Desi Kimchi Episode 50

Desi Kimchi Urdu Novels

قسط 50
کیوں غلط کہا کیا میں نے؟ طوبی تیز ہو کر بولی۔
پچھلے کئی دن سے جس طرح میرے ہر قدم پر احتیاط کا مشورہ کبھی یہ کھا لو وہ پی لو کبھی آرام کر لو۔ کیا لگ رہا تھا آپکو کوئی سنگین بیماری ہوگئ ہے نا مجھے۔ مرنے والی ہوں میں تو زرا سا
کیا بکواس کر رہی ہو۔ وہ تلملا کر پلٹے
میں ایک تو تمہارا خیال رکھنے کی کوشش کر رہا تھا
کیوں؟ طوبی کا انداز ہنوز تھا
کہوں رکھ رہےہیں اتنا خیال کیا منوانا ہے مجھ سےاب ؟
دس سالہ شادی شدہ زندگی میں دو بار ہی بس آپ اتنے مہربان ہوئے ہیں اور دونوں بار آپ نے مجھ سے کچھ ایسا منوایا ہے کہ آپکے اس انداز سے خوف آنے لگا ہے مجھے۔
وہ جیسے پھٹ پڑی تھئ۔
کیا کہہ رہی ہو۔ دلاور پھٹئ پھٹئ نگاہوں سے دیکھنے لگے اسے۔
سچ کہہ رہی ہوں۔ اور صاف صاف سن لیں اب چاہے آپ میرے ساتھ مزید اچھے ہو جائیں یا مجھ سے نفرت کرنے لگ جائیں اب میں کوئی بات نہیں مانوں گی آپ کی چاہے ۔۔۔
وہ کہتے کہتے رکی۔ پھر قصدا رخ موڑ کر صائم کو تھپکنے لگی۔
چاہے چھوڑ دیں آپ مجھے۔
کس دل سے اس نے یہ جملہ کہا تھا وہ جانتی تھی۔
دلاور سناٹے میں آگئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ لسٹ پر نظریں دوڑا رہی تھی۔۔ سوپ نوڈلزوہ بھئ ایگ بیس۔ ، جاجا میان( بلیک بین نوڈلز) پورک اسٹیک تبوکی اسپائسی چکن فیٹ ، رائس کیکس ، سنگاپورین رائس چکن ، دو سب وے کے برگر ایک درجن چکن شوارما۔
وہ گہری سانس لیکر مارکیٹ کا چکر لگا رہی تھی۔ باقی سب کے ٹھیلے دکانیں تو بھری پڑی تھیں مگر یہ ایک درجن چکن شوارما یقینا عربی فنکاروں کیلئے تھے۔ انکو وہ ایسی ویسی جگہ سے نہیں لے سکتی تھی۔ سو سب سامان لیکر اس نے ٹیکسی میں ڈالا پھر اطمینان سے ٹیکسی میں بیٹھ کر ہی اپنے پسندیدہ پاکستانی ریستوران سے آرڈر دیا۔جب وہ تمام چیزیں لیکر سیٹ پر پہنچی تب تک شوارمے نہیں پہنچے تھے۔
اس نے کھانا لا کر سیٹ پر ایک کونے میں لگی میز کرسیوں پر رکھا اب آگے اسکا ان سب کو منہ پر پیش کرنے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ اس نے دستانے پہنے ہوئے تھے پھر بھی پورک اسٹیک اٹھانے پر اسے اپنا ہاتھ گندا لگ رہا تھا۔۔۔ باتھ روم میں رگڑ رگڑ کر ہاتھ دھو کر باہر نکلی اور اسے ڈھونڈنےلگئ۔
اور وہ تھا کہ پورے سیٹ پر نظر نہیں آرہا تھا۔ اس نے روک کر اسپاٹ بوائے کو حلیہ بتا کر پوچھنا چاہا۔ٹوٹی پھوٹی ہنگل میں۔
کیا نام ہے؟ اس کا سوال بالکل بھی غیر منطقی نا تھا مگر فاطمہ کو غصہ آگیا
پتہ ہوتا تو نام بتا نہ دیتی احمق۔
خالص اردو میں بھنا کر بولتی فاطمہ کا جملہ اسکے سر پر سے گزرا تھا مگر اتنا اندازہ ضرور ہوا کہ کوئی اچھا لفظ استعمال نہیں کیا۔ سو کان دبا کے چل پڑا۔

فاتی ماشی۔ اسسٹنٹ ڈائرکٹر صاحب یقینا کسی ماسی کو آواز دے رہے تھے وہ سر جھٹکتی آگے بڑھ کر پائوڈر رومز کی جانب جانے لگی تو دو ایک بار مزید یہی پکار سنائی دی۔ وہ تو دھیان نا دیتئ مگر جب سیٹ کی بھانت بھانت کی آوازیں دم توڑنے لگیں اور تقریبا سبھی چندی بڑی آنکھوں والے لوگ اسے گھورنے لگے تو وہ چلتے چلتے رکی۔
فاتی ماشی۔
اس بار پکارنے والا چلا اٹھا تھا وہ چونک کے مڑی تو اسسٹنٹ ڈائرکٹر اسکے ہمراہ دو لائٹ مین اسپاٹ بوائے سب گھور رہے تھے اسے۔
آپ نے مجھے پکارا ؟ پوچھتے ہوئے بھی اسے یقین تھا کہ اسے غلط فہمی ہی ہوئی ہے۔
