قسط 11
رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ ہے جن دوائیوں کے زیر اثر بے خبر سو رہا تھا۔ اسے کمبل اڑھا کر بتی بجھا کر بس رات کا زیرو کا بلب جلا کر آہستگی سے کمرے سے نکل آئی۔ عروج کی اس وقت ڈیوٹی تھی۔ اور آج تو اپنی ڈیوٹی پر وہ تین گھنٹے پہلے ہی آگئ تھی اسکے بلانے پر۔ اس نے اپر کی جیب سے موبائل نکالا پھر گہری سانس لیکر رہ گئ۔ موبائل ٹوٹ پھوٹ چکا تھا۔ ہے جن کو اس دیو ہیکل آدمی کے ہاتھوں پٹتے دیکھ کر جس طرح دل اچھل کر حلق میں آیا تھا وہیں عزہ کی جانب بڑھتے اس آدمی کو دیکھ کر اسکی روح فنا ہونے لگی تھی سو بلا سوچے سمجھے موبائل ہی اسے اٹھا کر دے مارا ۔ نشانہ ٹھیک بیٹھا سیدھا کنپٹی پر لگا تھا اسکو لہراتے دیکھ کر اسے موقع ملا تھا جو سانڈ کو پیٹ سکی بیگ بھی مارا۔ پھر ان کے بھاگتے ہی ریسکیو کو کال ملانے کیلئے موبائل اٹھایا تو ایک دھچکا اور منتظر تھا اسکا ۔ اسکا موبائل بری طرح سڑک پر رگڑا گیا تھا نا صرف اسکرین پروٹیکٹر کے ساتھ ٹوٹی تھی بلکہ اسکی بیک سائیڈ بھی ننھے منے ٹکڑوں میں بٹ گئ تھی کچھ موبائل سے چپکے رہ۔گئے کچھ شائد سڑک پر پڑے ہونگے۔
اس نے اسکرین انلاک کی تو الف نے اسے نور کی تصویر بھیجی ہوئی تھی ساتھ ہنستے ہوئے پوچھا تھا کہ جاندی لگ رہی ہے نا یہ؟
ہاں۔ اس نے بلا توقف لکھ بھیجا
دونوں ہاتھ اپر کی جیبوں میں ڈال کر وہ عروج سے ملنے وارڈ کی طرف نکل آئی۔ وہ ایک مریض کے سرہانے کھڑی گٹ پٹ لگی ہوئی تھی۔اسکو دیکھ کر اشارے سے اپنے کیبن کی جانب جانے کا کہا وہ سمجھ کر اسکے کیبن کی جانب بڑھ گئ۔ اسکے کیبن کے ساتھ والے کیبن میں بیٹھا وہ لمبا سا لڑکا فون پر لگا تھا اسے دیکھ کر استقبالیہ مسکراہٹ اچھالی۔ وہ نظر انداز کرتی ۔ آرام سے عروج کئ میز پر آبیٹھی اورلیپ ٹاپ کھول کر ایٹ بال پول لگا لی۔
کیسی ہیں آپ واسیہ۔ فون بند کرکے وہ اسکے پاس آکھڑا ہوا۔
وہ متوجہ بھی نہ ہوئی۔ اس نے پیشانی کھجائی جیسے سوچنے لگا ہو پھر چٹکی بجا کر بولا
اوہ نہیں واعسہ۔ وائزہ۔ اٹک اٹک کر وہ قریب قریب درست تلفظ سے بولا
دے۔ وہ اپنے نام پر چونک کر اسے دیکھنے لگی۔
کیسی ہیں آپ بڑے دنوں بعد نظر آئیں بازو ٹھیک ہوگیا آپکا؟
جی۔ وہ حیران سی ہوتئ ہوئی سیدھی ہو بیٹھی۔ اسکا مخالف کافی تیز تھا اسکی شائد باری نہ آتی۔
اب میں ٹھیک ہوں ۔ اسکے انداز سے صاف ظاہر تھا اسے پہچانی ہی نہیں ہے ۔ وہ بے ساختہ محظوظ ہو کر ہنس دیا۔ کینڈا میں اپنے مخصوص سے نقوش اور نرم سے مزاج کے باعث سب اسے اسکے نام کی بجائے اوپا کہتے تھے لڑکیاں خاص کر اس سے بات کرنے کے بہانے ڈھونڈتی تھیں ایک بار کسی سے مخاطب ہو لے تو اگلی ملاقات کیلئے اس سے شہہ پا کر لڑکیاں مکھیوں کی طرح منڈلاتی تھیں اسکے گرد۔ یہاں آکر اس سے بھی ذیادہ اسکی طلب میں اضافہ ہوا تھا مگر اسکی شخصیت کی مقناطیسیت شائد ان دو لڑکیوں پر کوئی اثر نہیں رکھتی تھی شائد یوں کہیں بس اسی قومیت کی لڑکیوں پر بے اثر تھئ۔
عروج سوکھے ہوئے اخروٹوں کا بڑا سا پیکٹ اٹھائے ادھر ہی چلی آئی۔
آپ نے مجھے پہچانا نہیں لگتا ہے ۔۔۔۔میں آپکا ساتھی بنا تھا ایک بار ہم مل کر جمعدار بنے تھے ڈاکٹر روج کی مہربانی سے۔
وہ ہنس کر بول رہا تھا۔۔ عروج خفت زدہ سی اسکی جانب اخروٹ بڑھا کر بولی
ویسے اس دن میں نے کافی حد کر دی تھی مجھے امید ہے آپ لوگ نرمی سے درگزر کر یں گے۔ شستہ انگریزی۔
واعظہ کو اتنا تو یاد آگیا تھا کہ ٹوٹے ہاتھ کے ساتھ اسٹکی نوٹس اٹھا رہی تھئ کوئی اسکی مدد کر رہا تھا ، کسی نے کائونٹر پر اسکا فارم بھرا تھا ، ریڈیالوجی ڈیپارٹمنٹ تک راہنمائی۔ مانا مہینہ ہونے کو آگیا تھا پر اسکو چہرہ بالکل یاد نہیں تھا۔ اور نام۔۔
عروج کرسی گھسیٹ کر بیٹھنے لگی تو اسے بھی اخلاقا دعوت دئ۔
بیٹھیئے۔
سیونگ رو جیسے انتظار میں تھا سہولت سے اسکے سامنے بیٹھ کر واعظہ پر نظریں جما لیں۔
واعظہ نے ہونٹوں پر زبان پھیری ۔ لیپ ٹاپ پر اسکی باری آ چکی تھی
واعظہ سیونگ رو کہہ رہا تھا کہ ہمیں پرائیوٹ کسی سیکیورٹی سسٹم کو گھر پر لگانا چاہیئے۔ جب تک تفتیش چلتی رہے کم از کم تب تک۔ تھوڑا مہنگا پڑے گا مگر ہم آٹھ لوگ ہیں مل بانٹ کر کر لیں گے۔ کیا کہتی ہو۔
عروج کو یاد آیا تو جوش سے انگریزی میں بتانے لگی۔ واعظہ مکمل لیپ ٹاپ کے پیچھے چھپی تھی شائد سیونگ رو کی نظروں سے بھی بچنے کی کوشش تھی۔
اے تم سے کہہ رہی ہوں۔ اس نے لیپ ٹاپ کے آگے ہاتھ لہرایا تو وہ چونک کر پوچھنے لگی
عزہ کو ہوش آیا۔ ؟ وہ ذہنی طور پر کہیں اور تھی نگاہ لیپ ٹاپ پر تھی مگر ذہن میں منظر ۔ جب اس کے مارنے پر اس آدمی کے چہرے سے ماسک اترا ۔۔
آندے۔ عروج بدمزا سی ہو کر پیچھے ہوئی۔ ایک بار اٹھی تھی مجھ سے پانی مانگا میں نے جوس لا کر دیا پی کر پھر سو گئ ہے اب صبح ہی اٹھائوں گی۔
ہمم۔ اس نے ہنکارا بھرا
روج بتا رہی تھئ تم نے اس غنڈے کی پٹائی بھی کی کوئی چوٹ ووٹ تو نہیں آئی
سیونگ رو نے پوچھا تو اس نے مسکرا کر اپنا موبائل سامنے رکھ دیا۔
مجھے تو نہیں۔ اس کو زخم آئے ہیں ۔۔
معزرت اسکا علاج میں نہیں کر سکتا ۔۔ وہ محظوظ ہو کر ہنس دیا۔
ویسے آپ لوگوں کو محتاط رہنا چاہیئے کوریا میں غیر ملکیوں پر ہاتھ ڈالنا آسان کام نہیں ہےلوگ غیر ملکیوں سے پنگا نہی لیتے خاص کر وسطی ایشیائی ممالک کے باشندوں سے۔ یقینا کسی بڑے گینگ کا کام ہے آپ پہلی فرصت میں۔۔۔ وہ ڈرا نہیں رہا تھا محض منطق کی رو سے دیکھ رہا تھا معاملے کو اسکے محتاط جملوں کے استعمال کا اثر تھا کہ کیا واعظہ نے کان پر سے مکھی اڑائی۔ ہنس کر بولی
ہا ہا۔ ارے چھوٹا موٹا گینگ ہی تھا ایک ہائی اسکول کے بچے سے ڈر کر بھاگ گئے عزہ کو چھوڑ کر۔
سیونگ رو بے چین سا ہوا
لیکن مجھے لگتا ہے واعظہ ہمیں کسی سیکیورٹی کمپنی سے رابطہ کرکے جدید نظام نصب کروانا چاہیئے۔ عروج کہے بغیر نہ رہ سکی۔
اب دیکھو گھر کے اندر کوئی گھس کر نور کے بال کاٹ گیا۔ وہ تشویش زدہ انداز میں بولی تو سیونگ رو بھی چونکا۔
کیا واقعی؟
ارے ۔۔ واعظہ سیدھی ہو بیٹھی۔
الف یا عشنا کی شرارت ہوگی یا فاطمہ کا کام ہوگا کسی کو کیا پڑی ہے کہ گھر کا تالہ توڑے مگر گھر سے ایک قیمتی چیز لے جانے کی بجائے بس بالوں کی لٹ کاٹ کر لے جائے کوئی تک ہے بھلا؟
کس کے بال کاٹ دیئے۔ ؟ سیونگ رو کو سمجھ نہ آیا۔
یار وہ ہماری اپارٹمنٹ میٹ ہے اسکے کسی نے صبح صبح آگے سے بال کاٹ دییے ماتھے سے۔ عروج نے بتایا تو اسکی آنکھیں تھوڑی اور کھل سی گئیں
یہ جو یہاں داخل ہے لڑکی وہ بھی آپکی اپارٹمنٹ میٹ ہے اور وہ لڑکا بھی یعنی آپ چار لوگ اکٹھے رہتے ہیں۔؟ کتنا بڑا اپارٹمنٹ لے رکھا ہے؟ اسکی حیرت بجا تھئ
دو کمروں کا ۔۔ واعظہ اور عروج دونوں نگاہ چرا گئیں
دو کمروں میں ہمم چار لوگ ہاں ٹھیک ہے رہ سکتے ہیں ۔۔
چار نہیں آٹھ۔
اس بار دونوں اکٹھے بولیں مگر زیر لب۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تین لوگ ہیں ہم پھر بھی گھر خالی خالی نہیں لگ رہا؟
وہ تینوں ڈبل بیڈ پر لاشوں کی طرح پڑی تھیں۔ نیند جو آبھی رہی تھی وہ گھڑی دیکھ کر سحری میں دوبارہ اٹھنے کے خیال سے بھاگ بھاگ جاتی تھی۔
چار بلکہ پانچ لوگ گھر سے باہر ہیں اسلیئے۔
عشنا کا حساب ۔ نور اور الف اسے دیکھ کر رہ گئیں۔
یار واعظہ نے اسپتال آنے سے منع کر دیا کہیں واقعی عزہ کی حالت خراب تو نہیں اور وہ ہمیں بتا نہ رہی ہو؟ الف کو انوکھا خیال سوجھا اٹھ بیٹھی
بالکل تم اسکی ماں میں اسکی دادی عشنا نانی تینوں ہم کمزور اولاد کا صدمہ دل پر لے کر ہم دل پکڑ لیں گی اسلیئے نہیں بتایا واعظہ نے۔ نور جل کر بولی۔
الف کھسیا سی گئ۔ یہ بھی ہے۔مگر ہم ایک۔نظر دیکھ لیتے تو بہتر نہ رہتا یا واعظہ ہی واپس آجاتی کیوں نہیں آئی وہ واپس وہاں عروج تو ہے۔۔۔ اس نے نئی منطق سوچ ڈالی
نور بھی اٹھ کر آلتی پالتی مار بیٹھی
ہم تینوں چلےجاتے تو گھر پر کون رہتا؟ پولیس والے گھر آکر بیان لیکر گئے ہیں ہم سے عزہ کی پشتوں تک کی معلومات پوچھی ہے کوئی ذاتی دشمنی کوئی پنگا تو نہیں لیا کبھی کسی سے ؟ انٹر نیٹ کا سارا ریکارڈ تک نکلوا نے کا کہہ رہے تھے بلائنڈ ڈیٹ پر گئ کبھئ کیا کچھ نہ پوچھ ڈالا انہوں نے مجھ سے۔ میرے بالوں پر بھی اعتراض جڑ دیا انکو کیا ہوا۔
سخت چڑ آئی مجھ سے کیوں پوچھ رہے آدھے کوریا کی لڑکیاں یہی بالوں کا انداز بنا کر گھومتی ہیں مجھ سے ایسے پوچھ رہی تھی وہ خبطی لڑکی جیسے میں نے کوئی دنیا سے انوکھا کام کیا ہے۔
نور منہ لٹکا کر بولی تو الف کے ذہن میں جھماکا ہوا۔۔
نور نے مانگ نکال کر اس فرینج کو پن ٹھونک کر ایک جانب کر رکھا تھا۔اس نے آگے بڑھ کر اسکی وہی پن نکال دی۔ بال اسکی پیشانی پر آبکھرے تھے۔ اسکے بال ترچھے سے کٹے ہوئے تھے ایک جانب سے زرا سا اونچے تھے ظاہر ہے کاٹنے والے نے فرینج تو نہیں کاٹی ہوگی۔ نور نے ناپسندیدہ نظر ڈالی تووہ آئینہ لے آئی سامنے کیا تو نور کی آنکھوں کے سامنے جھماکا ہوا۔
میں تو کارٹون لگ رہی ہوں۔ وہ رو دی۔۔
فاطمہ کو بلائو اسے فرینج کاٹنی آتی ہے اسکی پرانی تصویریں دیکھی ہیں اس نے فرینج ہی کاٹی ہوئی تھی بلائو اسے ٹھیک کرے۔
نور دہائیاں دے رہی تھی۔ الف اور عشنا نے ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئیں
فاطمہ تو گھر میں نہیں ہے ۔ عشنا نے بتایا تو دونوں حیرت پوچھنے لگیں
کہاں گئ ہے؟ وہ توایک بجے کی گھر سے نکلی ہے آئی نہیں ابھی تک؟ نور کو پریشانی لگ گئ
کہیں فاطمہ کو تو نہیں اٹھا لیا ان لوگوں نے؟ الف کے ذہن کے گھوڑے تیزی سے دوڑےتھے
نہیں۔ عشنا نے غلط فہمی دور کرنئ چاہی
یا خدا کیا خطا ہوئی ہم سے ، اتنےسکون سے رہ رہے تھے ہم بہنوں کی طرح۔ نور کے بین
نہیں بات سنو۔ عشنا نے کہنا چاہا مگر آواز دب گئی الف کا جوش عروج پر تھا۔
یار واقعی کیا غلطی ہوئی ہے ہم سے؟ عزہ اغوا ہوتے ہوتے بچی فاطمہ غائب ، نور کے بال۔۔ الف کڑیاں ملا رہی تھی دونوں لمحہ بھر بھی موقع نہیں دے رہی تھیں کہ عشنا جواب دے سکے
واعظہ کو بتایا ؟ نور مڑ کر فون اٹھانے لگی
اسے تو پتہ بھی نہیں ہوگا فاطمہ بھی غائب ہے۔ الف اف۔۔۔
مجھے پتہ ہے فاطمہ کہاں ہے۔
عشنا چلا کر بولی۔ دونوں ایکدم چپ ہو کر دیکھنے لگیں پھر بیک وقت پوچھا
کہاں ہے فاطمہ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکے فلیٹ کے آگے بڑا سا بیگ رکھے اس پر بیٹھی دیوار سے ٹیک لگائے سوتی لڑکی کون۔۔ وہ سٹپٹا یا تبھی فاطمہ کسمسائی تو اسکو باقائدہ جھٹکا لگا۔ ایک۔نظر اسے دیکھا ایک نگاہ اپنے دائیں جانب ڈالی پھر تھوک نگلتے ہوئے پکارا
فاطمہ۔
اسکی چونک آنکھ کھلی۔۔سامنے سیہون ہکا بکا کھڑا تھااور۔ سیہون کے ساتھ گلابئ لانگ اسکرٹ اور گلابی مفلر میں ملبوس خاتون کو دیکھ کر وہ جھٹ سیدھی ہو ئی پرس اٹھاتی کھڑی ہوگئ
یوبو(جان)۔ آگئے آپ ۔ بہت انتظار کرایا آپ نے۔۔
وہ کورین آگاشی کئ طرح ٹھنک کر بولی۔ سیہون ساکت رہ۔گیا تھا
تھیبا بہترین اداکارہ نکلی یہ تو۔ وہ سوچ کر رہ گیا۔
آگاشی ویو؟ وہ خاتون اچنبھے سے دیکھ رہی تھیں۔
میں انکی بیوی ہوں ۔ فاطمہ۔ آپ سے مل کر خوشی ہوئی۔
اس نے رواں ہنگل میں ہلکا سا کورنش بجا لانے کی طرح جھک کر کہا تھا تو جہاں ان خاتون کی آنکھیں حجم میں دگنی ہوئیں وہیں سیہون کے ہاتھ میں موجود شاپر گرفت ڈھیلی پڑنے سے دھڑ سے زمین پر آرہا۔ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں ۔۔
اور آپ؟ فاطمہ نے بہت اخلاق سے پوچھا۔ جوابا وہ محترمہ اپنی حیرانی پر قابو پاکر مسکرا کر بولیں۔
میں سیہون کی والدہ ہوں۔ کیسی ہو تم؟
اس بار فاطمہ کے ہاتھ سے پرس چھوٹ گیا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انڈے سب ٹوٹ گئے تھے اور شاپر میں موجود ہر چیز میں سے انڈوں کی۔بساندھ آرہی تھئ۔پنیر کا ریپر سب سے ہلکا تھا باقی ٹن اور پراسسیسڈ فوڈ ریمن کے پیکٹ شیونگ کریم نوڈلز سب کے پلاسٹک ریپر انڈوں سے۔نہا لیئے تھے۔
وہ دزدیدہ نظروں سے اسے ہونٹ بھینچے کچن کائونٹر پر شاپر خالی کرتا دیکھ رہی۔تھئ۔ جو جو ٹن دھل سکتا تھا اسے اس نے سنک کے پاس رکھ دیا تھا۔
مجھے صاف کہا تھا تم نے کہ نہیں آئوگی اب اچانک کیسے پینترا بدلا تم نے؟ بندہ بتا ہی دیتا ہے۔
اس نے پیغام ٹائپ کر کے بھیجا۔ فاطمہ کی اپارٹمنٹ کا جائزہ لیتی نگاہیں گول گول گھوم رہی تھیں۔ چھوٹا سا دو کمروں کا اپارٹمنٹ تھا جسکا باورچی خانہ کھلا امریکی طرز کا تھا وہ لائونج میں بیٹھی تھی۔ دونوں کمروں کے دروازے اسی لائونج میں کھلتے تھے ۔ اپارٹمنٹ شاندار تھا اسے پسند آگیا تھا اور وہ ان خاتون کو۔
سامنے صوفے کی سنگل سیٹ پر بیٹھی اسے ایک ٹک دیکھے جا رہی تھیں۔
اسکا فون بجا اس نے پیغام پڑھا۔ پیغام بھیجنے والا سرخ بھبوکا منہ لیئے کچن میں ہر چیز کو فاطمہ سمجھ کر پٹخ رہا تھا
میری مرضی۔ اس نے انگریزئ میں لکھا پھر لگا بارود میں تیلی لگانے کے مترادف ہے تو مٹا کر فون ایک جانب رکھ دیا۔
سیہون کا منہ غبارے جتنا پھول گیا۔
وہ خاتون اچھی طرح فاطمہ کا جائزہ لے چکیں تو مطمئن ہو کر مسکرائیں۔
ہندوستانئ ہو تم؟ ہنگل میں وہ پوچھ رہی تھیں۔ وہ جواب طلب نگاہوں سے سیہون کو دیکھنے لگئ جو اب جان بوجھ کر اسکی جانب دیکھنے سے بھی گریز کرر ہا تھا۔
میں دیکھتے ہی پہچان گئ تھی۔ خاتون کھلکھلا دیں۔
یہ نقوش برصغیر کے ہی ہوتے ہیں مگر رنگ ہندوستانیوں کا بہت صاف نہیں ہوتا مگر تم تو پھر بھی کافی نکھرے رنگ کی مالک ہو۔
وہ انکو گوری نہیں لگ سکی تھئ کیونکہ مقابلہ اپنے چاندنی جیسی رنگت رکھنے والے بیٹے سے تھا جس کا رنگ بلا شبہ دودھ جتنا سفید تھا۔ فاطمہ کی جان مشکل میں پھنسی تھی۔ اس نے جملے رٹے تھے تاکہ کونسلروں کو شک نہ ہو
میں ہنگل نہیں جانتئ۔ اس نے رواں انگریزی میں بتایا۔ خاتون بے طرح خوش ہوگئیں۔
واہ انگریزی جانتی ہو پڑھی لکھی بھی ہو؟
تم کیا کرتی ہو؟ میں نے سنا ہے انڈین لڑکیاں بہت وفادار ہوتی ہیں میرا بیٹا ویسے تو جدیدیت کا حامی ہے مگر اندر سے روایتی کورین مرد ہے۔ اسکو لڑکیاں بھی سادی سی پسند ہیں گھرسنبھالنے والی آگاشی۔ اچھا کھانا کمزوری ہے اسکی۔ اور کمچی تو میرے ہاتھ کی اسے بہت پسند ہے۔ ہم گائوں کے دیہاتی لوگ ہیں روایتوں کو سینے سے لگا کر رکھنے والے۔
فراٹے سے ہنگل بولتی وہ شائد سانس لینے رکی تھیں
تھیبا۔ فاطمہ کے منہ سے نکلا۔ اتنی زبردست ہنگل تو ایک عمر لگا کر بھی وہ شائد ہی سیکھ پائے۔ ۔سیہون نے ہاتھ روک کر ترچھی نگاہ اس پر ڈالی تھی۔وہ خاتون سمجھیں وہ انکی بات سمجھ کر بولی ہے۔اور خوش ہو کر بتانے لگیں
سیہون نے کافی زور سے فریج کا دروازہ بند کیا تھا۔ اس نے چونک کر دیکھا تو وہ کافی بنانے مڑ چکا تھا۔
میرا بیٹا شریف النفس ہے اس نے خود کو بے راہ رو نہیں ہونے دیا۔ یہ تو شراب پی کر بھی اتنا بیبا رہتا ہے۔ کبھی کسی لڑکی کی جانب آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا۔ مجھے بہت ڈر تھا سیول میں کسی ننگی ٹانگوں والی چٹک مٹک لڑکی پر نہ مر مٹے۔
کافی میکر میں کافی بننے کو لگا کر وہ اپنے اندر کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی غرض سے پانی مگ میں نکال کر گھونٹ گھونٹ پینے لگا۔
۔ مگر شکر ہے بھلے ہندوستانی ہوتم مگر حیا والی دقیانوسی ہو۔کپڑے مناسب پہن رکھے ہیں۔ انہوں نے اسکے جینز اور گھٹنوں تک آتے لانگ ٹاپ کو پسندیدگی سے دیکھا۔ بولتے بولتے جانے کیا خیال آیا۔ زرا سا جھک کر رازداری سے پوچھنے لگیں۔
مگر تم گائے کا پیشاب پیتی ہو ؟
آں ۔۔۔ ۔دے۔ ( آں ۔۔ ہاں) اس نے گڑ بڑا کر سر اثبات میں ہلایا۔ سمجھ ومجھ تو آنہیں رہا تھا کیا بول رہی ہیں تائید چاہنے والا انداز دیکھ کر ہاں میں ہاں ملا دی مگر شائد کچھ غلط ہوگیا تھا۔
سیہون کو پانی پیتے اچھو ہوا منہ سے پانی فوارے کی طرح باہر نکلا تھا۔ آنٹی کی آنکھیں متوحش سے انداز میں پھیل گئیں وہ مڑ کر سیہون کو دیکھنے لگیں جو اب فاطمہ کو گھور رہا تھا
یہ ۔ یہ کیا کہہ رہی۔ سیہون اسکو سمجھانا جراثیم ہوتے ہیں اس میں نا پیا کرےاور تم کم ازکم اس سے دور رہنا جب جب یہ پیئے۔ اوف خبردار جو کبھی تم نے اسکے ساتھ بیٹھ کر نوش کیا۔ وہ تحفظات کا شکار ہو گئیں۔
آندے آہموجی۔ ایسی بات نہیں اسے شائد سمجھ نہیں آئی بات۔
یہ تو مسلمان۔
وہ ماں کو تسلی دینے کیلئے انکے پاس ہی چلا آیا۔ انکے صوفے کے ہتھے پر ٹک کر بتانے لگا وہ بات کاٹ گئیں
چلو۔ انکی روایت ہے۔چلو کر لوں گی برداشت میں۔ اسکے گلے میں اسکارف دیکھ کر مجھے تو دھچکا لگا تھا کہ کہیں مسلمان تو نہیں۔۔ آجکل تو یہ بڑی مصیبت ہے ان انتہاپسندوں نے کوریائی نوجوانوں کو گھیرنا شروع کر دیا ہے وہ لڑکی جو ساتھ ساتھ رہتی تھئ عجیب نام والی شکر ہے تم نے اس سے شادی نہیں کر لی۔ سب نے مجھے یہی ڈرا رکھا تھا سیہون مسلمان لڑکی کے ساتھ گھومتا پھرتا ہے دیکھنا شادی کر لے گا مگر میرا بچہ نادان تھوڑی ہے۔ وہ نثار ہونے والے انداز میں اسکو دیکھتی نظروں سے بلائیں اتارنے لگی تھیں
سیہون چپ سا رہ گیا۔ وہ واعظہ اور میری ایک بار چھٹیوں پر گائوں گئے تھے۔ میری اپنے کم کپڑوں اور واعظہ زیادہ کپڑوں کی وجہ سے انکو کھٹکا گئ تھی۔ میری جدیدیت پسند بے باک لگی تھی تو واعظہ مسلمان ہونے کی وجہ سے انکو اس خوف میں مبتلا کر گئ تھئ۔ ابھی بھی شکر ادا کرتی اپنی ہندونی بہو کی جانب متوجہ ہو گئیں جو بے چاری سی شکل بنائے یہ سب سن رہی تھی کیونکہ سمجھ تو آنہیں رہا تھا۔
سیہون اس کا ردعمل سوچ کر چپ تھا۔خاتون بڑے ذوق وشوق سے نیا قصہ سنا نے لگیں۔
یو آن کی شہزادیاں گوریو کے شہزادوں سے بیاہی جاتی تھیں تو انکو عجیب الا بلا کھانے کی عادت تھی اب ایک میز پر بادشاہ سور کا سوپ پی رہا ہوتا تھا توملکہ بلی کھاتی تھی بڑی مشہور کہانی ہے ایک بادشاہ نے بلی پال رکھی تھی ملکہ سے ذیادہ بلی کو چاہتا تھا ملکہ حسد میں مبتلا ہوگئ ایک دن بادشاہ کے سامنے بیٹھ کر اسی بلی کا روسٹ اڑایا۔ پھر۔ تم سمجھ تو رہی ہو نا۔ خاتون نے اسکی عدم دلچسپی بھانپ لی۔ اسکو ترجمہ۔کرکے بتائو کیا کہا میں نے۔ انہوں نے بیٹے کو ٹہوکا دیا۔
سیہون نے گہری سانس لیکر اسے بتایا تو اسے بے ساختہ کراہیت محسوس ہوئی
بلی تو ٹھیک مگر سور؟؟؟ اور ان آنٹی کو کراہیت بلی کھانے پر آرہی ہے؟ وہ یوں دیکھ رہی تھی جیسے ان آنٹی کے سر پر سینگ اگ آئے ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ کرو واقعی۔عروج کو گھن سی آگئ۔
واعظہ کی بھی کم و بیش یہی حالت تھی۔سیونگ رو نے محظوظ سا ہو کر سلسلہ کلام جوڑا۔
اب ہوا کچھ یوں کہ کینڈا میں اسٹریٹ ڈاگ تو آسانی سے ملتے نہیں شیلٹر ہوم سے میرے چینی اپارٹمنٹ میٹ نے ایک پیارا سا کتا لیا گھر لایا خوب کھلایا پلایا۔ رات کو اسکا سوپ بنادیا۔ صبح میں اٹھا تو کیا دیکھتا ہوں گرما گرم سوپ سامنے ہے۔ تبھی ہمارے اپارٹمنٹ کی اطلاعی گھنٹی بجی ۔ میں نے دروازہ کھولا تو شیلٹر ہوم والے انسپیکشن کیلئے موجود تھے کہ ہم نے کتے کا کیا انتظام کر رکھا ہے۔
پھر کیا ہوا۔ عروج نے بے صبری سے پوچھا تو وہ ہنس کر بولا
اسکو کافی پیسہ خرچنا پڑا تھا معاملہ دبانے کیلئے۔ گو کینڈا کے قوانین سخت ہیں مگر راشی لوگ تو ہر جگہ مل جاتے ہیں۔
تم لوگ تو کتے بلیاں نہیں کھاتے ہو؟ واعظہ کو اچنبھا ہوا۔
میری اسکولنگ یہیں کی ہے میں نے کسی کورین کو یہ سب کھاتے نہیں دیکھا۔۔ سیونگ رو نے متاثر ہونے والے انداز میں دیکھا۔
بجا فرمایا۔ ایسا ہی ہے ہم ہر طرح کا جانور کھاتے تو ہیں مگر اب ترقی یافتہ ہونے کے بعد ہم کافی بدل چکے ہیں ۔ویسے تو
کوریا کی تاریخ ہزار سال پر مشتمل ہےاتنا کچھ ہوا ہے یہاں کہ ہمارے بچے تاریخ پڑھتے ہوئے تنگ آجاتے ہیں ہم نے مٹ مٹ کر تباہ ہو ہو کر دوبارہ خود کو تعمیر کیا ہے۔ اپنی زبان کا تشخص بحال کیا ورنہ تو چینیوں نے ہمیں غلام بنا رکھا تھا۔ گوریو انکی ریاست کے مقابلے میں کہیں چھوٹی ریاست ہوتی تھی اس پر قبضہ قائم رکھتے تھے من پسند بادشاہ چنتے اپنی شہزادیوں سے انکی شادئ کروا دیتے تھے۔ ان شہزادیوں نے چینی روایات کا گہرا اثر چھوڑا ہم پر وہ انکی اولادیں ہر قسم کے کتے بلیاں کھا لیتے تھے ہم لوگ جانور کھاتے تو ہیں مگر کم ازکم اب کتے بلیاں محفوظ ہیں ہمارے یہاں۔ ہم انکو نہیں کھاتے۔
تھائینیئے۔ عروج جیسے سکھ کا سانس لیکر بولی۔
مجھے ویسے تاریخ دلچسپ لگتی ہے مجھے اتنی تفصیل سے تو نہیں پڑھنے کو ملی غیرملکی ہونے کی وجہ سے مگر ہاں میں نے جتنا پڑھا شوق سے پڑھا۔
واعظہ نے یونہی کہا تھا سیونگ رو نے بات پکڑ لی۔
پھر تو تمہیں برصغیر کئ بھی تاریخ پتہ ہوگی مجھے بر صغیر کی تاریخ میں بہت دلچسپی ہے مجھے بتائوگی کچھ؟ کیسے اس پورے بر صغیر کو مسلمانوں نے تبدیل کر کے رکھ دیا؟۔ وہ پرشوق انداز میں پوچھ رہا تھا واعظہ گڑ بڑ ا سی گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے بہتر تھا تم آنٹی کو سچ بتا دیتے کہ یہ بس کاغذی شادی ہے۔
وہ منہ کھولے سامنے دیکھ رہی تھی۔ سیہون نے سر پکڑ لیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام۔۔۔۔ جاری ہے۔