کرونا اور قطرینہ کہانی قسط 1
کرونا وائرس کا خطرہ اور سنجیدگی کا عالم
کاشی کاشی دہی لا دو ۔۔
امی نے اسکے اوپر سے کمبل کھینچ کر عجلت میں کہا۔۔
وہ ہڑبڑا کر اٹھا
اور یہ لائونج میں کیوں سو رہے تھے؟
امی کے ایکدم صور پھونک کر جگا دینے پر بدمزا کاشی منہ بنا کر بولا
شوق تھا مجھے بیچ چوراہے میں سونے کا دیکھ رہا تھا نیند کیسی آتی ہے۔
اچھا اب تو دیکھ لیا نا چلو اب کمرے میں جا کر سوئو یہاں کی صفائی رہ گئ بس تمہیں سوتا دیکھ کر شاداں گیراج دھونے لگ گئ ۔۔
امی ۔۔ اس نے احتجاجا گھورا اس نے طنز کیا تھا اور امی بات اڑا گئیں۔
چلو اٹھو شاباش ایک بج رہے چھٹیوں کا یہ مطلب نہیں کہ دن چڑھے سوتے رہو۔
وہ منہ بناتاچپل گھسیٹتا اندر کی جانب بڑھنے لگا کہ امی کو پھر دہی یاد آگیا
کہاں جارہے ہو؟
سونے ۔۔ کاشان بھنایا
پہلے دہی لا کر دو مجھے۔۔ پھر بھلے شام تک سوتے رہنا کھانا بنانے میں دیر ہو جائے گی ورنہ۔۔
تبھئ سر کھجاتا چپل گھسیٹ کر ڈھیلے قدموں سے چلتا دانش آیا آتے ہی اسکی چھوڑی جگہ صوفے پر دھپ سے گرا۔۔
امی ناشتہ۔۔ دانی کی آواز نیند سے بھری تھی
ہاں بنواتی ہوں شاداں پراٹھا ڈال دو دانئ کیلئے۔۔ کیا ہوا طبیعت تو ٹھیک ہے سر میں درد ہو رہا۔۔ ؟؟؟؟
دانی نے معصوم سی شکل بنا کر آنکھیں پٹپٹائیں۔۔
اوہو ۔۔ ناشتہ کر لو پھر سر درد کی۔ اسکو بےزاری سے سر سہلاتے دیکھ کر امی فکر مند سی ہو کر اسکےپاس آبیٹھیں۔
کاشی کا خون جل گیا۔۔
امی میں بھئ آپکی اولاد ہوں یاد آیا؟ مجھے بھی ناشتے کا پوچھ لیں۔
اسکے جلے بھنے انداز پر دانی چسکا لینے والے انداز میں ہنسا
کتنئ بار تمہیں بتائوں کہ تم شاداں کے بھائی ہو امی نے ترس کھا کر گود لے لیا تھا تمہیں۔۔
اسکے طنز سے کہنے پر امی چونک کر مڑیں۔
تم ابھی تک گئے نہیں؟ تمہارے ابو نے صبح سات بجے کا ناشتہ کیا ہوا ہے۔ انہیں بھوک لگ جانی ہے ابھی۔۔
امی میں نے کل دوپہر کا کھانا کھایا ہوا ہے مجھے تو ناشتے کا بھی نہیں پوچھا آپ نے۔
وہ روہانسا ہوا
ہاں تو اپنی مرضی سے بھوکے رہے سب نے کریلے قیمہ شوق سے کھایا رات کو سوائے تمہارے۔۔
امی بے نیازئ سے کہتی اٹھ کھڑی ہوئیں۔
کوئی نہیں دانی نے بھی نہیں کھایا ۔یہ رات کو ڈیل آر۔۔۔ وہ غصے میں راز افشا کرنے لگا تھا دانی سٹپٹا کر سیدھا بیٹھا
ارے قط قطرینہ کی ڈیل تھی ۔ بھول گئے
دانی نے چبا کر کہتے آنکھیں دکھائیں کاشی نے زبان کو بروقت بریک لگائی
کیا ڈیل کیسی ڈیل؟
امی کچھ نہ سمجھیں
قطرینہ نے کئی نئی فلموں کی ڈیل سائن کر لی امی ایک سال تین فلمیں کر رہی ہے۔ اب پتہ ہے آپکو۔۔
دانئ ایران توران کی ہانکنے لگا تو امی بےزار ہو اٹھیں
ارے دفع کرو قرینہ قطرونا کرونا کو ہمیں کیا تم کاشی
