salam korea
by vaiza zaidi
قسط 31
ایڈون اسکے ساتھ اتنی خاموشی سے قدم بڑھا رہا تھا کہ اسکا دل ڈوبنےلگا تھا۔ وہ یقینا اس وقت غصے میں تھا۔ اور غصہ آنے والی بات بھی تھی۔ مگر اسے بھروسہ تھا خود پر کہ وہ منا لے گی۔ یقینا وہ اسکو سمجھ جائے گا اسکی کیفیت اسکے احساسات سب سمجھ لے گا۔ وہ خفا ہوگا تو وہ اپنی انا پس پشت ڈال کر اسے ہر قیمت پر منا لے۔ سب سن لے گی خاموشی سے بنا برا مانے۔ وہ جو کہے گا جو کرے گا سب سر جھکا کر مانتی جائے گی ۔ رات بھر وہ بس یہی سب سوچتی رہی تھی۔ ایڈون واپس نہیں آیا تھا۔ وہ کتنی دیر انتظار کرتی رہی۔ رات میں کئی بار آنکھ کھلی۔ اس نے اٹھ کر بستر سے اتر کر دیکھا کمرہ بالکل خالی تھا۔جانے کب تک یونہی ٹہلتی رہی ۔ کھانا ٹھنڈا کھالیا۔ صبح کہیں جا کر آنکھ کھلی تو ایڈون کو سامنے صوفے پر محو انتظار پایا تھا۔ اسکی آنکھ کھلتے دیکھ کر وہ فقط اتنا بولا تھا
تیار ہو جائو گھر چلیں۔۔
اور وہ ہونٹ بھینچ کر رہ گئ۔ گوشی وون میں آکر جیسے ہی وہ بیڈ پر بیٹھی وہ فورا دروازہ بند کرکے چلا گیا تھا۔
وہ جو اسے پکارنا چاہ رہی تھی ایکدم چپ سی رہ گئ۔
اسے بھوک لگ رہی تھی۔ وقت بے وقت بہت ذیادہ بھوک لگنا شروع ہوچکی تھی۔ اس وقت بھی اسے لگ رہا تھا کہ آنتیں باہر آجائیں گی۔
اس نے بے تابی سے سائیڈ کارنر پر رکھے شاپر کو کھنگالا بمشکل ایک آدھا سیںڈوچ ملا اور سیب۔ اسے خبر ہوتی تو کل کی چیزوں میں سے کچھ بچا لیتی۔
اس نے جلدی جلدی وہ سب کھا لیا سیب کا آخری لقمہ لے رہی تھی جب دروازہ کھول کر ایڈون اندر داخل ہوا۔ اسے یوں تیزی سے کھاتے دیکھ کر لمحہ بھر کو ٹھٹک ہی گیا ۔ وہ ایک بڑا سا کھانے پینے کی چیزوں سے بھرا شاپر تھامے تھا۔
میں یہ کھانا لینے گیا تھا۔ اور کچھ کھانا ہے؟
اس نے شاپر اسکی جانب بڑھاتے ہوئے پوچھا تو وہ نفی میں سر ہلا گئ۔ اس نے خود ہی شاپر کارنس پر ٹکا دیا۔
بلیک اور گرے اپرمیں ملبوس وہ کافی تھکا تھکا دکھائی دے رہا تھا۔دونوں ہاتھ اپر کی جیبوں میں ڈالتے ہوئے وہ گہری سانس لیکر اسکی جانب مڑا۔ وہ جو بے دھیانی میں اسے تکے جا رہی تھی گڑبڑا کر رخ پھیر گئ۔۔ ایڈون چند لمحے اسے دیکھتا رہا پھرجیسے الفاظ ترتیب دے کر نہایت خشک اور روکھے انداز میں بولا
مجھے تم سے بات کرنی ہے۔ سنجیدگی سے بنا جزباتی پن دکھائے اگر تم سننے کو تیار ہو تب ہم بات کریں گے اب مجھے بتائو کب بات کرنا مناسب رہے گا تمہارے لیئے۔ ؟
اسکے انداز نے حقیقتا اسکی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹیں دوڑا دی تھیں۔وہ سر اٹھا کر اسکی شکل دیکھنے لگی۔ دل جیسے سکڑ کر واپس پھیلا تھا۔
اسکی ہراساں سی شکل دیکھ کر بھی اسکے انداز میں کوئی نرمی نہ آسکی تھی۔ وہ سب مروتیں رخصت کر چکا تھا۔
شام کو بات کر لیتے ہیں۔ وہ کہہ کر جانے لگا تو سنتھیا بے اختیار اٹھ کھڑی ہوئی۔
نن۔ نہیں۔کہو جو کہنا ہے۔ میں تمہاری ہر بات سننے کو تیار ہوں۔مجھے اندازہ ہے تم بہت خفا ہو۔ ہونا بھی چاہیئے۔ میں خود کو تمہاری جگہ رکھ کر دیکھوں تو تم غلط بھئ نہیں لگتے۔ کہو جو کہنا تم نے ۔ میں چپ ہو کر سنوں گی۔
سنتھیا کا انداز بولتے ہوئے ملتجیانہ سا ہوگیا تھا۔ ایڈون نے غور سے اسکی شکل دیکھی۔ اسکی رنگت کافی مدہم پڑ گئ تھی وہ بیمار ہی لگ رہی تھی۔ چہرہ غیر معمولی سرخ تھا اور انداز پشیمانئ بھرا تھا۔ وہ قابل ترس لگ رہی تھی۔ اسے لیکن کوئی نرم جزبات اسکی شکل دیکھ کر دل میں ابھرتے نہ محسوس ہوئے۔
واقعی؟ اس نے جیسے تصدیق چاہی۔ سنتھیا سر جھکا گئ
واقعی تم خود کو۔میری جگہ رکھ کر سوچ سکتی ہو؟ کوئی اندازہ ہے تم نے میرے ساتھ کیا کیا ہے؟ کتنا بڑا دھوکا دیا ہے تم نے مجھے؟
وہ آواز دباتے دباتے بھی جیسے غرایا تھا۔ سنتھیا کے قدموں سے جان نکلنے سی لگی وہ دھپ سے بیڈ پر بیٹھ گئ۔
سنتھیا خدا جانتا ہے میں نے اپنی غلطی مانی۔۔۔۔۔ ہے۔۔۔
ایڈون جیسے پھٹ پڑا۔
سنتھیا مزید سرجھکا گئ۔۔۔
جو ہوا اس میں اپنی زمہ داری سے جان نہیں چھڑائی۔ تمہارا ساتھ دینا چاہا۔ یہ سمجھا کہ جوکچھ بھئ ہوا ہے اس میں میری بھی اتنی ہی غلطی ہے۔ جبھئ تمہیں اکیلا نہیں چھوڑا۔ تمہیں سمجھایا منایا تم پر زبردستی اپنا فیصلہ نہیں تھوپا۔ اتنے دنوں سے دن رات دیکھے بنا گدھے کی طرح کام کیا پیسہ پیسہ جوڑا اپنے والدین سے مجبوریوں کے رونے رو کر پیسے منگوائے تمہارے والدین کے بھیجے پیسے دانتوں سے پکڑے صرف اسلیئے کہ جو غلطی ہو گئ ہے اسکو سدھار دوں۔ اور تم نے میرے ساتھ کیا کیا؟
وہ چلا اٹھا۔ سنتھیا کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔
میں سمجھ۔۔ سکتئ۔۔
اس نے کہنا چاہا مگر ایڈون اسکی بات کاٹ کر چلایا۔
تم سمجھ ہی تو نہیں سکتی ہو کچھ بھی۔ کوئی اندازہ تک نہیں ہے تمہیں احساس تک نہیں ہے میرا میرے مستقبل کا میری ان تمام ریاضتوں کا۔ تم نے سب برباد کردیا ہے۔ تم نے مجھے برباد کردیا ہے۔
اسکی بات پر وہ شدتوں سے روپڑی۔ ہچکیاں لیتے بمشکل اپنی صفائی دینی چاہی
میں نے دیکھا تھا۔ مانیٹر پر۔ وہ کچھ تو ہے ۔ وہ۔ جو ہے وہ اب ہے ۔ اسکو محسوس کرتی ہوں میں۔ وہ ہے ۔۔۔۔۔
اسکی آنکھوں سے بہتے آنسو بھی ایڈون کا غصہ کم نہ کرسکے۔ ہنوز اسئ انداز میں چلا اٹھا۔
ہاں اسے محسوس کرتئ ہو جو ابھی دنیا میں آیا نہیں اور میں جو جیتا جاگتا کھڑا ہوں میرا کوئی خیال کوئی احساس ہے تمہیں۔
گن پوائنٹ پر نہیں لیکر گیا تھا اس اسپتال تمہیں۔۔ اپنے ایمان سے بتائو کوئئ کمی آنے دی تمہیں؟ کھانے پینے ہر چیز کا خیال رکھا بہترین کلینک کا انتظام کیا سب جمع پونجی جمع کروائی تھی ۔او رتم ۔۔۔
وہ تلملا کر پیشانی مسلنے لگا۔۔۔ سنتھیا یونہی روئے جارہی تھئ۔ کتنے لمحے یونہی انکے بیچ دبے پائوں گزرتے گئے۔
اپنی غلطی سمجھ کر اپنی ذمہ داری سمجھ کر مجھے جو حل نظر آیا وہ میں نے حل نکالنا چاہا تھا۔ مگر تم نے سب برباد کر دیا۔
وہ خود پر قابو پا کر متوازن مگر بے رحم لہجے میں مخاطب ہوا تھا۔ سنتھیا کی سانس رک سی گئ۔
تم نے مجھے اچھی طرح سمجھا دیا ہے کہ میں تمہاری نظر میں کیا ہوں میری بات کی کتنی اہمیت ہے۔ مجھے نہیں لگتا ہم دونوں مزید اس رشتے کو نبھا سکتے ہیں۔ تم نے مجھ میں اور اس بچے میں اس بچے کو منتخب کیا ہے
وہ سفاک سے انداز میں بولا۔ سنتھیا رونا بھول کر سراٹھا کر اسکی شکل دیکھنے لگی۔
اب تم جانو اور یہ بچہ۔
اس نے چبا چبا کر کہا تھا۔
میں اس کی ذمہ داری اٹھانے کیلئے تیار نہیں۔ تمہیں ماں بننے کا شوق ہے ماں بن کر پالو اب اسے۔ مجھ سے اب اسکا کوئی تعلق نہیں۔ اب تم فیصلہ کرو کیا کرنا۔ یہاں رہ کر چھوٹئ موٹی جاب کرکے اپنا خرچہ نکالو یا پاکستان واپس چلی جائو تمہاری مرضی۔ ہاں جب تم اپنے والدین کو بتانے لگو گی کہ یہ بچہ کس کا ہے میں مان لوں گا یہ میرا ہی ہے۔۔۔ مگر اب بس مجھ سے اس سے ذیادہ کسی چیز کی توقع مت رکھنا۔ میں نے جو اور جتنا کرنا تھا کر لیا۔
سنتھیا پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی اتنی گنگ سی ہو کر جیسے اسے بولنا ہی بھول گیا ہو۔
تمہاری امی کا فون آیا تھا۔ دوبارہ بھی آئے گا۔ تم اچھی طرح سوچ لو۔ کیا کرنا تم نے۔
وہ کہہ کر اس پر نگاہ غلط ڈالتا دروازہ کھول کر باہر جانے لگا۔ سنتھیا ساکت سی بیڈ پر بیٹھی کسی غیر مرئی نقطے کو گھور رہی تھی۔ اس نے مڑ کر جیسے آخری تنبیہہ کی۔
آخری بات۔ ریفنڈ سے پہلے 48 گھنٹے کا وقت ہے اگر دوبارہ اپائنٹمنٹ لینا ہوا تو بتا دینا۔ میں بھول جائوں گا وہ سب کچھ جو آج میں نے کہا ہے۔۔۔۔
وہ کہہ کر رکا نہیں تھا۔ اس پرنگاہ ڈالتا دروازہ بند کرتا باہر نکل گیا تھا۔
وہ کتنی ہی دیر اپنے لرزتے ہاتھوں پر نگاہ جمائے بیٹھی رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان سب کیلئے اس نے پراٹھے بنائے تھے۔ ہیون یون بن گوارا اور تو اور ہوپ نے بھی خاموشی سے دیسی ناشتہ ہی کیا تھا۔
ہوپ ناشتہ کرکے فورا اٹھ گئ تھئ۔ اسے شائد آج جلدی جانا تھا۔ البتہ گوارا یون بن اور ہیون آرام سے ناشتہ کرکے یونیورسٹی جانے کیلئے تیار ہوئے۔
تم آج آرام کرلو آج نہ جائو جاب پر۔
ہیون جیکٹ پہنتا اسے مشورہ دے رہا تھا۔ ۔
گوارا بھی نے تائید کی۔
ہاں اریزہ آج آرام کرو۔ کل اتنی برفباری کھائی ہے بخار نہ چڑھوا لینا۔
میں بیزار ہو جائوں گی اکیلی گھر میں۔
اریزہ کی اپنی مصیبت تھی۔
اوپر سے ہوپ بھی چلی گئ ہے اکیلے کیسے وقت گزاروں گی ۔ میں گھر میں اکیلی کبھی نہیں رہی۔
اریزہ کے کہنے پر گوارا حیران رہ گئ۔
ہیں ؟ واقعی؟
ہاں مجھے عادت نہیں ہے ۔ اکیلے رہنے کی۔
وہ سر جھکا کے بولی
ہیون اسکے بچکانہ انداز پر مسکراہٹ دبا کر بولا
اچھا تو پھر چلو یونیورسٹی تم پھر پھرا لینا ہم کلاس لیکر جب فارغ ہونگے تو اکٹھے لنچ کر لیں گے۔
ہیون کے پروگرام بنانے پر گوارا نے بڑی جتانے والی مسکراہٹ سے دیکھتے اسکے کندھے پر ہلکا سا مکا لگا دیا۔ہیون کی مسکراہٹ اور گہری ہوگئ تھی۔ یون بن خود کو خاصا احمق سمجھ رہا تھا۔
ہاں یہ ٹھیک رہے گا ۔میں دو منٹ میں آئی۔۔ وہ فورا تیار ہونے کمرے کی۔طرف بھاگی۔
مجھے لگتا ہے تمہاری مدد مجھے ہی کرنی پڑے گی۔
گوارا کا انداز معنی خیز تھا۔
اگر تمہیں اسکی کسی مدد کی ضرورت ہے تو اپنا کام تمام ہی سمجھو
یون بن نے حسب عادت گوارا کو چھیڑنے کی نیت سے کہا تھا مگر گوارا اور ہیون دونوں نے ہی اسے اتنی ملامتی نظروں سے گھورا کہ گڑ بڑا سا گیا۔
ہائیش۔۔
دونوں کھا جانے کو تیار تھے۔ اس نے سٹپٹا کر کان کھجایا۔
مجھے یہ تو نہیں پتہ کیا کام ہے تمہارا مگر جو بھئ ہے ہو جائے خدا کرے ورنہ گوارا مجھے قتل کردے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اسے لان میں چھوڑ کر اپنے ڈیپارٹمنٹ کی جانب بڑھ گئے تھے۔ موسم خنک تھا ہلکی دھوپ نکلتی اور بادل چھا جاتے وہ وہیں راستے پر ٹہلنے لگی۔ کیمپس دیکھ کر اسکو جانے کیوں اداسی سی محسوس ہورہی تھی وہی درخت وہی عمارتیں وہ اور سنتھیا گوارا اور جی ہائے کی شکل ہر لڑکی میں دیکھتئ تھیں۔ کیسے جے ہی نے اس سے دوستی بڑھائی کیسے ایکدم اجنبی بن گئ۔۔
ہیون او رکم سن کو تو دونوں جڑواں بھائی سمجھتی تھیں۔کیسے ہیون اور وہ بھاگے تھے شاہزیب کو پٹنے سے بچانے ۔۔۔اور گوارا کتنی تیز مزاج سخت سی لگتی تھی ۔ وہ سہولت سے ان دنوں کو یاد کررہی تھئ۔
ہم لمحوں کے قیدی ۔۔
جن لمحوں میں ہم خوش ہوئے
ان لمحوں کی یاد میں۔۔
جن لمحوں میں اداس ہوئے۔۔
ان لمحوں کی یاد میں۔۔
اب ہم ہیں رہتے۔۔۔
نئی کسی یاد کی جگہ
اب ان لمحوں کو یاد کرتے ہیں
ہم جیتے ہیں۔۔ایسے کہ کبھی
ہنس لیتے ہیں۔۔تو کبھی۔
رو پڑتے ہیں۔۔
ہم قیدی اپنے آپ کے۔۔
اپنے ہی جزبات کے۔۔
لمحوں کو ہی الزام دیتے ہیں۔۔
اس نے اپنے ڈیپارٹمنٹ کی سیڑھیوں کی تصویر کھینچئ۔ یہاں بیٹھ کر وہ اور سنتھیا گھنٹوں یہاں پھرتے لوگوں کو دیکھتے وقت گزار لیتی تھیں۔۔۔ مگر آج وہاں کوئی بھی نہیں تھا بلکہ آج یونیورسٹی ہی خالی خالی سی تھی جبھی اسکی یادوں کا جہاں آباد ہوگیا تھا۔۔
بے طرح اداس ہوتے اس نے تصویر کھینچی ڈیپارٹمنٹ کے نام کو دھندلا کرکے اپلوڈ کر دی۔۔ ساتھ یہ نظم بھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈھلتی شام کو دن کی روشنیاں دکھانے کا مطلب؟
پہلا کمنٹ۔۔
اتنی صاف ستھری کونسی یونیورسٹی ہے بھئ؟
دوسرا کمنٹ۔۔
مت یاد کرائو یونیورسٹی خدا خدا کر مڈز ختم ہوئے ہیں اب کچھ دن سکون سے رہنے دو
تیسرا کمنٹ۔۔۔
ہائش۔۔
اس نے بے زار ہو کر کہا پھر چونک اٹھئ
میں کب سے ہائش کہنے لگی کورینز کی طرح۔۔
اس نے ہونٹوں پر ہاتھ ہی رکھ لیا۔۔
اپنی تصویر بھی لے لوں ۔۔ اس نے سوچا پھرکھڑے ہو کر ڈیپارٹمنٹ کی جانب پشت کر کے دو تین سیلفیاں بنا لیں۔۔
پتہ تو لگے اس یونیورسٹی میں کبھی میں بھی جایا کرتی تھی۔۔
اس نے بڑ بڑاتے ہوئے فیس بک پر شئیر کیں یہ تصویریں
صارم نے فورا لائک کی تھیں۔۔
کمنٹ بھی کر دیا مس یو۔۔
اس نے بھی جوابا مسکرا کر می ٹو لکھ دیا۔۔
کیا کر رہی ہوں میں یہاں۔۔
وہ دونوں بازو پھیلا کر خوب زور کی انگڑائی لیکر بڑ بڑانے لگی۔۔ اکا دکا طلبا وہ بھی کافی فاصلے پر تھے وہ یونہی۔بے زاری سے قدم اٹھانے لگی
پتہ نہیں مجھے پڑھنے کا شوق تھا بھی کہ نہیں۔ بس شادی سے بھاگ رہی تھی۔ اب تو ٹل گئی۔ ڈگری بھی ٹل گئ ان کی مہربانی سے۔۔
اس نے ڈیپارٹمنٹ کو کینہ توز نظروں سے گھورا۔۔
اب یہاں رکنے کی کوئی وجہ نہیں ۔۔ لڑکے بھی یہاں نوکری کے چکر میں بھی نہیں رکے سنتھیا بھئ بدل چکی ہے۔ مجھے بھی اب یہاں سے چلے جانا چاہیئے۔ پاپا کہہ تو رہے تھے مجھے ڈگری مکمل کرنے دیں گے۔۔ اس نے گہری سانس لی۔
سورج کی حدت نہ ہونے کے برابر تھی۔ اچانک سرد ہوا کا جھونکا اسے جھر جھری لینے پر مجبور کر گیا۔۔
۔ یہاں سردی بھی بہت ذیادہ ہے۔۔ جو مجھے بالکل پسند نہیں۔۔
مگر میں یہاں سے شائد ابھئ جانا نہیں چاہتی۔۔
وہاں تعلیم مکمل کرکے شادی ہوجائے گئ۔ یہاں تعلیم مکمل کرکے واپس جائوں گی تو بھی شادی ہوجانی ہے۔
اف۔ سوچوں نےسر میں درد کر دیا۔
اللہ میاں۔۔ وہ سر اٹھا کر آسمان کو مدد طلب نظروں سے دیکھنے لگی
کیا کروں کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ کیوں ہوں میں یہاں؟؟؟؟؟
وہ جھلا رہی تھی خود سے الجھ رہی تھی۔۔
تبھی جوابا اس پر بوندیں آگری تھیں۔ اس نے جیب سے رومال نکال کر چہرہ پونچھا اور بھاگ کر ڈیپارٹمنٹ کی گیلری کے نیچے آکھڑی ہوئی۔ دیکھتے دیکھتے تیز بارش شروع ہوگئ تھی۔۔۔
ابھئ اگر پنڈی ہوتا تو امی سے پکوڑے بنوا تی کافی پیتی۔ پکوڑے کھائے کتنے دن ہوگئے۔۔ اور امی۔۔ اسکا دل سکڑا
اتنی ناراضگی اتنی چڑ کے باوجود ماں کی یاد نے اسے اداس سا کر دیا تھا۔۔۔ وہیں ستون سے سر ٹکا کر کھڑی بارش کا نظارہ کرنے لگی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلاگ کی اپڈیٹ دیکھ کر اس نے فورا نوٹیفیکیشن کھولاتھا۔کسی یونیورسٹی کی تصویرتھی نام کی جگہ کو جان کر دھندلا کیا تھا۔۔
اس نے کمنٹ کر کے موبائل جیب میں ڈال لیا۔ گھر جانے کی اسے کوئی جلدی نہیں تھی مگر ایک کام کرنا تھا ہاسٹل میں آکر ایک پیکٹ کسی لڑکی کی امانت اسے دینی تھی۔۔کائنوٹر پر طالبہ کا نام بتا کر امانت دے کر وہ باہر نکلا تو موسم اپنا تیور بدل چلا تھا۔ چھما چھم برستی بارش اور آج تو چھتری بھی نہیں تھی پہلے تو یہی سوچا نکل جائے مگر آج لیپ ٹاپکا بیگ بھی اسکے کندھے پر سوار تھا۔ سو بارش کے رکنے کا انتظار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔۔ وہ سر جھٹکتا بر آمدے کی جانب بڑھ گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکا موبائل بجا تھا ۔۔ کسی نے اسکی پوسٹ پر کمنٹ کردیا تھا۔۔اس نے پڑھا پھر سوچ میں پڑ گئ۔۔ لکھا تھا۔۔
یادیں جینے کا سہارا ہوتی ہیں۔ ہم یاد بھی نہ رکھیں تو کیا کریں گے جن لمحوں کو گزار چکے جو کبھی واپس بھی نہ آئیں گے چلو کم از کم ہم انہیں یاد ہی کر کے خوش ہو لیں۔۔
خوبصورت بات۔۔ اسکے دل کو چھو گیا تھا یہ تبصرہ سو جھٹ کمٹ کھول کر جواب لکھا۔۔
اور جب میں یہاں سے جائوں گی تو یقینا میرے پاس یاد کرنے کیلئے سب کچھ اچھا اچھا ہوگا۔۔
لڑاکا سی پل پل بدلتی ہوپ، من موجی مگر دل کی بے حد اچھی گوارا ، جے ہی جس نے میرا بہت ساتھ دیا ، ہیون اور کم سن جنکی شکلیں اتنی ملتی تھیں کہ ہم دھوکا کھا جاتے تھے، اور گنگ شن انی جنکو دیکھ کر ہی انسان کو خوشگوار احساس ہوتا انکی مسکراہٹ یقینا ہیون کو بات بات پر مسکرانے کی عادت انہی سے پڑی ہے ۔۔۔ ہر وقت مسکراتا رہتا ہے سوتے میں بھی مسکراتا ہوگا ۔۔ وہ سوچ کر ہنس دی۔۔
اسکی ہنسی سے کسی کے بڑھتے قدم رک گئے تھے زرا کی ذرا مڑ کر دیکھا تو اسکا چہرہ دیکھ کر پہچان کر ملنے چلا آیا۔۔
آننیانگ۔۔ نرم بھاری آواز پر اس نے سر اٹھایا تو آنکھوں میں شناسائی کی چمک دوڑ گئ۔۔
آننیانگ۔۔ اس نے بہت اخلاق سے مسکرا کر جواب دیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بار بار گھڑی کی جانب دیکھ رہا تھا۔اسکی بے چینی سداکو سے چھپی نہ رہ سکی اسکی پریزنٹیشن کیلئے نام پکارا گیا تو اٹھ کر بولا۔۔
مجھے تھوڑا سا مزید وقت دیجئے تب تک آپ مجھ سے اگلے طالب علم کی پریزنٹیشن لے لیجیئے۔۔
ہیون نے مشکور نگاہوں سے دیکھا اسے۔پریزنٹیشن دے کر وہ بھاگا بھاگا ڈیپارٹمنٹ سے باہر نکلا تو بارش زور و شور سے برس رہی تھئ۔۔
وہ اریزہ کے خیال سے بھاگا بھاگا آیا۔ گرائونڈ خالی تھا یقینا وہ بارش سے بچنے اندر ڈیپارٹمنٹ چلی گئ ہوگی اس نے سوچ کر رابطہ کرنے کی غرض سے اسے کال ملانی چاہی تبھی گیلری میں کھڑی اریزہ کی۔جھلک دکھائی دی۔۔ وہ کسی بات پر ہنسی تھی اسکا مخاطب کوئی اونچا لمبا سا مرد تھا۔۔
اسکی مشہور زمانہ مسکراہٹ جانے کیوں سکڑ سی گئ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپکے کپڑے امانت ہیں میں انکو دھلوا کر آپکو واپس کر دوں گئ ۔۔
اسے اسکئ شکل دیکھ کر فورا یاد آیا تھا۔ علی قہقہہ لگا کر ہنسا۔۔
میں آپ سے کپڑے مانگنے تو نہیں آیا۔
اسکے ہنس کر کہنے پر وہ خجل سی ہوگئ۔
کلاسز ختم ہوگئیں ہیں تمہاری؟۔۔
علی نے یونہی پوچھا تھا بات برائے بات۔
میں اب یہاں نہیں پڑھتی ہماری ڈگری روک دی گئ ہے۔ اب اگلے سمسٹر سے نئے سرے سے داخلہ لوں گی۔
اریزہ نے گہری سانس بھرتے ہوئے کہا تھا۔۔
اوہ کیوں خیریت؟ علی حیران ہوا۔۔
ہمارا طلبا کا تبادلے کا۔پروگرام تھا مگر لاہور میں کوئی بم دھماکا ہوگیا تو انکے طلبا واپس چلے آئے پھر ہمارے یہاں رہنے کی وجہ نہ رہی۔ اب یہ کہتے ہیں ایک ٹیسٹ پاس کرکے یہاں کئ مساوی سند لے کر ہی ہم آگے یہاں پڑھ سکتے ہیں۔
اریزہ کا انداز سادہ سا تھا مگر علی کو واقعی افسوس ہوا۔
اوہ مجھے افسوس ہوا اچھا نہیں ہوا یہ۔ پھر پڑھ رہی ہو؟ دو ہفتے بعد ہی امتحان ہوگا۔سی ای ایس اے ٹی کا۔
علی نے کہا تو وہ پریشان ہی ہوگئ
ہیں واقعی؟ مجھے تو پتہ بھی نہیں تھا۔ کب امتحان ہے؟
علی اسکے انداز پر ہنس دیا۔
میں ایک مقامی اکیڈمی میں اسی امتحان کی تیاری کروا رہا ہوں آج کل میں داخلے بند ہونے والے ہیں اگر تمہارا ارادہ ہو تو میں مدد کر سکتا ہوں۔
ہاں ہے نا میرا ارادہ۔۔ وہ جھٹ بولی۔۔ تم مدد کروگے میری؟
ہاں کر دوں گا لیکن ہیون کے ہوتے تمہیں میری مدد کی ضرورت نہیں۔ بہت پڑھاکو اور ذہین ہے۔ہمیشہ سے ٹاپر رہا ہے۔
اچھا؟ اریزہ حیران ہوئی۔
اس نے کبھی بتایا نہیں۔
وہ ایسا ہی ہے۔ اپنی ہر خوبی کو چھپا کر رکھتا ہے۔ انتہائی خیال رکھنے والا اور محبت کرنے والا لڑکا ہے۔ دوستی میں جان دینے والا ایک لڑکی پر اکتفا کرنے والا پیارا سا لڑکا۔
علی نے تو تعریفوں کے پل ہی باندھ دیئے۔
اریزہ کا تھوڑا سا منہ حیرت سے کھلا پھر وہ کھل کر ہنس پڑی۔
ویئو؟ (کیا ہوا) علی حیران ہوا
تم ایسے تعریفیں کر رہے ہو جیسے ہمارے ملک میں رشتہ کرانے والی خواتین لڑکے کی تعریفیں کرتی ہیں۔ کہ بس وہ کہیں تولڑکی والے جھٹ ہاں کر دیں۔
وہ ہنسے جارہی تھی۔۔ اسکی بات سے ذیادہ اسکے محظوظ انداز نے علی کو بھی ہنسا دیا۔
ہنستے ہنستے اسکی آنکھیں لبا لب بھر گئیں۔۔رنگ سرخ پڑ گیا۔
وہ گال تھپتھپاتی اپنے ہینڈ بیگ سے ٹشو نکالنے لگی۔
تبھی اسکے سامنے ٹشو آگیا ۔۔ اس سے پہلے علی نے ٹشونکال کر اسکی جانب بڑھا دیا تھا۔۔ وہ دھیرے سے شکریہ کہتی آنکھیں صاف کرنے لگی۔
ایک تو میں جب ذیادہ ہنستئ ہوں رو پڑتی ہوں۔
اس نے صفائئ پیش کی۔ علی کی مسکراہٹ سکڑسی گئ۔
میں بھئ۔ اس نے دھیرے سے کورین میں ہی کہا تھا۔ اریزہ کا دھیان کہیں او رتھا ورنہ ضرور پوچھتی مطلب۔
اسکا آج کل کا یہی شغل تھا ہر نیا کورین لفظ سیکھنا۔۔
تمہیں ذیادہ انتظار تو نہیں کرنا پڑا میرا؟ ہیون تیز تیز قدم اٹھاتا آیا تھا۔۔
نہیں میں بارش کے مزے لے رہی تھی۔
آننیانگ۔ علی نے مسکرا کر سلام کیا۔
آننیانگ۔ اس نے زرا سا سر جھکا کر جواب دیا۔
چلیں۔ وہ اب اریزہ سے مخاطب تھا
علی کو اسکا انداز ہمیشہ سے تھوڑا الگ لگا۔
تیز برستی بارش کو نظر انداز کرتا ہیون لمبے ڈگ بھرتا پارکنگ کی جانب بڑھ گیا۔ اریزہ نے حیران ہو کر دیکھا پھر مڑ کر ٹھیک ہے پھر ملتے ہیں علی۔۔ کہتی مسکرا کر اسے ہاتھ ہلاکراسکے پیچھے لپکی۔
دونوں کو ٹھنڈ نہ لگ جائے بھیگتے جا رہے ہیں۔۔
دونوں ہاتھ کوٹ کی جیب میں ڈال کر علی نے ان کو نظروں میں رکھ کر سوچا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پارکنگ تک آتے وہ دونوں بری طرح بھیگ چکے تھے۔ گاڑی کا دروازہ کھول کر بیٹھتے تک ہیون نے اسکو بالکل نظر انداز کیا تھا۔ لانگ کوٹ اتار کروہ فورا گاڑئ میں گھس گئ۔ وہ جامنی ہائی نیک اور کالی جینز میں ملبوس تھئ۔ لانگ کوٹ کی وجہ سے اسکا سراپا چھپ سا گیا تھا لیکن اب جب بھیگ جانے کی وجہ سے اتارا تو جہاں کوٹ نے اسکے اندرونی کپڑے بچا لیئے تھے وہاں اب جسم سے چپکی ہائی نیک اسے جانے کیوں شرمندگی سی ہونے لگی۔ کوٹ گود میں رکھ کر اس نے دز دیدہ نگاہوں سے کو دیکھا جو گیلے کپڑوں سے بے نیاز بے حد سنجیدگی سے سامنے دیکھتے ہوئے گاڑی چلا رہا تھا۔ سامنے دیکھتے دیکھتے ہی اس نے ہاتھ بڑھا کر اسکی گود میں رکھا کوٹ اٹھا کر پچھلی نشست پر اچھال دیا۔
کیا فائدہ اسے اتارنے کا جب گیلا گود میں رکھ کر باقی کپڑے بھی گیلے کرنے ہیں۔۔
اس نے اپنے تند انداز کے برعکس کافی نرم سے انداز میں کہا تھا۔
اریزہ ہونٹ کاٹ کر رہ گئ۔
ہیون نے ہیٹر آن کر دیا تھا پھر بھی اسے پے در پے کئی چھینکیں آگئیں۔۔
ہیون نے ہونٹ بھینچ لیئے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستانئ ریستوران کے سامنے گاڑی رکی تو اس نے سوالیہ نگاہ سے اسے دیکھا۔ وہ لاپروا سے انداز میں گاڑی سے اترا اپنا کوٹ بھی اتار کر پچھلی نشست پر ڈال دیا۔ اسے بھی گاڑی سے اترنا پڑا۔ریستوران میں داخل ہوتے ہوئے گلاس ڈور میں اپنے سراپے کو دیکھ کر وہ رک سی گئ۔
اس نے بہت ذیادہ وزن کم کر لیا تھا اپنا۔ بالکل سائز زیرو ہوچکی تھئ۔
اوہ خدایا۔ یہ میں اتنی پتلی کیسے ہوگئ؟
اسکے منہ سے بے ساختہ نکلا تھا
ہیون نے آگے بڑھتے اسکو ہم قدم نہ پایا تو مڑ کر سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگا۔ وہ سٹپٹا کر سر جھٹکتی اسکے پیچھے دوڑئ۔۔
بارش کی وجہ سے لوگ بہت کم تھے۔
کھانے کے ساتھ سوپ کا بھی آرڈر دیا تھا ہیون نے
مگر سوپ پینے کے بعد اسکا پیٹ بھر سا ہی گیا۔ بریانی کی مقدار جوں کی توں دیکھ کر نے تعجب سے دیکھا
کیا ہوا ؟ پسند نہیں آئی۔۔؟
اچھی ہے مگر سوپ پینے کے بعد اب یہ کھائی نہیں جا رہی۔
اریزہ نے اپنی پلیٹ میں تھوڑے سے ہی چاول نکالے تھے مگر اب وہ بھی نہیں کھائے جا رہے تھے۔ دھیرے دھیرے ٹونگتے اسکے ارادہ پلیٹ صاف کر نے کا۔تھا۔
ہیون مسکرا دیا۔
نہ کھا کھا کے تمہاری بھوک بھی کم ہوگئ ہے اور وزن بھی۔
ہیون کی توجہ پوری اپنی پلیٹ پر تھئ۔ اریزہ نے چونک کر سر اٹھایا۔
اس نے شائد دیکھ لیا تھا اسے خود کو آئینے میں دیکھتے۔۔
کھاتی میں پہلے بھی ذیادہ نہیں تھی پھر بھی جانے کیوں گپلو سی تھی۔ شکر ہے تھوڑی اسمارٹ ہوگئ ہوں۔
وہ خجل۔سی ہوئی
تم گپلو سی ذیادہ اچھی لگتی ہو۔ تمہیں دوسری لڑکیوں کی طرح ڈھانچہ بننے کی ضرورت نہیں ۔۔
اس کے کہنے پر اریزہ نے چونک کر اسے دیکھا۔ وہ مسکراتے ہوئے کہہ رہا تھا اسکو نظروں میں رکھے اسکا اندازسادہ تھا
مجھے سب بہت ٹوکتے تھے کہ میں موٹی ہوں۔ خالہ نے تو شرط ہی رکھ دی تھی کہ وزن کم کروں۔ کیا کیا نہ جتن کیئے میں نے اور صارم نے کہ میرا وزن کم ہو جائے جب سب کچھ چھوڑ دیا تو وزن کم ہو گیا۔۔
وہ وقت اسے آج بھی اداس کر گیا تھا۔ بولتے ہوئے اسکی اداسی لہجے میں بھی اتر آئی تھی
صارم؟مطلب؟
ہیون پوری دلچسپی سے سن رہا تھا
میرا بھائی۔ ہے تو میری خالہ کا بیٹا ۔۔مگر میرے والدین کا لے پالک بیٹا بھئ ہے۔ خالہ کو کیا کہوں انگریزی میں۔ وہ سوچ میں پڑی۔
یہ وہی بھائی ہے جو بم دھمکے میں بچھڑ گیا تھا؟
ہیون نے پوچھا تووہ تڑپ سی گئ
خدا نہ کرے۔۔ پھر انگریزی میں بتانے لگی
وہ میرا اصل بھائی۔تھا حماد۔ مجھ سے بہت پیار کرتا تھا ۔ ٹھہرو میں دکھاتئ ہوں۔
وہ بڑے شوق سے موبائل نکال کر اسے حماد کی تصاویر دکھانے لگی۔
حماد کی اسکی بچپن کی بہت تصاویر اس نے موبائل میں رکھی تھیں۔ ہیون بہت دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔
ایک اسکی اور صارم کے بچپن کی تصویر آئی۔ تو بہت شوق سے اسے دکھانے لگی۔ جھولے پر بیٹھے دو ننھے منے آٹھ دس سال کے بچے دو پونیاں کیئے فراک پہنے بچی اریزہ کا بچپن لگ رہی تھی
یہ ہے صارم ۔اریزہ نے دکھایا تو ہیون حیران ہوا
یہ اتنا چھوٹا ہے؟ مجھے لگا تھا تھوڑا بڑا ہوگا تم اسکے ہاتھوں بلنگ کا شکار ہوتئ رہی ہو ؟ ڈانٹ دیتیں مجھے موٹا مت کہا کرو۔
ہیون کو جیسے غصہ ہی آگیا تھا۔ وہ کھلکھلا کر ہنسنے لگی
ارے یہ تو پرانی ہے ساتھ میں بیٹھی ہوں ٹھہرو میں نئی کوئی دکھاتی ہوں۔
اس نے آگے کرکے اپنی پچھلی سالگرہ کی۔تصویر اسے دکھائی شرارت سے اسکے سرکے پیچھے انگلیاں کھڑی کر کے سینگ بناتا صارم اور ہنس کر سیلفی لیتی وہ خود۔
اس نے صارم کو دیکھا ہی نہیں۔
اسکی تو بہت سی تصویریں ہوتی تھیں میرے پاس مگر یہاں آکر موبائل بدلا توبس کچھ اہم اہم تصویریں ہی میں نے اس موبایل میں ڈالی۔تھیں
اس نے جلدی جلدی تصویریں آگے پیچھے کیں آگے بس ایک ہی دو اور تصویریں تھیں۔ ان میں سے ایک پر ہیون واضح چونکا مگر وہ تب تک سوائپ کر چکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسجد میں نماز ادا کرنے کے بعد وہ کھلی فضا میں باہر صحن میں سیڑھیوں پر آبیٹھا تھا۔ ہلکی ہلکی دھوپ بے حد اچھی لگ رہی تھی وہ بے حد ہلکا پھلکا سا خود کو محسوس کر رہا تھا
سو تم نے کیا سوچا ۔ امام صاحب اسکے برابرآبیٹھے۔
علی نے چونک کر انہیں دیکھا وہ جواب طلب نگاہوں سے دیکھ رہےتھےوہ صاف جواب دیتے دیتے رک کر بات پلٹ گیا
جی ہائے ہاسٹل میں نہیں تھی میں نے ریسیپشن پر آپکا دیا سامان دے دیا تھا۔
ہاں اسے مل گیا تھا۔ آج کوریئر کے ذریعے اس نے واپس بھی بھجوا دیا۔
وہ زرا سا ہنسے۔
جب وہ آپ کےتحائف واپس بھجوا دیتی ہے تو آپ کیوں دیتے ہیں؟ وہ بے ساختہ پوچھ بیٹھا۔ امام صاحب مسکرائے۔
وہ بیٹی ہونے کا حق جتاتی ہے ناراض رہ کر میں باپ ہونےکا فرض نبھاتا ہوں اسے منانے کی ہر کوشش کر کے۔
جانتےہو اسکے سوا میری دو اور بیٹیاں ہیں اب۔ مگر جب جب انکےلیئے کچھ لیتا ہوں یاوہ مجھ سے فرمائش کرتی ہیں میرے دل میں ہوک سی اٹھتی ہے۔ وہ اداس سے ہو گئے۔
پھر تم نے کیا سوچا۔لیلی کے بارے میں۔ اچھی سمجھدار لڑکی ہے۔ ہاں زبان کا مسلئہ ہو سکتا ہے مگر وہ کورین سیکھ رہی ہے یہاں ہی نوکری کرنی ہے اس نے۔ میری بیوی کی بھانجی ہے سو میں اسکی ہر قسم کی ذمہ داری لیتا ہوں۔ نماز روزے کی پابند ہے۔کہو تو بات چلائوں؟ ۔ وہ آج فیصلہ کروا لینا چاہتے تھے اس سے۔
مل سکتا ہوں میں اس سے؟۔ اس نے سادہ سے انداز میں پوچھا وہ بے طرح خوش ہو گئے۔ ہمیشہ کی طرح شادی سے انکار کرنے والا کم از کم ملنے پر تو مانا۔۔
کیوں نہیں۔ اسکی اجازت تو مذہب بھی دیتا ہے تم مل کر دیکھ بھال کر فیصلہ لو۔ اور ہاں میری گاڑی لے جانا۔۔ بسوں میں دھکے نہ کھاتے جانا خبر دار جو اسکے اپنی یہ تھکی شکل دکھا کر ڈرایا۔۔
وہ آخر میں مسخرے پن سے بولے۔ علی نے سر جھٹکا۔
یہ تھکن مجھ میں سرائیت کر چکی ہے آہجوشی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ لیپ ٹاپ پر انڈین برائڈز کی برائڈ کلیکشن دیکھ رہا تھا۔
ایک کے بعد ایک سرخ جوڑے میں ملبوس دلہنیں ۔
وہ بے چین سا ہو کر لیپ ٹاپ ایک۔طرف رکھتا اٹھ کھڑا ہوا۔ چند لمحے یوں ادھر ادھر دیکھتا رہا جیسے سمجھ نہ آیا ہو کیوں اٹھاہے۔ کچھ سوچ کر اس نے جھک کر سائیڈ ٹیبل کی دراز کھولی ۔ اس میں ایک خوبصورت پیکنگ میں ڈیزائنرپائوچ رکھا تھا۔ اس نے اٹھایا پھر دوبارہ واپس رکھ کر دراز ہی بند کردی۔
اتوکے۔ وہ دونوں ہاتھوں میں سر تھامتا بیڈ پر گرنے کے انداز میں بیٹھا۔
تبھی دروازے پر دستک ہوئی۔ اس نے سنی ہی نہیں۔
نونا ایک اور مرتبہ کھٹکا کر دھیرے سے دروازہ کھولتی اندر چلی آئیں۔
ہیونا وہ انکے قریب آکھڑے ہونے پر بھی نہ چونکا توانہیں پکارنا پڑا۔
دے۔ وہ چونک کر سیدھا ہوا۔
یہ لو میں پاس دینے آئی تھی۔
انہوں نے ہاتھ میں پکڑا بیگ اسکی جانب بڑھایا۔
وہ یونہی تھام کر اندر کھول کر دیکھنےلگا تو بریو ہارٹ کے کنسرٹ کے وی آئی پی پاسز ساتھ لائٹ اسٹکس بھی تھیں۔
وہ اب سمجھا تھا نونا نے کیا دیا ہے اسے۔
گوما وویو۔
اسکے چہرے پر تھکی تھکی سی مسکراہٹ در آئی تھی
کیا ہوا کچھ الجھے سے دکھائی دے رہے ہو۔
نونا تشویش سے پوچھتی اسکے پاس آبیٹھیں۔
آندے۔ بس یونہی۔
اس نے قصدا اپنا انداز بشاشت بھرا بنایا۔ کھسک کر شاپر سائیڈ ٹیبل پر ٹکانے لگا۔
اریزہ کے ساتھ جائو گے نا۔ انہوں نے اشتیاق سے پوچھا تھا۔اس نے سر ہلانے پر ہی اکتفا کیا
کل بہترین موقع ہے کسنرٹ کے بعد کہیں ڈنر کرو اچھا سی رنگ خریدو اور سیدھا سیدھا پرپوز کردو۔
انی ہتھیلی پر سرسوں جمانے پر تلی ہوئی تھیں۔وہ پھیکی سی ہنسی ہنس دیا۔
اتنئ جلدی کیا ہے ۔۔
ہے نا جلدی۔ گنگشن تیز ہو کر اسکے کندھے پر چپت مار کر بولیں
یہ چینی ہندوستانی بہت جلدی شادیاں کر لیتے ہیں۔ میری دو تین انڈین فرینڈز ہیں تم سے بھی چھوٹی ہونگی اور سب شادی شدہ یہ پاکستانی بھی تو انکے ہی پڑوسی ہیں شادی جلدی کرتے ہونگے اس سے قبل کہ اسکو کوئی اور پرپوز کرلے تم کرلو۔
انی کی بات پر وہ خالی خالی سے انداز میں ہی دیکھتا رہ گیا۔
اور اگر وہ شادی شدہ ہوئئ تو؟
اسکے کہنے پر گنگشن کا جوش دھیما پڑا۔
ایسا کیوں سوچا تم نے؟ اچھا سوچو ۔ کوئی شادی شدہ نہیں ہوگی وہ اور سنگل بھی ہوگئ ورنہ کسی نا کسی کے ساتھ گھومتئ پھرتی نظر آجاتئ تمہیں اتنے مہینوں سے۔۔۔
انی کی بات پر وہ بے چین سا ہو کر اٹھ کھڑا ہوا۔
دیکھو اگر ایسا کچھ ہوا بھی تو کل اس سے پوچھ کر کلیئر کر لینا۔ اور پھر اپنے قدم روک لینا۔ سادہ بات۔ سوچ سوچ کر الٹا پریشان ہونے سے کیا حاصل؟
وہ اسکی گھبراہٹ سمجھ گئ تھیں۔
نونا میں اب قدم روک نہیں پائوں گا۔ میں اسے بہت پسند کرنے لگا ہوں ۔ اور اسکی زندگی میں جو بھی رہا ہو مجھے فرق نہیں پڑتا اب میں بس رہنا چاہتا ہوں۔
وہ اتنے جزب سے کہہ رہا تھا کہ گنگشن اسے دیکھتی رہ گئیں۔ اسکی آنکھوں میں ستارے سے اتر آئے تھے۔ ویسے ہی جیسے ان سے اظہار محبت کرتے ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دیکھ اسے رہی تھیں نگاہوں میں چہرہ کوئی اور اتر آیا تھا
میں اب سے ہمیشہ تمہاری زندگی کا حصہ بن کے رہنا چاہتا ہوں۔
انہوں نے گڑبڑا کر سر جھٹکا۔
ایسا ہی ہوگا۔ انہوں نے پر یقین انداز میں کہا۔
اچھا کل میں صرف خوشخبری ہی سننا چاہتی ہوں سمجھے تم۔
انہوں نے مان سے کہا تو وہ بھی سر ہلا کر ہنس دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گوارا اور یون بن مال میں گھوم رہے تھے۔ دوبارہ ملنے کی خوشی میں یون بن اسکو خوب شاپنگ کرا رہا تھا۔ہاتھ میں ڈھیروں برانڈ ز کے شاپرپکڑے وہ دونوں اب ایلیویٹر کی جانب بڑھ رہے تھے۔
تم گائوں اتنے دن کیلئے کیوں جا رہی ہو؟ ایک ویک اینڈ گزارنا کافی نہیں؟ پورا سمسٹر بریک گائوں میں گزار کر کیا کروگی۔
یون بن ہونٹ لٹکا کر بولا تو وہ ہنس دی۔
میری آہموجی کا موسم بدلنے پر سیزن لگتا ہے ہمارے گائوں پر لوگ برسات کی طرح برستے ہیں۔ ایسے موقع پر انکو سنبھالنے میں مدد سے میرا پورا سال بھر کا خرچہ آرام سے نکل آتا ہے اتنا منافع ہوتا ہے ہمیں۔ بلکہ میں تو کہتی ہوں تم بھی چلو وہاں ۔
گوارا کے کہنے پر وہ منہ بنا گیا۔ وہ دونوں احتیاط سے ایلیویٹر پر چڑھے۔ بیچ دوپہر کا وقت ہونے کے باعث اس وقت لوگ بہت کم تھے۔ سو دونوں آرام سے بحث میں الجھے رہے
مجھے اگلے سمسٹرکی فیس نکالنی ہے پارٹ ٹائم جابز سے۔سب چھوڑ چھاڑ کر کیسے چلوں۔
اگلے سمسٹر سے یاد آیا میرے بھائی کا بھی اسی یونیورسٹی میں داخلہ کروانا ہے کوئی سفارش کا انتظام کر سکتے ہو؟ جیسے اپنی دفعہ کیا تھا۔
وہ ٹہوکا دے کر بولی تو وہ چڑ گیا۔
میرےاتنے کم مارکس نہیں تھےمیرٹ پرنام آیا تھا۔
تو تم ایویں اپنے اس پروفیسر خالو کے آگے پیچھے پھرتے رہے انکے پالتو کتے کو ایک مہینے ویٹنری لے جا کر ٹیکے ٹھنکواتے رہے۔ سب فالتوکام ۔۔
وہ اور بھی کہتی مگراتنا بڑا منہ پھول گیا تھا یون بن کا کہ وہ ہنسی نا روک سکی۔
ہاں تو اب نہیں ہے میرا باپ یونیورسٹی کا ٹرسٹی اچھے نمبروں کے باوجود بھی خواریاں کاٹنی پڑیں مجھے۔
گوارا مڑ کر کچھ کہتی مگر سیڑھیاں ختم ہو گئ تھیں سو اترنا پڑا۔
ہیون۔۔ سامنے مشہور برانڈ کے جیولری شاپ سے نکلتے ہیون کو دیکھ کر وہ ٹھٹک سی گئ۔
ہاں اسکے پاپا ٹرسٹی ہیں مگر ہیون کے مارکس تو بہت ہی شاندار تھے اسے تو سفارش کی ضرورت نہیں تھی
جونتائی اپنی ہی دھن میں بولتا چلا گیا۔
ہیون۔لمحہ بھر لگایا تھا گوارا نے سوچنے میں پھر اپنی اونچی ہیل میں ہی بھاگ کھڑی ہوئی ہیون تیز قدم اٹھاتا مال سے خروج کے بیرونی دروازے کی جانب بڑھ رہا تھا
یون بن کئ اب اس پر نگاہ پڑی پہلے سوچا پکارے پھر گوارا کو شاپنگ بیگز اٹھائے پھرتی سے تقریبا دوڑ کر سامنے والی دکان کی طرف جاتے دیکھا تو ارادہ ملتوی کرتا ہوا اسکے پیچھے ہو لیا۔ گوارا نے دکان میں داخل ہوتے ہی سیدھا کائونٹر کا رخ کیا تھا۔
ابھی جو سفید ٹی شرٹ میں لمبا سا نامجا ( لڑکا)یہاں سے نکلا ہے اس نے انگوٹھی خریدی ہے نا؟
اسکے اتنا وثوق سے آنکھوں میں ہزار دلچسپی کے رنگ لیئے پوچھنے پر وہ گڑبڑا سی گئ۔
دے؟ اسکا انداز استفہامیہ تھا
ہے نا؟
گوارا نے تصدیق چاہی۔
دے۔ ( ہاں) اس بار جواب اثبات میں تھا۔
گومو ویو۔ وہ اتنا بے ساختہ خوش ہو کر شکریہ ادا کرنے لگی کہ سیلز گرل بھی مسکرا دی
کونسی خریدی ہے۔ وہ اب کائونٹر پر شیشے میں سجی خیرہ کن ہیرے جڑی انگوٹھیوں کی جانب متوجہ تھی
یہ۔ سیلز گرل نے ڈسپلے پر سجی نہایت نازک مگر دلکش سی دو برابر لکیر کی شکل میں جڑے ہیروں سے مزین انگوٹھی اسے دکھائی اتنئ نازک بنت تھی کہ جیسے دو الگ راہیں اتفاقیہ آ ملیں انکے ملاپ کو ایک نسبتا بڑے ہیرے نے جوڑا تھا۔
اف کتنئ خوبصورت ہے۔ وہ فدا سی ہوگئ۔
ہیون کی پسند بہت اچھی ہے۔ وہ بے اختیار کہہ اٹھئ۔
یہ سب سے نیا ڈیزائن ہے آیا ہے ہمارے پاس۔ انکو فورا ہی پسند آگئ تھئ یہ ویسے وہ نامجا۔۔
وہ تھوڑا سا جھجکی
آپکا بوائے فرینڈ ہے؟ اس نے ہنس کر اندازہ لگایا
آندے۔ یون بن ایکدم آگے ہو کر بولا۔
میں ہوں اسکا بوائے فرینڈ۔
اسکے اس طرح کہنے پر گوارا نے منہ بنا کر اسے دیکھا۔
وہ میری چھنگو کا نامجا چھنگو ہے۔ ہونے والا
گوارا نے بتایا۔ تو سیلز گرل تو سر ہلا کر انگوٹھی واپس رکھنے لگی مگر یون بن بھاڑ سا منہ کھول کر رہ گیا۔
کیا کس کا۔
اسکے انداز پر گوارا منہ ہی منہ میں بدبدائی۔ مڑ کر الوداعی کلمات کہتی اپنے شاپرز سنبھالتی جونتائی کو بازو سے پکڑ کر باہر نکل آئی۔ یون بن کے دونوں ہاتھ شاپرز سے بندھے تھے سو احتجاج بھی نہ کر پایا گھسٹتا چلا آیا اسکے ساتھ۔
سب کہانی اسکو سنانئ تھی کیا۔ ۔
اس نے گھرکا۔
ہیون انگوٹھی لے رہا کونسی لے رہا کس کیلئے لے رہا یہ سب میں ہی تو پوچھ اور بتا رہا ہوں نا سب کو۔
وہ بھنایا۔ پھر اندازہ لگا کر پوچھا۔
ویسے تمہاری کونسئ دوست کا نامجا شنگو ہے؟ وہ جی ہائے
آنی ۔۔ گوارا نے مسکرا کر نفی میں گردن ہلائی۔۔
وہ ہوپ؟
لڑاکو کھنچی ہوئی آنکھوں اور چوڑے ماتھے والی خدایا اس پر مر مٹنے سے پہلے ہیون مر مٹ کیوں نہ گیا۔
اس نے رونا رویا۔۔۔
جی نہیں وہ بڑی بڑی آنکھوں گلابی رنگت تھوڑی پر ڈمپل والی میری سہیلی اریزہ کو پسند کرتا ہے۔
گوارا نے کہہ کر فخریہ سے انداز میں یوں دیکھا اسے جیسے داد چاہ رہی ہو۔ اور یون بن وہ حیران رہ گیا تھا۔ بے تحاشا حیران۔
مگر وہ تو۔۔
اسے اریزہ سے اپنی گفتگو یاد آئی۔۔اس نے کان کھجایا۔
وہ تو شادی شدہ ہے۔
اس نے زیر لب کہا تھا۔
گوارا نے مگر پھر بھی سن لیا تھا۔
تمہیں کیسے پتہ چلی یہ بات؟
اس نے فورا پکڑ لیا تھا۔
اس نے خود بتایا تھا۔ یون بن گڑبڑایا۔
اس نے مجھے بھی بتایا تھا مگر اتنے مہینوں میں اس نے کبھی اپنے شوہر سے بات نہیں کی۔ گوارا سوچ میں پڑی
یا تمہارے سامنے بات نہیں کی۔۔
یون بن نے جملہ مکمل کیا تو گوارا چونک کے اسکی شکل دیکھنے لگی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سارا دن بستر پر پڑی صرف سوچتی رہی تھی۔
اسکو اپنے جسم میں بالکل توانائی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے وہ بستر سے اترے گی تو چکرا کر گر پڑے گی۔
اس نے کھانا کھا لیا تھا مگر کتنی دیر چلتا اسے اب بھوک لگ رہی تھی۔ اس نے اٹھ کر شاپر ٹٹولا ۔ سیب کیلا وہ بھی ایک ایک ہی پڑا تھا۔ اس نے اپنا پرس الٹ لیا ۔ بمشکل ایک بڑا نوٹ اور ریز گارئ ملی۔
تو اب ایڈون اسے بھوک کی مار مار رہا ہے۔
اس نے تلخی سے سوچا۔
پھر دھیرے سے پیٹ پر ہاتھ رکھا۔
وہ کچھ بھی کر لے مگر اس بچے کی خود جان نہیں لے سکتی تھئ۔ ایک گناہ کے بعد دوسرا بڑا گناہ کرنے کی ہمت نہیں تھی اس میں۔
تمہیں کیا لگتا تم مجھے سپورٹ نہیں کروگے تو کیا میں بھوکی مر جائوں گئ۔ میرے ماں باپ زندہ ہیں۔
اس نےتنفر سے سوچا۔
اکلوتی بیٹی ہوں میں انکی۔ وہ مجھے کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ میں سب خود انہیں بتا دوں گی۔ پھر دیکھتی ہوں تم کیسے مجھ سے دامن چھڑا سکو گے۔
اس نے ایک فیصلہ کرکے اپنا فون اٹھایا اور ماں کو کال ملا لی۔ دوسری ہی بیل پر فون اٹھا لیا گیا تھا۔ وہ اپنا ہر کام چھوڑ کر اس سے بات کرتی تھیں۔
ہیلو ممی۔۔
اسکی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔
ہاں بیٹا کیسئ ہو۔ مشفقانہ انداز۔
آپ جاگ رہی ہیں ابھی تک۔۔
اس نے وقت دیکھا۔ ساڑھے نو ہو رہے تھے یعنی پاکستان میں ڈیڑھ بج رہا ہوگا۔ اسکو شرمندگئ سی ہوئی بنا وقت کا اندازہ لگائے فون کھڑکا دیا۔
ہاں بیٹا بس آج تمہارے ڈیڈا کے دوست کے بیٹے کی منگنی تھئ۔ بارہ تو وہیں بج گئے ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی گھر پہنچے ہیں تو تمہارے ڈیڈا نے کافی کی فرمائش کردی اب انکو دے کر آئی ہوں کمرے میں تو میری بیٹی کا فون آگیا۔
وہ پیار سے تفصیل بتا رہی تھیں۔ انکا انداز لفظ لفظ محبتوں سے چور تھا۔ اسکا دل ڈوبنے لگا۔ اسکی مسلسل خاموشی پر انہوں نے خود ہی موضوع بدلا
تم سنائو اریزہ کیسی ہے۔ تم لوگوں کو اکیلے رہتے کوئی مسلئہ تو نہیں ہورہا۔؟
ماں۔
اس نے بلبلا کر ٹوکا۔
مجھے شدید بھوک لگ رہی ہے ممی۔
وہ کہتے ساتھ ہی رو پڑی۔
تو کھانا کھائو نا بیٹا؟ ممی پریشان ہو گئ تھیں۔
ممی مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوگئ ہے۔
وہ روتے ہوئے بے ربط بول رہی تھی۔
کیا ہوا بیٹا مجھے بتائو میرا دل ہول رہا ہے۔۔ ممی کی پریشانی بھری آواز اسکے الفاظ منہ میں اٹکنے لگے
میں نے اپنا بہت نقصان کر لیا ہے ممی۔
کتنا بڑا پیسے چاہیئے؟
انکا ذہن بس اتنے نقصان تک ہی رسائی کر سکا۔
مجھے بتائو کتنے؟ مت فکر کرو ڈیڈا بھجوا دیں گے میری جان روئو مت۔ آج تک کبھی کچھ کہا ہے ہم نے نقصان کرنے پر۔ بتائو کتنے پیسے چاہیئیں؟؟
ممی ۔۔ اسکی ہچکیاں بندھ گئیں۔
ممی پیسہ اس نقصان کا مداوا نہیں کرسکتا۔ میں نے خود کو برباد کرلیا ہے ممی۔۔
اسکی بات اسکا بلکنا ممی سناٹے میں آگئ تھیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گوارا لدی پھندی داخل ہوئی تھی۔ اریزہ فورا مدد کو آئی تھی۔ اسکا سامان کمرے میں پہنچا نے میں مدد کرانے لگی۔
تم اتنا سامان اٹھا کر کیسے آئی ہو ؟
ہوپ نے ناک چڑھا کر پوچھا تھا۔
یون بن دروازے تک سب سامان رکھ کر گیا ہے۔ نامجا شنگو کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے۔
گوارا کھلکھلا کر اترائئ۔ اریزہ مسکراہٹ دباتے اسکے شاپروں کو اٹھا کر بیڈ کے ساتھ ٹکانے لگئ۔
سامان ڈھونا جانوروں کا کام ہوتا ہے اور میرے خیال میں ۔ انسان کو اپنا بوجھ اتنا بڑھانا ہی نہیں چاہییے کہ اسے کسی سماجی جانور( انسان) کی مدد لینی پڑے۔
ہوپ اور اپنے بے وقت کے قنوطئ پن سے باز آجائے۔
گوارا نے شاپر اٹھا کر اطمینان سے بیڈ پر نیم دراز ٹیک لگائے بیٹھی ہوپ کے سینے پر دے مارا۔
چپ۔کر بے تکی لڑکی۔
کہہ سیکی۔
گالی دیتی ہوئئ وہ سیدھی ہوئئ۔
شاپر واپس گوارا کو مارنے لگی تو اس نے ہاتھ اٹھا کر روکا
تمہارے لیئے ہی ہے وہ سوئٹر۔
ہوپ دانت کچکچاتے ٹھٹکی۔ شاپر کھول کر دیکھا تو سرمئی سے رنگ کی بے حد خوبصورت سوئٹر نکلی۔
وائو بہت پیاری ہے۔
اریزہ نے فورا تعریف کی۔
اور یہ تمہارے لیئے۔
گوارا نے آگے بڑھ کر سب سے بڑا تکیئے جیسا شاپر اسکی جانب بڑھایا۔
یہ کیا تم میرے لیے رضائی لائی ہو۔؟
وہ حقیقتا یہی سمجھی تھی۔ پھر ہوپ کو چڑانے لگی۔
دیکھ لو تم سے ذیادہ گوارا میری اچھی دوست ہے تمہارے لیئے تو بس ایک سوئٹر آئی ہے میرے لیئے پوری رضائئ۔
بولتے ہوئے اس نے پورا شاپر کھولا پھر ہکا بکا رہ گئ۔
اس کی لن ترانی پر گوارا او رہوپ دونوں ہنس دیں۔
یہ کیا تم میرے لیئے بھی یہ بھالو والا جیکٹ لے آئیں
اس نے روہانسا سا ہو کر کھولا
وہ بڑا سا موٹا فوم والا گھٹنوں تک کا پیراشوٹ جیکٹ تھا۔ آجکل کوریا میں ہر دوسرا لڑکا لڑکی یہی پہنے پھر رہے تھے وہ بھئ ہڈ چڑھا کرسر پر تو بالکل لگتا کہ برفانی کالے بھالو پھر رہے ہیں۔
جی بالکل۔ ہوپ کے پاس بھی یہ جیکٹ ہے اور میرے پاس بھی صرف تمہارے پاس نہیں تھا سو اب ہم تینوں بھالو بن کے سوپ پینے چلیں گے۔
گوارا نے کھڑے کھڑے پروگرام بنایا۔
کیوں؟ مجھے بالکل اچھے نہیں لگے یہ بندہ موٹا بھی لگتا ہے اور کارٹوں بھی۔
اریزہ نے ناک چڑھائئ
اور شدید سردی برفباری میں گرم بھی رہتا ہے۔ ہوپ نے جملہ جوڑا۔
تو اور کیا اتنی ٹھنڈ میں مجھے تو یہ خوف ہو رہا تھا کہ کسی دن یہ اکڑی ہوئی واپس آئے گئ۔
گوارا دھپ سے بیڈ پر گری
بہت تھک گئ میں آج۔اریزہ کافی تو پلوا دو مجھے۔
تم نے ویسے کیوں تحفہ لیا ہے میرے لیئے۔
ہوپ کی عدالت لگ گئ تھئ۔ گوارا کی جانب رخ کرکے وہ گاڑھئ ہنگل میں بولی۔ اریزہ باہر نکلتے نکلتے واپس پلٹ آئی۔
دونوں جب اپنی مادری زبان میں بات کرنے لگتی تھیں تو اختتام ہمیشہ ہاتھا پائی ہی پر ہوتا تھا۔
گائوں جا رہی ہوں اپنے خاندان والوں کیلئے تحفے لیئے تو دوستوں کیلئے بھئ لے لیئے۔
گوارا نے جان کر انگریزی میں جواب دیا۔
میں دوست کب بنی تمہاری۔۔
ہوپ کہاں باز آنے والی تھی۔
ہوپ کبھی کسی کے پر خلوص انداز میں کوئی مہربانی کرنے پر اسکا صرف احسان مند بھی ہوا جا سکتا ہے ہر تحفےکو سختی سے ٹھکرایا نہیں جاتا ہے۔
اریزہ نے گوارا کو جواب دینے کی زحمت سے بچا لیا تھا۔
ہوپ چند لمحے دیکھتی رہی۔ پھر دھیرے سے بولی
شکریہ۔ آج بڑے عرصے بعد کسی نے مجھے اپنا سمجھ کر تحفہ دیا ہے۔
اسکی بات پر اریزہ بھی چپ ہی رہ گئ۔
تم دونوں بیٹھو میں سب کیلئے کافی بنا کر لاتی ہوں۔
چند لمحے لگے تھے وہی ہموار لہجہ اور سپاٹ انداز وہ اپنا چکی تھی۔
میں۔ اریزہ نے کہنا چاہا مگر وہ بجلی کی تیزی سے اسکے پاس سے ہو کر گزرتی چلی گئ۔
اریزہ کندھے اچکا کر گوارا کے پاس بیڈ پر چڑھ کر بیٹھ گئ
جانے دو اسے ہمارے سامنے رونا نہیں چاہتی وہ۔
گوارا کے کہنے پر وہ سر ہلا گئ۔
تم کب واپس آئوگی۔ اسےسوچ کے اداسی ہو رہی تھی۔
میں کرسمس نیو ائیر سب منا کر واپس آئوں گی۔ گوارا نے انگڑائی لی۔ اریزہ نے اداس سی شکل بنا لی تھی
کل سے یہ جیکٹ پہن کر جانا یہ نہ ہو کہ اکڑی ہوئی واپس آئو۔
گوارا نے ڈپٹنے والے انداز میں کہا تھا۔
یہ تو مجھے گھٹنوں سے بھی نیچے تک آرہی ہے۔۔
اریزہ پہن کردیکھنے لگئ بیڈ پر کھڑے ہو کر جب دیکھا تو واقعی اسکے گھٹنوں سے بھی نیچے تک آرہا۔تھا جیکٹ
ہاں تو یہ ہوتا ہی اتنا بڑا ہے تاکہ ٹھنڈ نہ لگے۔
گوارا نے کہا تو وہ اچھل کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کودی۔ بڑے سے آئینے میں وہ واقعی بھالو۔ہی۔لگ رہی تھی۔
کیسی لگ رہی ہوں؟ وہ۔آئینے میں گوارا کے عکس کو دیکھ کر پوچھ رہی تھی جو اسکی پشت پر تھی۔
پیاری۔
میں کیسی لگتی ہوں تمہیں؟ گوارا نے جوابا پوچھا۔
پیاری۔
اور ہوپ؟ وہ اس سے پے در پے سوال کر رہی تھی
وہ بھئ۔
اور جی ہائے۔۔
وہ بھی ۔ اس نے روانی میں کہا پھر منہ پھلا کر بولی
تھوڑی سی بری ہے وہ۔
اور کم سن۔۔ سوال ختم نہیں ہوئے تھے۔
پیارا ۔۔
اور۔یون بن۔ گوارا کے کہنے پر۔وہ مڑ کر۔گھورنے لگی
تم۔میرے ساتھ ریپڈ فائر کھیل رہی ہو؟
ہاں ۔گوارا نے آرام سے مان لیا پھر ٹوک دیا
تم نے ٹیمپو توڑ دیا اب دوبارہ مگر وقت ضائع کیئے بنا جواب دینا۔
اوکے۔ وہ کندھے اچکا کر بیڈ پر چڑھ گئ
پسندیدہ پھول؟ ?favourite flower
گوارا اسے تولتی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی
گلاب۔۔ Rose
پھل؟ ?Fruit
آم۔۔ Mango
اریزہ کو۔مزا آرہا تھا اس کھیل میں۔
ایکٹر؟ ? actor
فواد خان….. Fawad Khan
ملک۔۔ Country
پاکستان ۔ Pakistan
تمہیں کوریا پسند نہیں؟
گوارا نے سوال بدلا
You dont like Korea?
اچھا ہےکوریا۔ Korea is good
صاف اچھا موسم اچھے لوگ….
its clean nice people are good
Do you like rain?
yes
تمہیں بارش اچھی لگتی ہے؟
ہاں۔۔۔
Does it rain in Pindi?
yeah alot
پنڈی میں بارش ہوتی ہے؟
بہت ذیادہ۔۔
Are you sleepy?
No..
تمہیں نیند آرہی ہے؟
نہیں۔۔
Are you hungry?
yeah little bit
بھوک لگ رہی ہے؟
ہاں تھوڑی سی۔۔
Are you thirsty?
yes
پیاس لگ رہی ہے؟
ہاں۔۔
Are you divorced?
yes..
تمہیں طلاق ہوگئ ہے؟
ہاں۔
وہ روانی میں بول کر چونکی۔ ۔
ہیں کیا؟
گوارا مسکرا دی۔ کمرے میں ٹرے میں کافی بنا کرداخل ہوتی ہوپ کے ہاتھ سے ٹرے دھڑام سے گری تھی۔ تینوں مگ گر کر چکنا چور ہو گئے تھے۔ چھناکے کی آواز پر وہ دونوں چونک کےمتوجہ ہوئیں۔
جلی تو نہیں؟
اریزہ سب سے پہلے بھاگ کے اسکے پاس آئی تھی۔ ہوپ نے کانپتے ہاتھوں کو چھپانے کی سعی کرتے ایکدم سے مگ کے ٹکڑے اٹھانے کیلئے ہاتھ بڑھادیئے۔
پاگل ہوئی ہو کیا ؟ اریزہ چیخی
کرچیاں چبھ جائیں گی تم مجھے دکھائو ہاتھ پائوں تو نہیں جلے
اسکو ٹٹولتی اریزہ فکرمندہ تھی۔
گوارا نے ایک نظر ان دونوں پر ڈالی پھر دانستہ رخ موڑ کر لیٹ گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ حسب معمول وقت پورا ہونے پر اپنے گرد لمبےگھٹنوں تک کے پھولے پھولے جیکٹ کو پہنتی باہر نکلی تھی۔ پھر بھی یخ بستہ ہوا نے جھر جھری سی دلا دی تھی۔
ناک چالو ہوئی تو اس نے سرد ہوا کو گھورتے ہوئے کہہ ڈالا
سنو کوریا تمہاری یہ سردی مجھے بالکل پسند نہیں آئی۔ اچھا۔ تھوڑی کم ٹھنڈ پھیلائو۔
ساتھ سے گزرتی اسی طرح ملفوف سی چندی آنکھوں والی نے حیرت سے اسے ہوا سے لڑتے دیکھا تھا۔ مگر وہ بے نیازی سے لہرا کر آگے بڑھ گئ۔
اسکا ارادہ بس سے جانے کا تھا۔ تھوڑا سا پیچھے اتر کر ایک دو چیزیں خرید لیتی۔ وہ یہی سب منصوبہ بناتی بس اسٹاپ پر چلی آئی۔
وین سے جائوں؟ ہرگز نہیں مجھے چھوڑ کر آئوبائک پرصارم۔
اٹھو۔
وہ کمبل میں گھسے بے خبر سوتے صارم کو مکے لاتیں مار کر اٹھا رہی تھئ۔
خدا کی قسم مجھے بخار ہو رہا ہے جبھی تو آج میں چھٹی کر رہا ہوں۔ دیکھو۔
اندر سے سرخ چہرے کے ساتھ منمناتی آواز نکلی تھی صارم کی
آکر سو جانا نا پھر۔ واپسی کا مسلئہ نہیں ایڈون سنتھیا چھوڑ دیں گے ابھی چھوڑ آئو نا اچھے بھائی نہیں۔ میرا آج کوئز ہے ورنہ کبھی نہ کہتی خود بھی چھٹی کر لیتی
اسکی شکل پر ترس آیا تو اسکا انداز بھی منت بھرا ہو چلا تھا
تم وین سے کیوں نہیں چلی جاتیں صرف ایک اسٹاپ دور ہو تم لڑکی۔ کونسا دو ویگنیں بدل کر جانا ہے تمہیں۔
وہ اسکے اصرار پر تھوڑا چڑا
تمہیں پتہ ہے نا مجھ سے بسوں ویگنوں کا سفر نہیں ہوتا کہیں کی کہیں پہنچ جائوں گئ۔ اوپر اتنے لوگوں میں بھر کر کیسے جائوں گی۔
اسکی اپنی مجبوری تھئ۔
دو ٹکٹ لینا آگے بٹھائیں گے۔ڈرائور سے کہہ دینا اور کسی کو آگے نہ بٹھائے۔
اس نے کہہ کر کمبل منہ تک تان لیا۔ وہ بے بسی سے چپ چاپ کھڑی رہئ ۔ چند لمحے کوئی سن گن نہ ملی تو اس نے دھیرے سے کمبل سر پر سے نیچے کیا وہ چپ چاپ کھڑی زمین کو جوتے کی نوک سے ہلکے ہلکے کرید رہی تھی۔
میرا کارپٹ خراب نہ کرو۔
وہ بھناتا ہوا اٹھ بیٹھا۔
اسکا اترا چہرہ بھی تو نہیں دیکھ سکتا تھا منہ پھلاتا کمبل اتار کر ایک طرف کرتے ہوئے چپل ٹٹولنےلگا۔ اریزہ کھل سی اٹھی
گاڑی بابا لے جا چکے ورنہ کبھی نہ کہتی تمہیں۔
احسان ماننا بھی تو سرشست میں نہ تھا۔
اس نے گھور کر دیکھا۔
شرٹ پینٹ استری کرکے دو میری بلکہ صرف شرٹ کر دو کل والی جینز سے ہی کام چلا لوں گا۔
وہ ہدایت دیتا اٹھنے لگا۔
کیوں ٹھیک ہیں کپڑے مجھے اتار کر واپس آکر سونا ہی تو ہے۔ وہ سمجھی نہیں
اب تمہاری وجہ سے اٹھ کر یونیورسٹی کا منہ دیکھوں تو کلاس بھی نا اٹینڈ کر لوں ۔ قسم سے اتنی طبیعت خراب ہے میری اور۔۔۔۔۔۔۔۔
تبھئ بس کے زورد ار ہارن سے وہ چونکی۔ یہ اسکی مطلوبہ بس تھی سو بیگ سنبھالتی لپک کر چڑھی۔
بس لبا لب بھری تھئ۔ ترقی یافتہ ملک کے ترقی یافتہ شہریوں میں مرد و زن کی تفریق نہ تھی ۔ کام کاجو نوکری پیشہ طلباء بوڑھے جوان سب ہی کھڑے تھے کوئی نشست خالی نہ تھی۔ وہ ایک لڑکی کے پاس گھس کر کھڑی ہوئی تو آگے پیچھے مرد ہی مرد بھرتے گئے۔ اگلے اسٹاپ پر وہ لڑکی بھی اتر گئ۔ طرح طرح کے لوگ اجنبی بولی اوپر سے سب مردوں میں گھرئ اس نے سمٹ کر اردگرد نگاہ دوڑائئ اسکے بالکل دوتین ہائی اسکول کے طلبا ء تھے ایک شائد ان میں لڑکی بھی تھئ مگر حلیہ سب کا ایک سا تھا بڑی بڑی جیکٹیں وہ آپ میں مگن تھے تو اسکے دائیں جانب ایک ستائیش اٹھائیس سال کا جوان شائد دفتر سے واپس آرہا تھا لیپ ٹاپ کندھے سے لٹکائے مکمل طور پر سامنے کھڑکی سے باہر دیکھتا اسکا لیپ ٹاپ دو ایک بار اسکی کمر سے ٹکرایا تو اس نے بنا اریزہ کے ٹوکے ہی لیپ ٹاپ کو اپنے جسم سے مزید قریب کر لیا تھا۔ موٹئ گھٹنوں تک کی پھولی سی جیکٹ میں وہ کسی بھی طرح کسی سے چھونہیں رہی تھی پھر بھئ عجیب سا احساس دامن گیر تھا۔ وہ لیپ ٹاپ والا لڑکا اگلے اسٹاپ پر اترنے کو جگہ بنانے لگا تو وہ یک قدم پیچھے ہوئی تبھئ اس نے مڑ کر دیکھا تو ادھیڑ عمر وہ بوڑھا شخص مسکرایا۔ اسکی مسکراہٹ اتنئ عجیب لگی اسے کہ اسے اپنے اس احساس کو جھٹلانے کی اب ہمت نہ ہوئی۔ بس دوبارہ چلنےکو تیار تھی کہ۔ وہ بوکھلا کر پکاری۔
اہجوشی۔
اسکی پاٹ دار آواز پر پوری بس متوجہ ہوئی۔
وہ مجھے بھی یہیں اترنا۔ وہ اتنے دنوں میں آتے جاتے اتنا بولنا سیکھ گئ تھئ۔ اسکی بات پر وہ ہائی اسکولر فورا سمٹ کر جگہ بنا گئے تھے۔ وہ بس سے اتنی تیزی سے اتری کہ لڑکھڑا گئ۔
بس اس کے اترتے ہی لمحہ بھر کی دیر کیئے بںا چل پڑی تھی
وہ چند لمحے اس جاتئ بس کو ہی دیکھتی رہ گئ۔
سب میسر ہے نا جبھی نخرے ہیں جس دن میں نہیں ہونگا نا اس دن ایک وین کیا دس بسیں بدل کر بھی جائو گی۔
صارم بائک چلاتا اسے سنا رہا تھا۔
پھولی سانسوں کو ہموار کرتئ وہ بس پھر اسی سوچ پر اٹک گئ تھئ
میں آخر یہاں کیا کر رہی ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں آخر یہاں کیا کر رہا ہوں۔
اس دلکش مراکش حسن کی شاہکار شہد رنگ آنکھوں شہد رنگ بالوں والی لڑکی کو دیکھتے سوچ رہا تھا۔
نہایت پر اعتماد دراز قد تیکھے نقوش سیاہ جینز اور چست مسٹرڈ ہائی نئک میں ملبوس بلیک ہی لانگ کوٹ جس کے سب بٹن کھلے تھے۔ اسکے سینے پر جھولتی سونے کی موٹی زنجیر ریستوران کی روشنیوں کی جھلملاہٹ منعکس کر رہی تھی۔ اپنے کمر تک آتے لمبے سیدھے بال اس نے کھول رکھے تھے جو اسکے دائیں کندھے پر آبکھرے تھے مگر وہ اس سے بے نیاز کافی کی چسکی لیتے ہوئے اپنی تعلیم و تربیت پر مفصل لیکچر جھاڑ رہی تھی۔
میں نے کبھئ نہیں سوچا کہ ایک لڑکی ہو کر میں یہ کام نہیں کر سکتی وہ کام نہیں کر پائوں گی۔ مجھے خود پر بھروسہ اور یقین ہے جبھئ اس اسکالر شپ کیلئے میں نے جی جان سے محنت کئ۔ جینڈر اسٹڈیز کو عموما لوگ جنسیات سے تعبیر کرتے ۔
تو جنسیات کیا جینڈر اسٹڈیز کو ہی نہیں کہتے۔
اس نے بات برائے بات کہا تھا۔
یہی تو مسلئہ ہے۔ ایک مکمل مضمون اور ایک موضوع کو آپ کبھی ایک سا نہیں سمجھ سکتے۔ میرے تحقیقی مقالے کا مقصد اسی فرق کو واضح کرنا ہے اور۔
وہ جانے کیا کیا کہہ رہی تھی۔ وہ غائب دماغی سے سنتا بس کافی ختم کرنے کے بعد اٹھنے کا کوئی اچھا سا بہانہ سوچ رہا تھا۔
تبھئ ایک پھولی سی گھٹنوں تک کی جیکٹ ریستوران میں داخل ہوئئ۔اسکی توجہ خود بخود اسکی جانب ہوگئ تھی۔
مجھے ایک برگر چاہیے جس میں سبزیاں ہوں بس اس میں کوئی الگ سے ساس بھی مت ڈالیئے گا اور ساتھ کافی۔
وہ آرڈر کرکے اب نگاہ گھما کر خالی جگہ ڈھونڈ رہی تھی۔
اسکے بالکل برابر والی میزخالی تھی وہ سیدھی وہیں آکر بیٹھی گئی۔ اسکے دائیں جانب اسکی موجودگئ سے انجان۔
وہ لڑکی جب اپنی تمام تر قابلیت جھاڑ چکی تب اسے احساس ہوا کہ مخاطب کی توجہ بٹ چکی ہے سو تھک کر کافی کا کپ اٹھا لیا۔
آپ پڑھانے کے سوا کیا کرتے ہیں میں مشغلہ پوچھنا چاہ رہی ہوں۔
اسکا انداز تھوڑا سا خشک ہو چلا تھا۔
علی چونکا۔
کچھ نہیں۔۔جاب ریستوران دونوں کام محنت طلب ہیں نماز وغیرہ کے سوا وقت بچتا نہیں عربی کی آن لائن کلاس لیتا ہوں بس۔
اس نے اس تئیس منٹ کئ ملاقات میں یہ پہلا طویل جملہ بولا تھا۔ مخاطب نے ہوں کہنے پر اکتفا کیا۔ وہ تھوڑی بدمزہ ہوچکی تھی۔ اگر علی کی ظاہری شخصیت پرکشش نہ ہوتی تو شائد وہ اسکی عدم دلچسپی اور کسی حد تک روڈ بدمزاج انداز بھانپ کر دس منٹ میں ہی اٹھ کھڑی ہوتی۔
اس نے اپنے بالوں کو کندھے سے جھٹکا تو وہ بنا سوچے کہہ بیٹھا
آپ اسکارف نہیں کرتیں۔
نہیں۔ نہ ہی زندگی میں کبھی کرنے کا ارادہ ہے۔وہ اپنا پرس سنبھالتی مسکرا کر کہتی اٹھ کھڑئ ہوئی
یہ تو لازمئ ہوتا ہے مسلمان لڑکیوں پر۔ ؟
اسکا ارادہ بحث کا نہیں تھا۔ مگر وہ بھڑک کر انگریزی میں چبا چبا کر بولی۔
آپ کو اس بات پر زیادہ توجہ دینی چاہیئے کہ مسلمان لڑکوں کیلئے کیا لازم و ملزوم ہے لڑکیوں کی قبر انکا اپنا معاملہ ہوگی۔ آپ اپنی آخرت کی فکر کیجئے۔
اسکے تھوڑا اونچی آواز میں کہہ اٹھنے پر اردگرد سے کئی لوگ چونک کر انہیں دیکھنے لگے تھے۔
آننیانگ۔ وہ جھٹکے سے بیگ کندھے پر ڈالتی ہائی ہیل پر ٹک ٹک کرتی چلی گئ۔
وہ ان سب کی نگاہوں کا مرکز خود کو محسوس کر رہا تھا۔
اس میں سبزیاں ہی ہیں نا بس؟ گوشت تو نہیں
اٹک اٹک کر ہنگل بولتی اریزہ کی بات پر وہ چونک کر دوبارہ اسکی جانب دیکھنے لگا تھا۔
آندے ۔ وہ ویٹرس سرو کرکے حسب روایت جھک کر سلام کرتی چلی گئ۔
اسے کافئ زور سے بھوک لگ رہی تھی سو سینڈوچ اٹھا کرفورا کھانا شروع کر دیا تھا۔
ہائے۔ ہائو آر یو؟
وہ اٹھ کر اسکی میز کے سامنے آکھڑا ہوا
نوالہ چباتے ہوئے اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو شناسائی کی واضح لہر اسکے چہرے پر دوڑ گئ۔
وہ بہت چھوٹے نوالے لیتی کھا رہی تھی جبھی فورا سر کے اشارے سے جواب دیتی نوالہ جلدی سے چبا کر نگل گئ
ہائے آپ کیسے ہیں۔؟ ۔ بیٹھیئے۔
اس نے سینڈوچ پلیٹ میں رکھ لیا تھا ۔ علی اسے بغور دیکھ رہا تھا۔ وہ مکمل غیر ملکی تھی۔
آپ کو لگتا ہے کوریا راس نہیں آیا ابھی تک ۔ وہ خود ایک جیکٹ میں ملبوس اسکے اتنا ملفوف ہونے پر شائد چوٹ کر رہا تھا۔ وہ خفیف سی ہوئی۔
مجھے اتنی سردی سہنے کی عادت نہیں شائد اسلیئے۔۔
آپ بھی لیجئے۔ اس اخلاقا ایک اسکی جانب پلیٹ کو بڑھا دیا۔
معزرت اس میں جو ساس ڈالی گئ ہے اس میں بڑا حصہ سور کے گوشت کا ہوتا ہے میں نہیں کھا سکتا۔
اس کو عادت ہو چکی تھی تفصیل سے بتانے کی۔ اسکی بات پر اریزہ چونکی
نہیں بھئ۔ یہ سبزیوں کا سینڈوچ ہے اس میں گوشت نہیں۔ پورک تو میں خود نہیں کھاتی۔
گوشت نہیں مگر اس میونیز کے ساتھ جو مصالحے دار چٹنی ذائقہ بڑھانے کیلئے ڈالی گئ ہے اسکو پورک میں ہی پکایا جاتا ہے۔
اس نے باقائدہ سینڈوچ کھول کر اسے دکھایا۔
لال چٹنی جو ذائقے میں بہت اچھی لگی اس میں سور؟
وہ سینڈوچ پلیٹ میں رکھ کر فورا کھڑی ہو گئ۔
آگاشی ۔ اس نے اسی ویٹرس کو پکارا۔
میں نے کہا بھی تھا مجھے سبزیوں کا سینڈوچ چاہیئے اس میں سور کہاں سے آگیا؟
اسکے قریب آتے ہی وہ مٹھیاں بھینچ کر چلا اٹھی۔
چھے سو ہمنبندا۔
اگلی جھک جھک کر معزرت کرنے لگی۔
میں نے صاف کہا تھا مجھے سبزیوں کا سینڈوچ چاہیئے اس میں گوشت وہ بھی سور کا کیوں ہے؟
اسکے تن بدن میں آگ سی لگ گئ تھی۔
اسکو غصے میں دیکھ کر علی چوکنا سا ہوا۔
آئیم سوری۔
لڑکی کی انگریزی اس لفظ کے بعد ختم ہوگئ تھی۔ وہ۔یقینا کوئی ہائی اسکولر تھی ۔ کم عمر سی سہم سی گئ۔ بات تو انگریزی کی سمجھ گئ مگر جواب دینا نہ آیا۔ تو سر جھکا لیا۔
یہ کہہ رہی ہے اسے سبزیوں کا سینڈوچ چاہیئے آپ نے اسے یہ ساس ڈال کر کیوں دیا؟
علی نے ترجمہ کیا۔
جی وہ اس سبزیوں کے سینڈوچ میں ہم کوئی نہ کوئی ساس استعمال کرتے ہیں ۔ اس وقت بھی میں نے پوچھا تھا لال چٹنی ڈال دوں تو انہوں نے ہامی بھر لی تھی۔
وہ بے چارگی سے صفائی دینے لگی۔
کیا کہہ رہی ہے یہ؟ اریزہ علی کی۔جانب گھومی۔ اس نے اشارے سے تحمل سے کام لینے کو کہا۔ اور اس لڑکی کی۔جانب متوجہ ہوا۔
مگر یہ چٹنی تو سورکے گوشت کے ساتھ بنتی ہے نا؟
علی نے پوچھا۔ تو وہ سر۔جھکا گئ۔
چھے سو ہمبندا۔ ( معزرت خواہ ہوں)
مگر اس میں سے گوشت کے ریشے نکال دیئے تھے اور کھمبیاں ڈال دی ہیں ہم نے۔ یہ خاص ساس ہماری پہچان ہے خاص کر اس سینڈوچ اور اس ذائقے کیلئے لوگ دور دور سے ہمارے ریستوران آتے ہیں۔ یقین جانئے یہ کسی بری شے سے نہیں بنی ہے۔
اس نے جھک جھک کرمعزرت کرنے کے بعد تفصیل سے صفائئ پیش کی۔ اسکی ہنگل اریزہ کے سر پر سے گزرتے دیکھ کر علی ہی مدد کو آیا اور ترجمہ کیا۔
مگر اس ساس میں ڈالا کیا جاتا ہے؟
وہ سر پیٹ لینے کو تھی۔ اپنا۔
لال مرچ ، سویا ساس ، چینی، سرکہ، ہڈیوں کا سوپ۔۔۔
اجزاء بتاتے ہوئے علی تھما۔ وہ ابھی بھی جانے کیا کیا بتا رہی تھی۔
کس جانور کئ ہڈیوں کا سوپ؟
وہ سر پکڑ گئ
سور نہ بھی ہو بکرا، مرغی مچھلئ گائے میں بنا حلال ہوئے کسی جانور کا گوشت نہیں کھا سکتی بھئ۔
اسکا چہرہ دیکھنے والا تھا طیش سے سرخ بے بسی سے مٹھیاں بھینچتی۔ اور شائد رونے کا بھی ارادہ بن رہا تھا۔اگر نہیں بھی تو بھی شکل سے یہی لگ رہا تھا۔
میں بہت معزرت خواہ ہوں آپکےلیئے سادہ چیز سینڈوچ لے آتی ہوں اس کی بے شک آپ ادائیگی بھی واپس لے لیں۔
وہ بچی شائد اریزہ کی طرح ہی رونے کو تیار لگ رہی تھی۔
آپ جائیں۔ علی نے اسے جانے کو کہا تو وہ پھر جھک کر معزرت کرتئ چلی گئ۔
کونسا گوشت تھا اس میں ؟
وہ تفتیشی انداز میں پوچھ رہی تھی۔ علی گہری سانس لیکر رہ گیا۔
مجھے اتنی بھوک لگ رہی تھی کہ اتنا ذیادہ کھا بھی گئ۔ حد ہے۔
وہ بڑ بڑ کر رہی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس میں تیرا گھاٹا میرا کچھ نہیں جاتا ذیادہ پیار ہو جاتا تو میں سہہ نہیں پاتا۔
دھیمی بجتی آواز ریستوران کا خوابناک سا ماحول گرم گرم روٹی اور چکن کڑاہی۔ ویٹر نے لا کر ان کی میز پر رکھی تو علی نے اسے شروع کرنے کی دعوت دی۔
میرا واقعی کچھ کھانے کا ارادہ نہیں ہے۔
وہ منہ پھلائے تھئ۔ علی کو ہنسی آگئ۔ اس نے روکنے کی کوشش بھئ نہیں کی۔
تم مزاق اڑا رہے ہو میرا؟
وہ اٹھ کھڑی ہوئئ۔
اسکے تیور کڑے تھے۔
ہرگز نہیں۔ بیٹھو بیٹھو۔ اسے بھڑکتے دیکھ کر وہ فورا ہنسی روک کر اپنے مخصوص اچھے بچے والے انداز مین واپس آیا۔ وہ خفا خفا سی دوبارہ بیٹھ گئ
مجھے بس تمہارے معصوم تاثرات نے ہنسا دیا۔ اتنا غصہ پورک کھا لینے پر یقینا تم جانوروں سے بہت پیار کرتی ہوگئ۔امریکہ میں تو بہت سے لوگ جانوروں کی فارمنگ اور وہاں ہونے والے جانوروں کے ساتھ بہیمانہ سلوک کی وجہ سے سبزی خور ہوجاتے ہیں مجھے نہیں پتہ تھا پاکستانی بھی
اس نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا تو وہ چٹخ کر بولی
مجھے ہرگز ایسا کوئی مراق نہیں
اچھا غصہ تھوک دو۔ اب یہ پاکستانی ریستوران ہے یہاں چکن ہی ہے سور نہیں کھانے سے کیا ناراضی۔
اس نے صلاح جویانہ انداز میں کہا تو اریزہ کو غصہ تھوکنا پڑا۔ اب تو جو ہونا تھا ہو چکا تھا۔ پھر علی اسکا کون لگتا تھا جو اسے نخرے دکھاتئ۔ سو دل مار کر کھانا ٹونگنے لگی۔
کھانے کے بعد میٹھے میں آج کی سگنیچر ڈش رس ملائی تھی۔ سو علی نے وہی منگوا لی۔ رس ملائی ہرگز بھی ذائقے دار نہیں تھی بلکہ منہ میں چبانے لائق سخت تھی۔ اسے ذرا پسند نہیں آئی اسکا برملا اظہار بھی کردیا۔
بالکل مزے کی نہیں اتنی سخت ہے اورمٹھاس بھی کم ہے۔ ایسی رس ملائی کھلائیں گے کورین کو تو وہ پاکستانی کھانے خاک پتھر کھانے آئیں گے۔
وہ بڑ بڑائی تو علی بے ساختہ ہنس دیا۔
یقین کرو کورینز کو نہیں پتہ کہ رس ملائی کو نرم اور ذیادہ میٹھا ہونا چاہیئے ہمیں یہ ایسے بھی پسند آئی ہے۔
اسکے کہنے پر وہ کندھے اچکا کر رہ گئی۔
واپسی پر علی اسے خود ڈراپ کررہا تھا۔ مکمل سنجیدگی سے سڑک پر نگاہ جمائے ڈرائیو کر رہا تھا۔ اس نے ایک نظر اسے بغور دیکھا۔ تصویر میں وہ جتنا شاندار لگتا تھا اصل میں اس سے کہیں ذیادہ لگ رہا تھا۔ ہلکی ہلکی شیو بڑھی ہوئی تھی جو اسکے گورے چہرے پر بری نہیں لگ رہی تھی البتہ رف اور ٹف سی لک آرہی تھی اسکی۔گول سا بیضوی چہرہ چندی مگر بڑی آنکھیں باریک لب مکمل کوریائی نقوش۔ مگر لہجہ امریکی تھا انگریزی بولنے کا۔
ہیون کے نقوش تیکھے ہیں۔ آنکھیں کھنچی سی اور چہرہ بھی گول سا نہیں۔ شائد اسکی والدہ کے نقوش ملنے سے۔ وہ بلا ارادہ تفصیلی تقابلی جائزہ لے بیٹھی۔
میں ہیون کو کہاں سے یاد کرنے بیٹھ گئ۔
خود پر اسکی توجہ محسوس کرکے علی یونہی اسکی جانب دیکھ کر مسکرا دیا۔ تو وہ کھسیا کر رخ بدل گئ۔
مجھے بہت شرمندگی ہورہی ہے میں پہلی دفعہ آپکو جتنی زحمت دے چکی اسکا شکریہ بھی ڈھنگ سے ادا نہیں کر پائی اور مزید احسان چڑھا لیا ہے آپکا۔
ونڈ اسکرین پر نگاہ جمائے وہ صاف گوئئ کہتی گئ۔
ڈونٹ بی سو فارمل۔ تم ہیون کی دوست ہو اور ہیون میرا ۔اس ناطے ہم میں جان پہچان کا رشتہ ہے اور جانے کل کو اس سے گہرا رشتہ بن جائے کیا خبر وقت کا۔ جملے کے آخر تک اسکی آواز دھیمی ہوگئ تھی ۔
آپکئ انگریزی بہت اچھی ہے۔ لہجہ بالکل امریکی ہے آپکا۔ بات سمجھنا آسان ہو جاتا ہے آپکی بہ نسبت باقی کورینز کے۔
خاموش رہنے کی عادت نہ تھی اسکی بات پر دھیان بھی نہیں دیا تھا کہ چونکتی۔ جھٹ اگلا سوال جڑ دیا۔
میں امریکہ میں رہا ہوں اسکولنگ وہیں کی ہے ہائی اسکول میں تھا جب واپس آیا پھر ہائی اسکول کوریآ سے مکمل کیا پھر دوبارہ امریکہ چلا گیا تھا اپنی فیانسی کے ساتھ شائد اسلیئے۔
اس نے اپنی طرف سےتفصیلی جواب دے کر اسکا تجسس دور کرنا چاہا۔
وہ مزید کوئی سوال پوچھتی مگر اسکا فون بج اٹھا تھا
گوارا تھئ پوچھ رہی تھی کہ کہاں ہو کب تک واپسی ہے۔
بس گھر پہنچنے ہی والی ہوں پانچ منٹ میں۔خیریت؟
ہاں بس کھد بد ہو رہی تھی ۔۔ وہ ہنسی۔۔۔
تفصیل جاننے کی۔ چلو گھر آئو جلدی۔
اس نے فون بند کر دیا تھا۔ اریزہ جو وجہ پوچھنے والی تھی کندھے اچکا کر رہ گئ۔
عمارت کے قریب گاڑی رکی تھی۔وہ سرعت سے اتر کر ڈرائیونگ سیٹ کے پاس آئی۔۔
شکریہ اور زحمت کیلئے معزرت۔
انتہائی رسمی انداز مگر جھک کر کوریائی انداز میں بولی تھی۔
اسکے منہ سے ہنگل دلچسپ لگتی تھی۔
وہ ہنس پڑا۔ اس بے موقع ہنسی پر وہ سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔
آئیندہ کچھ بھئ کھانے لگو تو یہ جملہ بولنا
ہیم پیگو چھوسے او۔ اس کا مطلب ہوتا ہے سور نکال کے دو۔ سور ایک اچھا گوشت سمجھا جاتا ہے کوریا میں اور خاص کر غیر ملکیوں کو دیکھ کر مہمان نوازی کے لیئے خاص کر ہیم پیش کیا جاتا ہے یہ انکی جانب سے خلوص کا اظہار تھا۔ ابھی بھی جو سینڈ وچ تم کھا رہی تھیں یہ اس ریستوران کی سگنیچرفوڈ تھئ اور خاص تمہیں خوش کرنے کو مہنگا والا ساس ڈال کر تمہیں دیا گیا تھا۔ اب یہ اس بے چاری کی قسمت کہ تمہیں سور کا ذائقہ نہیں پسند۔ بہر حال ایک کوریائی ہونے کے ناطے میں سمجھتا ہوں کہ انکی پوزیشن کلیئئر کر دوں ۔
اس نے سادہ سے انداز میں وضاحت کی تو وہ مسکرا دی۔
ذائقے کی بات نہیں یہ منع ہے ہمیں کھانا لیکن بہر حال یہ بات سب تو نہیں جانتے۔ خیر شکریہ آئیندہ میں یاد رکھوں گی۔
ہیم پیگو چھوسے او۔۔
اس نے تائید چاہی۔ اور غیر متوقع طور پر درست تلفظ سے کہا۔
دے۔ وہ سر ہلا کر بولا۔
ہیم پیگو چھوسے او۔ اور کچھ ہنگل کا یاد کروں نا کروں یہ پکا یاد کرلوں گی۔
وہ بار بار دہرا رہی تھی۔
اوکے ٹیک کیئر گڈ نائٹ۔وہ مگن سے انداز میں ہاتھ ہلا کر کہتی جواب کا انتظار کیےبنا کمپائونڈ کی جانب بڑھ گئ۔
وہ گڈ بائے کہتا خفیف سا ہو کر چپ ہو گیا۔
ہیم پیگو چھوسے او؟؟؟؟
وہ گاڑی چالو کر رہا تھا جب اس نے پیچھے سے پکار کر ایک بار پھر تصدیق چاہی
وہ حیران ہو کر سر ہلا گیا وہ کمپائونڈ سے پکار کر پوچھ رہی تھی۔
دے۔ جوابا اس نے بھی آواز لگائی۔
میں پکا یاد رکھوں گی اب اسے۔
ہیم پیگو چھوسے او۔
وہ وہیں سے اونچی سی آواز میں کہہ رہی تھی۔
اسے اسکے بچکانہ سے انداز پر ہنسی آگئ
اچھی بات ہے گڈ لک۔ اس نے پکار کر کہا تو وہ بھی ہنس کر مڑ گئ
دلچسپ لڑکی ہے۔
گاڑی ریورس کرتے ہوئے بھی اسکے چہرے پر محظوظ سی مسکراہٹ تھئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اریزہ۔
کمپائونڈ میں اندر داخل ہوتے ہوئے اسے مانوس پکار سنائی دی۔
اس نے مڑ کر دیکھا تو ہیون مسکراتا ہوا اسکے پاس چلا آیا۔ وہ بھئ مسکرا دی۔ جانے کیوں مگر اس وقت اسے دیکھ کر خوشی سی ہوئی تھی۔
جاب سے آرہی ہو؟ کیسا گزرا دن؟
لانگ کوٹ میں ملبوس جیبوں میں ہاتھ ڈالے آج اسکا انداز معمول سے ہٹ کر سنجیدہ سا تھا۔
ہاں ۔ اسے تھوڑی دیر پہلے کی کوفت یاد آئی تو دن کا زکر گول کر ڈالا۔
کہیں باہر ڈنر کریں۔
ہیون کے کہنے پر اس نے کلائی میں بندھی گھڑی پر نگاہ ڈالی ساڑھے آٹھ بج رہے تھے اسکا تو لنچ ڈنر اکٹھے ہو چکا تھا۔ ۔
میں تو کھانا کھا کر آئی ہوں۔
اسکے جواب پر ہیون نے یوں سر ہلایا جیسے اسکا جواب متوقع ہو اسکے لیئے۔
پھر کافی؟
وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔ بھر بھر رس ملائی کھا کر آئی تھی ٹھنڈ میں کافی کی پھر بھی جگہ نہیں تھی مگر وہ صاف انکار نہیں کر سکی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اسے ایک بڑے سے مال میں بنے بریو ہارٹ کے مرچنڈائز اسٹور لیکر آیا تھا۔ اس نے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا تھا اسے۔
اس ویک اینڈ پر بریو ہارٹ کا چیریٹی کنسرٹ ہے ۔ ہم دونوں اسکی پہلی قطار میں ہونگے۔ انکے پرستار پہلی رو کیلئے ایک دوسرے کی جان بھی لے سکتے ہیں۔ اس قطار میں میں اور تم انکی کنسٹمائز مرچنڈایز کے بغیر گئے تو ہمیں گھور گھور کر ہی کھا جائیں گے۔
اس کے الفاظ کے برعکس انداز بے حد سنجیدہ تھا۔ اسے ہنسی آگئی تھی۔ ہیون نے اسکو ہنستے دیکھا تو مسکرا دیا۔
اندر جہاں ہی اور تھا۔ بریو ہارٹ کی ویڈیوز کے مخصوص سیٹ بنے تھے جن پر جا کر انکے ارکان کے مخصوص پوز کے ساتھ پرستار تصویریں بنوا رہے تھے ایک جانب ٹی شرٹس جن پر بریو ہارٹس کے ممبران کی تصاویر لگی تھیں تو دوسری جانب کسٹمائز پوسٹرز جن پر آپ اپنی مرضی کے الفاظ لکھوا کر انکے کنسرٹ میں جھوم جھوم کر لہرا سکتے تھے۔ جھنڈے بیجز اسٹفڈ ٹوائز کی چینز ڈائریز میوزک البمز جن پر انکے اپنے ہاتھوں سے آٹو گراف ہوئے تھے۔ وہ بے حد دلچسپی سے سب چیزیں دیکھ رہی تھی۔ اسکی دلچسپی دیکھ کر وہ تفصیل سے ان چیزوں کے بارے میں لکھے کارڈز جن پر تفصیلات ہنگل میں لکھی تھیں اسے ترجمہ کر کرکے سنانے لگا۔
یہ گٹار وہ ہے جو سائی چھونگ انکا چینی بینڈ ممبر ایک کانسرٹ میں بجا رہا تھا اسکی اسٹرنگ ٹوٹ گئ تھی اور اسکا ہاتھ زخمی ہوگیا تھا۔ اس پر اسکے خون کے قطرے ہیں۔ یہ ایک پرستار نے لاکھوں وون میں خرید کر یہاں رکھوایا ہے تاکہ دیگر پرستار دیکھ سکیں۔ اسلیئے اس پر برائے فروخت کا بورڈ نہیں یہ ایک پرستار کی عقیدت ہے ۔۔
ہیون کے بتانے پر وہ آنکھیں پھاڑ کر رہ گئ۔ شیشے کے باکس میں سجا وہ عام سا گٹار تھا مگر اسکی مالیت انمول ہو چکی تھی خون کے زرات کی وجہ سے۔
کہاں ہے خون۔ اس نے دیکھنے کے چکر میں باکس سے ناک چپکا دی۔
یہ یہاں ۔۔ کارڈ پڑھ کر اسٹرنگ کے جوڑ کے پاس اور گٹار کے پیٹ پر ننھے ننھے خون کے ذرات جو بہت غور کرنے پر بھی بمشکل دکھائی دے رہے تھے انگلی کے اشارے سے دکھائے۔ اور بنا اس اشارے کے وہ دیکھ بھی نہ پاتی مگر اب بھورے ہوتے دھبے دکھائی دے گئے تھے۔
واہ۔۔ واقعی خون لگا ہوا ہے ہیون وہ ابھی بھی بے خیالی میں ناک چپکائے بچوں کی طرح خوش ہورہی تھی۔
ہیون اسکو دیکھتے ہنسا پھر ہنسی تھمی دیکھتا ہی رہ گیا۔
حد ہے گانے سنو بس ۔ اتنا کافی نہیں الٹا یہاں انکے خاندان کا شجرہ تک لکھ ڈالا خون گٹار تصویریں شرٹیں لائٹس سب ہیں ابھی تک البمز نہیں دیکھنے کو ملیں۔ ہم پاکستانی تو بس ذیادہ سے ذیادہ بس البم خریدتے یا کوئی ائک آدھا کنسرٹ ہوا تو جا کر دیکھ لیا بس۔ اب یہ کیا پاگل پن ہوا
وہ حسب عادت ناک چڑھا کر بولتی گئ۔ تائید چاہنے والے انداز میں اسکی جانب دیکھا تو اسے بس ہونٹ ہلتے دکھائی دیئے بات سمجھ نہیں آئی۔
دے؟ وہ سوالیہ ہوا۔
اسکی غائب دماغی محسوس کرکے وہ ہنسی
تم بھی انکے فین تو نہیں خون دیکھ کر دکھ کے مارے بولتی بند ہوگئ۔
وہ اسے چھیڑ رہی تھی۔
نہیں مجھے سولو سنگرز ذیادہ پسند ہیں۔ اسطرح کے بینڈز میں گانا کم گلوکاروں کا ایکسپوژر ذیادہ رہ جاتا ہے۔ سادہ سا لو سانگ بھی درجن آوازوں کے ساتھ سننے کو ملتا ہے تو اسکا اثرزائل سا ہوتا جاتاہے۔
وہ خلاف عادت آج بے حد سنجیدہ سا تھا۔ہر بات سے اسکا اظہار ہو رہا تھا۔ اس نے کندھے اچکا دیئے۔
میں نے گانے کبھی اتنے غور سے نہیں سنے۔ بس جو اچھا لگا سنا گانے بھی کوئی غور کرنے والی چیز ہیں۔
وہ سرجھٹک رہی تھی۔ ہیون خاموش ہو رہا ۔
لائٹ اسٹکس بینرز اور ٹی شرٹس خرید کر جب کائونٹر پر آئے تو اسکا بل اسکی توقع سے کہیں ذیادہ بن چکا تھا۔
اس نے اپنا پرس کھولا تب تک ہیون کریڈٹ کارڈ سیلز گرل کی جانب بڑھا چکا تھا۔
گھمسامنیدہ۔
سیلز گرل جھک کر شکریہ ادا کر رہی تھی۔ اس نے شاپرز اٹھانے کو ہاتھ بڑھائے تو ہیون نے اسے اٹھانے نہیں دیئے۔ گاڑی میں لا کر سب چیزیں پچھلی سیٹ پر ڈھیر کرکے وہ گاڑی لاک دوبارہ کرکے مڑا۔
ادھر ایک بہت اچھا کیفے ہے چلو اس میں بیٹھ کر کافی پیئیں۔
نہیں۔ اس نے سہولت سے انکار کر دیا۔ مجھے رش سے الجھن آرہی ہے۔
وہ جتنی سنجیدہ نظر آرہی تھی اسے اسکی بات پر یقین کرنا پڑا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گاڑی سے اتر کر ہیون پچھلی سیٹ سے اسکے لیئے خریدئ ٹی شرٹس لائٹس وغیرہ کا شاپر الگ کرکے اسے دینے لگا تو اس نے تھاما ہی نہیں۔
مجھے انکی قیمت بتائو کیا بنی۔ اور اسکی قیمت مجھ سے لینے کا وعدہ کرو تب میں انکو ہاتھ بھی لگائوں گی۔
اسکا انداز بے حد سنجیدہ تھا
کین چھنا میں بھی تو جا رہا ہوں کانسرٹ میں مجھے۔۔
ہیون نے کہنا چاہا مگر وہ بات کاٹ گئ۔
اسکا مطلب ہے میں انکو نہیں لے سکتی۔ آننیانگ
وہ جھک کر خدا حافظ کہتی مڑ گئ۔
اریزہ شا۔
وہ اسکے پیچھے بھاگا۔ اسکو آگے آکر جا لیا۔
کیا ہو گیا ہے یہ ہم نے ساتھ جانے کیلئے ہی تو لیئے ہیں اور کیا ہم دوست نہیں ہیں؟ میں تحفہ نہیں دے سکتا تمہیں کیا؟
اسکے انداز میں اپنایئت بھری خفگی تھئ
دوستی برابری کی سطح پر ہوتی ہے۔ تم مجھے کتنی بار زیر بار کر چکے ہو کبھی لنچ پر مجھے پیسے نہیں دینے دیتے مجھے یہ تحفہ لینا اپنی عزت نفس کو ٹھیس پہنچانے کے برابر لگ رہا ہے میں نے تو آج تک کوئی تحفہ نہیں دیا تمہیں۔
اسکا انداز بچکانہ ہو گیا تھا ہیون کھل کر ہنس دیا۔
اتنی سی بات۔ ٹھیک ہے مجھے اب تم سے اچھا سا تحفہ چاہیئے۔ وعدہ کرو۔ مجھے میری سالگرہ پر تحفہ دوگی میری پسند کا۔
اس نے اپنی چھوٹی انگلی اسکی جانب بڑھائی۔
وہ تحیر سے دیکھنے لگی۔ ہیون منتظر تھا۔
ہمارے یہاں جب کٹی کرنی ہوتی ہے تب ایسے انگلی ملاتے ہیں۔
اس نے منہ بنایا۔
کٹئ؟ ۔۔۔ وہ سوالیہ ہوا۔
مطلب تعلقات ختم کرنے کا اعلان ناراضگئ کا اظہار کرنے کیلئے ہم ایسے بچپن میں انگلی ملا کر منہ پھیر لیتے تھے۔
اس نے بتفصیل بتایا
ہیں وہ کیوں؟ وہ حیران ہوا۔ اس نے فورا ہاتھ واپس کر لیا۔
عجیب بات ہے۔ اچھا کلچرل شاک دیا۔ ہم کوریا میں پکا وعدہ کرنے کیلئے پنکی پرامس کرتے ہیں۔ مگر چلو میں تمہاری زبان پر اعتبار کرتا ہوں مجھے اچھا سا تحفہ چاہیئے۔ یاد رکھنا۔
اس نے اپنائیت بھری دھونس کے ساتھ اسکو تھیلے تھمائے۔
کب ہوتی ہے تمہاری سالگرہ۔ ؟
اس کو اب تحفہ لینے کی فکر ہو گئ تھی۔
بہت جلد ۔ وہ مسکرا دیا۔
آچھا اب اندر جائو تمہیں پہلے ہی ٹھنڈ بہت لگتی ہے۔
اس نے ٹوکا تو اسے بھئ احساس ہوا خنکی کا۔ سر ہلا کر خدا حافظ کہتی تیزی سے اندر بڑھ گئ۔ وہ وہیں کھڑا اسے نظروں سے اوجھل ہونے تک دیکھتا رہا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لفٹ میں اوپر جانے کا بٹن دبا کر اس نے یونہی موبائل جیب سے نکال کر دیکھا تو پانچ مسڈ کالز اور پندرہ پیغامات پڑے ہوئے تھے سب کے سب گوارا کے۔
کہاں ہوں ابھی تک پہنچیں نہیں؟
پانچ منٹ میں آرہی تھیں؟
کیا جواب دیا تم نے یہ ہی بتا دو؟
اچھا جواب دینے کا وقت بھی نہیں۔
اسکا مطلب ہے خوب مزے کیئے جا رہے ہیں۔
ٹھیک ہے میں سمجھ گئ ہاں ہوگئ۔۔
مبارک ہو ۔میں بہت خوش ہوں تم دونوں کیلئے۔۔۔۔
اسے ان تمام پیغامات کا کوئی سر پیر سمجھ نہیں آیا۔
لگتا ہے پی کے ٹن ہوئی وی ہے۔
اس نے یہی میسج لکھا
آر ئو ڈرنک۔
پھر لفٹ کا دروازہ کھلنے پر میسج ڈیلیٹ کردیا۔ اپارٹمنٹ کے سامنے آکر پاسورڈ سے دروازہ کھول کرتھکے تھکے انداز میں اندر داخل ہوئی تو سامنے لائونج کی دیوار پر لگا وال کلال سوابارہ بجا رہا تھا۔
آہ۔ وہ آنکھیں پھاڑ کر رہ گئ۔
مجھے صحیح سیول کی ہوا لگ گئ ہے۔ سوا بارہ بجے یہاں میں کیسا آرام سے باہر گھومتی رہی ہوں۔ جبھی تو میرا واپس پاکستان جانے کا دل ہی نہیں کر رہا۔
وہ خود کو ملامت کرنا چاہ رہی تھی مگر سچ تو یہ ہے یہاں رہنے کا مزا بہت آرہا تھا۔
سب خریداری کے تھیلے اٹھا کر وہ دبے قدموں کمرے میں داخل ہوئی احتیاط سے صوفے پر ڈھیر کر کے کمر سیدھی ہی کی تھی کہ ملگجے اندھیرے میں ایک ہیولہ سا سامنے کھڑانظر آیا۔
ڈر کے مارے چیخ گھٹ ہی گئ سینے میں۔
ہوپ نے آگے بڑھ کر سوئچ آن کرکے کمرے میں روشنی کردی۔
تمہیں کیا ہوا۔
سانس بحال کرتی وہ دل پکڑ کر صوفے پر ہی آن بیٹھی تھی۔
ڈرا دیا تم نے۔ سوئی کیوں نہیں صبح نوکری پر نہیں جانا؟
اسکا لہجہ کڑخت ہو گیا تھا۔ بندہ کب تک ٹوتھ پیسٹ کا اشتہار بن کے رہ سکتا ہوپ جیسی لڑکی کے ساتھ۔
رات بارہ بجے انجان ملک میں انجان لڑکوں کے ساتھ گھومتے ڈر نہیں لگا اپنے گھرکے اندھیروں سے خوف آرہا۔ صحیح دوغلی لڑکی ہو۔
اسکا انداز اور الفاظ اتنے سخت تھے کہ اسکے تن بدن میں آگ سی لگ گئ۔
تمہارے ساتھ مسلئہ کیا ہے۔ سیدھے منہ بات کرنے کی۔تمیز نہیں سکھائی کسی نے شمالی کوریا میں؟
وہ بھی اسے آج طعنہ دے ہی گئی۔ ہوپ کے چہرے پر محظوظ مسکراہٹ دوڑ گئ۔
اتنئ زندگی شمالی کوریا میں نہیں گزری جتنی اسکے گرد ممالک میں گزری ہے۔ یہ سب لہجے کی کڑواہٹیں ترقی یافتہ ممالک کے تمیز دار باشندوں کی دین ہیں۔ مگر شمالی کوریا کی ایک تربیت آج تک میرے ساتھ ہے۔ منافقت نہیں ہوتی مجھ سے۔جو کرتی ہوں سینہ ٹھونک کر کرتی ہوں۔
اسکئ یہ سب تقریر کا سیاق و سباق حوالہ متن کچھ بھی تو سمجھ نہ آیا تھا اسے۔ اسکی تحیر سے پھیلی آنکھوں میں طنز سے جھانکتی وہ باتھ روم کی جانب مڑ گئ۔
مطلب کیا ہے تمہارا ۔ بات پوری کرکے جائو۔
وہ پیچھے مٹھیاں بھینچ کر چلائی تھی ہوپ کو اسکے یوں طیش میں آنےسے جانے کیوں ٹھنڈ سی پڑی تھی کلیجے میں۔ پھر بھی باتھ روم کا دروازہ بند کرکے وہ بے آواز رودی تھی۔
میں بہت نرم انداز سے پیش آتئ رہی ہوں تمہارے ساتھ جسکا تم بہت ناجائز فائدہ اٹھا چکی ہو۔ آئیندہ میرے ساتھ بد تمیزی کی تو مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا سمجھیں۔
وہ حلق کے بل چلائی۔ اپارٹمنٹ کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوتی گوارا کو اسکی طیش بھری آواز نے چونکا دیا۔ ہاتھ میں پکڑے شاپر لیئے وہ بھاگ کر اندر اسکے پاس آئی تھی۔
کیا ہوا۔
یہ ہوپ ۔ میں اسے قتل کردوں گئ کسی دن۔ دیکھنا۔
دانت کچکچا کر کہتی سرخ بھبھوکا چہرے کے ساتھ وہ رو رہی تھئ۔ غصے کی شدت میں مٹھیاں بھینچ کر غصے کے مارے رودے کوئی۔ اس سے ذیادہ معصومانہ غصہ کیا ہو سکتا ہے۔ گوارا کے چہرے پر مسکراہٹ سی آگئ۔ پیار بھری۔
دفع کرو اسے ادھر آئو۔
اسے بچوں کی طرح اپنے ساتھ لگا کر وہ اسے باہر لے آئی۔
اسکا غصہ تم نہیں سمجھ سکتیں ۔اسکو نظر انداز کیا کرو بس۔ اسکے پیچھے اپنا اچھا گزرا دن برباد کرنے کی ضرورت نہیں۔
وہ اسکو سمجھاتئ بجھاتی کچن میں لے آئی۔ شاپرز کچن کائونٹر پر رکھ کر پہلے ٹشو رول لا کر سامنے رکھا۔ وہ سوں سوں کرنے لگی۔
مجھے لگا ہم آج خوب باتیں کریں گے رات کو نیند تمہیں آنی نہیں باتیں سننے کو میں ہی ہوں سو کچھ اچھا کھانے پینے کا انتظام ہونا چاہییے۔
یہ رہے حلال چپس ٹیگ دیکھ کر لائی ہوں ترکی کے بنے ہیں۔ اس نے جھٹ پٹ تیار ہونے والے چپس دکھائے ساتھ اپنی کارکردگی بھئ جتائی۔
، یہ کریکر تبوکی یہ فرائی چکن اسپیشل ایک پاکستانی ریستوران سے لیکر آئی ہوں۔ میرے لیئے یہ خاص والی کولڈ ڈرنک تمہارے لیئے سفید والی ۔
وہ بول بول کر چیزیں ٹھکانے لگانے لگی۔ اپنے لیئے وہ پورا کریٹ لیکر آئی تھی۔
اریزہ ٹھس سی بیٹھی رہی۔ وہ فریج بند کرکے مڑی تو اسے منہ پھلائے کہنیاں میز پر ٹکائے خفا خفا سے انداز میں میز کو گھورتا پایا۔
اب مجھے دکھائو جو ہیون سک نے دیا ۔۔ وہ مسکرا کر اسٹول کھینچتی اسکے سامنے آبیٹھی۔
مجھے اندازہ نہیں تھا کوریا میں لوگ پاپ موسیقی کو سننے کے ساتھ دیکھنا پہننا بھی پسند کرتے ہیں۔
وہ گہری سانس لیکر سیدھی ہوئی۔
اسکی بے تکئ بات پر گوارا نے اچنبھے سے دیکھا اسے۔
وے؟ آئی میں واٹ۔
اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا پھر فورا انگریزی میں بولی۔
ہیون نے مجھے دو لاکھ وون کے گفٹس دیئے۔۔
اریزہ نے منہ لٹکایا گوارا کی آنکھیں حیرت سے کھلیں۔
ارے نہیں۔۔ اس نے کم کرکے بتائی ہوگی کم از کم بھی پانچ لاکھ وون کی تھی۔خیر کیسئ لگی تم نے قبول لیا؟
وہ جانے کیوں پرجوش ہوئی۔
ہاں ظاہر ہے۔ اس نے گہری سانس لی مگر مجھے ہیون سے اتنا مہنگا تحفہ لینا اچھا نہیں لگا میں نے منع کیا لیکن اب سوچ رہی ہوں اسکا بدلہ مہنگا تحفہ دے کر اتار دوں۔ تم میری مدد کروگی نا اسکے لیئے اچھا سا تحفہ لینے کیلئے؟ اریزہ نے آس سے پوچھا
بالکل۔۔۔۔ وہ فورا اثبات میں سر ہلا کر بولی۔
مگر مجھے دکھائو تو کیا دیا اس نے۔اس نے بہت شوق سے پوچھا اسکا اشتیاق دیکھ کر وہ فورا اٹھ کھڑی ہوئی۔
لاتی ہوں۔ مگر مجھے لگتا نہیں مجھے فٹ آئے گی۔
کیوں اتنے تو پیارے ہاتھ ہیں تمہارے۔
گوارا نے کہا تو ہونٹ بھینچتی اٹھ گئ۔
بس ہاتھ ہی پتلے پیارے ہیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گوارا بنا پلک جھپکائے اسے دیکھے جا رہی تھی وہ تھوڑی سی گھبرائئ۔
کیا ہوا بہت چپکا ٹائٹ سا لگ رہا ہے نا۔
وہ جانے کیوں جھینپ سی گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹی شرٹ کے اسٹال میں میں میڈیم سائز نکال کر اس نے دیکھی پھر دوبارہ تہہ کرکے رکھتے بڑا سائز اٹھا لیا۔
ساتھ آئینے میں خود سے لگا کر ابھی دیکھ ہی رہی تھی کہ ہیون نے ٹوک دیا۔
اپنے ساتھ گوارا کو بھی گھسانا ہے اس ٹی شرٹ میں؟
دے؟ اسکی بے سروپا بات پر اس نے حیرانی سے گھورا۔
اس نے ایک نظر اسے دیکھا پھر اسمال سائز اٹھا کر اسے پکڑایا۔
یہ تمہیں آئے گی۔
آندے۔ وہ بے ساختہ بولی۔
انٹرنیشنل میں تو کبھئ مجھے لارج سے کم نہیں آتا۔ میں یہاں کی لڑکیوں کی طرح ہوا ہوائئ نہیں ہوں۔
وہ ہلکے پھلکے انداز میں بولی۔
ہیون نے اسکوشرٹ ہاتھ میں تھمائی اور ایک جانب اشارہ کرکے بولا۔
یہ لو وہاں فٹنگ روم ہے جا کر پہن کر دیکھ لو۔
میں۔۔ یہاں۔
وہ گڑ بڑا سی گئ۔
ہاں ادھر جا کر پہن کر دیکھ لو ٹرسٹ می یہی سائز ہے تمہارا۔
ہیون کے دعوے سے کہنے پر وہ دانت کچکچا کر رہ گئ
میں یہاں۔۔ اس نے طائرانہ نگاہ دوڑائی تو کئی لڑکیاں چینجنگ روم میں جا کر ٹی شرٹ بدل چکی تھیں اب انہی ٹی شرٹس میں گلوکاروں کے قد آدم پوسٹرز کے ساتھ تصویریں بنوا رہی تھیں۔
جائو؟ ۔ اسے تزبزب میں پڑا دیکھ کر زور دینے والے انداز میں بولا۔
وہ میں تو کبھی اس طرح باہر چینج نہیں کرتی۔
اس نے جی کڑا کرکے کہہ دیا۔
کیا مطلب تم لوگ فٹنگ دیکھے بنا خرید لیتے ہو کپڑے؟
وہ اتنا حیران ہوا کہ وہ سٹپٹا گئ۔
نہیں پاکستان میں بھی مالز وغیرہ میں چینجنگ روم ہوتے ہیں۔ اس نے صفائئ دئ۔
بس میں استعمال نہیں کرتی۔
بالکل ہی گائودی سمجھ رہا ہوگا مجھے۔ وہ دھیرے سے بڑ بڑائی۔
کوریا ایک محفوظ ملک ہے اور یہ ایک مشہور کمپنی کا اپنا آئوٹ لیٹ۔ یہ بالکل محفوظ ہے دیکھو اور لڑکیاں بھی تو جا رہی ہیں۔
وہ جانے کیا سمجھا اسے تسلی دینے لگا۔
جائو یہ دونوں لے جائو۔
وہ کشمکش کا شکار دونوں شرٹس تھام گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چینجنگ روم میں خود کو دیکھتے وہ حیران ہی رہ گئ تھی۔
اسمال سائز بالکل جیسے اسکے لیئے بنا تھا۔
اسکا اندازہ کتنا صحیح تھا۔ میں کتنی اسمارٹ ہوگئ ہوں۔
وہ آئینے میں خود کو بے حد خوشی سے دیکھ رہی تھی۔
وائو۔ صارم کیسا مجھے موٹی موٹی کہتا رہتا تھا۔ اور میں یہ تین چیزیں چڑھا کر کیسا گول گپا بن کے پھرتی رہی ہوں یہاں۔ ہا ہا ہا۔ کوئی مجھ سا بھی احمق ہوگا۔ میری تو رخسار کی ہڈی بھی نکل آئی ہے۔
وہ اب اپنا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
وزن کم کرو کسی طرح کے طعنے سننے والی اب سائز زیرو ہو چکی تھی
اف ۔ اس نے جھٹ دو تین تصویریں کھینچ ڈالیں۔
اسے گئے کافی دیر ہو چلی تو اس نے دروازے پر آکر دستک دی۔
اریزہ شا۔
دے۔
وہ پوز مارتی سیدھی ہوئی۔
آرہی ہوں۔
خود کو ایک بار پھر آئینے میں دیکھا تو سنجیدہ سی ہوتی گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکی تصویر اسکرال کرتے گوارا نے موبائل سے نگاہ اٹھا کر سامنے کھڑی اریزہ کو غور سے دیکھا۔
تصویر کے برعکس اس وقت وہ تھوڑی ڈھیلی شرٹ پہنے تھی۔
تمہیں یہ اسمال سائز ہی خریدنا چاہیئے تھا۔ یہ والا بڑا ہے۔
گوارا نے کہا تو وہ مسکرا کر اپنی جگہ آ بیٹھی
یار وہ بہت فٹ ہو جاتا۔
تو اس میں اتنی اچھی لگ رہی تھیں۔ ۔ گوارا نے کہا تو وہ کریکر اٹھا کر منہ میں رکھتے بولی۔
مجھے اپنا آپ اجنبی سا لگ رہا تھا۔
کیوں؟ گوارا کا سوال حاضر تھا
کوئی بڑی وجہ نہیں۔ اسکا انداز ٹالنے والا تھا۔
اچھا یہ بتائو ہیون نے کچھ کہا تمہیں؟
گوارا نے بھی اصرار نہیں کیا بات بدل دی۔
ہاں۔ اس نے گردن ہلائی۔
کیا۔۔۔ گوارا کا اشتیاق عروج پر تھا۔
اس نے کہا ہے کہ وہ میری پڑھائی میں مدد کرے گا۔ اور ہنگل سیکھنے میں بھی۔ پتہ ہے۔ تالی بجا کر خوش ہو کر کہتی وہ نیا کوئی قصہ سنانے لگی تھی۔
گوارا نے گہری سانس بھر کر اسے دیکھا پھر کین کھول کر شراب نگلتے ہوئے ہمہ تن گوش ہو گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم نے کیا سوچا ہے امتحان کی تیاری کے بارے میں۔
ڈرائیو کرتے ہوئے اس نے اچانک پوچھا تھا۔
ہاں۔ کچھ نہیں۔ ایڈون کہہ رہا تھا کہ وہ کسی اکیڈمی سے ہنگل کا کورس کرنے لگا ہے ساتھ امتحان کی تیاری بھی۔وہ اسکے گوشی وون سے قریب ہے اب مجھے تو وہ دور پڑے گا تو سوچ رہی تھی اس ویک اینڈ پر کسی
وہ دلچسپی سے گاڑی سے باہر دیکھ رہی تھی انداز جتنا سرسری تھا یقینا اس ویک اینڈ پر یہ کام ٹلنے ہی والا تھا۔
سگنل لال ہوا تو اس نے گاڑی روکتے ہوئے باقائدہ جھاڑ پلائی۔
بہت کم وقت ہے یہاں کے بچے سر دھڑ کی بازی لگاتے ہیں تم ذیادہ آسان سمجھ رہی ہو۔
میں پڑھائی سر پر سوار نہیں کرتی ۔
اس کا انداز لاپروا تھا۔
ہیون نے مڑکر پچھلی نشست سے ایک شاپر نکال کر اسکی جانب بڑھایا۔
اس میں پراسپیکٹس ہے اور فارم گوارا کی مدد سے بھرنا کل لازمی اسکو جمع کروانا ہے۔
پکڑو۔ اریزہ کو حیران بلکہ بھونچکا بیٹھے دیکھ کر ٹوکا تو اس نے بوکھلا کر تھام لیا۔اور لفافے سے نکال کر دیکھنے لگی
فارم ہنگل کے ساتھ انگریزی میں بھی تھا۔
ہیون مزید بھئ کچھ کہہ رہا تھا
یہ تمہارے اپارٹمنٹ والی ہی روڈ پر پانچ منٹ کی واک پر اکیڈمی ہے۔ ایک غیر ملکی تنظیم کی غیر ملکیوں کی مدد کیلئے بنائی گئ اکیڈمی ہے۔ اس سے تم یہاں کے مروجہ معیار کے مطابق امتحان کو دینے کے قابل ہو سکو گی۔
کل تیار رہنا صبح میں پک کرلوں گا۔
مگر۔ اس نے شکریہ کہنا تھا مگر منہ سے کیا نکلا
ایڈون خود تیاری کر رہا ہے باقی بھی کر رہے ہوںگے ایک تم ہی سکون سے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہو۔
اسکا انداز اپنایئت بھری ڈانٹ۔ وہ چپ ہی رہ گئ۔ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یون بن اسے حیرت سے دیکھتا رہا۔
ایڈون نے سر جھٹکا پھر ہنکارا بھر کر کلب کی رونقوں پر نگاہ ڈالنےلگا۔
وہ دونوں ایک کلب میں آئے تھے۔
اور تمہیں لگتا ہے وہ تمہاری اس دھمکی سے ڈر کر ابارشن کروانے پر راضی ہوجائے گی۔
ہاں۔ ایڈون کا جواب مختصر تھا۔
تم اسکو کھانا بھی نہیں دے کر آئے ۔۔
یون بن کو افسوس بھئ ہوا
اسکو نوالے بنا بنا کر کھلاتا رہا ہوں جبھی اسے صورت حال کی سنگینی کا اندازہ نہیں ہورہا ہے۔ ذرا سی بھوک سے مر نہیں جائے گی اتنا خود مختار ہونے کا شوق ہے تو پوری طرح خود مختار ہو میرے کندھے پر بندوق رکھ کر تو نہ چلائے نا۔ میں بھی دیکھتا ہوں کیسے اتنی مشقت برداشت کر پاتی ہے۔۔ پاپا کی پرنسس نے کبھی ہل۔کر پانی نہیں پیا۔۔ بچہ پالیں گی ہونہہ۔
ایڈون کی تقریر کا ایک لفظ اسکے پلے نہیں پڑا تھا۔ ایڈون کو تھوڑی سئ چڑھ گئ تھی۔ اردو میں سب کہہ گیا یون بن کا یہی خیال تھا کہ یقینا اول فول بک رہا تھا۔۔ لہراتا ہوا وہ۔ڈانس فلو رکی جانب بڑھ گیا تھا۔ گوری چمڑیوں میں وہ دور سے چمک رہا تھا۔
بوتل دور کھسکا کر رکھتے ہوئے اس نے اپنا گلاس اٹھا کر گھونٹ بھرا۔
ناچتے ہوئے ایڈون کو کسی نے کندھے سے پکڑ کر دھکیلا تھا۔ دھڑام سے وہ فرش پر گرپڑا تھا۔
یہ پاکستانئ صحیح آئوٹ اینڈ آڈ ہیں۔
یون بن نے ایڈون پر نگاہیں جمائے ہوئے تبصرہ کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمرے میں نائٹ بلب کی مدھم روشنی پھیلی تھی۔ گوارا بے خبر سو رہی تھی۔ ہوپ کے بھی ہلکے ہلکے خراٹے گونج رہے تھے۔ ایک بس وہی جاگ رہی تھی ۔ موبائل میں اوپر نیچے کرتے جب بری طرح تھک گئ تو آہستہ سے اٹھ کر ٹیرس میں چلی آئی۔ سخت سردی نے اسکا استقبال کیا تھا۔۔ وہ جھر جھری سی لیکر رہ گئ۔ مگر اندر جانے کا دل نہ کیا۔ سامنے ایک چمکتا دمکتا سیول تھا۔ رات کے ساڑھے تین بجے بھی ننھے قمقموں کی طرح روشن شہر کی بتیاں۔
وہ سحر زدہ سی دیکھ رہی تھی۔
موبائل اٹھا کر تصویر بنائی۔ اصل کا عشر عشیر بھی نہ تھا۔
اس نے پھر بھی بلاگ پر لگا دی۔
ہاتھ سے چھٹتے لمحوں کی زنجیر تھامے
وہ اجنبی شہر میں کھڑی لڑکی
کیا دیکھتی ہے
کوئی بتائے اسے آج تو کل بن جائے گا
کہ کل تو پھر آجائے گا
یہ سعی بے کار ٹھہرے گی
لمحے کہاں قید ہو پاتے ہیں
ازل سے گزرتے رہے ہیں
چھوڑو جانے دو۔۔
اب مٹھی سے خون رسنے لگا ہے۔۔۔
وہ لکھ کر ہنسی تھئ۔ کیا لکھا ہے۔ اتنا قنوطی پن کہاں سے آیا اسے خود معلوم نہ تھا اسکے بلاگ کے پرستاروں کو بھی معلوم نہ تھا۔ دھڑا دھڑ پیغامات آنےلگے تھے
پہلا کمنٹ
کیا ہوا؟ اداس ہو ؟
دوسرا
اوئے یہ تو میری پڑوسن نکلی پچھلی چھت پر میں کھڑا ہاتھ ہلا رہا ہوں
ہیں۔
اس نے آنکھیں پھاڑیں۔
کونسی چھت اس نے باقائدہ گردن گھما گھما کر دیکھا۔ آگے بس کالونی تھی جن میں سے کسی کی چھت اس دیو ہیکل عمارت کے آس پاس بھی نہ آ سکتی تھی اور دور مین شہر کا نظارہ۔
بس ما ردی چول۔
اس نے یہی جواب لکھا۔
تیسرا
اوئے ایڈمن کو فرسٹ ایڈ دو جا کے کوئی۔ زخمی ہوگی ہے بے چاری
چوتھا
اس نےلمحہ لمحہ زنجیر کیا۔۔ زخم اٹھائے
میں نے لمحہ لمحہ سمندرکیا اوران پر جہاز چلائے۔
آگے ہنستا ہوا اسمائیلی
یہ صارم تھا۔ وہ بے ساختہ ہنستی چلی گئ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ سمجھ نہیں آیا اجنبی زبان ہے لیکن جب اداس تھا تو اس بلاگ پر لکھ دیتا تھا اپنا حال آج خوش ہوا ہوں سو میں بھی یہیں لکھ دینا چاہتا ہوں۔ آج میں نے عام انسانوں جیسی زندگی جینی چاہی آج ڈیٹ پر گیا آج ڈیٹ کو ڈچ کرکے ایک دلچسپ لڑکی سے ملا اسکے ساتھ کھایا ہنسا اس وقت اسکو سوچ رہا ہوں تو اداس نہیں ہوں۔۔۔
اس نے مسکراتے ہوئے لکھا تھا۔ جواب لمحہ بھر کے توقف سے آگیا تھا
اچھی بات ہے۔ جیتے رہو خوش رہو۔
اسکو یہ دعا اچھی لگی وہ جواب لکھ کر کروٹ بدل گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دراز کھول کر اس نے انگوٹھی کا کیس نکالا۔
کیا کروں کل؟ وہ زیر لب بولا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب میں مجھے آپکو بھی یہی کہنا چاہیئے مگر آج نہیں کہوں گا آجکی یہ دعا بس مجھے لگے آمین۔۔
وہ اسکا عجیب سا جواب پڑھ کر ناک چڑھا گئی
ہاں آپ خوش رہیں میرا کیا۔ مجھے تو میری اماں بھی دعائیں نہ دیتی ہوں گی آپ نے کیا دینی۔
اس نے موبائل کا تالہ لگا کر ٹرائوزر کی جیب میں ڈالا اور اندر کی جانب بڑھ گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
ختم شد
جاری ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
kesi lagi apko salam korea ki yeh qist ? Rate us below