وہ جو تھے بھی دل لرزاں کے سہارے ڈوبے
پھر سحر ہونے کو آیی ہے ستارے ڈوبے
ڈوبنا ہی ہے تو موجوں سے ذرا چھیڑ رہے
مفت الزام رہے گا جو کنارے ڈوبے
داغ دل اب تک اسی شان سے تابندہ ہے
کتنے خورشید و قمر کتنے ستارے ڈوبے
تم کو ساحل پہ کھڑے رہ کے ہوا کیا حاصل
خیر ہم آرزوے خام کے مارے ڈوبے
صبح ہوتی ہے کہ تاریکی شب جیت گئی
آج کچھ اور ہی انداز سے ستارے ڈوبے
مجھ سے ہنس ہنس کے نہ کر بات کہ جی ڈرتا ہے
مرے آگے گل خاندان کے نظارے ڈوبے
غم ایمان، غم فردا ، غم دوراں، غم دل
میے گلرنگ کی ایک بوند میں سارے ڈوبے
از قلم زوار حیدر شمیم