Desi Kimchi Episode 21

Desi Kimchi Urdu Novels

قسط 21
تم کھانا کیوں نہیں کھا رہیں بھوک نہیں لگی کیا۔
اسکو کھانا ایک جانب کھسکا کر خاموشی سے دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے دیکھ کر اس عورت نے بڑی حیرت سے پوچھا تھا۔ خود وہ سوپ کا پیالہ ڈکار چکی تھی اب مزید سوپ کا مطالبہ کیا تھا جسے سن کر حوالدارنی نے برا سا منہ بنایا مگر مزید لینے چل دئ۔ اسکے چاول بھی ختم ہونے کو تھے اسکی رفتار دیکھ کر لگتا تھا حوالدارنی کو الٹے پیر واپس جانا پڑے گا اسکے لیئے چاول لانے۔
اپنے ہی کسی دھیان میں چونک کر نور نے اسے دیکھا۔۔ جانے وہ اتنی آنکھیں پھاڑ کر اسے کیا کہہ رہی تھی۔
دے؟۔ اسے بس اتنی ہی۔ہنگل آ پائی تھی ۔سو اسی کا استعمال کیا۔
کھانا باپ۔ اس عورت نے اب ہاتھ سے اشارہ بھی کیا۔
دوپہر کے ایک بج رہے تھے اس نے بنا سحری روزہ رکھا تیمم کرکے نماز بھی پڑھ ڈالی ۔ صبح آٹھ بجے کے قریب ناشتہ آیا تھا۔ اسکا ناشتہ جوں کا توں پڑا رہا ۔ اسکی جیل کی ساتھئ عورت اس سے قصدا بے نیازی برتتے ہوئے ڈٹ کر ناشتہ کرتی رہی تھی۔ صبح اس نے حوالدارنی سے صاف چادر منگوا کر ایک کونے میں بچھا کر قضا فجر پڑھی پھر نفل پڑھتی رہی یہاں تک۔کے تھک کے چور ہوگئ۔ سو چادر سمیٹ کر بنچ پر آبیٹھی۔ جیل کی مخصوص وردی کے اوپر وہ اپنا دوپٹہ ابھی بھی نماز کے انداز میں ہی لپیٹے تھی۔
بے دھیانئ میں دوپٹہ سر سے اتارا تو ماتھے پر جاندی کی طرح بال بکھرتے چلے گئے۔ دوپٹہ ہٹایا تو احساس ہوا پسینے میں بھیگی ہوئی ہے
اسکو متوجہ کرنے کی نیت سے اس عورت نے دوبارہ سوال دہرایا اس بار اشارے اور زبان دونوں سے اکٹھے کام۔لیا
کھانا تو کھا لو بھوکے رہنے سے سزا کم نہیں ہوجائے گئ۔کھالو تھوڑا
کھا لو۔
اس نے دھیرے سے نفی میں سر ہلا دیا۔ آنسو پھر گالوں پر پھیلتے چلے گئے۔ اس عورت نے ہمدردی سے اسے دیکھا۔
صبح سسے اسکی بے چینی دیکھ رہی۔تھی۔جانے کیا۔تکلیف تھی اسے۔پہلے تو سوچا کھانا کھاتی رہے ۔
پھر جانے کیا سوچ کر پلیٹ ایک طرف رکھتی اسکے پاس برابر آبیٹھئ۔ اسکی تھالی جس میں چاول تھوڑی سی کمچی اور جانے کیا ملغوبہ رکھا تھا اٹھا کر اسکے سامنے رکھا بڑے پیار سے چاپ اسٹکس کا نوالہ بنایا تھوڑی سی کمچی سجائی اسکے منہ کی جانب بڑھا کر بولی ۔۔ آ۔۔ یہ اشارہ تھاکہ منہ کھولو جیسے ہم بچوں کو بہلانے کو کہتے۔
ہونٹوں سے پپی کی آواز نکال کر وہ باقائدہ چمکار رہی تھی نور کی اپنی ماں کی طرح ۔ وہ دیکھ اس عورت کو رہی تھی مگر نظر آرہی تھی اسے اسکی اپنی ماں۔
نخرے مت کرو دیکھو کتنے مزے کی کھچڑی بنائی ہیں کل بنادوں گئ بریانی ۔ چکھ کر تو دیکھو کچھ دن پرہیز کرلو گلا ٹھیک ہوجائے میری بیٹی کو میں اپنے ہاتھوں سے بریانی کھلائوں گئ۔ امی تھوڑا لاڈ سے تھوڑا سا غصہ جتاتے اسے کھانا کھلانے کی سعی کر رہی تھیں۔ اسے بخار گلا بند نزلہ زکام کیا کچھ نہ تھا نتیجتا کھانا پینا بند دوا کھاتے سو نخرے چار دن بعد آج فرمائش کی ماں سے کہ سلائس اور چائے سے تنگ آگئ ہوں تو بریانی بنا دیں اور وہ جھٹ بنا لائیں مگر کھچڑئ سو وہ منہ پھلا کر منہ تک کمبل تان کر لیٹ گئ۔
اٹھو نا نور تنگ نہیں کرو صبح ناشتہ بھی نہیں کیا تھا اب بھی شام ہونے کو آگئ دوا کھائو ٹھیک ہوجائو پھر ہر فرمائش پوری کردوں گی۔ اٹھ جائو میری اچھی بیٹی۔ انہوں نے کمبل ہٹا کر اسکے پھولے پھولے منہ کو دیکھا پھر مسکرا کر بہلانے لگیں۔ وہ بظاہر منہ بناتئ مگر درحقیقت بھوک سے بے حال ہو کر اٹھ بیٹھئ۔
مجھ سے نہیں کھائی جاتی پھیکی سیٹھی کھچڑی۔
اس نے نخرے سے کہا۔
کل بنائوں گئ نا بریانی چلو شاباش منہ میں لو۔ امی خاطر میں نہ لاتے ہوئے چمچ چاولوں سے بھر کر اسکے منہ کی۔جانب لانے لگیں۔
ماں کے چمکارنے لاڈ کرنے کچھ بھوک سے نڈھال ہونے پر سو نخروں سے وہ نوالہ منہ میں لے ہی گئ۔
شاباش بہت پیاری ہے میری بیٹی۔
اگلا نوالہ تیار تھا جملے کی مار مار میں اسے پوری پلیٹ کھلا کر دم لیا۔
جوان بیٹی کو بچوں کی طرح چمکارتی اسکی ماں۔ اسکے دل سے ہوک اٹھی۔ آج چوتھا دن تھا اس قید خانے میں اور امی کو پتہ لگا تو کیا ہوگا گھر والے کیا کریں گے اس خوف سے باہر اسے صرف اور صرف ماں یاد آئی تھی۔ ہر مصیبت ذدہ کی طرح اسکو اس وقت بس ماں یاد آرہی تھی بس ماں کسی طرح اسکے سامنے آجائے۔
اسکے لب وا ہوئے اس سے قبل کہ وہ آہجومہ چاپ اسٹکس سے اسکے منہ میں نوالہ ڈالتی وہ ایکدم جیسے ہوش میں آگئ
آندے۔ وہ اسکا ہاتھ جھٹکتی ایکدم بنچ سے اتر کر کھڑی ہوگئ۔ بے چینی اسکے چہرے سے ہویدا تھی۔
مجھے یہاں نہیں رہنا میں یہاں نہیں رہ سکتی۔ وہ زور زور سے نفی میں سر ہلارہی تھئ۔
ویئو؟۔ وہ آہجومی حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔
نور پر دیوانگئ سئ چھانے لگی سلاخوں کو آکر زور زور سے جھنجھوڑنے لگی۔
مجھے نکالو یہاں سے۔میں نے کوئی جرم نہیں کیا ہے سنو۔
حوالدارنئ سوپ دینے آئی تو یہاں کا منظراسے مزید کوفت میں مبتلا کر گیا۔
سلاخوں کو توڑ دینے کے در پر جنونی سی ہوئی نور مستقل اس سے اپنی زبان میں مخاطب تھی ۔۔
بلائو اس ڈیٹیکٹو کو انسانوں کی پہچان نہیں اسے۔ کیا۔ کیسے لوگ ہو تم لوگ۔ میں ایسی ویسی لڑکی نظر آتی ہوں بھلا۔
اسکی آواز پھٹ رہی تھی اسکے چیخنے چلانے پر دیگر بیرک کی قیدی خواتیں بھی تجسس سے اٹھ کر اسے دیکھنے آگئ تھیں۔
کیا کہا ہے تم نے اسے۔ حوالدارنی نے تنگ سا ہو کر اس آہجومہ سے پوچھا
میں نے کچھ نہیں کہا اسے ۔وہ گڑبڑا کر نور کے بنچ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
یہ اسکی پلیٹ ہے نا دو اسے۔
حوالدارنئ جانے کیا سمجھی ۔
دیکھو میں بے گناہ ہوں۔ میرا یقین کرو۔ ہچکیوں سے روتے وہ سینے پر ہاتھ رکھے اسے یقین دلا دینا چاہتی تھی۔
آس عورت کو سوپ کی پلیٹ تھما کر اس نے نور کو کھانے کی پلیٹ تھما دینی چاہی
نہیں چاہیئے مجھے کھانا سمجھ نہیں آتی بات۔
اس نے غرا کر کھانے کی پلیٹ کو ہاتھ مارا کھانے کی۔بھری پلیٹ حوالدارنئ کے ہاتھ سے چھوٹ کر دور جا گری۔ یہاں سے وہاں تک چاول پھیلتے چلے گئے۔ نہ وہ اسکی بات سمجھ رہی تھیں نا ہی مدد کر سکتی تھیں وہ وہیں بیٹھتی چلی گئ۔
اسکی شکل جاندی سے نہیں مل رہی؟
وہ عورت اسے دیکھتے ہوئے حوالدارنی کے قریب آکر بولی۔
جاندی؟ اس نے حیران ہوکر دیکھا
کو ہے سن وہی بلڈ والی جس نے بلڈ کے ہیرو سے ہی شادی کر لی ہے۔
اس کو اپنے اندازے پر تصدیق کروانی تھی سو جلدی سے تعارف کرایا۔
اوہ کو ہے سن۔ حوالدارنی نے اسے زور زور سے روتے دیکھ کر قائل ہونے والے انداز میں سر ہلایا
حرکتیں بھئ جاندی والی ہی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور نے روزہ رکھا ہوگا۔
آج پھر موسم بھیگا بھیگا سا تھا بادل چھائے ہوئے تھے۔ ٹھنڈی سبک ہوا میں پیدل چلنا بھی اچھا لگ رہا تھا۔ مگر خالی خالی بھی۔ صبح وہ نور الف تینوں اکٹھے نکلا کرتے تھے۔ نور کو صبح کے وقت بہت بولنے کی عادت تھی۔ پٹاخ پٹاخ نجانے کون کون سے قصے انکے جمائیاں لیتے چہروں کو ہنس ہنس کر دیکھتے بتاتی جاتی تھی۔اس وقت اسکی کمی بے طرح محسوس ہوئی تھی۔
الف کے ہمراہ یونیورسٹی سے نکلتے ہوئے عزہ نے بہت دلگیری سے پوچھا تھا۔
پتہ نہیں۔جیل میں سحری کون کراتا ہوگا اسے۔ الف نے تاسف سے کہا۔
جیل کیسی ہوتئ ہے الف ۔ اکیلی بند ہوگئ وہ کیا؟
عزہ نے معصوم سے انداز میں پوچھا تھا مگر الف چلتے چلتے مڑ کر اسے گھورنے لگی
میں تو پیدا ہی جیسے جیل میں ہوئی تھی۔ مجھے کیا پتہ۔
الف کے چڑنے پر وہ کھسیا سی گئ۔
ہمیں ملنے جانا چاہیئے ویسے نور سے۔ اسکی عید لگتا ہے جیل میں گزرے گئ۔
اسے خیال آیا ۔ الف کچھ کہتے کہتے ہونٹ بھینچ گئ
اس نے تصور کی آنکھ سے نور کو بڑے سے اندھیرے کمرے میں سلاخوں کے پیچھےسر جھکائے کھڑا دیکھا۔ وہ اتنی اکیلی تنہا لگ رہی تھئ کہ اس نے تصور میں پکار لیا۔
اس نے جھٹکے سے سر اٹھایا
سرخ آنکھیں سرخ چہرہ ماتھے پر ترتیب سے کٹے ہوئے بال۔
اسکی۔ہنسی چھوٹ گئ۔
الف نے حیران ہو کر اسے دیکھا
کیا ہوا۔
کچھ نہیں وہ میں نے تصور کیا نور کو جیل میں۔ عزہ بمشکل ہنستے ہنستے بولی
اور یہ تصور کرکے ہنسی آگئ تمہیں؟ شرم کرو۔۔ الف نے تاسف سے کہا
نہیں ۔۔ نہیں۔ عزہ نےدونوں ہاتھوں کو زور زور سے ہلا کر غلط فہمی دور کرنی چاہی
وہ اسکے جاندی اسٹائل بالوں پر ہنسی آگئ۔ جیل میں بھی وہ بکھرے بالوں کے ساتھ ہی کھڑی تھئ میرے تصور میں۔
بمشکل ہنسی روکتے اس نے بتایا
ہاں تو چار دن میں بال لمبے تھوڑئ ہو گئے ہوں گے۔
الف نے اپنی زہانت جھاڑنا ضروری سمجھا۔ عزہ گہری سانس لیکر اپنا سر ہلانے لگئ۔ سڑک پر شام سے کچھ پہلے کا وقت ہونے کے باعث رش تھا۔ ذیادہ۔تر تو یونیورسٹی فیلوز ہی تھے جو اپنی اپنی منزل کو رواں تھے۔ اپنے کام سے کام رکھتے مگن جس نے کسی ساتھی دوست کے ساتھ چلنا تھا وہ اسکے ساتھ اونچی اونچی آواز میں بولتا جائے اور ان جیسی اکیلی جانے والیاں الگ اپنا راستہ ناپ رہی تھیں۔ کسی نے نا لڑکیاں دیکھ کر سیٹی ماری نا ہی کوئی جملہ پھینکا
یار ہم کتنے سکون سے جا رہے ہیں اپنے راستے کسی نے چھیڑا تک نہیں۔ کوریا بہت سیف ۔۔۔ میرا مطلب محفوظ ہے لڑکیوں کیلئے۔
عزہ آج نور کی کمی پوری کرنا چاہ رہی۔تھئ اسکی بے تکی بات پر الف ہنس دی پھر جتانے والے انداز میں بولی
اتنا بھی سیف نہیں تم اپنے گھر سے دو گلی دور اغوا ہوتے ہوتے بچی تھیں۔
وہ تو نور نے پنگا لیا تھا اور وہ مجھے نہیں نور کو اغوا کرنے آئے تھے بتایا نہیں تھا واعظہ نے۔ ورنہ گھر میں گھس کر نور کے بال کاٹ گئے تھے۔ میں بھی وہیں تھی مجھے کچھ نہ کہا۔
عزہ زور دے کر بولی۔ الف نے ہنکارہ بھر کر رفتار بڑھا لی۔
بس اسٹاپ آگیا تھا مگر بس نہیں آئی تھی۔ اسٹاپ پر ٹھیک ٹھاک رش تھا۔بنچ فل نہیں تھا طلباء خوش گپیوں میں مگن کھڑے تھے بنچ پر بس تین لوگ بیٹھے تھے چندی آنکھوں والا لڑکا اور ایک لڑکی مگن سے آپس میں گٹ پٹ کرنے میں لگے تھے یقینا ڈیٹ چل رہی تھی۔ بنچ بیچ سے خالی تھا ان سے ہٹ کر کھنچے ہوئے نقوش کی لڑکی بیٹھی آئیسکریم کھا رہی تھی۔وہ اگر ایک طرف ہو کر بیٹھتی تو یقینا عزہ یا الف میں سے کوئی بیٹھ جاتی مگر انہوں نے بھی کھڑے رہنے کو ترجیح دی اور اسکے پاس آکھڑی ہوئیں۔ اپنے دھیان میں انہوں نے محسوس ہی نہ کیا کہ جینز اور ٹاپ پہنے اس چندی آنکھوں والی نے انکو اپنے پاس آتے دیکھ کر ٹانگیں سکیڑ کر ناپسندیدہ سی نگاہ ڈالی تھی۔ بلکہ کون آئیسکریم کھاتے چہرے پر یکا یک کڑواہٹ بھی چھا گئ تھی۔۔اس سے انجان عزہ کی اسٹاپ کے اوپر شیشے کی دیوار دیکھتے ہوئے آنکھیں چمک اٹھیں۔
یاد ہے ہم کیسے احمقوں کی طرح یہاں سے پوسٹر اکھاڑ رہے تھے اور اچانک وہ رچ مین پور وومن والا ہیرو سامنے آگیا تھا۔
عزہ کو بس اسٹاپ پر لگا وہ پرانا پوسٹر جو اب پھٹ کر آدھے سے ذیادہ اتر چکا تھا یاد آیا۔
کتنے احمق تھے ہم۔ الف ہنسی۔
بے چارے جی چھانگ ووک کی ناک پر منہو کا پائوں آرہا۔
وہ دلچسپی سے منہو کا پوسٹر دیکھ رہی تھی۔ سب ہنگل میں لکھا تھا بس کل تاریخ پڑھی جا رہی تھی۔
ہے کیا یہ اگر کوئی اشتہار ہے تو مصنوعات تو ہیں ہی نہیں بس منہو بتیسی دکھا رہا ہے۔ الف کو بھی تجسس ہوا۔
ابھی پوچھ لیتے۔ اپنے لمبے عبایا کو سمیٹتی عزہ اعتماد سے اس لڑکی کا کندھا ہلا کر پوچھنے لگی۔
معاف کیجئے گا بتادیں گی یہ کیا لکھا ہوا ہے؟۔
بچھی سا( پاگل ہوگئ ہو)؟۔لڑکی نے غرا کر اسکا ہاتھ یوں اپنے کندھے سے جھٹکا تھا جیسے ہاتھ نہ ہوا کندھے پر سانپ آدھرا ہو
ہائو ڈئیر ئو ٹچ می۔ فلدھئ بچ۔ ( تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے چھونے کی تم غلیظ کتیا۔ )
شستہ انگریزی میں آگے دو تین مزید گالیاں ٹھونک دی تھیں۔
عزہ ششدر سی رہ گئ اس نے ایسا کیا کردیا تھا جو وہ یوں بھڑک اٹھی تھئ۔
میں نے صرف آپ سے پوچھا یہ کیا لکھا ہے آپ گالیاں کیوں دے رہی ہیں۔ آپ انگریزئ نہیں جانتی ہیں کیا؟
الف نے سنبھل کر اسکی غلط فہمی دور کرنا چاہی۔ مگر وہ جو کوئی بھی تھی بہت اچھی طرح انگریزی جانتی تھی۔
گندے مسلمان آگئے یہاں بھی گندگی پھیلانے۔ یہاں بھی قتل و غارت کرنی تم لوگوں نے۔دفع ہو جائواپنے ملک ۔
وہ لڑکی جو بھی تھی خالص امریکی لہجے میں انگریزی بکے جا رہی تھی۔ چلا کر کہتی اس لڑکی نے ٹھیک ٹھاک تماشا لگا دیا تھا
ویئو؟ کیا ہوا۔
دیگر بس اسٹاپ پر کھڑے لڑکے لڑکیاں بھی متوجہ ہوچکے تھے۔ کوئی اس لڑکی سے پوچھ رہا تھا کوئی خود قیاس آرائی کر رہا تھا۔
یہ چورنیاں ہیں کیا؟۔ کسی نے تنفر سے ہنگل میں پوچھا
آندے دہشت گرد ہیں۔ وہ حلق کے بل چلائی۔
مسلمان دہشت گرد قوم سے ہیں یہ۔
شٹ اپ ہمیں تو جو کہہ دیا مسلمانوں کے خلاف بکواس کی تو منہ توڑ دوں گئ ۔ الف بھڑک کر اسکی۔جانب بڑھی ارادہ منہ پر طمانچہ ہی لگا دینے کا تھا۔ عزہ نے گھبرا کر اسکا بازو تھاما۔ اس لڑکی نے جوابا غصے میں ایک اور گالی بکتے آئسکریم بھی اسکی جانب اچھال دی بروقت الف نے جھکائی دی پھر بھی اسکے گال پر سے ہوتی آئیسکریم کپڑوں کو داغدار کرتئ ہوئی زمین پر جا گری۔
الف غصے سے بپھر کر اسکی جانب بڑھی عزہ نے اسکو بازو سے کھینچا
صبر سے کام لو الف۔ رمضان ہے ہمارا روزہ ہے۔
تم ۔۔۔۔ الف نے گالی منہ میں روکی تھئ۔
صبر کرو الف ہمارا روزہ ہے برداشت سے کرو۔
عزہ کے الفاظ تھے کہ جیسے اس پر کسی نے ٹھنڈا ٹھار پانی گرا دیا ہو۔ روزہ صرف بھوک کا تو نہیں ہوتا روزہ اپنے آپ پر قابو رکھنے غصہ برداشت کرنے اور صبر کرنے کا نام ہے۔
وہ لڑکی اس کو ٹھٹک کر رکنے پر شہہ پا کر مزید اسے چڑانے کو بکتی چلی گئ۔ ایک بار بس سوچا کہ صبر کرنا ہے غصے پر قابو پانے کیلئے نجانے کہاں سے ہمت در آئی۔
بس آگئ تھئ۔ وہ بکتی جھکتی بس میں سوار ہوئی آدھے سے ذیادہ تماشائی بھی چھٹ گئے کچھ ہمدردی کچھ حیرت سے ان دونوں کو خاموشی سے سب سہتا دیکھ رہے تھے۔ ایک لڑکے نے جیب سے رومال نکال کر اسکی۔جانب بڑھایا۔
یہ لو اس سے صاف کرلو۔
وہ دونوں ضبط کی انتہا پر چپ سی کھڑی تھیں۔
میکانیکی انداز میں عزہ نے رومال تھاما تو وہ لڑکا جلدی سے بس میں چڑھ گیا یقینا اسے دیر ہو رہی۔تھی۔
عزہ نے الف کا گال پونچھا ۔ اسکی اپنی آنکھیں بھی اتنی بے عزتی پر بھر آئی تھیں۔
بنچ پر بیٹھے جوڑے نے بھی یہ بس پکڑنی تھی مگر دونوں ہی بس کی جانب بڑھے ہی نہیں۔ لڑکی نے ان کے قریب آکر جھک کر سلام کیا۔
میں معزرت خواہ ہوں ابھی جو بھی ہوا اچھا نہیں ہوا۔
وہ لڑکی دوستانہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے کہہ رہی تھی۔
آگے بڑھ کر اشتہار پر انگلی رکھ کر بتانے لگی۔
آپ اس اشتہار کی بابت جاننا چاہ رہی تھیں۔ یہ لی منہو کی فین میٹنگ کا اشتہار ہے کل ایکوا مال میں منعقد ہوگی ملٹری جانے سے قبل یہ آخری میٹنگ ہوگی اسکی۔ یہ لکھا ہوا ہے۔
وہ دونوں اس وقت کچھ بھی سننے سمجھنے کی حالت میں نہیں تھیں۔ پھر بھی اسکے سرجھکا کے شکریہ ادا کردیا۔
آننیانگ۔ وہ دونوں مسکراتے جھک کر کہتے ہوئے آگے بڑھ گئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اور سیہون پولیس اسٹیشن آئے ہوئے تھے۔ دو درجن جگہوں پر دستخط کروا کر نجانے کیا کیا تفصیلات لیکر انکی جان بخشی ہوئی۔اب وہ اپنے فلیٹ جا سکتی تھی۔ طوبی اور دلاور کو بس ایک مرتبہ پولیس اسٹیشن کی زیارت کرنی تھی ایک ہفتے کے اندر۔ معاملہ نمٹنے پر اس نے خدا کا شکر ادا کیا۔اب اسے یقینا یہ خوشخبری لڑکیوں کو سنانی تھی وہ جان چھٹنے والے انداز میں جانے کو اٹھی تھی تب ہی سیہون اسے دستاویزات کی فائل تھماتا انتظار کرنے کو کہہ کربیت الخلا چلا گیا تھا۔ وہ پولیس اسٹیشن کے ماحول سے جانے کیوں گھبراہٹ سی محسوس کر رہی تھی۔ سو جھٹ باہر نکل آئی۔ فائل کافی بھاری سی تھی اندرخاکی لفافے میں سیہون کے گھر کی اصل دستاویزات اور اس پورے کیس کے ضمانتی کاغذات کی نقل تھی۔ اس نے ایک نظر ڈال کر لفافہ بند کر دیا فائل میں بھی نقول موجود تھیں سب سے اوپر جو کاغذ تھا اس پر لکھے عنوان نے اسے متوجہ کیا اس نے کھول کر پڑھنا شروع کیا
کم جونگ وون کی ضمانتی درخواست تھی جس کے مطابق وہ فلیٹ کی مالکہ کے سب اعمال و نقل و حمل کا ذمہ دار تھا۔اس نے گہری سانس لیکر فائل بند کر دی۔
توبہ اتنے لوگ ایک تو مرد ہونا عذاب ہے کہیں کوئی خلوت (پرائیویسی) نصیب نہیں۔ بارہ لوگوں کی ایک چوہے کے بل جیسی تنگ جگہ میں فراغت کی جگہ بنائی ۔ کوئی حد ہے۔ آننیانگ ایسے کر رہے تھے جیسے پارٹی میں آئے ہیں۔ اوپر سے اتنا گھور گھور کے وہ کمینہ دیکھ رہا مجھے جیسے
سیہون بڑبڑاتا ہوا آیا ۔ وہ چلتے چلتے ذیلی سڑک تک آگئ تھی۔ وہ پھولی سانسوں کے ساتھ بھاگتا آیا اور آتے ہی شروع ہوگیا۔
باس۔ واعظہ نے چڑ کر ٹوکا اسے۔ مجھے مت بتائو۔
وہ فائل سمیت ہاتھ جوڑتی تیز تیز قدم اٹھانے لگی۔ اسے چڑتے دیکھ کر سیہون کو لطف آیا ۔
کیا نہ بتائوں یہ کہ وہ لڑکا مجھے گھور ۔۔ سہون نے شرارت سے کہنا چاہا اسکی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی فائل اسکے سر پر۔بج اٹھی تھئ۔
سی ۔۔ اس نے تڑپ کر سہلایا سر اور گھورنے لگا۔
تم جلتی ہو مجھ سے۔تمہیں لفٹ جو نہیں کراتا ۔ ویسے میری تو چلی گئ اب جگہ خالی ہے۔ اس نے شرارت سے آنکھ ماری۔ واعظہ اسکے اس بکواسی موڈ کو خوب پہچانتی تھی۔ بنا سر پیر ہانکے جانا۔ سو ناک کی سیدھ میں دیکھتی قدم اٹھاتی رہی۔ اسے بے نیاز دیکھ کر وہ پھر چھیڑنے لگا۔
اتنا ہینڈسم ہوں کہ لڑکے بھی مرنے لگتے مجھ پر۔ تم نے کبھی مجھے غور سے دیکھا ہی۔نہیں ہے۔
وہ فرضی کالر جھاڑ رہا تھا۔اسکے کہنے پر وہ واقعی رک کر اسے غور سے دیکھنے لگی تھی۔ سیہون اسکے انداز پر خجل سا ہوگیا
گومو وویو۔ وہ سنجیدگی سے اسے فائل تھماتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ پچھلے چھے سالوں میں میں نے شائد بس ایک یہی ڈھنگ کا کام۔کیا ہے کہ تم جیسا پرخلوص دوست بنایا۔ جونگ وون سے رابطہ کرنے پر تم پر کافی غصہ ہوئی کچھ ذیادہ کہہ بھی گئ اسکے لیئے معزرت۔
اسکے سنجیدہ سے انداز پر سیہون کی مسکراہٹ بھی سمٹ گئ۔
میں خفا نہیں ہوں واعظہ۔ اور یقین کرو میں نے آخری آپشن رکھا تھا کہ جونگیا سے رابطہ کروں۔ اور کوئی چارہ نہ تھا اسکے بابا اسپیشل برانچ میں منتظم نہ ہوتے تو کبھی بھی اس سے رابطہ نہ کرتا۔ انکی وجہ سے ہی یہ خون کی رپورٹ دو دن میں آگئ ورنہ تو۔
کرم۔ ( بہرحال) واعظہ نے دانستہ ہلکا پھلکا انداز اپنایا۔
آج میں ان سب کو گھر لے جائوں گی تم ہماری وجہ سے کافی بے آرام رہے۔
اب یہ تکلفات رہنے ہی دو تم ۔ سیہون کا انداز ڈانٹنے والا ہوچلا تھا۔
اب اگلا ٹاسک کیا ہے تمہارا وہ جو روم میٹ تمہاری جیل میں ہے اسکو چھڑوانا؟ کہو تو اسکے لیئے بھی بات کروں جونگیا سے؟
وہ روانی میں اسکو پھر چھیڑ گیا تھا۔
واعظہ ہونٹ بھینچ کر دوسری جانب دیکھنے لگی۔
اگر وہ گروہ کے دوسرے ارکان نہیں پکڑے جاتے اور وہ کمینہ اپنے بیان پر قائم رہا کہ نور اسکے گروہ کی رکن ہے تو ؟؟؟
وہ اس کو ڈرا نہیں رہا تھا ہاں کچھ باتیں باور کرانا چاہ رہا تھا جن سے اس نے نگاہ چرائی تھئ۔ اور ابھی بھی دانستہ نگاہ چرائے سامنے سڑک کے اس پار گہما گہمی کو دیکھ رہی تھی۔
تو۔ اس نے کندھے اچکائے۔۔
تو یہ کہ پھر مقدمہ درج ہوگا باقائدہ کیس چلے گا پیسہ لگے گا وکیل لینا پڑے گا نئے سرے سے تفتیش ہوگی اور تم جو اسکی نام نہاد سرپرست بنی ہوئی ہو کہاں سے انتظام کروگی۔
سیہون اسکے انداز پر بری طرح چڑ گیا۔ چیخ ہی پڑا۔
یہ پرائے پھڈوں میں ٹانگ اڑانے کا شوق کیا ہے تمہیں؟ تفریح چاہییے زندگی میں؟ بیزارکن ہے؟ اس طرح کچھ لطف اٹھا لیتی ہو دوسروں کے مسلئے سلجھا کے؟ اپنا کوئی مسلئہ نہیں زندگی میں تو چلو دوسروں کے سہی۔
ہاں ایسا ہی ہے ۔ پھر؟ اب نہیں ہے میری زندگی میں کوئی تھرل تواگر میں شامل کر بھی لوں تو تمہیں کیا ؟
جوابا وہ بھی تپ گئ تھی۔
سڑک کنارے وہ دونوں کھڑے چلا چلا کر لڑتے آتے جاتے لوگوں کی توجہ کا باعث بن رہے تھے مگر کسی کے پاس اتنا فالتو وقت نہیں تھا کہ کھڑا ہو کر دیکھے انکی لڑائی کا انجام سوائے سڑک کے دوسری جانب پارک ہوئی اس بڑی سی کالی گاڑی کے جس کے شیشے بھی کالے تھے اور ڈرائیور نے اسکے متوجہ ہونے کا خوف لاحق ہوتے ہی ابھی ابھی اوپر کیئے تھے۔
اتنا شوق ہے نا بیٹیاں پالنے کا تو لیگلی ایڈاپٹ کرلو اس لڑکی کو۔ ورنہ تو کوئی صورت نہیں ۔اسکی مدد کرنے کی۔ تم دو سے تین چکر لگائوگی اس سے ملنے کے ۔۔۔پھرتم بھئ شامل تفتیش ہو جائوگی۔
اسکی بات پر واعظہ کچھ کہتے کہتے ایکدم چپ ہوئی۔ہونٹ بھینچ کر سر جھکا لیا۔ جوتے کی نوک سے زمین کو بے وجہ کریدنےلگی تھئ۔ وہ بھی اسکو دیکھ کر ٹھنڈا پڑا۔
۔ تم اسکے والدین سے کیوں نہیں کہتیں وہ کیوں نہیں آتے یہاں یا کسی سے کہہ سن کر معاملہ سنبھالتے۔
تم نہیں جانتے پاکستانی والدین کو۔ انکو اگر پتہ لگا کہ انکی بیٹی جیل میں ہے تو وہ وہ جیتے جی مر جائیں گے۔ ہمارے دقیانوسی معاشرے میں جیل جانا بہت معیوب بات ہے وہ بھی لڑکی کا۔ اسکا کیس چلے تو شائد کہیں کوئی راہ نکل آئے بچ جائے وہ تعلیم مکمل کرلےلیکن اسکے والدین کو پتہ لگا تو ۔ وہ پہلی فرصت میں نور کی پڑھائی بندکروا دیں گے۔ اسکو ہر قیمت پر واپس لے جائیں گے۔
واعظہ کی بات اس نے بہت غور سے سنی۔
ہمارے یہاں تو بچے پیدا ہی جیل میں ہوتے ہیں۔ سیہون آرام سے بولا۔ واعظہ نے سخت چڑ کر گھورا تو وہ رسان سے کہنے لگا
جیل جانا کسی معاشرے میں رواج نہیں ہوتا سب برا ہی سمجھتے۔ احمق۔
اس نے بات جاری رکھی۔
جتنے بھی سخت گیر ہوں ہے تو انکی بیٹی وہ سب اثاثے لگا کر ہر طریقہ آزما کر اسے بچانا چاہیں گے اور ایسا انہیں ہی کرنا چاہیئے کیونکہ وہ انکی بیٹی ہے انکے سوا کسی اور کا کوئی فرض نہیں بنتا۔دوسری بات۔ تمہیں لگتا کے ڈراموں میں جو سولہ اقساط میں کیس چل کر ختم ہوتا ایسا سادہ او رآسان طریقہ ہے کوریا میں انصاف پانے کا؟ ہزاروں کیسز ہیں جن کی شنوائی کی باری نہیں آتی سالوں۔ اوپر سے یہ اتنا حساس معاملہ ہے یہ بہت لمبا چلے گا۔ تم کب اور کہاں تک اسکا ساتھ دے پائو گئ؟ اور پڑھائی چھٹ جانااور پاکستان چلا جانا
لاکھ درجے بہتر ہوگا اسکے لیئے بہ نسبت یہاں جیل میں سڑنے کے۔
اتنے دنوں میں پہلئ بار تھا کہ واعظہ نے چپ۔ہو کر سنی تھی اسکی بات۔ وہ بھئ مزید اسکی سماعتوں کو زحمت دینے کی بجائے اسے سوچنے کا موقع دینا چاہتا تھا
یہ سب واقعی نہیں سوچا تھا اس نے۔لیکن کوریا کا لڑکا پاکستان کی لڑکی کا مسلئہ کیسے سمجھ سکتا ہے۔
اسے نور کی آنسو بھری آنکھیں اور منت بھرا لہجہ یاد آیا
پلیز میرے گھر والوں کو خبر نہ ہونے دینا اس معاملے کی۔
وہ سرجھٹک کر بولی تو صرف اتنا۔
شکریہ۔
جانے وہ سچ مچ قائل ہوئی تھی یا اس سے جان چھڑانے کو کہہ رہی تھی وہ قصدا دو قدم آگے ہوا۔ فائل سنبھال کر سڑک کنارے دور سے آتی ٹیکسی کو ہاتھ دینے لگا۔ ٹیکسی نے رفتار دھیمی کی تو کن انکھیوں سے اسے دیکھ کر منہ بنا کر بولا۔
اتنی اکڑی گردن کے ساتھ شکریہ بھی ایسے کہتی ہو کہ جیسے سر پر آینٹ اٹھا کر مار رہی ہو۔
وہ ڈرامے باز اب حقیقتا اپنی کنپٹی سہلا رہا تھا۔
آہ سر دکھنے لگا ہے تمہارے تکلفات سے۔۔
اسکا انداز اتنا مسخرانہ ہو چلا تھا کہ وہ ہنس ہی پڑی۔
کدھر جانا ہے۔ ٹیکسی کا دروازہ اسکے بیٹھنے کیلئے کھول کر وہ پوچھ رہا تھا
پاکستانی ایمبیسی۔ ۔ اس نے کہتے ساتھ ہونٹ بھینچ لیئے تھے۔
وہ دروازہ بند کرتے کرتے رک گیا
میں بھی چلوں؟ اس نے پوچھا تو واعظہ جواب دینے کہ۔بجائے نشست پر آگے کھسک گئ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد۔۔۔۔۔۔ جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *