Salam Korea
by Vaiza Zaidi
قسط 36
ہوپ کوریلنگ کے دوسری جانب کھڑے دیکھ کر اسکی جان نکل گئ تھئ جیسے۔
نہیں۔ اسکے منہ سے بے ساختہ نہیں پہلے نکلا۔
ہوپ بری طرح چونکی مڑ کر دیکھا تو وہ پاگل لڑکی اندھیرے میں بھاگی چلی آرہی تھی۔ اسے بہت زور کی ٹھوکر لگی تھئ گھٹنوں کے بل گری
وہ مارے حیرت کے پورا مڑ گئ۔
نہیں آندے۔
۔ہوپ۔ آندے۔ ہوپ رک جائو پلیز ایسا مت کرو۔
بھرائے گلے سے بے تابئ سے پکارتی وہ اپنا گھٹنا سہلاتی لڑکھڑاتی جتنی تیزی سے بھاگ سکتی تھی بھاگ کر اسکے پاس آئی۔ وہ حیرت سے منڈیر پر کھڑی اسکو دیکھ رہی تھی۔ ریلنگ کے آگے بھی اتنی کگر تھی کہ ہوپ آرام سے اسکی جانب مڑ کر ریلنگ تھامے کھڑی تھی۔
رک جائو ہوپ۔۔
ہوپ حیرت سے اسکی شکل دیکھ رہی تھی
تم یہاں کیا کر رہی ہو۔
اریزہ نے آگے بڑھ کر اسکے ہاتھوں پر ہاتھ رکھے
پلیز ہوپ یہ حرکت مت کرو خد اکیلئے ادھر آئو
وہ اسکو بازو سے تھام کر روک دینا چاہتی تھی۔ ہوپ نے کسمساکر خود کو چھڑانا چاہا
میں نے تمہیں بتایا تو تھا اب میرے پاس جینے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ تم نے ناحق زحمت کی۔
جینے کی وجہ یہی کافی ہے کہ تم زندہ ہو۔ پلیز ہم بات کرتے ہیں نا ہوپ۔
وہ روہانسی ہو رہی تھی۔
اب بہت دیر ہو گئ ہے۔ اس نے یکدم اپنے دونوں ہاتھ ریلنگ سے ہٹا دیئے وہ سر کے بل نیچے جانے کو تھی کگر سے اسکا توازن بگڑا اریزہ کے پاس لمحہ بھر تھا فیصلے کو پوری مضبوطی سےآگےبڑھ کر اس نے اسکا ہاتھ تھام لیا۔ جھٹکا لگا تھا ہوپ کے پیروں تلے سے کگر نکلی تھی اسکا وجود ہوا میں معلق ہوا اریزہ بھی اسکے پورے وزن کے ساتھ نیچے ہوئی ریلنگ اسکی پسلیوں پر کھب رہی تھی ۔
پاگل ہوئی ہو کیا۔ ہوپ چلائی۔
چھوڑو میراہاتھ بے وقوف لڑکی تم بھی گروگی میرے ساتھ۔
نہیں تم میرا ہاتھ مضبوطی سے پکڑو یہ سوچ کر کہ اس وقت اگر تم نے میری مدد نہ کی تو میں بھی تمہارے ساتھ بے موت ماری جائوں گئ۔
تم پاگل ہوگئ ہو۔
ہوپ غصے سے چلائی۔ مگر اریزہ کا ارادہ اٹل تھا وہ اسے چھوڑنے کو تیار نہ تھی۔
تم کیوں اپنی زندگی کی دشمن بنی ہو ؟ تمہارے اپنے ہیں گھر ہے دوست ہیں میرے لیئے خود کو مشکل میں مت ڈالو تم مجھے اب نہیں واپس کھینچ سکتیں۔
ہوپ کا بس نہیں تھا اسکا گلا دبا دے۔ اتنئ بے وقوفی
ہاں مگر تمہیں چھوڑوں گی بھی نہیں۔
اسکے انگلیوں پر کھرنڈ تھا اتنی مضبوط گرفت نے زخم تازہ کردیئے تھے۔ ہوپ اپنا ہاتھ اسکے ہاتھوں سے پھسلتا محسوس کر رہی تھی مگر وہ بے وقوف اسے بچانے کو خود بھی آدھی لٹکی ہوئی تھی
بائیسویں منزل اوپر ہوا میں معلق وہ جانتی ہوا کا دبائو اسکی اس کوشش کو جلد ناکام بنا دے گا۔ اسکا ہاتھ چھٹ جائے گا مگر اسکا ہاتھ چھٹنے پر وہ خود بھی اپنا توازن کھو بیٹھے گی او رشائد اسکے ساتھ وہ بھی نیچے آرہے۔
مگر احمق اریزہ کو اپنی ذرہ فکر نہ تھی الٹا گڑگڑا رہی تھی۔
ہوپ پلیز دوسرے ہاتھ سے بھی تھامو مجھے خدا کا واسطہ۔
ہوپ کوشش کرو۔
وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے اسکا ہاتھ تھامے تھئ ۔ اسکی آنکھوں سے گرتے آنسو ۔۔ ہوپ کی ساری بے چینی و دکھ کا جیسے مداوا ہورہا تھا۔
ہوپ میں بھی گر جائوں گئ میری خاطر کوشش کرو اوپر آنے کی پلیز۔
وہ منتیں کر رہی تھی۔
ہوپ کو زندگئ میں پہلی بار احساس ہوا تھا ۔انسان انسانوں سے جڑے ہوئے ہیں کسی نہ کسی طرح آپکی زندگی آپ کو دوسرے کسی انسان کی زندگی سے جوڑے ہوئے ہے۔ اسکے خون کے رشتے سب ختم ہوچکے تھے اب یہ اپنائیت دوستی لگائو جو بھی تھا اریزہ سے ایک نیا تعلق جڑ گیا تھا۔ افسوس اس تعلق کا احساس اسے اپنی زندگی کے آخری لمحوں میں ہوا تھا۔ اریزہ کا ہاتھ اسکے ہاتھ سے چھٹ رہا تھا کوئی چپچپاہٹ سی اسکے ہاتھ کو پھسلا رہی تھی۔ اریزہ بری طرح روتے چلاتے اسے پکار رہی تھی ہاتھ پکڑنے کو کہہ رہی تھی ۔ آخری لمحوں کا کتنا پیارا منظر تھا کوئی اسکے لیئے رو رہا تھا خالصتا اسکے لیئےپکار رہا تھا اسکو ۔۔
ہوپ۔۔
اسکا ہاتھ چھوٹ رہا تھا۔ ہوپ اسکے ہاتھوں سے نکلنے لگی تھی ۔۔ اب ہوپ کو مزید زور آزمائی کی بھی ضرورت نہ تھی ۔۔ چند لمحوں میں اریزہ کا ہاتھ ہمیشہ کیلئے چھٹ جاتا۔ اریزہ کو اپنے کندھوں سے بازو کھنچتے محسوس ہو رہے تھے
ہوپ پلیز۔ اسکے منہ سے جملے بھی نہیں نکل رہے تھے۔
تبھی کسی نے اسے پیچھے سے آکر بانہوں میں جکڑ لیا تھا۔ہاتھ کی تکلیف ناقابل برداشت ہوتی جا رہی تھی۔ اسکے ہاتھ سے ہوپ کا ہاتھ چھوٹ گیا تھا۔ ۔ اس نے اپنا بازو واپس کھینچا تو درد کی لہر سی دوڑ گئ۔ ایک بھیانک منظر اسکی نگاہوں کے سامنے گزر رہا تھا بائیسویں منزل سے گرتی ہوپ زمین پر پہنچتے اسکے وجود نے ٹکڑے ٹکڑے ہوجانا تھا ۔ اریزہ کو جھٹکا سا لگا۔ اسے تھامنے والے نے گھسیٹ کر اسے پیچھے کیا اور تیزی سے دوبارہ ریلنگ کی جانب لپکا شائد ہوپ کےگرنے کے آخری لمحات دیکھنا چاہتا ہوگا۔ اریزہ کی آنکھوں کے سامنے ہوپ نیچے گر رہی تھی ۔ اسکا سر کافی دیر بعد زمین کو لگا تھا ۔ اسکے سر سے فوارے کی طرح خون نکلا تھا۔ خون کے دریا میں تیرتی ہوپ کی لاش وہ دیکھ رہی تھی اسے سب دکھائی دیا تھا۔۔ اسکے قدموں سے جان نکلی وہ کھڑے قد سے گری ۔
ہیون فورا الٹے قدموں واپس اسکے پاس آیا تھا۔
اریزہ تم ٹھیک ہو؟
اسکا چہرہ سفید پڑ چکا تھا پھٹی پھٹی آنکھوں سے وہ سامنے دیکھ کر بھی کچھ نہیں دیکھ پا رہی تھی۔
اریزہ کین چھنا ۔۔ تم ٹھیک ہونا؟؟
وہ اسکا کندھا ہلا کر پوچھ رہا تھا۔اسکا چہرہ دونوں ہاتھوں کے پیالے میں لیکر تھپتھپا رہا تھا۔ اریزہ نے اسکا ہاتھ ہٹایا اور کھڑے ہونے کی کوشش کرنے لگی
ہو ہو۔ہوپ۔۔ ریلنگ کی طرف اشارہ کرتی وہ کہنا چاہ رہی تھی ہوپ کو دیکھو۔
اٹھنے کی کوشش میں وہ دوبارہ لڑکھڑائی۔ ہیون نے اسے سہارا دیے کر کھڑا کیا۔
سب ٹھیک ہے کین چھنا اریزہ۔
ہیون اسکو تسلی دے رہا تھا مگر اب تسلی کس کام کی تھی۔دوسری موت اسکی نگاہوں کے سامنے ہوئی تھی۔ پہلی دفعہ میں سہم جانے پر وہ چیخ بھی نہیں پائی تھی۔ وہ سب چیخیں جو اسکے اندر گھٹ کر رہ گئ تھیں آج اسکے لبوں سے آزاد ہوگئ تھیں۔وہ یک دم متوحش ہوگئ تھی اس نے چیخنا چاہا تو حلق سے عجیب سی آواز نکل پائی۔ وہ چیخ کیوں نہیں پارہی۔ اس نے اپنی سب توانائیاں جمع کرکے چیخنا چاہا ۔ اس بار وہ چیخ پائی تو پھر رکی نہیں بلا توقف چلائے چلی گئ۔۔ ہیون نے گھبرا کر اسکو جکڑ لیا۔
اریزہ ہوش کرو۔ وہ اسے پکار رہا تھا ۔ اریزہ اپنا آپا کھو بیٹھی تھئ کچھ نا سنتے لگاتار چیخیں۔ اسے شدید قسم کا پینک اٹیک آیا تھا۔ لگا تار چلاتے اسکی سانس بند ہونے لگی تھی۔ ہیون کی بانہوں میں وہ بری طرح مچل رہی تھی ۔۔ کم سن بھی گھبرا کر اسکے پاس دوڑا آیا۔
ریلیکس اریزہ سب ٹھیک ہے۔ کم سن بھی تسلئ دے رہا تھا مگر وہ کچھ سن نہیں پارہی تھی یونہی چیختے ہوئے وہ ہیون کے بازوئوں میں ہی ہوش و خرد سے بےگانہ ہوگئ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیون اور کم سن اریزہ کے اسٹریچر کے ساتھ ایمبولنس میں بیٹھ کر اسپتال پہنچے تھے۔ اریزہ انکے بار بار پکارنے پر بھی ٹس سے مس نہیں ہو رہی تھی۔ پیرا میڈیکل اسٹاف نے آکسیجن لگا دی تھی ایک آدھ ٹیکا بھی مگر سب بے سود تھا۔ اسے اسپتال پہنچتے ہی ایمرجنسی میں لے جایا گیا ۔ ہیون کے اپنے اعصاب بالکل شل ہوچکے تھے۔ اسٹریچر کے ساتھ اندر جانے لگا تھا جب ڈاکٹر نے اسے روکا۔ کم سن نے آگے بڑھ کر اسے اپنے ساتھ لگا کر سہار دے کر بنچ پر بٹھایا۔ ہیون کے ذہن میں بار بار وہی منظر آئے جا رہا تھا۔ کم سن اسکے لیئے پانی لیکر آیا بمشکل ایک آدھ گھونٹ بھر کر اس نے اسکا ہاتھ پیچھے کردیا تھا۔ کم سن کے اپنے حواس قابو میں نہیں آرہے تھے۔ کیا بھیانک واقعہ ہوگزرا تھا انکے ساتھ۔ وقت تھا کہ رینگ رینگ کر گزر رہا تھا۔ تبھی گنگشن نونا تقریبا بھاگتی ہوئی ادھر چلی آئیں۔
کیسی ہے اریزہ؟
کچھ پتہ نہیں۔ شائد نروس بریک ڈائون ہوا ہے۔ہوش بھی نہیں آرہا اسے ۔ڈاکٹرز کہہ رہے کہیں برین ہیمریج نہ ہوگیا ہو۔۔۔
کم سن نے وہی بتایا تھا جو ڈاکٹر اسکو بتا کر گیا تھا مگر ہیون نے سر اٹھا کر اسے جن نظروں سے دیکھا تھا وہ شرمندہ سا ہوگیا۔ گنگشن نونا بھی جیسے دل پکڑ کر رہ گئیں۔
ہائش۔ اسکی پینک اٹیک کی ہسٹری بھی ہے۔ اف ۔۔ یا خداوند رحم کرنا۔
انہوں نے تاسف سے اپنے سینے پر کراس بنایا ۔
