اب تھوڑی وہ زمانے ہیں کہ کہیں وہی چاہیئے۔۔
ہمیں اس دنیا سےکچھ بھی اب نہیں چاہیئے۔۔
دو چار خواہشوں کی ہماری چھوٹی سی فہرست تھی
پرزندگی سے وہی ملا جس پہ کہا اب نہیں
چاہیئے۔۔
واعظ نے گزاری ہے زندگی بلک بلک کر مانگتے جسے۔۔
اسی جنت نے ٹھکرایا زاہد تو بہت ہیں یہ اب نہیں
چاہیئے۔۔
کہتے ہیں ملے گا سب اس جہان میں اس جہان میں تو بس۔۔
چند سانسیں ہیں ملی اس سےبھی ہیں تنگ اور اب
نہیں چاہیئے۔۔
احباب مختصر کلام مختصر اب حاصل وصول کا تذکرہ کیا کرنا
ہمیں اور لوگ تو کیا ہمیں تو ہم بھی اب نہیں چاہیئے۔۔
ہم نئے مزاج میں ڈھل چکے ہیں محفلوں سے اکتائے ہیں ۔۔
ہم رونقوں ہجوم سے دورہیں اور تنہائی بھی اب نہیں چاہیئے۔۔
از قلم ہجوم تنہائی۔