زہر لگتے ہیں مجھے ہنستے چہرے۔۔
بس چلے تو ان پر میں لگا دوں پہرے۔۔
کس بات کی خوشی ہے انکو؟
زندگی کیسی ملی ہے انکو؟
جو گزرے سب دکھ سب بھول گئے؟
ماضی پر کیسی ڈال یہ دھول گئے؟
ایسابھی کیا ملا ہے اب ہمیں بتائو
کیا کبھی نہ تم سےکچھ چھنا؟ ہمیں بتائو
مسکراتے ہوئے دیکھے ہیں ہم نے کہاں لوگ
ہمارے گرد تو ہم جیسے ہیں تہی داماں لوگ
تنہائی میں ملتی ہیں کالی ناگن سی پھنکارتی سوچیں
اپنے سود و زیاں پر کلبلاتی ماضی کو پکارتی سوچیں
یاسیت و اداسی سے بھرے صبح شام سےہیں
چند پل بھی خوشی کے بس نام کے ہیں
اب ان کو بھی یاد کریں تو دل دکھتا ہے
گزرے لمحوں میں رہنے سے کہاں کچھ ملتا ہے۔
ہم جیسے لوگوں کو تو بس قسمت کا لکھا کھا گیا
ہمارے دل میں جانے کیا تھا
جو دکھوں کے موسم کو بھا گیا۔۔
اب کس دل سے دیکھوں میں اس دل میں بستے چہرے؟
تبھی تو زہر لگتے ہیں مجھے اب ہنستے چہرے۔۔
از قلم ہجوم تنہائی