ہیون نےدوبارہ سر جھکا لیا اسکے دونوں ہاتھوں میں خون کے نشان تھےسفید اپر بھی خون رنگ ہورہا تھا۔۔ نونا کی نظر پڑی تو پریشان ہو کر اسکے پاس آئیں۔
ہیونا یہ خون کیسا ہے تم تو ٹھیک ہو نا۔
وہ گھبرائی سی اسے ٹٹول ٹٹول کر دیکھ رہی تھیں۔
کین چھنا نونا میں ٹھیک ہوں۔
اس نے تسلی دینی چاہی
یہ خون کہاں سے نکلا پھر؟ وہ روہانسی ہو رہی تھیں
اریزہ کا ہے۔ اسکے ہاتھوں میں ریلنگ کا ٹوٹا سریا کھب گیا تھا۔
کم سن نے بتایا
آہیش۔
نونا نے تاسف سے سر جھٹکا۔ ہیون نے آنکھیں میچ لیں۔ چھت پر اندھیرے کی وجہ سے نظر نہ آیا ۔اریزہ کے بیہوش ہونے کے بعد اسکو کم سن اٹھا کر نیچے لایا تو انہیں پتہ لگا ریلنگ کا کوئی کونا ٹوٹا ہوا تھا جس کی راڈ اریزہ کے بازو میں کھب سی گئ تھی۔ ٹھیک ٹھاک خون بہہ رہا تھا۔ ہیون سے ذیادہ تو کم سن کے اوپر خون کے دھبے تھے مگر وہ چونکہ گہرے میرون رنگ کی ہائی نیک اور کالی پینٹ پہنے تھا سو اس پر نونا کا دھیان نہ گیا۔ہیون سفید ہوڈی پہنے تھا تو اس پر خون دو رسے چمک رہا تھا۔
اسکی جیب میں فون بجا تھا۔ اس نے نکال کر نام پڑھا۔۔ مگر کال ریسیو کرنے کی بجائے فون سائلنٹ کر دیا۔
اف یہ والا معاملہ تو ۔۔۔۔۔۔ کیا کروں۔۔۔
کم سن ہونٹ کاٹنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دھیرے دھیرے اس نے اپنی بوجھل پلکیں کھولی تھیں۔ چند لمحے تعین کرنے میں لگ گئے کہ وہ ہے کہاں پھر ذہن شل سا ہوا دوبارہ آنکھیں بند کیں چند لمحوں کیلئے یا شائد کئی گھنٹوں کے بعد اسکو کوئی جگا رہا تھا۔ بار بار گال پر ہلکے ہلکے سے تھپتھپا کر۔
اریزہ اٹھو۔ جاگو شابآش۔
آواز مانوس تھئ۔کون ہے یہ۔ اسکی آنکھیں کھل نہیں پا رہی تھیں۔
اریزہ شی۔ اٹھ جائو صبح ہوگئ ہے۔ اکیڈمی نہیں جانا تم نے؟
اس بار قدرے زور سے اسکے گالوں پر چپت لگائئ گئ تھی۔ یہ مانوس آواز۔ وہ اس بار پہچان گئ تھی۔ یہ گوارا تھی۔۔ اس کا ذہن دھیرے دھیرے بیدار ہونا شروع ہوا۔ پلکیں جھپکتے اس نے دھندلے منظر کو دیکھنا چاہا آہستہ آہستہ منظر واضح ہونا شروع ہوا۔
گوارا اس پر جھکی ہوئی تھی اسکو آنکھیں کھولتے دیکھ کر ایکدم خوش سی ہوکر پیچھے ہٹی۔ اسکے برابر میں ہی ڈاکٹر کھڑا تھا۔۔
میں نے کہا تھا نا میری آواز سن کر اٹھ جائے گئ۔
گوارا ہنگل میں کہتی کھلکھلائی۔
وہ ایکدم اٹھ کر بیٹھی انداز اضطراری تھا وہ کہیں جانا چاہ رہی تھی۔
ریلیکس اریزہ۔ گوارا نے فورا اسکو کندھوں سے تھام کے روکا۔
گوارا ہو۔۔ ہوپ۔۔ہوپ وہ گر رہی ہے۔
حواس بحال ہوتے ہی وہ اس لمحے میں جا پہنچی تھی جہاں سے ہوش کھوئے تھے نگاہوں کے سامنے ایکدم ہوپ کا خون میں لت پت چہرہ در آیا۔
اسکے اوپر وحشت سی طاری ہوئی۔ وہ اسے بتانا چاہ رہی تھی کہ ہوپ مرگئ ۔مگر لفظ کھو رہے تھے۔
اسے بچا لو۔
اسے صحیح طرح دکھائی نہیں دے رہا تھا سر چکرا رہا تھا مگر وہ پوری کوشش سے اٹھنا چاہ رہی تھی۔
ہوپ وہ ہوپ مر جائے گئ۔
بھاگنے کی کوشش گوارا اور ڈاکٹر نے ناکام بنا دی تھئ وہ متوحش سی جو کچھ کہہ رہی تھی اس میں بس ہوپ ہی انہیں سمجھ آسکا تھا۔
خود کو کوستی شرمندگی کی اتاہ گہرائیوں میں گھرتی وہ ایکدم آگے بڑھی اور اریزہ کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں تھام لیا۔
میں یہاں ہوں اریزہ۔
اسکی بات اریزہ تک نہیں پہنچی وہ بدستور چلا رہی تھی
ہوپ کو بچائو۔ ہوپ۔
اریزہ۔۔دیکھو مجھے۔۔ میں ٹھیک ہوں۔
اس نے اس بار اسے ہلکے سے کندھوں سے پکڑ کرجھنجھوڑ دیا۔ وہ ایکدم چپ ہوئی۔ دھندلا منظر واضح ہوا پہچان کے مرحلے طے ہوئے۔ ہوپ کا آنسو بہاتا چہرہ اسکی نگاہوں کے سامنے تھا۔ ہوپ وہ بے یقینی سے پکارتے ہوئے اس سے لپٹ گئ تھی۔ ہوپ نے اسے سینے میں بھینچ لیا ۔ اسکے سر پر تھوڑی رکھتے خود بھی رو دی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں۔ آندے۔
ہیون چونک کے مڑا تھا۔ جانے اسے وہم ہوا تھا یا واقعی اریزہ کی آواز تھی۔ اسکی چھٹی حس کچھ کہہ ضرور رہی تھی۔ وہ تیزی سے پلٹا
کیا ہوا کہاں جا رہے ہو۔
کم سن اسے عجلت میں بھاگتے دیکھ کر خود بھی اسکے پیچھے بھاگ اٹھا۔ لفٹ کی بجائے ہیون کا رخ چھت کی جانب تھا۔ دونوں آگے پیچھے ہی چھت پر پہنچے تھے مگر وہاں کا منظر اتنا غیر متوقع تھا کہ دونوں ایک لمحے کو تو جم کر ہی رہ گئے۔ اریزہ ریلنگ سے آدھی نیچے آگے کو جھکی جیسے لٹکی تھی اب گری کہ تب۔
اریزہ ۔۔
ہیون دیوانہ وار اسے بچانے بھاگا تھا کم سن نے بھی تقلید کی ۔ پاس جاتے ہی ایک اور دھچکا لگا۔ اریزہ خود کشی نہیں کر رہی تھی بلکہ ہوپ کو گرنے سے بچا رہی تھی ہیون نے اریزہ کو پکڑا کم سن نےہوا کے دوش پر ڈولتی ہوئی ہوپ کا بازو تھاما۔ اسے گرنے سے بچا لیا تھا مگر وہ اکیلا اسے اوپر کھینچ نہیں سکتا تھا۔ ہیون اریزہ کو پیچھے کرنے کے بعد فورا اسکی مد دکو آیا دونوں نے کھینچ کھا نچ کر اسے اوپر اٹھا لیا تھا۔ چند ہلکی پھلکی خراشیں ہی آپائی تھیں ہوپ کو مگر اس حقیقت سے انجان اریزہ پر تب تک پینک اٹیک آچکا تھا۔اسکی حالت دیکھ کر جہاں کم سن اور ہیون اسکے پاس بھاگے تھے وہاں ہوپ سنٹ سی ہوتی وہیں بیٹھتی چلی گئ تھی۔ اسکا پورا وجود زلزلوں کی زد میں تھا۔ہیون کے بازو شل تھے پین کلرز کا اثر ختم ہو رہا تھا۔ اریزہ مکمل بیہوش ہوگئ تھئ اسے اٹھانے کی کوشش کی تو بری طرح ناکام رہا۔کم سن اسے اٹھا کر نیچے کا رخ کیا تب تک ہیون ایمرجنسی سروس کو فون ملا چکا تھا۔ سیڑھیاں اترتے کم سن کو ہی خیال آیا
ہوپ۔
ہیون کے ہاتھوں کے طوطے اڑے تھے۔ الٹے قدموں واپس دوڑا تھا مگر خیریت رہی اس بار اس نے موقع غنیمت جان کے دوبارہ کودنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ اکیلی چھت پرمٹھیاں بھینچے بیٹھی بلک رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پورے اڑتالیس گھنٹے بعد مکمل ہوش آیا ہے تمہیں۔ معلوم ہے کتنا پریشان کیا ہے تم نے ہمیں۔
ہوپ کہہ رہی تھئ۔۔۔
میں نے تو اللہ سے بھی دعا کی تھئ۔
گوارا نے لقمہ دیا۔
میں یہی سوچتی رہی کہ میں تمہارا سامنا کیسے کروں گی۔ ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی۔ اریزہ میں سچ میں بہت شرمندہ ہوں اریزہ ۔ مجھے معاف کردو۔
ہوپ نے اسکے آگے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر کہا۔
آندے۔ اریزہ نے اسکے دونوں ہاتھ تھام لیئے۔ ہوپ نے اسکے ہاتھوں پر سر ٹکا دیا۔ ہاتھ میں کنولا لگا ہوا تھا۔ اتنی دیر میں پہلی بار اسے تکلیف کا احساس ہوا۔ اسکے دائیں بازو پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ شائد کوئی زخم تھا۔ اب غور کیا تو پتہ لگا کہ اٹھ کر بھاگ کیوں نہیں پائی دائیں پیر پر بھی کوئی کارڈ نما چیز لگئ ہوئی تھی۔ سر کندھے کسی نادیدہ۔بوجھ سے شل تھے۔ اس نے اپنی گردن سہلائی۔
آئی ایم جیلس۔۔۔۔ آنکھوں میں آنسو بھرے گوارا ماحول خوشگوار بنانے کیلئے مسکرا کر بولی
مجھے لگا تھا میں تمہاری ذیادہ اچھی دوست ہوں مگر لگتا ہے میری غیر موجودگئ میں تم دونوں کی ذیادہ گاڑھی چھننے لگی ہے۔
دونوں چونکی تھیں۔ جھینپ کر ہوپ نے پیچھے ہونا چاہا تو اریزہ نے اسکی گردن میں بازو حمائل کردیا دوسرے بازو سے گوارا کو کھینچ لیا۔ دونوں کو بازوئوں میں بھینچے وہ جیسے دونوں کو کبھی کھونا نہیں چاہتی تھی۔ لگائو کے اس اظہار نے ان دونوں کو موم سا کردیا تھا
ڈاکٹر بھی کھڑا مسکرا رہا تھا۔
آپ اسکا معائنہ تو کر لیں۔
ہیون نے کہا تو ڈاکٹر نے اطمینان دلایا
سب ٹھیک ہے ہم ہوش ہی دلا رہے تھے۔ ہوش میں آنے کے بعد ردعمل بھی ذیادہ شدید نہیں ہے۔ آپ بس انکو کچھ اچھا کھلائیں پلائیں۔۔۔اور پھر بھی کمزوری محسوس کریں تو ڈرپ لگے گی ۔ ورنہ رہنے دیں ڈرپ۔ کرم
ڈاکٹر ہنگل میں بتا رہا تھا مگر کسے۔ اریزہ نے سر اٹھا کر دیکھا تو آنکھیں کھل سی گئیں۔
کم سن ہیون یون بن گنگ شن انی سب موجود تھے اور صبر سے اسکے متوجہ ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔۔اسکے متوجہ ہونے پر سب نے باقائدہ ہاتھ ہلا کر آننیانگ کہا۔ وہ حیران تھی اسکے چہرے پر لکھا تھا۔پھر وہی حیرانی ایک خوشگوار مسکراہٹ میں بدلتی گئ۔ خوش اس سے بھی ذیادہ تھی۔ اتنے لوگ اس کی فکر کرتے تھے اسکے لیئے پریشان تھے۔
اسکے چہرے پر حیرانی دیکھ کر انی مسکراتے ہوئے آگے بڑھیں۔اسکے چہرے کو پیار سے چھو کر بولیں۔۔۔
پاکستانی لڑکیاں خوبصورت ہوتی ہیں سنا تھا مگر یہ نہیں پتہ تھا پاکستانی لڑکیاں اتنی بہادر بھی ہوتی ہیں۔
انکی محبت پر وہ مسکرا کر رہ گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوپ اور گوارا حقیقتا اسے زمین پر پائوں نہیں رکھنے دے رہی تھیں۔اسپتال میں وہ مزید رکنے پر تیار نہ ہوئی تھی سو انہیں اسکی ضد کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑے تھے۔ اس وقت وہ کمرے میں بیڈ پر ٹھاٹ سے لیٹی تھی ہوپ اور گوارا دونوں اسکی خدمت پر کمر بستہ تھیں۔ گنگ شن انی اسکے لیئے اپنے ہاتھوں سے سوپ بنا کر لائی تھیں۔ چکن کارن سوپ۔ اپنے ہاتھوں سے اسکو چمچ میں بھر کر پلایا۔
وہ شش و پنج میں مبتلا ہوئی۔ وہ اتنے پیار سے بڑھائے تھیں۔انکو صاف انکار کرنے کی ہمت نہ ہوئی انکا دل رکھتے ہوئے دو چمچ پی لیئے۔
اللہ معاف کرے۔۔
دل توڑنا ذیادہ بڑا گناہ ہے۔
اسکے پیش نظر یہی بات تھی۔
نونا آپ کے ہاتھ کا سوپ تو مجھے بھی بہت پسند ہے۔ویسے بھی اسکی خدمت کر کر کے میرا وزن کم ہو گیا ہے۔
گوارا نے انکے ہاتھ سے پیالہ اچک لیا تھا۔ اور یوں جلدی جلدی چمچ لیئے جیسے واقعی وہ سوپ پینے کیلئے مری جا رہی ہو۔
مگر وہ۔۔
انی پریشان سی ہوگئیں کیا کہیں ٹوکیں یا نہیں۔انکی مروت۔
کین چھنا انی۔۔
اس نے پیار سے انکا ہاتھ تھپتھپایا۔ وہ جیسے اسکی ہنگل پر نثار ہوگئیں۔گوارا نے مسکراتی نگاہوں سے اسکو دیکھتے بھنوئیں اچکائیں جیسے جتایاہو احسان چڑھایا ہے میں نے۔اس نے بھی سمجھ کر احسان مندی کے اظہار کیلئے ذرا سا سر خم کردیا
اچھا میں اب چلتی ہوں مگر جمعے تک اریزہ تم نے بالکل ٹھیک ہوجانا ہے کیونکہ ہفتے کو میری شادی ہے اور تم نے ضرور آنا ہے۔
انی کی پیار بھری تاکید پر وہ مسکرا کر سر ہلاگئ۔
اچھا گوارا ہوپ اسکو لانا تم دونوں کی ذمہ داری ہے
وہ اب ان دونوں کو بھی دعوت دے رہی تھیں۔
دے۔۔
دونوں نے کورس میں کہا تو وہ ہنس دیں۔
کرم۔ انہوں نے اجازت چاہی۔ ہوپ انکو دروازے تک چھوڑنے گئ۔تو گوارا اچھل کر اسکے سامنے بیڈ پر آبیٹھی۔
اور کیا چل رہا ہے اب تمہارے اور ہیون کے درمیان؟
ہیون بہت پریشان تھا تمہارے لیئے۔ ان دو دنوں میں میں نے اسے سوتے نہیں دیکھا۔ وہی تھا جو ہروقت اسپتال میں رہا۔ اسکی شکل دیکھی ہے اتنا سا منہ نکل آیا ہے۔ کیا جادو کیا ہے تم نے اس پر میں نے اسے کبھی کسی لڑکی کے پیچھے اتنا خوار ہوتے نہیں دیکھا۔
وہ اتنے جوش و خروش سے بتا رہی تھی اریزہ کی مسکراہٹ پھیکی سی پڑتی گئ۔
تمہیں کس نے بتایا تھا میری طبیعت کا۔
اس نے بات بدلنی چاہی۔
مجھے کم سن نے بتایا تھا۔ فورا بھاگئ آئی میں۔ تم تو بیہوش تھیں ہوپ کا الگ رو رو کے برا حال تھا خود کو اتنا برا بھلا کہہ رہی تھی۔ انی الگ پریشان۔اور تم اتنا پکارا جھنجھوڑا اٹھ ہی نہیں رہی تھیں۔ مجھے اتنا ڈر لگا تھا کہ ۔۔
وہ جھرجھری سی لیتی بات ادھوری چھوڑ گئ۔ شائد غلطئ سے بھی اپنے خوف کو دہرانا نہیں چاہتی تھی۔
اریزہ نے اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا۔ تبھئ ہوپ سٹر پٹر کرتی واپس آئی اسکی آہٹ سن کر ہی گوارا نے ایکدم پینترا بدلا او رناک چڑھا کر بولی
میں تمہاری جگہ ہوتی تو ہوپ کو گر ہی جانے دیتی تھوڑا دماغ ٹھکانے پر آجاتا۔ نا بھی آتا ہمارافلیٹ پر سکون ہوجاتا۔
گوارا کی زبان کے آگے خندق تھئ۔اریزہ نے گھورا تو وہ کھلکھلا دی۔
جتنئ دکھی آتما ہوں میں تمہارا فلیٹ آسیب ذدہ کردینا تھا۔ راتوں کو اٹھ اٹھ کر تمہیں میری آہ و بکا سننی پڑتی خاص کر جس دن یون بن آتا رہنے تم دونوں کو ڈرا ڈرا مارتئ میں۔
ہوپ نے ذرا برا نہ مانا ہنس کر بولی اس کی جانب سے اتنا مدلل جواب ۔دونوں آنکھیں پھاڑتئ اسکی جانب مڑیں
میں بھئ کسی بدھ متی پجارن کو بلا کر گھنٹیاں بجواتی تمہارے سر پر۔ ہوش ٹھکانے آجاتے۔
بس بس۔۔ پلیز جھگڑنا مت میں تم دونوں کو چھڑا نہیں پائوں گئ۔
اریزہ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر سیز فائر کرایا
تبھی ہیون کم سن اور یون بن شور مچاتے ڈھیر ساری کھانے پینے کی چیزیں اٹھا لائے۔ اسکے لیئے خاص طور پر پاکستانی ریستوران کی بریانی لائی گئ تھئ۔ یہ سب کورین لوبیا نوڈلز اور تلے ہوئے مرغی کے پنجے اڑا رہے تھے ۔ سب کیلئے سوجو تھی اسکے لیئے اسپرائٹ۔ اسکو اکیلا نہ چھوڑنا پڑے سو اسی کمرے میں جس کو جہاں جگہ ملی ٹک گیا۔
کم سن ان سب کو اریزہ اور ہوپ کی نقل اتار کر دکھا رہا تھا۔بولتے بولتے سب ہنگل پر اتارو تھے۔ چمچ سے نوالہ لیتے وہ محظوظ سے انداز سے ان سب کی شوخیاں دیکھ رہی تھی۔۔ ایک وقت ہوتا تھا وہ اور سنتھیا دنیا جہان بھول کر یوں ہنستی تھیں کبھی کسی رات سنتھیا اسکے گھر رک جاتی تو رات کے دو تین بجے بھی وہ صارم کو اٹھا کر زبردستی ڈرائور ڈیوٹی پر لگا کر باہر آئسکریم کھانے جاتی تھیں۔وہ ہزار نخرے کرتا اپنی شرطیں منواتا مگر تیار ہوجاتا تھا لے جانے کو۔ لانگ ڈرائو پر پلے لسٹ ہمیشہ اریزہ لگاتی تھی۔ ایک سے ایک اداس روندو گانا صارم ناک چڑھاتا تو سنتھیا باقائدہ رونے کی اداکاری کرتی تھی۔ وہ گانوں سے ذیادہ ان دونوں کی جھلاہٹ سے محظوظ ہوا کرتی تھی۔ کبھی یونیورسٹی سے پروگرام بنتا تو ایڈون ساتھ ہوتا تھا۔ کبھی اسکی زندگئ میں دو سے ذیادہ دوست رہے ہی نہیں تھے۔ کبھی ضرورت ہی نہ پڑی۔ کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ کبھی ایسا وقت بھی آئے گا جب اسکا دامن دوستوں کے خلوص سے بھرا ہوگا مگر سنتھیا نہیں ہوگی ۔ ان سب کے چہروں میں سنتھیا کے خدو خال ڈھونڈتے اسکا دل بھر آیا۔ چمچ منہ تک لے جاتے اسکا ہاتھ رکا۔ چمچ واپس رکھ کر اس نے جلدی سے رخ موڑ کر آنکھوں سے پھسل آنے والے آنسو پونچھنے کیلئے ٹشو تلاشا۔ ہیون اسکے چہرے کے اتار چڑھائو کوبہت غور سے دیکھ رہا تھا۔ اریزہ نے اپنی پلیٹ سائیڈ ٹیبل پر رکھ دی تو وہ بھی اپنی پلیٹ اٹھائے خاموشی سے کمرہ خالی کرگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساری رات خواب میں بھی ہوپ کے گرنے ہیون کے بچانے کا منظر ہی چکراتا رہا۔
صبح وہ جب بھرپور نیند لیکر اٹھی تو دھندلے منظر میں دو ہیولے خود پر حاوی ہوتے پائے۔ آنکھیں مسلیں منظر واضح ہوا وہ گھبرا کے اٹھ بیٹھی
کیا ہوا۔
ہوپ اور گوارا اسکے دائیں بائیں آلتی پالتی مارے بیٹھئ دونوں مٹھیوں میں چہرہ ٹکائے غور سے دیکھ رہی تھیں
ویئو؟؟؟۔ اس نے ذرا بھنا کر پوچھا
ہم دیکھ رہے ہیں ہماری نیند اڑا کر تم کیسے سکون سے سولیتئ ہو؟
گوارا نے ناک چڑھائی۔۔
مجھے آج افسوس ہوا ۔
ہوپ نے تاسف سے سرہلایا
کس بات کا؟ اریزہ بھونچکا سی اسے دیکھ رہی تھی
یہی کہ جب چین میں تھی تو ہماری دکان کا ایک مستقل صارف پاکستانی ہوا کرتا تھا ہمیشہ ہماری دکان سے ہی ڈبل روٹی لیتا تھا۔
تو؟ گوارا کو بھی اس بے تکی راگنی کی سمجھ نہ آئی
تو اس سے بنیادی اردو ہی سیکھ لیتی سمجھ تو آتا یہ کیا بڑبڑاتی رہی ہے۔
ہوپ نے وضاحت کی گوارا جہاں کھل کے ہنسی وہاں اریزہ بری طرح کھسیا گئ۔
میں رات کو بولتی رہی نیند میں؟
ریکارڈ کیا ہے میں نے؟
ہوپ نے ویڈیو پلے کرکے اسکی آنکھوں کے سامنے موبائل لہرایا
واقعی؟ دکھائو مجھے بھی گوارا کو اشتیاق ہوا
ہوپ کی بچی ڈیلیٹ کرو اسے فورا۔۔
اریزہ فورا اسکی طرف لپکی مگر وہ جھکائی دے گئ
گوارا اور ہوپ مزے لے لے کر اسکی ویڈیو دیکھ رہی تھیں اریزہ کی آنکھوں میں شرمندگی کے مارے آنسو آنے لگے۔ بیڈ پر سے اچھل اچھل کر پکڑنے کی کوشش کرتی رہی مگر دونوں جھکائی دے جاتی تھیں۔ جوش میں آکر بستر سے اتر کر کھڑی ہوگئ دو قدم ہی چلی ہوگی پیر میں ناقابل برداشت درد اٹھا بیڈ سے ٹھوکر کھاکر سیدھی نیچے آئی۔ گوارا اور ہوپ ویڈیو بھول بھال تڑپ کر اسے سہارا دینے بڑھیں۔
ہٹو دور رہو میرا مزاق اڑاتی ہو دونوں کوئی دوست ووست نہیں ہو دونوں میری۔
ذہن جتنا منتشر تھا نا جانے کیا بک بیٹھی ہوں گی یہ خیال ہی اسے رلانے کو کافی تھا۔پوری فرصت سے وہ بین کرکے رو دی۔
دونوں نے ایک دوسرے کی شکل دیکھی پھر مسکراہٹ دبا کر اسکو سہارا دیکر اٹھانے لگیں
کتنا چھوٹا دل ہے تمہارا بات بات پر رو دیتی ہو روندو۔۔
صارم نے اسکو کندھا مارا تھا۔
گوارا اور ہوپ آپس میں ہنگل میں جانے کیا کہہ رہی تھیں اسے یہ کندھا کافی زور کا لگا آنسو جھٹ پونچھ لیئے۔
گوارا اسکا پائوں ہلا جلا کر دیکھ رہی تھی
پٹھے کھنچے ہوئے ہیں بس مسل اسپیزم میرے پاس شائد جی ہائے کا پین کلر اسپرے پڑا ہوگا دیکھتی ہوں۔
وہ اسپرے ڈھونڈنے اٹھ گئ الماری کھول کر ڈھونڈنے لگی ہوپ نے اپنا موبائل اسکے حوالے کردیا
