Desi Kimchi Episode 58

Desi Kimchi Urdu Novels

قسط نمبر 58
یہ ۔۔۔۔ واعظہ نے آگے بڑھ کر انکو سیدھا کیا۔ انکے سر پر سے ہلکا ہلکا خون نکل رہا تھا ۔ اسکے ہاتھ خون سے بھر گئے۔ وائپر تھامے فاطمہ بالکل ساکت کھڑی تھی۔ اسکو اپنی فوری ردعمل دکھانے کی اچھی خاصی بڑی سزا ملی۔تھی۔
کیا ہوا۔ بے ہوش ہو۔گئے۔ عروج تیزی سے آگے بڑھی
عزہ میری فرسٹ ایڈ کٹ لائو۔
اس کا جملہ مکمل ہونے سے قبل ہی عزہ اندر دوڑی۔تھی۔ وہ آنکھیں دیکھ رہی تھی۔
ایکدم خاموشی چھانے پر طوبی دہل سی گئ۔ تیزی سے دروازہ پورا کھولتی بھاگتی ہوئئ آئی تھی۔ سامنے بے ہوش پڑے دلاور اور انکو اٹھاتی۔
دلاور۔ وہ بری طرح گھبرا کر انکو ہٹاتئ آئی۔ دلاور۔ اس نے اکڑوں بیٹھ کرانکو اٹھانے کی کوشش کی۔
عروج نے روکنا چاہا مگر وہ بہت ذیادہ گھبرائی ہوئی تھی
کوئی 911 کو فون کرو کیا کردیا اب تم لوگوں نے۔۔ بولتے ہوئے اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔ فاطمہ نے گھبرا کر واپیر پیچھے کیا۔ مگر طوبئ کی نظر پڑ گئ۔
تم نے ان کو مارا۔۔۔۔ کیوں۔؟ وہ۔کوئی چور ڈاکو تھے جو تم نے اتنی بے رحمی سے مارا۔ وہ تو چیخ و پکار سن کر۔ مدد کرنے۔۔
اسکی غصے کے مارے آواز پھٹ رہی تھی
۔ میری غلطی ہے مجھے انہیں بھیجنا نہیں چاہیئے تھا۔وہ بے تحاشا رو پڑی۔
طوبی معمولی چوٹ ہے۔ریلیکس آپکی طبیعت خراب ہو۔جائے گئ۔
واعظہ نے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دینی چاہی اس نے ہاتھ جھٹک دیا۔ طوبی دیوانئ سی ہوئی تھی۔ دلاور کو بار بار اٹھنے کا کہتئ۔
دلاو راٹھ جائیں پلیز۔ میں سب کچھ بتا دوں گی ویسا نہیں جیسا آپکو ۔۔ اٹھ جائیں۔ وہ بلکنے لگی تھی۔ عشنا دوڑ کر پانی لینے بھاگی۔ فاطمہ وائپر دیوار سے لگا کر اپنا فون ڈھونڈنے لگی
عزہ فرسٹ ایڈ باکس لے آئی تھئ۔عروج نے واعظہ کو اشارہ کیا ۔۔ اس نے سر ہلایا۔ وہ طوبئ کے بالکل پیچھے ہو کر بیٹھ گئ اپنے بازو بھی پھیلا لیئے
عروج نے اسپرٹ سے زخم صاف کیا ہی تھا کہ دلاور کراہے۔۔ انہیں شائد ہو ش آرہا تھا۔
ہاتھ مت لگائو ایمبولنس بلائو میں خود انکو اسپتال لیکر جائوں گی۔
طوبی نے عروج کو بھی پرے کردیا۔
طوبی دیکھنے تو دیں۔ عروج منمنائئ
ہمیشہ تم لوگوں کی جب جب مدد کرنی چاہی ہے میرے شوہر کو تم لوگوں نے اسپتال پہنچا کر دم لیا ہے۔ اب کچھ نہیں کرنا تم لوگ دو رہٹو۔پاس مت آنا انکے۔
طوبئ پر کوئی جزباتئ حملہ ہوا تھا۔ چلا چلا کر بولتے وہ کف اڑانے لگی تھئ۔ دیکھتے ہی دیکھتے تیورا کر پیچھے کو گری واعظہ نے اپنی جان لگا کر اسکو خود پر لے لیا سر دیوار میں نہ لگنے دیا۔۔
دلاور سر پکڑتے اٹھ کر بیٹھنے لگےانکا زخم دیکھتی عروج نے سرعت سے مریض بدلا۔ استھیٹسکوپ کانوں سے لگاتی بی پی اپریٹس اٹھا کر طوبی کی۔جانب بڑھی
بی پی شوٹ کر رہا ہے انکا فوری اسپتال لے جانا پڑے گا۔
واعظہ ایمبولنس کو کال کرو۔
عروج اسکی آنکھیں چیک کرتے ہوئے گھبرا کر بولی
بلا لی ہے۔ایمبولنس۔۔
طوبی۔ دلاور اپنا سر بھول کر طوبی کی۔طرف لپکے تھے۔
کیا ہوا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بر وقت طوبی کو طبی امداد مل۔گئ۔تھی۔ ورنہ خدانخواستہ۔کوئی بڑا نقصان بھی ہو سکتا تھا۔۔طوبی کو چوبیس گھنٹے انڈر آبزرویشن رکھنا تھا۔ اسے روم میں شفٹ کروانے واعظہ اور فاطمہ گئیں تو عروج دلاور کے سر پر ٹانکے لگوانے لے گئ۔
فاطمہ نے اپنی جان لگا دی تھی جبھی وائپر نے انکے سر پر گہرا زخم کر دیا تھا۔ چار ٹانکے آئے اور انکو بھی دوا دے کر سلا نے کا مشورہ دیا گیا۔
طوبی کو پرائیوٹ روم شفٹ کروا کر وہیں ایک صوفے پر تکیہ کمبل۔دے کر دلاور کو سونے کیلئے لٹوا دیا۔
عزہ بچوں کو دیکھ لے گی آپ لوگ فکر نہ کریئے گا۔
عروج کو یہ سادہ سا جملہ۔کہتے بھی ٹھیک ٹھاک شرمندگی ہوئی تھی۔
طوبی بہت جزباتی ہو گئ تھی اگر اس نے کچھ الٹا سیدھا کہہ دیا ہے میں آپ سے معزرت چاہتا ہوں۔
دلاور کے کہنے پر ان تینوں نے سٹپٹا کر ایک دوسرے کی شکل دیکھی۔ فاطمہ نے تھوک نگلا پھر ایک قدم آگے ہو کر ٹھہر ٹھہر کرکہنے لگئ۔
میں بھی معافی چاہتی ہوں۔ مجھے اتنا بنا سوچے سمجھے ردعمل نہیں دینا چاہیئے تھا۔ میری وجہ سے آپکو طوبی کو۔اتنی تکلیف اٹھانی پڑی۔۔ آئیم رئیلی ویری سوری۔۔
وہ شکل سے اتنی شرمندہ نظر آرہی تھی کہ جیسے ابھی رو دے گئ۔
دلاور متانت سے مسکرا دیئے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ تینوں کافی کے مگ لیئے داخلی کاریڈور میں چلی آئیں۔ باہر سورج نکل چکا تھا ہلکی ہلکی دھوپ۔ شفٹ تبدیلی کا وقت تھا یہاں خوب چہل پہل تھی۔ تاز دم چہرے تیار شیار ڈاکٹر نرس و دیگر اسٹاف اس میں یہ تینوں۔ تینوں رات کے ڈھیلے ڈھالے ٹرائوزر شرٹ میں ملبوس تھیں جو ٹھیک ٹھاک ملگجے ہو رہے تھے۔ ایمبولنس کے ساتھ تیزی سے نکلتے وقت جس کو جو کارڈیگن ہڈ شال ملی اوڑھ لی عروج نے اپر کا ہڈ سر پر چڑھایا تھا اور ماسک پہن رکھا تھا مگر ان دونوں کے چہرے رت جگے کے سب آثار دکھاتے ستے ہوئے تھے آنکھیں بھی سرخ ہو رہی تھیں۔
ویٹنگ ایریا کے بنچ پر بیٹھے جب آتے جاتے لوگ ان تینوں کو لا علاج مرض میں مبتلا مریض سمجھ کر تاسف سے دیکھ کر گزرنے لگے تو فاطمہ چہرے پر ہاتھ پھیر کر آنکھیں مسلنے لگی ۔۔
تم جائو تمہیں پیکنگ بھئ کرنی ہوگی۔ میں رکتی ہوں یہاں۔
صبح کے سات بجنے کو تھے ۔ عروج نے بڑی سی جمائی لی۔ اگر ماسک نہ ہوتا تو حلق میں لٹکتا کوا تک نظر آتا۔
سات بجے پیکنگ تو کیا کرنی تھی سر میں درد ہو رہا تھا سونا چاہ رہی۔تھی سو مروتا بھئ انکار نہ کیا۔
ٹھیک ہے۔ پھر میں چلتی ہوں۔ عروج نے کہا تو واعظہ
میں بھی چلتی ہوں آٹھ بجے ای جی آ کو پک کرنا ہے۔
واعظہ نے گھڑی دیکھی تو وہ بے چاری سی شکل بنا کر بولی۔
تم تو نا جائو میں اکیلی کیسے۔ اور دیکھا تھا نا طوبی کو کیسے خونخوار نظروں سے گھورا تھا مجھے۔ میں نے انکے میاں کو اس حال میں پہنچایا ہے میری تو شکل دیکھ کر انکا بی پی دوبارہ بڑھ جائے گا۔
ہاں تو غلطی تمہاری ہی ہے۔ میں نہیں گئ دفتر تو ای جی آ مجھے کھا جائے گی۔ طوبی شائد تم پر رحم کھا کے ای جی آ نے تو میرا خون پی جانا ہے۔ اسکا ایک ایک منٹ پلانڈ ہے۔
واعظہ کی اپنی مجبوری تھی۔ فاطمہ نے بے چارگی سے دونوں کو دیکھا تبھی سامنے عروج کی۔نظر سامنے ریسپیشن پرکھڑے دلاور اور طوبی پر نظر پڑی۔۔ وہ شائد چیک آئوٹ کروا رہے تھے۔واعظہ انکی جانب بڑھنے کو تھی کہ عروج نے ہاتھ پکڑ کر روک لیا۔
چیک آئوٹ کروا کر طوبی اور دلاور اسپتال سے سیدھا باہر نکل گئے تھے۔
چلو پھر اب ہم بھی گھر چلتے ہیں۔ واعظہ نے گہری سانس لیکر کہا تبھی اسکا فون بج اٹھا۔۔ نامعلوم نمبر تھا۔
اس نے فون اٹھایا۔۔
یوبوسیو۔
ہیلو واعظہ ؟ بیٹا ہم لوگ گھر جا رہے ہیں طوبی کو۔ہوش آگیا ہے۔ آپ لوگ فکر مند نہ ہونا۔ آپ لوگ گھر چلی گئ ہو۔نا؟ میں آپکو اسپتال میں ڈھونڈ رہا تھا پر ملے نہیں۔میں نے ریسیپشن پر پیغام بھی چھوڑا تھا۔
جی۔
واعظہ اور کیا کہتی۔ گہری سانس لیکر کررہ گئ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیٹ پر پہنچ کر بھی اسکا موڈ سخت خراب تھا۔ صبح کی شفٹ میں شوٹنگ تو اتنی ہی ہوتی تھی مگر پھٹیک بہت ذیادہ ہوتی تھی۔ دن کے وقت سب جیسے فل چارج ہو کر پھرتے تھے۔ ایسے ایسے کام اس سے کہے جاتے تھے کہ دل کرتا تھا انکے سر پر بھی وائپر بجا دے۔ ابھی بھی عبداللہ کو بلیک کافی اور لیلی کو ملک کافی چاہیئے تھی۔ دونوں کیلئے وہ کافی بنا کر لائی مگر دیتے وقت گڑبڑ کر دی عبداللہ کو ملک کافی اور لیلی کو بلیک کافی دے دی۔ عبداللہ نے تو صبر شکر کرکے پی لی مگر لیلی نے پہلا گھونٹ بھرتے ہی الٹی کی۔
یہ۔کیا ہے ؟ اس نے پیپر کپ کا ڈھکن اٹھا کر اندر جھانکا پھر منہ بنا کر اس سے کہا۔
کافی ہے اور کیا۔ وہ ویسے ہی آج تپی ہوئی تھی۔ جوابا لیلی مے بحث کی بجائے کپ اسی کو تھما دیا۔ ۔لڑکے تو جھوٹا موٹا پی ہی لیتے اس نے ڈھکن لگا کر لپ اسٹک کا نشان صاف کیا اور یہ کپ عبداللہ کو دینے چل دی۔ عبداللہ کا میک اپ چل رہا تھا کپ سامنے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا تھا ۔ اس نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا یقینا اس نے پی ہی نہیں ہوگی۔ خوشی خوشی اسکا کپ سامنے رکھ کر پہلے سے رکھا کپ اٹھایا ۔
میں نے بلیک کافی کہا تھا ویسے۔ مجھے میک اپ سے دیر ہو رہی تھی سو ابھی تو پی لی مگر آئندہ مجھے بلیک کافی ہی لا کر دینا۔
عبداللہ نے اچٹتی نگاہ ڈالتے ہوئے اس کو کہا۔ اسکو اسکی شستہ عربی خاک سمجھ آتی الٹا اردو میں اس پر بگڑی
ندیدے جب پسند ہی نہیں تھی تو کافی ختم کرنے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔ اب مجھے پھر تیسرے فلورکا چکر لگانا پڑےگا۔۔
بڑ بڑ کرتے کپ اٹھا کر تن فن کرتی ڈریسنگ ایریا سے نکلی۔۔
انکی عربی کتنئ اچھی ہے ان عربی اداکاروں سے بہتر عربی بول گئ ہے۔ لہجہ سننے میں اسکا ذیادہ اچھا ہے۔
اسکے بالوں کا ہیئر اسٹائل بناتے اس چندی آنکھوں والے میک اپ آرٹسٹ نے اپنے برابر دوسرے اداکار کا میک اپ کرتے میک اپ آرٹسٹ کو کہا۔
جوابا وہ بھئ سر ہلانے لگا۔
انکی زبان تو مختلف سی ہے سننے میں یہ لڑکی اگر ہنگل میں نہیں بولی تو کس زبان میں بول کے گئ ہے۔ اور بولی کیا ہے؟
عبداللہ الگ بڑبڑایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم یہاں کیا کر رہے ہو؟
کھاوا ڈسپنسر سے گرم پانی مگ میں ڈال رہا تھا جب وہ پیچھے سے آکر بولی۔ کھاوا اچھل پڑا۔
کافی بنا رہا ہوں پیئو گئ؟
اس نے دو بن ہاتھ میں لیئے ہوئے تھے ایک اسے تھما دیا۔
ہاں۔۔ مختصر جواب وہ مسکرا کر دوسرا مگ اٹھانے لگا
فاطمہ منہ بنا کرکونے سے اسٹول گھسیٹ کر بیٹھ گئ۔ یہ والے بن اسے بھئ کافی پسند تھے سو مروتا بھی انکار نہ کیا
ہم لوگوں کو کیسا چھوٹا کچن دے رکھا ہے باقی اسٹاف کا کتنا بڑا کیفے ہے۔
اسے اب کچن کے چھوٹا ہونے پر اعتراض تھا
ایک تو باقی سب مستقل ملازم ہیں ہم کانٹریکٹ والے مظلوم۔دوسرا کیفے سے تم بھی پے کرکے چیزیں لے سکتی ہو یہاں یہ کافئ مفت ہے ہمارے لیئے بس ذرا سا خود بنانی پڑتئ وہاں یہی سب کوئی گھول کر دے گا اور دگنی قیمت وصولے گا
اسکے مقابل بیٹھتے ہوئے وہ بالتفصیل بتا رہا تھا۔ اس نے یونہی اسکا جائزہ لے ڈالا۔ نک سک سے تیار ڈریس پینٹ شرٹ میں تازہ شیو خوشبوئوں میں بسا ہوا۔ وہ عام دنوں میں خاصےرف حلیے میں آتا تھا۔ گھسی ہوئی جینز گرے اپر یا کبھی ڈینم جیکٹ۔ ایک دن تو سویٹ پینٹ شرٹ میں ہی آگیا تھا تب ہدایت کار نے ڈانٹا بھئ تھا اسے۔ جوابا ساری ڈانٹ کھا کے سر جھکا کے بولا۔
لیٹ ہوگیا تھا۔ تیار ہو کر آتا تو یہاں کئی کام رک جاتے میرے اس حلیئے میں آنے سے کوئی کام نہیں رکا بس میں ذرا سا برا لگ رہا ہوں تو آپ نے جو ہوم لیس آہجوشی والا منظر کرنے کیلئے جس ایکسٹرا کو بلانا ہے ان کی جگہ مجھے رکھ لیں۔۔
اور انہوں نے واقعی ایسا کیا۔ ایکسٹرا کی پیمنٹ بھی ملی اور ڈانٹ بھئ ٹل گئ۔ اسے سوچ کے ہنسی آگئی۔۔ اسے ہنسی ضبط کرتے دیکھ کر کھاوا چونکا۔
کیا ہوا برا لگ رہا ہوں؟ ۔مجھے پتہ ہے یہ پنک شرٹ ہم طر صغیر کے کالے کلوٹے لڑکوں پر نہیں جچے گی۔ کہا تھا یون سب کو۔ کوئی اور شرٹ دے دے۔
وہ سچ مچ پریشان ہوگیا تھا۔
ارے۔ فاطمہ نے حیران ہو کر اسکو دیکھا۔ گلابی رنگ تو اب دیکھا اس نے۔ ویسے برا نہیں لگ رہا تھا۔ بلکہ رنگ صاف صاف سا لگ رہا تھا اسکا۔ ویسے بھی وہ کالا نہیں تھا ایسے لگتا تھا جیسے رنگ جھلسا ہوا ہو اسکا۔ گندمی رنگ جو اکثر سورج دیوتاکی مہربانی سے لڑکوں کا باہر پھر کر ہوجاتا ہے
نہیں بالکل برے نہیں لگ رہے ہو۔بلکہ اچھے لگ رہے ہو۔ ہینڈسم۔
فاطمہ کے کہنے پر وہ اسے چونک کر دیکھنے لگا تھا۔مگر وہ سادہ سے انداز میں کہہ کر مگ منہ سے لگا چکی تھی۔ اسکے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئ۔
کیا چیز تھی یہ لڑکی بھی۔
خوش بھی ہو۔۔ ڈیٹ پر جانا ہے آج؟
اسکی مسکراہٹ فاطمہ سے چھپی نہ رہ سکی۔
ڈیٹ۔کافی پیتے اسے اچھو سا لگا۔۔۔ ایکسٹرا کے طور پر آنا ہے ایک منظر میں پیچھے سے گزرنا ہے ہیرو کے۔اسکے لیئے بھئ انکو سوٹڈ بوٹڈ ایکسٹرا چاہیئے۔
وہ استہزائیہ ہنسا۔
اوہ اچھا۔ مجھے لگا اتنا تیار ہو کر آئے تو یقینا کسی لڑکی وڑکی کا چکر ہوگا۔
فاطمہ نے کندھے اچکائے تو کھاوا مسکرا دیا
مجھے کون احمق ڈیٹ کرے گی۔
کیوں؟ اچھی بھلی جاب ہے اوپر سے مجھ سےبھی اتنے پیسے اینٹھ لیتے ہو۔
فاطمہ نے جتایا تووہ برا مان گیا
حق حلال کا لیتا ہوں اسے اینٹھنا نہیں کہتے۔اتنے کام تو کرتا ہوں تمہارے۔۔ ان کورینیوں سے عربی مکالمے بلوانا آسان کام ہے کوئی
فاطمہ نے گہری سانس لی۔۔۔۔
بالکل نہیں۔ کوریا میں تو کوئی بھی کام آسان نہیں۔ سانس لینا بھی۔۔ اور میں تو سب کام خراب کرنے میں ماہر ہوں
اس نے منہ لٹکا لیا۔
خیریت آج تو آہیں بھری جا رہی ہیں۔ گھر میں سب ٹھیک؟
کھاوا نے فورا نوٹس کیا۔فاطمہ نے سوچا پھر گلا کھنکار کر سیدھی ہو کر بولی
مجھے ایک بات بتائو۔اگر آپ رات کواپنے گھرمیں کسی کو چوری چھپے آتے دیکھیں آپ کا پہلا ری ایکشن کیا ہوگا۔۔

ڈنڈا ماروں گا سر پر۔ کھاوا فورا بولا۔
بالکل یہی قدرتی ردعمل ہوتا ہے نا۔ مگر میں نے ڈنڈا مارا ہے تو میں مجرم بن گئ ہوں۔ مجھے اتنا برا بھلا کہا اور خفا بھی ہوگئی طوبی۔
طوبی؟ تم نے لڑکی کے سر پر ڈنڈا مارا ۔۔۔کھاوا بھونچکا سا رہ گیا
نہیں اسکے شوہر کے سر پر۔ پھٹ گیا چار ٹانکے آئے۔فاطمہ نے منہ پھلایا۔ کھاوا کو ہنسئ آگئ۔
پھر غصہ تو بنتا ہے تمہاری سہیلی کا۔۔ وہ مزاق اڑا رہا تھا۔
ویسے وہ تمہارے گھر چوری چھپے آئے ہی کیوں؟ انکی بھی غلطی ہے۔ وہ سنجیدگی سے بولا۔۔۔
میری بھی غلطی ہے۔ بے چارے جب بھی ہماری مدد کو آتے ہیں ٹوٹ پھوٹ کر واپس جاتے ہیں دلاور بھائی۔
کھاوا چونکا مگر فاطمہ نے دھیان نہیں دیا دوسرا قصہ شروع کر چکی تھئ
پتہ ہے اس سے پہلے ایک بار ہم نے انکو ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں اکٹھے جلدی نکلی تھیں تاکہ جلدی گھر جا سکیں۔ کھاوا اسئ وقت باہر سے کوئی بڑا سا شاپر لیئے دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا آرہا تھا۔
اس نے مسکرا کر ہاتھ ہلایا۔ جوابا وہ بھی مسکرا کر سر ہلاتا اندر کی جانب بڑھ گیا۔ دونوں ہاتھوں میں شاپرپکڑے تھا
ایک تو اس بے چارے کے اتنے چکر باہر کے لگواتے ہیں۔ اس دن تو اتنا بڑا بورڈ اٹھا کے لا رہا تھا اکیلے میں نے مدد کرائی اسکی۔ تم لوگ اسکو اتنا چلایا تو نہ کرو۔
واعظہ نے بھی اسے دیکھا تھا شائد جبھی کہہ رہی تھی۔
کیوں یہ کونسا سی او لگا ہوا ہے یہ سب کام ہی کرتے ہیں اسسٹنٹ۔ اور یہ لوگ تو باہر کے کام مجھے بھی کہہ دیتے ہیں مگر میں نے کبھی کرکے نہیں دیا ہمیشہ کھاوا کو بھیجتی ہوں۔
فاطمہ نے کہا تو واعظہ اسے دیکھ کر رہ گئ۔
یہاں کے لوگوں کو ایک تارک وطن سے ہمدردی ہونی تم تو ہم وطن ہونے کا تھوڑا خیال کر لیا کرو۔ بے چارہ اتنی مشکل سے چلتا ہے۔
واعظہ کے کہنے پر وہ حیران ہو کر ایک قدم آگے ہو کر سامنے آگئ
کون مشکل سے چلتا ہے؟
کھاوا۔ واعظہ اسکے سامنے آنے پر بد مزہ ہوگئ تھی سو منہ بنا کر بولی
کھاوا مشکل سے چلتا ہے؟ کیا کہہ رہی ہو۔فاطمہ حیران ہی تو رہ گئ
تم نے کبھی اسے چلتے نہیں دیکھا کیا۔؟ واعظہ الٹا اس کی حیرانی پر حیران رہ۔گئ۔
ایک پیر ذرا سا دبا کے چلتا ہے۔میں نے پوچھا تھا اس سے کہہ رہا تھا کالج میں تھا تو ایک بار اسکا بائک ٹرک کے نئچے آگیا تھا۔ ٹانگ بھی ٹوٹ گئ تھی جب سے ذرا۔۔۔
فاطمہ کی آنکھیں پوری کھل سی گئیں۔۔ اسکی حیرت ذدہ شکل دیکھ کر واعظہ نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
حد ہے اتنی دوستی ہے اس سے اپنے سب کام کرواتی ہو تم نے اسے غور سے نہیں دیکھا۔
فاطمہ بھونچکا سی کھڑی تھئ۔
نہیں واقعی۔کبھئ دھیان نہیں دیا میں نے۔
اچھا چلو ڈھائی بج رہے ہیں ہمیں گھر جانے میں بھی وقت لگے گا۔
وہ شاک میں جمی کھڑی تھی تو واعظہ کو ہی اسکا بازو پکڑ کر کھینچنا پڑا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سب با جماعت اسے ائیر پورٹ چھوڑنے آئی تھیں۔
عزہ کی آنکھیں نم تھیں۔
عشنا کی بھی۔ الف کی بھی
واعظہ کی آنکھیں سرخ تھیں۔۔
فاطمہ کی بھی۔
ہر تصویر میں آدھوں کی آنکھیں ہی دیکھنے کو ملی تھیں مگر ائیر پورٹ پر بھئ انہوں نے طویل فوٹو سیشن کرایا تھا۔پاس سے گزرتے ایک کورین لڑکے سے اپنے گروپ فوٹو بنوائے تھے۔ اسکی فلائٹ کا وقت نہ ہوجاتا تو اگلے دو گھنٹے بھی بس انکا کیمرہ پکڑے تصویریں بناتے گزرتے اسکے۔ وہ معزرت کرتا وقت بتاتا بھاگا تب وہ لوگ تھوڑا ٹھنڈی پڑیں۔عروج کا کیمرہ تھا وہ سب ا س پر چڑھ آئیں دکھائو کیسی آئیں ۔۔
امریکہ جا کے سب تصویریں بھیجوں گی فکر ناٹ۔
مجھے سب سے پہلے وہ جو مجسمے کے ساتھ میری تصویر ہے بس وہ دکھا دو۔
عزہ نے کہا تو عروج نے اسکی ناک کو چٹکی میں دبایا
ہر تصویر میں تو ننجا ٹر ٹل بنی ہو شکل تو آئی نہیں ہے پرجوش ایسے ہو۔جیسے پورٹ فولیو شوٹ کروایا ہے۔
اسکی ٹھنڈی بستی پر جہاں اس نے منہ بنایا وہیں وہ سب کھل کر ہنسی تھیں۔
مجسمہ بھئ اسکے عبایا میں اپنی شکل چھپاتا رہا یے شرما شرما کر۔
فاطمہ نے اسکے پوز کا مزاق اڑایا یہ۔تصویر اسی نے بنائی تھی۔ مجسمہ کے چہرے پر اسکی خوب گھیر والی آستین نقاب بناگئ تھئ ہوا سے اڑ کر۔
ویسے عروج امریکہ میں تو کوریا سے کہیں ذیادہ تعصب ہے تم وہاں بھئ عبایا کروگئ؟
عشنا نے پوچھا تو عروج سر جھٹک گئ
اکھاڑ لیں جو اکھاڑنا ہے میں نے انکی وجہ سے نقاب کرنا تو نہیں چھوڑنا۔
اس کا انداز اٹل تھا۔ اس وقت بھی وہ گلابی اسکارف اور گلابی ہی فیس ماسک لگائے تھے لانگ گرے کوٹ اور جینز میں وہ کافی سوبر سی لگ رہی۔تھی۔ ہاں اسکارف کی وجہ سے مسلم شناخت کی جا سکتی تھئ۔
پھر بھی عروج اپنا بہت خیال رکھنا وہاں کے حالات مسلمانوں کیلئے بالکل اچھے نہیں۔
واعظہ نے سنجیدگی سے کہا تو وہ سر ہلانے لگئ۔
مجھے اندازہ ہے۔ میں احتیاط کروں گی۔ اس نے اطمینان دلایا پھر سب کی شکلیں دیکھیں اداس ہو رہے تھے چہرے سب کے وہ ہاتھ مل کر بولی
یار قسم سے دل کر رہا تھوڑا بہت رو لوں مگر مجھے اتنی خوشی ہے امریکہ جانے کی کہ آنسو ہی نہیں آرہے۔
ماسک کے اندر یقینا بتیسی باہرتھی اسکی۔ آنکھیں چمک رہی تھیں او رخوشی سے چندی ہو رہی تھیں۔
پہنچو گی کب؟ عزہ نے سوں سوں کرتے پوچھا۔
یار صبح چھے ساڑھے چھے تک ۔۔ اگر موسم نے کوئی پنگا نہ کیا تو ذیادہ سے ذیادہ دس گھنٹے لگیں گے۔ عروج کہہ کر ذرا سا رکی
سچ میں تم لوگ بہت یاد آئو گی۔ زندگی میں اتنا مستی مزاق کبھی نہیں کیا جتنا تم لوگوں کے ساتھ مزا آیا۔ میں۔۔
اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ عزہ اسکے گلے لگ گئ۔ اسکے اوپر سے الف بھئ عشنا بھئ۔ فاطمہ اور واعظہ نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر اس مینار سے وہ بھی لپٹ گئیں
ہم اتنے بہناپے کے ساتھ رہے کہ مجھے احساس ہی نہ ہوا کہ اپنی فیملی سے اتنا دور رہ رہی ہوں ۔ مجھے تم سب بہنوں کی طرح عزیز ہو گئ ہو۔ میں ویڈیو کال کیا کروں گی تم سب کو۔۔
عروج جزباتی ہوئی وی تھئ۔
میں نے کبھی تم میں سے کسی کا دل دکھایا ہو تو معزرت۔
بس کبھی کبھار شور مچانے پر ڈانٹ دیتی تھی تم لوگوں کو۔
اسکے لیئے بھی سوری۔۔ اور سینی ٹائزر کیلئے تھوڑا ٹچی ہوتی تھی۔ اسکے استعمال پر بھی اگر کبھی کسی کو روکا ٹوکا ہو تو سوری۔ اور اپنا ڈینم عبایا۔ وہ میں نے دھو کر بالکونی میں ڈالا تھا۔ اف مجھے تو اٹھانا یاد ہی نہیں رہا۔
عروج کو کیسے بے درد وقت یاد آیا تھا۔
عروج اب تم جارہی ہو تو مجھے چھپانا اچھا نہیں لگ رہا۔میں اکثر جب تم نائٹ کرکے آتی تھیں اور بے سدھ سو جاتی تھیں تو تمہارا ڈینم عبایا یونی پہن جاتی تھی۔ تم میرے واپس آنے کے بعد بھئ بمشکل اٹھتی تھیں تو تمہیں کبھی پتہ نہ چل سکا۔
عزہ نے حفظ ماتقدم کے طور پر اور زور سے جپھی مار لی۔ وہ پھڑک کے رہ۔گئ۔
تمہارا سینی ٹائزر تو خیر ہم سب استعمال کرتے تھے۔ ایک بار تو نور نے تمہارے سینیٹائزر میں پانی بھر کے رکھ دیا تھا۔
الف نے انکشاف کیا۔
کیا۔ عروج مزید پھڑپھڑائی۔ مگر ان سب کی گرفت مضبوط تھی۔ اس نے بھی خود کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔
وہ سب یونہی چند لمحے ایک دوسرے سے لپٹی کھڑی رہیں۔ پھر آنکھیں پونچھتے الگ ہونے لگیں۔ عروج نے سب سے پہلے الگ ہونے والی واعظہ کو نظروں میں بھرا پھر اسکے قریب آکر پرخلوص انداز میں اسکا ہاتھ پکڑکر کہا تھا
اور واعظہ تھینکس فار ایوری تھنگ۔
خیریت سے جائو ۔ واعظہ مسکرا کر اسکے گلے لگ گئ۔
دلاور بھائی کو۔میری طرف سے پوچھنا اور طوبی سے معزرت بھی کر لینا۔ اسکا غصہ دیکھ کر میری ہمت نہیں ہوئی ملنے بھئ نہیں جا سکی میں۔
عروج کے متردد انداز پر اس نے زو رو شور سے سر ہلایا۔ فلائٹ کا وقت ہو رہا تھا اس نے جلدی جلدی الوداعی کلمات ادا کیئے۔ اور تیزی سے اندر بڑھ گئ۔ یہ لوگ جب تک نظر آتی رہی ہاتھ ہلاتی رہیں۔ عشنا فاطمہ عزہ الف۔ واعظہ نے حسب عادت گنا۔ آبادی مستقل کم ہو رہی تھی۔ اسے عجیب سی یاسیت گھیرنے لگی۔
جانے اسکے قدم۔سست پڑے تھے یا یہ سب جلدی میں تھیں۔ عشنا اور عزہ کسی بحث میں الجھی تھیں۔فاطمہ کو اپنا اسٹیٹس اپڈیٹ کرنا تھا۔۔ الف اسکی طرح انکے ساتھ مگر لا تعلق سئ چل رہی تھی۔
اس نے ایک نظر اسے دیکھا پھر خاصی زور سے بولی
ارے ژیہانگ تم یہاں کیا کر رہے ہو۔
الف بجلی کی تیزی سے مڑی تھئ۔متلاشی نگاہوں سے دیکھتے اس نے واعظہ کو دیکھا تھا جو اسی پر نظریں جمائے تھئ۔
عزہ عشنا فاطمہ بھئ مڑیں ۔
کون ژیہانگ؟ فاطمہ پوچھ رہی تھی۔
کوئی نہیں مجھے غلط فہمی ہوئی کوئی اور تھا۔ ایک تو سب کی ہی آنکھیں یہاں چندی ہیں۔
وہ سر سری سے انداز میں کہتی بھرپور نظر الف پر ڈالتی تیز تیز قدم اٹھاتئ آگے بڑھ آئی۔
جلدی چلو کیب والے نے ویٹنگ کے پیسے بنا لیئے ہوں گے ٹھیک ٹھاک۔
واعظہ کو حسب عادت فکر ہو گئ تھئ۔
ہم پھر اسی ٹیکسی میں واپس جائیں گے۔ عزہ نے اعتراض جڑا۔
کیوں تمہارے لیئے یہاں چاپر منگوائیں۔
فاطمہ نے مزاق اڑایا۔
یار یہ والا ڈرائیور گھورتا آیا ہے سارا راستے۔
عزہ ٹھنکی۔
اس بے چارے کو۔دکھائی کیا دیا ہوگا برقع ایونجر۔ فاطمہ نے اسکے سر پر چپت لگائی۔ وہ سب ہنستی بولتی پارکنگ کی۔طرف بڑھ رہی تھیں۔ الف نے ایک بار پھرمڑ کر ائیر پورٹ کی لابی پرطائرانہ نظر ڈالی تھئ۔
کیا پتہ سچ مچ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کمرے میں داخل ہوئے تو طوبی صارم کر تھپکتی اٹھ رہی تھیں۔
اب کیسی طبیعت ہے تمہاری؟
وہ فورا پاس جا کے پوچھنے لگے۔
ٹھیک ہوں۔ سونے سے بہتر محسوس ہو رہا ہے۔
وہ دھیمئ سی آواز میں بولی تھی۔پھر ادھر ادھر دیکھ کر بولی
بچے سو گئے؟
ہاں۔ زینت تو سمجھدار ہے گڑیا تمہارے پاس آنے کی ضد کر رہی تھی اسے مشکل سے بہلا کر سلا دیا۔۔
آج تو سارا دن سوتے گزر گیا میرا۔ رات بھر کیا کروں گی۔
اس نے گھڑی پر نظر کی تو ساڑھے دس ہی ہو رہے تھے۔
کچھ کھا لو دوپہر میں بھی بس تھوڑا سا دلیہ کھایا ہوا ہے بھوک لگ رہی ہوگئ۔
وہ اسکے پاس بیٹھے محبت سے پوچھ رہے تھے
وہ انہیں دیکھ کر رہ گئ۔ جانے یہ محبت اس سے تھی یا آنے والے کی وجہ سے فکر کی جا رہی تھی۔ وہ قنوطی سا ہو کر سوچنا نہیں چاہ رہی تھی مگر اب ہر بات کے دو مطلب نکالنے کی عادت سی ہوگئ تھی۔ تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے بچے ۔۔۔۔۔۔ اسکے ذہن میں پھر یہی الفاظ گونجے۔ وہ جو انکو زندگی دینے کا ذریعہ بن رہی ہے اسکے بچے۔۔
وہ مزید کوئی تکلیف دہ سوچ سوچنے جا رہی تھی کہ دلاور کی آواز پر چونکی
واعظہ اور فاطمہ آئی تھیں۔ تمہارے لیئے سوپ دے کر گئ ہیں۔ تم سو رہی تھیں ۔۔۔ انہوں نے تمہیں جگانے سے بھی منع کر دیا ان میں سے کسی کی فلائٹ تھئ وہ بھی ملنے آئی تھی تمہیں سوتا دیکھ کر دور سے ہی دیکھ کر چلی گئ۔
اچھا کیا۔ وہ بدمزا سے انداز میں بولی۔ تو وہ مزید انکا ذکر کرنے کی بجائے اٹھ کھڑے ہوئے
میں سوپ گرم کر لاتا ہوں۔
میں اٹھ گئ ہوں اب خود کچھ گرم کرکے کھا لوں گی آپ زحمت نہ کریں۔
وہ چڑ چڑے پن سے کہتئ بستر سے اٹھنے لگی تو ایکدم اٹھنے سے سر چکرا سا گیا۔ بروقت دلاور نے سہارا دے کر واپس بٹھایا۔
یہیں بیٹھو میں سوپ یہیں لا دیتا ہوں۔ انکے انداز میں قطیعت تھی وہ نا چاہتے ہوئے بھی بیٹھ گئ۔۔۔
پھر جب تک سوپ گرم ہو کے آیا وہ یونہی سوچوں میں الجھتی رہی۔ اتنی مگن تھی کہ دلاور پاس آکر کھنکارے تب چونک کے سیدھی ہو ئی۔
گرم بھاپ اڑاتا ویجیٹیبل چکن کارن سوپ تھا ساتھ نوڈلز بھی تیر رہے تھے۔ اسکو ایکدم ہی بھوک کا احساس ہوا تھا۔ بےدلی سے تھامنے والی اب رغبت سے پیالہ ختم کر رہی تھی۔
دلاور خاموشی سے اسکے مقابل بیٹھ گئے۔
آج مجھے ڈاکٹر نے کہا ہے کہ تمہارا بہت خیال رکھوں یوں بار بار بی پی بڑھ جانا اچھی علامت نہیں۔ اور یہ بھی کوئی ذہنی دبائو ہے جس کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے۔تو مجھے تم سے بات کرکے پوچھنا چاہیئے۔
وہ بلا تمہید شروع ہوئے تھے۔ طوبی کامنہ تک چمچ لے جاتا ہاتھ رک سا گیا۔
ہم مرد سوچتے ہیں بیوی کام ہی کیا کرتی ہے سارا دن گھر میں رہنا سکون سے جب چاہا سو گئ کام کیا نا کیا عیش کرتی ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ آج ایک دن تم نے سارا دن کوئی کام نہ کیا اور میں جانتا ہوں کیسے یہ پورا دن گزارا ہے بچوں نے تمہارے بغیر۔
وہ ذرا سا ہنسے ۔ طوبی حیرت کے مارے گنگ سی انکی شکل دیکھ رہی تھی۔ وہ اسکی حیرت سمجھ رہے تھے۔
گڑیا زینت صائم۔ سارا دن انکو ماں کی ہر قدم پر یاد آئی میرے ہاتھ سے تو کھانا تک نہیں کھا رہے تھے۔ عادت ہی نہیں انکو۔ اور میں بھی کب انکو سامنے بٹھا کر منہ میں نوالے ڈالتا ہوں۔ بس خرچہ اٹھا لیا کبھی لاڈ کیا کبھی ڈانٹ دیا۔ باپ کا ان سے تعلق بس اتنا ہی ہے۔ نخرے تو بس ماں ہی اٹھایا کرتی ہے نا۔۔۔۔
آپ۔۔ طوبی نے کچھ کہنا چاہا مگر انہوں نے ہاتھ اٹھا کر روک دیا۔
پہلے میری سن لو۔ تمہاری ہر الجھن کا جواب دوں گا۔
وہ تھمے پھر طوبی کے چہرے سے نگاہ ہٹا کر سامنے دیکھتے ہوئے خود کلامی کے انداز میں بولے۔
آج میں نے خود کو تمہاری جگہ پر رکھ کر سوچا۔ تین مختلف عمروں کے بچے جو اپنی ہر ضرورت کیلئے ماں کے محتاج ہیں انکو سنبھالنا ہر ضرورت پوری کرنا گھر کا کام کرنا یقینا ماں کوئی مشین تو ہے نہیں کہ بنا تھکے سب کام صحیح صحیح کرتی جائے۔ تم بھئ تھکتی ہوگئ کبھی گھبراتی جھلاتی ہوگی جبھی۔۔ وہ شائد سانس لینے رکے تھے طوبی نے سانس روک لی۔۔ وہ کچھ دیر سوچتے رہے پھر مڑ کر مضبوط لہجے میں طوبی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولے۔۔
مجھے تمہارا ہر فیصلہ منظور ہے۔ اگر تم مزید اولاد نہیں چاہتی ہو تو بے شک ابارٹ کرا لو۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ یہ تین ہی ہماری۔۔۔۔۔
کیا کہہ رہے ہیں آپ۔ ؟ طوبی چیخ پڑی۔
میں اتنا بڑا گناہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ آپ ان بچوں سے نو مہینے بعد ملتے ہیں یہ میرے وجود میں پلے ہیں مجھ میں سانس لیتے ہیں میں انکی جان لینے کا ۔۔۔ آپ مجھے ایسا گھٹیا سمجھتے ہیں کہ ایک او ربچے کی ذمہ داری نہ اٹھانی پڑے اسلیئے میں جان لینا چاہوں گی وہ بھی اپنے بچے کی۔
اسکی غم و غصے سے آواز پھٹ سی گئ۔
پھر۔ دلاور۔ اسکا غصہ سمجھ نہ پائے۔
مجھ سے اتنی بڑی خبر چھپانے کی کیا وجہ تھی؟ کیوں مجھے تم سے یہ خبر نہیں ملی ؟
کیونکہ میں آپکی زندگی میں اپنا مقام دیکھنا چاہتی تھی۔ میں کیا ہوں ہوں بھئ کچھ یا بس آپکے بچوں کی ماں ہوں میں۔
وہ پھٹ پڑی۔
ان بارہ تیرہ سالوں میں مجھے ان بچوں سے الگ آپکی نظر میں اپنا مقام کیا ہے نہیں پتہ لگا۔ میں جانتی ہوں میں کبھی آپکا آئیڈیل نہیں رہی مگرخود کو بدل بدل کر ہر طرح سے آپکا آئیڈیل بننا چاہا ہے میں نے مگر اس سب کوشش کے باوجود ایک چٹی چمڑی لڑکی آپ نے میرے مقابلے پر لا کھڑی کی کیوں۔ کیا کمی ہے مجھ میں؟ بد صورت ہوں نا فرمان ہوں اولاد کی خوشی نہیں دیا کیا میں نے آپکو۔۔
وہ کہتے کہتے رو دی۔ دلاور ہکا بکا اسکی شکل دیکھتے رہ گئے
کونسی لڑکی؟ تم۔۔ میرا ۔میں یہاں۔۔۔۔۔۔۔
وہی لڑکی جس سے چھپ چھپ کے باتیں کرتے ہیں آپ۔ کیا لگتا آپکو میں جاہل ہوں؟ یا اندھئ بہری ہوں ۔۔ سب سمجھ آتا ہے مجھے۔
وہ سخت جلی بھنی تھی۔ دلاورکو بے ساختہ ہنسی آگئ۔ وہ تو شکر ہے سوں سوں کرتی سر جھکائے بیٹھی تھی ورنہ اور تائو کھا جاتئ ۔۔
انہوں نے بمشکل ہنسی روک کر اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لیکر اوپر کیا۔
تو تم اتنے دنوں سے اسلیئےپریشان تھیں کہ تمہیں لگتا تھا میں کسی لڑکی کے چکر میں ہوں؟
انہوں نے آج سب غلط فہمیاں دور کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
ہاں۔ طوبی نے بھئ شائد آج سب معاملہ حل کر لینے کا ہی سوچ لیا تھا
جس واحد لڑکی کا نمبر میرے پاس ہے اور جس سے تمہارے بقول میں چھپ چھپ کر بات کرتا تھا وہ لڑکی ایک پرائیوٹ جاسوسی کے ادارے کی منتظم ہے۔ اور اس سے رابطہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ میں گڈو کو ڈھونڈ رہا ہوں۔
دلاور کی بات پر اسکی آنکھوں میں حیرت اور الجھن دونوں اتر آئی تھیں۔۔ دلاور نے ٹھنڈی سانس بھر کر سلسلہ کلام جاری رکھا
میں نے پاکستان میں ہر ذریعہ استعمال کیا جس سے خاور کا پتہ لگ سکتا۔مجھے کسی نے بتایا کہ وہ لیبر ویزا پر سعودیہ عرب چلا گیا ہے۔ میں نے سعودیہ عرب میں اپنے دوستوں سے جاننے والوں سے معلومات نکلوائیں پتہ کروایا ۔ تب کسی نے مجھے یہ اطلاع دی کہ وہ کوریا میں ہے۔ جس دن مجھے یہ پتہ لگا اسئ دن سے میں نے کوریا آنے کی کوشش شروع کر دی تھی۔ تم جانتئ ہو مختلف ٹریننگز کیلئے مجھے کتنی ہی بار کبھی جاپان کبھی جرمنی جانے کی آفر آئی مگر میں انکار کردیتا تھا مگر یہاں آنے کیلئے اپنی لگی لگائی نوکری چھوڑ دی میں نے اپنی جمع پونجی لگا کر تمہیں اور بچوں کو بھی لے آیا تاکہ کوئی مجبوری نہ رہے۔ پچھلے سال بھر سے میں اسے تلاش رہا ہوں۔ ابھی بھی ایک بندے کا مجھے پتہ چلا ہے وہ اگلے پندرہ دن میں ویتنام جا رہا ہے۔ اب جانے یہ ہمارا خاور ہے یا نہیں مگر میرے پاس بس یہی چند دن ہیں طوبی یا تو وہ مجھے مل جائے گا یا ہمیشہ کیلئے ہم اسے کھو دیں گے۔
میں نے گڈو کو دیکھا تھا۔
طوبی بےتابی سے بات کاٹ کر بولی۔
کب؟۔۔۔۔۔۔۔ دلاو ربری طرح چونکے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو تو نہ ملا مجھے جو تو نہ ملا مجھے دل کو کیا بتائوں گا دل کو۔
نیم تاریک کمپائونڈ میں دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا وہ اپنی دھن میں گنگناتا ہوا داخل ہوا تھا۔ نچلی منزل کے سب سے تاریک گیلری میں سو واٹ کا پیلی روشنی کا بلب ناکافی روشنی پہنچانے کی کوشش میں ناکام تھا۔اور وہ۔
شاپر میں تین سوجو کی بوتلیں ایک برگر اور فرائیڈ چکن۔ اٹھائے اس وقت پارٹی کرنے کے موڈ میں تھا۔ گنگناتے ہوئے ابھی لاک کھولا ہی تھا کہ پیچھے سے کسی نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
کم چاگیا۔ وہ بری طرح ڈر کر مڑا۔
تمہارا خط ہے۔ ڈیلیوری بوائے میرے دروازے کے آگے ڈال گیا تھا۔
اسکے ڈرنے پر بد مزا منہ بناتے ہوئے کم ہانا نے گھورتے ہوئے بتایا
گھمسامنیدہ۔ اس نے سر جھکا کر شکریہ ادا کرتے ہوئے اس سے خط لیا۔
سوجو اکیلے کبھی نہیں پیا کرتے۔ ہانا کی تیز نظروں سے شاپر سے جھانکتی سوجو چھپی نہ رہ سکی۔
یہ آپ لے لیجئے۔ کھاوا نے ایک بوتل نکال کر اسکو بڑی تمیز سے تھمائئ اور دروازہ کھول کر اندر گھس گیا۔دروازہ کھٹاک سے بند ہوا
کہہ سیکی۔ وہ تلملا کر پیر پٹختی آگے بڑھ گئ۔
اپنے یک کمرے کے فلیٹ میں داخل ہوتے ہی اسے پورے دن کی تھکن نے آن گھیرا تھا۔ ایک اوپن کچن سامنے لائونج ٹائپ چھوٹئ سی جگہ جس میں ایک گھسے ہوئے اسپرنگ والا صوفہ اور میز رکھی تھی۔دائیں جانب اکلوتے کمرے کا دروازہ تھا اسکے ساتھ باتھ روم بس۔ اس میں دلچسپی لینے والی لڑکی اسکی یہ پڑوسن بھی کم و بیش ایسے ہی گھر کی مالکہ تھی۔ مگر یقینا اسکے گھر کا اتنا برا حال نہیں ہوگا۔
معزرت ہانا بی بی۔۔ فی الحال اس گھر میں میں کسی کو دعوت نہیں دے سکتا۔
بڑبڑاتے ہوئے اس نے شاپر میز پر ڈھیر کیا ۔ سوجو نکال کر سامنے رکھی برگر اور فرائیڈ چکن نکالے۔صوفے کے نیچے بچھے اس گردآلود قالین پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا ۔ لیٹر رکھا ۔۔۔۔گرم بھاپ اڑاتا کھانا اسکے سامنے تھا مگر وہ بس اس کھانے کو دیکھتا رہا چند لمحے۔
پھر جیسے فیصلہ کرکے لیٹر اٹھایا۔۔ میونگ دونگ انٹرنیشنل اسکول۔ اس نے بے دلی سے کھولا۔
ہم۔معزرت خواہ ہیں۔ ہم بین القوامی طلبا کو گریجوایشن کی۔سطح پر فی الحال اسکالر شپ فراہم نہیں کر رہے۔ آپ کی تفصیلات ہم نے ۔۔۔۔۔
آگے بھئ لمبی کہانی تھی مگر اسے دلچسپی نہ تھی اس نے بے زاری سے لیٹر ایک جانب پھینکا اور کھانے پر ٹوٹ پڑا۔
پیٹ بھر کر کھانے کے بعد اس نے سوجو کی بوتل اٹھائی وہ سادا سوڈا بھی لایا تھا مگر اس وقت وہ غٹا غٹ اس بوتل کو چڑھا گیا۔۔۔۔
جانے پیاس ذیادہ تھی کہ کیا اسکا حلق تک جل سا گیا تھا۔
صوفے کی نشست پر سر ٹکاتا اس نے خود کو پرسکون کرنے کی خاطر اس نے آنکھیں بند کر لی تھیں
قسم سے جھوٹ نہیں بول رہا ہوں اماں۔۔۔
بھیا مجھے اللہ کی قسم ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔۔
وہ اٹھارہ انیس سالہ لڑکا گڑگڑا رہا تھا۔۔
جھوٹا ہے یہ ایک نمبر کا جھوٹی قسم کھاتا ہے۔۔
وہ ٹرک ڈرائیور اسکے منہ پر تھپڑ لگاتا کہہ رہا تھا۔
وہ لڑکا اس وقت بھئ گڑ گڑا رہا تھا۔
قسم لے لو نگلی نہیں خالی بوتل میں۔۔۔۔
اب منظر بدل گیا تھا وہ لڑکا اب بڑا ہو چکا تھا اب آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ رہا تھا۔ پہلی بار جھوٹی قسم۔بھی کھا رہا تھا۔
اس نے پٹ آنکھیں کھولی تھیں۔
ہاتھ میں پکڑی سوجو کی بوتل خالی ہو چکی تھی اس نے لحظہ بھر اسکو اونچا کرکے دیکھا پھر پوری قوت سے وہ یونہی زمین پر پٹخ دی تھئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد
جاری ہے۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *