مختصر افسانہ
کباڑ خانہ
آج کباڑ خانے کی صفائی کی پرانے کپڑے نکالے کچھ برتن کچھ ردی لحافوں کو نکالا دھوپ لگوا لوں اچانک ہی موسم بدلے گا ایک پرانا گتے کا ڈبہ ملا کچھ پرانی کتابیں تصویریں کاغذ اور ایک خاص کتاب
یونہی کتاب کھولی شور مچ گیا
کچھ یادیں بوکھلائیں
کچھ لفظ چیخ پڑے
کسی کم سن کے ٹوٹے خواب تھے
جنکی کرچیاں دل میں آن کھبیں
گھبرا کر بند کر دی
بھلا ایسا بھی کہیں ہوتا ہے
کچھ پڑھ کر دل روتا ہے
میری توبہ جو آیندہ اپنی پرانی ڈائری کھولی
جلدی سے ڈبہ بند کیا لحاف بیچ دونگی یہ ردی کو دھوپ لگوا لوں یہ اففف کیا کہہ رہی ہوں توبہ بہت کام ہیں
یہ برتن ۔۔۔۔اف ۔۔۔۔۔ برتن اٹھا لوں