جی اتنی دیر سےپکار رہا ہوں ای جی آ کو مکالمے یاد ہو گئے ؟ ہم پندرہ منٹ میں ای جی آ کا سین شوٹ کرنے لگے ہیں۔۔
د۔۔ د دے۔ اس نے زو رو شور سے گردن گھمائی۔
میں بلا کے لاتی ہوں۔
وہ فورا مڑی
اور کھاوا سے کہیئے کھانے کی بریک لینے کیلئے ہم اسکا انتظار کر رہے ہیں کتنی دیر لگے گی ۔
پیچھے سے آواز آئی تھئ۔
کھا وا۔ فاطمہ کے دماغ کی گھنٹی بجی۔
کھاوا نام لیا تھا۔اس نے چٹکی بجائئ دل کیا اپنے کندھے خود تھپتھپا کر شاباشی دے ڈالے۔
اب جانے اصل نام کیا تھا یہی سوچا تھا بعد میں پوچھوں گی ایک تو یہ کورین اچھے بھلے نام کا بیڑا غرق کر دیتے اتنا پیارا میرا نام فاطمہ اسکے آگے شی لگا لیا نام کے بھی دو حصے کر ڈالے۔ حد ہے خاک پتھر مجھے سمجھ آئے گا کہ۔میرا نام لیا جا رہا ہے
بڑبڑاتے ہوئے وہ میک اپ رومز کی جانب چلی آئی۔ ای جی نام پڑھ کر اس نے فورا دروازہ کھول لیا۔
کھاوا اورای جی صوفے پر اسکرپٹ کھولے بیٹھے تھے۔ کھاوا کچھ بول بول کر پڑھ رہا تھا جبکہ ای جی مکمل طور پر کھاوا کی جانب متوجہ زرا سا جھکی ہوئی اس کو نہارتی نگاہوں سے دیکھ رہی تھیں۔۔۔
کھاوا صاحب اسکرپٹ کی طرف ہی متوجہ ہوں گے مگر ای جی عربی گھیر والے میکسی نما لباس میں ملبوس تھیں جسکی ایک جانب سے کٹ تھا اور اسکی پوری ٹانگ نمایاں تھی۔
حبیبی۔ ایک ادا سے منہ میں ہوا بھر کر اٹکتے ہوئے حبیبی کہتے ہوئے اس نے وہی ٹانگ اٹھا کر دوسری ٹانگ پر جمائی یوں کہ۔۔۔
کھاوا۔ فاطمہ ایکدم سے چیخی تھی۔ کھاوا کے ہاتھ سے اسکرپٹ چھوٹ گیا وہ گھبرا کر۔کھڑا ہوگیا۔
جج جی۔
مس ای جی آ بھی شدید بد مزا منہ بنائے گھو ررہی تھیں۔
اسسٹنٹ ڈائرکٹر صاحب کہہ رہے ہیں کہ پندرہ منٹ میں ان محترمہ کا سین شوٹ ہونا ہے انکو اسکرپٹ یاد ہوا کہ نہیں۔
وہ کمر پر ہاتھ رکھ کر یوں پوچھ رہی تھی کہ اگر وہ نفی میں جواب دے تو یہیں کھڑے کھڑے مرغا بنادے گئ۔
آہ۔ وہ بس ہوگیا۔ ای جی آ کافی ذہین ہے۔
اس نے کہا مگر فاطمہ یونہی مشکوک گھورتی رہی۔
وہ کھانا آگیا۔ دو مرتبہ اسپاٹ بوائے پوچھ کے جا چکا ہے۔۔
اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
ہاں۔ او رچلو سرو میں نہیں کروں گئ۔ فاطمہ کا انداز ایسا تھا کہ وہ رعب میں آرہا تھا
بس چلتے ہیں میں کروں گا سروو۔
اوپا۔ ای جی آ انکی اردو سے بیزار منہ پھلا کے بولی
مجھے بھوک لگی ہے۔ شوارما کھانا۔
وہ۔ٹھنک کر بولی۔فاطمہ کے سامنے وہ انگریزی ہی بولا کرتی تھئ اور فاطمہ اسکے سامنے اکبری اصغری والی اردو۔جان کے وہ بھئ۔
اب اس نے شوارما کیوں کھانا ، تبوکی ، جاجامین نوڈلز پورک اسٹیک سب لے آئی ہوں ۔ اس سے کہو وہی کھائے جو اسکے لیئے آیا ہے شوارما چھے منگوائے ہیں بس ایک اپنے لیئے ایک تمہارے لیئے ہے باقی چار تو عربی فنکار ہیں وہ بھوکے تھوڑی رہیں گے۔
فاطمہ نے پوری تفصیل یہیں کھڑے کھڑے بتا دی۔کھاوا نے سر کھجا کے دیکھا۔ای جی آنکھیں پٹپٹا رہی تھی۔
کھاجا۔
اور کیا کہتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہال میں آتے ہی فاطمہ کو زور کا جھٹکا لگا۔
عربی فنکار اور کورین سب میز کے گرد جمع خوب مزے لیکر اسٹیک نکال رہے تھے۔
نہیں۔۔۔یہ مت کھانا عبداللہ ۔۔۔۔۔ وہ وہیں سے پکاری عبداللہ جو پہلا لقمہ منہ میں لے جارہا تھا چونک کے مڑ کر دیکھنے لگا۔
فاطمہ بھاگتی ہوئی عبداللہ کے پاس آئی کھاوا بھی صورت حال کی نزاکت سمجھتا ہوا دوڑا آیا
یہ مت کھانا یہ سور کا اسٹیک ہے۔ بلکہ یہ تمام کورین کھانا ہی حرام گوشت اور اجزا سے بنا ہوا ہے میں نے تم لوگوں کیلئے شوارما منگوایا ہے۔
فاطمہ کی ساری انگریزی عبداللہ کے سر پر سے گزری تھی۔
تھوڑا بہت یہی سمجھ آیا کہ کھانے سے منع کیا ہے۔ اور شوارما منگوایا ہے۔
اوہ ٹھیک۔ہے۔ میں نے ہی کورین فوڈ آرڈر کی تھی۔ اب کوریا میں آئے ہیں تو یہاں کے ذائقے چکھنے چاہیئیں نا۔

ٹوٹے پھوٹے لہجے میں وہ انگریزی میں بولا تھا۔
ہاں مگر حلال یہ حلال کھانا نہیں۔ پورک ہے یہ۔
کھاوا نے عربی میں بتایا تو وہ ہنس دیا۔
ہاں تو کیا ہوا۔ میں کونسا روز کھاتا ہوں ۔ کبھی کبھی پورک چلتا ہے اسکے ساتھ سوجو ہوتی تو اور مزا آتا۔
وہ آنکھ دبا کر ہنستے ہوئے بولا اور وہی پیس پورا منہ میں رکھ لیا۔ فاطمہ شاکڈ سی کھڑی رہ گئ۔ اس نے عربی میں جواب دیا تھا مگر یہ بتانے کے باوجود کہ یہ پورک ہے وہ کیسے کھا سکتا ہے بھلا۔
تم نے بتایا نہیں کہ یہ پورک ہے۔ فاطمہ نے بے یقینی سے دیکھتے ہوئے کھاوا سے پوچھا۔
بتایا ہے۔ کھاوا نے اسے آنکھ کے اشارے سے منع کرتے ہوئے دھیرے سے کہا۔
انکو چھوڑو۔انکے حال پر۔
کیا ہوا کیا مسلئہ ہے۔
ان سے ساتھئ فنکار پوچھ رہے تھے ۔ عبد اللہ نے عربی میں بتایا تو اسکے ہم وطن مسکرا کر انہیں بھی دعوت دینے لگے۔
آپ لوگ بھی کھائیں۔ مہر اور سلمان دونوں کھانا کھاتے ہوئے کہنے لگے۔۔
فاطمہ انہیں پہلے حیرت پھر تھوڑا غصے سے گھور کر رہ گئ ۔ تبھی اسکے موبائل پر شائد ڈیلیوری بوائے کی کال۔آئی تھی۔
ںہیں شکریہ۔ کھاوا نے مسکرا مسکرا کر کہاجبکہ فاطمہ تن فن کرتی فون اٹھائے ہال سے باہر نکل گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھاوا اسکے پیچھے پیچھے آیا تھا۔
ڈیلیوری بوائے سے کھانالیکر فاطمہ نے اسے تھماکر اندر بھیجا اور خود اندر جانے کی بجائے باہر احاطے میں بنے گھاس کے قطعے پر آبیٹھی۔
یہ لو کھانا کھالو۔
وہ بھاگتا ہوا واپس آیا تھا۔ جبھئ سانس بھی تھوڑا پھول رہی تھی۔
دھپ سے اسکے برابر شاپر رکھتے ہوئے وہ خود بھی اسی بنچ پر بیٹھ گیا۔
مجھے نہیں کھانا۔ فاطمہ کا موڈ آف ہوچکا تھا۔
کیوں بھئ کھانے سے کیا ناراضگئ۔ یہ تو حلال شوارما ہے ۔
اس نے بہلانا چاہا۔
کوئی حد ہے بھلا مسلمان ہو کر جانتے بوجھتے پورک کھا رہے ہیں سوجو پی رہے ہیں یہ کیسے عربی ہیں یہ شرم نہیں آرہی انکو گندے کام کرتے ہوئے۔۔
فاطمہ اس سے یوں پوچھ رہی تھی جیسے وہ اسکے ہی تو دبیل ہیں۔
تم کیوں غصہ کر رہی ہو وہ جانیں اورانکے کام۔۔
کیوں نہ غصہ کروں ؟ وہ اور چڑ گئ
مسلمانوں کا نام بدنام کر رہے آدھے ننگے تو پھر رہے حرام کھا پی بھی رہے ان سے کہو کم از کم نام بدل لیں یا تھوڑی شرم لاج ہی رکھ لیں اپنے نام کےمسلمان ہونے کی۔ یہ گند کھا پی کے پاک زمین پر اتریں گے تف ہے ان پر۔
فاطمہ کا گورا رنگ اس وقت غصے سے سر خ ہورہا تھا۔
وہ عربی ضرور ہیں مگر سعودی نہیں ہیں عبداللہ دبئی نیشنل ہے اور مہر ترکی مسلمان ہے اور سلمان بھی شائدمصری اداکار ۔ ان تینوں کا جن جگہوں سے تعلق اور۔جس صنعت سے تعلق ہے وہاں یہ سب اتنا معیوب نہیں۔ ان لوگوں کے نزدیک یہ بات ایسے ہی ہے جیسے آپ شرعی پردہ نہ کریں داڑھی نا رکھیں ویسے ہی کبھی ذرا سا شراب پی لیں پورک چکھ لیں اس سے وہ غیر مسلم تھوڑی ہو جائیں گے۔
اس نے سبھائو سے سمجھانا چاہا۔
تمہارا فرض تھا اگر انکو پتہ نہ ہو تو بتانا وہ تم۔نے پورا کیا اب آگے انکی مرضی وہ جو چاہے کریں۔ہم ڈنڈے کے زو رپر کسی سے اسلامی احکام تو فالو نہیں کروا سکتے۔ ہاں ان پر غصہ آسکتا وہ ضرور کرو۔مگر کھانا تم نے اپنے لیئے کھانا ہے انکے لیئے نہیں۔سو یہ کھائو اور غصہ تھوک دو۔
اسکا انداز اتنا سلجھا ہوا تھا کہ وہ چپ سنے گئ۔
عام سی فیڈڈ جینز اور سفید اپر میں ملبوس ہلکی سی بڑھی شیو میں نرم سے انداز سے بولتا وہ گندمی رنگت والا عام سا لڑکا تھا مگر انداز بولنے کا مانوس سا لگا تھا جیسے۔۔
وہ بے خیالی میں دیکھے گئ۔۔
کھائو نا۔وہ شوارمے کا لفافہ اسکی جانب بڑھائے ہوئے تھا۔ فاطمہ نے چونک کر تھام لیا۔
ویسے اچھا ہوا تم شوارما حلال لے آئیں ورنہ میں اپنے لنچ کیلئے کلب سینڈوچ لیکر آیا ہوا تھا اور ایک سینڈوچ سے میرا گزارا نہیں ہوتا بالکل۔
وہ شائد بھوکا ہورہا تھا دو تین جلدی جلدی لقمے لیکر اس نے شوارما چٹ کر لیا تھا اب پیکٹ سے دوسرا نکال رہا تھا۔
ایک تو یہ پاکستانی لڑکے ۔۔ وہ سرجھٹک کر مسکرا دی۔
میں ویسے ایک ہی شوارما کھاتا ہوں مگر آج ناشتے بغیر آیا تھا یہاں بھی موقع نہ ملا آنتیں پلٹ رہی تھیں میری۔
اس نے جانے محسوس کر لیا یا یونہی برسبیل تذکرہ کہہ رہا تھا فاطمہ کو اچھو سا ہوا۔
میں پانی لیکر آتا ہوں۔
وہ فورا اٹھنے کو تھا مگر فاطمہ نے اشارے سے روک دیا۔ وہ اپنی پانی کی بوتل بیگ میں رکھتی تھی۔وہی نکال کے پینے لگی۔
ویسے مجھے فاطمہ کہتے ہیں۔
اس نے پانی پی کر بوتل کا ڈھکن بند کرتے ہوئے نسبتا نارمل انداز میں بتایا۔
نہیں تمہیں فاتی ماشا کہتے ہیں یہاں تو۔
وہ ہنسا تھا فاطمہ کو بھی ہنسی آگئ۔
ہاں نام بگاڑ ہی ڈالا انہوں نے۔ جیسے تمہارا نام کھاوا۔۔
کھاوا ۔۔پکارتے ہوئے اتنا عجیب لگ رہا تھا مگر نام۔پتہ ہی نہیں۔۔۔ اتنا دماغ لڑایا مگر سمجھ نا آیا کھاوا اصل میں کس نام کو بگاڑ کر بنا ہے۔کیا نام ہے تمہارا۔
اس نے سیدھا پوچھ لیا
کھاوا۔ وہ مسکراہٹ دبا گیا۔۔
میں اصل نام پوچھ رہی۔ اس نے دانت کچکچائے۔۔
کیا کرنا جان کے بکواس سا نام ہے کھاوا پیارا نام ہے۔
تمہارے منہ سے سن کے اور بھی پیارا لگا۔ بولتے بولتے وہ منہ ہی منہ میں بدبدایا
کیا ؟ فاطمہ کو سنائی نہ دیا
مجھے کھاوا کہلانا ہی پسند ہے بڑا پیارا لگتا ہے جب لوگ مجھے کھاوا کہتے ہیں۔ یوں لگتا جیسے بھوک سی لگی ہے۔
وہ تیسرے شوارمے کی جانب ہاتھ بڑھا رہا تھا۔
فاطمہ نے بمشکل آدھا شوارما کھایا تھا۔ اس بات ٹوکے بنا نہ رہ سکی۔
تم شوارما اندر دے کر نہیں آئئ یہیں لے آئے سارے۔۔
آیا ہوں نا۔ وہ چباتے ہوئے بمشکل بولا
بس ای جی آ کو شوارما پسند باقی سب اسٹیک پر ٹوٹے پڑے تھے۔
اسے دو شوارمے دے کر چاریہاں لے آیا دو تم کھا لو گی دو میں۔۔
اوہ۔ بولتے بولتے اس نے شاپر میں ہاتھ مارا تو شرمندہ ہوا
میں تین کھا گیا۔ میں اور منگواتا ہوں۔
وہ اپنا ادھ کھایا شاپر پر رکھ کر جیب ٹٹولنے لگا۔
رہنے دو ایک کافی ہوتا ہے میرے لیئے۔ اس نے سہولت سے منع کردیا۔
وہ بھی کندھے اچکا کر دوبارہ مزے لیکر کھانے لگا۔
اچھا تمہارا نام کیا ہے؟ وہ آج نام جان کر ہی دم لینے والی تھی۔
نوید۔۔ وہ تھوڑا سنجیدہ سا ہو کر بولا
نوید سے کھاوا ؟ یہ پروڈیوسر انکل پاگل تونہیں۔
فاطمہ چیخ ہی تو پڑی وہ اسکے انداز پر ہنس پڑا۔
لاسٹ نیم کو بگاڑ کرکھاوا کر دیا ہے انہوں نے۔
بہت برا بگاڑا ہے۔ وہ تاسف سے سر ہلانے لگی۔
نہیں کھاوا اچھا نام ہے مجھے پسند آیا بھوک لگ جاتی ہے کوئی پکارے کھاوا۔۔ کھاا۔۔
وہ لہک لہک کر بول رہا تھا فاطمہ کو ہنسی آرہی تھی اسکی حماقت پر۔
کوئی نام لے آپکو بھوک لگ جائے اس سے پیارا نام کیا ہوسکتا۔
کوئی نام لے اور اسکے حلق میں خراش پڑ جائے اس سے برا نام ہو سکتا۔ وہ ترکی بہ ترکی بولی۔
کھا وا۔ جیسے حلق کھنکار رہے ہوں۔کھا وا۔ خراش پڑ رہی ہے مجھے۔
وہ مصنوعی کھانس بھی لی۔
پھر تو تم مجھے کھاوا ہی کہو حلق صاف ہو جائے گا۔وہ کہاں باز آنے والا تھا۔
کھا ہی کہوں گی بس وا تم دل میں لگا لیا کرنا اب کھا۔ کھا جا ۔۔
وہ کورین لفظ کھاجا کا استعمال کرکے اسے جانے کا کہہ رہی تھی وہ بھی سمجھ کے منہ لٹکا کے کھڑاہو گیا
اچھا فاتی ماسئ۔ چلتا ہوں۔
فاطمہ کی آنکھیں ابلیں وہ ڈر گیا جیسے
میرا مطلب ہے ماشی۔ فاطی ماشی۔

یو۔۔۔ اس نے شاپر ہی اٹھا کر مارنا چاہا وہ ہنستا بھاگ کھڑا ہوا وہ گھور کر رہ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیہون آتے ہی اس سے ملنے آیا تھا۔ وہ اپنا سب کام ختم کرکے ای جی کے پاس آئی تھی بتانے کہ میں جا رہی ہوں اگلی میک اپ روم میں ڈریسنگ ڈیسک پر سر رکھے بیٹھی رو رہی تھی۔ دروازہ کھولتے ہی اسکی نگاہ پڑی۔ وہ تیر کی طرح اسکے پاس آئی
کیا ہوا۔ اسکے کندھے پر ہاتھ تو ہمدردی میں رکھا تھا مگر آف شولڈر ٹاپ میں سیدھا اسکے کندھوں کو چھونے پر گڑ بڑا کر ہاتھ واپس کھینچ لیا جبکہ ای لی سوں سوں کرتی اسکے پیٹ سے لپٹ گئ۔۔
کیا ہوا۔ اب اسکا گھنے بالوں والا سر اسکے پیٹ سے لگا تھا اس نے اسی کو تھپتھپا دیا۔
میرا پورے دو پونڈ وزن بڑھ گیا ہے۔ کم از کم بھی دو ہفتے لگیں گے مجھے وزن کم کرنے میں۔
واعظہ گہری سانس لیکر رہ گئ ۔۔۔
دو ہفتے بڑی بات تو نہیں یوں چٹکی بجاتے گزر جائیں گے۔۔اور ابھی اس ہفتے بس ایک ریڈیو شو میں جانا ہے باقی تو بس ایونٹس ہیں ان میں کون غور سے دیکھے گا۔
واعظہ نے سمجھایا تو وہ اور زور سے سوں سوں کرکے بولی۔
وہی تو مسلئہ ہے سیہون ایکسو کا سیہون میرا سب سے پسندیدہ ممبر ہے ایکسو کا اور اسکے سامنے میں گائے بنی بیٹھی ہوں گئ۔
وہ دہائی دینے والے انداز میں بولی۔
سیہون۔۔ اسکے دماغ کی گھنٹی بجی۔
ایکسو کا سیہوں الف کا تو کرش ہوتا ہے اور وہ۔۔۔
بتائو میں کیا کروں۔۔۔
وہ ٹشو سے ناک پونچھتے سر اٹھا کے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
اپنا میک اپ ریموو کرو سارا آئی لائنر پھیل گیا ہے۔
واعظہ نے کہا تو وہ گڑبڑا کر مڑ کر خود کو آئینے میں دیکھنے لگی۔
میں تمہاری جانب سے معزرت کر لیتی ہوں کہ تم نہیں آسکتیں شو میں۔ ویسے بھی اتنا کوئی مشہور ۔۔
اسکے کہنے پر ای جی چیخ پڑی۔
آن۔آنندے آندیے او۔
میرا پہلی دفعہ سیہون کے ساتھ پروگرام ہوگا میں انکار نہیں کر سکتئ۔ تم نہیں جانتی ہو مجھے ایکسو کتنا کتنا پسند ہیں اور سیہون اف۔ میں تو۔۔۔۔۔۔۔
آگے وہ اپنی لمبی داستان جڑ رہی تھی واعظہ کا ذہن کہیں اور دوڑ رہا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھے سو نگیئے او۔
وہ دور سے معزرت کرتی دوڑی آئی۔ سیہون باہر لابی میں صوفے پر بیٹھا میگزین پلٹتے انتظار کر رہا تھا۔۔ اسے دیکھ کر مسکرا کر اٹھ کھڑا ہوا۔
دونوں اکٹھے قریبی کافی شاپ پر آ بیٹھے۔۔۔
آنٹی کیسی ہیں؟ میری جانب سے معزرت کر لی تھی؟۔
سلیف سروس تھئ وہ اسے بیٹھنے کا کہہ کر کیک اور کافی
خرید کر لا کر رکھتے ہوئے پوچھ رہی تھئ۔
مجھے میری کی کال آئی تھی۔
سیہون نے بلا تمہید اسے بتایا ۔۔
لعنت بھیجی تھی ؟ گالیاں دے کر بند کرنا تھا کس منہ سے کال کر رہی تھی سمجھا کیا ہوا ہے اس نے تمہیں اب۔۔
وہ بھڑک سی گئ تھئ۔ سیہون کے چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ در آئئ اسکے ردعمل پر۔
اسے مسکراتے دیکھ کر وہ چپ سی ہوئی۔ بہر حال وہ اسکے ساتھ کم ازکم بھی آٹھ نو سال سے تھا مڈل اسکول سے دونوں دوست تھے اور تب سے ہی میری کیلئے اسکے دل میں الگ ہی جزبات تھے وہ ایسا کچھ چاہ کر بھی نہیں کر سکتا تھا۔
اسکی منگنئ ختم ہوگئ ہے۔
اس نے سابقہ ہی انداز میں بتایا تھا
واعظہ نےکچھ کہنا چاہا مگر سیہون کے چہرے پر جتنا کرب سا اتر آیا تھا وہ کچھ کہنے سے باز رہی۔
سر جھکا کے وہ کافی میں چمچ چلا رہا تھا۔
میری محبت ختم نہیں ہوئی مگر میرا دل بہت دکھا ہے اسکے رویئے سے۔ مجھے اسکے جملے نہیں بھولتے۔ میرا دل کیا تھا اسے وہ سب کہوں جو مجھے وہ کہتی گئ تھی مگر میں اسے کچھ کہہ نہ سکا کہہ سکتا ہی نہیں۔۔۔۔
وہ دھیرے دھیرے سے بول رہا تھا۔ اسکی آنکھیں بھر آئی تھیں۔
پچھلے آٹھ مہینوں میں ایک دن ایسا نہیں گزرا جو میں نے اسے یاد نہ کیا ہو۔۔۔۔

وہ مزید بھی اپنی کہانی سنا رہا تھا۔ واعظہ اسے تاسف سے دیکھ کر رہ گئی پھر اپنا کپ اٹھا کر منہ سے لگا لیا۔ کافئ ٹھنڈی ہو رہی تھی اسے ٹھنڈی کافی پسند نہیں تھئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اور فاطمہ ابھی فلیٹ سے اندر داخل ہوئی ہی تھیں کہ تیز خوشبو سے دونوں کا سر گھوم گیا۔ ابھی چکراتے سر کو سنبھالانہ تھا کہ عزہ عروج عشنا نے انہیں چیخ کر وہیں ہینڈزاپ کر لیا۔
وہیں رک جائو آگے نہ آنا رکو۔۔۔
تینوں اکٹھے چیخیں فاطمہ واعظہ سے لپٹ گئ۔
کیا ہوا۔
یہ دیکھو۔
عروج نے نیچے دکھایا تو لابی میں بیچوں بیچ ایک چھپکلی تڑپ رہی تھی۔
اتنی سخت جان چھپکلی ہےاس پر پوری اسپرے باٹل خالی کر دی مگر یہ مر نہیں چک رہی۔
عزہ روہانسی ہونے کو تھی۔
کونسی بوتل خالی کی ہے ؟ واعظہ اسکے ہاتھ میں بوتل دیکھ کر مشکوک ہوئی۔
یہ باڈی اسپرے کی۔ عزہ نے فورا بوتل لہرائی
کس نے کہا ہے کہ باڈی اسپرے چھپکلی پر کرو تو وہ مر جاتی ہے۔
واعظہ نے سر پیٹ لیا
وہ اور کوئی اسپرے تھا نہیں تو۔ عزہ نے سر کھجایا
یار اسکا اتنی خوشبو سے دماغ گھوم گیا تھا یہ ابھی دیوار پر تھی پٹ سے گری ہے زمین پر اور تڑپ رہی۔۔۔۔۔
عروج نے تائید کی مگر جب دیوار سے نظریں زمین پر آئیں تو چھپکلی غائب تھی۔
کہاں گئ چھپکلی۔
عشنا گھبرائی
عزہ بوکھلائی واعظہ نے نیچے نگاہ کی تو تیز گام کی طرح تیزی سے دوڑتی چھپکلی انکے بالکل پاس آکر دیوار پر چڑھ گئ۔
فاطمہ چیخیں مارتی دوڑتی لائونج میں پہنچ چکی تھی واعظہ ساکت وہیں کھڑی رہ گئ۔
اسکے قدم خوف کی حالت میں جم جایا کرتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
انہوں نے پکڑ کر لا کر اسے صوفے پر بٹھایا پانی لا کر دیا ۔تب اسکی رنگت بحال ہونا شروع ہوئئ
صبح ادھر کچن میں تھی ابھی ٹی وی کے پاس عشنا نے جوتی ماری تو ڈری بھی نہیں۔
عزہ نے رام کہانی سنانی چاہی۔
جوتئ مارئ بھئ تو چھپکلی سے دوفٹ دور۔ اس نے ڈرنا کیا تھا الٹا ہنس رہی ہوگی عشنا کے نشانے پر۔
چھپکلی کو لگ جاتئ تو جوتی گندی ہو جاتی نا۔
عشنا منمنائی۔
مجھے نہیں پتہ واعظہ مجھے لڑکا چاہییے لڑکا بھی رکھو اپارٹمنٹ میں۔
عزہ نے ضدئ انداز میں کہا تو پانی پیتی واعظہ کو اچھو ہو گیا۔
کیا بک رہی ہو۔
عروج نے آنکھیں نکالیں
صحیح کہہ رہی ہوں ہےجن جب تک تھا کتنا آرام تھا ایک چھپکلی بھی نظر آتئ تھی بھگا دیتا تھا وہ۔ اب تو کاکروچ بھی ہوگئے ہیں گھر میں
وہ بسوری۔
ہاں چھپکلیاں بھگانے والا کوئی ہونا چاہیئے۔
عشنا کو اتفاق تھا۔
مگر کورین رکھیں یا پاکستانی ؟
فاطمہ نے یونہی سوال کیا واعظہ نے گھور کر دیکھا
چینی رکھ لیتے ہیں اسکے کھانے پینے کا مسلئہ بھی ختم ہوگا آرام سے چھپکلیاں کاکروچ تل لیا کرے گا اپنے لیئے۔
واعظہ نے تو یونہی کہا تھا ان سب نے سوچ بھی لیا ایک چینی لڑکا پھسکڑا مارے بیٹھا منی میز پر شاہی پکوان سجائے لہک لہک کر مک بانگ بناتے ہوئے۔
آخ۔ ان سب نے اکٹھے الٹی کی۔
گندی واعظہ کی بچی۔
عزہ نے پاس پڑا کشن دے مارا۔
حد ہوتی ہے ویسے ایو۔ عروج بھئ گھن کھا رہی تھئ۔
حد بتائوں حد ؟ مطلب لڑکا رکھوں میں یہاں اس دڑبے میں صرف چھپکلیاں مارنے کیلیئے۔
واعظہ نے آنکھیں پھاڑتے ہوئے انکی عقل کا ماتم کرتےکہا تو عزہ بھولا سا منہ بنا کر بولی
نہیں اگر پیارا ہو تو شادی بھی کر لینا۔
شادی تو تمہاری کرواتئ ہوں میں۔
واعظہ نے وہی کشن دے مارا عزہ ہنستی جھکائی دے گئ سیدھا عروج کے منہ پر پڑا تھا۔
مجھے کیوں مارا۔ عروج نے جوابا پے درپے دو تین کشن اٹھا مارے۔ فاطمہ ان سب سے بچی تھی مگر کشن لڑائی میں بچ بیٹھنے والا کیا خاک مزا لیتا سو صوفے سے کشن اٹھا کر شروع ہوگئ۔
منے لائونج کے پانچ چھے کشن ہی تو تھے ان سب کی ہوائی فائرنگ کی نظر ہونے لگے ہنس ہنس کے سب کا برآحال ہو رہا تھا مگر کوئی ہار ماننے کو تیار نہ تھی۔

کوئی کل سیدھی ہے تم لوگوں کی کیا ہنگامہ مچا رکھا ہے ؟ ۔۔ الف دھاڑ سے دروازہ کھول کر باہر نکل کر دھاڑی تھئ
وقت دیکھو کیا ہو رہا ہے کوئی سونا چاہ سکتا ہے کسی کے سر میں درد ہو سکتا ہے مگر تم لوگوں کو احساس ہی نہیں ہے۔
اسکی بلند آواز پر جو جہاں تھا وہیں رہ گیا تھا۔سب بھونچکا سی اسکا اتنا کڑخت انداز دیکھ رہی تھیں۔
پتہ کہاں سے اٹھ آئیں ہیں جنگلی گنوار۔ ہوںہہ۔۔
وہ بول کر گھور کر جیسے ہی پلٹی عین اسکے سر پر کشن لگا تھا
کس نے کی ہے یہ حرکت۔
زمین سے کشن اٹھا کروہ سخت جلال میں مڑی تھئ۔
کیا کروگی پٹائی کروگئ۔ ؟ چل کرو یار ابھی تو بس نو بجے ہیں۔
فاطمہ نے ہنس کر کہنا چاہا جوابا بھر پور طاقت سے پھینکا گیا کشن اسکے منہ پر لگا تھا
تیری تو۔
فاطمہ کا دماغ اتنی زور سے گھوما تھا وہ جارحانہ انداز میں اسکی جانب بڑھنے کو تھی کہ عزہ اور عروج نے باقاعدہ اسکو بازو سے پکڑ کر روکا
شکر کرو کشن تھا۔ آئندہ ایسی حرکت کی تو ۔۔۔
الف نے انگلی اٹھا کر دھمکی دینی چاہی تو فاطمہ اس سے اونچئ آواز میں بات کاٹ گئی
کیا کر لوگی؟؟؟؟ کرو ابھی کرو جو کرنا ۔دیکھوں میں بھی۔
اسکے اشتعال دلانے پر الف بھنا کراسکی جانب بڑھی عشنا ایکدم سے اسکے آگے آگئ
آئیم سوری میں ادھرصوفے پر پھینک رہی تھی نشانہ خطا ہوگیا۔
عشنا کی وضاحت پر وہ ہونٹ بھینچ کر رہ گئ۔ پھر مڑ کر پیر پٹختی واپس کمرے میں چلی گئ۔
یہ اپنی جاب کی وجہ سے پریشان ہے تو اسکا یہ مطلب نہیں کہ سب پر غصہ کرتی پھرے۔
کہا تو عروج نے تھا مگر وہ سب متفق تھیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے ڈیڑھ بجے اسکی آنکھ کھلی تھی۔ کسمسا کر کروٹ بدلی تو واعظہ کا بستر خالی تھا اس نے ذرا سا سر اٹھا کے دیکھا تو وہ کھڑکی میں بیٹھی فون پر لگی تھی۔
کس کے بوائے فرینڈ سے بات کر رہی ہو؟ اپنا تو کوئی ہے نہیں تمہارا۔
جمائی لیتی وہ اٹھ بیٹھی۔
تمہارے شوہر سے۔۔ اس نے کان سے فون ہٹا کر اطمینان سے جواب دیا
آہ ہا۔ آگیا گائوں سے ؟ وہ سستی سے چپل پہنتی باتھ روم۔جانے اٹھی تھی
ہاں او راب کل سے تم بھی واپس جائو اپنے گھر۔
اس نے ہدایت کی تو وہ سر ہلاتی باتھ روم۔میں گھس گئ۔
پھر دوسری بار تقریبا چار بجے آنکھ کھلی تھی وجہ عشنا کا اسکا سا را کمبل کھینچ کر اوڑھ لینا تھی۔
اس سے کمبل واپس کھینچ کر اوڑھتے مندی مندی آنکھوں سے واعظہ کا بستر دیکھا تو وہ اب بھی خالی تھا۔
اس نے سر اٹھا کر دیکھا وہ پھر کھڑکی میں ایستادہ فون پر بات کر رہی تھی۔
اب کس سے بات کر رہی ہو۔ سو جائو۔ کہتے ہوئے اس نے جمائی بھی لے لی۔
الف کی امی سے۔۔۔
وہ پھر سوجاتی اگر سائیڈ سے فون اٹھا کر وقت دیکھنے کا شوق نہ چڑھ جاتا فون دیکھا تو فیس بک کے نوٹیفیکیشن انسٹا وہ جو ایک کے بعد ایک پوسٹ دیکھنا شروع ہوئی کوئی آدھے گھنٹے بعد سر اٹھا کر دیکھا تو واعظہ کو ابھی بھی ہینڈز اپ کرایا ہوا تھا الف کی امی نے
ابھی تک کال چل رہی؟ اس نے حیرت سے پوچھا۔
واعظہ بے چارگی سے دیکھنے لگی فون کان سے دور کرکے دیکھا تو پینتالیس منٹ کی کال ہو چکی تھئ۔
اس کو بھی نیند آنے لگی تھی۔
جی ٹھیک ہے۔میں بات کروں گئ۔ ابھی آپ آرام کریں جی۔ ٹھیک خدا حافظ۔
اس نے بات ختم کرکے فون بند کردیا۔
وہ تھکی تھکی سی بیڈ پر آبیٹھئ
کیا کہہ رہی تھیں اتنی دیر سے۔
فاطمہ کو اس پر ترس آیا۔ وہ اپنا بازو سہلا رہی تھی۔
الف کا پوچھ رہی تھیں آخری سمسٹر کب ختم ہو رہا اسکی کہیں بات طے کرنا چاہ رہی ہیں الف نے صاف انکار کردیا ہے تو مجھے کہہ رہی تھیں سمجھائو اسے
واعظہ بستر پر گر سی گئ
ہاں تو کوئی اونگا بونگا سا ہوگا الف باشعور سمجھدار لڑکی ہے۔اسے حق ہے جس مرضی سے شادی کرےجس سے شادی سے انکار کرے ایویں تھوڑی۔
ابھی اسکی بات میں تھی واعظہ نے تصویر نکال کر دکھائی وہ جملہ ادھورا چھوڑ کر موبائل لپک لے گئ
یہ تو فواد خان لگ رہا ہے پیارا ہے یہ تو۔
اس نے اتنی بے ساختہ تعریف کی کہ واعظہ کو ہنسی آگئ
احمق گدھئ ہے الف پڑھ لکھ کر گدھے پر لادا ہے اسکی امی کو کان پکڑکر یہیں بیاہ دینا چاہیئے
اسکی رائے یونہی پل پل بدلتی تھی۔
واعظہ اطمینان سے لیٹ کر آنکھیں موند گئ۔فاطمہ۔جزباتی ہو کر اسکے بیڈ پر کود آئی
تم سمجھائو گی اسے ؟
میں اسکی امی لگتی ہوں۔ وہ برا مان گئ۔
ہاں تو تم نے ایڈاپٹ کیا ہے نا اپنی ہم عمروں کو تو اب ذمہ داری بھئ اٹھائو۔
وہ مزے سے بولی۔ واعظہ گھور کر رہ گئ۔پھر کچھ سوچ کر بولی
بھئی فواد خان ہو یا گنگو تیلی میں کون ہوتی ہوں اسے منانے والی اسکی زندگی ہے وہ بہتر جانتی اسے کیا کرنا۔
یار عجیب ہے اتنا پیارا لڑکا ڈھونڈا یے امی نے تو خوشی خوشی مایوں بیٹھ جائے فالتو میں رونا پیٹنا مچایا ہوا ہے کئی دن سے دیکھ رہی چڑ چڑئ ہوئی ہے آج بھی کیسا لڑی مجھ سے۔ احمق ۔۔ خود کو تو یہاں کوریا میں آکر بھی کوئی اوپا ملنے کی امید نہیں تو دیسی پھپھا ہی سہی۔
فاطمہ تاسف سے سر ہلا کر دیکھ رہی تھی
اب یہ پھپا کہاں سے آیا ؟ واعظہ حیران ہوئئ
قافیہ ملایا ہے اورکیا
فاطمہ کھلکھلا ئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *