Desi Kimchi Episode 38

Desi Kimchi Urdu Novels

قسط 38
لائونج میں اس وقت جیسے دن کا سماء تھا۔
رات کے دو بجے وہ سب الو بلکہ النیں بنی ہوئی کافی اور چاکلیٹ کیک اڑا رہی تھیں۔
منی میز پر چاکلیٹ کیک رکھا ہوا تھا اسکےگرد گھیرا ڈالے واعظہ عروج نور اور عزہ نے باقائدہ چئیرز کرکے کافی کے مگ ٹکرا ئے۔
یار ویسے چئیرز کی جگہ ہمیں اردو میں کچھ کہنا چاہیئے۔
عزہ کو دور کی سوجھی۔ فٹا فٹ گوگل ٹرانسلیٹر کھول لیا۔
اردو میں چئیرز کا مطلب خوشیاں بنتا ہے۔
دوبارہ مگ ٹکرائو ہم اس بار خوشیاں کہیں گے۔
وہ پرجوش تھی۔ ان سب کو کوریا کی سردیوں نے کھولتی کافی پینے کی عادت ڈالدی تھئ سو سب اپنا اپنا مگ منہ سے لگا چکی تھیں۔
پلیز۔ عزہ بسوری تو ناچار سب کو دوبارہ اپنے اپنے مگ ٹکرانے پڑے۔ وہ کھلکھلا دی۔
الف سوگئ کیا ؟ میرا تو خیال تھا آج کے شو کی ڈھیر ساری باتیں بتانے والی ہوںگی اسکے پاس۔۔
واعظہ کوالف کی غیر موجودگی محسوس ہوئی
ہاں تھیں تو مگر شائد تھک بہت گئ ہے۔آتے ہی بستر میں گھس گئ۔
نور نے بتایا تواس نے سر ہلا دیا۔
تو تم پرسوں پکا جا رہی ہو؟
واعظہ نے براہ راست اس سے پوچھا۔اس کو اسکے سوال پر حیرت ہوئئ
تمہارا خیال ہے میں نے فلائٹ ایویں ہی بک کرائی ہے۔پکا واپس جا رہی ہوں میں۔
اس نے جتانے والا انداز اختیار کیا۔
کل تمہارے بابا نے مجھے ملنے بلایا تھا۔۔۔
واعظہ نے کہا تو وہ تینوں حیران ہو کر دیکھنے لگیں اسے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ مقررہ وقت پر کیفے پہنچ گئ تھی۔ ابھی اندر داخل ہو کر متلاشی۔نظروں سے شکیل صاحب کو ڈھونڈنا چاہا تبھی کونے میں میز پر بیٹھے بیٹھے انہوں نے ہاتھ۔ ہلایا۔ وہ سیدھی انکے پاس ہی۔چلی آئی۔ اسے آتے دیکھ کر وہ اپنی جگہ پر اٹھ کھڑے ہوئے تھے
اسلام و علیکم انکل۔
اس نے ادب سے قریب آکر سلام کیاتھا۔
بلو جینز پر سفید شرٹ اور سفید ہی اپر پہنے کندھے پر لٹکتا بیگ مکمل مغربی حلیہ مگر مشرقی انداز میں سلام کرکے ہلکا سا سر انکے سامنے جھکا دیا تھا۔ انہوں نے پر شفقت انداز میں سر پر ہاتھ رکھا۔
بیٹھو بیٹا۔۔ کیسی ہو۔ کیا کھائو گی۔ ؟
وہ بے تکلف انداز میں پیار سے پوچھ رہے تھے اس نے جوابا بنا تکلف کیئے فرمائش بتادی۔
بس کافی پیئوں گی انکل۔
اچھا۔ وہ متزبزب ہوئے
مگر بیٹا جانی انکل کو تو بھوک لگی ہے اور یہاں کے حلال ولال ریستوران کا پتہ نہیں سو ذرا مدد کرو آرڈر کرنے میں کیا کھایا جا سکتا ہے یہاں؟
وہ الجھن بھرے انداز میں مینیو کھولے بیٹھے تھے۔
وہ انکے انداز پر کھل کر مسکرا دی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ انہیں پاکستانی ریستوران لے آئی تھی۔ خالی خولی چائے ناشتے سے یقینا اکتاہٹ ہو رہی تھی انہیں۔۔ یہاں آکر وہ خوش ہوئے۔ مینیو میں ہرقسم کا کھانا تھا۔
چیز نان چکن تندوری پیڑے والی لسی سیخ کباب ۔ کوریا میں پاکستانی ریستوران کے گو ذائقے میں محسوس کیا جانے والا فرق تھا مگر اتنے دنوں کے بعد پاکستانی کھانا کھا کر لطف آگیا تھا انہیں۔
مہینہ ہونے کو آگیا مجھے کوریا میں آئے کسی نے مجھے نہیں بتایا کہ پاکستانی کھانے مل جاتے ہیں یہاں۔ حد ہے۔ اتنے دنوں سے ہوٹل والے حلال فوڈ کے نام پر سبزیاں یا پھیکے سیٹھے پلائو اور میکرونی کھلا رہے۔ آج میں نے پیٹ بھر کر کھایا۔شکریہ لڑکی تم نے کمال کردیا۔
وہ خوش ہوئے تھے خوب کھا پی کے۔ واعظہ نے مسکرانے پر اکتفا کیا۔کھانا کھا لیا لسی پی لی پھر بھی چائے کی کمی تھی۔
بیٹا یہاں چائے ملے گی؟
انہوں نے واعظہ سے پوچھا تو اس نے اثبات میں سر ہلا کر اشارے سے ویٹر کو بلا کر آرڈر دیا۔
ایک کپ چائے اور بل پلیز۔
تم نہیں پیئو گئ ؟
انکل نے پوچھا تو وہ سہولت سے سر نفی میں ہلا گئ۔
نہیں انکل چائے ذیادہ نہیں پیتی میں۔
اس کے کہنے پر وہ ہنکارہ بھر کے خاموش ہو رہے۔
ویٹر میز سمیٹ کر چلا گیا تو وہ اسکی جانب متوجہ ہوئے۔
بیٹا تم سوچ رہی ہوگی میں نے تمہیں کیوں بلایا؟
اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
بیٹا تم نور کو منائو سمجھائو کہ اپنا تعلیمی سلسلہ منقطع نہ کرے۔ جو بھی ہوا اس میں اسکا کوئی قصور نہیں تھا۔ مجھے اپنی بیٹی پر پورابھروسہ ہے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلیش بیک روک کر نور نے بات کاٹ دی۔۔
کیسے میرا کوئی قصور نہیں تھا؟ میرا قصور تھا۔ میں بھول گئ تھی کہ میں انجان ملک میں ہوں۔ جتنا تیس مار خان بن کر میں نے اس لڑکے کا اکائونٹ ہیک کرکے اسے پٹوایا کیا میں ایسا کرنے کا کبھی پاکستان میں سوچ بھی سکتی تھی؟
کبھی نہیں۔ یہاں مجھے کوئی جانتا پہچانتا نہیں اس بات پر اکڑ کر میں نے حد سے باہر نکل جانا چاہا۔ پنگے لے رہی تھی میں میری وجہ سے عزہ کتنی بڑی مصیبت میں پھنستے پھنستے بچی۔
مجھے کوئی شکایت نہیں تم سے نور۔ عزہ منمنائی
نہ ہو مگر اپنی نگاہ میں مجھے اپنا آپ چھوٹا لگ رہا ہے۔میرے ماں باپ نے مجھ پر بھروسہ کرکے یہاں میری ضد پر پڑھنے بھیجا اور میں یہاں پڑھائی پر سے دھیان ہٹائے پنگے لے رہی تھئ۔ تھا قصور میرا۔مجھے سزا ملنی چاہیئے تھی۔۔
اب اگر اسکو بتائوں کہ ثریا۔۔
واعظہ اسکی شکل دیکھتے سوچ رہی تھی۔۔
اور کیا کہا انہوں نے۔
نور کا انداز دوبدو سوال جواب کا تھا۔
واعظہ نے اپنے کندھے کے اوپر فلیش بیک چلا دیا
اب شکیل صاحب بول رہے تھے اور جواب یہاں نور فلیش بیل روک روک کر دے رہی تھی۔۔
مجھے نور سے کسی قسم کی کوئی شکایت نہیں میری بیٹی میرا مان میرا فخر ہے۔ مانا اسکی امی کا تربیت کا انداز اسکے دل میں کافی شکوے بھر چکا ہے مگر بیٹا نورمیری اکلوتی بیٹی ہے۔ بہت محبت کرتا ہوں اس سے۔ ورنہ بیٹا بیٹی دونوں دوسرے ملک میں پڑھ رہے ہیں اکیلے گھر میں ہم میاں بیوی کا وقت کاٹنا مشکل ہوجا تا ہے۔
رکو۔ نور نے فلیش بیک روکا۔
یہ کیا تم انکل کو۔رکو کہہ رہی ہو بدتمیز۔
عروج نے فورا ٹوکا۔
بابا کو نہیں روکا فلیش بیک روکا۔ پھر سر جھکا کر بولی
میں نے جیل میں اکیلا پن تنہائی کاٹتے بہت کچھ سوچا۔ ہمیشہ اپنی امی سے کم چاہے جانے کا شکوہ کرتی تھی ۔جو مجھے لگتا تھا بالکل سچ ہے مگر مانا وہ شائد بھائی کے مقابلے میں مجھ سے محبت میں ڈنڈی مار جاتی ہوں مگر ماں ہیں وہ میری بھی۔ جب ۔بخار ہوتا کبھی تو ساری ساری رات سرہانے بیٹھی رہتیں پڑھ پڑھ کر پھونکتیں۔کبھی مجھے خیال ہی نہیں آیا کہ یہ سب کرنے والی ماں بھی کبھی تھکتی ہوگی۔ دعائیں پڑھتے ہونٹ زبان خشک ہو جاتی ہوگی اور میں کیسا سکون سے سو جاتی تھی۔ ۔ وہ ٹرانس کی سی کیفیت میں جیل ہی جیسے خیالوں میں جا پہنچی تھی۔۔
۔جیل میں ایک سو تین بخار پر فرش پر دوا کھا کے لیٹی تھی تب احساس ہوا وہ نرم لمس وہ پیار بھری دعا کیسے بخار بھگا دیتی تھئ ۔۔۔
اس نے سسکی سی لی۔ جیل میں کروٹ بدلتے ہوئے۔۔آہجومہ کے خراٹے گونج رہے تھے۔ خشک ہوتے گلے کو تر کرنے کیلئے اس خود ہی اٹھنا تھا۔ زمین کا سہارا لیتی وہ دو ناکام کوششوں کے بعد ٹھنڈی دیوار کا سہارا لیکر اٹھ پائی تھی۔
کونے میں رکھے چھوٹے سے کولرکیساتھ رکھا اسکا گلاس۔
اس نے ڈولتے قدموں سے آگے بڑھ کر گلاس اٹھایا ۔ملگجے اندھیرے میں گلاس میں اسے کچھ تیرتا سا نظر آیا۔ گلاس یقینا گندا تھا۔ اس نے کولر سے تھوڑا سا پانی لیکر گلاس مل کر دھونا چاہا تبھی اسے یاد آیا۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اف اتنے برتن۔ ایک تو اتنے ڈھیر سارےلوگوں کو اکٹھے کسے کے گھر جانا نہیں چاہیئے۔جو مہمانداری کرے اسکا تیل ہی نکل جائے۔۔
اپنے کھانے کی پلیٹ واپس کچن میں رکھنے آئی تو کچن میں سنک میں پڑے برتن دیکھ کر موڈ خراب ہوگیا۔
امی توے پر روٹیاں ڈال رہی تھیں۔ اسے چڑتے دیکھا تو رسان سے بولیں
دوپہر کے بھی ہیں اور شام کی چائے کے بھی۔ تمہاری پھپو کے پاس نہ بیٹھو تو شکوہ کرتی ہیں کہ بھاوج بات نہیں کرتی۔کھانے کے برتن دھونے کا وقت نہیں ملا۔۔۔ میں تو رات کے کھانے پر روک رہی تھی مگر صبح بچوں کو اسکول جانا ہوتا ہے وہ رکی ہی نہیں۔
اچھا ہوا ورنہ اتنے ہی رات کے کھانے کے بھی برتن ہو۔جاتے میرے دھو دھو کے ہاتھ ٹوٹ جانے تھے۔
ناک چڑھاتی وہ نلکہ کھول کر شروع ہوگئ۔
پانی کی دھار آہستہ کرو۔ بیٹا پانی ضائع نہیں کرتے۔
امی نے فورا ٹوکا تو غبارے جتنا منہ پھلا کر اس نے پانی کی دھار دھیمی کردی۔
ابھی کوئی ماسی ہوتی نا میری جگہ تو فل ٹونٹی کھول کر دھوتی۔ ویسے میری جگہ ماسی کیوں نہیں؟ اب تو سب گھروں میں برتن دھونے کیلئے ماسی ہی ہوتی ہے بابا کی تنخواہ اتنی تو ہے کہ ہم بھی ماسی افورڈ کر لیں۔
اسکے ہاتھ اور زبان ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ امی نے روٹی اتار کر چولہا بند کیا ہاٹ پاٹ میں رکھ کر بندکرکے بولیں۔
ہاں مگر گھر میں ہوتا ہی کون ہے ہم تین لوگ۔ بس کبھی مہمان آجائیں تو ہی کام بڑھتا وہ ہم ماں بیٹی پھرتی سے کر لیتے ہیں۔وہ چمکار رہی تھیں۔
جائو تم اپنے بابا کو کھانا دے آئو باقی برتن میں دھو لیتی ہوں۔
امی نے کہا تو وہ شرمندہ سی ہوگئ
ارے میں تو یونہی بکواس کرتی ہوں آپ جائیں بابا کو کھانا دیں بس ابھی دھل جاتے ہیں تھوڑے سے ہیں برتن پھر ہم مل کر چائے پیتے ہیں۔
اس نے کندھے سے پکڑ کر امی کا رخ موڑتے ہوئے پیار سے انہیں بھیجا وہ سر ہلا کر کھانا دینے چلی گئیں۔
اتنے تھوڑے بھی نہیں۔
اس ڈھیر کو صابن لگاتے اس نے گہری سانس لی۔ سب برتنوں کو صابن لگا کر جیسے ہی ٹونٹی کھولنے لگی امی واپس کچن میں چلی آئیں۔
اف ہٹو تم ۔ فل ٹونٹی کھول کر دھوئوگی چلو چآئےچڑھائو پانی سے برتن میں نتھار دیتی ہوں۔
امی نے اسے ہٹا ہی دیا تھا سنک میں۔ ہاہ۔ وہ برا مان کر منہ بنا گئ
اتنا بھی پانی ضائع نہیں کرتی میں۔ خفا خفا سی کہتی وہ چائے کا پانی لینے لگی۔ مڑ کر دیکھے بنا چولہا جلانے لگی دیکھ لیتی تو حیران رہ جاتی بیٹی کو ڈانٹ کر پانی سے ہٹانے والی امی مسکرا کر پیار سے اسکا پھولا پھولا چہرہ دیکھ رہی تھیں۔ اسکو ڈانٹ کر ہٹانے کا مقصد صرف اسکی مدد کرانا ہئ نہیں بلکہ اسکو ٹھنڈے یخ پانی سے برتن دھو کر بیمار پڑنے سے بچانا تھا امتحان سر پر جو تھے۔ مگر تھیں تو خالص پاکستانی امی۔ پیار جتا تھوڑی سکتی تھیں۔وہ بھی بیٹئ کو۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ سو نخروں سے برتن دھوتئ تھی یا پیاز لہسن کاٹ دیا وہ بھی کرنے سے امی روک دیتی تھیں جب میرے امتحان ہوتے تھے ۔۔۔ اورپتہ ہے۔
نور لمحہ بھر کو رکی۔ اسکی آنکھوں میں پانی سا بھر آیا ۔۔
میں ساری ساری رات جاگتی تو رات میں کتنی ہی دفعہ آکر کبھی مجھے ٹوک کر سونے کا کہتیں تو کبھی چائے بنا کر دے جاتیں۔ میں کھانا پینا چھوڑ دیتی تھی کہ موٹی ہو رہی ہوں کیا کیا جتن کرکے مجھے بہلا پھسلا کرکھلاتی پلاتی تھیں۔کبھی تازہ جوس نکال کر لاتیں کبھی سالن پر سے تری نکال کر مجھے پچکارتیں کھا لو کچھ نہیں ہوگا۔ کپڑے بنوانے میچنگ دوپٹہ لینا اپنی مرضی سے کم پر بالکل نہیں ماننا۔ امی اپنی تھکن بھلائے میرے ساتھ بازار چل پڑتیں۔ ڈینم عبایا بنوانا ہے میرے ساتھ گھنٹوں انار کلی میں پھریں۔ جب تک مطلوبہ۔۔
وہ رو پڑی تھی ماں کو یاد کرکے۔ واعظہ عروج اور عزہ نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ پھر اپنا اپنا مگ اٹھا کر کافی کی چسکی لینے لگیں۔ ابھئ انکا بولنے کا وقت نہیں آیا تھا۔۔
فلیش بیک دوبارہ شروع ہوا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکیلے گھر میں ہم میاں بیوی کا وقت کاٹنا مشکل ہو جاتا ہے۔۔۔پھربھی میں نہیں چاہتا کہ وہ اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر واپس پاکستان چلی جائے میرے ساتھ۔ پچھلے تین چار دن میں میں نے اسکی یونیورسٹی کے چکر لگائے ہیں اسکے پروفیسروں سے بات کی ہے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ سے بات کی ہے پچھلے تین سمسٹروں میں اسکا جی پی اے اتنا اچھا ہے کہ وہ اسکی مدد کرنے کو تیار ہیں۔ اسے امتحان میں بیٹھنے کی اجازت مل جائے گی۔ اورجتنی وہ ذہین ہے ابھی امتحان میں مہینہ پڑا ہے ایکسٹرا کلاسز لگوا کر دیتا ہوں میں یہاں ٹیوٹر کا انتظام کروا دیتا ہوں۔ جو ہوا اسے ڈرائونا خواب سمجھ کر بھول جائے۔۔۔۔جو کچھ ہوا اس اسکے کوریا سے چلے جانے سے کوئی تعلق نہیں۔سچ بتائوں یہاں اتنا تعاون کیا پولیس نے کہ میں سوچنے لگا اگر خدا نخواستہ یہ سب پاکستان میں ہوا ہوتا تو کیا ہوتا۔ وہ یہاں محفوظ ہے بس ایک برے تجربے سے ڈر گئ ہے۔یہ وقت اس ڈر سے یہاں سے بھاگنے کا نہیں بلکہ خود کو مزید مضبوط کر کے مقابلہ کرنے کا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کس نے کہا میں اس واقعے کی وجہ سے ڈر کر بھاگ رہی ہوں۔ ؟
اپنے آنسو پونچھ کر وہ ایکدم تیز سی ہو کر بولی
اگر یہ سب پاکستان میں ہوا ہوتا تو ڈر کر بھاگ آتی میں کوریا مگر کوریا سے پاکستان واپس جانے کا فیصلہ میں نے بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے۔ یہاں پر کیا کچھ نہیں سہنا پڑا ہے مجھے دوران تعلیم۔ انٹرنیشنل اسکول ہے پھر بھی اساتذہ انگریزی کی بجائے ہنگل میں پڑھاتے جاتے ہیں۔کچھ بولوتو جواب ملتا ہنگل سیکھو۔ تعصب اتنا ہے کہ عبایا دیکھ کر میرے ساتھ کوئی بیٹھنے کو تیار نہیں ہوتا۔ان ڈیڑھ سالوں میں ایک دو لڑکیوں سے تھوڑی بہت زبردستی دوستی کی بھی تو ان دونوں نے بوائے فرینڈز بنا لیئے ہیں کلاس ختم ہوتے ہی بھاگ جاتی ہیں اپنے بندوں کے پاس۔
اسکے شکوے پر واعظہ اور عروج نے ایک دوسرے کو دیکھ کر بمشکل ہنسی ضبط کی ۔جبکہ عزہ سر ہلا رہی تھی
میری بھی جاپانی دوست نے بوائے فرینڈ بنایا ہے کورین۔ دونوں کو ایک دوسرے کی بات بھی سمجھ نہیں آتی اور شکل اتنی ملتی گرل فرینڈ بوائے فرینڈ سے ذیادہ بہن بھائی لگتے ہیں۔
عزہ نے اتنی سادگی سے بتایا کہ تینوں قہقہہ لگا کر ہنس دیں۔
سچ کہہ رہی ہوں۔ عزہ برا مان گئ۔ اسے لگا تینوں کو یقین نہیں آیا۔
ویسے کورین فارن لینگوئج پڑھتے ہیں تھوڑئ بہت چینی تو سکھائی جاتی ہے ہائی اسکول میں۔ ہم ۔۔
واعظہ کوئی قصہ سنانے لگی تھی مگر نور کو کینہ توز نگاہ سے گھورتا دیکھ کر سر کھجانے لگی۔
تم اپنی بات پہلے مکمل کر لو۔
واعظہ نے کہا تو وہ سر ہلا کر سلسلہ کلام جوڑنے لگی۔

میں اگر کوئی سوال پوچھ لوں تو سیدھا مزاق اڑاتے ہیں کہ پھابو کو اتنا نہیں پتہ۔ اوپر سے اس کمینے جس کی وجہ سے یہ ساری مصیبت مجھ پر آئی پوری کلاس میں جس طرح میرے اسٹیشن پر گندی ویب سائٹ کھول کر مجھے شرمندہ کیا تھا اسکو جتنا بھی بھلا دوں مگر میرے پیٹھ پیچھے کبھی میرے سامنے میرے کلاس فیلو مجھے بے چھن بو کہہ ڈالتے ہیں۔
매춘부( مشکوک کردار کی لڑکی)
کیا۔ عروج واعظہ عزہ تینوں کے منہ سے کافی نکلی تھی۔
شائد غلط وقت تھا گھونٹ بھرنے پر۔
آخ۔۔ نور گھنیا سی گئ۔ اسکے اوپر چھینٹے آئے تھے۔ واعظہ تو بالکل سامنے بیٹھی تھی اسکے۔۔
چھوٹی میز کی دراز سے ٹشو نکال کر بھی اسی نے دیا۔ وہ چہرہ پونچھنے لگی۔
تم نے ہمیں پہلے کیوں نہیں بتایا منہ توڑ دیتے ہم
عزہ نے آستین چڑھائی۔
کوئی یونیورسٹی میں ہونے والی بلنگ کا کچھ اکھاڑ سکتا ہے بھلا؟
نور نے جتایا ۔ بات تو سچ تھی
خیر اب ہم واقعی اسکی یونیورسٹی جا کر انکے منہ تو نہیں توڑ سکتے تھے۔مگر تم ایسی کسی چیز کی شکایت اپنے ڈیپارٹمنٹ میں کر سکتی تھیں۔
واعظہ ٹشو رول میز کی دراز سے نکال کر میز صاف کرتے بولی۔
اسکول کالج یونیورسٹی میں بلنگ پاکستان میں بھی ہوتی ہے۔
ایسے ہی بتا رہی ہوں۔
عروج نے کندھے اچکائے۔
کم از کم بھی پانچ وجوہات ہیں واپس جانے کی پہلی زبان بالکل الگ ہے یہاں رہناتو ہنگل سیکھو اتنئ مشکل زبان ہے حلق میں خراشیں پڑ جائیں صحیح تلفظ میں بولنے ہر۔ ،
دوسرا وہاں بابا خود اسکول کالج چھوڑنے لینے آتے یہاں بس میں لٹک کر جائو وہ بھی لیڈیز کو بٹھانے کا رواج ہی نہیں یہاں نہ ہی الگ الگ حصے ہوتے خواتین اور مردوں کے۔
تیسرے اچھے کھانے کو۔ترس گئ ہوں ہر وقت سبزیاں کھائو باہر جائو تو بس حلال حرام کرتے رہو۔۔
چوتھا سردیاں جاتی ہی نہیں یہاں سے ہر وقت گھر میں بند رہو باہر انکے حساب سے گرمیوں میں بھی ٹیمپریچر 25، 26 ہوتا ہم اے سی کو اتنے پر چلاتے ہیں۔
پانچواں پورا سمسٹر ایک مہینے میں بنا مڈز دیئے کلیئر کرنا آسان بھلا؟
تم فریز کرا لو اگلے سمسٹر سے باقائدہ پڑھائی کرلینا ایک ڈیڑھ مہینے کا ہی تو گیپ پڑے گا۔
عزہ نے سمجھانا چاہا۔ عروج اور واعظہ اسے بغور دیکھ رہی تھیں۔
یہ پانچوں وجوہات بودی ہیں۔تم ڈیڑھ سال سے یہاں رہ ر ہی ہو اسی سب کے ساتھ اور پورے چار سال مکمل کرنے کا ارادہ تھا تمہارا۔۔
عروج کہے بنا نہ رہ سکی۔ واعظہ کا انداز ایسا ہی تھا جیسے اسے عروج سے مکمل اتفاق ہو۔
۔میں۔۔۔۔وہ کہتے کہتے ایکدم چپ ہوگئ۔
وہ تینوں بھی چپ ہو کر اسکو دیکھنے لگیں۔
میں سچ مچ اس واقعے کی وجہ سے ڈر کر بھاگ رہی ہوں۔
اس نے جیسے تھک کر اعتراف کیا۔
میں اکیلے نہیں رہ سکتی۔مجھے امی بابا بہت یاد آرہے ہیں۔ میں انکے بغیر نہیں رہ سکتی کہیں۔۔ مجھے احساس ہوگیا ہے اس بات کا۔پھر یہ سب پریشانیاں کیوں سہوں ؟ وہاں کچھ بھی تھا ایسا سلوک نہیں ہوا کبھی میرے ساتھ۔ کم ازکم ۔۔۔۔۔۔اور یہاں آنے پڑھنے کا کوئی شوق نہیں تھا مجھے۔ صرف امی بابا کو جتانے کیلئے فیصلہ کیا تھا۔ یہ سوچے بنا کہ وہ اکیلے کیسے رہتے ہونگے۔۔ امی بابا دونوں اداس ہیں مگر اپنے بچوں کے مستقبل کیلئے اسکا اظہار نہیں کرتے۔ بھائی کو ابھی بھی دو تین سال لگیں گے واپس آنے میں۔ تب تک کم از کم مجھے تو انکے پاس ہونا چاہیئے انکا خیال رکھنا چاہیئے۔ میں بیمار ہوتی تھی تو امی ساری رات سرہانے بیٹھی ہوتی تھیں مگر میں نے تو کبھی امی کی خدمت ایسے نہیں کی۔ امی سے جب بات ہوئی وہ صرف میری خیریت پوچھتی رہیں روتی رہیں۔مجھے اپنا خیال رکھنے کو کہتی رہیں ایک بار بھی نہیں کہا بس واپس آجائو۔۔۔۔بابا بتاتے ہیں اب وہ بہت جلد تھک جاتی ہیں۔بی پی بھی ہائی رہنے لگا ہے۔کون خیال رکھتا ہوگا انکا۔ بابا دفتر ہوتے ہیں وہ سارا دن اکیلی رہتی ہیں بہت۔ خاموش ہو گئیں ہیں میں جب گھر میں ہوتی تھی تو سارا وقت بک بک کرتی تھیں انکے آگے پیچھے پھرتی سارے دن کی روداد سناتی تھی مگر جب سے یہاں آئی ہوں ہفتے ڈیڑھ میں ایک دفعہ بھی فون پر بات کرتی تو بات ختم کرنے کی جلدی لگی رہتی تھی یونی جانا کام کرنا یہ کرنا وہ کرنا بعد میں بات کرتے ہیں۔یہ بعد آئی ہی نہ پھر تو؟۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طوبئ کی آنکھ کھلی تو چند لمحے سمجھ نہ آیا کہاں ہے۔
چکراتے سر کو سنبھالتی اٹھنے لگی تو دلاور نے نرمی سے اسکا بازو تھاما۔
کیا ہوا کچھ چاہیئے۔ ؟
بیڈ پر ملگجے اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ کر دیکھتے ہوئے اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
میں لاتا ہوں۔
فورا کمبل ایک۔طرف کرتے وہ اٹھ گئے سائیڈ لیمپ جلا کر وہ شائد کچن سے پانی لینے گئے تھے۔
اف۔ مجھے بالکل یاد نہیں میں کب بستر پر آئی کب سوئی۔ زینت صارم گڑیا جانے کیسے سوئے ہوں گے کتنا تنگ کیا ہوگا دلاور کو۔
ذرا سا ہوش آتے ہیں اسکے اندر کی ماں تڑپ سی اٹھی۔ وہ فورا کمبل اتارتی اٹھنے لگی تبھی دلاور پانی کا گلاس بھرے لے آئے
ارے کیوں اٹھ رہی ہو میں لا تو رہا تھا پانی۔
انکا انداز اتنا نرم اتنا اجنبی تھا کہ طوبی انکا بڑھایا ہوا گلاس تھامنے کی بجائے انہیں ٹکر ٹکر دیکھتی رہ گئ۔
لو نا۔ اسے گم صم دیکھ کر انہوں نے ٹوکا تو وہ گڑ بڑا کر گلاس تھام کر غٹا غٹ چڑھا گئ۔
یہ دس سالہ شادی شدہ زندگی میں میرا پہلا گلاس پانی ہے جو میں نے اپنی بیوی کو پلایا۔
دلاور سوچ کر شرمندہ سے ہوگئے۔۔
وہ میں۔
وہ سر کھجاتے ہوئے صفائی دینا چاہ رہی تھی۔
ہاں مجھے پتہ ہے نور اور عزہ نے بتایا تھا کہ تمہاری طبیعت خراب ہوگئ تھی ۔ یہ کورین جانے کیا الا بلا بناتے ہیں ہم دیسی لوگوں کا معدہ کہاں سہار سکتا یہ سب۔ الٹیاں کرکے بالکل ہی بے دم ہوگئ تھیں تم تو۔ اب بتائو بھوک لگی کچھ کھائو گی؟
دلاورنرم سے انداز میں سہولت سے اسکے برابر بیٹھ کر بتانے لگے۔
وہ بچے۔۔ انہوں نے ۔۔۔۔ سوگئے؟
تینوں سکون سے سو رہے ہیں کھانا کھلا دیا تھا میں نے۔ صارم زینت کے پاس سو گیا تھا آرام سے اسے پھر میں یہاں لے آیا سو رہا ہے کاٹ میں ۔ انہوں نے بیڈ کے پاس رکھے کاٹ کی جانب اشارہ کرکے بتایا ۔
اب بتائو کیا کھائو گی؟
وہ اسکی آنکھوں میں جھانک رہے تھے۔
اس نے نگاہ چرا لی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں کہنیاں کائونٹر پر ٹکائے ہتھیلیوں میں چہرہ سجائے بڑی پیار بھری حیرت سے اپنے میاں کی پھرتیاں دیکھ رہی تھی۔ مسور کی دال ابل رہی تھی ایک جانب تڑکے کیلئے لہسن زیرہ گھی میں گرم ہو رہا تھا۔ رائس ککرمیں چاول پکنے پر لگا کر وہ سلاد کیلیے کھیرے نکالنے لگے۔ تو اس سے رہا نا گیا
لائیں میں بنا دیتی ہوں سلاد۔
طوبئ نے آگے بڑھ کر چھری انکے ہاتھ سے لینی چاہی تو وہ سہولت سے اسے پرے کر گئے
آج کہا نا میں سب بنائوں گا آج دعوت ہے تمہاری میری طرف سے۔
دعوت؟ طوبی ہنسی۔
کوئی دعوت میں دال چاول کھلاتا ہے بھلاکسی کو؟
اس نے منہ پھلایا۔
اب یہ تمہاری غلطی ہے وقت پر بتاتی نہیں ہو اب چکن وگوشت ختم ہوگیا تھا تو سودے کی فہرست بنا کر رکھنی چاہیئے تھی نا۔ گھرآیا ہوں تو کھانا پکا ہونا تو دور پکانے کیلئے کچھ تھا بھی نہیں۔ بچوں کو تو حلال ریمن سے بہلا دیا مگر اتنی بھوک میں بنا کھانا کھائے میرا تو گزارا نہیں ہو سکتا۔اور یہ میرا اپر پھر بنا جیبیں دیکھے بغیر دھو ڈالا؟
پھوہڑ ہی رہنا تم۔
اگر وہ کچھ گھنٹوں پہلے والے دلاور ہوتے تو یقینا یہی سب کہتے۔
مگر ان چند گھنٹوں میں بہت کچھ بدل گیا تھا۔
پکا وعدہ اگلی دفعہ بریانی بنا کر کھلائوں گا۔ ابھی بھی رات کے دو نہ بجے ہوتے تو باہر جا کر سودا لیکرآتا اور پکاتا۔
انہوں نے مسکرا کر کہا تو طوبی کی آنکھیں کھل سی گئیں۔
آپکو بریانی بنانی آتی ہے؟
نہیں۔جواب حسب توقع تھا۔
مگر مجھے دال چاول کونسا بنانے آتے تھےتم سے پوچھ پوچھ کر ہی۔بناتا جیسے یہ بنا رہا ہوں۔
وہ ہنسے طوبی بھی ہنس دی۔۔۔
آج تو بہت مستی میں ہیں پتہ نہیں کل سورج نکلے گا بھی کہ نہیں میں خواب تو نہیں دیکھ رہی۔
دلاور کو موٹی موٹی سلاد کاٹتے دیکھ کر طوبی نے سوچا۔تھا۔
شکر ہے انہیں پتہ نہیں لگا کہ آج میری طبیعت خراب کیوں ہوئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عزہ اور نور کو کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ طوبی میز پر سر رکھے شائد سو گئ تھئ اور دلاور چلتےہوئے انکے پاس آئے آپ لوگ یقینا سامنے والے فلیٹ میں رہتی ہیں ہمارے؟
جج۔جی میں عزہ ہوں یہ نور ہے۔
عزہ گڑ بڑا کر تعارف کرانےلگی
طوبی کے پاس چابی ہوگی یقینا گھر کی میں ٹیکسی کرا دیتا ہوں۔
وہ کہہ کر موبائل نکالنے لگے تھے
وہ ہم نے کرا لی ہے بس ہم گھر کے لیئے نکلنے لگے تھے۔ آپ اگر ہمارے ساتھ
نور نے کہا تو وہ سہولت سے انکار کرنے لگے
نہیں مجھے اس وقت کہیں جانا ہے۔ آپ لوگوں کو کوئی مسلئہ تو۔۔۔
وہ ایک۔نظر طوبی کو دیکھ کر قصدا بات ادھوری چھوڑ گئے
نہیں بالکل نہیں ۔ وہ ہم چلے جائیں گے آپ اپنا کام کر لیں۔
نور نے کہا تو وہ سر ہلا کر پلٹنے لگے۔۔ پھر کچھ خیال آیا۔
آپ۔لوگ میرا ذکر مت کیجئے گا کہ میں یہاں ملا ہوں طوبی سے۔۔
انکی ہدایت پر زور و شور سے ان دونوں نے سر ہلایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں طوبی کو سہارا دے کر اسکے فلیٹ میں لائیں۔
میرا سر گھوم رہا ہے میں مرنے لگی ہوں کیا۔
سر دونوں ہاتھوں میں تھامتی طوبی نے بہت معصومیت سے پوچھا تھا۔۔
اللہ نہ کرے طوبی ۔۔ عزہ تڑپ کر بولی۔۔
ماما کو کیا ہوا۔
زینت گھبرا رہی تھی ۔۔ ان دونوں نے سہارا دے کر اسے لائونج کے صوفے پر۔بٹھایا تھا مگر وہ لڑھک کر سو گئ تھی۔
اوہ ۔۔ دونوں آگے بڑھی تھیں مگر وہ بے نیاز تھی۔
ماما۔۔زینت بس رونے کو تیار ماں کو ہلا رہی تھی۔۔
کچھ نہیں ہوا بس ابھئ پاپا آتے ہوں گے تم لوگوں کے پریشان نہ ہو۔ نور نے تسلی دی تو وہ سر ہلانے لگی۔
ویسے ماننے والی بات ہے طوبی کی نظریں عقاب جیسی تیز ہیں سچ مچ دلاور بھائی تھے اس کیفے میں ۔۔
نور نے کہا تو عزہ نے جھٹ یاد دلایا۔
انہوں نے منع کیا ہے طوبی کو انکی موجودگی کے بارے میں بتانے سے۔۔
مجھے نہیں پتہ تھا طوبی سے اتنا ڈرتے ہیں دلاور بھائی۔
نور نے کندھے اچکائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلاور کو نہ بتانا میں نے غلطی سے شراب پی لی ہے۔
بچوں کو انکے کمرے میں لٹا کر کمبل درست کرکے وہ لائونج میں آئے تھے۔ طوبی کا۔کندھا ہلا کر جگانا چاہا تو وہ کسلمندی ہلی جلی مگر پھر انہیں عزہ یا طوبی سمجھتے ہوئئ خوفزدہ سے انداز میں سرگوشی کرنے لگئ۔۔ آنکھیں میچ میچ کر کھولنے پر بھی منظر دھندلا ہی رہا تھا۔
انکو ہنسی آگئ ۔
اٹھو طوبی شاباش۔ انہوں نے ہلانا چاہا مگر اسکے اگلے جملے سے انکی ہنسی پھیکی پڑگئ۔
جان نکال دیں گے وہ میری۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لائیں میں کاٹ دوں۔۔
طوبی سے رہا نہیں گیا آگے بڑھ کر انکے ہاتھ سے چھری لینی چاہی تو وہ دانستہ ڈپٹ کر بولے
پتہ ہے بہت سگھڑ ہو تم مگر آج جب میں سب کام کر رہا ہوں تو تم بالکل ہاتھ نہیں لگائو گی سمجھیں۔۔
وہ ڈانٹ رہے تھے مگر انداز پر طوبی کو ہنسی آگئ۔
اچھا بھئ آج سب کچھ آپ کریں میں آرام سے بیٹھوں گی۔
وہ شاہانہ انداز میں کہتی واپس اپنی جگہ پر بیٹھ گئ۔
کھانا بنا کر اسکے سامنے سرو کرکے جب انہوں نے وقت دیکھا تو تین بج چکے تھے۔ زرا سا کھانا پکاتے گھنٹہ کیسے گزرا نہیں پتہ۔ اسے واقعی بھوک لگ رہی تھی فورا دال چاول نکال کر پلیٹ میں شروع ہو گئ۔
کیسا بنا ہے۔ انکے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
کتنی معصوم سی خواہش ہے نا کیسا بنا اتنی محنت سے بنا ہے تھوڑی سی ستائش کی خواہش فطری ہے شائد۔
بہت مزے کا۔ زبردست
اس نے فراخ دلی سے کہا۔وہ خوش سے ہوگئے
کیسا بنا؟
طوبئ اشتیاق سے پوچھ رہی تھی
کھا تو رہا ہوں ٹھیک ہے۔ چائے چڑھا دو سر میں درد ہورہا۔
انکو اپنا بے نیازانہ انداز یاد آیا۔
اچھا۔ وہ کھانا چھوڑ کر چائے کا پانی رکھنے اٹھ گئ۔

زندگی میں یہ چھوٹے چھوٹے سے روئیے یا تو دلوں میں گہری محبت جگا دیتے یا گہرا خوف جاگزیں کر جاتے اور زندگی کے ساتھی کم از کم آپ سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیئے۔
آج طوبی کی باتوں نے جو شائد وہ ان سے عام حالات میں زندگی بھر نہ کہتی مگر آج بے ہوشی میں کہہ ڈالا انہیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔اب یقینا آگے کی زندگی میں طوبی کو ان سے ایسی شکایت نہیں ہوگی انہوں نے مصمم ارادہ باندھا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *