salam korea
by vaiza zaidi
قسط 29
آجکا بس کا سفر خوشگوار تھا۔ رش کم تھا یا اسکی قسمت اچھی تھی بیٹھنے کی جگہ مل گئ۔ بس سے اتر کر اس نے سب سے پہلے اپنا کندھا تھپکا
شاباش اریزہ ۔ تم خود مختار ہو تی جا رہی ہو۔
بس اسٹاپ کی تصویر کھینچی اسی وقت بلاگ پر لگائی
صبح کا وقت جاب شروع مجھے اچھی سی دعا دو سب کہ آج کا ٹارگٹ میں پورا کر لوں۔
سر جھکائے لکھتے ہوئے چلتے چلتے اپلوڈ کیا سر اٹھایا ٹھک سے مارٹ کی گلاس وال سے سر لگا کھسیا کر سر سہلاتے وہ خراماں خراماں چلتی اندر داخل ہوئی۔
اپنے اسٹال کو سیٹ کیا سکون سے کھڑی ہوئی پھر اگلے دو تین گھنٹے خاموش یونہی کھڑی رہی مجال ہے جو کوئی آیا ہو سیریل لینے۔ ایک خاتون آئیں بھی تو گھنٹہ اسے یہ سمجھانے میں لگ گیا کہ یہ سیریل ڈائٹ سیریل نہیں بچوں کیلئے ہے۔
دے۔۔ اس سے اچھی طرح بات سمجھ کر اپنے بچے کا پرام دھکیلتی آگے بڑھ گئ۔
محترمہ بچے کیلئے تو لے لیں۔
اس نے پکار کر کہا مگر وہ ان سنی کر گئ۔ اسکا منہ بننے لگا۔
حد ہے ویسے انکو پہلے اشتہار وغیرہ چلانے چاہیئے تھے پھر فری سیمپلنگ کرتے یہاں کی عورتوں کو تو انگریزئ بھی نہیں آتئ ۔ اس نے منہ بنایا۔
تبھی ایک چار پانچ سال کا بچہ اسکے لانگ ٹاپ کے دامن کو کھینچ کر اسے متوجہ کرنے لگا
گورا چٹا گول مٹول اس نے بے ساختہ اسکے گال پر چٹکی سی بھر لی۔
یہ کھانا۔ اس نے کچھ اشارے اور ہنگل سے سمجھایا اس نے بھی جھٹ اسے اٹھا کر بچوں والی کھانے کی کرسی پر بٹھایا اور پیالہ بنا کر اسکے آگے رکھا۔ بجائے کھانے کے وہ ٹکر ٹکر دیکھنے لگا۔
کھائو نا۔
اس نے چمکار کر کہا۔
تبھی اسکا موبائل بج اٹھا۔ ایڈون کا میسج تھا مختصر مگر سنجیدگی سے بھرپور
تمہاری ہر طرح کی مدد کا میں تہہ دل سے شکر گزار ہوں بہت شکریہ۔
انگریزی میں پیغام تھا۔ اس پر جیسے گھڑوں پانی پڑ گیا۔
اتنے دنوں سے روز سوچتی تھی کہ سنتھیا سے ملنے جائے مگر اس نوکری کی وجہ سے فرصت کہاں تھی۔ اس نے شرمندگی سے سر کھجایا۔
آج پکا جائوں گی اس سے ملنے۔ اس نے مصمم ارادہ کیا۔ سر اٹھایا تو اس ننھی مخلوق کو بسورتا پایا۔ چمکارا
کیا ہوا؟ ۔۔
وہ۔۔ اب اس نے انگلی کے اشارے سے کہا تو اس نے اسکی انگلی کی سیدھ میں دیکھنے کو اسکے کندھے پر تھوڑی ٹکائی۔ اس ننھی مخلوق کا اشارہ اس چھوٹے سے ٹیڈی بئیر کی جانب تھا جسے پانچ پیکٹ اکٹھے لینے والی خاتون کو تحفتا دینا تھا۔ ٹیڈی بئیر ابھی تک سب یونہی سجے بیٹھے تھے۔ کسی نے لیا بھی تو ذیادہ سے ذیادہ دو پیک لیئے۔
اس نے گہری سانس بھر کر ٹیڈی بئیر اتار کر اسے تھمایا اس نے نہایت خوشی سے ٹیڈی بئیر تھاما اور پیالہ آگے کھسکا دیا۔
یہ بھی کھا لیتے مزے کا ہے۔
اس نے پیالہ اٹھاتے ہوئے یونہی چمچ بھر کر منہ میں رکھ لیا۔
واقعی مزے کا تھا۔ ہلکا پھلکا سا میٹھا فلیور شائد ونیلا تھا۔
اسکے تاثرات نے بچے کو للچایا جھٹ منہ کھول لیا۔ اپنا چمچہ اس نے لمحہ بھر سوچا پھر ایک طرف رکھ کر نیا چمچ نکال کر اس کو چمچ بھر کر کھلایا ۔
بچے نے اطمینان سے چبایا اور نگل کر روتی صورت بنا لی
کیا ہوا مجے مجے کا ہے۔۔
اسکے ہاتھ پائوں پھول گئے۔
جھٹ خود ایک چمچ کھا کر تالی بجائی جیسے کھا کر بہت خوشی ہوئئ ہو۔
مجے مجے کا۔۔
بچے نے دہرایا پھر ہمکنے لگا
اب کیا کروں تمہارے ساتھ کھانا وانا ہے نہیں رونے کو تیار بیٹھے ہو۔ چاہ کیا رہے ہو۔ اب یہ ٹیڈی بئیر بھی لے تو لیا۔
وہ اس سے سنجیدگئ سے پوچھ رہی تھی۔
بچے نے اسکی سب اردو خاموشی سے سنی چمچ بھر کر منہ میں رکھا اور اسے پھر اشارہ کرنے لگا زور زور سے تالی بجا کر
کیا ؟ میں بھئ بجائوں؟
وہ حیران ہوئی ۔ ہلکی سی تالی بجائی بچے نے خوش ہو کر قلقاری ماری ۔ پھر چمچ بھر کر منہ میں رکھا۔
مجے مجے کا۔
اس کے منہ سے مجے مجے کا اتنا مزے کا لگا کہ اسکی ساری کلفت دور ہوگئ۔ اسکے نوالہ لینے پر اس نے خوش ہو کر تالی بجائئ۔ پھر اس بچے نے پورا پیالہ ختم کیا اور ہر نوالے پر اس سے تالی بجوائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اس کے اسٹال سے کچھ ہی فاصلے پر موجود اسٹاف کے کیبن کی گلاس وال سے اسے دیکھ رہا تھا۔ ہاتھ میں کین پکڑے وہ پینا بھولے ہوئے تھا۔کم سن اس سے کچھ فاصلے پر اپنی ریوالونگ چئیر پر بیٹھا اسکے دو سینئر افسران سے بریفنگ لے رہا تھا۔ ان دونوں نے بات کے دوران اس کی جانب تھوڑا حیران ہو کر دیکھا تھا۔ اس میٹنگ میں اصل کام ہایون کا ہی تھا مگر وہ یوں بے نیاز کھڑا رہا تھا۔ کم سن نے اسکی جانب دیکھا پھر گہری سانس لیکر ان دونوں کو جانے کا کہہ دیا۔ دونوں جھک جھک کر اس کو سلام کہتے نکل گئے تو وہ دبے قدموں اسکے پاس آیا اور جان کے ایکدم سے اسکے کان کے پاس بولا
تم پہلے بتاتے تو میں سی سی ٹی وی کی پوری چھے گھنٹے کی ریکارڈنگ بھجوا دیتا بلکہ کہو تو کل سے یہاں کہیں ہڈن کیمرہ لگوا دوں لائیو دیکھ لیا کرنا اسے۔
ہایون اسکے ایکدم سے کان پر بولنے پر کان سہلانے لگا۔
اتنی دیر میں بس ایک بچہ ہی کھا رہا ہے سیریل ۔ یہ سیریل بکتا نظر نہیں آرہا مجھے تمہارا ٹارگٹ اسکی وجہ سے پورا نہیں ہوگا تو میں پیسے نہیں دوں گا۔
نہایت سنجیدگی سے اس نے کہا تو کم سن نے اسکو تادیبی نگاہوں سے گھورا۔
اسکو بکوانا کوئی مسلئہ نہیں مگر یہ بتائو تمہیں میرا ٹارگٹ پورا نہ ہونے کی فکر ہے یا اسکے؟
کم سن بھئ ایک کائیاں تھا۔
تمہارا ٹارگٹ بھئ اسکا ٹارگٹ پورا ہونے سے ہی جڑا ہے۔
ہایون بھی اتنی آسانئ سے ہاتھ آنے والا نہیں تھا۔
کم سن نے شاکی نگاہ ڈالی اور اپنی جیب سے موبائل نکال لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس بچے کو کھاتے دیکھ کر کئی بچے آجمع ہوئے تھے۔ انکی والدائیں بھی۔ دھڑا دھڑ اسکے ڈبے بکے۔ وہ والا ٹیڈی اس نے خوش ہوکر یونہی اس بچے کو تھما دیا تھا۔ وہ بے تحاشا خوش ہوا تھا۔ اسکی ماں جھک جھک کے گھمسامنیدہ کہتی گئ تھئ۔ پانچ ڈبے رہ گئے تھے بس۔ وہ خوشی سے پھولے نہ سما رہی تھی۔ پہلا دن تھا ٹارگٹ پورا ہونے کا۔ شائد۔ ابھی تین گھنٹے مزید تھے پانچ تو بک ہی جاتے۔
وہ مطمئن ہوگئ ۔ ایک سوچ یہ بھی آئی کہ یہ پانچ خود خرید لے۔کیونکہ۔ اس نے دزدیدہ نگاہوں سے ٹیڈی بئیر کو دیکھا پھر پلاسٹک ریپ سے سجا ٹیڈی بئیر اٹھا لیا۔
یہ بہت ہی پیارا تھا۔ گول مٹول سا بڑی بڑی آنکھیں کھول کر دیکھتا۔
وہ چند لمحے اس کو دیکھتی رہی پھر واپس رکھ کر مڑی تو سامنے کائونٹر پر نسبتا دو بڑے بچے آبراجمان ہوئے تھے۔ چندی آنکھوں کے ساتھ معصومیت سے تکتے۔ ایک نے بچکانہ آواز میں ہنگل میں فرمائش داغئ
آہجومہ ہمیں سیریل کھلائو۔
آہجومہ کو خاک سمجھ آئی ہوگی اس سے انگریزی میں بولو۔
ایک نے دوسرے کو ٹوکا۔ تو دوسرے نے جیسے سمجھ کر سر ہلایا
آہجومہ پلیز ۔۔
ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا انگریزی میں کہ آہجومہ آگ بگولا ہوگئیں۔
اس نے دونوں ہاتھ کمر پر ٹکا کردانت کچکچا کر پوچھا۔
آہجومہ کسے بولا؟
وہ لڑنے کیلئے تیار تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھئ ذیادہ دیر نہیں ہوئی تھی۔ دونوں کے باہمی اجازت نامے کے ساتھ مکمل معائنے کے بعد دو دن بعد کی انکو آپریشن کی تاریخ دے دی گئ تھی۔ نہایت پیشہ ورانہ انداز میں ڈاکٹر نے ان کو سب تفصیل بتائی تھی۔ ایڈون ہر بات پر سر ہلاتارہا تھا۔ وہ اسکو چپ سی دیکھ رہی تھی۔ ایڈون مطمئن بلکہ خوش کہنا مناسب ہوگا لگ رہا تھا۔ کلینک سے نکل کر باہر آتے بس میں بیٹھتے اسکے ایک ایک قدم پر ایڈون نے اسکا خیال رکھا تھا۔ جیسے وہ کانچ کی بنی ہو۔ اسے اسکی یہ توجہ احتیاط خیال کھلا تھا مگر اس نے ظاہر نہ کیا۔ ایڈون پورا راستہ بولتا آیا تھا۔
آج کی تو چھٹئ ہوگئ اب کل جاکر پرسوں کی چھٹی مانگوں گا تو جانے دیں گے کہ نہیں خیر کوئی نہ کوئی جگاڑ لگا لوں گا۔ تم فکر نہ کرنا میں تمہارے ساتھ ہی آئوں گا۔
وہ ان سنی کرکے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ آج سورج نکلا ہوا تھا نرم گرم سی دھوپ اچھی لگ رہی تھی اسکو نیند سی آنے لگی۔ کہ ایڈون کی اگلی بات نے اسکی آنکھیں پٹ سے کھول دیں۔
میں نے اریزہ کو شکریہ کہہ دیا تھا۔ میسج پر۔ کال بھی کروں گا۔بلکہ آپریشن کے بعد ہم دونوں اریزہ سے ملنے جائیں گے۔
کیوں؟ اسکا کس بات کا شکریہ؟
وہ فورا مڑ کر پوچھنے لگی۔
اسی کے سمجھانے پر مانی ہو نا میں نے ہی اس سے کہا تھا بات کرے تم سے شائد تمہیں اسکی بات سمجھ آجائے۔ ۔ ورنہ میں تو سمجھا سمجھا کر تھک گیا تھا تم سن ہی نہیں رہی تھیں۔
ایڈون کا انداز سادہ سا تھا۔
تم نے اریزہ کو سب ۔۔
اس نے تاسف سے دیکھا۔ ایڈون نے اب اگلی بات شروع کردی تھی اس نے رخ موڑ لیا۔
میرے پاس ویسے پیسے تو ہیں مگر آپریشن کے خرچے کے بعد بالکل ختم ہو جائیں گے۔ ایڈوانس لینے کی کوشش کروں گا دیکھو کیا بنتا۔
بس انکے اسٹاپ سے کہیں پہلے رکی تو وہ اٹھ کھڑا ہوا
سنتھیا حیرت سے اس سے پوچھنے لگی
یہ ہمارا اسٹاپ تو نہیں ۔
یہاں کچھ کام ہے۔
وہ اسکا ہاتھ تھامنے کو ہاتھ بڑھائے تھا۔ اس نے اسکا سہارا لے لیا۔ ایڈون اسے گنگم کے بازار میں لیکر آیا تھا۔ سوئی سے ہوائی جہاز تک بچوں کے ہی سہی دنیا کی ہر چیز بک رہی تھی۔ وہ بہت اشتیاق سے دیکھتی آئی۔ پورا بازار چلا کر وہ اسے ایک دکان کے پاس لایا تھا۔ نئی پیکنگ میں تھوک کے حساب سے سویٹ پینٹ شرٹس سرما کے جیکٹس اپر ہر قسم اور ڈیزائن کے موجود تھے۔
دو سویٹ سوٹس ایڈون نے خود ہی ڈھیلے ڈھالے اسکے لیئے منتخب کیئے ایک جیکٹ اسے پسند آگئ ۔
یہ کوٹ ذیادہ گرم لگ رہا ہے۔ ایڈون نےکوٹ اٹھا کر اسکے ساتھ لگایا ۔ کوٹ واقعی کافی موٹا اور لانبا تھا گھٹنوں تک آتا۔
اس نے جیکٹ واپس رکھ دی۔ ایڈون نے دونوں شاپر اٹھا لیئے تھے۔
دکان میں ٹاپس بھی تھے ٹائٹس بھی۔ وہ بس دیکھ کر ایڈون کے ساتھ آگے بڑھ آئی
اب جوتوں کی باری تھی۔ ایڈون کو جوگرز پسند آرہے تھے جبکہ اسے کورٹ شوز۔ اس نے جوگرز ہی لے لیئے۔
یہ گرم رہیں گے ۔ ایڈون نے بتایا وہ سر ہلا کر رہ گئ۔
اسکو شدید تھکن ہو رہی تھی۔ سردی بھی لگنے لگی تھی۔ اس وقت وہ جینز اور گرمیوں کے اچھے وقت کے لیئے ٹاپ میں ملبوس تھئ اوپر سے اس نے ایڈون کا جیکٹ پہن رکھا تھا جو اسے اب سردی کیلئے ناکافی لگنے لگا تھا۔
ایڈون کو خود بھئ شائد سردی لگنے لگی تھی۔
سوپ پیوگئ؟
چلتے چلتے اس نے پوچھا اس نے بس سر ہلایا۔ اسکی ناک سرخ ہوگئ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راستے سے کچھ پھل جیسے د وتین کیلوں اور دو تین سیب کی پیکنگ گلوکوز انرجی ڈرنک دودھ ایک ٹانک بھی ڈاکٹر نے لکھا تھا ۔ سب چیزیں لا کر اس نے اسکے کمرے کی میز پر رکھی تھیں۔ کمرے میں حبس تھا اس نے فورا جیکٹ اتاری اور بیڈ پر بیٹھ گئ۔
اور بھئ کچھ چاہیئے ہو تو بتا دینا۔
اسکی شاپنگ کے بیگز اس نے میز کے نیچے بنی جگہ میں گھسا دیئے تھے۔ پھر ہاتھ جھاڑ کر اپنا اپر اتارا۔
یہ تم رکھ لو رات کو سردی لگے تو پہن لینا۔ اس نے اسکے تکیئے کے پاس رکھتے ہوئے ہدایت کی پھر جیکٹ اٹھا کر نکلنے لگا۔
رات کیلئے کچھ کھانے کو لانا ہوگا بس اب۔
اس نے کہا تو ایڈون نے مڑ کر یوں دیکھا جیسے کہہ رہا ہو اس سب کے بعد رات کو بھی کھانے کی پیٹ میں جگہ ہوگی؟
سات بج تو رہے ہیں کھا کر سوجانا ویسے میں اکیڈمی سے واپسی پر دیکھوں گا کوئی کیک رس وغیرہ لیتا آئوں گا۔
وہ جانے لگا تو اسےپھر خیال آیا۔
سوئٹر تو کوئی لی نہیں۔تم اپر دے جائو گے تو خود کیا کروگے؟ یہاں ٹھنڈ بہت ہے اور بس یہ دو ہی سویٹ سوٹس ہوںگے میرے پاس۔ مجھے ڈریس لینا تھا۔ میں پاپا سے کہتی ہوں اور پیسے بھجوادیں۔
سنتھیا کی بات پر وہ سر کھجا کر رہ گیا۔
ابھی گزارا کر لو۔ انہوں نے شاپنگ کے پیسے جو بھجوائے تھے یہ وہی خرچ ہو رہے ہیں۔ مزید مانگو گی انکو شک ہوگا کیوں چاہیئیں۔ وہ یہی سمجھ رہے ہیں تم فلیٹ لیکر رہ رہی ہو اریزہ کے ساتھ جسکی وہ خاصی رقم بھجوا چکے ہیں۔
تو کیا ہوئی وہ رقم؟ خرچ تو نہیں کی ہے تم نے میری شاپنگ پر۔
وہ ایکدم تیز ہو کر بولی۔
کتنی دفعہ سمجھائوں یہ جو مصیبت مول لی ہے اس سے چھٹکارے کیلئے بچا رکھے ہیں۔ کوئی اندازہ ہے کتنی ایڈوانس پیمنٹ کی ہے اور کتنے آپریشن میں پیسے لگیں گے؟
وہ جھلا ہی گیا۔ سنتھیا ایکدم چپ سی ہو کر اسکی شکل دیکھنے لگی تو اسے اپنے لہجے کا احساس ہوا خود پر قابو پاتا گھٹنوں کے بل اسکے سامنے آن بیٹھا دھیرے سے اسکا ہاتھ تھام کر سمجھانے والے انداز میں کہنے لگا
مجھے اندازہ ہے کپڑے سویٹر جیکٹ اس سب کی فوری ضرورت ہے مگر ابھی گزارہ کر لو۔ بس چند دن کی بات ہے۔ تم اسکے بعد پاکستان چلی جانا آرام کرنا جب تک اگلے سمسٹرکی باری آئے گی تب تک تمہاری صحت بھی بحال ہو جائے گی۔ پھر چاہو وہیں ڈگری مکمل کرلو یا یہاں کی اسکالر شپ کیلئے دوبارہ اپلائی کر دینا۔
مجھے پاکستان نہیں جانا۔
اس نے ضدی انداز میں کہہ کر ہاتھ چھڑائے۔
یہاں خود تم سے رہا نہیں جا رہا اس لیئے کہہ رہا ہوں۔۔
وہ زچ ہوا مگر انداز ابھئ بھی نرم سا ہی تھا۔
نہ یہاں رہنے سہنےکا آرام ہے نہ کھانے پینے کا اور۔
اس نے بات کاٹ دی۔
تو میں یہاں رہنے کا کہہ بھی نہیں رہی۔ جب میں ابارٹ کروا لوں گئ تو میں بھی کہیں بھئ جاب کر لوں گی ہم اچھی جگہ لیکر رہ سکیں گے اکٹھے۔۔
اس نے اتنا ہی کہا تھا ایڈون بحث بےکار سمجھتے بات ختم کرنے والے انداز میں کہتا اٹھ کھڑا ہوا
وہ سب بعد کی بعد میں دیکھیں گے۔ فی الحال بس اپنی صحت پر فوکس کرو اس مصیبت سے جان چھڑائو پھردیکھا جائے گا کیا کرنا ہے۔
مصیبت کونسی مصیبت۔ اسکی برداشت ایکدم تمام ہوئی
بچہ ہے یہ ہمارا جسے تم مستقل مصیبت کہے چلے جا رہے ہو۔
وہ طیش میں آکر اسکے مقابل آکھڑی ہوئی۔
ایڈون نے ہونٹ بھینچ لیئے۔
کھانا کھا لینا میں چلتا ہوں۔ وہ کہہ کر مڑنے لگا سنتھیا نے اسکو کندھے سے کھینچ کر روکا پھر گریبان پکڑ کر بولی۔
سچ بتانا مجھے اگر میری جگہ یہاں اریزہ کھڑی ہوتی تو کیا تب بھی تم اس بچے کو مصیبت سمجھتے؟ اس سے جان چھڑانا چاہتے؟ بولو جواب دو۔
وہ ہذیانی انداز میں اسکا گریبان پکڑکر پوچھ رہی تھی۔ اسکا لال بھبھوکا چہرہ ایڈون نے ضبط سے اپنا گریبان چھڑوانا چاہا۔
فضول باتیں مت سوچا کرو۔ اب کھانا کھائو مجھے جانا ہے مجھے دیر۔۔
ہرگز نہیں مجھے جواب چاہیئے۔ مجھے بتائو اگر یہ میری جگہ اریزہ کا بچہ ہوتا تو کیا کرتے تم ؟
ایڈون خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اسکی خاموشی اسے مزید مشتعل کر رہی تھئ۔اس پر جیسے جنون طاری ہو گیا۔
بتائو کیا کرتے۔ بتائو مجھے کیا کرتے۔ مصیبت کہتے اسے بھی؟ یوں جان سے مروادیتے؟ بولو بولتے کیوں نہیں۔ مروا دیتے اس کا بچہ؟اریزہ کا بچہ بھی ہوتا مصیبت؟
اسکے حلق میں چلانے سے خراش پڑنے لگی تھی۔ گھٹئ گھٹئ آواز میں وہ جو منہ میں آرہا تھا بولے جا رہی تھی۔بدستور اسکا گریبان اسکے شکنجے میں تھا۔ ایڈون نے خود کو چھڑوانا چاہا تو شرٹ کا بٹن ٹوٹ کر گرگیا۔
طیش کی ایک لہر اسکے رگ و پے میں دوڑ گئ۔
نہیں۔ اس کا قطعی انداز سنتھیا سکتے میں آگئ جیسے۔
اس کے گریبان پر گرفت بھی ڈھیلی پڑ گئ۔ مگر ایڈون کی بات ختم نہیں ہوئی تھی۔
اسکی نوبت ہی نہ آتی وہ کبھی مجھے بنا کسی رشتے اپنے قریب نہ آنے دیتی۔
وہ کہہ کر رکا نہیں دھاڑ سے دروازہ کھولتا باہر نکل گیا تھا۔ اسکی جیکٹ دروازے کے پاس گر گئ تھی۔ اس نے سائیں سائیں ہوتے دماغ سے جھک کر جیکٹ اٹھانی چاہی مگر وہ ہاتھ میں آئی ہی نہیں دروازہ بند کرنا چاہا ہاتھ پائوں کانپ رہے تھے وہ وہیں دروازے کا سہارا لیئے بیٹھتی چلی گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے ہے تو مزے کا ۔۔
کم سن نے چٹخارہ لیا تھا۔ ہایون بھی مستقل کھاتے ہوئے تائید میں سر ہلا رہا تھا۔
ہے نا ۔ وہ یوں خوش ہوئئ جیسے اسکا سارا کمال ہو۔
توایسا کرو تم دونوں دو دو ڈبے لے لو آرام سے گھر جا کر خوب کھانا۔
اس نے فوری موقع سے فائدہ اٹھایا۔چٹکی بجا کر بولی۔
بلکہ ہایون تم تین خریدنا۔
کیوں ہایون تین کیوں خریدے؟ کم سن حیران ہوا
کیونکہ ہایون اچھا لڑکا ہے۔
اس نے بے نیازی سے کہا۔ ہایون مسکراہٹ دباتا اٹھ کھڑا ہوا۔
میں بھئ بہت اچھا لڑکا ہوں ۔ کم سن کی ناک پر لڑ گئ۔
مجھے کیا پتہ۔ اس نے معصومیت سے کندھے اچکائے۔
بس پانچ ڈبے رہ گئے ہیں آج کے ٹارگٹ میں اگر ہو جائیں تو میں جلدی چھٹی لیکر کہیں جا سکتی ہوں۔
یہ بات ہے چلو میں پانچوں لے لیتا ہوں۔
ہایون نے سرسری سئ نگاہ اسٹال پر ڈالی اور جیب سے بٹوہ نکالنے لگا۔
دیکھا کتنا اچھا دوست ہے میرا۔ اریزہ کا انداز چڑانے والا تھا۔
تھیبا زندگی میں پہلی بار میں کسی کو اپنی ہی چیز پیسوں سے لیتے دیکھ رہا ہوں۔
اس نے ہایون کو چڑایا ۔۔
دوستی تو نبھانی پڑے گی نا۔
ہایون نے ہنگل میں ہی جواب دیا۔ اریزہ چڑ گئ۔ ناک چڑھا کر گھورنے لگی دونوں کو۔
شروع ہوگئے دونوں گٹ پٹ۔اب پکا ہنگل سیکھنی پڑے گی جانے کیا بول رہے۔
یہ بات ہے تو میں بھی بتاتا ہوں کتنا اچھا دوست ہوں میں۔
کم سن بھی اٹھ کھڑا ہوا۔ اور جیب سے فون نکال کر کال ملا لی۔
ہاں جون ووننا یہ اس اسٹال پر جو لڑکی ہے یہ ہماری دوست ہے اسکا خوب خیال رکھا کرو اور اسکے اس ہفتے کے سب ٹارگٹ پورے لگا دینا اور آج کیلئے اسکو دو گھنٹے پہلے چھٹی بھی دے دو۔
ہنگل میں کہہ کر وہ یوں اریزہ کی جانب مڑا جیسے داد چاہ رہا ہو ۔۔
اب خوش؟۔۔
اسکے کہنے پر اریزہ نے منہ بناکر کندھے اچکا دیئے
اسکو کیا پتہ تم نے کیا کہا ہے۔ ہایون کو ہنسی آگئ ۔ کم سن بھی کھسیا گیا
جون وونا بھاگا بھاگا آیا تھا۔ جھک جھک کے ہایون اور کم سن کو سلام کیا پھر اس کو شستہ انگریزی میں عزت و احترام سے دو گھنٹے قبل جانے کی اجازت بھی دی۔
مس اریزہ آپکا آج کا ٹارگٹ پورا ہو چکا ہے اب آپ چاہیں تو گھر جا سکتئ ہیں۔ ابھئ کچھ کھانا پینا پسند کیجئےگا ؟
اریزہ کا منہ کھلا ۔ گوارا کی پہلے دن اسے یہاں چھوڑنے آنے پر کہی بات ارے یہ تو لی مارٹ ہے۔ لی مارٹ لی ہایون۔ اور یہ کم سن۔ اس نے فون کرکے بلایا وہ کڑیاں ملا رہی تھی۔
اب بتائو کہاں جانا ہے تمہیں؟
ہایون نے پوچھا تو وہ چونکی۔
سنتھیا سے ملنے۔
سنتھیا سے؟ کم سن چونکا۔
پتہ ہے کہاں رہتی ہے۔ ؟ ہایون نے پوچھا تو اس نے معصومیت سے نفی میں سر ہلایا۔
مجھے پتہ ہے۔
کم سن نے ہاتھ اٹھا کر بتایا۔
میں لے چلتا ہوں۔
ہایون نے دانت کچکا کر گھورا تو اس نے مزید معصوم سی شکل بنا لی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہایون ڈرائیو کر رہا تھا کم سن اسکے برابر بیٹھا تھا۔جبکہ وہ پچھلی سیٹ پر بیٹھئ ٹیڈی بئیر کو بانہوں میں لیئے دونوں کو گھور رہی تھی۔
مت گھورو سچی میں نے تمہارے پورے ہفتے کے ٹارگٹ پورے کروائے ہیں۔ پوچھ لو ہایون سے۔
کم سن جیسے اس سے ڈر کر بولا۔
ہاں سچ کہہ رہا ہے۔ ہایون نے بھی تائید کی۔
سی ای او سفارش کر رہا ہے وہ بھی اتنی چھوٹی ملازمت کیلئے ۔ کم از کم بھی ڈبل فگر تنخواہ میں کوئی مینجر وینجر بنانا چاہیئے تھا مجھے۔
اسکو یہ قلق تھا۔ ہایون اور کم سن نے ایک دوسرے کو دیکھا اور ہنس دیئے۔
کوریا میں بڑے سخت قوانین ہیں سفارش پر قابلیت کے پیمانے کا خون کرکے نوکری ملی ہے اب خوب دل لگا کر کام کرنا۔
کم سن نے سنجیدگی سے نصیحت کی۔
مگر میں پاکستانئ ہوں۔ اب اتنی تگڑی سفارش کے بعد تو اب مجھ سے کام وام کی امید مت رکھنا۔ کل میں چھٹی کروں گی پرسوں مجھے اس ہفتے کی تنخواہ گھر پہنچا دینا۔
وہ شاہانہ انداز میں کہتی شہزادیوں کی طرح ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھ گئ۔
ہیں؟ کم سن کی آنکھین ابل گئیں۔
مس میں باس ہوں آپکا۔ نکمے پن پر کھڑے کھڑے نوکری سے نکال سکتا ہوں۔۔
کم سن کا انداز ۔۔ اریزہ کہنے لگی تھئ کہ میں مزاق کر رہی تھی کہ ہایون نے ڈرائو کرتے گردن موڑ کر گھورا
اور میں تمہارا ۔اسکو دھمکی دی تو کانٹریکٹ کینسل سمجھو۔
کم سن ہکا بکا ہوا تھا تو اریزہ محظوظ ہو کر زور سے ہنسی تھی۔
اوکے میم۔
کم سن نے مسمسی سی شکل بنا کر جیسے مہر ثبت کی ۔
گوشی وون آچکا تھا۔ تینوں گاڑی سے اترے تو کم سن اجازت طلب کرنے لگا۔
اس پہلی راہداری میں چوتھا کمرہ ہے ایڈون کا اس سے پوچھ لینا سنتھیا کا کمرہ کونسا ہے۔ اچھا ۔کرم۔میں پہلے جاتا ہوں۔
کہاں۔ ہایون نے ٹوکا۔
یہ دونوں سہیلیاں باتیں کریں گی میں کیا کروں گا میری تو ایڈون سے خاص دوستی بھی نہیں ؟ میرے ساتھ رہو۔
تم اسکو واپس بھی چھوڑ کر آئو گے؟ کم سن حیران ہوا۔
ہاں ۔۔۔۔
اسکے کہنے پر کم سن ایک نظر اریزہ پر ڈالی اور سر ہلادیا۔
یقینا مجھ پر کوئی کمنٹ پاس کر رہے ہیں۔ اف آج میں نے چولیاں بھی تو خوب ماری ہیں ہمیشہ بک بک کرنے کے بعد پچھتاتئ ہو تم اریزہ۔
وہ دل ہی دل میں خود کوکوس کررہ گئ
چلو اریزہ۔ ہایون کے نرم سے انداز میں کہنے پر وہ چونکی۔ نیم تاریک راہداری ایڈون کے کمرے کا دروازہ کئی بار دستک دینے کے بعد بھی نہ کھلا۔
لگتا ہے کمرے میں ہے نہیں۔ کم سن نے خیال ظاہر کیا۔
میں سنتھیا کو فون کرتی ہوں۔
اریزہ نے کہا تبھئ سامنے سے سنتھیا آتی دکھائی دی۔ سر جھکائے سویٹ پینٹ اور شرٹ میں ملبوس بکھرے بال ہاتھ میں کوئی پیالہ اور کین تھامے ہوئے شائد کچن سے کھانا گرم کرکے لائی تھئ۔
ان سے کچھ فاصلے پر دروازہ کھول رہی تھی۔
سنتھیا ۔۔ اریزہ اسے پکارتی فورا اسکی جانب لپکی۔ سنتھیا نے اسے دیکھا پھر تیزی سے دروازہ کھول کر اندر گھسنے لگی ارادہ اسکے منہ پر دروازہ بند کرنے کا تھا۔
کیسی ہو۔ اریزہ نے اسے جا لیا۔ دروازہ بند کرنے کیلئے ہاتھ خالی ہونا ضروری تھا۔مجبوری۔۔۔ جواب دینا پڑا
ٹھیک ہوں۔ اس نے سرد سے انداز میں کہا۔
مجھے ایڈون نے بتایا تھا تمہاری طبیعت کے بارے میں۔
وہ اسے اندر بلا نہیں رہی تھی دروازے میں جمی کھڑی تھی۔ اریزہ کو عجیب سا لگا۔
تم ایڈون کی جان کیوں نہیں چھوڑتی ہو؟
وہ چٹخ کر بولی جیسے۔
کیا مطلب ہے اس بات سے۔ اریزہ کی پیشانی پر بل پڑا۔
تم مجھے اور ایڈون کو ہمارے حال پر چھوڑ کیوں نہیں دیتیں؟ کیوں پیچھے پڑی ہوئی ہو ہمارے۔ اتنا ایڈون کا خیال تھا تو ایک بار مجھے کہا ہوتا میں خود بیچ سے ہٹ جاتی ۔۔
کیا بکواس کر رہی ہو؟
اریزہ ہکا بکا رہ گئ
صحیح کہہ رہی ہوں۔
وہ ایکدم چلا اٹھی۔
کتنے ؟ کتنے لڑکے چاہیئے تمہیں آخر۔ شاہزیب سالک ایڈون اور اب یہ دونوں تمہارا دل کیوں۔۔۔
بس کر جائو سنتھیا ۔۔ اریزہ کے صبر کا پیمانہ۔لبریز ہوا۔
تم بس کر جائو اریزہ ۔ جینے دومجھے چین سے۔ کیوں آتی ہو میرے اور ایڈون کے بیچ۔ بند کردو اپنا یہ جھوٹا شرافت کا ناٹک۔
کیا ہوا ۔۔ کم سن اور ہایون بھاگ کر انکے پاس آئے تھے۔
کیا ناٹک کیا ہے میں نے بولو؟ جو منہ میں آرہا ہے بولے جا رہی ہو۔
اریزہ کی طیش کے مارے آواز کانپ رہی تھی۔
ناٹک ہی تو کرتی آئی ہو آج تک تم۔ ہر کسی کو متوجہ کرنے کا فن آتا ہے۔پاکستان میں جینز نہیں پہنتی تھیں تم ؟اور یہاں دوپٹہ لہراتی تھیں اب کہاں گیا ہےتمہارا دوپٹہ؟
بولو۔
وہ جارحانہ انداز میں اسکی جانب بڑھئ اریزہ اس رکیک الزام پر سنٹ سئ کھڑی رہ گئ۔ اس وقت اس نے لانگ کوٹ پہن رکھا تھا مگر جب مال میں کوٹ کی ضرورت نہیں تھی تو ہلکا سا لیلن کا بڑا سا اسکارف اس نے لے رکھا تھا ٹاپ پر بھی اس وقت بھی کوٹ کے اندر وہ اسکی گردن کے گرد لپٹا ہوا تھا۔
ہایون ایکدم سے اریزہ کا ہاتھ تھام کر بولا
چلو اریزہ ۔۔
یہ۔۔ یہ کون ہے تمہارا بھائی ؟ کس حیثیت سے تھاما ہے اس نے تمہارا ہاتھ۔؟ تف ہے اریزہ تمہارے دوغلے پن پر۔۔
وہ اتنا چیخ کر بول رہی تھی کہ لابی میں دروازے کھلنے لگے۔ اریزہ کے جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔
پھٹئ پھٹی آنکھوں سے زہر اگلتی سنتھیا کو دیکھتے وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ یہ سب رکیک الزامات اسکی بچپن کی بہن جیسی دوست اس پر لگا رہی ہے؟
سنتھیا کام ڈائون۔ اندر چلو۔ بیٹھ کر بات۔۔
کم سن کو سمجھ نہ آیا تو سنتھیا کو ہی روکنے لگا۔
ہاتھ مت لگانا مجھے۔ سنتھیا ںےکہا تو اردو میں تھا وہ نا سمجھ کر بھئ رک ہی گیا۔
اگر تھوڑی سی بھئ غیرت ہو تم میں تو دوبارہ مجھے اپنی شکل نہ دکھانا سمجھیں۔
اسکی آواز چلانے سے پھٹ سی گئ۔ کم سن کو لگا اسکے کان کا پردہ پھٹا نہیں تو ذرا سا چر ضرور گیا ہے۔
اب دفع ہو جائو یہاں سے۔
اس نے غصے سے بے قابو ہو ہاتھ میں پکڑا بائول اریزہ کو دے مارا۔ بائول تو ڈس پوز ایبل پیک میں تھا مگر گرم گرم نوڈلز اسکے اوپر آئے تھے۔
اریزہ ششدر سی اپنی جگہ جم کے رہ گئ تھی۔ اسکی گردن پر جتنا سوپ گرا تھا اس نے جلا دیا تھا مگر اسے اس جلن کا احساس بھی نہ ہوا تھا۔
چلو نا اریزہ۔ ہایون اسکا ہاتھ تھام کے کھینچ رہا تھا کم سن بے قابو ہوتی سنتھیا کو شانت کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
جائو نا جاتئ کیوں نہیں ہو۔
اس نے تلملا کر ہاتھ میں پکڑا کین بھی اسے دے مارا ۔ اریزہ پر سکتہ سا تھا ہایون اسے بچانے کو بیچ میں آیا تو کین سیدھا اسکی تھوڑی بجا گیا تھا۔
ہایون کو کین لگتے دیکھ کر سنتھیا جیسے ہوش میں آئی۔ ایک۔نظر لابی میں جمع ہوتے مجمعے پر ڈالی۔
یہ کیا ۔۔کچھ سمجھ نہ آیا تو اندر کمرے میں گھس کر دروازہ بند کرلیا۔
اریزہ کو ہایون زبردستی کھینچ کر لے گیا تھا۔
کیا ہوا۔ کون لوگ تھے یہ؟
کم سن ان سب کے سوالوں سے جان چھڑاتا جھک جھک کے معزرت کرتا باہر بھاگا
ہایون اریزہ کو لیکر زن سے گاڑی بھگا لے گیا تھا۔ وہ سوچ میں پڑا کہ انکے پیچھے جائے یا واپس
پھر سر جھٹک کر دائیں جانب گلی میں مڑ گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈرائی کلینر کو کوٹ دے کر وہ قریبی دکان میں گھس گیا تھا۔ دو کین لیکر واپس گاڑی میں آیا تو فرنٹ سیٹ پر بیٹھی اریزہ ابھی بھی رو رہی تھی۔ ٹشو سے رگڑ رگڑ کر اس نے اپنی ناک سرخ کرلی تھی۔ آنکھیں سوج گئ تھیں۔ بالکل سرخ سیب بن چکی تھی۔
تمہیں یقین ہے کہ تمہاری گردن محفوظ رہی ہے کوٹ کی وجہ سے؟ تمہیں جلن نہیں ہورہی؟
ہایون نے اسے کین تھمایا تو وہ فورا سر ہلانے لگی
نہیں میں ٹھیک ہوں۔
آواز بھرائی ہوئی تھی۔
دکھائو ۔ اس نے آگے بڑھ کر شائد دیکھنا چاہا تھا
نہیں۔ اس نے سختی سے کہہ کر اپنا اسکارف مزید لپیٹ لیا تھا۔
اچھا ٹھیک ہے۔
ہایون نے کندھے اچکا دیئے۔ وہ کین کھول رہی تھی اسکی انگلیاں کانپ رہی تھیں۔
اس نے اپنا کین کھول کر اسکی جانب بڑھا دیا۔
شکریہ۔ مدہم آواز۔
اخلاقیات میں پی ایچ ڈی۔ اتنے تنائو میں بھی اسے شکریہ کہنا یاد رہا۔ مگر اس بات پر اسے غصہ ہی آیا۔
انسان کو اچھا ہونا چاہیئے مگر اتنا اچھا بھی نہیں بننا چاہیئے۔
انداز خفگئ بھرا تھا۔
ہایون کی بات پر وہ ایکدم چونک کر اسکی شکل دیکھنے لگی۔
کیا یہ بھئ اسکو کوئی طعنہ دینے لگا ہے۔ اسکو پہلا خیال یہی گزرا تھا۔
اس سے بڑھ کر آپکی کمزوری کیا ہوگی کوئی آپکا سر توڑ دے مگر آپکے ہاتھ کی ہڈی سلامت رہے۔
ہایون نے اسکی آنکھوں میں جھانک کے کہا تھا۔ وہ اس وقت پہیلیاں بجھوا نہیں سکتی تھی یونہی خالی خالی نگاہ سے دیکھتئ رہی۔
کہاوت ہے یہ۔اس نے گہری سانس لیکر سمجھایا۔۔
اسکا مطلب ہوا کہ انسان اپنا سر بچانے کیلئے اپنے ہاتھوں کا استعمال کرتا ہے۔ اگلی بندی بولے جا رہی ہے تم چپ سن رہی ہو وہ ہاتھا پائی پر اتر آئی اور تم اس سے پٹ گئیں۔ چوہے کو بھی موت کا ڈر ہوتا ہے تو وہ بلی کو کاٹ لیتا ہے۔۔ مشہور کورین کہاوت ہے۔ یہ اریزہ۔۔ وہ تمہاری دوست نہیں ہے۔ پہلے ہوگی کبھی مگر اب بالکل بھی نہیں یہ بات اب تو سمجھ لو تم۔
اگر میں بیچ میں نہ آتا تو اس نے بھرا ہوا کین پوری طاقت سے تمہارے منہ پر دے مارا تھا۔
وہ دانت کچکچا رہا تھا غصے کے مارے مٹھی بھینچ رہا تھا۔ اس نے اتنے مہینوں میں ہایون کو غصے میں نہیں دیکھا تھا ہلکا پھلکا چڑتا بھئ تھا تو ذیادہ دیر کیلئے نہیں۔
اگر لڑکی نہ ہوتی نا تو میں۔۔۔
بڑبڑاتاہایون اسکی شکل دیکھتے وہ چونکی۔
اسکی تھوڑی پر نیل سا پڑ گیا تھا۔ اسکے گورے چٹے چہرے پر نیلا دھبا۔۔ شائد کٹ بھی پڑا تھا ایک سرخ سا نشان بھئ جیسے خون نکلا ہو۔۔ اس نے شائد ڈس انفیکٹ کیا تھا جبھئ دوا کی خوشبو آرہی تھی
آئئ ایم سوری۔
اس نے سر جھکا لیا۔
ہر بات کیلئے میں معزرت خواہ ہوں میری وجہ سے آج جو کچھ بھئ تمہیں سہنا پڑا اسکے لیئے بھی میں بہت شرمندہ ہوں۔ واقعی سوری۔
ڈونٹ بی۔ ہایون جز بز سا ہوا۔
دفع کرو اس سب کو۔ چلو کسی اچھی جگہ ڈنر کرتے ہیں۔
اس نے بات بدلنی چاہی۔
میں اب گھر جائوں گی۔ اریزہ کا انداز قطعی تھا۔ پھر تمام راستہ وہ گا ہے بگا ہے اس پر نگاہ ڈالتا رہا مگر وہ بالکل رخ موڑے کھڑکی سے باہر جھانکتی رہی۔ عمارت کے کمپائونڈ میں گاڑی رکتے ہی وہ بنا ایک لفظ کہے گاڑی سے اتر کر تیز تیز قدم چلتی اندر بڑھ گئ وہ جو اس کو کچھ کہنا چاہ رہا تھا ہونٹ بھینچ کر گاڑی آگے بڑھا لے گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گوارا لائونج میں بیٹھی ڈرامہ دیکھ رہی تھی اسے دیکھ کر فورا ویلکم کیا۔
آننیانگ ۔۔ مگر اسکی شکل دیکھی تو ریموٹ پھینک کر بھاگ کر اسکے پاس آئی
کیا ہوا تمہیں۔؟؟؟
کچھ نہیں۔ اس نے مسکرا کر کہنا چاہا مگر ناکامی ہوئی جانے کہاں سے پھر ڈھیروں آنسو پھسل آئے۔ گوارا کے شانے سے سر ٹکا کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
ہوپ کچن میں کھڑی کافی بنا رہی تھی۔ چھوڑ چھاڑ کر انکے پاس چلی آئی۔
آئو بیٹھو۔ بمشکل اسے سہارا دے کر گوارا نے صوفے پر بٹھایا۔
کیا ہوا؟
ہوپ بے نیازی ظاہر کرنے کے چکر میں نہایت سخت انداز میں پوچھ رہی تھی۔ گوارا نے ناپسندیدہ نگاہ ڈالی۔
پانی لیکر آئو دیکھ نہیں رہیں ہلکان ہو رہی ہے رو رو کے۔
اسکے ڈانٹ کے کہنے پر وہ سچ مچ رعب میں آگئ بھاگ کے میز سے اپنی بوتل سے پانی نکالنے لگی پھر خیال آیا تو وہیں چھوڑ کر فریج سے پانی کی بوتل نکال کر لائی۔
اریزہ کو گلاس بھرکر تھمایا تو وہ ایک سانس میں پورا پی گئ۔
کیا ہوا؟ پرس چھن گیا ؟
کوئی لفنگا مل گیا ؟
چھیڑا کسی نے؟
ٹارگٹ پورا نہیں کیا آج کا؟
گوارا کے ہر انداز پر اس نے بس نفی میں سر ہلایا
پھر کیا ہوا ایکسیڈنٹ؟
گوارا نے تشویش ذدہ سا ہو کر اسے ٹٹولا توبے ساختہ اسکی سسکی سی نکل گئ۔
کیا ہوا۔ گوارا اسکا کوٹ اتروانے لگی۔
اسکی گردن سے کندھے تک پوری جلد سرخ سی ہو رہی تھی ہلکے ہلکے آبلے بھی پڑ رہے تھے۔
یہ کیا ہوا ہے؟
اسکی چیخ سی نکل گئ تھی دیکھ کر۔ ہوپ گہری سانس لیکر پلٹ گئ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کمرے میں بیڈ پر بیٹھی تھی کاٹن کی ڈھیلی ڈھالی سی شرٹ پہنے ہاتھ میں جوس کا ڈبہ تھا جس کے اسٹرا سے وہ چسکیاں لے رہی تھی۔ اور حیرت بھری نگاہوں سے ہوپ کو دیکھ رہی تھی جو تندہی سے اسکی گردن سے کندھے تک کسی دیسی چینی دوا کا لیپ کر رہی تھی۔
گوارا اس سے کچھ فاصلے پر مختصر سی جگہ میں چکر پر چکر لگاتی دانت کچکچا رہی تھی۔
اف خدایا تولیہ بن گئ ہے گردن تمہاری مجھ سے تو دیکھی بھی نہیں جا رہی ۔۔ یہ دوست ہے تمہاری؟ کٹنی ہے دشمن ہے۔ دشمن کو بھی جلانے سے پہلے بندہ دو بار تو سوچ لیتا ہے۔ ظالم بے رحم۔
چلو کل تم میرے ساتھ سنتھیا کو ایسا سبق سکھائوں گی کہ یاد رکھے گی۔ سمجھا کیا ہوا ہے اس نے خود کو؟ گرم کھولتا سوپ تم پر انڈیل دیا۔ پاگل ہوگئ ہے کیا ؟
اسکے سر پر سوپ الٹ کر آتے ہیں۔۔
بولتے بولتے قریب آکر پھراسکی گردن دیکھی اور زور و شور سےتلملانے لگی
۔ توبہ مجھ سے تو تمہارے زخم دیکھے بھی نہیں جا رہے۔ ہائش۔
گوارا کا واقعی بس نہیں تھا کہ سنتھیا کا منہ نوچ آئے۔
مجھے اس جلن سے ذیادہ تکلیف اسکے الزامات سے پہنچی ہے۔ اسکے لفظوں کا وار ذیادہ کاری تھا۔
اریزہ کی بات پر گوارا نے آنکھیں پھاڑیں۔
نا کرو بھیگئ تولیہ بن گئ ہے تمہاری جلد یہ بڑے آبلے ذرا آئینے میں دیکھو۔
آئینہ دیکھنے کے قابل نہیں چھوڑا سنتھیا نے۔
اریزہ اردو میں بولی تھئ۔
ہوپ اطمینان سے دوا کا ڈھکن لگا کر بولی
شکر کرو کہ چہرہ بچ گیا ورنہ جلے کا داغ چہرے سے مشکل سے جاتا ہے۔
بڑا تجربہ۔۔
گوارا طنز سے کہتے کہتے رکی۔ ہوپ جھک کر دوا لگا رہی تھی سیدھی ہوئی تو ایکدم گوارا کے سامنے اسکا چہرہ تھا۔ چند لمحے وہ بس اسے دیکھتی رہ گئ۔
پیچھے ہو۔
اسکا ہٹنے کا ارادہ نہ دیکھ کر ہوپ نے چڑ کر کہا تو وہ چپ سی ایکدم سائیڈ پر ہوگئ ۔ ہوپ پیالہ اٹھا کر شائد کچن کی طرف گئ تھی۔
ابھئ بھئ جلن ہو رہی ہے؟
وہ احتیاط سے اسکے برابر بیٹھی۔
ٹھنڈ پڑ گئ ہے۔ یہ جو بھی دوا تھی بہت اچھی تھی۔ ورنہ تو بہت جلن تھی۔
اریزہ کو اسکی فکر پر پیار آگیا دوا اچھی تھی مگر اسکا یہ مطلب بھی نہیں تھا کہ جلن بالکل نہیں ہو رہی تھی۔
گوارا نے اسکو اپنے ساتھ لگا لیا۔
تم اسکی باتوں پر دکھی مت ہو۔ اسکے کہنے سے کیا ہوتا۔۔ وہ جو چاہے سمجھے جو چاہے کہے۔ اس سے تمہاری صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
یہ اسکی پچھلی بات پر دی جانے والی ایک بے حد پر خلوص تسلی تھی۔
ہم اسی لیئے ڈرتے ہیں نا کسی کی الزام تراشی پر کہ لوگ ہمیں غلط سمجھیں گے برا بھلا کہیں گے مگر یہاں کوئی تمہیں جج نہیں کرنے والا ۔
یہ ہوپ تھی۔ ہاتھ دھو کے آئی گیلے ہاتھ جھٹکتی۔ ان دونوں کو ایس اجنبی انداز میں گھور کر اشارے سے ہی الگ ہونے کوکہا۔ دونوں الگ الگ کناروں پر ہو گئیں ۔ وہ ان دونوں کے بیچ سے ہو کر بیڈ پر دراز ہو گئ۔
اریزہ اور سنتھیا نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر اشارے سے پوچھنے کو کہا دونوں نے ہونٹ بھینچے پھر پلٹ کر ہوپ کے دائیں بائیں آ لیٹیں۔
ہوپ یہ تمہارے دائیں گال سے گردن تک جو نشان ہے یہ برتھ مارک نہیں؟
اریزہ نے ڈرتے ڈرتے پوچھا تھا۔
نہیں جلنے کا نشان ہے۔ میرے شوہر نے مجھ پر ابلے چاول پھینکے تھے پیچ سمیت۔
ہوپ کو اندازہ تھا کہ دونوں کو شدید کھد بد ہوگئی ہوگی۔ یہ نشان اسکے گال کے بیچ میں نہیں تھا۔ مارنے والے نے چہرے کا نشانہ نہیں لیا تھا۔
ویسے شوہر کہنا نہیں چاہیئے ۔ وہ صرف خریدار تھا۔ ایک لکھ پتی چینی جس نے شمالی کوریا کی لاچار عورت سے چند یو آن کے عوض یوآنہ خریدی تھی۔
اتنے عرصے میں پہلی بار یوآنہ ان پر کھلی تھی اور بس اتنا ہی ۔ اتنا بول کر اس نے آنکھیں بند کر لی تھیں۔ مطلب سونے دو مجھے تنگ مت کرنا مگر چند ہی لمحوں بعد کھولنی پڑی تھیں۔ اسکے دائیں کندھے پر اریزہ اور بائیں کندھے پر گوارا نے سر رکھ کر اسے سینڈوچ بنا ڈالا تھا ۔ وہ کسمسائی مگر انکی گرفت مضبوط تھی۔ اور یہ صرف چند لمحوں کا جذباتئ دبائو نہیں تھا وہ دونوں اس سے لپٹ کر ہی سوئی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بے خبر سو رہی تھی حسب عادت کمرہ لاک کیئے بنا۔ وہ چند لمحے اسے یونہی کھڑا دیکھتا رہا پھر اس پر کمبل درست کرتا کھڑکی بند کرکے باہر نکل آیا۔۔۔
ایڈون۔۔
اس نے آواز پر مڑ کر دیکھا تو عمارت کا منتظم کھڑا اسے بلا رہا تھا۔ رات کے بارہ بجے پہلے اس نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی ہی دیکھی تھی۔
ادھر آئو مجھے ضروری بات کرنی ہے۔
وہ اسے اپنے کیبن نما دفتر میں لیکر آیا تھا۔ وہ الجھن میں تھا ا س غیر معمولی رویئے کی وجہ کیا ہے۔ مگر اس نے مزید ایک لفظ کہے بنا ایک ویڈیو لیپ ٹاپ پر لگا کر دکھائی تھی۔ سیکیورٹی فولڈر میں شام کی ویڈیو۔
اسکو ایڈمن نے پورا سی سی ٹی وی فوٹیج دکھایا تھا۔
یہ لڑکی تمہارے ساتھ ہے ۔ ہم نے اس سے بات کرنے کی کوشش کی تھی مگر وہ شائد ہنگل نہیں جانتی ۔ یہ راہداری یہاں رہنے والے سب لوگوں کی مشترکہ راہداری ہے۔ یہاں ذیادہ تر ایکسچینج اسٹوڈنٹس اورمزدور طبقہ رہتا ہے جنکو اپنے سارے دن کی نہایت تھکا دینے والی مصروفیات کے بعد صرف آرام عزیز ہوتا ہے۔یوں شور ہنگامہ کرکے نا صرف ہمارے مہمانوں کے آرام میں خلل ڈالا گیا ہے بلکہ راہداری میں گندگی بھئ پھیلائی گئ ہے۔ ہم ایسا رویہ بالکل بھی نظر انداز نہیں کر سکتے۔
نہایت کڑخت لہجے میں جس طرح وہ بولا تھا اس سے کسی قسم کی معافی ملنے جیسی اچھی امید رکھنا عبث تھا۔
ایڈون نے گہری سانس لیکر سر جھکا لیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے صبح گوارا او رہوپ دونوں نے نہیں جگایا تھا ۔ ان دونوں کے چلے جانے کی اسے خبر بھی نہ ہو سکی تھی۔ آنکھ کھلی تو ڈھائئ بج رہے تھے۔ کسمسا کر آنکھیں کھولیں تو چند لمحے سوچنا پڑا کہ آنکھ کھلی کیوں؟
مستقل تھرتھراہٹ پر۔ وہ ایکدم اٹھ بیٹھی اسکے ادھر ادھر کمبل اتار کر بیڈ پر ہاتھ مار کر ڈھونڈنے لگی تکیئے کے نیچے سے موبائل کی اسکریں جل بجھ کر رہی تھی۔ اس نے ہاتھ مار کر موبائل نکالا تو ہایون کالنگ لکھا آرہا تھا۔
اوہ گاڈ۔ فون ہاتھ میں تھامے وہ سر پکڑے تھی۔
کل پتہ لگا کہ اپنے دوست کے ہاں نوکری کر رہی ہوں اور آج فورا چھٹی کرلی ۔ کیا سوچتا ہوگا کہ پاکستانی واقعی نکمے
اس نے سر جھٹکا
ہیلو۔
اس نے کال وصول کرکے موبائل کان سے لگایا
سلام اریزہ کیسی ہو ؟ ٹھیک ہو؟ فون کیوں نہیں اٹھا رہی تھیں؟
ہایون کے انداز سے پریشانی جھلک رہی تھی۔
آئی ایم سوری وہ میری آنکھ نہیں کھل سکی۔ پکا میں نے آج چھٹی نہیں کرنی تھی جانے گوارا نے مجھے کیوں۔۔
وہ وضاحت دینا چاہ رہی تھی ہایون نے بات کاٹ دی
میں باہر کھڑا ہوں دروازہ کھولو۔
اوہ۔ وہ فون رکھ کر فورا اٹھی کہ سامنے سنگھار میز کے آئینے پر نگاہ پڑی۔ ڈھیلی سی کاٹن ٹی شرٹ اور پاجامہ میں ملبوس۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا پھر اپنا وولن اسکارف اٹھا کر گلے میں ڈالتی باہر آئی ہایون دو مرتبہ مزید اطلاعی گھنٹی بجا چکا تھا۔
اس نے دروازہ کھولا تو وہ کھڑا گھور رہا تھا۔
پندرہ منٹ ہو رہے ہیں مجھے یہاں کھڑے۔
سوری۔ وہ کھسیائی۔
ہایون سر جھٹکتا اندر چلا آیا۔ ہاتھ میں پکڑا بڑا سا شاپر صوفے پر رکھا
یہ لو تمہارا کوٹ۔ دیکھ کر تسلی کرلو کوئی نشان وغیرہ تو نہیں رہ گیا۔ اور ایک بات بتائو۔
ہایون ۔مڑ کر اسے پھر گھورنے لگا۔
کل پوچھ پوچھ کے تھک گیا تم نے مجھے بتا کر نہیں دیا کہ جلی ہو۔۔۔
اتنی ذیادہ نہیں جلی۔۔ وہ کہنا چاہ رہی تھی
اور یہ کیا کیا ہے؟
اس نے آگے بڑھ کر اسکی گردن سے اسکارف احتیاط سے اتار دیا
اسکے لیئے اتنا غیر متوقع تھا کہ وہ ششدر سی رہ گئ۔
اسکے برعکس وہ نارمل سے انداز میں اسے ٹوک رہا تھا
وولن اسکارف جلی ہوئی جلد پر نہیں رکھتے کسی نے اتنا نہیں بتایا کبھی تمہیں۔ سردی لگ رہی ہے تو بوائلر کا ٹمپریچر بڑھا لو۔
اس نے اسکارف صوفے پر اچھال دیا تھا۔
اور یہ کیا لگا رکھا ہے اس پر؟
وہ اب اسکی گردن غور سے دیکھ رہا تھا۔ دوا نے جلد پر گہرا سیاہ رنگ چھوڑا تھا ۔
میں جلن کیلیے کریم لایا ہوں اسکو صاف کرو اور کریم لگائو ۔۔ پھابو( احمق) نشان رہ جائے گا ان دیسی ٹوٹکوں سے۔
اس نے بڑے سے شاپر میں سے ایک چھوٹا شاپر نکال کر اسے تھمایا۔وہ شش و پنج میں کھڑی شاپر تھام گئ۔
میں لگا دوں؟
اس نے اسکی آنکھوں میں جھانکا تو وہ سٹپٹا کر بولی
آنی۔ میں لگا لوں گی خود ہی دوا۔
جائو شاور لیکر آئو میں انتظار کر رہا ہوں۔ بہتر ہے کسی ڈاکٹر کو دکھا لیا جائے پہلے ۔
اسکی ضرورت نہیں ہے۔ میں ٹھیک ہوں۔
اریزہ نے کہنا چاہا
اب مجھے تمہاری کسی بات کا یقین نہیں جائو میں انتظار کر رہا ہوں۔ ایک گھنٹے بعد کا اپائنٹمنٹ لیا ہے جائو جلدی کرو۔
وہ اطمینان سے گھوم کر صوفے پر آبیٹھا سامنے میز سے ریموٹ اٹھا کر ٹی وی بھی آن کرلیا۔
وہ جز بز سی ہوئئ مگر نہانے چلی گئ۔ نہا کردوبارہ کاٹن کی ہی شرٹ نکال کر پہنی۔ ساتھ جینز چڑھائی۔ ہلکی ہلکی سردی محسوس ہو رہی تھی مگر برداشت کی جا سکتی تھی۔ اس نے اپر پہنا اور باہر نکل آئی۔ ہایون اسکا انتظار کرتا اونگھ گیا تھا۔
اس نے ٹی وی کی آواز آہستہ کی اور کچن میں آکر کھانا بنانے لگی۔ گوبھئ پکاکر روٹی ڈال رہی تھی جب شائد اسکی تھپ تھپ سے یا یونہی کافی دیر سونے کے بعد خود ہی ہایون کی آنکھ کھل گئ۔
تم نے مجھے اٹھایا کیوں نہیں۔ وہ سر کھجاتا خفا ہوتا ہوا اسکے پاس آیا۔
تم اتنی گہری نیند سو رہے تھے اسلیئے۔
وہ روٹی اتار کر رومال میں لپیٹتئ آرام سے بولی۔
اتنی مشکل سے اپائنٹمنٹ لیا تھا پاپا کا ریفرینس استعمال کرکے۔
وہ خفا ہو رہا تھا۔
میں ٹھیک ہوں خوامخواہ پریشان ہو رہے ہو۔ چلو کھانا کھالو صبح کا ناشتہ کیاہوگا۔
اریزہ کے کہنے پر اسے بھوک کا احساس ہوا تھا۔ گوبھی خالص پاکستانی انداز میں بنی تھئ۔ اسے کوریا میں مصالحے تو نہیں مل سکے تھے من پسند البتہ چکن تکہ مصالحہ مل گیا تھا مشہور پاکستانی برانڈ کا اسی کے ڈبوں کا اسٹاک کر لیا تھا۔ ہر چیز میں یہی مصالحہ حسب ضرورت ڈال دیتی تھی ابھی بھی تکہ مصالحے میں بنی گوبھی ۔پھیکی بنی تھئ۔
ہایون کو منفرد ذائقہ خاصا پسند آیا تھا۔ جبکہ وہ مارے باندھے کھا رہی تھی۔
کافی مزے کی ہے یہ۔
ہایون کے کہنے پر اس نے محض مسکرانے پر اکتفا کیا۔۔
تمہیں کورین کھانے بالکل اچھے نہیں لگتے؟
ہایون کو جانے کیا خیال آیا تھا۔
نہیں۔ وہ بے ساختہ نہیں کہہ گئ پھر خیال آیا تو وضاحت دینے والے انداز میں بولی۔
میں گوشت خور ہوں مجھے سبزیاں ذیادہ پسند ہی نہیں ہیں کم مصالحوں میں پکی تو بالکل پسند نہیں آتیں۔ شائد یہاں جتنی سبزی کھائئ پسند نہیں آئی۔
ہایون نے سر ہلا دیا۔ دونوں نے خاموشی سے کھانا ختم کیا۔ وہ برتن سمیٹنے لگی تو ہایون کافئ بنانے کھڑا ہو گیا۔
وہ سب برتن دھو کر جب تک فارغ ہوئی ہایون اسکے مڑنے پر اسکا کپ اسے تھمانے لگا۔
بن گئ۔ وہ حیران ہوئی۔
کل تیار رہنا میں ری شیڈول کروائوں گا اپائنٹمنٹ۔
ہایون سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔اسے اسکا پھر احسان لینا اچھا نہیں لگا۔
ہایونا بالکل ضرورت نہیں ہے۔ میں ایکدم ٹھیک ہوں واقعی۔
اس نے تو سادہ سے انداز میں کہا تھا مگر ہایون کے چہرے پر یکدم جو مسکراہٹ در آئی اور آنکھوں میں سو واٹ کے بلب روشن ہوئے اس پر وہ حیران سی اسکی شکل دیکھنے لگی۔
ہایونا۔ اس نے زیر لب دہرایا۔ جیسے محظوظ سا ہوا ہو اپنے کافی کے کپ سے چسکی لیتے اسے لگا اس نے اپنی گہری ہوتی مسکراہٹ کپ کے پیچھے چھپائی ہے۔
سب تم سے مخاطب ہوتے وقت ہایونا ہی کہتے ہیں نا۔تمہارا نام ہایونا ہے نا۔
اس نے تائید چاہی تو وہ ہنس پڑا
ہایون لی ہایون نام ہے میرا۔ ن پر ختم ہونے والے ناموں کے ساتھ بے تکلفی سے پکارتے وقت ہم لوگ نا ساتھ لگا دیتے ہیں جیسے سیہونا یوآنا سوہیونا وغیرہ۔ یہ قریبی لوگوں سے قربت جتانے کا ایک انداز ہے
معزرت۔ اس نے فورا بیانئے کہا۔
مجھے نہیں پتہ تھا۔ میں نے تو جیسے سب کہتے ویسے ہی نقل کی۔ سوری اگر برا لگا۔
برا کیوں لگے گا مجھے۔ اس نے مان سے ٹوکا۔
سب دوست ایک دوسرے سے بے تکلفانہ انداز میں ہی مخاطب ہوتے ہیں۔ بلکہ مجھے تو اچھا لگا۔ اب ہم پکے دوست بن گئے ہیں۔ ویسے پاکستان میں دوست کیسے پکارتے ہیں ایک دوسرے کو۔۔
وہ آرام سے کچن کارنر میز کی کرسی سنبھالتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔
ہم۔وہ سوچ میں پڑی۔
( صبح صبح یونیورسٹی کیمپس میں داخل ہوتے ہی اس نے سنتھیا سے ہاتھ ملاتے ہوئےکہا۔
کیسی ہو کتی؟
اگلی دفعہ وہی منظر اس بار اسے غصہ آیا ہوا تھا۔
سنتھو کی بچی
اس سے اگلی دفعہ
کمینئ سنتھو۔
اس سے اگلی بار سنتھیا نے اسے پکارا تھا۔ وہ کلاس کی طرف جا رہی تھی کسی نے آواز دی۔
اریزووو۔
اس نے سر جھٹکا۔ جانے کون ہے اریزو جس بہری کو بلایا جا رہا ہے۔
ارییییز ۔۔۔۔۔
اف بد تمیز لوگ یونیورسٹی میں جاہلوں کی طرح پکارتے۔
اس بار دوسری طرف سر جھٹکا گیا۔
آری ۔۔۔۔
اس بار آواز قریب سے آئی تھی۔۔ وہ مگن چلے گئ جب سنتھیا نے جھلا کر کندھے پر مارا
ڈوری۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈوری؟ وہ کندھا سہلاتی مڑی بھاگ کر آنے سے اسکی سانس پھول چکی تھی اور خفگئ سے گھور رہی تھی۔
بہری۔ ڈوری کب سے پکار رہی ہوں تمہیں۔
تم نے کب پکارا؟ ۔ وہ الٹا حیران ہوئی۔
ابھی ۔۔ اف حلق خشک ہو گیا پکار پکار کے۔
سنتھیا سانسیں بحال کرنے میں لگی تھی۔ بمشکل بتایا
مجھے ایک بار بھی آواز نہیں آئی کسی نے اریزہ کہا ہو۔
وہ حیران تھی۔
پیار سے پکار رہی تھی چار نک نیم دے دیئے تمہیں ۔۔
سنتھیا کے کہنے پر وہ پھیکی سی مسکراہٹ سے بولی
مجھے تو کوئی نک نئم سے نہیں پکارتا۔
پھر خیال آیا تو مسکراہٹ سمٹ سی گئ۔
ہاں میرے بھائئ اکثر مجھے پیار سے آروووو کہہ دیتے تھے۔۔ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آروووو۔ ہوں اچھا نام ہے یہ بھی۔
ہایون نے سر ہلایا۔
ویسے پاکستان میں بھئ لاڈ سے نام کے آخر میں الف یا چھوٹی ی لگا دیتے جیسے کمال سے کمالا رشید سے شیدا بلال سے بالا یا
بلو۔ وائو بھئ لگا دیتے۔
اسے ادراک ہوا۔
اور کبھی نام کو بیچ سے آدھا کر دیتے۔ جیسے نعمان سے نومی وقار سے وکی وغیرہ۔ لڑکیوں کے بھی نام بدل دیتے جیسے میری ایک کزن کا نام مہرالنساء ہے اسے ہم مہرو کہتے ہیں ۔۔ایک دفعہ کیا ہوا اسکی ٹیچر نے مجھے بلاکر اسکی شکایت لگائئ آپ مہرالنساء کی کزن ہیں آپکو پتہ ہے اس نے اپنا میتھ ٹیسٹ اپنے والدین کو دکھایا ہی نہیں ۔
میں نے کہا کون مہرالنساء میں کسی مہرالنساء کو نہیں جانتی
انکو اتنا غصہ آیا اسی وقت مہرو کو بلاکر ڈانٹا کہ تم نے جھوٹ بولا کہ یہ تمہاری کزن ہے اور وہ بے چاری رو پڑی کہہ رہی کہ تم نے کیسے کہہ دیا کہ میں تمہاری کزن نہیں ۔۔
وہ اپنی دھن میں یادداشت کھنگال رہی تھی کہ خیال آیا تو شرمندہ ہوگئ۔
ہایون چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ خاموشی سے سن رہا تھا اسے۔
میں بھی کیا کہانیاں سنانے بیٹھ گئ۔ اسے سچ مچ خفت سی ہوئی
نہیں مجھے سننے میں مزا آرہا تھا ۔
ہایون نے یقینا اسکا دل رکھا تھا وہ اتنا ہی مہزب تھا۔ یہ خیال قوی تھا اریزہ کیلئے۔ وہ زبان دانتوں تلے دباتی کافی ختم کرنے لگی۔
اچھا سنو کل بھی جاب پر نہیں جانا سمجھیں ۔ اور تیاررہنا۔ ڈاکٹر۔
وہ کپ رکھتا جانے کے ارادے سے اٹھ کھڑا ہوا۔
ہایون مجھے ضرورت ہوگئ تو میں خود چلی جائوں گی ڈاکٹر کے پاس یا گوارا کے ساتھ تمہیں زحمت کرنے کی ضرورت نہیں۔
اس نے سادہ سے انداز میں ہی کہا تھا مگر ہایون برا مان گیا۔
میں لے جائوں گا تو کیا برا ہوجائے گا؟
اچھا نہیں لگتا مجھے اتنا تم پر انحصار کرنا۔
اس نے صاف کہہ دیا۔
پہلے ہی تم میری وجہ سے کافی تکلیف اٹھا چکے ہو۔ میں اور تمہارے اوپر انحصار نہیں کرنا چاہتی۔ خاص کر کل کے بعد۔ کل تم مجھے چھوڑنے گئے تھے اور کین کھا آئے ۔۔۔
کل کیلئے تو میں بہت ذیادہ شرمندہ ہوں۔ بلکہ تم بتائو تم نے ڈاکٹر کو دکھایا تمہارے چہرے پر کہیں نشان نہ رہ جائے۔
اسے جیسے فکر بھی ہو رہی تھی۔ ہایون بنا ایک لفظ کہے اسے دیکھتا رہا۔ پھر گہری سانس لیکر بولا۔
میں دوست نہیں ہوں؟
ہو ۔۔ آف کورس اچھے دوست ہو۔ اسی لیئے میں نہیں چاہتی مزید تمہیں زحمت دینا۔ سو پلیز ذیادہ اصرار نہ کرو۔
اس نے اپنی طرف سے بات ختم کردی تھی۔ مگر ہایون چپ کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ اسے الجھن سی ہوئی۔
کیا ہوا۔
وہ چپ ہی رہا۔ اسے لگا اسے مزید وضاحت دینی چاہیئے۔
دیکھو۔ مانا سیول میرے لیئے اجنبی شہر ہے مگر میں یہاں رہ رہی ہوں تو اب اپنا ہر کام مجھے خود ہی کرنا چاہیئے نا ہر وقت میں تم پر اور گوارا پر انحصار کرکے تو نہیں رہ سکتی۔ اور سب سے بڑھ کر یہ معمولی سی چوٹ ہے۔مجھے نہیں لگتا مجھے ڈاکٹر کی ضرورت ہے۔ میں تو اس سے بڑی چوٹیں سہہ چکی ہوں۔
اس کا مخصوص بلا تکان بولنے والا موڈ پہلی دفعہ سنتھیا اور ایڈون کے سوا کسی کے سامنے آن ہوا تھا۔ وہ انگریزی میں رواں نہیں تھی سو یہاں آکر لمبے جملے بولنا باتیں کرنا اس کیلئے مشکل ہوتا تھا مگر اس وقت تو وہ زبان کا فرق بھلا بیٹھی تھئ۔
میرے تو ایک بار گرم چاولوں کی پیچ پائوں پر گر گئ تھئ۔
اس نے آنکھیں خوب کھول کر واقعے کی سنگینی کا احساس دلانا چاہا تھا
ایک میرے ساتھ ذرا سا ڈاکٹر کے پاس جانے سے بچنے کیلئے اتنی لمبی توجیحات۔ تم مجھے دوست سمجھتی ہی نہیں ہو۔
وہ خفا ہو چلا تھا شائد۔
دوست سمجھتی ہوں اسی لیئے زحمت دینا نہیں چاہتی۔
وہ کہہ کر مسکرا دی تھی۔وہ یونہی اسے دیکھتا رہا۔
اسکی نگاہوں میں خفگی تھی۔ اریزہ جز بز سی ہوئی۔ اب یہ بھی کوئی ناراض ہونے والی بات ہے۔
اوہ وائو۔ کیا منظر ہے۔اریزہ اور ہایون ۔ واہ رومینٹک ڈیٹ چالو ہے بھئ۔
گوارا لاک کھول کر اندر داخل ہوئی تھئ۔ انکو دیکھ کر لمحہ بھر کا بھی وقفہ کیئےبنا جملہ چست کردیا۔
شٹ اپ۔
اریزہ نے اسکی بے وقت کی راگنی پر گھورا
جوتے ریک میں اتار کر وہ چپلیں بدلتی کھلکھلاتی ان کے پاس چلی آئی۔
مزاق کر رہی ہوں۔کیسے ہو ہایونا۔ ؟ آج یونی نہیں آئے۔ ؟
وہ ہایون سے مصافحہ کرر ہی تھی۔
ہاں اج چھٹئ کئ تھوڑا کام تھا۔
ہایون نےہنکارا بھرا تو وہ قصدا اسکو کندھا مار کر ہنگل میں بولی
ہاں دیکھ رہی ہوں کافی اہم کام تھاتمہیں۔ہوا کہ نہیں؟
گوارا کی شرارتئ نگاہیں اسے کھوج رہی تھیں۔
آنی۔ میں بس جا رہا تھا۔ کرم۔
وہ مزید اسے چھیڑنے کا موقع دیئے بنا جان چھڑا کر باہر نکل گیا۔ گوارا کچن میں دیگچیوں میں جھانک رہی تھی۔
گوبھئ اٹھا کر پوچھنےلگی۔
اریزہ یہ کھالوں ؟
ہاں۔ یہ کوئی پوچھنے کی بات ہے۔
اریزہ کے کہنے پر وہ چاول نکال کر رائس ککرمیں لگانے لگی۔ اب چاول پکنے تک اس نے کچھ اسنیکس اڑانے تھے۔ کیبنٹ کھول کر کریکر نکالتی اسکے پاس آن بیٹھی۔
کافی پیوگی بنائوں؟
اریزہ نے پوچھا تو نفی میں سر ہلانےلگی
ہرگز نہیں۔ بھوک مر جائے گی کھانا کھائوں گی پہلے۔ آج ہوپ نے چاول نہیں بنائے؟
وہ اریزہ سے پوچھ رہی تھی۔
آنی( نہیں )کہاں آئی ہے وہ ابھی۔ آکرتو سب سے پہلے چاول ہی چڑھاتئ ہے۔
اس نے لاپروائی سے کہہ کر کپ خالی کرنے کی نیت سے بڑا سا گھونٹ بھرا۔
ہیں ؟ وہ نہیں ہے گھر میں یعنی ۔ تم دونوں اکیلے فلیٹ میں ڈیٹ ہی مار رہے تھے۔
گوارا نے چھیڑنے والے انداز میں ہی کہا تھا۔ اسکا آخری گھونٹ حلق میں اٹک سا گیا۔ بمشکل نگل کر کپ رکھا ۔ اسے اچھو ہوتے ہوتے بچا تھا۔ذرا سا کھانس کر فورا بولی
ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ وہ آیا تھا کہ مجھے ڈاکٹر کے پاس لے جائے۔ مگر میں نے منع کردیا ۔ اچھا نہیں لگتا اسکا احسان لینا۔
اسے لیکن اچھا لگا ہوگا تمہارا خیال کرنا جبھئ تو آج اسائنمنٹ جمع کروانے یونی جانے کی بجائے تمہیں دیکھنے یہاں چلا آیا۔
گوارا اسے کریدنا چاہ رہی تھی۔ اسکی گہری نگاہوں سے وہ تنگ سی ہوئی
ہی از جسٹ فرینڈ۔ جیسے کل تم فکر مند ہوئیں ویسے ہی وہ بھی ہوا جبھی خیریت پوچھنے چلا آیا ۔تم نےاسکو ڈیٹ بنا دیا۔
اس کو تھوڑا غصہ آرہا تھا۔ گوارا نے گہری سانس لی۔
تو تمہاری جانب سے ایسی کوئی بات نہیں ہایون صرف دوست ہے۔ اور اگر ہایون تمہیں دوست سے ذیادہ سمجھنے لگے تو ؟
کیا ہوگیا ہے گوارا۔ وہ جھلا اٹھئ۔
وہ تمہارا بھئ دوست ہے تم سے ملنے نہیں آتا کیا؟ مجھ سے ملنے آگیا تو اسے ڈیٹ بنا دیا تم نے۔ یہ تو منافقت ہوئی
ریلیکس۔ ایسے ہی کہہ دیا اتنا غصہ آنے کی کیا بات ہے۔
گوارا فورا سیز فائر کرنے لگی۔
ہایون اچھا لڑکا ہے۔ہائی اسکول سے جانتی ہوں اتنا مہذب اور دھیمے مزاج کا وجیہہ لڑکا ہے۔ اگر وہ تم میں دلچسپی لینے لگے تو یہ کوئی بری بات تھوڑی ہے۔ بلکہ اگر وہ تمہیں پرپوز کرے تو سب سے ذیادہ خوشی مجھے ہوگی تم دونوں مجھے دل سے عزیز ہو۔
گوارا کا انداز اتنا پرخلوص تھا کہ وہ مزید غصہ نہ کر سکی۔
مگر ایسا ہو نہیں سکتا۔
اسکا انداز قطعی تھا گوارا بے ساختہ چونک کے پوچھنے لگی
کیوں؟ تم کسی اور سے کمیٹڈ ہو ؟ آئی مین پاکستان میں۔
تم نے تو کہا تھا ڈیورسڈ ہو؟
اف گوارا۔۔
اسے اسکی بے چینی پر ہنسی ہی آگئ۔ کپ اٹھاتی اٹھ کھڑی ہوئی۔
پکی اس وقت تم پاکستانی آنٹی لگی ہو۔اتنی متجسس وہی رہتی ہیں پاکستانی لڑکیوں کی زندگی کے بارے میں۔ شادی ہوئی؟ منگنئ ہوئی کب کرنے کا ارادہ ہے جیسے سوال تو وہ لڑکی کے سلام کے جواب میں پوچھ لیتی ہیں ۔۔ اور المیہ یہ ہے کہ عموما ہمیں جواب دینے بھی پڑتے ہیں۔
اسکے اتنئ باتیں سنانے پر گوارا بدمزہ نہ ہوئی بلکہ کریکر میں رکھ کر اطمینان سے بولی
ایشائی آہجومہ سب ایک جیسی ہی ہوتی ہیں۔ تمہیں کبھی اپنی اماں کی دوستوں سے ملوائوں تو تمہارے ننھیال ددھیال کی بھی سب معلومات اکٹھی کرلیں گی تم سے پہلی ملاقات میں ہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح8 بجے تیار رہنا۔ میں نے کل چھٹی کی بات کر لی ہے۔ رات کو جلدی سو جانا ۔ میں بھئ آکر سو جائوں گا۔ کل کا دن کافی ہیکٹک ہوگا ہمارے لیئے۔
طویل پیغام۔
وہ کنوینئیس اسٹور میں بیٹھئ بیزاری سے اوپر نیچے کرتے جانے کتنی دفعہ اس پیغام کو پڑھ چکی تھی۔
چکن نوڈلز سامنے پڑے ٹھنڈے ہو رہے تھے۔
اسکی پیشانی پر پسینہ آرہا تھا۔
اس نے یو ٹیوب کھولا۔
abortion process
اس نے کتنی ہی دیر ہوگئ مختلف ویڈیوز دیکھنے میں جانے کتنا وقت بتایا ۔۔ تبھئ اسکے سامنے وہ ویڈیو آئی۔ بنا کسی مکالمے کے صرف ہلکی سی موسیقی کے ساتھ وہ چھوٹی سی ویڈیو تھی
اسکی آنکھوں سے کئ آنسو ٹپکے تھے۔ اسکا چہرہ سرخ ہوگیا تھا۔۔ ویڈیو بند ہوگئ تھی اگلی ویڈیو چالو ہو چکی تھی مگر وہ بالکل بے دھیان تھئ ۔ تبھئ کسی نے میز پر ہلکے سے دستک دی ۔
وہ ایکدم چونک کے سیدھی ہوئی۔ موبائل اسکئ ہاتھ سے چھوٹتے چھوٹتے بچا تھا۔
یہ ریمن کی توہین ہے کہ اسکو سامنے رکھ کر کھانا بھول جایا جائے۔
کم سن مسکرا کر کہتے اسکو سوپ نوڈلز کی جانب متوجہ کرنا چاہ رہا تھا مگر اب اسکی شکل دیکھ کر سنجیدہ سا ہو گیا۔
آئیم سوری ۔ وہ بس نوڈلز ۔۔ کرم
وہ سٹپٹا سا گیا تھا۔
یہ آپ لینا چاہیں تو لیں لیں میں نے اسکو کھایا نہیں ہے۔
سوپ نوڈلز میں گرم پانی ڈال کر اسکا ڈھکن اس نے بند کر رکھا تھا تاکہ نوڈلز گل جائیں۔
مگر اس وقت وہ کچھ کھانے کے موڈ میں نہیں تھی۔ سو اٹھ کھڑی ہوئی۔
آنی۔ کم سن نے انکار کرنا چاہاپھر ہنس کر بولا
انکو اتنی دیر ڈھک کر نہیں رکھا جاتا ہے یہ لجلجے ہو چکے ہوں گے اب کھانے کے قابل نہیں رہے ہوں گے۔
کم سن کے کہنے پر وہ کندھے اچکاکر موبائل اٹھاتئ اسکے برابر سے ہو کر جانے لگی
دو قدم چلی ہوگی کہ اتنی زور کا چکر آیا کہ فورا سہارے کیلیے اسی میز کو تھامنا پڑگیا۔
کم سن نے فورا کرسی کھینچ کر اسکے آگے کی۔ وہ فورا بیٹھ گئ۔
کھانے سے منہ نہیں موڑنا چاہییے۔
اس نے اسکا نوڈلز کا پیالہ اسکی جانب بڑھا دیا۔ اس نے سر جھکا لیا۔ ڈھکن ہٹا کر ایک دو نوالے لے ہی لیئے۔اسکا بی پی لو ہو رہا تھا۔ پھر بھئ نوڈلز کا ذائقہ اتنا ناگوار لگ رہا تھا کہ اس سے مزید کھایا نہ جا سکا۔
کچھ اور کھائوگی؟
کم سن بھانپ کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ اس کنوئینس اسٹور میں ہر طرح کا پراسسڈ کھانا موجود تھا۔ وہ بھاگ کر بن لے آیا جس میں اندر چاکلیٹ بھری ہوئی تھی۔
سنتھیا نے ایک نظر اسکے چہرے پر ڈالی پھر ہونٹ کاٹنے لگی
شکریہ۔ اب میں بالکل ٹھیک ہوں۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
میں آپکو گھر تک چھوڑنے آئوں؟
کم سن اس سے پوچھ رہا تھا۔اس نے ہونٹ بھینچ لیئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیول میں رات گہری ہورہی تھی فضا میں محسوس کی جانے والی خنکی تھی۔۔ لمبا کوٹ تو وہ پہنے ہی تھئ کم سن کا مفلر لپیٹ کر کم سن کے پیچھے چلتی وہ اسکو بس ایک موٹا سا ہڈ والے اپر میں ملبوس دیکھ کر رشک بھی کر رہی تھئ تو جھر جھری بھی لے رہی تھی 5 ڈگری میں اسکی جوانی کا عالم یہ تھا کہ بس ایک اپر۔۔
گینڈے کی کھال ہے کیا اسکی ۔ ایک سویٹر میں مزے سے گھوم رہا ادھر میری اس کوٹ میں بھی گگھی بندھ رہی ہے۔
اسکے پیچھے چلتے وہ بڑ بڑا رہی تھی۔
کھاتے بھی تو کیا کیا عجیب گرم چیزیں ہیں اندر سےگرم رہتے ہیں اوپر سے وہ بدمزہ جنسنگ کا قہوہ۔۔
اسے ایڈون کے ساتھ پیا گیا قہوہ یاد آیا جسے پی کر اسے لگا تھا جو اندر ہے بھی وہ بھی باہر آجائے گا۔۔آنتوں سمیت۔۔
جبھی اتنا سکون سے۔۔
اسکی مستقل بڑ بڑ پر کم سن نے مڑ کر اسے دیکھا تو وہ گڑبڑا کر سر جھکا گئ۔
وہ اسے ایک درمیانے درجے کے مکان میں لیکر آیا تھا۔ تنگ سی گلی جس کی کم ازکم پندرہ سیڑھیاں چڑھ کر ذیلی گلی میں داخل ہوئے دونوں اطراف پختہ مگر پرانےمکانات تھے۔ اس مکان کا باہر بس داخلی دروازہ تھاجس کو دیکھ کر لگتا تھا بس مرلہ ڈیڑھ کا گھر ہوگا۔۔ کم سن دستک دینے کی بجائے سیدھا دروازہ کھول کر اندر گھس گیا تھا۔ وہ چند لمحے جھجک کر باہر ہی کھڑی رہ گئ۔ اپنے پیچھے اسکی غیر موجودگئ کا احساس ہوتے ہی کم سن پلٹ کر واپس بھی آیا۔۔
کم ان۔۔ اس نے کہا تو وہ متزبزب سی اسے دیکھے گئ۔۔
کیا بتائوں اسے اتنا چھوٹا مکان دیکھ کر ہی گھبراہٹ ہو رہی ہے مجھےتو گوشی وون سے جھر جھری آرہی تھی یہ بھئ اتنا ہی بڑا ہوگا ۔۔ وہ سوچ کے رہ گئ
۔۔ کم سن منتظر نظروں سے دیکھ رہا تھا تو اسے قدم بڑھانا پڑا۔
اسکی توقع کے برعکس دروازے کے اندر داخل ہوتے ہی اچھا خاصا صحن تھا جس کے بیچوں بیچ کوریائی طرز کا تخت رکھا تھا جس پر ڈھیر ساری بند گوبھی پر مصالحہ لگا کر بڑی بڑئ طشتریوں میں پھیلا کر رکھاتھا فضا میں تیز مصالحوں کی مہک رچی تھی۔ ایک جانب باورچی خانہ تھا سامنے برآمدہ سا تھا اور دو کمروں کے بند دروازے نظر آرہے تھے۔ باورچی خانے کی چمنی سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ کم سن بے تکلفی سے باورچی خانے میں گھس گیا۔۔ وہ بھی اسکے پیچھے چلی آئی۔۔
ایک پختہ عمر کی مضبوط جسامت کی خاتون جن کے سر کے سب بال براق سفید تھے زمین پر پٹرے پر بیٹھئ جھک کر اسٹو پر سوپ بنا رہی تھیں۔ کم سن نے اکڑوں بیٹھ کر انکو بانہوں میں لے لیا تو وہ بری طرح چونک کر مڑیں پھر جیسے کم سن کو دیکھ کر نہال ہوگئیں خوشی کا بے ساختہ اظہارکرتے انہوں نے کم کو بھینچ لیا تھا۔۔
اتنے دنوں بعد آئے تم۔۔ انکی پلکیں بھیگ چلی تھیں۔
مصروف تھا مگر بھولا نہیں تھا آپکو۔۔ کم سن کا انداز بھی اسکے معمول کے لیئے دیئے رہنے والے انداز سے یکسر مختلف تھا۔۔ بے حد پیار سے وہ مخاطب تھا۔۔
وہ بوڑھئ خاتون نہال سی اٹھیں
چلو اندر چلو میں سوپ لیکر آتی ہوں۔ کم سن کو ہاتھ پکڑ کر اٹھاتے ہوئے انکی نگاہ دروازے پر ایستادہ سنتھیا پر پڑی تو حیران سی نظروں سے دیکھنے لگیں۔۔
اسلام و علیکم۔۔ اسکے منہ سے بے ساختہ نکلا سر جھکا کر سلام کرتی سنتھیا آہجومہ کو مزید متحیر کر گئ
اب انکا سلام تو مجھے سیکھ چکے ہونا چاہیئے تھا کچھ ذیادہ ہی احمق ہوں میں۔
اسے انکی حیرانی شرمندہ کر گئ
دے۔۔ انکو جواب سمجھ نہ آیا کہ کیا دیں تو بس اسی کی طرح سر جھکا کر دے بول دیا۔۔
کم سن محظوظ انداز میں مسکرادیا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لکڑی کے فرش پر لکڑی کی چھوٹی سی تپائی رکھ کر انہوں نے کھانا پیش کیا تھا۔وہ اور کم سن آمنے سامنے زمین پر آلتی پالتی مارے بیٹھے تھے اس نے کھانے کا جائزہ لیا۔ سادے ابلے چاول چکن سوپ ساتھ کمچی اور انڈے کے رول۔۔۔ان دونوں کے سامنے کھانا رکھ کر وہ گھٹنوں کے بل شرمندہ شرمندہ سی بیٹھ گئیں۔۔
بیانئیے۔۔( معزرت) کھانے کا وقت تھا اور مجھے خبر نہ تھی تم مہمان کو لے کر آئوگے ورنہ کم از کم گوشت ہی بنا لیتی۔۔ پورک پڑاہوا تو تھا گھر میں۔۔
انکو معزرت خواہانہ انداز میں خود سے مخاطب دیکھ کر سنتھیا نے سوالیہ نگاہوں سے کم سن کو دیکھا۔۔۔
کوئی بات نہیں آہمونی۔ میں ٹھیک ٹھاک کھانا کھائوں گا۔
چھائے موکے سبندا
کم۔سن نے سنتھیا کو ترجمہ کرکے بتانے کی بجائے سیدھا آہجومہ کو جواب دیا تھا۔۔اس نے بنا تکلف اپنے پیالے میں سوپ نکالا اور چاول ان میں ڈال کر کھانے لگا۔
آہجومہ اور کم سن خوب آرام سے کھا رہے تھے۔
اتنے دنوں میں اسے یہ تو اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ لوگ سوپ سادے چاولوں کے ساتھ کھا لیتے ہیں مگر سفید سا یہ سوپ دیکھنے میں بالکل بھی خوش رنگ نہیں تھا۔ اسے کہیں کھا کے الٹی نہ آجائے۔ وہ شش و پنج میں تھی۔
اگر الٹی آجائے تو بھاگ کے دروازے تک جانے میں کتنا وقت لگ جائے گا۔ وہ اندازہ لگا رہی تھی۔
کم سن نے اسکا چاولوں کا پیالہ اپنی جانب کھینچا اپنے چمچ سے چاول بھرے سوپ میں ڈبو کر کھا لیا۔ اسکی اس حرکت پر وہ حیران سی اسے دیکھے گئ
کچھ الگ نہیں ان میں سادہ کھانا ہے اطمینان سے کھا سکتی ہو اب۔
اسکا انداز طنزیہ نہیں تھا۔ سادہ سے انداز میں اسے جو مناسب لگا اس طریقے سے اسکی تسلی کروائی تھی۔
وہ حد درجہ شرمندہ ہوئی۔ ۔
وہ میں۔
وہ بے خیالی میں اردو میں ہی وضاحت کرنے لگی تھی کہ خیال آیا انگریزی میں کہے۔ یا ۔۔۔ یا پھر جانے دے۔
کورینز جھوٹے ووٹے کا خیال نہیں کرتے آرام سے ایک دوسرے کو انسان سمجھتے انکے کھانے میں حصہ بٹا لیتے بنا گھن کھائے اسکے ساتھ کوئی خاص سلوک نہیں ہوا تھا۔ پھر بھی جھوٹا۔۔ اس نے جھجکتے ہوئے اپنا چمچ اٹھایا۔ کم سن اس پر سے دھیان ہٹائے کھانا کھانے میں مگن تھا۔
آگاشی۔ کھانا شروع کرو۔ کیا ہوا پسند نہیں آیا کچھ اور بنا لائوں؟
آہجومہ فکرمند ہو رہی تھیں۔
اس نے سوالیہ نگاہوں سے کم سن کو دیکھا۔
تمہیں پراسسڈ فوڈ نہیں کھانی چاہیئے اس حالت میں۔ اس لئےمجھے بہتر یہی لگا تھا کہ تم گھر کا بنا کھانا کھا لو شائد بہتر محسوس کرو۔ بیان ( معزرت) اگر تمہیں کھانا پسند نہیں آرہا ہے تو کوئی بات نہیں۔ میں تمہیں واپس چھوڑ آتا ہوں۔
کم سن کے کہنے پر وہ چونک سی گئ۔ کھانا ناپسند کیسے آتا چکھے بغیر۔ مگر حالت سے اسکی کیا مراد؟
کھانے کی بو حواسوں پر چھا رہی تھی۔ اس نے جھجکتے ہوئے نوالہ بنا ہی لیا
یہ کورین نہیں نا تو اسکو شائد ہمارے یہاں کا کھانا پسند نہیں آرہا۔ آپ کھانا سمیٹیئے گا نہیں میں اسکو چھوڑ کر آکر کھانا کھائوں گا۔
کم سن کہہ کر اٹھنے کو تھا کہ آہجومہ نے پیار بھری نظروں سے دیکھتے اس لڑکی کی جانب اشارہ کیا۔
وہ پاکستانی سانولی سی لڑکئ جسے اس نے سوچ سوچ کر کھانا کھاتے دیکھا تھا جب بھی کھاتے دیکھا اس وقت خاصی رغبت اور تیزی سے چاول کھا رہی تھی۔ کورینز کی طرح۔
وہ مسکرا کر اپنے کھانے کی جانب متوجہ ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کیا لگتی ہیں تمہاری؟
واپسی پر وہ کم سن سے پوچھ ہی بیٹھئ۔
یہ میری والدہ ہیں۔۔
اسکا جواب مختصر تھا۔
سنتھیا کو جھٹکا لگا ۔
واقعی؟ تمہاری والدہ؟۔۔ اسکا مطلب تم بھی یہاں رہتے ہو؟ وہ الجھی۔۔
انکی انگریزی سمجھنےکی کوشش کرتی ہوئی وہ سادہ سی دیہاتی کوریائی نقوش کی خاتون کی معمولی سی بھی شباہت کم سن میں نہ تھی۔۔
نہیں میں اپنے اپارٹمنٹ میں رہتا ہوں۔ یہ اپنی بیٹی کیساتھ رہتی ہیں۔نہ یہ میرے ساتھ رہنے کو تیار ہوتی ہیں نہ میں انکے ساتھ۔۔
کم سن کو اندازہ تھا کہ اب سوالوں کی بوچھاڑ ہوگئ سو اپنی جانب سے تفصیل سے جواب دیا۔۔
یہ کیا بات ہوئی۔ کیسی والدہ ہیں بیٹےکے ساتھ نہیں رہنا چاہتیں اور تم کیسے بیٹے ہو بہن اور ماں کو ساتھ رکھو۔۔ انکو یہاں اس بڑھاپے میں ایسے چھوٹے گھر میں رکھ چھوڑاہے۔۔ اسکا اندز جھاڑ پلانے والا تھا۔۔ کم سن دلچسپی سے اسے دیکھنے لگا
تم سب پاکستانئ ایسے ہوتے ہو۔ بال کی کھال نکالنے والے۔ دوسروں کی زاتی زندگی میں دلچسپی لینے والے انکو یوں ڈانٹ دینے والے ؟؟؟
سنتھیا کیلئے اسکا ردعمل غیر متوقع تھا بری طرح سٹپٹائی
اس میں باقی پاکستانیوں کو کیوں لے آئے ؟
وہ میں۔۔ ایسے ہی پوچھ بیٹھئ۔ معزرت۔
وہ چڑ گئ۔ آجکل اسے کافی جلدی چڑ چڑھ جاتی تھی۔
۔۔ نہ بتائو جو مرضی کرو مجھے کیا۔۔
سنتھیا اردو میں بڑ بڑائی۔۔خاموشی سے ہم قدم چلتے
کم سن نے چند لمحے انتظار کیا کہ وہ ترجمہ کرے مگر اسکا ایسا کوئی ارادہ نہ تھا۔۔
ویسے اگر تم مجھے ایک ذاتئ سوال کا جواب دو تو میں تمہیں اس بات کا جواب دے سکتا ہوں۔۔
سنتھیا نے حیران ہو کر اسکی شکل دیکھی
تم پاکستان کیوں نہیں چلی جاتیں؟
کم سن کا انداز سادہ سا تھا۔۔
تم سے مطلب۔۔ حسب توقع وہ چڑ گئ۔۔
کم سن سر جھٹک کردوبارہ خاموش ہوگیا۔ سیڑھیاں سنتھیا کیلئے کے ٹو کا پہاڑ بن گئیں۔ کئی بار ریلنگ پکڑی ۔ شکر ہے اترائئ تھئ۔ اسکی سانس پھول رہی تھی پسینے چھوٹ گئے تھے۔ کم سن اسکے برابر بظاہر بے نیازی سے چل رہا تھا مگر درحقیقت اس پر مکمل توجہ تھی۔ سنتھیا نے کن اکھیوں سے اسکو کئئ بار دیکھا۔ ایک ماتھے پر شکن تک نہ تھی۔ وہ دانستہ اسکے ساتھ آہستہ چل رہا تھا
یونہی چلتے آخر سفر تمام ہوا تھا۔ گوشی وون کے کمپائونڈ میں آکر اس نے کم سن کا شکریہ ادا کرنا چاہا۔
کھانا بے حد لذیذ تھا۔ آج کافی رغبت سے کھایا میں نے۔ تم اپنی والدہ کا شکریہ ادا کرنا میری جانب سے۔
لیکر میں گیا تھا تمہیں ۔
کم سن نے جتایا
تمہارا بھی بہت بہت شکریہ۔
وہ اسکی شرارت سمجھ کر مسکرا دی
شب بخیر۔
وہ کہہ کر مڑی تو کم سن کو جانے کیا سوجھی ایکدم بولا
ویسے ایک بات پوچھوں۔
سنتھیا رخ موڑ کر اسے دیکھنے لگی ۔۔ کم سن ایک قدم آگے بڑھ کر اسکی آنکھوں میں جھانک کر بولا
آج والا سوپ ذیادہ گرم تھا یا کل والا؟
وہ ایکدم سناٹے میں آئی تھی۔ کم سن ہلکے سے مسکرایا پھر ہاتھ ہلا کر شب بخیر کہتا چلا گیا۔
وہ چند لمحے اسے جاتے دیکھتئ رہی پھر اپنے کمرے میں چلی آئی۔ اسکا دیا مفلر ابھی بھی اسکی گردن میں ملفوف تھا۔ اس نے اتار کر تکیئے پر اچھال دیا۔ اسکی سائیڈ ٹیبل پر ایک بڑا سا شاپر تھا۔ شائد ایڈون کچھ کھانے پینے کی چیزیں رکھ گیا تھا۔ وہ ان پر نگاہ غلط ڈالتی سیدھا بستر پر لیٹ گئ۔ بہت دنوں بعد پیٹ بھر کر کھانا کھایا تھا اسکو نیند آرہی تھی۔ شدید گہری نیند۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شدید درد سے اسکی پیشانی تر ہوگئ تھی۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا آرہا تھا جب ڈاکٹر نے دھیرے سے اسکے گال تھپتھپا کر اسکو جگایا۔
اٹھ کر دیکھو کتنا پیارا بچہ ہے۔
ڈاکٹر نے اسکو اجنبی زبان میں جانے کیا کہا تھا وہ کچھ سمجھتے کچھ نہ سمجھتے اٹھ بیٹھی۔ ڈاکٹر نے کمبل میں لپٹا ننھا سا وجود اسکی بانہوں میں تھمایا۔
چھوٹا سا دہانہ میچئ ہوئی آنکھیں گول چہرہ گورا چٹا سا گل گوتھنا سا بچہ ننھئ ننھی مٹھیاں کھولتا بند کرتا غوں غاں کرکے جانے ماں سے کیا راز و نیاز کر رہا تھا۔ ۔ اس نے کمبل پیچھے کرکے اسکی مٹھی میں اپنی انگلی تھمانی چاہی اسکی مٹھی ایکدم سرخ ہو گئ تھی۔ گاڑھا سرخ خون اسکی انگلی تر کرنے لگا اس نے گھبرا کر انگلی چھڑائی بچہ ایکدم سے سرخ سا ہو گیا گہرا گاڑھا خون بچے کی پیشانی سے پھوٹا۔ اسکا پورا چہرہ رنگین ہوا
اس نے گھبرا کر ڈاکٹر کو دیکھا
یہی چاہتی تھیں نا تم مار دیا ہم نے اسے۔
چندی آنکھوں والی وہ ڈاکٹرنئ اردو میں غرائی تھی اس کے ہاتھ میں ایک بڑی سی آری تھی اس نے تیزی سے ہاتھ اونچا کیا اور اس بچے کے سر کی جانب چلا دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ایکدم گھبرا کر اٹھی تھئ۔ آنکھ کھلی تو احساس ہوا کہ اپنے ہی کمرے میں ہے۔ کمرے میں ہلکی روشنی ہو رہی تھی۔ وہ پیشانی مسلتی اٹھ کر بیٹھ گئ۔ چند لمحے تو سانسیں بحال کرنے میں لگ گئے ۔ ایڈون کچھ شاپر اٹھائے اندر داخل ہو رہا تھا۔
اٹھ گئیں تم؟ چلو جلدی سے ناشتہ کرلو ۔ ہلکا پھلکا سا ہی کھانا ہے۔ تاکہ طبیعت خراب نہ ہو۔
وہ بولتا ہوا شاپر سائیڈ ٹیبل پر رکھنے لگا۔
یہ کیا رات کو کھانا نہیں کھایا تم نے؟ بھئ یہ لاپروائی مت کیا کرو۔
وہ نرمی سے کہتا پلٹ کر اسے دیکھنے لگا تو چونکا۔
کیا ہوا۔ طبیعت ٹھیک ہے تمہاری؟ وہ قریب آکر اسکی پیشانی چھو کر دیکھنے لگا۔
میں ٹھیک ہوں۔ پانی۔ خشک لبوں پر زبان پھیرتے وہ بمشکل کہہ پائی۔
ایڈون نے فورا گلاس میں پانی بھر کر تھمایا۔ وہ اتنی پیاسی ہو رہی تھی کہ ایک سانس میں پی گئ
ایڈون گلاس واپس رکھ کر اسکے برابر بیٹھ گیا۔ اسکو پیار سے اپنی بانہوں کے گھیرے میں لے لیا۔
مجھے اندازہ ہے تم بے حد گھبرا رہی ہو گی۔ میں نے سب معلومات لے لی ہیں۔ کوئی گھبرانے کی بات نہیں ہے۔ معمولی سی سرجری ہے بس۔ میں ہر پل تمہارے ساتھ رہوں گا۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ میں کچھ غلط ہونے نہیں دوں گا آئی پرامس۔ آئی لو یو سنتھیا۔
اسکے سر پر تھوڑی رکھے وہ تسلی دے رہا تھا۔عجیب بات یہ تھی کہ اسکے ان الفاظ سے واقعی اسکا دل ٹھہر سا گیا۔ اس نے گہری سانس خارج کرتے آنکھیں موند لیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد
جاری ہے۔
Kesi lagi Aapko salam korea ki yeh qist? Rate us below