Desi Kimchi Episode 23

Desi Kimchi Urdu Novels

قسط 23
اپنی جماعت میں تھکے تھکے قدم اٹھاتئ وہ سب سے پیچھے جا کر بیٹھ گئ تھی۔ عید کا جوڑا پہن رکھا تھا مگر اوپر بڑا سا کالا عبایا اور نقاب۔ بس ہاتھ پر لگی مہندی کا رنگ خوب جم کر آیا تھا۔ وہ اسی کو غور سے دیکھنے لگی۔ کوریائی طرز کا شہتیروں والا گھر ساتھ چیری بلاسم کا بڑا سا درخت چھوٹئ سی پگڈنڈی جو کلائی تک آرہی تھی بکھرے پتوں سے سجی تھی۔
سرخ رنگ سے سجے اس لینڈ اسکیپ پر کسی کا ہنر زوروں پر تھا۔
بورنگ عید ؟ اس نے گہری سانس لیکر سوچا۔
تبھئ اسکے سامنے جاپانی ڈمپلنگز کا ٹفن پیک لہرایا۔
اس نے چونک کر سر اٹھایا تو اسکی واحد جاپانی سہیلی یوگوائے اسے مسکرا کر کہہ رہی تھی
عید مبارک عزہ۔
وہ بے ساختہ اٹھ کر اسکے گلے لگ گئ تھی۔
………………..۔
دس بجے اسکی آنکھ کھلی تھی۔انگڑائی لیکر اٹھی تو کمرہ خالی تھا۔ سستی سے چپل گھسیٹتی باہر نکلی تو فاطمہ اپنے بالوں کا جوڑا بنائے چولہے کے پاس کھڑی نظر آئی۔ تھپ تھپ پراٹھا بنانے میں مصروف آہٹ پر مڑ کر دیکھا تو جھٹ کام بتا دیا
اٹھ گئیں یار واعظہ چائے میں پتی ڈال دو۔
اسکا منہ بن گیا۔ جانے کونسی منحوس گھڑی اچھی چائے بنادی۔ زندگئ بھر کیلئے چائے پر اسکا نام لکھ گیا تھا۔ نہ کسی اور کو نہ ہی خود کو کسی اور کے ہاتھ کی چائے پسند آتی تھئ۔
یہ لوگ چلی گئیں۔ ؟ وہ منہ بناتے دھپ دھپ کرتی آئی چائے کا ڈبہ اٹھا کر چمچ بھر بھر کر پتی جھونک دی۔
اوئے یہ ڈبہ مہینہ بھر چلانا تھا میں نے۔ وہ چیخ ہی توپڑی
اب نہیں چل پائے گا جلدی ختم ہو جائے گا۔
واعظہ اطمینان سے بولی تو وہ اسے بیلن مارتے مارتے رہ گئ۔
سیہون نوکری پر گیا ہوا۔الف عشنا اور عزہ یونیورسٹی گئ ہیں۔ صبح تیار ہوتے کتنا تو شور کیا جگا کے دم لیا مجھے سر میں درد ہوگیا تب سے۔
وہ باقائدہ جمائی لیتے ہوئے بولی۔
عروج کہاں ہے۔ اس نے آملیٹ کیلئے پیاز کاٹتے ہوئے پوچھا۔
ٹیرس پر ۔۔ فاطمہ نے منہ بنایا۔ جب سے اٹھی ہے فون پر لگی ہے اسے کہا تھا کہ آملیٹ بنا دے۔
گھر بات کر رہی ہوگی عید کا دن ہے۔ واعظہ نے لاپروائی سے کہا تو وہ تپ کر بولی
ہنگل میں لگی ہوئی ہے۔ اسکے گھر کونسا کورین پیدا ہوگیا ہے۔ پراٹھا اتار کر ہاٹ پاٹ میں رکھا مڑ کر دیکھا تو واعظہ ہاتھ روکے منہ کھولے اسے دیکھ رہی تھی۔
اسکے دیکھنے پر فاطمہ کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہوا۔
دونوں نے پھراکٹھے دوڑ لگائی ۔ ٹیرس کا گلاس ڈور بند تھا اسے دھیرے سے کھول کر دونوں کے صرف سر درز سے باہر نکلے۔۔ باہر ٹہلتے ہوئے عروج بہت خوشگوار انداز میں کسی سے مخاطب تھی۔
ہاں۔۔ نہیں۔ بس یہاں کیسی عید شائد شام کو کسی پبلک پارک میں گھومنے جائیں۔ ہاں۔ نہیں پاکستان میں تو سب رشتے دار ایک دوسرے سے ملنے جاتے ہیں۔ ہاں۔ ہاں۔ سب سے مزاتب آتا جب۔
پلٹتے ہوئے ادھ کھلے گلاس ڈور سے لٹکتے دو سروں پر نگاہ پڑی تو آواز حلق میں گھٹ سی گئ ۔بلکہ ہلکی پھلکی چیخ نما بے معنی آواز بھی نکلی دہل کر سینے پر ہاتھ رکھا۔
دوسری جانب سیونگ رو چونکا
کیا ہوا خیریت۔
دھڑ دھڑ کرتے دل کو سنبھالتی اس نے منہ ہی منہ میں دونوں کو گالیاں دیں۔
