Desi Kimchi Episode 8

Desi Kimchi Urdu Novels

دیسی کمچی قسط 8
نور کا آج چھٹی کا ارادہ تھا۔ الف کی آج کلاس ہی نہیں تھی۔ عشنا تیار ہو رہی تھی اسے دیکھ کر بھی عزہ کو تحریک نہیں مل رہی تھی کہ اٹھ کر تیار ہو جائے۔ واعظہ انکے کمرے کی غیر معمولی خاموشی دیکھ کر اپنا لیپ ٹاپ بند کرتی اٹھی ۔۔ لائونج میں ہے جن منے صوفے پر بیٹھا تیار یونیفارم پہنے جوتے کے تسمے باندھ رہا تھا۔ اسے دیکھ کر فورا خوشگوار انداز میں آننیانگ کہا وہ بھی جوابا مسکرا دی۔
ناشتہ کرکے جانا ہےجن۔۔ یہ اسکی روزانہ کی۔تاکید تھی اس نے سر ہلا دیا مگر آج اس نے ناشتہ نہیں کرنا تھا یہ بتانا ضروری نہیں سمجھا ورنہ وجہ بھی بتانئ پڑتی سو ایک چپ سو سکھ کے مصداق تسمے باندھ کر اٹھ کھڑا ہوا۔ واعظہ عروج کے کمرے میں گھس چکی تھی۔ عشنا کو دیر ہو رہی تھی سو جلدی سے فاطمہ کی سائیڈ ٹیبل سے موبائل اٹھاتی تقریبا بھاگتی ہوئی باہر نکلی۔
نونا۔۔ پیچھے سے ہے جن نے جانے کیا کہنا چاہا مگر اسکے پاس وقت نہیں تھا یہ بھی نوٹ نہ کیا کہ دروازے کا لاک تک اسے آج کھولنا نہیں پڑا تھا وہ تیزی سے اسے بھیڑ کر بھاگ کر لفٹ میں داخل ہوئی۔کوئی اس سے بھی تیزی سے برابر والی لفٹ میں سے نکلا تھا۔
عروج اپنے بستر پر پڑی باقائدہ خراٹے لے رہی تھی۔ نور اور الف بھی گھوڑے بیچ کر سو رہی تھیں۔ عزہ نے آہٹ پر کمبل سے گردن باہر نکال کر اسے دیکھا۔۔
کیا بات ہے یونیورسٹی نہیں جانا کسی نے؟
واعظہ قریب آکر آواز دبا کر پوچھ رہی تھی۔
جانا تو چاہیئے۔ مگر یہاں گرمیوں میں اتنی سردی کیوں پڑی ہے۔۔
عزہ ہونٹ لٹکا کر پوچھ رہی تھی۔
تاکہ سردیوں میں شدید سردئ پڑ سکے۔
واعظہ اور کسی بات کا جواب نہ دے ۔ عزہ اسکو دیکھ کر رہ گئ۔
ناشتہ کرنا ہے؟ واعظہ نے پوچھا تو اس نے نفی میں سر ہلا دیا
وہ جو منکر نکیر کیٹر پلر باہر ہوتا ہے نا اسکے ہوتے میں کر سکتی۔ عزہ نونا رمضان چلا کر پوری دنیا کو بتا دے گا میں نے روزہ نہیں رکھا۔
وہ شدید چڑے ہوئے انداز میں بولی تو آواز بلند ہو گئ۔واعظہ ہونٹوں پر انگلی رکھ کر خوفزدہ نظروں سے تینوں کی جانب دیکھنے گئ۔جبکہ تینوں سوئی لڑکیوں نے کسمسا کر بڑ بڑا کر حسب توفیق صلاواتیں سنائیں
سرپر بڑ بڑ مت۔ الف سوتے میں اتنا ہی بڑ بڑا سکی اور جملہ مکمل کیئے بغیر دوبارہ نیند میں گم ہوگئ
نور کی آنکھ کھل ہی نہ پائی دس منٹ پہلے جو عزہ نے کندھا ہلا کر پوچھا تھا تو اپنا ہی۔جواب دوبارہ دہرا دیا
سونے دوووو۔۔۔ مت تنگ کرو۔۔ نہیں جانا بس ایک کلاس ہے میری۔۔۔ نشر مکرر عزہ سر جھٹک کر رہ گئ
ماں سے مل لو پلیز بیمار ہے وہ۔۔
عروج خواب میں منتیں کر رہی تھی
ماں سے یاد آیا۔ ابیہا کی امی کی خیریت پوچھنی چاہیئے ہمیں۔۔
عزہ کو یاد آیا۔
کل فون کیا تھا مگر اس نے اٹھایا ہی نہیں چلو اٹھو اگر جانا ہے میں ہےجن سے کہہ دیتی ہوں اسٹاپ تک چھوڑ آئے۔۔
واعظہ الف کا کمبل برابر کرتے ہوئے سر گوشیانہ انداز میں اسے کہہ رہی تھی۔
جیسے اسکے پاس تو مرسیڈیز بنیز ہے ۔۔ موٹر سائیکل تک تو ہے نہیں۔ عزہ منہ بنا کر کمبل ایک طرف کرتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔
پھر بھی آج اکیلی جائو گی؟ الف اور نور تو نہیں جا رہیں
؟ واعظہ کو فکر ہوئی
اچھی بات یے۔ میرا عبایا میلا ہورہا نور کا اڑاتئ ہوں عزہ چٹکی۔بجا کر بولی۔ پھر جتانے والے انداز میں کمر پر ہاتھ رکھتی واعظہ کی جانب مڑی
میڈم ایک تو میں کوئی چھوئی موئی لڑکی نہیں ہوں دانت توڑ سکتی کوئی میری جانب آنکھ اٹھا کر دیکھے تو۔ دوسرا یہ سیول ہے پاکستان نہیں جو مجھے اکیلے دیکھ کر کوئی چھیڑے گا۔۔اسکا انداز زعم بھرا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دروازہ پورا کھولتے ہی کوئی نرم سی چیز اسکے اوپر آن گری
ہایش۔۔ وہ بری طرح ڈر کر پیچھے ہوا۔
لمبا سا کالا کپڑا جیسے دروازے پر ٹکایا ہوا تھا اسکے کھولتے ہی اس پر آن گرا۔
آہش۔ یہ نونا کا۔ وہ بڑ بڑاتے ہوئے اٹھانے لگا تو کپڑے میں کوئی چیز بندھئ ہوئی تھی جیسے۔ اس نے تجسس سے اس گٹھری کو کھولا تو ایکدم دل اچھل کر جیسے حلق میں آگیا۔
ایک چھوٹی سی پرچی بھی تھی
اوہ۔ چھوٹی مخلوق یہاں کیوں اکڑوں بیٹھی ہو ؟ قدموں کے نیچے آکر کچلے جاتے ابھئ۔
عزہ اسے دہلیز پر اکڑوں بیٹھا دیکھ کر شرارت سے کہہ رہی تھی۔ اس نے اسکی آواز سنتے ہی جلدی اس کپڑے کو دوبارہ لپیٹ لیا پرچی مروڑ کر جلدی سے جیب میں ڈالتا اٹھ کھڑا ہوا
یہ کیا ہے؟ تم نے عبایا پہننا شروع کردیا۔؟
اسے کالا کپڑا اپنے پیچھے کرتے دیکھ کر اسے تجسس ہوا۔
آنیا۔۔ ( نہیں) وہ یہ۔ وہ گڑ بڑا سا گیا۔
جھوٹ نہیں بول سکتا۔ کیا کروں؟
وہ ہنگل میں بڑ بڑایا۔
دیکھو لڑکے اگر تم نے سیگریٹ ویگرٹ شروع کی نا تو مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا دکھائو مجھے کیا چھپا رہے۔ عزہ کے اندر کی بہن انگڑائی لیکر جاگ اٹھی جارحانہ انداز میں اسکی جانب بڑھی
آنیو۔۔ وہ گڑ بڑا کر پیچھے ہوا۔
تم لوگوں نے دروازے پر کیا تھیٹر لگایا ہوا ہے۔۔ واعظہ نےاپارٹمنٹ کے دروازے سے نکلتے ہوئے دونوں کو ٹوکا۔
امی یہ دیکھو جانے کیا چھپا رہا ہے۔۔ عزہ نے کہا تو عموما واعظہ جو انکی چھیڑ چھاڑ سہہ جاتی تھی اس وقت تنک کر بولی
امی ہوگی تم خود میں ہنستی رہتی ہوں تو تم لوگ مزاق بنائے چلے جاتے ہو۔ کبھی لغت کبھی امی ۔ بہت ڈھیل دے دی ہے میں نے تم لوگوں کو۔
واعظہ خالص کوریائی آہجومہ کی۔طرح چلاتی سچ مچ امی ہی لگی تھئ۔ دونوں مئودب ہوئے۔ گو اس نے کہا اردو میں ہی تھا مگر ہے جن کو سمجھ نہ آنے کے باوجود اپنی بہتری اسی میں لگی کہ بیبا بچہ بن جائے
آٹھ ہو رہے ہیں دیر نہیں ہو رہی تم لوگوں کو۔ اس نے رعب سے کہا تو دونوں لفٹ کی جانب بھاگے۔
میرے لیئے بھی لفٹ روکنا ذرا ۔ واعظہ بھی انکے پیچھے بھاگ اٹھئ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نسیم صبح موسم بادلوں میں ڈھکا آسمان بے حد خوبصورت لگ رہا تھا۔ بیگ لٹکائے دھیرے دھیرے قدم اٹھاتے ہوئے وہ دونوں بس اسٹاپ کی جانب رواں تھے۔ انتہائی رومانوی سیر ہوتی جو اگر اسکے ساتھ چلتا احتیاط سے اردگرد کے ماحول پر نگاہ ڈالتا اوپا اس سے عمر میں چھوٹا نہ ہوتا
عزہ نے تیکھی نگاہ ڈالی۔ ہے جن کا پروٹیکٹیو موڈ آن تھا وہ بھی جانے کیوں۔ ؟ شانوں پر بیگ لٹکائے وہ اس سے اتنا قدم سے قدم ملا کر کیوں چل رہا تھا؟ اسکو تو دیر ہو رہی ہوگی اسکول سے۔؟ اور سب سے بڑھ کر اس نے تو بس سے جانا ہی نہیں تھا۔۔ عزہ کے ذہن میں جھماکا ہوا
وہ رکی۔ ہے جن اس سے ایک قدم آگے ہو گیا تھا۔ تفتیشی نگاہوں سے اس نے ہے جن کی پشت کو سرتاپا گھورا ۔۔ عام سا گرے پیںٹ سفید شرٹ والا یونیفارم کندھوں پر لٹکا کالا بیگ۔جس پر کورین میں کچھ گٹ پٹ لکھا تھا۔ بیگ سے جھولتے ڈھیر سارے کی رنگز ایک اسپآئڈر میں ، اور لٹ۔ صاف ستھرا چمکتا ہوا یونیفارم۔ اس کی نگاہ چمکتے سفید اسنیکرز پر پڑی جو دیکھتے ہی دیکھتے گھوم چکے تھے اب جوتوں کی ایڑھی بجائے پنجا انکے سامنے تھا۔ وہ چونکی۔ جھٹ اوپر نگاہ کی ہے جن اسے سوالیہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔۔
کیا ہوا رک کیوں گئیں؟۔۔ اس نے حیرت سےپوچھا
کچھ نہیں۔ وہ سنبھل کر اپنا بیگ سنبھالنے لگی۔
تم کس خوشی میں اسٹاپ پر جا رہے ہو تمہارا اسکول تو اس طرف ہے۔
اس نے ہاتھ کے اشارے سے مخالف سمت میں اشارہ کیا۔
وہ واعظہ نونا نے کہا تھا آپکو اسٹاپ تک چھوڑ آئوں۔
وہ جیسے اس جواب کیلئے تیار تھا۔۔ چلتے چلتے بس اسٹاپ بس آہی گیا تھا۔
کب کہا تھا ؟ اسے حیرت ہوئی۔۔ اور کیوں کہا؟ میں بچی تھوڑی ہوں روز آتی جاتی ہوں تم کیوں دیر کر رہے ہو تمہارا اسکول لگنے والا ہوگا جائو اب ۔ اسے غصہ آنے لگا
پھر کہتئ ہے امی نہ کہو۔ ایسے تو میری امی بھی کبھی۔۔ تم جائو بس آگیا بس اسٹاپ۔۔
اسکے اندر کی ضدی بڑی بہن انگڑائی لیکر بیدار ہوئی۔
نونا آپ کی بس آتی ہوگی آپ سوار ہو جائیں تو چلا جائوں گا
وہ سہولت سے کہہ رہا تھا۔تبھی اسکا موبائل بجا تو ذرا سا رخ موڑ کر وہ فون اٹھانے لگا۔ اس نے ہونٹ بھینچ لیئے۔ اسکی مطلوبہ بس سامنے سے آرہی تھی۔ بس اسٹاپ پر انکے دونوں کے علاوہ کئی طلبا ء یونیفارم پہنے کھڑے تھے ایک لڑکی نے ہنستے ہوئے اپنے بال پیچھے کیئے تو عزہ کے ذہن میں جھماکا سا ہوا اس نے پلٹ کر دیکھا ہے جن رخ موڑے فون پر بات کر رہا تھا اسکی جانب پشت تھی۔۔ اس نے تیزی سے آگے بڑھ کر اسکے بیگ کی ادھ کھلی زپ سے جھانکتے اس شاپر پر جھپٹا سا مارا۔ اور سرعت سے کندھے سے بیگ اتارا اور اپنا ہاتھ اسکی آڑ میں کر لیا۔ ہے جن نے مڑ کر دیکھا تو وہ بس کی جانب اشارہ کرکے بولی۔
میں جا رہی ہوں ہےجن خدا حافظ۔
ہے جن نے سر کے اشارے سے جواب دیا۔وہ ابھی بھی فون پر متوجہ تھا۔
عزہ تیزی سے بس میں چڑھ گئ تو وہ اپنی راہ لینے لگا۔ بس میں چڑھ کر اس نے جلدی سے وہ چیز اپنے بیگ میں ڈال لی۔ اسکے ساتھ کھڑی لڑکی نے منہ بنا کر اسے دیکھا تھا
کیا ؟ میرے ہیں پہلی بار دیکھے ہیں کیا؟ ۔عزہ تیز لہجے میں بولی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹیکو کیئر۔
اس بڑئ سئ عمارت کے داخلی صحن میں کھڑے ہوکر اس نے ایک نگاہ اس پر اوپر سے نیچے تک ڈالی پھر تھوک نگلتے ہوئے ہاتھ میں پکڑے کارڈ کو دوبارہ پڑھا۔ یہی پتہ تھا۔
یہی ہے؟ اسے یقین نہیں آرہا تھا۔ کارڈ پر جتنی کم تفصیل لکھی تھئ اس سے تو وہ یہی سمجھی تھی کہ بس کوئی چھوٹی موٹی سئ آئی ٹی کی کمپنی ہوگی۔ مگر یہ چھوٹی ہو کر بھی ٹھیک ٹھاک انفرااسٹرکچر رکھتئ تھئ۔ اس نے گہری سانس لی۔
اب یہ تو خالی آنا جانا ہی ہوگا۔ رکھ ہی نہ لیں مجھے ۔ویٹ۔
وہ بڑ بڑاتے ہوئے چونکی۔
ایم بی اے دیکھ کر مجھے انٹرنی تو نہیں رکھنے کا سوچ رہے مجھے جاب چاہیئے تھی سیہون کے بچے۔ انٹرن شپ نہیں۔ اس نے دانت کچکچائے۔
پاس سے گزرتی منی اسکرٹ میں ملبوس لڑکی نے اسے اکیلے میں بڑبڑاتے دیکھ کر پاگل نہ سہی نفساتی ضرور سمجھا تھا۔ یہ اسکے چہرے پر لکھا تھا۔
ویئو؟ وہ بھی جوابا خالص کوریائی انداز میں اسے دیکھ کر غرائی۔ آہجومہ نے قدم تیز کیئے سو اس نے بھی آہ بھرکر اندر کی۔جانب قدم بڑھا دیئے
گلاس ڈور کھولتے ہوئے اسکا مزاج برہم سا تھا۔ دروازہ کے اس پار جگ مگ کرتی دنیا تھا۔ بڑا سا ریسیپشن جسکے دونوں اطراف پر عمارت کے اندر جانے کے دو بڑے حصے تھے۔ایک جانب تیکنیکی ڈیپارٹمنٹ تھا دوسری جانب ایچ آر ۔
اس نے سیدھا اسی جانب بڑھ جانا چاہا جب ریسیپشن سے لڑکی نے پکار لیا۔
محترمہ پہلے اپنی شناخت کرا لیجئے۔
نرم سا انداز وہ سر ہلا کر ہاتھ میں پکڑی فائل جس میں سی وی اور دیگر دستاویزات تھیں سنبھالتی اسکی جانب بڑھی تبھی کسی نے کہنی سے اسے پکڑ لیا تھا۔
اس نے جھلا کر مڑ کر دیکھا۔
ادھر آئو کب سے انتظار ہو رہا ہے تمہارا۔ وہی چندی آنکھوں والی لڑکی دانت کچکچا کر بولی تھئ
دے؟ وہ حیران ہوئی۔
چلو میرے ساتھ۔ اس نے بازو سے پکڑ کر کھینچا اور تکنیکی ڈیپارٹمنٹ کی جانب بڑھ گئ۔ اسکے ساتھ گھسٹتے ہوئے اس نے بتانا چاہا تھا کہ وہ تو۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیڈ وقفے وقفے سے لرز رہا تھا۔ دو تین جھٹکے تو وہ آرام سے سہہ گئ جب جھٹکے تواتر سے آنے لگے تو اسکی آنکھ کھلی تھی۔ کمرے میں وہ اس وقت تنہا تھی نہ عشنا تھی نا واعظہ باہر لائونج میں بھی خاموشی تھی۔
زلزلہ۔ وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھی۔
الف نور عروج عزہ عشنا زلزلہ آرہا ہے ۔بیٹھ جائو۔
وہ چلا چلا کر پکارتی ہوئی بیڈ سے نیچے کودی اور زور زور سے کلمہ پڑھنے لگی۔
اسکے گھبرا کر چلانے پر الف کئ آنکھ کھلی تھی عروج کسمسائی نور غافل ہی پڑی رہی تھی۔
الف نے ذرا سا اٹھ کر پرسکون سے اپنے کمرے کو دیکھا جس کی نا دیواریں ہل رہی تھیں نا ہی انکے بیڈ۔ پھر بھی مڑ کر ساتھ سوئی نور کا کندھا ہلانے لگی
اٹھو زلزلہ۔ مندی آنکھیں بمشکل کھول کر اس نے نور کی شکل دیکھی تو حلق کے بل چلا اٹھی۔
بیڈ سے اتر کر جب زلزلہ تھما تو اسے ہلکی ہلکی زون زون کی آواز بھی آنے لگی۔ آواز کے منبع کی تلاش میں اس نے سیدھا ہو کر بیڈ کو دیکھا تو یہ عشنا کا موبائل وائیبریٹ ہورہا تھا۔ فاطمہ کالنگ۔
میں خود کو کال کر رہی ہوں۔
وہ چونکی کال یس کی ہی تھی کہ الف کی زور دار چیخ سے دہل کر اسکے ہاتھ سے موبائل چھوٹ کر بیڈ پر گرا تھا۔ اور وہ خود بھی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کس نے کیا۔ نور رو دینے کو تھی ۔ اسکے بالکل سامنے سے ماتھے پر سے کسی نے فرنج کاٹ دی تھی۔ اسے۔آئینہ دکھاتی الف اس سے ذیادہ بھونچکا تھی
عروج جمائی لیتی کڑی تفتیشئ نگاہ کمرے پر ڈال رہی تھی۔
یہ یہ تم نے کیا ہے فاطمہ ؟ نور کو جانے کیوں اس پر شک ہوا۔ تم صبح چلا رہی تھیں۔ دیکھو یہ بالکل اچھا مزاق نہیں ہے۔
انکے سرہانے مورل سپورٹ کی غرض سے کھڑی فاطمہ بھنائی۔
مجھے کیا ضرورت تمہارے بال کاٹنے کی؟ کاٹنے ہوتے بھی تو میرا ٹارگٹ تمہاری بجائے۔ فاطمہ کہتے کہتے رک سی گئ۔ نگاہ الف پر تھی اس نے منہ بنا کر پہلو بدلانور نے روئے سخن الف کی جانب موڑا
تو یہ تمہاری شرارت ہے الف ؟ کیوں کیا ایسا بھونڈا مزاق تم نے
وہ اسکو کندھوں سے پکڑتے ہوئے رو دی۔
خوامخواہ۔ وہ چیں بہ چیں ہو کر چھڑانے لگی۔
مجھے خود صبح اتنا زور دار جھٹکا لگا ہے میرے برابر لیٹی تھیں تم میں تو پہچانی بھی نہ تمہیں فورا اور سچ کہوں تو بالکل سوٹ نہیں کر رہی تم پر یہ۔
الف نے صاف گوئی سے کہا تو نور نے مزید تان بلند کی عروج اور فاطمہ اسے تاسف سے دیکھنے لگیں تو وہ گڑ بڑا گئ
میرا مطلب ہے ایک سائیڈ پر مانگ نکال لو زرا سے تو بال ۔۔
جملہ مکمل کرتے اسے مزید نقص امن کا اندیشہ لاحق ہوا تو ادھورا چھوڑ دیا۔
تمہارا عبایا بھی غائب ہے۔ عروج کی تفتیش مکمل ہوئی تو اس نے ایک اور اطلاع دی۔
کیا؟ نور سے ذیادہ زور سے الف چلائی تھی۔
میرا عبایا یہاں اس کرسی پر رکھا تھا کل سوکھا نہیں تھا تو۔۔
نور اچھل کر بیڈ سے اتری تھی اور عبایا کی تلاش میں کرسی کی۔جانب بڑھی مگر اب کرسی خالی تھی۔
عبایا تو عزہ۔ الف کے منہ سے پھسلا پھر جلدی سے دانتوں تلے زبان دبا لی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نونا آپکو چھٹی کب ہوگی
اسے یے جن کا پیغام آیا تھا۔
ہو گئ یے۔ نکل رہی ہوں یونی سے۔
اس نے فورا جواب دیا تھا۔
میں آتا ہوں آپکو لینے آپ وہیں رکیں۔۔۔
اسکا پیغام آیا تو وہ آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے لگی
یہ منا سچ مچ بھائی بننے کے چکر میں ہے ذیادہ ہی فری ہو رہا ہے۔ اس نے غصے سے جلدی جلدی ٹائپ کیا
کس خوشی میں؟ کوئی ضرورت نہیں میں بس سے گھر آرہی ہوں اور تم ذیادہ فالتو فکریں نہ پالو اپنے کام سے کام رکھو ۔
اس نے میسج بھیج کر سانس لی تھی۔
بھلا بتائو ذیادہ ہی ابا بن رہا ہے مجھے لینے آئیں گے موصوف ۔ وہ سر جھٹک کر تیز تیز قدم اٹھانے لگی۔
بس میں اتفاق سے ںشست مل گئ تھئ۔ اس نے اطمینان سے بیٹھ کر موبائل دیکھا تین پیغام آچکے تھے
کیا ہوا نونا؟ خفا ہیں
میں چلیں بس اسٹاپ پر آکر آپکا انتظار کروں گا ٹھیک ہے؟
مجھ سے کوئی غلطی ہوگئ کیا؟
جواب کیوں نہیں دے رہیں۔
پڑھتے پڑھتے وہ چونکی۔
غلطی۔ اسکے دماغ میں کچھ جھماکا سا ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام ۔۔۔۔
۔جاری ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *