ہمیں سے یہ گلزار پھولے پھلے ہیں
ہمیں پر خزاؤں کے پہرے لگے ہیں
کوئی رہبری میرے کس کام آتی
مری منزلیں منزلوں سے پرے ہیں
امنگوں پہ آیی بہار اور گئی بھی
مگر زخم دل ہیں کہ ابھی بھی ہرے ہیں
ہمیں کم مذاق عمل کہنے والے
ہمیں راہ میں راہنما مل گیے ہیں
کہاں ہم کہاں تم کہاں وہ زمانے
مگر دل اب بھی بڑے آسرے ہیں
نہیں گل تو کانٹوں سے دامن سجا لو
کہ یہ بھی بہاروں کے پالے ہوئے ہیں
از قلم زوار حیدر شمیم