آہاں۔ وہ ناشتے کا وقت ہو چلا تو ذرا کھا پی لوں بعد میں بات کرتی ہوں۔ سنبھل کر خدا حافظ کہہ کر فون بند کرکے وہ تن فن کرتی انکے پاس آئی
سیدھے طریقے سے باہر نکل آتیں دہلا دیا دو سر لٹک رہے ہیں بس۔
کون تھا؟
دونوں کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ زرا جو بدمزا ہوئیں ہوں آکٹھے کورس میں دریافت کیا۔
سیونگ رو تھا۔ وہ چلبلا کر دروازہ پورا کھولتی اندر چلی آئی۔ دونوں سیدھی ہوئیں ایک دوسرے کو معنی خیز نگاہوں سے دیکھا۔
عید کے دن سیونگ رو ۔ یعنی ڈبل عید۔ ڈبل خوشی۔
واعظہ نے شرارت سے اسکو قریب آکر کندھا مارا۔
واہ جی۔ فاطمہ کیوں پیچھے رہتی دوسرا کندھا اسکا ہوا
یہ کب ہوا کیسے ہوا؟؟؟ ہمم بولو
اوفوہ۔ وہ مصنوعی جھلائی دونوں کو اپنے کندھوں سے جھٹکا پھر بے نیازی سے بولی۔
ہم اچھے کولیگ ہیں عید کا تہوار آیا تو مبارکباد کیلئے اس نے فون کر دیا ذیادہ اپنے ننھے دماغوں پر زور نہ ڈالو گھس جائیں گے۔ ابھی عمر پڑی ہے انکو رگڑنے کیلئے۔
وہ سیدھا آملیٹ بنانے اسٹو کی جانب بڑھ گئ تھی۔ واعظہ پیاز کاٹ چکی تھی فاطمہ نے انڈے پھینٹ رکھے تھے۔ سو آرام سے آملیٹ بنانے لگی۔
بس زبانی عید مبارک۔۔واعظہ نے منہ بنایا پھر شرارت سے گنگنانے لگی۔
عید کا دن ہے گلے ہم کو لگا کر ملیئے۔
عروج نے بنا لحاظ کائونٹر سے اںڈا ہی اٹھا کر اسے دے مارا۔ وہ ہنستے ہنستے بس لمحہ بھر کی جھکائی دے گئ انڈا فاطمہ اور اسکے درمیان پھٹ سے زمین پر آگرا
عروج کی۔بچی یہ تم ہی صاف کروگی۔ فاطمہ بھنائی۔ آخر ان سب کے جانے کے بعد گھر اسکی ہی۔ذمہ داری بننا تھا
ہے جن نہیں اٹھا ابھی۔؟ واعظہ کے کہنے کی دیر تھئ کمرے کا دروازہ کھلا ہے جن تولیہ سے بال رگڑتا برآمد ہوا۔ اپنی دھن میں چلتا ہوا آیا۔ تولیہ کندھے پر رکھ کر گھنے بالوں میں ہاتھ چلاتا وہ بے نیازی سے کچن میں چلا آیا۔
آننیانگ ۔ کائونٹر سے جگ اٹھایا گلاس میں پانی بھرا گلاس اٹھا کر منہ کو لگانے لگا تو دیکھا منظر تو ساکت ہوا وا ہے
چولہے پر فرائی پین میں انڈہ سلگنے کو آیا تو عروج نے چونک کر نگاہ کئ فاطمہ ہاٹ پاٹ اٹھائے کائونٹر پر رکھنا بھول گئ تھی اور واعظہ اطمینان سے کہنیاں کائونٹر پر ٹکائے اسٹول پر بیٹھئ باقائدہ منہ کھولےاسے دیکھ رہی۔تھی۔
کیا ہوا؟۔ اس نے سٹپٹا کر چہرے پر ہاتھ پھیرا۔
یار یہ تو اوپا انڈر پراسس ہے۔
فاطمہ کے ہونٹ وائو کے انداز میں گول ہوئے تھے پھر جھٹ ہوش میں آتے بیان داغا
ہاں یار کچھ ذیادہ ہی۔حسین لگ رہا ہے یہ تو۔
عروج آملیٹ پلیٹ میں نکالنے لگی اب واعظہ کے ردعمل کی باری تھئ۔
وہ گڑبڑا اٹھا۔بے چارگی سے واعظہ کو دیکھنے لگا
کیا ہوا نونا کچھ غلط کر لیا میں نے اسے ایسے ہی نہیں پہنتے؟
ایسے ہی یہاں کھڑے رہنا۔
واعظہ کا کھلا منہ یہ کہہ کر بند ہوا اسے تاکید کرتی وہ سیدھا اٹھ کر کمرے میں گھس گئ۔
وہ سوالیہ نگاہوں سے عروج اور فاطمہ کو دیکھنے لگا دونوں نے کندھے اچکا دیئے۔
فاطمہ چائے کے کپ لا کر میز پر رکھ رہی تھی جب اسکی واپسی ہوئی۔
سنجیدگی سے ہے جن کی جانب بڑھی۔ وہ منتظر نظروں سے دیکھ رہا تھا
اس نے آگے بڑھ کر سات مرتبہ اسکی نوٹ اسکے اوپر سے وارے۔۔
طوبی کے بنائے کرتے پاجامے میں اسکا گورا رنگ دمک رہا تھا ۔لمبا قد مزید نمایاں ہو رہا تھا آج خالص کوریائی بالوں کا انداز بنانے کی بجائے اس نے ایک جانب مانگ کر لی تھی گھنے چمکیلے سیاہ بال محض انگلیوں کے اشارے پر سج گئے تھے۔
یہ عیدی ہے؟۔
اس نے پیسے لینے کو ہاتھ بڑھائے۔مگر واعظہ منہ ہی منہ میں ابھی کچھ پڑھ رہی تھی۔
عروج اور فاطمہ ہنس دیں۔
نظر اتار رہی ہے تمہاری۔یہ پیسے کسی غریب کو دینے ہونگے۔ عروج نے ہنس کر کہا۔ تو وہ جیسے سمجھ کر سر ہلانے لگا۔
واعظہ نے معوذتین پڑھ کر اسکی پیشانی پر پھونک ماری۔
ماشا اللہ بہت جچ رہے ہو تم۔ اس نے کھلے دل سے تعریف کی تو وہ جھینپ سا گیا
اب اسے بھائی کہنا مشکل لگ رہا مجھے ۔۔پانچ چھے سال ہی چھوٹا ہوگا یہ ہم۔سے ہے نا۔
یہ فاطمہ۔تھی۔۔ اسکی لن ترانی پر واعظہ اور عروج دونوں نے گھورا۔
دے نونا؟ ہے جن کو اسکی۔تعریف کا بھی ترجمہ۔چاہیئے تھا۔
چلو ناشتہ کرو پھر ہم طوبی سے ملنے جائیں گے تیار ہوکے۔ تیار ہونے کے بعد پھر عیدی دوںگئ تمہیں۔
پھونک پھانک کر واعظہ نے جواب دیا تو وہ سر ہلانے لگا۔ ۔
بالکل ہم عید کو بھرپور طریقے سے منائیں گے۔
فاطمہ نے عزم کیا
…………………………………
ڈیڑھ بجے کا وقت تھا وہ ایک بجے ہی اس فین میٹنگ کیلئے مخصوص کیئے گئے ہال میں پہنچ چکی تھی۔ شور کرتی لڑکیاں پرجوش سے لڑکے۔ بینرز پلے کارڈ ہیومن پوسٹرز اٹھائے تھے۔ لی من ہو کے قد آدم اسٹینڈز سج رہے تھے۔
دو لڑکیاں کے ایف سی کے برگر اٹھائے زور زور سے بولتی اسکے پاس سے گزریں تو وہ چونک کر دیکھنے لگی۔
کتنا عرصہ ہو چکا تھا اسے اپنی پسند کا کچھ کھائے۔ بچت بچت۔ ایک ایک پیسہ دانتوں سے خرچ کرکے جوڑا تھا۔
لی من ہو کیلئے برانڈڈ ٹی شرٹ اسکی پورے مہینے کے اوور ٹائم اور کئی مہینوں کی۔بچت ٹھکانے لگا گئ تھئ۔ ایک بوکے بس۔ اپنے لیئے شرٹ سائن کروانا چاہتی تھی مگر اپنے لیئے پیسے بچے ہی نہیں۔
لاکھوں پرستاروں میں سے ایک ہوں میں۔ اس نے اپنے گرد اس جمع غفیر کو چور نظروں سے دیکھا۔
فاطمہ بھی تو کچھ ایسا ہی بتا رہی تھی۔
اسکا ہیولہ اسکے آس پاس ہی کہیں تھا۔ اس نے سر جھٹکا۔
عید کا دن اپنے پسندیدہ ستارے کے ساتھ گزاروں گی اس سے بڑھ کر خوشی اور کیا ہو سکتی۔۔
بوکے کو دونوں ہاتھوں میں تھام کر اسکی خوشبو محسوس کرتے اس نے سوچا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے گہری سانس لیکر ریڈیو کی عمارت کو دیکھا۔
شو تو شام کو تھا مگر بلاوا ابھی آچکا تھا اسکا اور شائد ژیہانگ کا بھی۔وہ سرجھٹک کر اندر بڑھ گئ۔
انکا اسٹوڈیو خالی تھا بس ژیہانگ بیٹھا موبائل میں لگا ہوا تھا۔
اسکے سامنے خشک میوہ جات کیریمل میں لپٹے پڑے تھے خاص چینی سوغات۔ اس نے ایک بار یہیں سے خرید کر کھائے تھے۔
اسلام و علیکم۔ وہ روانی میں کہتی اپنا بیگ زمین پر رکھنے لگئ۔ ژیہانگ سے چونک کر سر اٹھایا پھر دھیمی سی مسکراہٹ سے اس سے بولا
عید مبارک۔ یہ لو کھائو۔۔
اس نے حسب توقع وہ پلیٹ تھوڑی سی اسکی جانب کھسکا دی تھئ۔
الف اپنی نشست سنبھال رہی تھی جب اسکے ذہن میں جھماکا سا ہوا۔۔ وہ جواب دینا ہی بھول گئ۔ اور پلیٹ کی طرف ہاتھ بڑھانا بھئ
تبھئ پروڈیوسر صاحب حسب معمول افراتفریح میں اسٹوڈیو میں داخل ہوئے ایک پلندہ لا کر اسے اور ژیہانگ کے سامنے میز پر لا رکھا۔۔
یہ گو تھرو کر لو تم دونوں اچھی طرح۔
وہ دونوں آنکھیں پھاڑ کر دیکھتے رہ گئے۔
گو تھرو؟ اس پر تو ریسرچ پیپر لکھنا بھی کم۔پڑے۔۔
اس نے حجم کا اندازہ لگانا چاہا۔
یہ کیا ہے۔ دونوں کے منہ سے اکٹھا نکلا۔
یہ ہیں وہ ٹاپ سرمایہ کار جن کو ہم نے گھیرنا ہے۔ ایس بی ایس ایسے ہی تو نہیں کوریا کا نمبر ون میڈیا نیٹ ورک ہے۔ دنیا جہان سے سرمایہ کار آئیں گے۔ اگر کوئی ایک بھی ہم نے گھیر لیا تو کم ازکم سال بھر کی فرصت ہوگی یہ شو کوئئ مائئ کا لعل بند نہیں کراسکے گا۔
وہ فخریہ بولے۔
پر یہ ہے کیا۔
ژیہانگ نے ایک چھوٹا پلندہ اٹھا کر اسے کھول کر دیکھنا شروع کیا جبکہ الف نے اتنی محنت کی بجائے سیدھا پوچھنا بہتر سمجھا
یہ مشہور کمپنیوں کی مارکیٹنگ کی ترجیحآت ہیں۔ جیسے یہ
سوجو برانڈ دیکھ لو اس برانڈ نے بڑے بڑے سیلیبریٹیز کو ہمیشہ ہائر کیا ہے۔ انکی ترجیحات میں ان سیلیبریٹیز کے تمام انٹرویو شوز ہوتے ہیں۔ یعنی ہم نے سیہون کو بلایا تو اگر سیہون انکا کبھی اشتہار کر چکا ہے تو وہ ہمارے شو میں جب جب سیہون آئے گا اشتہار دیں گے۔
انہوں نے تفصیل سے سمجھانا چاہا
تو کیا سیہون نے انکا کبھی اشتہار کیا ہے۔
الف کو لگا تھا اسکا سوال بنتا تھا یہاں۔
اوہو نہیں کیا مگر کر تو سکتا ہے۔وہ جھلائے
ہم یہ تفصیلات کا کریں گے کیا؟ الف ان سے زیادہ جھلائی
بھئ وہاں جا کر اسپانسرز گھیرنا بتانا کہ تم۔لوگوں کے شو میں بڑے بڑے سیلیبریٹیز آتے ہیں ۔اور قسمت مزید یاوری کر گئ کہ اگر تم دونوں میں سے ایک بھی انکا برانڈ ایمبیسیڈر بن گیا تو ہمارے تو وارے نیارے ہونگے تمہاری بھی زندگئ بدل جانی ہے۔
انکو بچوں کی۔طرح سمجھانا پڑ رہا تھا
ایک سیہون ہی آیا ہے بے چارہ وہ بھی جانے کیسے۔
وہ بڑ بڑا کر پلندہ اٹھا کر دیکھنے لگی۔ اتنی سی دیر میں ژیہانگ چار چھوٹے پلندے ایک طرف کر چکا تھا۔ اس نے جتنی دیر میں پلندہ الٹ پلٹ کیا وہ باقی سب بھی چھانٹ چکا تھا
اب الف کے ہاتھ سے وائن برانڈ کی۔تفصیلات کا پلندہ کھینچ کر دیکھنے لگا۔ اس نے بدمزا ہو کر دیکھا اسے۔ ژیہانگ نے الٹ پلٹ کرکے اس فائل کو الگ رکھ دیا۔ میز پر دو ڈھیریاں۔بن چکی تھیں۔ ایک بڑی اور ایک چھوٹی سی
یہ تم نے ترجیحی برانڈ الگ کیئے ہیں؟
پروڈیوسر صاحب نے اسکی تیزی کو کافی پسندیدہ نگاہ سے دیکھا۔
نہیں یہ بڑی ڈھیری تمام شراب اورحرام کھانے کے برانڈز ہیں جن کی اسپانسرشپ مجھے مل بھی رہی ہو تو میں نہیں کروں گا۔
اس نے اطمینان سے کہا ۔تو پروڈیوسر اور الف دونوں کی آنکھیں جیسے ابلنے کو آگئیں
اتنئ بڑئ حماقت ارے سب سے ذیادہ پیسے انہی برانڈز سے ملتے احمق۔
وہ جھلائے
میں نے آپکو شو کا حصہ بننے سے پہلے ہی بتا دیا تھا۔ میں شراب کی تشہیر نہیں کر سکتا ورنہ یہ سوجو برانڈ تو تب بھی ہمارے شو کو اسپانسر کر ہی رہا تھا۔ آپ نے میری اجازت بنا جو اسکی تشہیر میں میرا نام استعمال کیا اس پر میں ہرجانے کا دعوی بھی کر سکتا ہوں
ژیہانگ کا انداز قطعی تھا۔
اتنے بھی انتہا پسند نہ بنو۔
وہ گڑ بڑائے۔ ہاں تو۔ کبھی اسٹوڈیو میں دیکھا تم نے ؟ شراب کا کارٹن ۔ تم لوگوں کیلئے جو تحفتا بھجواتے تھے اسکو میں دیگر میں بانٹ دیتا تھا۔ ابھئ بھئ ایسا ہی ہوگا پتہ بھی نہیں چلے گا تم دونوں کو مگر ہماری روزی پر تو لات نہ مارو نا۔
انکا انداز ملتجی ہوا۔
جو انجانے میں ہوا اسکی تو نہیں لیکن اب سے آگے میں اس کام کو جاری نہیں رکھ سکتا۔ اگر تو آپکو منظور تو ٹھیک ہے نہیں تو میں اس شو کو چھوڑ دیتا ہوں۔
ژیہانگ قطعی سے انداز میں کہتا اٹھ کھڑا ہوا تو پروڈیوسر کے ہاتھوں کے طوطے اڑنے لگے۔ الف بالکل خاموشی سے دونوں کو بحث کرتا دیکھ رہی تھی
اچھا اچھا۔ خفا نہ ہو۔ اچھا یہ بتائو لوہن سے بات ہوئی تمہاری۔؟ وہ کب آرہا ہے کوریا؟ ہمیں وقت دے گا؟
انہوں نے بات بدل ڈالی
ابھی تو ڈرامے کی شوٹنگ میں مصروف ہے سویٹ کومبیٹ نام ہے۔ اسکے بعد ہی فرصت ملے گی اسے کبھی۔ میں نے بات کی ہے اس سے اگر بیچ میں کوریا کا چکر لگا تو ہمارے شو میں ضرور آئے گا۔
ژیہانگ انکے انداز پر آنکو مزید تنگ نہ کرتے ہوئے دوبارہ بیٹھ گیا۔
چلو جب مرضی۔ سوہو بھی ڈرامے میں مصروف ہے ۔لیکن ہے تو کوریا میں اس سے بات کرکے دیکھنا۔ یہ پلندہ میں لے جاتا ہوں۔
وہ اسکے مسترد شدہ پلندے کو سنبھالتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔
تم لوگ بقیہ برانڈز کو آپس میں ڈسکس کرلو۔
وہ جاتے جاتے بھی ملتجی انداز میں تاکید کر گئے۔
ژیہانگ سر ہلا کر واقعی ان پلندوں کو چھانٹنے بیٹھ گیا۔ کاغذ الٹ پلٹ کرتے یونہی اسے نظروں کا احساس ہوا تو سر اٹھایا۔ الف بالکل سامنے بیٹھی گھور رہی تھی۔
کیا ہوا؟ اس نے چونک کر پوچھا؟
تم نے مجھے عید مبارک کہا۔۔
اسکا انداز تفتیشی تھا۔۔
ہاں تو کیا عید نہیں آج؟۔ وہ گڑبڑایا۔
یہاں بھی کوئی پوپلزئی پیدا ہواگیا کیا کہ۔آدھوں کی آج آدھوں کی کل عید ہو۔۔
وہ اس بار چینی میں بڑ بڑایا۔
تم نے کرتا پاجامہ پہن رکھا ہے۔۔
اس نے جیسے الزام دیا۔
ژیہانگ سیدھا ہو بیٹھا۔ نیوی بلو کرتا سفید پاجامہ وہ بھی حیدر آبادئ طرز کا۔ پہلی بار پہنا تھا ایک ہندوستانی بوتیک سے لیکر وہ بھی آنلائن اسے کچھ گڑ بڑ لگ رہی تھی۔ کارٹون لگ رہا ہوں کیا۔ وہ گڑبڑایا۔پھر خود ہی کہنے لگا۔
صحیح نہیں فٹنگ نا؟ مجھے بھی ڈھیلا لگ رہا ہے۔ اس نے خوب چوڑے پائنچے والے پاجامے کو بلا وجہ ٹھیک کیا۔
شراب اور حرام اشیاء سے کیا مراد ہے۔ وہ گھور رہی تھی۔
تم لوگ تو کتے بھی کھا جاتے ہو؟ ہے نا۔
لاحول ولا۔۔۔ وہ سٹپٹا گیا۔
بھئی میں نہیں کھاتا۔ ہم نہیں کھاتے بلکہ کوئی مسلمان نہیں کھاتا۔احمق لڑکی۔
تو تم مسلمان ہو۔ وہ بھونچکا سی ہو کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
آہاں ۔ میں مسلمان ہوں۔ وہ بے چارہ بھی گھبرا کر کھڑا ہو گیا۔
مگر تم تو چینی ہو۔ وہ یقین کرنا بھی چاہ رہی تھی نہیں بھی۔
ژیہانگ اسکے ردعمل پرمسکرا دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔لی من ہو کے چہرے پر ایک تکلفاتی مسکراہٹ سجی ہوئی تھی آگے کوئی لڑکا بیٹھا ہو لڑکی یا کوئی جنگلی جانور۔ بس مسکرا کر آننیانگ کہتا۔ سیلفی بنواتا۔ پوسٹر سائن کرتا اور سلیقے سے آگے بڑھ جانے کا اشارہ کر دیتا۔
اسکی باری آئی تو وہی مسکراہٹ وہی انداز۔
اس نے لمبی تقریر یاد کر رکھی تھی۔
میں آپکی بہت بڑی پرستار ہوں۔ سٹی ہنٹر میرا پسندیدہ ترین اور اب لیجنڈ آف بلو سی بھی۔ اور۔
ذہن صفا چٹ ہو گیا۔ انگریزی اردو سب غارت۔
لی من ہو اسکی کیفیت سمجھ کر زور سے ہنسا تھا۔
اس نے خجل ہو کر شرٹ اسکی جانب بڑھا دی۔ جس کو اس نے سائن کر کے واپس کردیا۔
یہ آپکے لیئے ہے۔ وہ بمشکل سمجھا پائی۔
واقعی؟ وہ حیران سا ہوا تھا۔بغور شرٹ دیکھی اسکا برانڈ دیکھا۔ پھر باقائدہ اٹھ کر آدھا جھک کر اسکا شکریہ ادا کیا۔
گھمسامنیدہ۔
لی من ہو کی نگاہیں اس پر جمی تھیں اور وہ بس کسی اور جہاں پہنچ گئ تھی۔ کاش وقت یہیں تھم جائے اور۔
اسکے دل نے بے ساختہ خواہش کی۔
جتنئ بھی عیدیں گزریں سو کے جاگ کے مل ملا کے یہ سب سے مختلف اور۔اچھی عید تھی۔
……………………………………
جتنئ بھی عیدیں گزریں سو کے جاگ کے مل ملا کے یہ سب سے مختلف اور۔تکلیف دہ عید تھی۔ بیرک کی دیوار سے ٹیک لگائے وہ صبح سے بھوکی پیاسی بیٹھی تھی۔ ناشتے میں عید کے دن سویوں کی بجائے چاول کمچی اور عجیب گوشت کا ملغوبہ آیا تھا۔ اس نے یونہی آہجومہ سے پوچھا
یہ کونسا گوشت ہے۔
پورک۔ منہ بھر کر بمشکل کھاتے آہجومہ نے جواب دیا۔ وہ روہانسی سی ہوگئ۔
جانے یہ سزا کیوں ملی تھی اسے۔
دوپہر میں بلیک بین نوڈلز آئے تھے ۔ ان کالے سیاہ نوڈلز کو جنکو کھانے سے آہجومہ کی زبان بھی کالی ہو چلی تھی اسے ذرا اشتہا محسوس نہیں ہوئی۔
یہ کھا کیوں نہیں رہی ہے۔ حوالدارنی نے آہجومہ سے ہی پوچھا تھا۔
یہ صبح سے شام تک کچھ نہیں کھاتی نہ پیتی ہے شام کو جب باہر کھڑکی سے اندھیرا پھیلتا ہے تب پانی پیتی ہے مجھے تو لگتا یے کوئی چلہ کاٹ رہی ہے۔ آہجومہ پلیٹ سمیت اٹھ کر حوالدارنئ کے کان میں گھس گئ تھیں۔ وہ تو بھلا وہ درمیان میں سلاخوں کا کہ سچ مچ نہیں گھس پائی۔
کالا جادو۔ اس نے اندازہ لگایا۔
شائد۔ آہجومہ کے منہ سے سرسراتی سی آواز نکلی۔
لیکن اس جادو کا اثر نہیں ہو سکتا مجھ پر ایک مشہور بدھمتی راہبہ سے لیکر میں نے تعویز پہن رکھا ہے۔ حوالدارنی نے خوفزدہ نگاہوں سے نور کو دیکھتے ہوئے گلے میں لٹکتے تعویذ کو مٹھی میں بھر کر خود کو تسلی دے رہی تھی
مگر میں نے سنا ہے کالے جادو کا کوئی توڑ نہیں ایسے تعویذ بھاپ بنا کے اڑا دیتا ہے کالا جادو۔
آہجومہ نے اسکا اطمینان اطمینان سے غارت کیا۔
دیکھو کہاں جا رہی۔ہے۔۔
نور لڑکھڑاتے قدموں سے اپنی جگہ سے اٹھی رخ سیدھا روشندان والی دیوار کی جانب تھا دونوں نے دم سادھ لیا۔
وہ جھکی۔ انکی سانسیں تھمیں۔ جھک کر کولر سےگلاس میں پانی لیا۔ واپس پلٹی
ان دونوں پر اچٹتی نگاہ ڈالی۔ دونوں اسکی سرخ انگارہ آنکھوں سے مزید خوفزدہ ہو گئیں
سنو میں جیل سپریٹنڈنٹ کو بتائوں؟
حوالدارنی نے آہجومہ سے جیسے اجازت چاہی
مجھے پانی کی بوتل لا کر دو پہلے میں اب اس کولر سے پانی نہیں پی سکتی
حوالدارنی کے منہ پر آہجمومہ نے ڈکار لی۔ حوالدارنی نے گھور کر دیکھا۔
نور اپنے بنچ کی جانب بڑھتے ایک بار پھر لہرائی ۔ گلاس اسکے ہاتھ سے چھوٹا یہاں وہاں پانی پھیلتا گیا اور نور بھی۔ وہیں کھڑے قد سے نیچے آرہی۔
………………………………………………۔۔۔۔۔۔
عید مبارک ۔ وہ پھولوں کا بکے اور کیک لیکر طوبی کے گھر آئے تھے دروازہ طوبی نے ہی کھولا۔
ہلکے سبز پشواز کی فراک میں ملبوس طوبی نکھری نکھری تیار سی سامنے کھڑی تھی۔ انہیں دیکھ کر اسکی جیسے خوشی کی انتہا نہ رہی تھی۔
الف۔ عروج اور واعظہ کیوں نہیں آئیں اور عشنا میں نے کہا بھی تھا سب آنا مل کر عید منائیں گے۔
وہ پیار بھرا شکوہ کر رہی تھی۔
وہ۔ عزہ نے بتانا چاہا مگر فاطمہ نے اسکا ہاتھ دبا کر روک دیا
وہ عروج ہاسپٹل گئ ہوئی ہے ، واعظہ بھی ساتھ ہے عشنا کی آج فین میٹنگ تھی لی من ہو کی۔ اس کیلئے عید کا لطف دوبالا ہوچکا پہلے ہی الف کا آج شو ہے۔
اس نے سادہ سے انداز میں وضاحت کی طوبی مطمئن ہوئی کہ نہیں سر البتہ ہلا دیا پھر
عزہ فاطمہ ہے جن وہ باری باری سب سے گلے ملی۔
ہے جن کو تو دیکھتے ہی آنکھیں آنسو سے بھر آئیں۔
کتنا وجیہہ لگ رہا ہے میرا بھائی ماشا اللہ
عبایا اتار کر مجھے اپنا ڈریس دکھائو۔
اس نے بڑی بہنوں والے رعب سے عزہ سے کہا تو وہ ہنس کر عبایا اتارنے لگی
ماشا اللہ بہت پیاری لگ رہی ہو۔ اس نے بے ساختہ دوبارہ عزہ کو گلے لگا لیا۔
اور میں آپی۔
ہے جن بھی اسکے کندھے پر جھول گیا۔
فاطمہ نے بے ساختہ ہونٹوں پر زبان پھیری۔
یہ بہن بھائیوں کی تکون چلنے ہی دینی چاہیئے جانے طوبی کا ردعمل کیسا ہو سچائی جان کر۔۔۔اس نے سوچا تبھی واعظہ اسکے کندھے کے پاس سے نمودار ہوئی
تمہاری ذمہ داری ہے طوبی کی غلط فہمی دور کرنا ۔ ہےجن بہت پریشان ہے ہمیں اسکی مدد کرنی چاہیئے اس بچے کے ایک چھوٹے سے جھوٹ کی اسکو کافی کڑی سزا مل رہی ہے اب بس یہ ڈرامہ ختم ہو جانا چاہیئے۔
فاطمہ نے اثبات میں سر ہلایا تو واعظہ غائب ہوگئ تھی۔
بہت پیارے ماشا اللہ سے میرے دونوں بہن بھائی حسین لگ رہے ہیںمیں ابھی نظر اتارتی ہوں تم دونوں کی۔ وہ محبت سے کہتی جھپاک سے کچن میں گھس گئ۔
بچیاں جھلمل فراک اور چوڑی دار پاجامے میں شرمائی شرمائی سی آکر عید ملنے لگیں تو ننھا شہزادہ چھوٹے سے کرتے پاجامے میں ملبوس پرام میں بیٹھا۔انگوٹھا چوس رہا تھا۔ عزہ نے جھکر پیار سے اسکے گال پر چٹکی بھری
دلاور بھائی کہاں ہیں۔ عزہ نے پوچھا تھا۔
ادھر کمرے میں۔ چلے جائو جاگ رہے ہیں
اس نے اوپن کچن سے اشارہ کیا تو وہ تینوں کمرے میں چلے آئے۔۔
دلاور بیڈ کرائون سے ٹیک لگائے بیٹھے سیویاں کھا رہے تھے۔
انہیں دیکھ کر فورا خیر سگالی انداز میں مسکرا کر اٹھنا چاہا تو ہے جن جھٹ آگے بڑھ کر انہیں سہارا دینے لگا
بیٹھے رہیئے دلاور بھائئ۔ معزرت ہم پہلے آپکی طبیعت پوچھنے نہ آسکے ۔ فاطمہ نے شرمندہ سے انداز میں معزرت کی۔
ارے کوئی بڑی بات نہیں معمولی سی چک آئی تھی اب تو کافی ٹھیک ہوں میں۔
انہوں نے مسکرا کر کہا۔
طوبی بچوں کیلئے سویاں۔ انکی بات منہ میں ہی تھی کہ طوبی فرائی پین اٹھائے چلی آئی۔
لال لال مرچیں جلا کر وہ ہے جن کی نظر اتارنے لائی تھی۔
صبح واعظہ کی اتاری نظر کی اسے دل سے قدر ہوئی جب کڑوا دھواں ناک منہ میں گھستا حلق تک خراشیں ڈالتا گیا۔
سارا پرفیوم غائب بس دہکتی مرچوں کی دھانس اور دھوئیں میں دھیرے دھیرے ہے جن نمودار ہوتا تو طوبی دوبارہ اسکو سرتاپا اس دھوئیں سے وار دیتی۔۔ کمرہ دھواں دھواں ہو گیا ۔
فاطمہ عزہ دونوں بری طرح کھانستی باہر بھاگیں ۔
چلنے سے معزور دلاور انکی پھرتی کو رشک سے دیکھ کر رہ گئے۔ بری طرح کھانستے ہے جن کا ساتھ دیتے وہ بمشکل کہہ پائے
بس کرو طوبی ۔بہت دھواں ہو گیا۔
ہاں ہوگئ۔ طوبی اطمینان سے فرائئ پین لیئے مڑ گئ۔
ہے جن کا کھانس کھانس کے برا حشر ہو چلا تھا۔ وہ اٹھ کر کھڑکیاں کھولنے لگا پنکھا چلایا تو تھوڑا امن ہوا۔
دلاور سائیڈ ٹیبل سے جگ اٹھا کر گلاس میں پانی بھرنے لگے۔
کبھی کبھی تو طوبی حد کر دیتی ہے۔
وہ مسکرا کر اسکی جانب گلاس بڑھا رہے تھے۔
اور گئے تم آج عید کی نماز پڑھنے۔ ؟
میں تو جا نہیں سکا پہلی عید میری ہے ایسی جوعید کی نماز پڑھے بنا گزر رہی۔ وہ ہلکے پھلکے انداز میں بولے تھے۔ ہے جن کا منہ تک جاتا گلاس راستے میں رک گیا۔ اسکے چہرے کے تاثرات دلاور کو بھی تشویش زدہ کر گئے۔
کیا ہوا بیٹا کوئی پریشانئ ہے؟
دلاور بھائی۔ ۔ اس نے ہمت کرکے گلاس واپس رکھا اور انکے سرہانے گھٹنوں کے بل آبیٹھا۔ انکا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کر ملتجی سے انداز میں پوچھنےلگا۔
ایک بات پوچھوں برا تو نہیں مانیں گے؟
ہاں پوچھو۔ وہ اسکے انداز پر سنبھل کر بیٹھ گئے
آپ مسلمانوں کیلئے کسی نو مسلم سے ارکان دین پورے کروانا لازم ہے؟ کیا یہ آپکی عبادت کا حصہ ہے؟ اگر کوئی غیر مسلم اوپری دل سے ارکان ادا کرے تو کیا آپکو گناہ ملے گا؟
تم اوپری دل سے نماز روزہ کرتے رہے ہو؟۔ دلاور نے سیدھا سا سوال کر ڈالا تھا۔
اس نے سر جھکا لیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فاطمہ عزہ اور ہے جن لائونج میں سر جھکائے کھڑے تھے۔
طوبی انکو بے یقینی سے دیکھ رہی تھی۔
طوبی ہم سب گڑ بڑائے ہوئے تھے۔ہمیں لگا تھا کہ آپ نجانے کیا خیال کریں ہمارے بارے میں کہ 8 لڑکیوں میں ایک انجان لڑکا رہ رہا ہے تو بس یونہی ہم نے کہہ دیا ۔
عزہ اور ہے جن کی ہمت نہیں تھی طوبی کی آنکھوں میں جھانکنے کی۔ تو فاطمہ نے ہی انکی جانب سے صفائی دی۔
یونہی کہہ دیا؟ وہ چٹخ کر بولی۔۔
پوری کہانی بنالی تم لوگوں نے۔ غیر مسلم ماں بیٹا ماں کے مذہب پر اور بیٹی۔
اس نے کینہ توز نظروں سے عزہ کو گھورا۔
تم لوگ دو مہینے سے مجھے بے وقوف بنا رہے تھے اور میں ۔۔ وہ سر تھامتی فلور کشن پر بیٹھتی چلی گئ۔
ٹوٹے ہوئے گھر کے بچے سمجھ کر تم دونوں سے پیار کر بیٹھئ۔۔ وہ رو دی۔
کیا کچھ نہ یاد آیا اسے۔ زبردستی ہے جن کو لیکر مارکیٹ جاتی سودا لیتے اسے کبھی چاکلیٹ کبھی کوئی اور کھانے پینے کی چیز دلا دی۔ہر بار اسے تاکید کرنا کہ عزہ کیلئے بھی لیکر جانا وہ لمبے لمبے لیکچرز۔اسکو زبردستی قرآن سنوانا مسجد بھجوانا دلاور کے ساتھ ۔سورتیں۔ یاد کروانا
ہے جن نے بے بسی سے فاطمہ کو دیکھا۔
طوبی آپی بات سنیں۔
عزہ نے آگے بڑھ کر اسکا شانہ تھامنا چاہا۔اس نے بری طرح جھڑک کر اسے دور کردیا
بالکل مجھے آپی کہنے کی ضرورت نہیں۔کسی کے خلوص کا مزاق اڑاتے شرم نہیں آئی تم لوگوں کو۔ سگے بہن بھائیوں جتنا پیار دیا تم دونوں کو یہ صلہ ملا ہے مجھے۔ نکل جائو دفع ہو جائو میرے گھر سے میں تم دونوں کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی۔
وہ ہذیانی انداز میں چلائی۔ ہے جن کو جملے تو نہیں مگر لہجے ضرور سمجھ آرہے تھے لب کاٹتے ہوئے اس نے آگے بڑھنا چاہا تو فاطمہ نے بازو تھام کر روک دیا۔
اس وقت یقینا طوبی کو اکیلے چھوڑ دینا ہی بہتر تھا۔ وہ ان دونوں کو لیکر باہر آگئ تھئ۔
………………………………………

ختم شد

جاری ہے۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *