پھرتیلی ہیروئن سیکنڈ لاسٹ ایپیسوڈ
تحریر : جیا علی
یہ لیں تولیہ اور صابن ،اور فریش ہوجائیں اتنی دُور مریخ سے پیدل آئے ہیں پھر کالے پُل سے مشتری خالہ کو کلیکٹ کیا ہے تھک گئے ہونگے جتنی دیر آپ نہائیں ،میں گڑھا” کھود “کے تندُور تیار کرتی ہوں اور اس میں گرم گرم تندوری نان لگا کے دسترخوان لگاتی ہوں ۔۔۔ جہنمیلا نے ایک ادائے دلرُبائی سے ہُدہدائی سکندر کو حکم جاری کیا اور وہ جہنمیلا کو تصور میں بسائے نہانے گھس گیا،جہاں جہنمیلا نے اسکے لئے پہلے سے ہی جے ڈاٹ کا سُوٹ خود سلائی کرکےمولانا طارق جمیل کا “برانڈڈ ناڑا” ڈال کے تیار رکھا ہوا تھا ہُدہدائی رگڑ رگڑ نہا کے اندر سے نیا نکور نکل آیا تھا نِک سِک سا تیار جب کھانے کی چٹائی پہ پنہچا تو اتنے ڈھیر لوازمات دیکھ حیران ہی تو رہ گیا گرم گرم تندور سے نکلے ٹھنڈے ٹھنڈے نان اور سوکھے دودھ کے گیلے حلوے کو دیکھ کے اسکی آنکھیں جہنمیلا کی اٹُوٹ محبت کے زیرِ اثر نَم ہوگئیں ۔۔۔۔
ارے جہنمیلا ۔۔۔ یہ کیا؟ تُم نے اناج ، مٹن اور فشری کا تو کوئی آئٹم رکھا ہی نہیں میری لیلیٰ تو جب تک گائے ، بکرا ، دُنبہ ، مُرغی ، مچھلی سبزی دالیں، نا بنالے اسے تو دعوت مکُمل ہی نہیں لگتی ۔۔۔
جہنمیلا سن کے مسکرائی اور پلنگ کے نیچے ہاتھ ڈال کے تلی ہوئے مچھلی، بُھنی ہوئی بکرے کی ران اور ماش کی دال کے دہی بڑے نکال کے سامنے رکھ دیتی ہے ( یہ بھی اس نے رات میں ہی تیار کرکے چُھپا دئیے تھے) جہنمیلا کی پُھرتیاں اور سلیقہ دیکھ لیلیٰ کی ماں کا رنگ پہلے سُرخ ، پھر لال اور پھر اُودا ہوجاتا ہے جبکہ مُشتری خالہ جہنمیلا کے حُسن کے زیرِ اثر سُن اور ہُدہدائی سکندر بھوکوں کی طرح کھانے پہ ٹوٹ پڑے جبکہ جہنمیلا اپنے بہن بھائیوں اور ماں باپ کو پلیٹیں سجا کر دینے کے بعد خود ایک پلیٹ میں دس دانے چاول اور ایک کھیرے کا ٹکڑا لیکر کترنے لگتی ہے وہ( ڈائٹ کونشس ) بھی تھی ۔۔۔
بھئی واہ کیا مزیدار کھانا ہے ۔۔۔ جہنمیلا دل تو چاہتا ہے تمہارے ہاتھ چُوم لوں ہدہدائی نے نظروں سے پیغام بھیجتا ہے اور جہنمیلا بھی آنکھوں ہی آنکھوں میں اپنا ہاتھ ہدہدائی کے لبوں پہ رکھ دیتی ہے ۔۔۔ نا کریں یہ بیغیرتیاں میرے آدھے سَرکے تاج ابھی آپ میرے پورے سرتاج نہیں بنے ، ، ابھی ہم نا محرم ہیں ۔۔ اور ہدہدائی اسکی اس ادائے دلرُبائی پہ مزید فریفتنہ ہوجاتا ہے اتنے میں دروازے پہ لگا بلب روشن ہوا اور جہنمیلا کا بھائی دروازے پہ جاکے چوچوچوچوچو کرکے اطلاعی گھنٹی بجانے لگا۔۔۔
ٹہریں جُمن چچا ۔۔۔ میں دیکھتا ہوں کون ہے ۔۔ ہدہدائی کھانا چھوڑ دروازے کھولنے بڑھا۔۔
دروازے کے اُس پار لیلیٰ اپنی تمام تر حشر سامانیوں اور ہاتھوں میں اسکے اپنے ہاتھوں سے “خریدے” خانزادہ باورچی کے ہاتھوں تیار کردہ لوازمات کا تھال لئے، ہدہدائی پہ بجلیاں گرانے کے لئے تیار کھڑی تھی ، اگلے ہی لمحے دروازہ کھلتا ہے اور لیلٰی ہدہدائی کے اونچے لمبے قد ، سلکی گھنگریالے سلیقے سے بنے بال، لمبی دراز پلکیں ،باہر کو ابلتی بڑی بڑی آنکھیں ، مسکراتے لبوں کے بیچ سےڈنٹونک سے رگڑےصاف چمکدار دانت ، چوڑی چھاتی پہ سجتتا جے ڈاٹ کا سوٹ اور قمیض کے نیچے” لٹکتے ایم ٹی جے کے برانڈڈ ناڑے “کو دیکھ کر تقریباًبے ہوش ہونے والی ہی ہوتی ہے کہ ہدہدائی نے لیلیٰ کو اپنی بانہوں میں اور تھال کو ہاتھوں میں تھام لیا اور پیچھے کھڑی جہنمیلا کے اندر چھن سے کُچھ ٹوٹ گیا۔۔۔
اری جہنمیلا ۔۔ یہ تمہارے چلنے سے کھڑ کھڑ کی آوازیں کیوں آرہی ہیں ؟
کیونکہ ٹوٹے ہوئے شخص کی یہی نشانی ہوتی ہے اماں ، جب وہ چلتا ہے تو کھڑ کھڑ کی آوازیں آنے لگتی ہیں ۔۔۔اس نے روتے ہوئے ، ماں کے گلے لگ کے ساون بھادوں ہی تو بہادئیے ۔۔۔ اماں ، میں خیالوں میں بھی ہُدہدائی کو کسی کے ساتھ نہیں بانٹ سکتی ۔۔
اماں ۔۔جانتی ہوں میری بچی ۔۔ شروع شروع میں یہی جذبات ہوتے ہیں کوئی محبوب کی طرف دیکھے بھی تو لگتا ہے جیسے کوئی بھوکی بلی کے مُنہ سے چِھیچڑا چھین رہا ہے ، میرے دل میں بھی تمہارے باپ کے لئے شادی سے پہلے یہی جذبات تھےلیکن اب دل چاہتا ہے کہ ٹین ڈبے والے کے دیکر تمہارے باپ کے بدلے “دو نئے پتیلے “لے لوں ، تو بھی وقت گُذرنے کے ساتھ سیٹ ہوجائیگی میری بچی ۔۔ فکر نا کر میں مُشتری سے تم دونوں کی شادی کی بات کرتی ہوں۔۔
جہنمیلا خیالوں ہی خیالوں میں اپنے شہزادے کو ناراضگی سر پُر پیغام روانہ کرتی ہے “میرے ہرجائی ہُدہُدائی “ کاش میں وہ فلمی سین دیکھنے سے پہلے ایسے ہی مرجاتی جیسے تمہارے ابا تمہاری اماں کے پالتو کُتے کے کاٹنے سے مرے تھے تم کیا جانو اس دل پہ کیسی چُھریاں چلیں جب تُم لیلیٰ کو گرنے سے بچانے کے لئے آم کے اچار میں ڈلے کیری سے چپکے لسوڑے کے طرح لیلیٰ سے چپک گئے تھے ، کاش میں یہ منظر دیکھنے سے پہلے اپنی آنکھوں میں وہ ایلفی ڈال لیتی جو میں نے کوفتوں کو جوڑنے کے لئے کوفتوں میں ڈالی تھی ۔۔۔کاش ۔۔۔۔
تحریر جیا علی ۔۔
Kesi Lagi apko Phurteeli Heroin ki yeh qist? Rate us below