Desi Kimchi Episode 17

Desi Kimchi Urdu Novels

قسط 17
تھکے تھکے قدم اٹھاتی وہ اسپتال سے باہر نکلی تھی۔ آج جتنا لمبا دن گزرا تھا اسکا دل کر رہا تھا بس اگلے تین چار دن بس سوئے۔ اس کا بس سے جانے کو دل نہیں کیا۔ مین روڈ تک آکر وہ ٹیکسی کا انتظار کرنے لگی۔ تبھی ایک چمچماتی کالی گاڑی اسکے سامنے آرکی۔۔اس نے حیران ہو کر شیشے میں دیکھنا چاہا تبھئ ڈرائیونگ سیٹ سے سیونگ رو مسکرا تا ہوا اتر کر اسکے پاس چلا آیا۔
آئو میں گھر چھوڑ دوں۔۔
وہ دوستانہ انداز میں مخاطب تھا
شکریہ میں چلی جائوں گی۔ اس نے انکار کرنا چاہا
آجائو روج پلیز۔ اسکا انداز ملتجی سا تھا روج صاف انکار نہ کر سکی۔۔ عروج کے فرنٹ سیٹ پر بیٹھنے کے بعد اس نے دروازہ بند کیا پھر خود گھوم کر ڈرائیونگ سیٹ پر آبیٹھا اعر گاڑی چلادی۔
770 فٹ اونچے نام سان ٹاور کے اوپر کھڑے ہوکر نیچے دیکھو دیکھو تو تھوڑی سینے سے آلگتی ہے عروج نے تین سال کوریا میں سیول میں رہ کر بھی آج جانا تھا۔ نیچے دیکھتے ہوئے وہ خفگی سے سیونگ رو سے بولی
تم نے مجھے ہائی جیک کیا ہے آج ۔۔۔ اس وقت تک میں سو بھی چکی ہوتی۔۔اگر ٹیکسی میں جاتی تو۔
سیونگ رو اسکے انداز پر کھل کر ہنسا ۔۔
ہائی جیک نہیں کڈنیپ کیا ہے۔ وہ بےساختہ درستگئ کر گیا عروج نے تیکھی نگاہ سے دیکھا تو کھسیا گیا۔یقینا عروج کا اشارہ اسے نام سان ٹاور کے اوپر یوں لفٹ کے ذریعے پہنچادینے کی جانب تھا۔
میں جب پہلی بار سیول آیا تھا تو مجھے سب سے پہلے جس مقام کو دیکھنے کا شوق پیدا ہوا وہ یہ نام سن ٹاور تھا۔ جب سب جوڑے دھڑا دھڑ پیار کی نشانی کے طور پر اس گرل میں اپنے اور اپنے محبوب کے نام کے تالے لگا رہے تھے تب میں اکیلا یہاں کھڑا سوچ رہا تھا کتنے بے وقوف لوگ ہیں تالے دلوں پر لگتے ہوتے تو لوگ اپنے اپنے دل سنبھال کر ان پر تالے ڈال لیتے کسی اور پر جزبے ضائع کرنے سے تو بہتر ہے۔ہےنا روج؟
وہ عروج سے تائید چاہنے والے انداز میں پوچھ رہا تھا
لوگ پہلی بار سیول آتے ہیں تو انکو ہنگن دریا دیکھنے کا شوق ہوتا ہے ۔یہاں تو محبت میں مبتلا لوگ ہی آتے ہیں اور جو محبت میں مبتلا لوگ ہوتے ہیں وہ بےبس اور بے چارے ہوتے ہیں انکا دل انکی مرضی سے نہیں چلتا ہے ایسے لوگوں کی عقل پر تالے پڑے ہوتے ہیں۔
عروج کندھے اچکا کر اپنے مخصوص دو ٹوک انداز میں بولی۔
سیونگ رو چپ سا ہو کر سیول کی روشنیاں دیکھنے لگا۔۔ پورا شہر نگاہوں کے سامنے تھا یوں لگ رہا تھا ننھے ننھے قمقمے دیئے جل بجھ کر رہے ہوں۔۔ بے حد خوبصورت منظر مگر یکسر اجنبی ماحول۔ اجنبی شکلیں نامانوس جگہ۔ اس نے گہری سانس لیکر آسمان پر نگاہ کی۔ ۔ آسمان سیاہ مگر چمکدار سا لگ رہا تھا مگر اس پر سجا دن بہ دن باریک ہوتا چاند۔۔ رمضان ختم ہونے کو تھا عید سر پر تھی۔ اسے بے طرح اپنا گھر یاد آنے لگا تھا اسکی عید اس بار بھی اپنوں سے میلوں دور گزرنے والی۔تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