۔ چلو اب جلدی سے دہی لا کر دو میں تب تک تم دونوں کیلئے ناشتہ تیار کرواتی ہوں۔۔
امی کہتی اٹھ کر جانے لگی دانی نے بمشکل انکے کمرے سے نکلنے کا انتظار کیا لپک کر گردن سے پکڑ لیا کاشی کو
کیا بکنے جا رہے تھے؟ کیا طے ہوا تھا تم میرا راز رکھو گے میں تمہارا۔ ایک پیس دیا تھا نا پزا کا تمہیں احسان فراموش۔
اس نے جھٹکا دیا ۔ کاشی گردن چھڑا کر سہلاتے ہوئے گھورنے لگا
میرا ایک چھوٹا سا راز ہے تمہارے کتنے درجن میں راز رکھتا ہوں کچھ یاد ہے۔
چھوٹا سا راز ہے تمہارا اچھا ۔۔ دانی کہاں ہاتھ آنے والا تھا وہیں سے آواز لگا نے لگا
امی امی قطرینہ آپکی بہو بننے والی ہے۔۔
کیا ۔۔ امی کی دور سے آواز آئی کاشی ہاتھ پیر جوڑنے لگا
اچھا اچھا ۔چپ کر جا میرے بھائی ۔
ہاں اب ہوا نا سیٹ۔ دانی نے فرضی کالر جھاڑے
اچھا سن پزا کے خالی ڈبے تیرے بیڈ کے نیچے گھسا دیئے تھے شاداں کو صفائی نہیں کرنے دی کمرے کی تم۔ناشتے کے بعد امی کی۔نظر بچا کر باہر پھینک دینا۔
وہ مزے سے حکم چلاتا ہوا منہ دھونے چل دیا تھا اسے کاشی بس گھور کر رہ گیا
نجانے کونسئ منحوس گھڑی تھئ جو ایک دفعہ اسکے نمبر سے میسج کردیا قطرینہ کو۔ کمینہ چھے مہینے ہونے کو آگئے بلیک میل کیئے چلا جا رہا ہے۔
وہ منہ بناتا صوفے پر آبیٹھا پھر جیسے کرنٹ سا لگا اچھل کر کھڑا ہواسر پر ہاتھ مارا
دہی۔۔۔ اف امی پیسے تو دیں دہی لانے کے۔
وہ جھلاتا ہوا کچن کی جانب بڑھ گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرونا وائرس کی تباہ کاریاں جاری وائرس چین سے پھیلتا ہوا دنیا کو لپیٹ میں لے رہا ہے۔ اب تک اس وائرس سے متاثرہ ممالک میں ایران امریکہ اسپین اٹلی بھی شامل ہو چکے ہیں ۔ اٹلی میں ہلاکتوں کی تعداد۔۔
ابھی اتنی ہی خبر ہوئی تھی کہ جھٹ ثانیہ نے چینل بدل دیا۔
ارے دیکھنے تو دو پوری خبر؟؟ دانی نے کہا تو وہ لاپروائی سے کندھے اچکا کر بولی
ہمیں کیا۔ یہ گندے لوگوں کا وائرس ہے جو الا بلا کھاتے ہاتھ منہ نہیں دھوتے ہم تو دن میں پانچ مرتبہ وضو کرنے والی قوم ہیں۔۔
اسکی بات ابھی ختم نہ ہوئی تھی امی نے جھٹ اسکے سر پر چپت لگا دی۔
یہ نماز پڑھنے والی قوم کا حال دیکھو ایک بجے محترمہ کی صبح ہوئی ہے ناشتہ تک ٹی وی لائونج میں روتی دھوتی عورتوں کو دیکھ کر ہو رہا ہے کچھ پتہ ہے عصر کب ہوتی ہے فجر ظہر تو گزر چکی ہے ۔
بیٹے کیلئے ٹرے میں ناشتہ لیکر آتی امی کی اس اقربا پروری پر وہ آنکھوں میں آنسو ہی تو لے آئی۔۔
پونے دو بجے ناشتے کیلئے صوفے پر ٹانگے پسارے بیٹھی اولاد نرینہ کیلئے بھی کچھ ارشاد فرما دیا کریں ۔ کم از کم میں اپنا ناشتہ خود لیکر آئی ہوں انکو تو ٹرے میں لگا کر دینا پڑتا آپکو۔ اتنی زور سے مارتی ہیں دماغ ادھر ادھر ہوگیا ہوگا میرا۔۔
وہ اب باقائدہ سر سہلا رہی تھی
دانئ نے ناشتہ آتے دیکھ کر پساری ہوئی ٹانگیں سمیٹ لی تھیں اب کشن سامنے میز کی طرح سجائے اس پر ناشتے کی ٹرے رکھے تناول فرمانے کا احسان کرنے کو تیار تھا مگر بہن کو چھیڑے بغیر لطف کیسے آتا۔۔لہک کر بولا
مت فکر کرو کوئی ادھر ادھر نہیں ہوگا دماغ۔ در اصل دماغ ہوگا تو ادھر ادھر ہوگا نا۔
بھائی میرا تو ایک ہے سو مجھے فکر اب آپکی طرح دو دماغ ہوں تو بندہ ایسے ہی بے فکر رہتا۔۔
وہ درپردہ اسے بندر کہہ گئ تھی۔ دانی گھورنے لگا
امی تاسف سے بیٹی کو گھور رہی تھیں
کیسا تڑ تڑ زبان چلتی ہے ۔ کبھی ہاتھ پائوں بھی ہلا لیا کرو اتنی تیزی سے چلو ناشتہ ختم ہوگیا ہو تو چائے بنائو سب کیلئے سر پھٹ رہا میرا بھی۔ اس کوکر کی چھک چھک سے۔۔
امئ سر تھامتی ہوئی سنگل صوفے پر پائوں اوپر کرکے اطمینان سے بیٹھ گئیں۔
ثانیہ نے ہونٹ لٹکا کر شکایتی نگاہ ڈالی ان پر۔اسکے پسندیدہ ڈرامے جس میں ہیروئن کی اپنے ابا کی عمر کے آدمی سے شادی ہوگئ تھی آرہا تھا۔ اور تو اور اسکے پراٹھے کے ابھی دو تین لقمے باقی تھے یہ الگ بات کافی دیر سے ہی وہ باقی تھے بے دلی سے ٹونگنے کی وجہ سے۔
امی کافی دیر نہیں ہوگئی اس کوکر کی آواز کو؟۔ دانی کے بھی سر پر یہ آواز گراں گزر رہی تھی۔
ہاں گوشت گلا ہی نہیں سو دوبارہ لگایا ہے پندرہ منٹ کیلئے۔
یہ کاشی کب کا گیا ہوا ہے آیا نہیں دہی لیکر ۔ دہی خریدنے گیا ہے یا بنانے بیٹھ گیا ہے۔۔
امی کو یاد آیا ۔ تبھی منہ پر ماسک چڑھائے ہاتھوں میں گلوز پہنے کاشی دہی کی تھیلی تھامے اندر داخل ہوا
تینوں اسے دیکھ کر ہکا بکا ہی تو رہ گئے
ہیں یہ کیا ہوا۔۔ ؟؟؟ تینوں نے بے ساختہ بولا تو وہ تھوڑا سٹپٹا گیا
امی وہ باہر ایک این جی او والے مفت ماسک اور گلوز بانٹ رہے ہیں کہہ رہے کہ وائرس سے بچنا ہو تو ماسک پہن کر نکلیں ۔۔
تینوں قہقہہ لگا کر ہنس پڑے ۔
ارے یہ تو چین کا وائرس ہے یہاں کہاں۔ ایویں ڈراتے ہیں میڈیا والے ۔
یہ دانی تھا باقائدہ ٹھٹھا لگا کر بولا
نہیں پاکستان میں بھی آچکا ہے سات سو کے قریب کیسز ہوچکے ٹی وی دیکھا کرو تو پتہ لگے۔
ثانیہ کی خبریں ہمیشہ اپ ٹو ڈیٹ رہتی تھیں سو اپنی قابلیت جھاڑنا ضروری سمجھا۔۔
کیا اتنا برا حال ہو چکا ہے؟ امی بھی تھوڑا گھبرا سی گئیں
ہاں تو ایویں تھوڑی ہم سب کو چھٹیاں دے دی گئیں ہیں۔ کراچی میں تو لاک ڈائون بھی شروع ہو گیا ہے اجتماعات شادیوں اور دیگر تقریبات پر بھی پابندی لگا دی ہے پورے پاکستان میں۔
کاشی نے ماسک اتار کر گہری سانس لی۔
وہ این جی او والے کہہ رہے تھے کہ محتاط رہیں چھینک وغیرہ کہنی موڑ کر چھینکیں بار بار ہاتھ دھوئیں گلا خشک نہ ہونے دیں اور معمولی نزلہ زکام کو بھی معمولی نہ سمجھیں۔ اور یہ پینا ڈول کا پتا بھی دیا ہے انہوں نے۔ اس نے جیب سے پینا ڈول کا پتا بھی نکال کر لہرایا
اور دہی وہ لائے کہ نہیں ؟؟؟ امی نے گھورا
کب سے انتظار میں ہوں سالن بنانے کے بجائے دہی لانے کے این جی او والوں سے باتیں پٹیلنے بیٹھ گئے۔ ارے ان لوگوں کو ڈرانے کے سوا کام ہی کیا ہے۔۔
امی جیسے ناک تک تنگ آئی ہوئی تھیں
کرونا رٹ رٹ کر ہی سب کو بیمار کر چھوڑیں گے
انکی تقریر کو بریک کاشی کے منہ بنا کر دہی کی تھیلی انکے سامنے لہرانے پر ہی بند ہوئی
آتے ہونگے ابا تمہارے نماز پڑھنے گئے ہیں مسجد۔۔
سالن تیار کروں۔۔
کونسی نماز مسجد میں جماعت پر پابندی لگا دی ہے کہہ رہے ہیں کرونا سے بچنا ہے تو گھر بیٹھو۔۔ توبہ ایمان کی کمزور ی ہے بس۔۔ بتائو گھر بیٹھ کر موت نہ آئے گی۔۔ عجیب خرافاتی لوگ ہیں میڈیا والے سب کو ڈرا ڈرا کر پاگل ہی کر چھوڑا ہے
ابا ٹوپی سر سے اتارتے سخت ناراض ناراض سے گھر میں داخل ہوئے تھے۔۔
یک نہ شد دو شد۔ ۔
تازہ تازہ لیکچر لیکر آئے کاشی کو اپنے ہی گھر والوں کو کرونا کی احتیاطی تدابیر بتانا مشکل لگ رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آیت کریمہ کا ورد کرکے اس میسج کو آگے بھیجئے اس آسمانی آفت سے بچنے کا بس یہی طریقہ ہے
استغفار کیجئے یہ ہمارے ہی اعمال کی سزا ہوتی ہے جو وبا کی صورت نازل ہوتی ہے۔۔
بار بار فالتو میں ہاتھ دھونے سے بہتر ہے کچن میں پڑے دو چار برتن بھی لگے ہاتھوں دھو لیا کریں۔
ابے یار۔۔
اس نے بیزاری سے واٹس ایپ بند کیا ۔ ہر طرح کا کرونا کا میسج آیا ہوا تھا جس کو جو سمجھ آتا وہ آگے فارورڈ کرکے صدقہ جاریہ کا حصہ دار بننا ضروری سمجھتا۔
سب سے ذیادہ اسکی ہر دل عزیز سہیلی قطرینہ کے ایسے پیغام موصول ہوتے ۔ اسکے واٹس ایپ اسٹیٹس بھی کچھ ایسے تھے ہاتھ صابن سے دھونے کی ٹک ٹاک ویڈیو بنا کر اپلوڈ کی ہوئی تھی۔ منہ پر ماسک پہن کر وکٹری کا نشان بناتے ہوئے۔ اپنی سہیلی کے ساتھ مصافحے کیللئے ہاتھ بڑھا کر ایکدم ہاتھ پیچھے کر کے دور سے سلام کرتے ہوئے مفاد عامہ کا پیغام دیتے ہوئے کی ویڈیو۔
دو درجن دعائیں ۔ سینی ٹائزر لگاتے ہوئے تصویر ۔
وہ اسکے اسٹیٹس دیکھ کر خوب ہنسا تھا لیکن وہ کتنی سنجیدہ تھی اسکا اندازہ اسے تب ہوا جب اس سے فون پر بات کرتے ہوئے اس نے باقائدہ تعداد گنوا کر دنیا بھر میں ہونے والی اموات اور خاص کر اٹلی کے لوگوں کی کرونا کو سنجیدہ نہ لینے والی حرکت کے بعد چین کے بعد سب سے ذیادہ اموات کا شکار ہونے کا بتاتے ہوئے رو پڑی۔
کاشی انکی فوج فوجی گاڑیوں میں بوریوں کی طرح لاشیں بھر کر لے جارہی ہیں سڑک پر پڑیں ہیں وہاں انسانی لاشیں ۔ یہ اس ملک کا حال جہاں صحت کی سہولتیں بہترین ہیں ۔ہم جیسے ترقی پزیر ملک کا کیا ہوگا۔۔
روتے ہوئے اسکے بین کرنے والے اس انداز نے اس پر اچھا خاصا اثر کیا تھا۔
وہ ویڈیو اس نے بھی فیس بک پر دیکھ رکھی تھی مگر اتنا محسوس نہیں کیا تھا۔
بس یار ہم بس اللہ سے مدد مانگ سکتے ہیں اور کیا کر سکتے۔۔
وہ بے چارگی سے بولا۔
آدھے گھنٹے کی اس واٹس ایپ کال میں سوائے کرونا کے اس نے دوسری کوئی بات نہیں کی تھی۔ دو ہفتے سے انکی کوئی ملاقات نہیں تھئ۔ وہ اسے کافی یاد کر رہا تھا مگر وہ سوائے کرونا کے کچھ سننے کو تیار نہیں تھی۔
بس یہی تو اس قوم کا المیہ ہے۔ وہ ایکدم تیز ہو کر بولی
خود کچھ نہیں کرنا بس سب اللہ پر چھوڑ کر ہاتھ پائوں توڑ کر بیٹھ رہناہے۔ اللہ بھی کہتا ہے اپنا خیال رکھو اپنی زندگی کی حفاظت کرو۔ مگر یہاں کسی کو کچھ کہو تو آگے سے ایمان کی کمزوری کا طعنہ دے ڈالتا ہے۔ ارے وبا پھوٹ پڑی ہے تو انسان دیکھ کر لگے گی یا کرونا آکر پہلے پوچھے گا بھائی مسلمان ہو، اوہ معزرت میں کوئی کافر دیکھتا ہوں آگے ۔۔
اسکا انداز اتنا چڑ چڑا سا تھا کہ وہ بے ساختہ ہنس پڑا
اب تم ہنس کر مجھے اور غصہ نہ دلائو۔ کوئی سننے کو تیار نہیں میری۔ میرے اپنے بہن بھائی میرا مزاق اڑا رہے کہ ذیادہ سوچتی ہو تم۔۔ وہ مایوس سی ہو چلی تھی۔۔
نہیں بھئی مجھے یقین ہے تمہاری بات پرکرونا سب پر یکساں حملہ آور ہے سعودیہ میں طواف بند ہے تو ایران میں مسلمان بھی اسکا شکار بن رہے ہیں۔ ہمیں ہر ممکن احتیاط کرنی چاہیئے۔
وہی تو۔۔ اسکو اپنا ہم نوا دیکھ کر وہ پھر پرجوش ہوئی۔۔
کاشان ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیا۔۔ کال پر دوسری جانب ایک اور کرونا اپڈیٹ دئ جارہی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح حسب معمول تھی۔اسکے برابر والے بیڈ پر دانی خراٹے مار رہا تھا۔ وہ سستی سے چپل پہنتا باہر نکل آیا۔ ابا چہل قدمی کرنے قریبی پارک گئے تھے امی کچن میں لگی تھیں۔
ثانیہ بھی یقینا ابھی سو ہی رہی تھی۔۔ وہ ڈھیلے قدموں سے چلتا کچن میں آکر امی کے شانوں پر سر رکھ لاڈ جتانے لگا
اٹھ گیا میرا بچہ ۔ چلو ابھی ناشتہ ہی بنا رہی ہوں کاشی کو بھی اٹھا دو۔
امی نے پیچھے مڑ کر دیکھے بغیر کہا تھا اسکے ہاتھ سست سے پڑے اور وہ دھیرے سے ان سے الگ ہوگیا۔۔
امی نے مڑ کر دیکھا تو حیران ہی رہ گئیں۔
ارے تم کیسے اٹھ گئے صبح صبح۔۔
بس آنکھ کھل۔گئ۔۔ وہ پھیکے سے انداز میں کہتا کچن میں رکھی چھوٹی میز اور چار کرسیوں کی جانب بڑھ گیا۔
کرسی گھسیٹ کر بیٹھتے ہوئے جانے کیوں دل اداس سا ہوچلا تھا اسکا۔۔
تم کبھی سب سے پہلے اٹھتے ہی نہیں ہو اسلیئے میں سمجھی دانی ہے۔
وہ ماں تھیں یقینا اسکی بھی۔ اسکو فورا صفائی دینے لگیں۔ گرم پراٹھا انڈہ اسکے سامنے تھا۔ وہ یونہی خاموشی سے ناشتہ کرنے لگا۔
لاحول ولا ۔عجیب لوگ ہیں بھئ ڈرپوک ۔ پارک میں نہ کوئی بندہ نہ بندے کی ذات بس ایک میں ایک۔چوکیدار۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگا پارک نہیں کھلےگا آج کرونا کا خطرہ ہے۔ اتنا بڑا ماسک پہنے مجھ سے یوں ڈر رہا تھا جیسے میں ہی کرونا ہوں ہاتھ تک نہ ملایا مجھ سے۔۔
فہیم صاحب کافی خفا نظر آرہے تھے۔ بڑ بڑاتے ہوئے کچن میں داخل ہوئے سیدھا سنک کی جانب بڑھے ہاتھ دھونے کیلئے۔
کہا تو تھا آپکو مت جائیں آج ۔ ہر طرف کرونا پھیلا ہوا ہے شروع میں تو مجھے بھی لگا تھا کوئی بڑی بات نہیں مگر جس طرح سے اسکی لپیٹ میں دنیا کے سبھی ملک آتے جارہے ہیں ہمیں
امی مزید بھی کہتیں مگر ابو نے ٹوک دیا
ارے رہنے دو بس سب ایمان کی کمزوری ہے۔ بھلا ایک وائرس کے پیچھے سب ایسے ڈر رہے جیسے وائرس نہیں ڈائنا سور آگیا یے۔ زرا تیز گرمی پڑے گی خود ہی سب ختم ہو جائے گا۔۔
ایسا نہیں ہے ابو ۔یہ وائرس دبئی سعودیہ جیسے گرم علاقوں میں بھی زندہ ہے۔وہاں بھی لوگوں کو ایسے ہی گھر میں محصور رکھا جا رہا ہے۔
ارے جس کو لگنا ہوگا وائرس گھر بیٹھے بھی لگ جائے گا۔۔
ابو نے کان پر سے مکھی اڑائی۔۔ وہ ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھائی شوارما تو لا دو ۔۔
ثانیہ اسکے کندھے سے جھول رہی تھی۔۔
باہر کرونا پھیلا ہے بھائی سے زرا محبت نہیں تمہیں۔۔
کاشی نے بھنا کر گھورا
بھائئ لا دو نا تمہیں قطرینہ ملے دعا کروں گی ۔۔
اس نے مسکا لگایا۔۔
کاشی اسے گھورکر رہ گیا۔۔ مگر چارو ناچار اٹھنا پڑا۔ اسکی دعا اور بد دعا دونوں ہی فورا لگتی تھیں۔ اسکا بی ایس کا آخری سمسٹر چل رہا تھا جو ثانیہ نے عین فائنل پراجیکٹ سے پہلے اسی طرح شوارما نہ لا کر دینے پر بد دعا دی کہ سب مٹ ہی نہ ہو پائے۔ سب مٹ تو دور بن بھی نہ پایا تھا کہ یونیورسٹی بند ہوگئ۔ نا معلوم مدت کیلئے۔
امی باہر جا رہا ہوں کچھ منگوانا ہے تو بتا دیں۔
اس نے باہر نکلتے نکلتے کچن میں جھانکا۔
نہیں دودھ ڈبل روٹی وغیرہ منگوانا تھا وہ دانی لینے گیا ہوا ہے۔ امی چائے بناتے ہوئے مصروف سے انداز میں بولیں۔
وہ کندھے اچکاتا لائونج کی دیوار گیر الماری کی جانب بڑھا جہاں کل ماسک اور گلوز لا کر رکھے تھے۔ اب وہ خالی منہ چڑا رہا تھا۔
ہاں کاشی۔ سنو کل کیلئے پیاز بھی لے آنا آج بھی سارا دن ایک پیاز والا نہیں گزرا ۔ کہ خرید لیتی اب کلو دو کلو لیکر رکھ لیتے ہیں جانے کب تک یہ کرونا کا سلسلہ چلے گا۔
امی تیزی سے کچن سے نکلیں
لے آتا ہوں مگر ماسک اور گلوز کہاں گئے؟
کاشی نے کہا تو وہ سر سری سے انداز میں بولیں
وہ دانی پہن گیا تم جائو جلدی سے لیکر آئو چائے تیار ہونے والی ہے۔
امی میں بنا ماسک کے کیسے جائوں باہر؟
کاشی نے کہا تو امی نے سر جھٹکا
ارے کچھ نہیں ہوتا دانی بھی ایسے ہی جا رہا تھا وہ تو ثانیہ نے پہنوا کر بھیجا اسے۔۔
تو ثانیہ کی۔بچی شوارما بھی دانی سے منگوا لیتی ۔
اسے سچ مچ غصہ آگیا تھا
کیا یہ لڑکی پھر شوارما منگوا رہی ہے؟ ابھی ڈانٹا تھا اسے۔
امی آگ بگولا ہو کر ثانیہ کو پکارنے لگیں۔
ثانیہ منع کیا ہے نا باہر کا الا بلا کھانے سے؟ سمجھ نہیں آتی چلو شرافت سے گوبھی کھائو جو پکا ہے صبر شکر کرکے۔۔
امی کی ڈانٹ پر وہ خوب پھولا ہوا منہ بنا کر نکلی اور اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورنے لگی۔۔
اور تم جلدی سے لیکر آئو بھئ۔ امی نے روئے سخن دوبارہ اسکی جانب موڑا تو وہ برا سا منہ بناتا ایسے ہی سودا لانے نکل کھڑا ہوا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شوارما کھاتی ثانیہ فل والیم میں ٹی وی لگائے بیٹھی تھی لائونج میں۔ امی نے چائے یہیں لگا دی تھی سو سب فرصت سے ٹی وی کے آگے بیٹھے تھے۔
سندھ کے بعد اب پنجاب میں بھی اگلے چودہ روز کیلئے مکمل لاک ڈائون کا اعلان۔
خبریں دل دہلائے دے رہی تھیں۔ اب تک ہر بات کو مضحکے میں اڑانے والا دانی بھی سنجیدہ بیٹھا سن رہا تھا۔
یہ کرونا پہلے نہیں آسکتا تھا ہمارے صرف پریکٹیکل کینسل ہوئے امتحان بھی ہو جاتے ۔ میرا کیمسٹری کا بالکل اچھا پیپر نہیں ہوا۔۔
ثانیہ رو دینے کو تھی۔ امی تسبیح ہاتھ میں لیئے بیٹھی تھیں۔ ابو بھی کافی سنجیدہ سی شکل بنا کر خبریں سن رہے تھے۔
سب کے کام بند سب کے کام رکے ہوئے تھے سو سب لائونج میں بیٹھے ٹی وی پر گزارا کر رہے تھے۔
قطرینہ نے نئی ویڈیو اسٹیٹس پر لگا دی تھئ
گھر میں ہینڈ سینی ٹائزر بنانے کی۔۔ سادہ سی ترکیب۔
60 فیصد ربنگ الکوہل Rubbing alcohal 60%
20 فیصد گھیکوار/کوارگندل aloe vera20%
20 فیصد گلیسیرین glacerine 20%
خوشبو دار تیل اگر خواہش ہو تو
سب کر برابر ملا کر گھول کر بوتل میں رکھ لیں آتے جاتے ہاتھ میں مل لیا کریں۔
گھر میں صرف قطرینہ کی آواز گونج رہی تھی جانے کب ٹی وی کی آواز بند ہوئی وہ جو آرام سے ہینڈ فری کانوں میں لگائے فل والیم میں ویڈیو دیکھ رہا تھا چونکا۔ اسکی ہینڈ فری کہ پن موبائل سے باہر جھول رہی تھی اور قطرینہ کی آواز براہ راست گھر والوں تک پہنچ رہی تھی۔ سب پلک جھپکائے بنا اسے دیکھ رہے تھے۔۔
سب سے پہلے ابو نے گلا کھنکارا۔۔
دانئ ماسک اور گلوز پہن کر جائو اور فارمیسی سے ربننگ الکوہل تو پکڑ لائو۔۔
ثانیہ کاشی اور دانی کی جان میں جان آئی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