نہ مجھے کسی کا انتظار رہا ہے اب
نہ مجھے مرا ماضی پکار رہا ہے اب
جستجو میں لگا رہاتھا ایک عمرجس کے
وہی لمحہ یہ دل پھیکا سا گزار رہا ہے اب
اب تو کوئی حسرت کوئی خواہش ہی باقی نہیں رہی میری
دل قابو میں مرے اب آرہا تو وقت اسے مار رہا ہے اب
ہر گام پر روکتا تھا جو بڑے شوق سے راستہ میرا
وہ مجھ سے چھپ کر میرا ضبط آزما رہا ہے اب
کوئی نشتر کوئی تیر کوئی بھالا نہیں چھوڑا میں نے مگر
وہ حرب جنگ بخوبئ ہے جانتا مراخالی ہر وارجا رہا ہے اب
میں نے سوچا تھاسوچ سوچ کے رکھا کروں گا اپنا ہر قدم
لیکن یہ زمانہ ہے کہ اپنی رفتار بڑھاتا جارہا ہے اب
ہجوم نے ٹھہرایا تھا مجرم مجھے تنہائی سزا کے طور پر دی تھی گئ
ہجوم کیا جانے قنوطی کس خوشی سے تنہائی کو دل میں اتار رہا ہے اب