نور کی عید جیل میں گزرے گی ؟۔۔۔
اسٹوڈیو میں کرسی پر بیٹھی کہنئ کرسی کے ہتھے پر جمائے ہاتھ کی مٹھی بنا کر اس پر کنپٹی ٹکائے اپنی باری کا انتظارکرتی وہ یہی سوچتی رہی تھی۔ تفکر کی لکیر پیشانی پر اتنی گہری تھی کہ اپنے اور اسکے لیئے کافی بنا کر لاتا ژیہانگ نوٹ کیئے بنا نہ رہ سکا اسکا کپ سامنے میز پر رکھ کر وہ اپنا کپ لیکر اسکے پاس کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا پروگرام شروع ہونے میں پندرہ منٹ تھے وہ ہیڈ فون مائک چیک کرنے لگا۔ الف کا مراقبہ۔ختم۔نہ ہوا۔ ژیہانگ گا ہے بگا ہے اسکے چہرے پر نظر ڈالتے ہوئے رہ نہ سکا۔پوچھ ہی بیٹھا
کیا ہوا الف؟ کوئی پریشانی ہے؟
آہ۔۔ ہاں۔ وہ بری طرح چونکی۔ میرا مطلب ہے نہیں کوئی پریشانی نہیں بس وہ پروگرام کا ہی سوچ رہی تھی۔ اس نے جلدی سے بات بنائی۔
جب سے ہم نے سیہون کا انٹر ویو لیا ہے ہمارے شو کی ریٹنگ ایکدم بڑھ گئ ہے۔ لوگ بہت دلچسپی لے رہے ہیں ہمارے شو میں۔ سوجو کے ایک برینڈ کی اسپانسر شپ بھی مل گئی ہے۔ پروڈیوسر صاحب کافی مطمئن ہیں ہماری کارکردگی سے۔
ژیہانگ کو یہی لگا کہ شائد پروگرام کی وجہ سے پریشان ہے سو خوش ہو کر اسے بتانے لگا۔
سوجو؟۔ اس نے آنکھیں پھاڑیں
شراب کے بریںڈ کی اسپانسر شپ ۔آخ
اس نے منہ بنایا
وہ۔ہمارے شو کی اسپانسر شپ کر رہے ہیں ہمیں پینے کو نہیں کہہ رہے۔ ژیہانگ اسکے منہ بنانے پر کھل کر ہنسا
الف کھسیا سی گئ۔
ہاں تو۔ ہے تو گندی چیز پتہ نہیں لوگوں کو کیا مزا آتا ہے ہوش کھو کر۔
ہوش کھو دینے میں ہی تو اصل مزا ہوتا ۔ آپ بھول جاتے آپ کہاں ہیں کیوں ہیں کس کے ساتھ ہیں
ژیہانگ نے چٹخارا سا لیا حسب توقع الف بحث کیلئے آستین چڑھا گئ تھئ
ایک تو مجھے یہ سمجھ نہیں آتا ہوش کھونے کا فائدہ ہے کیا؟ اداس ہو پریشان ہو تو شراب پی کر ہوش کھونے سے نا تو پریشانی ختم ہوگئ نا اداسی الٹا اس پریشانی کا حل نکالنے کے بجائے ہوش ہی کھو کر اس پریشانی کو مزید بڑھاوا دے دیتے ہیں اور خوش ہیں تو بجائے ان لمحوں کو جینے کے ان کا لطف اٹھانے کے ہوش کھو کر خوشی کے ان لمحات کو ضائع کر دیتے ہیں ۔ دونوں صورتوں میں پینے پلانے کا صرف نقصان ہے فائدہ کوئی نہیں۔
الف کا جوش میں رنگ سرخ ہوچکا تھا اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کیلئے جملے کے آخر میں سامنے میز پر جوش سے ہاتھ مار بیٹھی۔۔کپ چھلک کرالٹ گیا کافی پوری میز پر پھیلتی چلی گئ۔ ژیہانگ میز کو پائوں مار کر اپنی سیٹ بروقت پیچھے کر کے اپنے کپڑے بچا گیا تھا۔۔ الف البتہ گھبرا کر ٹشو باکس سے دھڑا دھڑ ٹشو کھینچنے لگی۔۔ اس بہتے دریا کو ٹشو باکس کا آدھا ڈبہ ہی روک پایا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا مرغی ابھی تک ڈبے میں بند ہے۔۔ فلیش بیک ختم ہوچلا تھا فاطمہ چیخی۔سیہون کے ہاتھ سے چاپ اسٹکس چھوٹ ہی۔گئیں کینہ۔توز نظروں سے اسے گھورنے لگا
اس طرح چیخنے سے نکل تھوڑی آئے گی۔۔
واعظہ نے اطمینان سے کہا ۔۔
مجھے تم دونوں جب تک ہارٹ اٹیک نہیں کروائوگئ چین نہیں آئے گا تم دونوں کو۔ وہ بھناتا اٹھ گیا۔
چائے پینی ہے تم لوگوں نے۔ وہ چائے کا پانی چولہے پر رکھتا پوچھ رہا تھا۔
بالکل نہیں۔ دونوں اکٹھے جان کے چیخیں پھر اسکے گھورنے پر ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنسنے لگیں۔
ہم چائے کالی پتی اور دودھ والی کو کہتے تم جو یہ جڑی بوٹیاں ابال کر اسے چائے کا نام۔دیتے ہو نا اس سیال کو پینے کا کوئی شوق نہیں ہمیں۔
فاطمہ کئ وضاحت پر اس نے دوبارہ مڑ کر اسے گھورنا چاہا مگر وہ ہنستے ہنستے مںہ پھیر کر کھانے کی جانب متوجہ ہوچکی تھی
تبھی واعظہ کا موبائل بج اٹھا۔۔ اس نے پیغام کھولا ہےجن کا تھا۔ پیغام پڑھ کر اسکے چہرے پر جو پریشانی کی لہر دوڑی اس نے فاطمہ کو بھی کسی انہونی کا احساس دلا دیا تھا
کیا ہوا ؟ کس کا پیغام تھا۔۔ فاطمہ نے پوچھا
ہےجن کا۔۔ واعظہ کا اندازپراسرار سا تھا
کیا ہوا مرغی مر گئ؟ واعظہ نے گھورکر دیکھا اسے تو وہ کھسیا گئی۔
کیا ہوا واعظہ خیریت؟ سیہون بھی انکے پاس چلا آیا۔ واعظہ نے آہستگئ سے کہا
ہے جن کا میسج تھا۔۔۔ نور کو پولیس پکڑ لے گئ۔ ہے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہے جن فاطمہ واعظہ اور سیہون پولیس اسٹیشن میں بیٹھے تھے۔۔انکے سامنے لاک اپ میں نور گھٹنوں میں منہ دیئے بیٹھئ تھی ۔نور کا رو رو کے برا حال تھا۔ اسے فی الحال لاک اپ میں بند کیا ہوا تھا۔
دیکھیئے بجائے اسکے کہ آپ ہماری مدد کرتے کہ ہماری اپارٹمنٹ میٹ کو اغوا کرنے کی کوشش کی گئ اسے کوئی حفاظتی گھڑی دیتے اس لڑکی کو جسکا اس معاملے سے دور کا بھی تعلق نہیں پکڑ کر لاک اپ میں بند کر دیا یہ کہاں کا انصاف ہے؟۔
فاطمہ جوش سے میز پر ہاتھ مار کر بولی تھی۔ ڈیوٹی پر موجود افسر نے ان چاروں کو باری باری دیکھا پھر سر کھجانے لگا۔ ایک کو اٹھا کر لانے پر چار لوگ ہلہ بول چکے تھے پولیس اسٹیشن پر۔غیر ملکی شکلیں فراٹے سے انگریزی بولتی لڑکیاں باقی بھی جو لوگ شکایتیں لیکر آئے تھے دلچسپئ سے اپنے معاملات سلجھانے کی بجائے اس کائونٹر کی جانب متوجہ تھے۔
سیہون نے ذمہ دار شہری کا ثبوت دیتے جھٹ فاطمہ کی کہی باتیں ہنگل میں دہرائیں۔
یہ کون ہیں آپکی۔ ؟ افسر نے کان کھجایا۔۔
میری ۔۔۔ بیوی ہے۔ سیہون کے منہ میں لفظ اٹک اٹک گئے۔
کیا؟ ہم تو اسکو غیر شادی شدہ سمجھ رہے ہیں۔ آپ اپنی شناخت کروائیے ثبوت دیجئے ذرا۔ افسر اچھل پڑا۔ واعظہ سیہون اور ہے جن نہ سمجھنے والے انداز میں دیکھنے لگے اسے۔ فاطمہ ان تینوں کو دیکھ رہی تھی۔
سیہون نے اپنا شناختی کارڈ دکھایا ۔۔ اس نے جھٹ تفصیلات لیپ ٹاپ میں ڈال کر تصدیق کی
ہائش۔ آپکی بیوی کا نام تو فاطمہ ہے۔اور تصویر ۔۔۔ اس نے اب فاطمہ کو غور سے دیکھا۔
ہاں تو یہی تو بتایا۔ سیہون بگڑا۔
میں سمجھا نور کی بات کر رہے ہیں۔ بہر حال ہم تفتیشی مرحلہ مکمل کر رہے ہیں۔ ہمیں انکا بیان چاہیئے۔۔ اس وقت انکو ہم نہیں چھوڑ سکتے میرا مشورہ ہے آپ لوگ گھر جائیے۔آرام کیجئے۔ ہم صبح انکو کورٹ میں پیش کر کے ریمانڈ لیں گے۔
دیکھیں میں کہہ رہی ہوں نا اس لڑکی کا اس گروہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آپکو ہمیں حفاظت فراہم کرنی چاہیئے الٹا آپ لوگ میرے ہی لوگوں کو اٹھا لایے ہیں۔
واعظہ ہنگل میں بگڑی
آپکی سہیلی کا کیس ہمارے علاقے میں درج نہیں ہوا۔ وہاں سے ہمیں بھیجا گیا۔ ہم پہلے ہی گروہ کے سرغنہ کو۔پکڑ چکے ہیں باقی ارکان کی گرفتاری کے لیئے چھاپے مارے جا رہے ہیں جلد پکڑ بھی لیں گے۔ جو لوگ خود پولیس سے چھپتے پھر رہے ہیں مفرور ہیں ان سے آپکی سہیلی یا آپکو کیا خطرہ ہو سکتا ہے۔ ؟ اسی لیئے ہم نے الگ سے کوئی حفاظتی اقدامات کی۔ضرورت محسوس نہیں کی۔ ہماری اب تک کی تحقیق کے مطابق انکا اصل شکار یہ لڑکی نور تھی۔ آپکے گھر میں چوری چپکے آکر اسی لڑکی کے بال کاٹےگئے دھمکانے کیلئے ۔یہ بات گروہ کا سرغنہ قبول چکا ہے اب وہ یہ کہہ رہا کہ یہ انکی ساتھی ہے معمولی جھگڑے کی وجہ سے انہوں نے سبق سکھانے کا فیصلہ کیا۔ اب اگر یہ بات سچ ہے تو ہمارے لیئے اس لڑکی کو حراست میں لینا ضروری ہے۔۔
افسر نے تفصیل سے اسی لیئے بتایا تاکہ مزید سوال کی۔گنجائش نہ رہے۔۔مگر ہے جن جھٹ بولا
مگر نونا اس گروہ کی رکن نہیں ہیں انکا کسی بھی قسم کی غیر قانونی سرگرمی سے کوئی واسطہ نہیں۔
آپ کیسے کہہ سکتے یہ؟ کون ہیں یہ آپکی۔
افسر اب چڑنے لگا تھا اسکے سیدھے سوال پر وہ گڑبڑا کر واعظہ کو دیکھنے لگا
دیکھیں وہ میری بہن جیسی دوست ہے میں اسکی ضمانت لیتی ہوں وہ ایسی لڑکی نہیں ہے۔ واعظہ نے گہری سانس لیکر خود کو پرسکون کرکے افسر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔
آپکی دوست ہے۔ افسر نے پرسوچ نظروں سے دیکھا۔
اسکے والدین کا نام گھر کا پتہ ان سے رابطے کا نمبر اس میں سے کچھ بھی تفصیل آپکو معلوم ہو بتایئے۔ ہمیں صبح اس کیس کی سمری پاکستان ایمبیسی کو بھیجنی ہے تاکہ۔یہ تفصیلات ہمیں معلوم ہو سکیں اچھا ہے آپ میرا کام آسان کر دیں ورنہ دو ایک دن تو انہیں بھی لگیں گے یہ تفصیلات ہمیں دینے میں۔ اس نے میز پر سے رائیٹنگ پیڈ اور پین اٹھا کر اسکے سامنے رکھا۔
فاطمہ اور واعظہ ایک دوسرے کو بے بسی سے دیکھنے لگیں۔
دیکھیں وہ ہماری ہم وطن ہے ہماری دوست ہے سال بھر سے ہمارے ساتھ رہ رہی ہے۔۔
فاطمہ نے کہنا چاہا تو اس نے سیدھا بات کاٹ دی۔
تو آپ نہیں جانتئ ہیں یہ تفصیلات۔ وہ دوٹوک پوچھ رہا تھا۔ واعظہ نے سر تھام لیا۔
ایسی لڑکی جسکی یہ بنیادی معلومات تک آپکو معلوم نہیں ہیں اسکی آپ ضمانت لینے کو تیار ہیں صرف ہم وطن ہونے کے ناطے۔ کیوں پاکستان میں سب فرشتے رہتے ہیں وہاں کوئی جرم نہیں ہوتا کبھی سب کی آپ ضمانت لیتی ہیں کہ وہ جرم نہیں کر سکتے۔
پورے پاکستان کو میں نے اپنے اپارٹمنٹ میں ٹھہرا بھی نہیں رکھا۔ واعظہ سلگ کر بولی۔ سیہون اسکی کرسی کے ہتھے پر ہلکے سے تھپکی دے کر اسے متحمل ہونے کا اشارہ۔کیا
دیکھیئے۔ آپ۔یہ کیوں سمجھنے کو تیار نہیں ہیں اگر آپکی سہیلی بالکل معصوم ہے تو بھی اسکو ایک بہت بڑے گروہ کا سرغنہ اپنے ساتھ اس کیس میں پھنسانا چاہ رہا ہے تو اسکا کیا مطلب بنتا ہم اسکو شامل تفتیش نہ کریں گھر جانے دیں تو ان سے کسی رحم دلی کی امید کیسے کر سکتی ہیں آپ کل کو وہ اسے اغوا کرلیں سب الزامات سب ثبوت اسکے خلاف جائیں گے اسکا بیان ہمیں نہیں ملے گا تو یہ ہمارے شک کے دائرے میں رہ گی ہم اسکو ملزم تصور کرکے اسکی تلاش میں لگ جائیں اور اصل۔مجرموں کو وقت مل جائے اس پر سب الزام ڈال کر اپنی گردن بچا لینے کا۔ یوں سمجھیئے اگر یہ مجرم نہیں ہے تو اسکی جان کو خطرہ ہے یہاں لاک اپ میں وہ محفوظ ہے سمجھیئے میری بات۔
اسکے جملے اسکے زچ ہو جانے کے باوجود متحملانہ تھے۔ یہ بات تو انہوں نے سوچی بھی نہیں۔ وہ تو بس یہ سوچ کے پریشان تھے کہ انکی سہیلی اس وقت جیل میں بند ہے۔
ہم چلتے ہیں۔ سیہون انہیں اٹھنے کا اشارہ کرتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔
میں دو منٹ اس سے بات کر سکتی ہوں۔ واعظہ کے کہنے پر افسر یوں کرسی پر ہاتھ مار گیا جیسے کہہ رہا ہو کس دیوار میں سر ماروں میں۔
ان چاروں کو اٹھ کر جاتے دیکھ کر وہ تڑپ کر لاک اپ کی سلاخوں سے آ لپٹی تھی۔
واعظہ پلیز مجھے چھوڑ کر مت جائو۔ فاطمہ۔ پلیز ۔
بات سنو دیکھو واعظہ۔ ہے جن ۔۔ میں نے کچھ نہیں کیا۔۔پلیز میری بات سنو۔۔ وہ انکو اسٹیشن سے نکلتے دیکھ کر سلاخوں سے سر ٹکا کر پھوٹ پھوٹ کر رودی
وہ چاروں مڑ کر دیکھنے کی ہمت نہ کرسکے تھے۔ اسٹیشن سے باہر نکل کر سڑک پر آکر وہ سب آگے کیا کریں اسی سوچ میں الجھے تھے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے نہیں پتہ تھا آج شو میں کیا کہا کیا کیا۔ شو ختم ہوتے ہی وہ کندھے پر بیگ لٹکاتی گھر جانے کیلئے اٹھ کھڑی ہوئی۔
کہاں جا رہی ہو بیٹھو۔ پروڈیوسر صاحب ہمیشہ کی۔طرح غیر ضروری طور پر خوش اور پرجوش سے اسٹوڈیو میں داخل ہوئے اسے دیکھ کر ڈپٹنے والے انداز میں بولے۔۔وہ ہونٹ بھینچ کر دھپ سےکرسی پر بیٹھ گئ
اس ہفتے کی رات کو کے بی ایس نیٹ ورک کی سالگرہ منائی جا رہی تو کنسرٹ کیزین نائٹ گالہ منایا جارہا ہے رات گئے تک ہم پارٹی کریں گے تم دونوں کیلئے اسکا اپیشل انویٹیشن بنوایا ہے سو کوئی بہانہ مت کرنا ضرور جانا۔
انہوں نے لہراتے ہوئے انکو انویٹیشن کارڈ تھمائے اس نے بے دلی سے کھول کر دیکھا ژیہانگ نے عبارت پر نگاہ دوڑائی
ہر چینل اپنے سب سے ذیادہ ریٹنگ اٹھانے والے شو کے لوگوں کو ہی بھیجتا ہے میں تو کبھی نہ تم دونوں کو بھیجتا مگر سیہون کے انٹرویو کے بعد پچھلے کچھ عرصے سے تم لوگوں کا شو اس چینل کی سب سے ہائی ریٹنگ لے رہا اخباروں میں بھی اس شو کی خوب خبریں لگ رہی ہیں تو۔۔ مجبوری۔
انکی بولتے بولتے آواز مدہم ہوتی گئ تھی ژیہانگ انکے انداز پر کھل۔کر مسکرایا۔ الف بے نیاز تھی اس نے کبھی انکی باتوں کو سنجیدہ لیا ہی نہیں تھا سنجیدہ لینے کیلئے ضروری تھا سنی بھی جائے انکی۔ اس پر رعب ڈالنے کیلئے جب وہ سخت کوریائی لہجے میں ٹوٹی پھوٹی انگریزی مارتے تھے تو عموما اسکی ہنسی نکل جاتی تھی جسکا وہ خاصا برا مناتے اس وقت بھی قصدا انکی باتوں سے دھیان ہٹاکروہ کارڈ پڑھ رہی تھئ کارڈ پر سب ہنگل میں درج تھا بس اسے ہوٹل کا نام ہی سمجھ آیا جو خاص انگریزی میں درج تھا پڑھ کر اسکی آنکھیں پھیل گئیں
گرینڈ رائل پیلس ہوٹل۔ کوریا کا فائیو اسٹار مشہور ہوٹل جسکو سب سیول باسیوں نے بھی نہیں دیکھ رکھا ہوگا۔
تم دونوں خوب تیار ہو کر آنا غیر ملکی اسپانسرز بھی ہونگے کوشش کرناتم لوگ کسی کو متاثر کر ہی ڈالو باقی میں وہاں لوگوں کو گھیرنے کی الگ کوشش کروں گا آخر اتنی اچھی انگریزی بول۔لیتا ہوں میں۔ تم دونوں کو بھی لے جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کہ انگریزی اچھی بول لوگے۔
انہوں نے کہتے ہوئے ایک ترچھی نگاہ الف پر ڈالی جو کارڈ سے منہ چھپا کر ہنسی روک رہی تھی۔
جی بالکل آپ فکر ہی نہ کریں ہم دونوں بھرپور محنت کریں گے۔ فائٹنگ۔۔
ژیہانگ نے مٹھی بھینچ کرمکا بناتے مخصوص کوریائی انداز سے فائٹنگ کہا تو وہ مطمئن ہوگئے۔۔۔
تمہیں ایکسو پسند ہے یا صرف سیہون۔۔
انکے اسٹوڈیو سے جاتے ہی ژیہانگ پورا اسکی جانب مڑ کر کرسی کے ہتھے سے کہنی ٹکا کر مٹھی گال پر رکھے پوچھ دلچسپی سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھ رہا تھا
الف پورا گھوم گئ تھی اسکی جانب۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عروج کا موڈ تازہ ہوا کھا کے بہتر ہو گیا تھا۔کہتے ہیں ٹھنڈی ہوا کھانے سے بھوک لگتی ہے۔ سیونگ رو کو بھی شائد بھوک لگ گئ تھئ مگر اسکی حیرت کی انتہا نا رہی جب وہ اسے ایک پاکستانی ریستوران لے آیا تھا۔
بریانی اور چکن کڑاہی نان کے ساتھ جب اس نے منگوا کر عروج کو دیکھا تو وہ آنکھیں پھاڑے دیکھ رہی تھی اسے ہنسی آگئ
ایسے کیا دیکھ رہی ہو ؟ میرے کینڈا میں بہت سے پاکستانی اور انڈین دوست تھے ہم بہت شوق سے اکثر مل کر بریانی کھاتے تھے چکن کڑاہی میری پسندیدہ ترین رہی ہے ہمیشہ سے تمہیں کیا پسند ہے ذیادہ
ہمیشہ بریانی۔ اسکا جواب دوٹوک تھا۔ بریانی کے آگے کسی دیسی کو۔کچھ اور پسند نہیں آسکتا۔۔لیکن بریانی جو میری امی بناتی ہیں اسکا کوئی ثانی نہیں ویسا ذائقہ دنیا میں کہیں نہیں ۔
اس نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔ سیونگ رونگ سر ہلانے لگا
ماں کے ہاتھ کے بنے کھانے کی کیا ہی بات ہے۔ میری آہموجی بھی بہت اچھا کھانا بناتی ہیں کسی دن کھلائوں گا انکے ہاتھ کا فرائی چکن نوڈولز مجھے انکے ہاتھ کا سب سے ذیادہ یہی پسند ہے۔
مگر چکن حلال لینا ورنہ میں نہیں کھائوں گی۔
عروج نے فورا تنبیہہ کی۔ سیونگ رو کی مسکراہٹ لمحہ بھر کو پھیکی پڑی پھر سنبھل کر زور و شور سے سر ہلانے لگا
ضرور۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عروج لفٹ میں داخل۔ہوئی تو سامنے سے الف تھکے تھکے قدم اٹھاتی نظر آئی۔ لفٹ کے بند ہوتے دروازے کو اس نے فورا بٹن دبا کر روکا۔
تم اب آئی ہو گھر۔ الف نے لفٹ میں داخل ہوتے ہی پہلا سوال کیا
ہاں ۔۔ وہ۔مختصرا کہہ کر لفٹ بند کرنے لگی تھی کہ سامنے سے ہے جن اور واعظہ آتے دکھائی دیئے اس نے گہری سانس لیکر لفٹ کے بند ہوتے دروازے کو دوبارہ بٹن دبا کر روکا۔
تمہیں پتہ چلا نور کو پولیس پکڑ کر لے گئ۔ الف اسکی جانب رخ کیئے کھڑی تھی سو اسکی نگاہ ان دونوں پر نہ پڑی
کیا۔۔ کیوں۔ وہ چلا ہی تو اٹھئ۔
وہ سمجھ رہے ہیں نور اس گروہ کی رکن ہے جس نے عزہ کو اغوا کرنے کی کوشش کی تھی۔ ہے جن اور واعظہ اسی کو چھڑانے گئے ہوئے ہیں
اس نے اضافہ کیا
پر یہ تو نور کے بغیر ہی آگئے ہیں۔ عروج انکو لفٹ میں داخل ہوتے دیکھ کر بولی دونوں کے چہرے تھکن سے اترے ہوئے تھے الف بھی گھوم گئ انکی جانب
کیا ہوا نور کو نہیں لائے؟ الف بے تابی سے بولی
تم نے ان لوگوں کو بتایا نہیں کہ نور کو عزہ کو اغوا کرنے کی کیا ضرورت ہے وہ تو رہتئ ہی ایک جگہ ہیں۔ عروج کو غصہ آیا۔۔
نور کو پولیس نے حراست میں لے لیا ہے صبح اسکا ریمانڈ بھی لے لیں گے۔ وہ بہت برا پھنسی ہے۔۔
واعظہ نے ہونٹ کاٹ کر کہا۔
یاخدا کیوں چانک مصیبت آن پڑی ہے ہم پر ۔ عروج اپنی پیشانی سہلائی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صدقے کی مرغی گھر میں رکھے ہو اوپر سے اسکی حالت دیکھو کل سے دانہ پانی بھی نہیں دیا اسے اسکو بھی روزہ رکھوادیا بےزبان معصوم جانور اسی وجہ سے نئی مصیبت آئی ہے۔۔ طوبی نے تاسف سے کارٹن میں مرگھلی سی ہوئی مرغی کو دیکھا جو طوبی کو شائد پہچان کر کٹاک کر کے رہ گئ تھئ۔۔
بتائو لڑکی ذات پولیس اسٹیشن کا منہ دیکھے گئ۔ کیا گزرے گی ماں باپ پر ۔
وہ بڑ بڑائے جا رہی تھی
ماں باپ کو کیا پتہ کہ انکی بیٹی کوریا میں کہاں ہے۔ عزہ نے تسلی دینی چاہی طوبی گھورنے لگی
یہی تم لوگوں کی لاپر وائیاں مصیبتوں کو دعوت دیتی ہیں ۔ کل پھوکا ہوا پانی پیا کم گرایا ذیادہ اب یہ صدقے کی مرغی جو بلا ٹالتی اسکو رات گھر میں رکھ کرمصیبت کو دعوت دے ڈالی ۔۔
پر اگر صدقے کی مرغی گھر میں رکھ کر بیمار کرنے کی وجہ سے مصیبت آئی ہے تو عزہ پر آنا چاہیئے تھی صدقہ تو اسکا دیا تھا نور پر کیوں آئی۔ عشنا دور کی کوڑی لائے بنا رہ سکتی تھئ۔۔
ہاں اور کوئی نئئ مصیبت کو پتہ دو میرا اغوا ہوتے ہوتے تک تو بچی ہوں اب کیا قاتل میرے پیچھے لگوانا ہے؟ عزہ بری طرح چڑ گئ۔
اس مرغی کا وقت کم رہ گیا ہے زبح کرنا پڑے گا ورنہ ضائع جائے گی۔
طوبئ مرغئ کو ہاتھ میں لیکر تول رہی تھی۔
آپ کرلیں گی ذبح۔۔
عزہ کو یقین نہیں آرہا تھا ۔ طوبی کی صلاحیتیوں پر شک۔۔ وہ برا مان گئ۔
کیوں نہیں ۔کونسا توپ کام ہے ؟ ابھی لو لائو ذرا تیز سی چھری ابھی بسم اللہ اللہ اکبر کرتی ہوں میں اسکا۔
دلاور بھائئ کو بلا لیں آپی۔
عشنا منمنائی
اب کیا سر پر مارنا ہے انکے؟ طوبی نے تیکھی نگاہ ڈالی
سختی سے منع کیا ہے میں نے اب یہاں کا رخ نہ کریں بھلا بتائو ایک بے چارے میرے معصوم سے میاں ۔۔ بغل میں مرغی دابے اسکا رخ کچن کائونٹر کی جانب تھا
ایک ہی ہوتے ہیں میاں تو۔ عزہ نے عشنا کے کان میں سرگوشی کی اس نے اثبات میں سر ہلا کر تصدیق کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لفٹ سے تھکے تھکے سے وہ چاروں نکلے جب بے ہنگم چیخ و پکار کی آواز آئی۔۔۔ عزہ نونا۔ ہے جن نے آواز پہچان لی۔ انکے گھر کے سامنے والے گھر سے دلاور سراسیمہ سے نکلے۔
کیا ہوا ؟ وہ پانچوں ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے پھر جواب کا انتظار کیئے بنا گھر کی جانب بھاگے۔ فلیٹ کا دروازہ واعظہ نے کھولا تو اسکا استقبال خون کے دریا نے کیا تھا۔ دہلیز پر خون کا سیلاب سا آیا تھا تو دیواریں تک خون کے چھینٹوں سے رنگی گئ تھیں ۔ ان چاروں کے دل اچھل کر حلق میں آگئے تھے۔قدموں میں جان نہ رہی دلاور ہمت کرکے آگے بڑھے کہیں سے کوئی چیز اڑتی ہوئی آکر انکے سینے سے ٹکرائئ۔انکی ساری بہادری ہوا ہوئی گھبرا کر جو اس چیز سے چیختے ہوئے دور ہونا چاہا تو خون کے تالاب میں پیر پھسلا وہ سر کے بل زمین پر لام لیٹ ہوتے گئے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد۔ جاری ہے۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *