پھرتیلی ہیروئن “
جہنمیلا نے “جھنڈے “کا “ڈنڈا “ نکال کر اس میں ابا کی دھوتی پھنسائی ( ابا کو نئی دھوتی سی کر پہنا دی تھی) اور پورے گھر کے جالے پلک جھپکتے صاف کردئیے جالوں میں بسی “مکڑیوں “کو اکٹھا کیا اور انھیں چھت پہ بنے اسٹور میں نئے جالے لگا کر “آباد “کیا ( رحمدل جو تھی) پورے گھر کی صفائی نپٹا کر ، صوفہ کور ، پردے ، بیڈ شیٹس فلور کشن کور سب تبدیل کردئیے میلے کپڑے دھو کر سکھانے ڈالے اور “دس منٹ “کے اندر ان سب کاموں سے فارغ ہوکر پہاڑ کی طرف دوڑ لگادی۔۔
پہاڑ سے اُس نے اپنے ہاتھوں سے لگائے پودینہ کے پودے سے ہرا دھنیا توڑا، ٹماٹر کے پودے سے مٹر جمع کئے اور آلو کی فصل کھود کے مرچیں نکالیں، پودوں کو “آبِ حیا “دیا
اب اس کے پاس دوڑنے کا وقت نہیں تھا مریخی کزن کسی بھی وقت پنہچ سکتا تھا اسلئیے” لُڑھکتی “ ہوئی زمین کی طرف آئی نیچے پنہچ کے مسکراتی ہوئی اٹھی کپڑے جھاڑے اور دوسرے پہاڑ کی طرف دوڑ لگادی جہاں جہنمیلا نے اپنے باپ سے چُھپ کے جانور پالے ہوئے تھے اسکی لاڈلی مرغی جہنمیلا کو چھری کے ساتھ دیکھ کے مسکراتی ہوئی اسکی طرف آئی اور اسکے ہاتھوں ذبح ہونے کے لئے ٹانگیں اٹھا کے لیٹ گئی
“جہنمیلا” کیا تم میری آخری خواہش نہیں پوچھو گی ؟ مرغی نے کہا ۔۔
کیوں نہیں میری جان سے پیاری ، ؟؟
جہنمیلا ، میں چاہتی ہوں کہ مجھے ذبح کرکے میری رانیں بھون کے اس مریخی شہزادے کو پیش کی جائیں جس کی آمد کی اطلاع تمہارے خاندانی کُتے نے جنگل کی آگ کی طرح پھیلائی ہے اور وہ میری ٹانگیں چبا چبا کے مجھے تباہ و برباد کردے ، لیکن ہوں “ بریسٹ پیس “ پہ شہزادے کی نظر نا پڑے اسُ پہ تمہارے “ تاڑو باپ کا ہی “حق “ہے اور میرے اندر پلنے والےمیرے محبوب کی نشانی ، میرے “انڈے “کو احتیاط سے نکال کر کسی اور مرغی کی “تشریف” کے نیچے رکھ کر سینچا جائے اور جب اسُ انڈے سے میرا چوزہ نکلے تو میں اس چوزے کے آنکھوں سے میں تمہارا اور تمہارے شہزادے کا دیدار کروں ۔۔۔
کیوں نہیں میری پیاری ۔۔۔ جہنمیلا نے ہچکیوں اور آنسوؤں کے بیچ ہامی بھری اور آنکھیں بند کر کے مرغی کی گردن پہ چھری چلادی ۔۔۔( عیدِ قرباں پہ قربانیاں کرکر کے ماہر قصائی بھی بن چکی تھی)
گوشت جمع کرکے ایک مرتبہ پھر لڑھکتی ہوئی نیچے پنہچی ( دوڑنے کا ٹائم جو نہیں تھا) کچن میں داخل ہوکر اس نے گھڑی کی طرف دیکھااسے ان سب کاموں کو سمیٹتے دو گھنٹے ہوگئے تھے اور ابھی عید کی نماز میں پورا “ آدھا” گھنٹہ باقی تھا ۔۔۔
وہ فوراً طبیلے کی طرف دوڑی اور شیر خُرمہ بنانے کے لئے بھینس کا دودھ نکالا بدودھ نکال کے بھینس کے چوڑے سینے پہ تنگ “ چولی” پہنائی (لنگوٹ وہ پہلے ہی پہنا چکی تھی)لیکن ان پُر مشقت دو گھنٹوں اور تھکا دینے والے معمولی کاموں کے دوران بھی وہ اپنے محبوب کی یادوں سے غافل نا ہوئی ۔۔۔ دھیمے دھیمے مسکراتی وہ اپنے محبوب کا برقی پیغام “ جہنمیلا ، میں تمہاری یاد میں مریخ کے کنارے خلا میں ٹانگیں لٹکائے بیٹھ جاتا ہوں اور میری نظریں دور کہیں زمین پہ تمہاری تلاش میں سرگرداں رہتی ہیں ، میں اوپر سے پان کی پچکاری سے زمیں پہ تمہارے گھر کی چھت پہ تمہارے لہراتے آنچل کا نشانہ لیتا ہوں اور تمہیں اپنی محبت کے لال رنگ سے رنگ دیتا ہوں تو تم مجھے اپنی پانچ انگلیاں ہتھیلی سمیت دکھاتی ، شرماتی نیچے کی طرف کیوں دوڑ جاتی ہو؟ کے بارے میں سوچتی ہوئی لال گُلال ہوتی ، سل بٹّا نکالنے لگتی ہے آخر کو محبوب کی پسند کے پکوان جو تیار کرنے تھے۔۔۔۔
Kesi lagi apko phurteeli heroin ki yeh qist? Rate us below