ ہو رہے تھے اریزہ آرام سے نیند آنے کا انتظار کر رہی تھی بتی جلنے پر چونکی پھر ایم پی تھری رکھ کر گھٹنوں کے بل کھڑے ہو کر نیچے جھانکا۔۔
کہاں تھیں تم ؟
لانگ شوز اتارتی سنتھیا چونک کر اوپر دیکھنے لگی۔۔
ایڈون کے ساتھ تھی۔۔
اریزہ اسے حیرت سے دیکھ رہی تھی۔۔
یہ ایڈون نے دلایا ہے آ ج ہی۔۔ اسکی ضد تھی فورا ٹرائی کروں۔۔ وہ تھکی تھکی سی تھی۔۔ مگر اریزہ کی نظروں کا مطلب سمجھ کر بولی۔۔
وہ آف وہایٹ سلیو لیس ٹاپ تھا جس پر نازک سی چینز کندھوں سے نیچے تک آرہی تھیں۔۔ اس کی فراک گھٹنوں تک تھی مگر اس نے ٹائٹس نہیں پہن رکھی تھیں اسکی سانولی پنڈلیاں دمک رہی تھیں
سنتھیا نے بلا اردہ ٹاپ کو گھٹنوں سے نیچے کیا پھر سمجھ نہ آیا تو اٹھ کر باتھ روم میں گھس گئی۔۔
اریزہ الجھن سے دیکھتی رہ گئ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دھواں آگ چیخیں ایک۔ دھندلا سا منظر تھا
وہ چیخ رہی تھی رو رہی تھی یہ منظر تو دوبارہ اس نے دیکھا تھا۔۔ اس کا دل چاہ رہا تھا اس بار تو کچھ تبدیل ہو جائے جیسے
۔۔ اریزہ
اسے ایک مانوس آواز سنائی دی اس نے پلٹ کر دیکھا تو کوئی بے حد اپنا اسکے بالکل پیچھے کھڑا مسکرا رہا تھا۔۔ وہ ایک دم آگے بڑھ کر اس سے لپٹ جانا چاہتی تھی کہ تیز روشنی کا جھماکا ہوا اور سب غائب ہو گیا۔۔ وہ تھی اور گھپ اندھیرا۔۔
اس نے گہری گہری سانس لی۔۔
تبھی اس پر روشنی کا ایک اور جھماکا ہوا۔
وہ حواسوں میں جیسے اب آئی تھی۔۔ چند لمحے تو سمجھ نہیں آیا کہاں ہے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آٹھ سال کا بچہ اندھیرے میں اٹھا تھا کمرے کی کھڑکی سے بجلی کڑکنے کی آواز آرہی تھی بار بار روشنی کا جھماکا ہوتا اسکی آنکھ بجلی کے چمکنے سے ہی کھلی تھی۔۔ وہ بے اختیار پورے گلے سے چیخا اہموجی۔۔
آہموجی۔۔
پکارتے پکارے اسکا گلا بیٹھ گیا تھا۔۔ تب دروازہ کھلا کوئی تیزی سے اسکی جانب بڑھا تھا اور اسے بانہوں میں بھر لیا تھا۔۔
شش۔۔ اس مہربان آغوش میں اسکی سسکیاں تھمنے لگیں اس نے سر اٹھا کر اس مہربان کا چہرہ دیکھنا چاہا تو اسے جھٹکا لگا۔۔ یہ اس کی ماں تو نہین تھی۔۔
کوئی بے حد پیار سے اس سے پوچھ رہا تھا
اب تو ڈر نہیں لگ رہا انی آگئ ہین تمہارے پاس۔۔
اس کی چونک کر آنکھ کھلی تھی۔۔ پسینے میں تربتر چہرہ ۔ اس نے گہری سانس لے کر سائڈ ٹیبل سے گھڑی اٹھا کر وقت دیکھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ پھر اس ساحل کنارے کھڑا ادھر سے ادھر پاگلوں کی طرح دوڑتا پکارتا کسی کو ڈھونڈ رہا تھا۔۔ دور پانیوں کے پاس کوئی ہیولہ سا دکھائی دیا۔۔ وہ اندھا دھند دوڑ پڑا
رچل اس نے قریب جا کر اس ہیلولے کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔ رچل چونک کر مڑی۔۔
تم ٹھیک ہو نا ۔۔ تم ٹھیک تو ہو نا وہ بے تابی سے اسکے گال چھو کر پوچھ رہا تھا۔۔
ہاں بالکل ٹھیک میری فکر کرنا چھوڑ دو تم اب۔۔
وہ ہنسی۔۔ تو اس نے اسے گلے لگا لیا تھا۔۔
شکر ہے خدا کا تمہیں کچھ نہیں ہوا۔۔
بڑ بڑاتے ہوئے اسکی آنکھ کھل گئ تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس برف بنے دریا پر بھاگتے جانے اسے کتنا وقت بیت چلا تھا بھاگتے بھاگتے اسکے پیر سن ہو چکے تھے مگر کوئی عزم اس کے قدموں کو رکنے نہیں دے رہا تھا۔۔ وہ بھاگتے بھاگتے ٹھٹک کر رکی۔۔
دریا اب برف نہیں رہا تھا ہاں برف پگھل چکی تھی۔۔
تیز دھوپ اسکے گرد اجالے بکھیرنے لگی تھی تپش ست تو برف پگھلنے لگے گی وہ ڈر کر پیچھے ہوئی اگر برف پگھل گئ تو اسکے قدموں تلے نرا پانی ہوگا جو اسے ڈبو دےگاوہ ڈر کر اکڑوں بیٹھ گئ
تبھی کوئی اسکے ساتھ ہی آکر اکڑوں بیٹھا ۔۔
اس نے ڈرتے ڈرتے سر اٹھایا۔
کوئی بے حد مہربان مسکراہٹ والا اس سے کہہ رہا تھا۔۔
میرا پورٹریٹ بناءوگی؟
اس نے مسکرا کر سر ہلایا۔۔
وہ۔کسی خواب سے جاگی تھی
اپنی بیس سالہ زندگی میں پہلی بار اسکی مسکراتے ہوئے آنکھ کھلی تھی۔۔۔
۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے تین بج رہے تھے۔۔ وہ اٹھ گئی۔۔ اسکے ڈورم کے خارجی کھڑکی کے پردے ہٹے ہوئے تھے اسکے اوپر خوبصورت تکونی چھت بھی شیشے کی تھی وہ سر اٹھا کر اوپر دیکھنے لگی چھاجون مینہ برس رہا تھا شفاف شیشے پر گرتی پانی کی بوندیں کبھی کبھی کڑکتی بجلی کے جھماکے اس نے دونوں بازو پھیلالیے یوں لگ رہا تھا بارش اس پر برس رہی تھی اور وہ بھیگ نہیں رہی تھی۔۔ اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکان در آئی۔۔
اسکی آنکھوں کے کنارے چپکے چپکے بھیگ رہے تھے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اٹھ گیا تھا کمرے میں اب بھی ملگجا اندھیرا تھا
تیز کڑکتی بجلی کی آواز آرہی تھئ شائد باہر تیز بارش ہو رہی تھئ مگر اب وہ آٹھ سالا ہیونگ سک نہیں رہا تھا اب وہ اس موسم سے ڈرتا نہیں تھا بارش سے اسکی دوستی ہو چکی تھی ابھی بھی اٹھا اور کمرے کی گلاس ڈور والی سلائڈنگ کھڑکی کھول کر بارش کی ٹھنڈک اپنے اندر اتارنے لگا
کوئی ہوگا میرے جیسا بھی پاگل جو سوتے سے ڈرکر اٹھے اور کھڑکی میں کھڑا ہو کر بارش دیکھنا شروع کردے ۔۔۔ اور۔۔ وہ خود پر ہنس دیا
اس سے موڈ بھی اچھا ہوجائے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھ سے بڑا بھی کوئی پاگل ہوگا ۔۔
سوتے سے اٹھ کر میں تصویر مکمل کر رہی ہوں ۔۔
ایزل پر اسٹروک لگاتے وہ خود پر ہنسی۔۔ ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوگ رات کو اچانک اٹھتے ہییں تو پانی پیتے باتھروم جاتے اور میں ۔۔
وہ موبائل کھولے بیٹھا اپنی حماقت پر مسکرایا۔۔
بلاگ دیکھ رہا ہوں کہ اپڈیٹ ہوا کہ نہیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بارش واقعی رحمت ہے خدا کی۔۔کیسے بارش سے سارا جہاں دھل کر نکھر جاتا ہے۔۔ایکدم صاف شفاف ۔۔ ایکدم پاک۔۔
یہ میرے کیمپس کی اندرونی سڑک ہے۔اسکی اسٹریٹ لائٹ کی روشنی میں برستی بارش اف کاش میرے گھٹیا موبائل کا کیمرہ اس منظر کو اسی طرح دکھا پاتا جیسا میری آنکھیں دیکھ رہی ہیں۔
اس نے تصویر کھینچی مگر اصل منظر کا عشر عشیر بھی نہ قید ہوا تھا
ایسا لگ رہا ہےستارے ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے ہوں۔۔ آپ گھنٹوں یہ منظر دیکھ سکتے ہیں بور ہوئے بنا۔۔۔۔ مجھے ویسے بارش میں بھیگنا نہیں پسند مجھے لگتا بارش کو چھو لیا تو اسکا طلسم جاتا رہے گا بارش تو دیکھنے محسوس کرنے کی چیز ہے۔۔ آج میرا بلاگ بورنگ ہے مجھے پتہ ہے
۔ مگر مجھے آج بارش نے ایک اور بارش میں بھیگنے سے بچایا ہے میں بس بارش کی ممنون ہوں یہ آج برسی کھل کر برسئ مجھ پر برسی مگر مجھے بھگویا نہیں ۔۔شکریہ بارش۔۔ چھما چھم برسوں کیوں کہ میں تمہارے برسنے سے بہت خوش ہو گئ ہوں آج۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ہنسا۔۔پھر سوچ کر لکھنے لگا۔۔
کوئی دنیا میں بارش برسنے سے بھی خوش ہوتا ہے۔۔ جان کر حیرت بھی ہوئی خوشی بھی۔۔ کہ کسی کے اندر کا موسم اتنا سادہ ہے کہ باہر کے موسم سے برسر پیکار ہونے کی بجائے دوستی کر لیتاکتنا خوش قسمت ہوگا وہ جو خوش ہو جاتا ہے میں جل نہیں رہا رشک کر رہا ہوں اللہ کرے تم سدا خوش ہی رہو۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلا کمنٹ
کس سیارے میں پہنچ گئ ہو بی بی؟ لائٹ ہے نہیں یہ اسٹریٹ لائٹ دکھا رہی ہیں۔۔
دوسرا کمنٹ
ہیں پنڈئ میں بارش ہو رہی۔۔ ؟ میرا گھر راتوں رات اٹھ کرکہان پہنچ گیا ؟یہاں تو کوئی بارش نہیں ہو رہی۔
تیسرا کمنٹ
تارکول کی سڑک نظر کب آتی زرا سی بارش ہوتی گٹر ابلنے لگتے۔۔
چوتھا کمنٹ
بارش ہو جائے کاش یہاں بھی مر رہے ہین گرمی میں
پانچواں کمنٹ
جب بھی بارش ہوتی ہے میرے آنگن میں۔۔
صبح مجھے ہی پانی سوتھنا پڑتا ہے۔۔۔
یہ کوئی لڑکی تھی
وہ بے ساختہ ہنسی۔۔
پھر اسکا کمنٹ کھول کر ریپلائی کیا۔۔
میں تمہارے دکھ سمجھ سکتی ہوں۔
اگلا کمنٹ اس نے دو بار پڑھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوش قسمت خوش ہوتے ہیں مگر زیادہ خوش وہ ہوتے جو اپنی قسمت پر خوش ہوتے۔۔ میری آپکے لیے دعا آپ بھی خوش رہیں خوش قسمت ہو جائیں آمین۔۔۔۔
اس نے جواب لکھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لفظ کتنےقیمتی کتنے اچھے ہو سکتے اسے آج اندازہ ہوا تھا۔۔ اس نے بار بار پڑھا تھا بلاگر کا جواب۔۔ آمین
اس نے دل سے آمین کہا اور جیسے دل۔کو اطمینان ہو گیا کہ جیسے اس بلاگر کی دعا قبولیت کا درجہ پا گئ۔۔
اس کو اچانک ہی نیند بھی آنے لگی تھی موبائل لاک کرکے سایڈ میں رکھا اور پر سکون نیند کی وادی میں قدم رکھ دیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکی تصویر ابھی مکمل ہونے کو تھی۔۔ اس نے مطمئن ہو کر برش رکھا اپنی انگلیاں دباتی بیڈ کی جانب بڑھئ اسے اب نیند آرہی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کتنی ہی دیر اس ایبس ٹریکٹ آرٹ کو دیکھتا رہا ایک کے بعد ایک سارے رول دیکھ ڈالے۔۔ پھر انکو
سائڈ ٹیبل کی دراز کھول کر اندر رکھا اور کروٹ بدل کر سونے کی کوشش کرنے لگا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے موبا ئل کی روشنی سے نیچے جھانک کر دیکھا سنتھیا بے خبر سو رہی تھی۔۔ موبائل بیڈ پر پھینکا پھر بیڈ کے ساتھ زمین پر سیدھی لیٹ گئی پہلے ایک گھٹنا موڑ کر اوپر سینے تک لائی تھوڑی دیر رکی پھر پہلی ٹانگ سیدھی کر لی اب دوسرے ٹانگ اٹھائی جلد ہی اسکی سانس پھولنے لگی مگر اس نے ایکسرسایز نہیں چھوڑی یہ اس کا پہلا سبق تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
جاری ہے
Kesi lagi apko Salam Korea urdu web travel novel ki qist ? rate us below