غم کو نغمات بناتے گزری
درد کی دھوم مچاتے گزری
سوۓ ارمان جگاتے گزری
شوق کو شعلہ بناتے گزری
دل امیدوں سے بساتے گزری
جسے ویرانہ سجاتے گزری
منزل شوق کہیں ہوتی بھی
منزلوں خاک اڑاتے گزری
نوجوانی تھی کہ آنچل کی ہوا
ہوش میں آتے ہی آتے گزری
انھیں چھو آیی کہیں موج بہار
پھول ہی پھول کھلاتے گزری
نیند آئی نہیں یاد آئیے گئی
رات بھر جان جلاتے گزری
اب بھی فردوس تخیل ہے وہ عمر
جو تیرے درد کے ناتے گزری
از قلم زوّار حیدر زیدی شمیم