لو خود ڈیلیٹ کرلو۔
ویڈیو سامنے تھی۔ دونوں یقینا اسے روتا دیکھ کر متاسف ہوئی تھیں اریزہ نے جھٹ موبائل تھام لیا مگر ڈیلیٹ کرنے سے پہلے دیکھنے لگی۔ بے خبر خراٹوں کے بیچ وہ ہوپ کو بچالو کہتی تھی اور کبھی اپنے والدین کو پکارتی تھی۔ ایک جملہ واضح بولا تھا ایسا کبھی نہیں ہو سکتا ۔او رآگے بڑبڑاہٹیں تھیں خود کلامی سے قطع نظر وہ بچوں کی طرح سوتی اچھی خاصی معصوم سی لگ رہی تھی۔ ویڈیو اریزہ سنسر بورڈ نے پاس کردی تھی۔
اس نے ڈیلیٹ کرنے کی بجائے ہوپ کو موبائل واپس تھما دیا۔
ہوپ مسکرادی۔ پھر تجسس سے مجبور ہوکرپوچھا۔
تم کہہ کیا رہی تھیں ہوپ کہہ کر؟؟؟
اریزہ نے انگریزی ترجمہ کرکے بتایا۔ اسکی آنکھیں تشکر سے جھلملا گئیں۔
شکریہ اریزہ ہر چیز ہر بات کیلئے شکریہ۔یہ ویڈیو میں ہمیشہ پاس رکھوں گی اپنے۔
لو اسکو یہ دوا لگا دو
گوارا اسپرے ڈھونڈ لائی تھی اس نے اسپرے اسکی جانب بڑھایا
تم کیوں نہیں لگا رہیں۔؟
اریزہ نے ٹوکا۔
کیونکہ تمہیں یہ چوٹ اسکی وجہ سے لگی ہے تو اس پر فرض ہے اس چوٹ کے مندمل ہونے تک تمہاری کنیز بن کر رہے۔ ہمارے بدھا یہی تعلیم دیتے ہیں ہمیں۔
وہ شاہانہ انداز میں کہتی اسکے برابر میں بیٹھ گئ۔
ہوپ نے قطعی برا نا مانا بلکہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر مہارت سے مساج کرتی اسکے پائوں پر اسپرے کرنے لگی
اچھا یہ اصول بدھا کے تم پر لاگو نہیں ہوتے؟
اریزہ کو پرانا قصہ بروقت یاد آیا تھا۔
مجھ پر بھی ہوتے ہیں۔ اس نے آرام سے سر ہلایا
تو پھر جب یونی کے پہلے دن تم نے میرے دوپٹے کے سرے باندھے تھے اور میرا گلا گھٹ گیا تھا میری گردن بھی چھل گئ تھی تب کہاں تھا تمہارا یہ اصول؟
اریزہ نے کہا تو گوارا حیرت سے اسے دیکھنے لگی
تمہیں لگتا ہے میں نے کی تھی وہ حرکت؟ اریزہ میں کسی کو دشمنی میں بھی نقصان پہنچانے کی خو نہیں رکھتی۔
تو پھر؟ اریزہ حیران رہ گئ وہ اور سنتھیا تو ہمیشہ گوارا کو موردالزام ٹھہراتی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہیں کس نے کہہ دیا کہ سنتھیا میرے ساتھ ہاسٹل میں رہ رہی ہے۔ جی ہائے کی بے نیازی عروج پر تھی۔
مجھے جیسے بھی پتہ لگا یہ اہم نہیں اہم یہ ہے کہ مجھے سنتھیا سے فوری بات کرنی ہے۔۔۔
تم نے نوکری دی ہے اسے اس نے درخواست فارم میں اپنا مستقل پتہ نہیں لکھا ؟ وہاں جا کر مل لو اس سے۔
اس نے تجاہل عارفانہ سے کام لیا۔کم سن دانت پیسنے لگا پھر خود پر قابو پا کر بولا
وہ ابھئ جاب پر نہیں آئی اسکا رابطہ نمبر بند جا رہا ہے میرا اس سے بات کرنا ضروری ہے۔اسکے جاب پر آنے تک کا انتظار نہیں کر سکتا اس سے بہت مسئلہ ہو جائے گا
ویئو؟ (کیوں)؟ ۔ جی ہائے نے بھنوئیں اچکا کر دیکھا۔
۔ایڈون کو جیل میں بھیجا جا چکا ہے۔ کم سن نے اپنی طرف سے خاصی سنگین خبر سنائی تھی
تم نے
تو؟ جتنا ایڈون نے ستایا ہے سنتھیا کو اسکو کم از کم اس بچے کے پیدا ہونے تک تو جیل میں ہی رہنا چاہیئے۔
وہ جم میں کندھوں کی ورزش کر رہی تھی۔ مزید کندھے ہی اچکا کر بولی۔ کم سن ہونٹ بھینچ کر رہ گیا۔ چند ثانیئے خود پر قابو پاکر سخت انداز میں بولا
یہ تمہارا خیال ہے اور تمہارے خیال کی ان دونوں کے معاملے میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔تم صرف سنتھیا تک میرا پیغام پہنچائو بلکہ اس سے کہو باہر آئے میں ہاسٹل کے باہر سے اسے پک کرلوں گا۔
ویٹ ۔ جی ہائے مشین چھوڑ کر کندھے پر ٹکائی تولیہ سے پسینہ پونچھنے لگی۔
کم سن اسے گھور رہا تھا مگر اسکے انداز سے صاف لگتا تھا اسکی جوتی کو بھی پروا نہیں۔۔
تمہارا کیا خیال ہے میں سنتھیا کو کہوں گی اور وہ خوشی خوشی چل پڑے گی۔ ایڈون نے اسکے ساتھ جو کیا ہے وہ اسکی شکل بھی دیکھنا نہیں چاہے گی۔ اور صحیح تو ہے۔ کچھ وقت جیل میں گزارے اپنے برے برتائو پر پشیمان ہو پھر دیکھی جائے گئ۔
اسکا انداز بے نیاز سا تھا
وہ دونوں غیر ملکی ہیں۔ تمہیں کیا لگتا ہے پاکستان ایمبیسی اس کیس کی پیروی کررہی ہے سنتھیا کے والد اسکی خیر خبر جاننا چاہتے ہیں وہ ایڈون پر شک کررہے ہیں کہ انکی بیٹی کی گمشدگئ میں ایڈون کا ہاتھ ہے نہایت سنگین الزامات ہیں یہ۔ ایڈون تو ڈی پورٹ ہوگا ہی ساتھ اگر کسی کو بھنک بھی پڑی کہ سنتھیا کو چھپانے میں تمہارا کردار ہے تو تم بھی اپنا کیریئر بھول جانا۔
جی ہائے تولیہ پٹختی اٹھ کھڑی ہوئی۔تن کے کم سن کے سامنے بولی
کون بتائے گا؟ تم؟ جائو بتائو۔
اسکا انداز تائو دلانے والا تھا
ہاں بتا دوں گا۔ ایک اطلاع دینی ہوگی بس پولیس میں پھر سنبھالتی رہنا ۔
کم سن کا بھی دماغ گھوم گیا۔
دھمکی کسے دے رہے ہو؟
وہ اسکے انداز کو۔خاطر میں نہ لائی۔
جائو یہ شوق بھی پورا کرلو۔۔ تمہارے ہی دفتر میں ملازمت ملی ہے نا؟ پولیس بیان میں بتایا تھا اسے کہ اسکی گمشدگی کے بعد اسے تم نے جاب پر رکھا ہے؟
جی ہائے کا دماغ چلا تھا کیا خوب چلا تھا وہ چکرا گیا۔
دیکھو بات سنو۔ ٹھنڈے دل سے میری بات سنو۔
اسکے نرم لہجے پر بھی وہ بدستور گھورتی رہی
کم سن کو پتہ تھا اس وقت اگر اسکو مزید ضد دلائی تو سنتھیا تک پہنچنا مزید مشکل ہوجائے گاسو غصہ دبا کر سبھائو سے بولا
دیکھو تم معاملے کی نزاکت کو سمجھ نہیں رہی ہو۔ایڈون جیل میں ہے پولیس پورا شہر کھنگال رہی ہے سنتھیا کو ڈھونڈنے کیلئے۔ کہیں نہ کہیں کسی سی سی ٹی وی کیمرے کی ذد میں آئی ہی ہوگی وہ تمہارے پاس آنے تک ۔ انکو کتنا وقت لگے گا ذیادہ سے ذیادہ؟ وہ ہاسٹل پہنچ گئے تو؟ تم کس خوشی میں مصیبت مول لے رہی ہو دوست تک تو ہے نہیں وہ تمہاری۔
وہ آخر میں جھلا گیا تھا۔
دوست کون ہوتا ہے؟ وہ گوارا جس نے اتنے سالوں کی دوستی بھلا کر مجھ پر اس چار دن سے آئی اریزہ کو چنا؟تم ہو دوست میرے جو کھڑے مجھے دھمکیاں دے رہے ہو۔ میں سنتھیا کو کم ازکم دوست سمجھ کر مدد نہیں کر رہی۔
انسانی ہمدردی سمجھو یا پاگل پن مگر سنتھیا تک پہنچنا ہے تو میری شرط پر ہی پہنچوگے۔ورنہ وہ راستہ ہے۔
اسکا انداز دوٹوک تھا
کیسی شرط؟ کم سن نے بے چینی سے بات کاٹی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ گوارا اور ہوپ انی کی شادی میں پہننے کیلئے کپڑے لینے آئی تھیں۔ جرسی کپڑے کے کراپ ٹاپس اسکرٹس اور ون پیس ڈریس بمشکل گھٹنوں تک آتے۔ گوارا اور ہوپ جانے واقعی اسکی پسند سے لینا چاہ رہی تھیں یا اسکو خوش کرنے کیلئے اس سے ہر لباس کے بعد رائے لے رہی تھیں۔شارٹ اسکرٹس ون پیس ڈریس فراکس ۔ وہ مسکرا کر سر ہلاتی مگر اسکے چہرے کے تاثرات واضح تھے۔ سب عام سے لباس تھے۔ جیسے صبح دفتر جاتے اسکول کالج جاتے کوئی لڑکی پہن لے۔ مگر یہاں شائد شوخ اور بھڑکیلے لباس کا رواج نہیں تھا۔ ایک کندھے والی گرے لمبی سی میکسی جس کے گلے پر سلور پٹی کا نگوں کا کام تھا مگر ساتھ ہی ران کے پاس سے بڑا سا چاک کھلا ہوا تھا۔ گوارا پہن کر آئی تو اس نے بے ساختہ موبائل میں موسم کا حال دیکھا۔ باہر اس وقت بھی برفباری ہو رہی تھی۔
اس بار اس نے رسما بھی اریزہ سے نہیں پوچھا تھا۔اسے یقینا یہ بے حد پسند آیا تھا۔ سادہ مگر دلکش رنگ اسے بھی اچھا لگا۔ گوارا خود کو گھوم گھوم کر آئینے میں دیکھ رہی تھی ۔ اسکے پس منظر میں اریزہ بھی اسٹول پر بیٹھی اسے تاک رہی تھی۔
تمہیں سردی نہیں لگے گی؟
اس نے پوچھ ہی لیا۔ گوارا نے حیرت سے مڑ کر اسکی شکل دیکھی جیسے جانچنا چاہ رہی ہو مزاق کر رہی ہے یا سنجیدہ ۔۔
تم مزاق کر رہی ہو نا؟ گوارا کو شک تھا ابھی بھی۔
نہیں ہم یہاں یہ اتنا کچھ لاد کر آئے ہیں کمرہ فل ہیٹڈ ہے یہاں اتنی ٹھنڈ نہیں لگ رہی مگر ہےتو دسمبر نا ۔۔
اریزہ واقعی حیران تھی۔ اپنی بات کی وضاحت دی تو گوارا پہلے تو اسکی شکل۔دیکھتی رہی پھر قہقہہ لگا کر ہنس دی
تو ہم کونسا کھلے آسمان کے نیچے ہوں گے پھابو۔ انی کی شادی انکے اپنے ہوٹل میں ہی ہوگی ۔ فل ہیٹڈ ماحول ہوگا تم فکر نہ کرو نہیں ٹھنڈ لگے گی تمہیں بھی۔
وہ اب باقائدہ مزاق اڑا رہی تھی۔
کیا ہوا کیوں ہنس رہے ہو؟ ہوپ نیا لباس پہن کر آئی تو دونوں کو ہنستے دیکھ کر پوچھ لیا
دونوں نے مڑ کر دیکھا تو ہنسنا بھول کر آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھنے لگیں۔ پیچ اور آف وائیٹ ڈبل شیڈڈ ستاروں اور نگوں سے سجا وہ گھٹنوں تک کا سلیو لیس ون پیس ڈریس فارمل تھا۔ اسکی رنگت جو قریب قریب پیلی لگتی تھی اس لباس میں جیسے اس میں گلابیاں اتر رہی تھیں۔ ہمیشہ کھینچ کر بالوں کی پونی کرنے سے اسکی پیشانی چوڑی لگتی تھی اس وقت بال دونوں کندھوں پر ہموار بکھرے تھے ۔ اس نے آگے سے ترچھی مانگ نکالی ہوئی تھی تو اب اسکی کھنچی ہوئی آنکھیں اس وقت بڑی بڑی لگ رہی تھیں۔ ان دونوں کو ایک ٹک اپنی جانب دیکھتا پا کر وہ خجل سی ہوگئ۔
کیا ہوا اچھی نہیں لگ رہی ؟ میں پھر وہ سفید والا لے لیتئ ہوں۔
وہ فورا بدلنے جانے لگی تو ان دونوں نے اسے دائیں بائیں سے آکر جکڑ لیا
خبردار ۔ یہی لو۔ بہت پیاری لگ رہی ہو۔ کیوپتا مجھے نہیں پتہ تھا تم پیاری بھی لگ سکتی ہو
دونوں کی جانب سے انگریزی اور ہنگل میں اکٹھے تبصرے موصول ہوئےتھے۔ وہ ہنس دی۔
گوما وویو۔
اس نے انکساری دکھانی چاہی مگر گوارا اور اریزہ کو جانے کیوں ہنسی کا دورہ پڑ گیا۔ اس نے پہلے تو گھورنا چاہا پھر ہار مان کر خود بھی ہنس دی۔
چلو۔ ہم دونوں کی شاپنگ تو ہوگئ اب اریزہ کا کیا کریں؟
گوارا نے کمر پر ہاتھ رکھ کربوتیک میں قطار میں سجے بچے کھچے لباسوں پر نگاہ دوڑائی۔
میم یہ دیکھیں یہ آپ پر خوب جچے گا۔۔
ٹی پنک میکسی اٹھائے آخرایک مددگار ہی آگے بڑھی۔
اریزہ نے ایک نظر اس میکسی کو دیکھا دوسری ںظر اس سانولی سلونی سی لڑکی پر ڈالی اور مایوسی سے نفی میں سر ہلا کر بولی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آٹھ بجے کے قریب ہاسٹل پہنچی تھی اپنی دھن میں اند رلابی میں جاتے اسکی نظر ریسیپشن پر ایڈمن کے کچھ لوگوں کے ساتھ کھڑے یونیفارم میں موجود پولیس والوں پر پڑی۔ ایک لمحے کو تو اسکی سٹی گم ہوگئ
اپنے اپر کا ہڈ سر پر چڑھاتے وہ انجان سی بن کر گزرنے لگی کہ کسی نے اسکا نام لیکر پکارا
جی ہائے۔
وہ ٹھٹک کر مڑی تولانڈری روم سے دھلے ہوئے کپڑوں کی ٹوکری اٹھائے مسکراتی ہوئی سنتھیا نکلی۔ اسے پکار کر اب اسکی جانب ہی آرہی تھی۔
وہ۔لابی کے بیچ میں سیڑھیوں کے پاس تھی اسکے دائیں جانب سے سنتھیاآرہی تھی اور بائیں جانب سے وہ پولیس اہلکار نکل رہے تھے۔
ہائش۔ اسکے ہاتھوں سے طوطے اڑے تھے۔
کہاں تھیں تم اتنی دیر سے ۔۔ سنتھیا معمول کے انداز میں انگریزی میں بولتی اسکے پاس آکھڑی ہوئی تھئ۔
آگاشی۔ چھوگئو۔
انہی پولیس اہلکاروں میں سے ایک نے پکارا۔
اسکا انداز اسکی انگریزی پکار پکار کر کہہ رہی تھی کہ وہ کورین نہیں اب یقینا وہ شکل بھی دیکھنے والے تھے۔
دے۔ وہ سنتھیا کو جلدی سے سیڑھیوں کی جانب اشارہ کرکے اوپر جانے کا کہتی مڑی۔ وہ کچھ سمجھتے نا سمجھتے فورا مڑی ابھی پہلا قدم ہی سیڑھی پر رکھا تھا کہ
آنی۔۔ آپ نہیں وہ طالبہ۔
پولیس والے نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے سنتھیا کی جانب اشارہ کیا۔
چھوگیو۔ وہ اب براہ راست سنتھیا سے مخاطب تھے۔
بات سنیں ادھر آئیں۔ہنگل میں وہ اسے بلا رہے تھے۔ جی ہائے نے تھوک نگلا
سنتھیا کو پلٹنا پڑا
ہم ایک غیر ملکی طالبہ کی گمشدگی کی اطلاع ۔۔ پولیس والے نے بتاتے ہوئے سنتھیا کی جانب اسی کی تصویر بڑھائئ۔
فل میک اپ میں شارٹ سے گھٹنوں سے کہیں اونچے گلابی فراک میں ایڈون کے کندھے سے جھولتی وہ یقینا فلٹر کی وجہ سے ٹھیک ٹھاک گوری لگ رہی تھی۔ بالوں کا انداز بھی مختلف تھا۔ یہ انہوں نے یقینا ایڈون کے موبائل سے ہی لی تھی۔ وہ سنٹ سی کھڑی دیکھ رہی تھی۔ جی ہائے نے ایک نگاہ اس پر ڈالی۔ اپر او رٹرائوزر میں ملبوس اس وقت معمول سے ذیادہ کم رنگت اور تھوڑے سے سوجے منہ والی وہی تصویر والی سنتھیا ہے یقینا پہلئ بار اسے دیکھنے والے کیلئے پہچاننا مشکل تھا۔
آنی۔ اس نے تصویر اچک لی۔
یہ لڑکی ہاسٹل میں رہتی ضرور تھی مگر دو مہینے قبل جا چکی ہے۔ اسکا داخلہ ختم ہو گیا تھا نالائق سی تھی کوئی پاکستانی لڑکئ یہ۔
وہ ہنس کر بولی۔ دونوں پولیس اہلکاروں کو شک بھئ نہ گزرا۔
آپ کا نام۔
پولیس والا اب سنتھیا سے مخاطب تھا۔
مشیل۔ یہ میری انڈین دوست ہے۔
جی ہائے کی جانب سے ہی جواب آیا تھا۔دونوں نے سر ہلایا۔ اسے دیکھا پھرکرم کہہ کر حسب روائت جھک کر سلام کرتے چلے گئے۔
سنتھیا نے طویل سانس لی تھی۔جی ہائے نے تھوک نگل کر اسکی شکل دیکھئ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتنی احمق ہو تم۔۔مزے سے ہاسٹل میں گھوم رہی تھیں ۔کس نے کہا تھا لانڈری کرنے جانے کو۔ ؟ گنتی کی چار غیر ملکی لڑکیاں ہیں اس وقت یہاں۔کسی نے بھی دیکھ لیا یا کبھی تم سے ہاسٹل کا کارڈ چیک کرلیا تو ؟ خود تو مروگی مجھے بھی مروائوگئ اپنے ساتھ۔
جی ہائے کو غصہ چڑھا تھا اور کیا خوب چڑھا تھا۔کمرے میں ٹہل ٹہل کر وہ غصہ نکال رہی تھئ۔ اسکے کپڑے احتیاط سے تہہ کرتی وہ سر جھکا کر رہ گئ۔
آئی ایم سوری۔ تم خود ہی تو کہہ رہی تھیں کیفے جا سکتی ہوں میں تمہارا کارڈ لیکر تو میں نے سوچافری ہوں تو لانڈری کر دوں مدد ہو جائے گی تمہاری۔
اس نے من من کرتے صفائی دی۔ جی ہائے نے سر پکڑ لیا۔
ہائش۔ کھانا الگ بات ہے۔ کیفے سب ڈیپارٹمنٹس کا مشترکہ ہے وہاں درجنوں غیر ملکی طلباء ہوتے ہیں مگر اس ہاسٹل میں۔۔ ہائش۔ جانے دو۔آئیندہ احتیاط کرو۔ اگر یہ ہاسٹل تک پہنچ گئے ہیں تو تمہیں جلد از جلد یہاں سے نکلنا چاہیئے۔میں تمہاری مدد کر سکتی ہوں مگر تمہاری مدد کرنے کے چکر میں کسی مشکل میں پھنسنا نہیں چاہتی۔
جی ہائے کی بات پر وہ سر اٹھا کر اسکی شکل دیکھنے لگی۔
جی ہائے نے اسکی شکل دیکھی پھر گہری سانس لیکر بولی۔
کم سن آیا تھا آج یونیورسٹی۔ مجھے ملا تھا جم میں بتا رہا تھا تمہارے والدین نے ایڈون پر اغوا او رحبس بیجا کا کیس کیا ہے۔ وہ جیل میں ہے اس وقت۔
کیا۔ وہ جسطرح تڑپ کے اٹھ کھڑی ہوئی۔ جی ہائے نے سخت ناگواری سے گھورا
کب کیوں؟ میرا مطلب ہے اسکو کیوں جیل میں ۔ پاپا ایسا کیسے کر سکتے؟ کب سے جیل میں ہے وہ؟
سنتھیا بری طرح گھبرا گئ تھی
اپنا دماغ درست کرو۔ یہ کس ایڈون کے لیئے پریشان ہو رہی ہو جس نے تمہیں اس مصیبت میں اکیلا چھوڑ دیا ہے۔
جی ہائے ڈپٹ کر بولی۔ سنتھیا چپ رہ گئ
مجھے کم سن دھمکی دے رہا تھا کہ وہ پولیس کو بتا دے گا تم یہاں ہو اور تمہیں چھپانے میں میرا بھی کردار ہے ۔ ایسا کچھ ہوا تو میرا کیریر ختم۔ اور پولیس یہاں تک پہنچ چکی ہے تمہارے سامنے ہے۔ اب تم خود فیصلہ کرو ۔ گرفتاری دے کر ایڈون کو چھڑانا ہے یا یہاں سے بھاگ کر اس بچے کو بچانا ہے۔۔۔
وہ اطمینان سے اسکی صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے بیڈ پر دراز ہوئئ۔
سنتھیا اسکی شکل دیکھ کر رہ گئ۔۔۔
میں کہاں جائوں؟ اس نے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔
گوارا کے فلیٹ جا سکتی ہو۔ وہ تم پر اپنے فلیٹ کا دروازہ بند نہیں کرے گی۔ ہاں اریزہ پولیس کو بتا سکتی ہے کہ تم وہاں ہو۔
جی ہائے موبائل کی سکرین پر نظر دوڑانے کے ساتھ اپنی سوچ کے گھوڑے بھی دوڑا رہی تھی۔۔۔
پھر۔ سنتھیا چیں بہ چیں ہوئی۔ کپڑے تہہ کرتےہوئے ہاتھ رکے۔ جی ہائے نے موبائل سے نگاہ اٹھا کر اسکی جانب دیکھا وہ سب کپڑے تہہ کر چکی تھی۔
انکو سامنے بائیں جانب والی الماری کھول کر رکھ دو۔
جی ہائے کے کہنے پر وہ بے دھیانی میں تیزی سے اٹھ کر الماری کھولنے بڑھی پھر خیال آیا تو مڑ کر اسکی شکل دیکھنے لگی۔
دائیں جانب والی الماری سوہائی کی ہے۔
جی ہائے نے جیسے وضاحت کی ۔ سنتھیا حقیقتا آہ بھرتی اسکے کپڑے ٹھکانے لگانے لگی۔
ویسے فلٹر کونسا استعمال کیا تھا بہت گوری لگ رہی تھیں سچی بات پہلی نظر میں تو میں بھی نہ پہچان پائئ۔
اسکرال کرتے اگلا تبصرہ برآمد ہوا۔
صرف گوری۔۔ اس کا ذہن اسی میں اٹک گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج تو اس ہال کی چھب ہی نرالی تھی۔ قیمتی آرائشی لیمپس سجے تھے قمقموں کی لڑیاں تا حد نگاہ گول میزیں جن پر نہایت ہی قیمتی و نفیس پوشاک میں ملبوس کوریا کے امیر ترین گھرانے براجمان تھے۔ ویٹر مستعد سے ادھر سے ادھر لوگوں کو چیزیں پیش کرتے پھر رہے تھے۔ ایک جانب وائن کا فوارہ نصب تھا۔ قیمتی مشروب کی چسکیاں لیتے خوش گپیوں میں مگن لوگ اور ایک جانب وہ کونے کی الگ تھلگ میز منتخب کرکے خاموشی سے بیٹھا ان سب کو دیکھ رہا تھا۔یہاں اسکے خاندان کے کئی لوگ تھے جنہوں نے اسے بس دور سے دیکھا او رخ موڑ لیا۔ اسکے احباب تھے جنکے لیئے وہ مزید سودمند نہیں تھا۔ سو اس سے ملنے کا انکے پاس وقت نہیں تھا۔۔۔اس محفل میں اسے ادھورے پن کا ذیادہ ہی احساس ہو رہا تھا۔ اپنے نہیں اس محفل کے ۔۔ادھورے کپڑے ادھورے قہقہے ادھورے لوگ۔ سب کچھ آدھا ادھورا
اسکا موبائل بجا تھا۔ من جون کا پیغام تھا۔
آرہے ہو؟
اسکا شدید اصرار ہی اسے آج اس شادی میں لایا تھا۔
آچکا ہوں بھائئ۔
اس نے پیغام بھیجا۔
آتا ہوں۔
جواب آیا تھا۔ دولہا بنا اسکا بھائی اسکی فکر میں ہلکان تھا۔ اسکے چہرے پر مسکراہٹ در آئی۔ من جون ہمیشہ سے اسکے ساتھ اتنا ہی کرتا تھا ہاں اب اسے احساس ہوا تھا اسکی بے لوث محبت کا ورنہ پچھلا جون جے ان سب باتوں سے مبرا تھا کون کس طرح پیش آتا ہے اسکے ساتھ اسے پروا نہیں تھی اور خود وہ کیسے دوسروں کے ساتھ پیش آئے یہ اسکے اپنے مزاج پر منحصر تھا۔
وہ گہری سانس لیکر اٹھ کھڑا ہوا ۔ میز پر سے اپنا لایا بکے اورتحفہ اٹھاکرہال پر نگاہ دوڑا کر من جون کو ڈھونڈنے لگا۔من جون ہال کے دوسرے سرے پر تھا۔ کچھ اس نے قدم بڑھائے کچھ وہ فورا اپنے مہمان سے معزرت کرتا اسکی جانب چلا آیا۔
مبارک ہو ہیونگ۔ اس نے تحفہ اسکی جانب بڑھایا۔ اس نے شکریہ کے ساتھ تھام لیا۔
بہت اچھے لگ رہے ہو۔
من جون کی بے ساختہ تعریف اسے خجل کر گئ۔
اسکا پی اے ہمراہ تھا اس نے تحفہ اور بکے اسے تھمایا۔ پھر اسکا ہاتھ تھام کر اسے اپنے ساتھ لیکر ایک نہایت خوبصورت لڑکی کے پاس لا کھڑا کیا۔ وہ لڑکی کسی لڑکے کے ساتھ کھڑی تھئ چونک کےمتوجہ ہوئی۔
سارا اس سے ملو پہچانا اسے؟
علی بھی چونک کے دیکھنے لگا۔ وہ لڑکی اسے دیکھی بھالی لگی تھی۔
جون جے ہے نا۔ وہ لڑکی پہچان کر ایکدم خوش ہوئی تھی جیسے۔علی نے ذہن پر زور ڈالا تو کچھ دھندلی یادیں تازہ ہو ہی گئیں۔
سارا یو سانگ چچا کی بیٹی۔
من جون نے اسکو مشکل سے نکالا۔ وہ مسکرادیا۔ پہچان تو لیا تھا۔ سارا نے تعجب سے اسکو دیکھا۔
کم آن جون جےہم اکٹھے مڈل اسکول تک پڑھتے رہے ہیں پھر میں امریکہ چلی گئ تھئ۔ تم سنائو کیسے ہو جون جے؟
وہ اپنا مرمریں ہاتھ اسکی جانب بڑھائے دوستانہ مسکراہٹ سجائے پوچھ رہی تھی۔
علی۔ علی نام ہے اب میرا۔
اس نے اپنے مخصوص دھیمے انداز میں تصحیح کی۔
سارا حیران سئ کبھی اسکئ شکل دیکھے کبھی من جون کی۔
علی کا جوابا ہاتھ نا ملانے کا ارادہ دیکھ کر سارا کوخفت سے بچانے کیلئے من جون نے سارا کا بڑھا ہوا ہاتھ تھام لیا۔
ہاں اس نے نام بدل لیا ہے۔ وہ ہلکے سے کھسیانی ہنسی ہنس کر بولے۔
نام بدل لیا کیوں؟ سارا حیران تھئ
یہ مت کہنا ستاروں کی چال کی وجہ سے کسی دو نمبر ٹیرو کارڈ ریڈر کے کہنے پر نام بدل لیا۔
علی نے فہمائشی مسکراہٹ سجا کر بھائئ کی جانب دیکھا۔ وہ قصدا نظر چرا گئے۔ اسے اب انکے اتنے اصرار کی وجہ سمجھ آرہی تھی۔
اس نے سر جھٹکا۔
یک نہ شد دو شد۔ ادھر آہجوشی اسکا رشتہ ڈھونڈنے میں مگن ہیں اور ادھر ہیونگ۔ اگر وہ پرانا والا جون جے ہوتا تو خاصا خوش ہوتا۔ سارا کو مڈل اسکول میں کافی لائن بھی مارتا رہا تھا۔مگر اب اسے سارا میں معمولی سی دلچسپی بھئ محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ اتنے سالوں میں وہ پہلے سے ذیادہ پر اعتماد اور حسین ہو چکی تھی۔اور باتونی بھی۔ جانے کیا کیا بول رہی تھی۔ اس نے سننا چاہا۔ مگر نگاہ بھٹک کر اسکے برابر کھڑے لڑکے پر پڑی۔ جو ان سب سے انجان کہیں دیکھتے جیسے کھو گیا تھا۔ اس نے اسکی دلچسپی کا محور دیکھا تو فورا مسکراہٹ آگئ چہرے پر۔ بنتا تھا اسکا یوں محو ہوجانا۔
میرے والد کو بھئ تمہارے والد نے نمبرنگ پر لگا دیا ہے۔ آجکل ہم ہر کام آڈ نمبر پر کرتے ہیں۔
من جون نے کہا تو وہ قہقہہ لگا کر ہنسی
ہائش۔۔۔ نہ کریں سچ؟ حد ہے۔ آہبوجی حد کرتے ہیں کبھی کبھی۔
وہ ہلکے پھلکے انداز میں کہہ کر ہنسی۔
اب یہی دیکھ لو میں نے آہبوجی کو کہا ایمرلڈ گروپ کی اسپیلنگ بالکل غلط ہیں مگر وہ کہتے ایسے ہی ٹھیک ہے ڈبل ای خوش بخت ہے گروپ کیلئے۔
وہ کافی بے تکلفی سے مخاطب تھی۔ آپ جناب کا تکلف ایک طرف کر رکھا تھا۔
من جون نے محظوظ سے انداز میں اشارہ دیا۔ ہمارے لیئے بھی ۔۔ جبھئ لی گروپ سےجوائنٹ ونچر کر رہے ہیں۔
انکا اشارہ اپنی شادی کی طرف تھا۔
ہمارا گروپ بھی لی گروپ کے ساتھ اہم ڈیل کر رہا ہے۔
اس نے شرارت سے کہہ کر ہیون کے بازو میں ہاتھ ڈال کراس کو دیکھا۔ ہیون انکی گفتگو سے بالکل لاتعلق رخ موڑےدائیں جانب دیکھ رہا تھا اسکے بازو کھینچنے پرچونک کرمتوجہ ہوا۔
دے۔ آہ دے۔ ۔ آننیانگ۔ وہ بری طرح سٹپٹایا۔ اسکا ہونے والا بہنوئی اسکے سامنے کھڑا تھا اور وہ سلام تک کیئے بنا مگن کھڑا تھا۔
آننیانگ۔ من جون نے مسکرا کر جواب دیا۔ انکے برابر کھڑے علی کے چہرے پر محظوظ سی مسکراہٹ تھی۔ اسے دیکھ کر مزید گہری ہوگئ۔وہ اسکی مسکراہٹ پر سٹپٹا سا گیا۔ بڑی جتاتی مسکراہٹ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ہوپ اور گوارا کے ساتھ ہی داخل ہوئی تھی۔
روشنیوں نے حقیقتا لمحہ بھر کو آنکھیں چندھیا دی تھیں۔ اس نے کافی رشک و دلچسپی سے اس رونق کو دیکھا۔
تھیبا۔ گوارا کو اپنے جزبات چھپانے کا کوئی شوق نہیں تھا۔ بڑا سا منہ کھول کر تھیبا کہا تھا۔ وی آئی پی پروٹوکول ملا تھا۔ ان تینوں کو ریسیو انئ کے ذاتی ملازم نے کیا تھا۔ان کے لائے ہوئے تحفوں اور بکے کو اسی نے وصول کیا تھا۔ پھر انکو اپنے ہمراہ سب سے آگے کی وی آئی پی مہمانوں کیلئے لگائی نشستوں تک لایا تھا۔ نرم میرون صوفے دو رویہ گولائی میں قیمتی سنہری سجاوٹ سے سجے تھے ۔ یہاں ذیادہ تر ادھیڑ عمر انکل آنٹیاں شراب کے جام اٹھائے خوش گپیوں میں مگن تھے۔ بالکل سامنے اسٹیج سجا تھا۔ پھولوں قمقموں کی دلکش سجاوٹ بڑی سی اسکرین۔ کچھ کچھ سینما جیسا منظرلگ رہا تھا
آپ لوگ بیٹھیئے میم یہیں آئیں گی
پی اے انہیں بتا کرجھک کر اجازت طلب کرتا چلا گیا۔ یہاں مہمانوں سے ویٹر خود آ آکر پوچھ رہے تھے۔ ایک انہیں نشست سنبھالتے دیکھ کر فورا پاس چلا آیا
آپ کچھ لینا پسند فرمائیے گا؟
ویٹر ادب سے پوچھ رہا تھا۔
وائن اور کوئی سادہ پھلوں کا جوس۔
گوارا نے تینوں کیلئے آرڈر دیا۔
پہلی بار مجھے ہیون کو نا پٹا سکنے کا دکھ ہو رہا۔اتنا وی آئی پی پروٹوکول تو کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔
گوارا ہنسئ۔
ہیون کی وجہ سے نہیں ہمیں نونا کی وجہ سے مل رہا ہے یہ انکا پی اے تھا۔
اریزہ نے تصحیح کی۔ گوارا نے کان پر سے مکھی اڑائی۔
جائو جائو۔ تم نا سمجھ ہو ۔ پھابو۔ ہو۔ انی تو بننے جا رہی ہیں کم گروپ کی بہو یہ سب پروٹوکول ہے لی گروپ کے وارث کا۔ لی ہایون۔کا۔ کیوں ہوپ؟
اس نے ساتھ بیٹھی ہوپ کو ٹہوکا دیا۔
ہوپ اپنی کسی سوچ میں گم خاموشی سے بیٹھئ تھی۔ اسکے ٹہوکے پر چونکی
ہمم۔۔ دے؟ ( کیا)
کچھ نہیں۔۔ گوارا چڑی۔
ویٹر انکا آرڈر لے آیا تھا۔ دو وائن ایک مالٹے کا جوس۔
ابھی پہلا گھونٹ ہی بھرا ہوگا کہ انی کا بلاوا آگیا۔ اس بار دو خوبصورت سی لڑکیاں انہیں بلانے آئی تھیں۔
آپکو انی اندر بلا رہی ہیں۔
وہ لوگ حیران ہوتی انکے ساتھ چل دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نسبتا گہرے گلے کی سفید براق سلیو لیس میکسی جس کے گلے پر نفیس سے ننھے نگوں کی ایک تہہ تھی۔۔ آستینیں ہلکے سے آسمانی رنگ کی جھلملاہٹ بھرے اسٹونز کے کام سے سجی تھیں۔ایسی ہی جالی کےکھلے سے گائون نے میکسی کو مرمیڈ اسٹائل دیا تھا۔ ۔سفید ہیرے کے نازک سے ٹاپس لانبی گردن کو مزید نمایاں کر رہےتھے۔ دو موٹی لٹیں انکے گول سے چہرے پر جھول رہی تھیں۔ ہیرے کا ہی لاکٹ پہنے ۔ سر پراونچا سا جوڑا جس پر سفید ہی عیسائی مخصوص دلہنوں والا جالی کا گھونگھٹ ٹکا تھا۔ گنگشن نونا کا میک اپ نہایت ہلکا پھلکا تھا ہلکی گلابی ہی لپ اسٹک میں وہ بے تحاشا حسین لگ رہی تھیں۔ ہلکی فیروزی فراکوں میں ملبوس لڑکیوں کے جلو میں جو یقینا برائڈز میڈز تھیں فو ٹو سیشن کرواتے انکی نظر ان پر پڑی تو کیمرہ مین کو رکنے کا کہہ کر وہ فورا استقبال کیلئے اٹھ کھڑی ہوئی تھیں۔گوارا اور ہوپ ان سے ملنے آگے بڑھی تھیں تو وہ ٹھٹک کر اپنے ملبوس کو دیکھنے لگی۔
ٹی پنک وہ ٹیل والی میکسی پہلی نظر میں بالکل گنگشن نونا کے شادی کے لباس سے ملتی جلتی لگتی تھی۔بالکل ویسا ہی ستاروں سا جھلملاتا گلا۔ جالی دار آستین جس پر اسٹونز کا کام تھا اسکا رنگ گلابی اور سفید یقینا رنگ کی مناسبت سے مختلف تھا یا انکی میکسی انکے متناسب سراپےپر مکمل فٹ تھی تو اسکی میکسی گھیر دار تھئ۔۔۔
تھیبا۔ تمہارا رنگ صاف ہے تو مجھے لگا تھا یہ رنگ تم پر جچے گا مگر یہ تو بہت اٹھ رہا ہے تم پر۔۔
انی خود اٹھ کر اسکے پاس آئیں۔ پیار سے اسے کندھوں سے تھام کر بولیں۔
بہت بہت پیاری لگ رہی ہو۔
اسکے گال سے گال ملا کر وہ پیار کرتے ہوئے بولیں۔
آئشہ۔ وہ مڑ کر کسی کو پکارنے لگیں۔ کچھ ہی فاصلے پر کھڑی وہ لڑکی فورا انکے پاس چلی آئی۔
آئشہ کمال کردیا تم نے یہ ڈریس سلیو لیس لگ ہی نہیں رہا ۔
میم کو فٹنگ پر بھی اعتراض تھا اور سلیو لیس پر بھی تو میں نے سوچا اسکو سلور کے امتزاج سے ایک نیا انداز بنا دوں۔
بہت اچھا کیا ہے جو بھئ کیا ہے ۔ اریزہ میں اتنی مایوس ہوئی تھی جب آئیشہ نے بتایا تمہیں ڈریس پسند نہیں آیا۔ مگر ماننے والی بات ہے آئیشہ تم کمال کی ڈیزائنر ہو۔ تم نے ڈریس کی لک نہیں بدلی۔ پتہ ہے اریزہ یہ ڈریس اسی نے ڈیزائن کیا ہے۔ کونسی فراک ہے یہ؟
راجستھانئ۔ آئیشہ نے تصحیح کی۔
آئیشہ بہت اچھے اور انوکھے آئیڈیاز لاتی ہے۔۔
مجھے پتہ تھا تمہارے مزاج کو یہ سمجھ جائے گی۔ اسی لیئے خاص طور سے اسی سے ڈریس ڈیزائن کروایا
وہ توصیفئ انداز میں بتا رہی تھیں وہ اتنی غائب دماغ تھئ اتنی شاکڈ تھی کہ مسکرا بھی نہ سکی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں یہ نہیں پہن سکتی۔
اریزہ نےصاف انکار کیا تھا۔گوارا حیرت سے دیکھنے لگی
کیوں بھئ؟
یہ کلر آپکو پسند نہیں آیا ؟
وہ لڑکی جیسے پریشان ہوگئ۔
نہیں کلر تو بہت اچھا ہے۔مگر مجھے آئے گا ہی نہیں۔ دوسرا اتنا گہرا گلا ہے کہیں اور چلتے ہیں۔
وہ کندھے اچکا کر جانے کو تیار کوئئ۔
خوامخواہ نہیں آئے گا۔پہن کر تو دیکھو۔
گوارا نے اسکا ہاتھ پکڑا
یہ اتنا گہرا گلا بنا آستین میں ایسا لباس پہن نہیں سکتی گوارا۔
اسکے کہنے پر گوارا اور وہ بھارتی لڑکی ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں۔وہ لڑکی کچھ سوچ کر اسکی جانب بڑھئ۔
دراصل میرا نام آئیشہ ہے۔ میں ہی ڈیزائنر ہوں اس ڈریس کی۔ آپ مجھے بتائیں آپکو یہ ڈیزائن پسند آیا؟ آپ کی ناپ لیکر ہم اس میں آپکی مرضی کی تبدیلیاں کر سکتے ہیں۔
کیوں؟ ۔۔ اریزہ نے کہا نہیں تھا مگر اسکا چہرہ پورے کا پورا سوالیہ نشان بنا تھا۔
دراصل یہ فیوژن ڈریس ہے۔ یہ کام راجستھانی فراک پر ہوتا ہے جو ہم نے اس پر کیا ہے۔ بس اسکو نیچے سے گھیر دینے کی بجائے مغربی طرز پر مرمیڈ اسٹائل دیا ہے۔ یہ انڈین ویسٹرن مکس ڈریس ہے۔ اگر آپ چاہیں تو ہم اس پر اسی طرح کی جالی دار آستین بنا سکتے ہیں ۔ آپ ناپ دے دیں تو گلا بھی ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔
آئشہ کے کہنے پر وہ گہری سانس لیکر بولی
اور آپ جو اتنی محنت کریں گی میرے لیئے اسکے اضافی کتنے چارجز ہوں گے؟
اس نے سیدھا سوال کیا۔
کوئی نہیں۔ آپ کیلئے ہی تو بنا ہےیہ لباس۔
ہیں۔ وہ حیران ہوئی گوارا ان دونوں کو اردو میں بولتے دیکھ کر بیچ میں کودی۔
کیا ہوا مجھے بھی بتائو۔ آئیشہ نے ہنگل میں اسے بتایا تو گوارا نے سر پیٹ لیا۔
اف ۔ لڑکی اتنا کچھ کرنے کو تیار ہے تمہارے لیئے اور تمہیں میں نے صاف کہا تھا کہ یہ ڈریس میری جانب سے تمہارے غسل صحت کا تحفہ ہے اب بحث بند کرو اور اپنی ناپ دو دو دن ہیں ہمارے پاس دو دن میں یہ ٹھیک ہو جائے گا نا۔
گوارا نے کہا تو آئیشہ سٹپٹا سی گئ
بس دو دن میں؟
گوارا نے گھورا تو مسکین سی شکل بنا گئ
ہاں ہو جائے گا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے اب خیال آیا تھا۔ وہ بوتیک کیا نام تھا کچھ لی کرکے ہی۔ ۔
انی نے اسے اپنے ساتھ برابر بٹھا کر کئی پوز بنوائے تھے۔ اسکو پھولوں کا گلدستہ تھما کر اپنے ساتھ ساتھ رہنے کی تاکید بھی کی تھی۔ اپنی سہیلیوں سے اپنی چھوٹی بہن کہہ کر تعارف کرایا تھا۔اس حد درجہ پروٹوکول پر سب پر ہی اسکی اہمیت واضح ہو رہی تھی۔ برائیڈ میڈز اسکو الگ خاص اہمیت دے رہی تھیں۔۔
دلہا دلہن کے ساتھ فوٹو سیشن کرنے آیا تو وہ گہما گہمی کا فائدہ اٹھاتی باہر نکل آئی۔ہال میں اب دھیمے سروں کی موسیقی چل رہی تھی۔
ایک کونے میں کپل ڈانس ہو رہا تھا۔ گوارا کی جھلک اسے وہیں یون بن کے ساتھ ڈانس کرتی ہی نظر آئئ۔ ہوپ جانے کہاں چلی گئ تھی۔ اتنے سارے انجان چہروں میں وہ بالکل ہی تنہا رہ گئ۔ گلدستہ سنبھالتی وہ نسبتا کم رونق والی جگہ ڈھونڈنے لگی۔ ہنگامے سے الگ کونے میں لگی میز کرسی دیکھ کر وہ اسی طرف چلی آئی۔ دلہا دلہن کی آمد کا غلغلہ سا مچا۔ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے سہج سہج کر قدم اٹھاتے وہ اسٹیج کی جانب بڑھ رہے تھے۔ اسپاٹ لائٹ کیمرے۔ باقی ہال کی بتیاں دھیمی کر دی گئ تھیں۔اسٹیج پر پادری انکا نکاح پڑھانے کیلئے منتظر کھڑا تھا۔
اس نےموبائل نکال کر وقت دیکھا۔ دس بج رہے تھے۔ آج تک جتنئ بھی شادیاں دیکھی تھیں یہ ان سب سے مختلف تھی۔ نا غیر ضروری رسمیں ۔ دلہا دلہن اسٹیج پر گئےدونوں نے اسکرین پر اپنی زندگی کی کہانی پر مبنی ایک تعارفی ویڈیو دیکھی ۔ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر نکاح کیلئے ہاں کہا۔ بس ختم شادی۔ اب دلہا دلہن کے گھر والے انکے لیئے مختصر پیغامات اسٹیج پر جا کر ریکارڈ کرا رہے تھے۔ اسے حقیقتا جمائی آگئ۔ منہ پر ہاتھ رکھ کر جمائی روکتے رخ موڑا تو چونک سی گئ۔
اسکے بالکل سامنے والی کرسی پر علی بیٹھا کھانا کھارہا تھا۔
سوری شائد میں نے آپکو ڈرا دیا۔
وہ شستہ انگریزی میں بولا۔
وہ تھوڑا برا مان گئ تھی اگر اسکا استاد نہ ہوتا تو شائد ڈانٹ بھی دیتی ابھی جز بز سی ہو کر اٹھنے لگی۔
میں دراصل یہاں پہلے سے بیٹھا تھا۔ پانی لینے اٹھا تھا واپس آیا توآپ یہاں بیٹھی تھیں۔
اس نے اسکو جانے کےپر تولتے دیکھ کر صفائی پیش کی۔
ویسے اتنا خاموش اور پرسکون گوشہ آپکو اور کہیں نہیں ملے گا۔
اس نے سرسری سے انداز میں کہہ کر اپنے سامنے رکھے وائن گلاس میں سے پانی کا گھونٹ بھرا۔
وہ اٹھتے اٹھتے پھر بیٹھ گئ۔ بات تو صحیح تھی
اس وقت اچھی خاصی گہما گہمی نظر آرہی تھی ہال میں۔ لوگ ہی لوگ سر ہی سر۔
تبھئ ویٹر انکے پاس چلا آیا۔
سر آپکو کچھ چاہیئے۔
وہ سرونگ ٹرے تھامے تھا کچھ شراب کے ساتھ کھانے والے روائتی کورین اسنیکس۔ علی کے انکار کرنے پر ویٹر اسکی جانب بڑھا ۔
اسکو ان چھوٹے چھوٹے پیپر کپس میں موجود اسنیکس کا بالکل اندازہ نہیں تھا کہ کیا بلا ہیں سو سہولت سے انکار کردیا۔
وہ موبائل اٹھا کر گوارا کو میسج کرنے لگی۔
کہاں ہو۔ مجھے بھوک لگ رہی ہے
اس نے میسج دیکھا بھی نہیں۔ اسے غصہ آنے لگا۔
اسکی بھنوئئیں تن سی گئیں چہرے پر ناگواری چھا گئ۔ علی نے دھیرے سے میز بجا کر اسے متوجہ کیا ۔
ہیون ابھی مصروف ہے۔
وہ حقیقتا منہ کھول کر اس اطلاع کا مقصد سمجھنے کی کوشش کرنے لگی۔ کیوں بتایا جا رہا ہے اسے بھئ؟
وہ وہاں ہے۔ علی نے اسٹیج کی جانب اشارہ کیا۔ وہ بے ساختہ گردن گھما کر دیکھنے لگی
ہیون اسٹیج پر کھڑا اپنی بہن کیلئے نیک تمنائوں پر مبنی مختصر سی تقریر کر رہا تھا۔ بلیک ٹائی ڈارک گرے شرٹ اور بلیک ہی قیمتی ڈنر سوٹ میں بالوں کو سلیقے سے ایک جانب سے مانگ نکال کر سمیٹے ہوئے نک سک سے تیار وہ خاصا وجیہہ لگ رہا تھا۔ عام دنوں سے کہیں مختلف۔ کورین لڑکے ویسے خوب ٹیپ ٹاپ سے رہتے ہیں ہیون بھی ایک سے ایک قیمتی اپر کوٹ یا ہڈی پہنے ہوتا تھا مگر آج پہلی بار اس نے اسے یوں تھری پیس سوٹ پہنے دیکھا تھا۔
وہ واقعی بہت اچھا لگ رہا تھا۔ اسکے چہرے پر دھیمی سی مسکراہٹ آگئ تھی۔تیار ہونے کی وجہ سے؟ وہ سوچ میں پڑی۔ اس کی یاد داشت
میں ایسا کوئی دن نہیں تھا جب اس نے ہیون کو
برے حلیئے میں دیکھا ہو۔ ٹینس کھیلتا ہیون ، چرچ میں دعا مانگتا، کنسرٹ میں بریو ہارٹ کی شرٹ میں ملبوس ہیون ، مسجد اسکے مقابل ٹی پنک شرٹ پہن کرکھڑا ہیون یا ۔۔۔
اریزہ۔
علی کے پکارنے پر وہ سیدھی ہوئئ۔
میں جانے لگا ہوں آپکو کچھ کھانے کیلئے چاہیئے تو سیلف سروس بھی ہے اور آپ ویٹر کو آرڈر بھی کر سکتی ہیں۔
علی جانے کیلئے تیار کھڑا تھا اس کو یقینا مہمان نوازی کے خیال سے مخاطب کیا تھا۔
پ۔ پانی۔۔
اس نے اپنے خشک ہوتے لبوں پر زبان پھیری۔
علی نے اسکی میز کے سامنے اوندھے رکھے وائن گلاس کو سیدھا کیا میز پر ڈس پوز ایبل پانی کی بوتل رکھی تھی اس سے بھرا۔ اور اسکی جانب بڑھا دیا۔
وہ دل بھر کر شرمندہ ہوئی۔
میں نے دیکھا نہیں تھا۔ آئیم سوری۔
اٹس اوکے۔ آپ مہمان ہیں ۔۔ علی کا انداز ہمیشہ کا مہربان تھا۔
کچھ کھانا چاہیں تو بھی بتا دیں میں ویٹر کو بلا دیتا ہوں۔
اسکی پیشکش اچھی تھی مگر وہ کیا منگواتئ۔سہولت سے منع کردیا
نہیں ٹھیک ہے شکریہ۔
ویج آئٹمز بھی ہیں۔
علی کے کہنے پر وہ سوچ میں پڑی۔
سوال عجیب ہے مگر کیا میں پوچھ سکتی ہوں آپ کیا کھا رہے تھے؟
اسکا سوال واقعی عجیب تھا علی کے چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ آگئ تھئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسٹیج سے اتر کر وہ متلاشی نظروں سے اسے ہی ڈھونڈ رہا تھا۔ یون بن گوارا سامنے ہی ڈرنکس کے پاس تھے۔ اس نے فون ملا کر کان سے لگایا ہی تھا کہ اسے کچھ فاصلے پر وہ میز پر بیٹھی نظر آگئ۔ فون کاٹ کر وہ اسی کی جانب بڑھنے لگا
ہیون۔ سارا نے اسکا بازو پکڑ کر روکا تھا۔
ہیون آہبوجی پوچھ رہے ہیں تمہیں۔
چہرے پر فہمائشی مسکراہٹ سجائے سارا بہت انداز سے اسکا بازو تھامے تھی۔ فلیش لائٹس چلتے کیمرے یقینا وہ اس وقت بہت سے نظروں کا محور تھے۔
میں آتا ہوں۔
اس نے دھیرے سے کہہ کر بازو چھڑانا چاہا
مسکرائو۔
وہ بنا ہونٹ ہلائے دانت کچکچا کر بولی
اس نے بھی سنبھل کر مسکان سجا لی۔پھر اسی کے انداز میں بولا
میں اس وقت واقعی جلدی میں ہوں۔
میں مشکل میں بھئ ہوں۔
اس نے مسکرا کر اسکی شکل دیکھی
مجھے ان پر اور کچھ اور لوگوں پر ثابت کرنا ہے کہ اب میں مزید بلائنڈ ڈیٹس پر نہیں جانے والی۔ سو چھے بال( پلیز) ۔
اب اسکا انداز تھوڑا بدلا تھا۔ منت بھرے انداز میں بولی۔
ہیون کچھ کہنا چاہ رہا تھا کہ آہبوجی کا پی اے اسکے سر پر آکھڑا ہوا۔وہ گہری سانس لیکر اسی گوشے کو دیکھنے لگا۔ وہ اب اکیلی نہیں تھی اور بات اسے مزید فکرمند ہی کرگئ تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے ایک بڑی سی پلیٹ اٹھائی۔ سادے ابلے چاول لیئے۔ ویجیٹیبل سلاد سے پیاز لوبیا کھیرا اٹھایا چقندر اور بروکلی اٹھاکر سجائے ابلے انڈے کے قتلے ایک ڈش کے اوپر سے اٹھائے ایک پیس تلی ہوئی مچھلی کا رکھا۔ سادہ دہی ڈال کر کالی مرچ چھڑکی سوپ کے ساتھ سجے ساسز میں سے سویا ساس اس پر چھڑکا۔ اولیو آئل ڈالا۔ ہری پیاز اور لوبیئے کی جڑوں سے سجایا۔ پلیٹ بنا کراسکی جانب بڑھائی۔ وہ اتنی حیران ہوئی کہ بس دیکھتی ہی رہ گئ۔
آپ یہ۔۔
پارٹ ٹائم شیف بھی ہوں میں۔
وہ مسکرا کر بتا رہا تھا۔
اس نے واقعی کوئی نئی ڈش ہی بنا دی تھی۔ اسکی گارنشنگ اتنی اچھی کی تھی کہ ایکدم کھانے کو دل کرنے لگے۔
یہ تو دیکھنے میں کوئی نئی ڈش لگ رہی ہے۔
اگر یہ آپ نے میرے سامنے نہ بنائی ہوتی تو میں یہی سمجھتی کہ یہ ڈش بھی یہاں سرو ہوئی ہے۔
اس نے کھلے دل سے تعریف کی۔ پلیٹ تھام کر سلیقے سے گھمسامنیدہ بھی کہہ دیا۔
پلیٹ خاصی بھاری تھی مہنگی طرین کراکری کورین ثقافتی ظروف کا کوئی اعلی نمونہ۔
اس نے دونوں ہاتھوں سے پلیٹ پکڑی ہوئی تھی۔
علی نے اسکو غور سے دیکھا پھر پوچھنے لگا
میٹھا کھاتی ہو؟
ہوں ۔ اس نے یونہی سر ہلایا۔
بھوک اتنی لگ رہی تھی کہ بے دھیانی میں اس نے ابلے انڈے کا ٹکڑا وہیں کھڑے کھڑے منہ میں ڈال لیا تھا۔ چمچ کانٹا پلیٹ میں موجود تھا مگر اس نے چٹکی سے اٹھا کر کھالیا تھا۔۔
یونہی میز تک واپس آنے تک وہ انڈے کے کئی ٹکڑے کھا گئ۔ میز کرسی پر بیٹھ کر اطمینان سے کھانا شروع کیا تو مزید حیرت ہوئی اس نئے بن جانے والے پکوان کا ذائقہ بہت مزے کا تھا۔مچھلئ بھی سینکی ہوئی ذائقے دار تھی۔ اس نے جانے کتنے دنوں بعد شوق سے سیر ہو کر کھانا کھایا۔
علی میٹھے میں فروٹ سیلڈ اور روائتی کورین طرز کی مٹھائیوں اور ڈیزرٹس کی ایک پلیٹ بنا لایا تھا۔
یہ جو بھئ بنا ہے بہت بہت مزے کا بنا ہے۔
علی کو دیکھ کر اس نے دل سے تعریف کی۔
وہ اخلاقا اسکا ساتھ دینے کیلئے اپنے لیئے بھی تھوڑی سی پھلوں کی سلاد لے آیا تھا۔
وہ ہر لقمہ جیسے لطف لیکر کھا رہی تھی۔ساتھ کمنٹری بھی جاری تھی۔
گوبھی مجھے بالکل پسند نہیں رہی مگر بروکلی چاول کے ساتھ اچھی لگ رہی ہے۔
کیسا لگا کوریائی کھانا پھر؟
علی نے یونہی بات برائے بات کہا تھا۔
عجیب بہت عجیب۔
اس نے صاف گوئی سے کہا۔
تم ابھی تو کہہ رہی تھیں کہ پسند آیا ہے تمہیں۔
علی اسکے فوری پینترا بدلنے پر حیران ہوا۔۔
اچھا تو لگ رہا ہے مگر یہ بہت عجیب امتزاج ہےویجی ٹیبل سلاد میں سیب ہے اورفروٹ سلاد میں کھیرا۔ مطلب پاکستان میں ایسا کرنے کا کوئی سوچ نہیں سکتا ۔ کھیرا سبزی ہے اور سیب پھل۔ آپ انکی بے حرمتی نہیں کر سکتے انکی جگہائیں بدل کر۔ گناہ عظیم ہے یہ۔
بے حرمتئ؟ علی کو ہنسی آگئ۔
ہاں تو اور کیا
وہ اب میٹھے کی طرف متوجہ تھی۔
یہ کیا ہے بہت مزے کا ہے؟
چھوٹے سے کپ کیک کو بیچ سے دو حصے کیا ہوا تھا جس میں سے سیاہ سیال نکل رہا تھا۔
ذائقہ وہ چاہ کر بھی پہچان نہ سکی۔
یہ لال لوبیے کا ساس ہے۔علی نے بتایا تو اس نے باقائدہ آنکھیں پھاڑیں
واقعی؟ لال لوبیا سچی؟ ہمارے یہاں اسکا بس نمکین سالن بنتا ہے۔ تھیبا میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ میٹھا لوبیا مزے کا ہوسکتا ہے۔ واہ۔
وہ سر دھن رہی تھی۔
تم اگر ماسٹر شیف کی جج بنتیں تو یقینا ہر امیدوار فائنل تک پہنچتا۔ علی ہنس دیا
آپ دیکھتے ہیں ماسٹر شیف؟
اسےجانے کیوں حیرت ہوئی
ہاں اب تک کا ہر سیزن دیکھا ہے۔ کورین لیکن۔
اس نے وضاحت بھئ کی۔
ہمم۔ ظاہر ہے۔ اب میں یوکے کا دیکھتی ہوں۔شوق سے مگر مجال ہے کوئی پکوان بنانے کا دل کرجائے۔ پھیکے سیٹھے کچے پکے کھانے
اس نے منہ بنایا۔
میں تو اس لیے دیکھتا ہوں کہ ترکیبیں آزما سکوں تم نے جب ترکیبیں ہی نہیں آزمانی تو کیوں دیکھتی ہو؟
علی کا سوال جائز تھا وہ خود بھی سوچ میں پڑی۔
پتہ نہیں۔ ایویں دیکھتی ہوں۔ اس نے ذیادہ ذہن پر زو رنہیں ڈالا۔
میں نے ذیادہ کھالیا آج ۔ آپکا ایک بار پھر شکریہ
اس نے ضائع نہ ہو اسلیئے پلیٹ صاف کرلی تھی۔ کھا پی کر کافی توانائی محسوس ہو رہی تھی۔سو اخلاقیات عود عود کر آرہی تھیں۔
تم مچھلی کھا لیتی ہو اکثرسبزی خور تو مچھلی بھی نہیں کھاتے۔۔
علی نے کہا تو وہ تنک کر بولی
آپ سے کس نے کہا میں سبزی خور ہوں۔ میں شدید گوشت خور ہوں سبزی بنا گوشت کے کھانا پسند نہیں مجھے اور چکن کی تو دیوانی ہوں میں۔
پھر یہاں سبزی پر اتنا زور کیوں؟ اس دن ہیم کھانے پر غصہ کر رہی تھیں یہاں صرف ویج آپشنز پر دھیان تھا تمہارا۔
علی کو سچ مچ حیرت ہو رہی تھی۔ اریزہ نے گہری سانس لیکر الٹا اس سے سوال کرلیا
آپ کیوں صرف سبزیاں کھا رہےتھے یہاں بیٹھ کر؟۔اپنے گھر میں تو چکن بھی بناتے ہیں۔
میں مسلمان ہوں حلال گوشت کھاتا ہوں مسلمان ایک مخصوص طریقے سے ہی کٹنے والا جانور کھا سکتے بس۔
علی نے برا مانے بنا وضاحت کی
ہاں تو آپکو کیا پتہ کہ میں بھی مسلمان ہوں ۔
اریزہ نے کہا تو وہ نفی میں سر ہلاگیا
نہیں۔ تم مسلمان نہیں ہو اتنا تو پتہ لگ جاتا ہے۔
اسکا انداز تیقن بھرا تھا
کیا مطلب کیسے لگ رہا میں مسلمان نہیں ؟ وہ حیران رہ گئ۔
تو کیا تم مسلمان ہو؟ علی کا انداز بے یقینی بھرا تھا۔
ہاں ۔ اسکی پیشانی پر سلوٹ پڑی۔ زور دے کر بولی
میں پاکستانی مسلمان لڑکی ہوں۔
واقعی ؟ اسے جیسے ابھی بھی یقین نہیں آیا تھا۔
بالکل۔ آپ نے کیسے اندازہ لگایا کہ میں مسلمان نہیں؟
اسے حیرت ہورہی تھی یہاں تو اسکو لگتا تھا ہر کوئی پہلی ملاقات میں ہی جان جاتا ہے یہ بات۔
مجھے حیرت ہے۔۔ علی نے لگی لپٹی رکھے بغیر کہا۔
تم دیکھنے میں بالکل مسلمان نہیں لگتی ہو۔
کیا مطلب مسلمان لڑکیوں کے سر پر سینگ نکلے ہوتے ہیں؟
اسے غصہ آگیا تھا۔ اسے غصے میں آتے دیکھ کر علی خاموش ہوگیا۔
تم برا مان رہی ہو معزرت مجھے جو لگا میں نے بتا دیا۔
برا ماننے والی بات ہی ہے۔ میں نے کبھی اپنا مزہب اپنی شناخت نہیں چھپائی۔
اریزہ کا انداز مزید سخت ہوگیا تھا۔
تم نے چھپائئ نہیں ہوگی مگر دکھائی بھی نہیں۔ تمہیں دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ تم مسلمان ہوگی۔خود کو دیکھو مسلمان لڑکیاں ایسی ہوتی ہیں بھلا نا اسکارف نا کوئی دوپٹہ کھانا کھاتے بسم اللہ بھی نہیں پڑھی بوائے فرینڈ کرسچن ہے تمہارا کونسی بات ہے تم میں مسلمانوں والی
علی انتہائی تلخ حقیقت اسی رسان بھرے انداز میں بتا رہا تھا۔اور وہ ششدر سی سن رہی تھی۔
یہ سب اسی کے بارے میں کہا جا رہا ہے؟ اسکو یقین نہیں ہو رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد
جاری ہے
Kesi lagi apko salam korea ki yeh qist?Rate us below