Aks dastaan…عکس داستان

Afsanay (short urdu stories)

عکس داستان 

رات کو حسب عادت میں آیئنے کے سامنے کھڑی بال بنا رہی تھی 

سنا ہے رات کو سونے سے پہلے خوب برش پھیرو بالوں میں تو بال خوب گھنے ہو جاتے ہیں 

 میں آیئنے میں خود کو دیکھتے ہوئے چونک اٹھی 

یہ آیئنے میں اچانک ابھر آنے والا عکس میرا تھا 

تم …. میں چلائی 

ہاں میں … میں مسکرائی 

تم یہاں کیسے؟

میں غصے سے پوچھنے لگی 

جیسے تم یہاں …

میرا اطمینان قابل دید تھا

تمہیں یہاں نہیں آنا چاہیے تھا 

مرے لہجے میں بے بسی سی در آی 

تمہیں بھی یہاں تک نہیں آ جانا چاہیے تھا 

وہ بھی تو میرا ہی عکس تھا اطمینان سے مجھ پر ہی چوٹ کر رہا تھا 

میری مجبوری تھی

میرا لہجہ دھیما پڑا

مجھے پیچھے چھوڑ آنا خود سے الگ کر کے ذات کے اندھیروں میں بھٹکنے پر مجبور کر کے تم زندگی میں آگے بڑھتی گیں کیوں آخر کیوں ایسی کیا مجبوری تھی تمہیں کہ اپنے آپ سے ناطہ توڑ لیا 

میرا عکس تڑپ کر مجھ ہی پر چلا نے لگا 

میں نے شرمندگی سے سر جھکا لیا 

کہاں کہاں نہیں میں نے تمہیں اپنا آپ یاد دلانا چاہا کہاں کہاں تم نے مجھ سے دامن نہیں چھڑایا

یہ دنیا تمہیں کیا کچھ کہتی رہی تم نے پلٹ کر اف تک نہ کی میں نے کتنی بار تمہاری ذات کے زنداں میں قید اپنے اس وجود سے پوری طاقت سے چلا چلا کر تمہیں پکارنا چاہا تم نے کان نہ دھرے کس کس موقعے پر میں نے تمہیں یاد دلانا چاہا تم وہ نہیں رہی ہو جو تم تھیں مگر تم نے میری ایک نہ سنی دیکھا آج کہاں پہنچ گئی ہو تم اس دنیا نے تمہیں کہیں کا نہ چھوڑا سارے خواب ساری امنگیں سب خواہشیں دل کے نہاں خانے میں دفن کر کے کیا حاصل کرنا چاہا تھا تم نے؟

میرا عکس برسوں کی بھڑاس نکال رہا تھا آج عمر کے آخری حصے میں آ کر مجھے احساس ہوا ہے میں اپنے عکس کو جھٹلا نہیں سکتی خاموش بھی کرانے کی ہمت نہیں رہی ہے اب مجھ میں 

میں سر جھکایے بس اسے خود سے لڑتے دیکھے جا رہی تھی 

اب ایسے سر جھکایے کیا کھڑی ہو ؟

میرے عکس کو مجھ پر ہی ترس آ گیا تھا 

گزر گئی ایک عمر  رائیگاں…

اب اس زندگی سے اور کوئی توقع مت لگا بیٹھنا 

اس نے تنبیہہ کی میں ہنس پڑی 

درد سے اٹی کھسیائی سی  جھریوں سے بھرے گالوں پر ہنسی کی دبیز گہری لکیروں میں جانے میری ہنسی نے میرے عکس کو کیسا خوفناک منظر دکھایا تھا کہ تاسف سے مجھے دیکھتا دھندلا گیا

میں ہنستی ہنستی اپنی مسہری پر آ ٹکی 

اب کیا توقع رکھنی ہے مجھے اب تو توقعات کا بھی آخری وقت چل رہا 

……………………….. 

میری دادی بہت با صلاحیت خاتون تھیں 

اپنے زمانے میں کی مشہور پینٹر تھیں جب شادی ہوئی انکی اس وقت انہیں فرانس کے ایک آرٹ سکول سے اسکا

لر شپ کی آفر آی تھی مگر دادی کے ابا نے انھیں جانے نہیں دیا شادی کردی  میرا ددھیال قدامت پسند تھا انھیں انکا پینٹنگ کرنا گوارا نہ رہا دادی نے ایک بار پینٹنگ بنی دادا نے بیچ صحن میں لا کر پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی بس اس کے بعد دادی نے دوبارہ پینٹنگ کا نام نہیں لیا 

انیلہ  آرٹ کولج میں بیٹھی اپنی پینٹنگ مکمل کرتے ہوئے اپنی سہیلی سبین  کو بتا رہی تھی سہیلی کو بھی کافی افسوس ہوا 

بیچاری دادا کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا 

اس نے کہا تو انیلا بھی افسوس سے سر ہلا نے لگی

پھر اپنے ہاتھ میں پکڑی پینٹ کے رنگوں کی پلیٹ ایک طرف رکھ کر اپنا بستہ کھول کر کچھ نکال لیا اب 

  اسکے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا وہ بہت دزدیدہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی یوں لگتا ابھی رو پڑے گی 

سبین نے تاسف سے دیکھا وہ اپنی دادی سے بہت پیار کرتی تھی انکے بعد انکی کمی بھی سب سے زیادہ اسے محسوس ہوئی تھی وہ اٹھ کر انیلہ کے پاس آگئی اور تسلی دینے والے انداز میں اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا 

انیلہ کا دل بوجھل ہو چلا تھا 

لیکن یہ کیا ہے ؟

سبین کی توجہ اسکے ہاتھ پر گئی تو پوچھ بیٹھی 

یہ دادی کے آخری وقت میں انکے ہاتھ میں تھاڑانہوں نے مٹھی بھینچ لی تھی تو یہ کاغز مڑ تڑ گیا 

انیلہ اداس سی ہو کر اس کو سیدھا کرنے لگی 

اس میں ہے کیا ؟

سبین کو تجسس ہوا 

انیلا نے ہتھیلی کے زور سے سیدھا کیا 

یہ ایک سادہ سا آئنے کا خاکہ تھا جیسا کسی بھی سنگھار میز کا ہوتا مگر اس آیئنے کا کوئی عکس نہیں تھا بلکہ پورے آیئنے ۔۔۔
پر ہلکے ہاتھ کی پنسل پھیر کر اس کو دھندلا دیا تھا …. 




۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد

اردوز ویب ڈائجسٹ کی تمام تحاریر کے جملہ حقوق محفوظ ہیں بلا اجازت ان تحاریر کو استعمال کرنے پر انضباطی کاروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔۔ از قلم واعظہ زیدی (ہجوم تنہائی) #اردو #اردوویب #ناول #

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *