urdu novel bank,urdu novel,urdu novel hub,urdu novel mania,junoon based urdu novel kitab nagri,romantic urdu novel, rude cousin based urdu novel kitab,prime urdu novel,urdu novel pdfarrogant and rude hero urdu novel kitab nagri,urdu novel collection, romantic urdu novel ,second marriage based urdu novel,age difference urdu novel,best urdu novel,urdu novel bank ,urdu novel pdf free download,urdu novel ,urdu novel download, urdu novel links,urdu novel link,rude hero urdu novel,urdu novel read online,urdu novel fb,urdu novel by vaiza zaidi,urdu novel writers,urdu novel ghar,urdu novel online reading, urdu kahani,urdu novel hub, urdu novel mania,urdu novel lists, urdu novel ghar, urduz ramzan special

Qissa Ek rozay ka ( Ramzan special afsana)

Afsanay (short urdu stories)

قصہ ایک روزے کا ۔۔۔
مصنف: واعظہ زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



صبح اسکی آنکھ دیر سے کھلی تھی۔ نیند ہی پوری نہ ہوئی تھی۔ آج پہلا روزہ تھا آدھی رات تک پورا محلہ جاگ کر سحری کرتا رہا برتنوں کی اٹھا پٹخ ۔ ہلچل۔ پڑوسیوں کو نعتیں سنتے ہوئے سحری کرنے کا شوق تھا ۔ ڈھائی بجے سے سحری جگانے والوں کی آمد شروع ہوگئ۔ ایک گروہ ڈھول بجا کر مسلمانوں کو اٹھاتا رہا تو دوسرے کی باری آگئ اس نے جدید ٹیکنالوجی سے مستفید ہوتے ہوئے گانوں کی طرز پر نعتوں کی ریکارڈنگ چلاتے ہوئے سائکل پر گلی کا چکر لگایا۔ ابھی ایک نعت بھی پوری نہ ہوئی ڈھول والے واپس آگئے ۔ یہ گلی ہماری ہے ۔ ڈھول والے چار لوگ تھے گلے میں پٹکا ڈالے تھے سائکل والا اکیلا تھا مگر جی دار تھا۔ دونوں کے خوب رج کے جھگڑے نے مسلمانوں کو وقت سے کافی پہلے جگادیا۔ جب سائکل والا ڈھول والے کو زمین پر گرا کر بجا رہا تھا تب کچھ گھروں کے دروازے کھلے۔ بڑے بزرگ نکلے جوانوں نے قابو کیا اور اپنی گلی میں دونوں کو ہی بین کرکے واپس اندر چلے گئے۔ مشعل کے کمرے کی کھڑکی گلی میں کھلتی تھی تو یہ سارا شور اس نے خون کے گھونٹ پیتے سنا برداشت کیا نیند غارت ہوئی کوئی گھنٹے دو گھنٹے بعد جا کر نیند مہربان ہوئی وہ سوئی۔ صبح یوں ہوئی جیسے ابھی پلک جھپکی اور صبح ہوگئ۔ امی نے جلدی جلدی پراٹھا بنایا مگر اسکے پاس کھانے کا وقت نہیں تھا۔ بھاگم بھاگ یونیورسٹی جانے کیلئے تیار ہوئی ۔ امی نے کہا بھی ناشتہ ساتھ لے جائو یونیورسٹی میں کسی کونے میں بیٹھ کر کھا لینا لیکن پوائنٹ مس ہو جانے کے خوف نے اسکے پیروں میں پہیئے لگا دیئے تھے۔ آج اسکی اہم اسائمننٹ جمع کرانے کی آخری تاریخ تھی سو چھٹی نہیں کر سکتی تھی۔ کلاس میں بھاگ بھاگ کے پہنچنے تک پیریڈ شروع ہوچکا تھا سر آچکے تھے اسکے اجازت مانگنے پر تیکھی نگاہ سے گھورا مگر چہرے پر بجتے بارہ پھولی سانسوں پر ترس کھا کر کچھ کہا نہیں۔ وہ دھپ سے اپنی مخصوص نشست پر آبیٹھی اپنی عزیز سہیلی رومیصہ کے برابر۔
کیا ہوا؟ دیر کیوں ہو گئ؟
رومیصہ دھیمی آواز میں پوچھ رہی تھی۔
بس وہ صبح آنکھ نہیں کھلی وقت پر
اس نے مختصر جواب پر اکتفا کیا۔ پے در پے کلاسیں تھیں۔ بریک جو ہوتی تھی وہ رمضان کی وجہ سے بند تھی۔ اسے یاد آیا اس نے گھر سے نکلتے پانی بھی نہیں پیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Birthstone Jewelry Necklace for Women on Birthday Anniversary Presents for Wife Women Necklaces for Valentine's Day, Christmas, Mother's Day Necklaces for Mom - 18K Gold Filled with 925 Sterling Silver

Birthstone Jewelry Necklace for Women

Birthstone Jewelry Necklace for Women on Birthday Anniversary Presents for Wife Women Necklaces for Valentine’s Day, Christmas, Mother’s Day Necklaces for Mom – 18K Gold Filled with 925 Sterling Silver


اس نے آہ بھر کر گھورا۔ پیاس سے برا حال تھا بمشکل ایک پیریڈ کی بریک تھی کہ سر نے چھٹی کر لی تھی تو پیاس سے بے تاب وہ رومیصہ کے ساتھ سیدھا پانی پینے ڈیپارٹمنٹ کے ڈسپنسر کے پاس آئی تھی۔
ڈسپنسر بند تھا ۔ بوتل ہی غائب تھی۔ ظاہر ہے جب رمضان میں کسی نے پانی پینا ہی نہیں تھا تو کیا ضرورت تھی بوتل بدلنے کی الٹا ڈسپنسر بند کرکے بجلی بھی بچا لی گئ۔
ایسا کرتے ہیں انگلش ڈیپارٹمنٹ چلتے ہیں۔ وہاں غیر ملکی طلباء بڑی تعداد میں پڑھتے ہیں وہاں کا ڈسپنسر آن ہوگا ہی۔
رومیصہ نے ہمدردی سے اسے دیکھتے مشورہ دیا۔ خود تو اسکا روزہ تھا لیکن سہیلی کی شدید فکر ہو رہی تھی۔ انگلش ڈیپارٹمنٹ کونسا پاس تھا۔ تیز چمکتا سورج سر پر تھا اور دور لگ رہا تھا۔ مگر اللہ کا نام لیکر چل پڑیں۔ واقعی یہاں کا ڈسپنسر آن تھا۔ اس نے اکٹھے دو گلاس پی لیئے۔ تھوڑی جان میں جان آئی تو ایکدم شرمندہ سی ہوگئ۔ رومیصہ اسکے ساتھ کھڑی تھی روزے دار اسکے ساتھ اتنا پیدل چلی اور اب وہ بے شرمی سے اسکے سامنے پانی پیتی چلی گئ۔
سوری رومیصہ مجھے خیال نہیں رہا تمہارا تو روزہ ہوگا نا میں کتنی بے شرم ہو تمہارے سامنے پانی پیتی چلی گئ۔
اس نے اتنی معصومیت سے کہا تھا ۔ موبائل میں اسکرال کرتی رومیصہ نے اسکی شکل دیکھ کر ہنستی چلی گئ۔
یار پاگل ہو کیا ۔ اتنا کچا تھوڑی ہے میرا روزہ ۔
پھر بھی یار آئیم سوری۔ مجھے احتیاط کرنی چاہیئے تھئ۔روزے دار کے سامنے۔ مشعل منمنائئ
اوہو کچھ نہیں ہوتا۔اس روزے دار کو الٹا مزید ثواب مل گیا ہوگا۔ وہ ہلکے پھلکے انداز میں کہہ کر ہنسی۔
تمہیں مزید ثواب ملا تو مجھے مزید گناہ ملا ہوگا؟
مشعل سوچ کے رہ گئ۔ اسے سوچ میں گم دیکھ کررومیصہ نے اسکے بازو میں بازو حمائل کیا۔
چلو اب کہیں سائے میں بیٹھ کر اسائنمنٹ ڈسکس کر لیں۔قسم سے گھر جا کے بالکل موقع نہیں ملے گا پڑھنے کا مجھے۔ گھر پہنچتے تین بج جانے اور پھر نماز قرآن پڑھتے شام سر پر آجاتی۔ سحری تو امی دیکھ لیتی ہیں مگر افطاری کا سب اہتمام ہم بہنوں کے ذمے ہے۔ اوپر سے بھائی اور ابو تو پکوڑے کے بنا افطار کرتے ہی نہیں ۔۔ وہ سرسری انداز میں اپنی مصروفیات بتا رہی تھی جو رمضان میں دگنئ ہوگئ تھیں۔ وہ دونوں یونہی باتیں کرتی ڈیپارٹمنٹ سے نکل آئیں۔ ارادہ اپنے ڈیپارٹمنٹ میں کسی خالی کمرے کو ڈھونڈ کر بیٹھ کر پڑھنے کا تھا۔مشعل کا سر چکرا رہا تھا دوبارہ فورا پڑھنے کا دل نہیں تھا لیکن رومیصہ پر ترس بھی آرہا تھا۔
روزے میں پکوڑے تیار کروگی ؟ اتنی گرمی ہورہی ہے آجکل تو۔تمہیں تو پیاس لگ جائے گی۔
اسے اپنی سہیلی کی فکر ہونے لگی۔ رومیصہ قہقہہ لگا کر ہنسی۔
ہاں لگ تو جاتی ہے پچھلے سال تو پکوڑے تلتے میں بیہوش ہو کر بھی گر گئ تھی ۔پورے دو دن آرام ملا باہر سے پکوڑے منگوائے تھے۔ تیسرے دن میں پھر کھڑی پکوڑے تل رہی تھی۔
وہ مزاحیہ انداز میں اپنی حالت زار بتارہی تھی۔
مشعل سر ہلا کر رہ گئ۔
تمہارے گھر اہتمام ہوتا ہے جب روزے ہوتے؟
رومیصہ نے سوال کیا۔تو وہ سر جھٹک کر بولی
گھر میں بس ہم دو بہنیں اور امی ابو ہی تو ہیں۔ ہم سادہ کھانا ہی کھا لیتے بہن تو ڈائٹنگ کے نام پر وہ بھی نہیں کھاتی ۔ ابو بھی بلڈ پریشر کی وجہ سے پرہیزی کھاتے لے دے کر میں اور امی کبھی کبھار فروٹ چاٹ وغیرہ بنا لیتے بس۔
وہ سادگئ سے بولی تو رومیصہ رشک بھری نگاہوں سے دیکھنے لگی۔
اف کتنے سمجھدار گھر والے ہیں تمہارے۔ میرا تو کام کاج کی وجہ سے قرآن بمشکل ختم ہو پاتا ہے وہ بھی ایک۔ افطاری کی تیاری پھر اسکے بعد ڈھیر برتن اسکے بعد رات کا کھانا پھر سحری ۔ نماز قرآن کا وقت نکالنا مشکل ہوجاتا ہے قسم سے۔ وہ دونوں اپنے ڈیپارٹمنٹ پہنچ چکی تھیں اب ایک ایک کمرہ کھول کر خالی کمرہ ڈھونڈ رہی تھیں جب ایک کمرہ کھولا تو اندر تو پارٹی کا سماء تھا۔ تین چار لڑکیاں بیٹھیں بریانی کھا رہی تھیں۔ انکے دھاڑ سے دروازہ کھولنے پر ہڑبڑا سی گئیں۔
تم لوگوں کا روزہ نہیں ہے۔ رومیصہ نے حیرت سے پوچھا تو وہ گڑبڑا گئیں۔ فرسٹ سمسٹر کی کلاس تھی۔ ان سے جونیئر تھیں اسکے رعب سے نہ پوچھنے کے باوجود بھی گھبرا ہی گئیں۔
نہیں وہ دراصل چھٹیاں چل رہی ہیں۔
ایک نے جلدی سے بہانہ بنایا تو رومیصہ ہنس پڑی
تم سب کی اکٹھی؟ چلو کھائو کھائو ہم خالی کمرہ ڈھونڈ رہی ہیں۔ مخل ہونے کی معزرت۔
جتا کر کہتے ہوئے وہ دروازہ بند کرنے لگی۔
وہ چاروں بھنا ہی گئیں۔ ایک چڑ کر بولی
اسے کیا لگ رہا تھا ہم جھوٹ بول رہی ہیں۔
ہاں تو یہ کہنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ اب ہم سب کی چھٹیاں تو واقعی نہیں ہیں۔ میری تو صبح آنکھ ہی نہ کھلی تھی۔
دوسری نے دبے دبے انداز میں ٹوکا۔
بھئی ہماری مرضی ہم روزہ رکھیں نہ رکھیں کسی کو کیا۔ کوئی کون ہوتا ہے پوچھنے والا۔
تیسری نے چمچ منہ میں ڈالتے ہوئے بات ہی ختم کردی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


میکرو اکانومک ڈیولوپمنٹ کے آگے سب الفاظ ناچنے لگے تھے۔ اس نے پلکیں جھپک کر انکا سرا پکڑنا چاہا کہ مسلسل بولتی رومیصہ کی آواز بھی کانوں میں آنی بند ہوگئ۔ قریب تھا گھومتے سر کے ساتھ وہ کرسی سمیت زمین بوس ہو جاتی کہ رومیصہ نے بازو پکڑ کر ہلایا
یہ کیا میں اتنی اہم باتیں کر رہی ہوں اور تم سن بھی نہیں رہیں؟ یہ پوائنٹس تو۔۔۔ووووووو
آگے سب منظر ہی دھندلا گیا
کیا ہوا۔ رومیصہ نے گھبرا کر اسے کندھوں سے تھام کر جھنجھوڑ ہی ڈالا
یار مجھے لگ رہا میرا بی پی لو ہو رہا ہے۔ بھوک سے چکر آرہے۔
نقاہت بھری آواز میں بمشکل اس نے اپنی حالت بتائئ۔
تم نے ناشتہ نہیں کیا تھا؟ رومیصہ پریشان ہوگئ
نہیں صبح موقع ہی نہ ملا۔ اس نے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔ ابھی یاد آیا کہ رات کو وہ نیند اتنی میٹھی آرہی تھی کہ امی جب کھانا کھانے کیلیے بلانے آئیں تو صاف منع کردیا کہ سونے لگی ہوں۔ اب بارہ پندرہ گھنٹے کے بعد حقیتا آنتیں پلٹتی محسوس ہو رہی تھیں۔
اوہ گاڈ کیا کروں ؟ کینٹین بھی بند ہوتی ہے رمضان بھر۔ ٹھہرو دیکھتی ہوں شائد میرے بیگ میں کوئی ٹافی وغیرہ ہو۔
رومیصہ نے حقیقتا اپنا بیگ الٹ دیا۔کرسی پر اپنے بیگ کی ایک ایک چیز نکال کر رکھ دی۔ اتفاق سے کئی دن پرانی رکھی چاکلیٹ نکل آئی
گرمی سے پگھل کر اپنی شکل کھو چکی تھی مگر ڈوبتے کو تنکے کا سہارا۔ اس نے جلدی ریپر کھول کر اسکی جانب بڑھادی۔ چاکلیٹ کو ریپر سے شہد کی طرح نکال کر کھانا پڑا ۔لیکن بھلا ہو تھوڑی تقویت ملی دل کو طبیعت بھی سنبھل گئی۔ چند منٹ خود کو سنبھالنے میں لگے تو سچ مچ رومیصہ اسے فرشتہ ہی لگنے لگی۔
بہت شکریہ رومیصہ سچی اس وقت تو لگنے لگا تھا جان نکلنے لگی تھی میری۔ مشعل کے دلگیری سے کہنے پر وہ منہ پھلا کر گھورنے لگی
اب تم میرا شکریہ ادا کروگی؟ حد ہے۔ چلو یونیورسٹی میں کینٹین بند سہی باہر سے کوئی چیز دلا لائوں تمہیں۔
رومیصہ نے کہا تو وہ پہلے تو انکار کرنے لگی پھر خیال آیا کہ کہیں دوبارہ طبیعت نہ خراب ہو جائے یونیورسٹی پوائنٹ میں ابھی دیر تھی اور خراب طبیعت کے ساتھ لوکل جانا مناسب نہیں تھا۔
چلو واقعی مجھے مزید طبیعت خراب ہونے سے پہلے کچھ کھا لینا چاہیئے۔ وہ کہتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انکی یونیورسٹئ سے قریب ترین مرکز ہی لگتا تھا۔وہاں تک جانے کی ہمت نہ تھی اس تیز دھوپ میں۔ ہاں قریب چھپر ہوٹل اور ایک چھوٹی سی ٹک شاپ تھی وہ بھی بند ۔ وہ دونوں منہ لٹکا کے واپس ہوئیں۔
تم پریشان مت ہو تمہارا تو روزہ بھی ہے میری وجہ سے خوار ہو رہی ہو۔
مشعل کو شدید شرمندگی ہو رہی تھی۔
یار ٹیکسئ میں اکیلے گھر بھیجنا مناسب نہیں لگ رہا تمہاری طبیعت بھی خراب ہو رہی ہے۔ میں ساتھ چلتی مگر پھر واپسی پر مجھے کون گھر پہنچائے گا بابا تو کراچی گئے ہوئے ہیں کل آئیں گے واپس۔
رومیصہ فکرمند تھی۔ مشعل ہمت سے کام لے رہی تھی لیکن بی پی شدید لو ہو رہا تھا۔ اب کینٹین ہی واحد سہارا تھی۔ وہ مشعل کو اپنے ساتھ کینٹین ہی کے پاس لے آئی۔ کینٹین کے ملازمیں تو نہیں تھے البتہ کینٹین کے مالک انکل مسجد سے نماز پڑھ کر نکلتے دکھائی دیئے۔رومیصہ خوش ہو گئ۔ پیشانی پر مہراب داڑھی وہ صوم صلوات کے پابند خاصے شریف انسان تھے۔ اس نے سلیقے سے جا کر ان سے مدعا بیان کیا۔ وہ سر ہلاتے فورا کینٹیں کی طرف چل پڑے۔ کینٹین کھول کر ان دونوں کو اندر میز کرسی پر بٹھایا۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی وہ چپس چاکلیٹ بسکٹ سینڈوچ جانے کیا کیا اٹھائے چلے آئے۔
بیٹا سینڈوچ ہے تو کل کا مگر فریج میں رکھا تھا خراب نہیں ہوا ہوگا۔ انہوں نے کہتے ڈھیر لگا دیا۔ دو تین طرح کے چپس بسکٹ جوس ۔۔
انکل اتنا کچھ نہیں چاہیئے بہت ذیادہ ہے۔ بس یہ ایک چپس کا پیکٹ اور جوس کافی ہے اس نے بیگ سے پیسے نکال کر دینے چاہے ۔۔
رومیصہ کو پیسوں کی بھی فکر ہو رہی تھی۔ ایک آدھ چپس کا پیکٹ جوس تو ٹھیک تھا مگر اتنا کچھ ۔انہوں نے نرمی سے پیسے لینے سے بھی منع کردیا۔
کوئی بات نہیں بیٹا۔ پیسے کی فکر مت کرو۔ میری بیٹیوں جیسی ہو دونوں اطمینان سے کھا لو۔ دروازہ بند کر دینا میں بعد میں چکر لگا کر تالا لگا لوں گا۔
وہ شفقت بھرے انداز میں سر پر ہاتھ رکھتے کہہ کر خود باہر نکل گئے۔
دونوں؟ رومیصہ چیں بہ چیں ہوئی۔ مشعل نے پھر تکلف نہ کیا۔ سینڈوچ کھا کر جوس پی کر طبیعت بحال ہوئی۔
اف کل دوپہر کو کھانا کھایا تھا رات کو بھی کھانا نہیں کھایا اسوقت صحیح حالت خراب ہوئی وی تھی۔
مشعل کے پیٹ میں کچھ گیا تو توانائی بحال ہونے پر زبان چالو ہوئی۔ رومیصہ ہنس دی۔
چلو اٹھیں اب کلاس شروع ہونے والی ہے۔
اسکے کہنے پر مشعل بھی سر ہلا کر اٹھنے لگی۔ چپس اور باقی بسکٹ احتیاط سے اٹھا کر کائونٹر پر رکھے ایک جوس کے ڈبے کے نیچے دو جوس کے ڈبوں اور سینڈوچ کے پیسے رکھے۔
میں بھی لے لوں یہ مجھے بھی پسند ہے افطار میں پیئوں گی۔ مشہور انرجی ڈرنک دیکھ کر رومیصہ کا بھی دل چاہ گیا۔ اس نے بھی ایک بوتل پکڑ کر اپنے بیگ سے پیسے نکال کر وہیں رکھے۔ کینٹین کی بتیاں بجھا کر احتیاط سے دروازہ بند کردیا۔ ابھی بیگ میں جوس رکھ ہی رہی تھی کہ انکے دو ہم جماعت گزرے اسے دیکھ کر ایک نے جملہ چست کردیا
اوئے کھوجے مار روزہ نہیں رکھا تم نے؟
اس سے قبل کہ وہ کوئی جواب دیتی اسکے ہمراہ لڑکے نے اسکو کھینچ لیا۔
پاگل ہو ایسے نہیں ٹوکتے لڑکیوں کو۔
وہ اسکے کان میں گھرک رہاتھا۔
وہ دونوں نظریں چرا کر جوس بیگ میں رکھتی آگے بڑھ گئیں سامنے سے انکل آرہے تھے۔ انہیں بتانا ضروری تھا۔
شکریہ انکل ۔ وہ ہم نے کائونٹر پر پیسے رکھ دیےہیں اور کینٹین کا دروازہ بھی بند کردیا۔
اب طبیعت کیسی ہے بیٹے؟ وہ اسی شفقت بھرے انداز میں پوچھ رہے تھے۔
جی بہتر ہے۔ شکریہ آپکا۔
مشعل ممنون سے انداز میں بولی
کوئی بات نہیں۔ مگر بعد میں روزے ضرور رکھ لینا انکی معافی نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا تو رومیصہ خاصی شرمندہ سی ہوگئی مشعل نےاسکی کیفیت سمجھ کر سبھائو سےکہا۔
میں رکھتی ہی نہیں ہوں روزے دراصل میں کرسچن ہوں۔
اچھا میں چلتا ہوں۔ آئندہ بھی کبھی ضرورت پڑے توآجانا بیٹے۔ فکر نہ کرنا میں بھی بیٹیوں والا ہوں سمجھ سکتا ہوں۔
وہ جیسے اسکی نادانی پر مسکرائے۔۔ پھر سر جھٹکتے آگے بڑھ گئے۔ ان دونوں کی سمجھ میں نہ آیا انکل کے اس خیال رکھنے والی ادا پر خوش ہوں یا انکی غیر ضروری فکر پر چڑ جائیں۔
حد ہے لڑکیوں نے روزہ نہیں رکھا تو بس ایک ہی خیال آتا ہے ذہن میں ان لوگوں کے۔
مشعل جھلاگئ۔۔
ایسے دیکھ رہے تھے جیسے میں جھوٹ بول رہی ہوں۔حالانکہ میں تو۔۔۔۔ میں تو واقعی عیسائی ہی ہوں۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
THE END

Rating

> » Home » Afsanay (short urdu stories) » Qissa Ek rozay ka ( Ramzan special afsana)



Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *