Salam Korea URDU WEB NOVEL Episode 41

Salam Korea Urdu Novels

salam korea by
vaiza zaidi

قسط 41

باتیں کرتے سیڑھیاں چڑھتے آج انہیں ذیادہ وقت نہیں لگا تھا۔ گوارا اندر جا کر عبادت کرنے لگی تو وہ اور ہوپ باہر دھوپ سینکنے بیٹھ گئیں۔
ایک اچھی خبر ہے ایک بری۔
گوارا حسب عادت ڈرامائی انداز میں باہر آکر بولی۔وہ اندر سے مند رکا تبرک سفید ریپر میں سلیقے سے لپٹی سفید مٹھائی لیکر آئی تھی۔
اریزہ کو یہ مٹھائی پسند تھی جبھی فورا ہاتھ بڑھا کر لے لی۔ گوارا نے دوسرا تبرک ہوپ کی جانب بڑھایا اس نے لیکر اریزہ کے کوٹ کی جیب میں ڈال دیا۔ گوارا گھور کر رہ گئ۔ اسکے کوٹ سے واپس لینے کیلئے ہاتھ بڑھایا تو اریزہ نے چپت لگا دی
اور لے لینا اندر سے۔ وہ منہ بنا کر ہاتھ واپس کھینچ کر رہ گئ۔
خبر سنائو اب۔۔ ہوپ کو خبر میں دلچسپی تھی۔
اچھی خبر پہلے۔۔ اریزہ بولی
بری خبر پہلے۔۔ ہوپ بولی
دونوں کہہ کر ایک دوسرے کو گھورنے لگیں۔
پجاری صاحب بلا رہے ہیں ہمیں وقت بھی مل گیا ہے مگر آج ان پر کوئی حاضری نہیں ہوتی سو وہ مستقبل کا کوئی آحوال نہیں بتا سکیں گے۔
گوارا نے بتایا تو دونوں جھلا گئیں۔
تو کونسا وہ شاہ رخ خان ہیں جو ہمیں ان سے ملنے کا اشتیاق ہو۔ اریزہ بھنائی
تو کونسا وہ کم جونگ وو ہیں جو ہم ملیں جا کر ان سے۔ ہوپ تلملائی
اس بار دونوں اکٹھے ہی بولی تھیں
کم جونگ وو ؟ شاہ رخ خان؟ ارے ان سے ذیادہ اہم ہیں یہ۔ ویسے بھی
بزرگوں سے ملنے کا فائدہ ہی ہوتا ہے نقصان کوئی نہیں۔
گوارا نے بردباری سے کہا تو دونوں نے اکٹھے ہاتھ اٹھا کرجیسے مکھی اڑائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آج بھی دھونی رمائے بیٹھے تھے۔ آج انکے ملبوس کا رنگ سرمئی سا تھا۔ آنکھیں بند کیئے مراقبے میں گم وہ تینوں سوالیہ نگاہوں سے انکی شکل دیکھ رہی تھیں۔ ایکدم سے انہوں نے آنکھیں کھول کر انہیں دیکھا تینوں اچھل سی پڑیں۔ وہ مسکرا دیئے پھر اپنے مخصوص دھیمے انداز میں بولتے گئے۔
میرے پاس تم لوگوں کے لیئے آج کچھ نہیں۔ بلکہ یوں کہو کہ آج جو تم تینوں کو چاہیئے اسے دینے کی قدرت میں نہیں رکھتا۔ میرے پاس علم ہے مگر تم لوگوں میں تعلم کی چاہ نہیں۔۔ تم لوگ جائو اور اپنے اپنے مزہبی انداز سے خدا سے لو لگائو۔ بچو امیدیں انسانوں سے نہیں خدا سے لگانی چاہیئیں۔
لو قصہ ہی ختم کردیا عزت سے کہہ رہے کھوجو(جائو)۔ گوارا اریزہ کے کان میں گھسی۔
آپ نے پچھلی دفعہ مبہم باتیں کی تھیں جو مجھے سمجھ نہیں آئیں میرے آج یہاں آنے کا مقصد ان باتوں کی تشریح جاننا ہے اور بس۔
اریزہ نے گلا کھنکارا اور کہہ ڈالا
اس نے رواں انگریزی میں دھڑلے سے پوچھا تھا۔ کورین سیخ پا ہوجاتے ہیں اگر کوئی چھوٹا ان سے بے تکلفی سے سوال کر جائے اسکو وہ بد تہزیبئ گردانتے ہیں کجا سامنے بیٹھا بھی مونک ہو ۔ وہ بھی سربراہ اس مندر کا۔
گوارا اور ہوپ چیں بہ چیں ہو گئیں۔ اریزہ کو کہنی مارتے گوارا معزرت خواہانہ نظروں سے پجاری جی کو دیکھنے لگی۔ انہوں نے برا نا مانا تھا ۔ ہا مانا تھا تو ناگواری انکے لہجے کا خاصہ نہ بن سکی۔نظریں اریزہ پر تھیں جو ہمہ تن گوش دکھائی دیتی تھی۔ وہ اسی سے مخاطب تھے تو انگریزی میں ہی گویا ہوئے۔
“بدھا جب اس دنیاسے جانے لگے تھے تو انہوں نے کہا تھا اپنے سب شاگردوں سے کہ “میں صرف آپ کو راستہ بتانے کے قابل تھا۔یعنی سفر انسان کو خود اختیار کرنا ہوتا ہے منزل کا تعین بھی انسان کو خود کرنا پڑتا ہے ۔تمام انفرادی چیزیں ختم ہو جاتی ہیں۔ چاہے وہ اچھی ہوں یا بری۔ بس ہمارے انتخاب ہمیں خوار کرتے ہیں سوجس چیز کی بھی جستجو کرو اسکو پانے کی تندہی کے ساتھ کوشش کرو۔ یاد رکھنا تمام انفرادی چیزیں ختم ہو جاتی ہیں۔۔ چاہے وہ انسان ہوں یا اس دنیا کی کوئی بھی چیز۔
انہوں نے لحظہ بھر رک کر سانس لی تھی۔ اریزہ نے دم سادھ لیا۔ یہ کیا کہہ رہے تھے؟ اب کھل کر کہہ رہے تھے یا وہ اب معموں کو سمجھنے لگی تھئ۔
بدھا کہتے تھے اپنے لیے چراغ بنو، اپنے لیے پناہ گاہ بنو۔ اپنے آپ کو کسی بیرونی پناہ کی خواہش میں نہ ڈالو۔

Be a lamp unto yourself, be a refuge to yourself. Take yourself to no external refuge
سادہ الفاظ میں کہوں تو “اپنے آخری الفاظ میں، بدھ ہمیں اس دنیا کی سچائی کو دیکھنے کی ترغیب دے رہے تھے اگرچہ آپ اسے تلاش کرنے کی کوشش میں دنیا کے بھیدوں کو تلاش کر سکتے ہیں، لیکن آپ کی آخری پناہ گاہ آپ کی ذات کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔”
وہ کہہ کر یوں چپ ہوئے جیسے کبھی بولیں گے نہیں۔ پھر اپنے سامنے رکھی فرشی نشست کے حساب سے رکھی مختصر میز کی دراز کھول کر اس میں سے ایک پرچہ نکال کر اسکی جانب بڑھا دیا۔ اس نے جھجکتے ہوئے ہاتھ بڑھا کر پرچہ تھام لیا۔
کچھ ہنگل میں لکھا تھا۔ اس نے سوالیہ نگاہوں سے انہیں دیکھا۔ وہ اس بار پھر انگریزی میں بولے۔

The root of suffering is attachment.”
مصائب کی جڑ لگائو ہے۔۔
وہ مسکرا دیئے۔ اس نے کاغذ کو تہہ کرکے اپنے کوٹ کی جیب میں رکھ لیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں مفت میں بدھا کا گیان تھما دیا ہے آہجوشی نے۔ گوگل کرو بدھا کے سارے اقوال زریں سامنے آجائیں گے ایک ایک جملہ وہی دہرایا ہے ۔
ہوپ واپسی پر جھلا رہی تھی۔۔ اسکو کہا تھا۔

ہم وہی کچھ ہیں جو ہم سوچتے ہیں ۔ سوچ بدلو بس اپنی ۔ خودبخود تمہارا دل بدل جائے گا۔
یہ قول سننے کیلئے اتنی سیڑھیاں چڑھیں۔ بدھا کے اقوال آرام سے سرچ انجن سے سرچ کرکے خود پڑھ لیتی میں۔
وہ مزید بھی کہہ رہی تھی۔ گوارا اسکی باتوں پر سر جھٹک رہی تھی اس وقت اسکی مکمل توجہ اریزہ پر تھی جو بہت خاموشی سے سر جھکائے انکے ہم قدم سیڑھیاں اتر رہی تھی۔ اتنی خاموش کہ وہ گڑبڑ کا اندازہ آرام سے لگا سکتی تھی۔
تمہیں جواب ملا ہے اپنے سوال کا؟
گوارا نے پوچھ ہی لیا۔
ہوں۔ اس نے ہلکے سے سر ہلانے پر ہی اکتفا کیا۔
اسکو تو لگتا ہے چپ رہنے کا تعویز پکڑا دیا ہے انہوں نے بالکل خاموش ہوگئ ہے۔ ہوپ نے چڑانا چاہا جوابا وہ مسکرا دی۔
ہوپ نے اپنے کوٹ کی جیب سے پرچہ نکالا۔
مجھے تو یہ پرچہ دیا ہے۔

درد یقینی ہے؛ تکلیف اختیاری ہے
Pain is certain; suffering is optional

آہ جیسے میں فیصلہ کروں کہ اب مجھے تکلیف نہیں ہوگی تو اپنے پائوں سے میں اس پتھر کو ٹھوکر لگا سکتی ہوں درد نہیں ہوگا مجھے بکواس۔
اس نے وہیں کاغذ مروڑ کر پھینک دیا۔ راستے میں پڑے بڑے پتھروں کو خیالی ٹھوکر بھی لگا دی۔ سچ مچ ٹھوکر لگاتئ تو پائوں پکڑ کر وہیں بیٹھنا پڑتا۔
پتھر نے تمہاراکچھ نہیں بگاڑا اسکو بلا وجہ ٹھوکر لگائوگی تو بلاوجہ یونہی ٹھوکر کھائوگئ۔ کرما اصول ہے بدھ مزہب کا۔ جیسا کروگے ویسا بھروگے۔
گوارا نے کندھے اچکا کر کہا۔
اریزہ نے سر جھٹکا۔
سب کو انکے کیئے کا پھل اتنی آسانی سے ملتا ہوتا تو دنیا میں کون کسی کے ساتھ برا کرنے کا سوچتا۔۔ سب ڈرتے کسی کا برا کرنے برا چاہنے سے۔۔۔۔
اسکے اوپر گرم گرم سوپ کا پیالہ آکر لگا تھا جیسے ابھی ابھئ۔۔ گوارا کندھے اچکا کررہ گئ جیسے کہہ رہی ہو یہ بھی صحیح ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت بھیانک خواب تھا کوئی۔ اس نے ایکدم سے پٹ آنکھیں کھولی تھیں۔ جسم پسینے میں بھیگا سا تھا۔ اتنی سردی میں وہ پسینے پسینے کیوں ہو رہی تھی۔ اس نے گھبرا کر اپنے اوپر سے کمبل ہٹایا۔۔ کھڑکی کے پردے ہٹے ہوئے تھے۔ صبح جب بھی نرس آتی سب پردے ہٹا کر دھوپ کے اندر آنے کا انتظام کر دیتی تھی۔ مگر آج دھوپ نہیں تھی۔ بادل چھائے ہوئے تھے۔ اس نے ذرا سا کہنی کا سہار لیکر اٹھنا چاہا تو پیٹ میں درد کی تیز لہر سی اٹھی تھی۔ وہ کراہ کر رک گئ۔ تبھی دروازہ کھول کر نرس مسکراتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی۔
اٹھ گئیں؟ گہری نیند تھی اسلیئے جگانا مناسب نہیں سمجھا۔ناشتہ بہت دیر سے ہوگا اتنی دیر خالی پیٹ رہنا تمہارے لیئے مناسب نہیں۔ وہ مسکراتے ہوئے انگریزی میں کہہ رہی تھی۔ سخت کوریائی لہجے میں انگریزی بھی اسے سمجھنا آسان نہ لگی تھی۔ اس نے کونے میں لگا بیڈ اسٹیںنڈ اٹھا کر اسکے بیڈ پر لا کر سیٹ کردیا۔ پھر میز سے ناشتے کی ٹرے اٹھا کر لا کر اس پر رکھ دیا۔
ابلے انڈے، رول آملیٹ، پھلوں کا سلاد، بریڈ جام مکھن تازہ جوس ۔سب اسکی پسند کی چیزیں تھیں۔ مگر اسکا دل کچھ بھی کھانے کو نہیں چاہ رہا تھا۔
میں فریش ہونا چاہ رہی تھی۔
اس نے بتانا چاہا۔
تو ہو جائو۔ وہ مسکرا کر بولی۔ سنتھیا نےچونک کر اسکی شکل دیکھی تو وضاحت کرنے لگی۔
تمہاری طبیعت رات کو کافی خراب ہوگئ تھی جبھی ڈاکٹرز کو تمہیں مصنوعی نیند دینی پڑی۔ ہم نے اخراج کیلئے سی ٹیوب بھی لگا دی ہے۔ تم اگلے ایک دو مہینے مکمل بیڈ ریسٹ پر ہو۔
مگر میرا تو آج آپریشن ہونا تھا؟
سنتھیا حیران سی رہ گئ
تمہارا آپریشن ؟ تم نہیں جانتیں؟ وہ الٹا حیران ہو کراس سے پوچھنے لگئ۔
تمہارے والد نے آپریشن کیلئے منع کردیا تھا۔ پیچیدگی کی صورت میں تمہارے لیئے آئیندہ ماں بننے کا مواقع محدود ہوسکتے تھے۔ اور وہ یہ رسک لینے کیلئے تیار نہیں تھے۔ تمہارے لیئے اس اسپتال میں ڈیلیوری تک کے ڈیوز کلیئر ہیں او رمیں تمہاری مددگار ہوں اس بچے کے دنیا میں آنے تک کیلئے۔ اور پھر مزید اگر تمہیں میری مدد درکار ہو تو بھی۔ اس نے سائیڈ ٹیبل سے ہائی جین کٹ اٹھا کر اسکے سامنے رکھی ۔ آر پار دکھائی دینے والے پلاسٹک کے تھیلے میں ٹوتھ پیسٹ برش ویٹ وائپس کاغذ کے صابن اور دیگر ضرورت کی اشیاء تھیں۔
بس اتنئ سی بات تھئ۔ اسکی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
یہی پریشانی تھی نا ایڈون کو کہ بچے کا خرچہ کون کرے گا کون اٹھائے گا۔ اس معاملے کو ایسے بھئ تو حل کیا جا سکتا تھا۔میرے گھر والوں کو اعتماد میں لیکر ۔ ممی ڈیڈا میری اور اس بچے کی جان پر بن آنے تک کا انتظار کیئے بنا مجھے میری غلطیوں سمیت اپنا نہیں سکتے تھے؟ یہاں اتنے مہینوں کا خرچہ اٹھانا انکے لیئے کبھی مشکل نہیں تھا۔ اور اب۔
اس نے اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھا۔
کل وہ فیصلہ کرکے سوئی تھی کہ آج سے وہ اکیلی ہوگی۔ اور آج اسکیلئے فیصلہ ہوچکا تھا کہ اب وہ کبھی اکیلی نہیں ہوگی۔ جو زندگی ابھی آنے کے در پر ہے وہ جب دنیا میں آچکی ہوگی تب ۔۔ اسکو وحشت سی محسوس ہونے لگی۔
نہیں۔ مجھے نہیں چاہیئے۔ اس نے گھبرا کر کہا۔
دے؟ نرس چونک کر اسکی شکل دیکھنے لگی وہ سمجھ نہیں سکی تھی سنتھیا نے کیا کہا ہے۔
مجھے اپنی پہلے والی زندگی واپس چاہیئے۔ مجھے اب یہ سب نہیں چاہیئے۔
وہ نفی میں سر ہلاتی دیوانوں کی طرح بڑبڑا رہی تھی۔
مس آپ ٹھیک ہیں۔ نرس نے اسکا کندھا ہلایا۔ اس نے سخت وحشت سے اسے دھکا دیا۔ میز اسٹینڈ پر رکھے ناشتے کے لوازمات اس نے ہاتھ مار کر گرا دیئے۔
ہٹائو یہ سب۔ نہیں چاہیئے مجھے یہ سب۔ دور کرو۔
وہ اٹھنا چاہ رہی تھی مگر زنجیروں میں جکڑی تھی۔ اور وہ ان سب زنجیروں کو توڑ دینا چاہتی تھی۔ نرس نے گھبرا کر اسکو کندھے سے پکڑ کر اٹھنے سے روکا اور چلا کر مدد کےلیئے پکارنے لگی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واپسی پر گوارا انہیں اپنے گائوں کے بازار لائئ تھی۔ ثقافتئ دستکاری سے لیکر جدید رواج کے مغربی ملبوسات کے اسٹال تھے۔ یہ سالانہ میلے کا حصہ تھا۔کورین روائتی تہوار اور کرسمس دونوں کی مناسبت سے خوب بازار سجا تھا۔ اسے سب سے ذیادہ جوزن دور کی نشانیاں ثقافتی کلپ پسند آئے تھے۔ اسکی دلچسپی بھانپ کر اسٹال پر موجود خاتون نے اپنے سب مال کو ہوا لگانی شروع کردی۔ لکڑی کی کندہ کاری ہوئی کنگھی ، پرانے زمانے کے نگوں والے زیورات گلوبند کلپس۔ اسکے سامنے ڈھیر کردیا۔ گوارا زیورات دیکھ رہی تھی ہوپ ہر چیز سے بیزار تھی جیسے انکے ساتھ ہو کر بھی غائب دماغ سی خاموشئ سے انکی سرگرمیاں دیکھ رہی تھی۔ نگوں سے سجا اس نے بڑے شوق سے کلپ خریدا مگر بالوں میں لگانا نہیں آرہاتھا۔
اسکو پرانے زمانے کی خواتین جوڑا بنا کر پروتی تھیں۔ گوارا نے بتایا۔ اس نے کتنے مہینوں سے بال نہیں کٹوائے تھے پھر بھی کندھوں سے تھوڑا ہی نیچے آرہے تھے۔ گوارا نے اسکا شوق دیکھا تو وہیں اسکے بال مٹھی میں جکڑ کر جوڑا بنایا اور کلپ سجا دی۔ سنہرے نیلے لال نگوں سے سجا پھول اسکے جوڑے سے بھی بڑا تھا۔
اسکے بالوں نے اتنی بے دردی سے جکڑے جانے پر احتجاج کیا اور آگے سے اسکی لٹیں باہر نکل آئیں تو سر پر جوڑا دہائیاں دینے لگا۔
یار یہ تو بہت بھاری ہے۔ اس نے بے چارگی سے گوارا کو دیکھا۔
تمہیں ہی شوق ہوا ہے۔ ویسے اچھی لگ رہی ہو۔
گوارا نے بہت بے ساختہ تعریف کی تھی۔ اس نے آئینہ دیکھا توخود بھی اچھا لگا۔ اس طرح جوڑا تو کبھی کیا نہیں تھا۔ بال کھنچنے سے پیشانی کشادہ لگ رہی تھی۔
تم کچھ کچھ کورین لگنے ہی لگی ہو کیوں ہوپ۔
گوارا نے ہنس کر ہوپ کو کہنی مار کر متوجہ کیا
آں ہاں۔ وہ گڑبڑا کر سیدھی ہوئی۔۔
ویسے کرسمس قریب ہے تمہیں کرسمس کی مناسبت سے بھئ کچھ لینا چاہیئے۔
اس نے کچھ فاصلے پر کرسمس گفٹس کے اسٹال کی جانب اشارہ کرکے کہا جہاں دکاندار سینٹا کلاز والی ہیٹ پہنے کھڑا تھا اسکے اسٹال پربھی لڑکیوں کا کافی رش تھا۔
تم لوگ کرسمس کیسے مناتے ہو۔
گوارا کو خیال آیا تو وہ گڑبڑا سی گئ۔
ہم ۔ ہم۔۔
وہ سوچ میں پڑی۔
سچی بات تو یہ ہے کہ ہم کرسمس نہیں مناتے۔ یہ ہمارا تہوار نہیں ہے نا۔ ہاں میں سنتھیا کی دوست ہونے کے ناطے اسکے لیئے تحفہ لے لیتی ہوں۔ وہ بھی اسے نئے سال کی مبارکباد دیتے وقت ہی دیتی ہوں وہ کرسمس پر اپنے خاندان کے ساتھ تقریبات میں مصروف ہوتی ہے۔ پچھلے سال بھی نیو ائیر نائٹ منانے ہی جا سکی تھی میں۔
اسکے جواب پر ہوپ اور گوارا حیرت سے اسے دیکھنے لگیں۔
تو کرسمس ہمارا کونسا تہوار ہے ؟ پورے کوریا میں بمشکل پانچ سات فیصد عیسائی رہتے ہیں مگر دیکھو ہم سب کتنے ذوق و شوق سے کرسمس کی تیاری کرتے ہیں۔یہ تو تہوار ہے چاہے جو بھی ہو جسکا بھی ہو خوش ہونے ملنے جلنے کا موقع ہے تو کیا برا ہے۔
گوارا کو اسکی منطق نہیں سمجھ آئی تھی۔
ہاں مگر یہ تو تم ایسی بات کر رہی ہو جیسے میں شکوہ کروں کہ کورین عید کیوں نہیں مناتے ؟ تہوار ہے خوشی کا موقع مل جل کر بیٹھنے کا بہانہ۔ مگر یہاں مسلمان نہ ہونے کے برابر ہیں تم لوگ جانتے بھئ نہیں ہو ہمارے تہواروں کے نام بھی۔
اریزہ کا دماغ چلا تھا خوب چلا تھا۔ گوارا لاجواب ہوئی۔
بات تو صحیح ہے یعنی پاکستان میں کرسچن نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ٹھیک ہوگیا۔
گوارا نے جیسے سمجھ کر سرہلایا۔
اریزہ نے ہونٹ بھینچ لیئے۔
گردن گھما کر بازار کی رونقوں پر نظر ڈالی۔ وہی رونق میلہ تھا جیسا پاکستان میں عید کے موقع پر نت نئے اسٹال لگتے۔ سب خوش ہونے کیلئے خرچنے کو تیارلیکن بالکل اجنبی۔ ۔
گوارا اور ہوپ اگلے اسٹال کی طرف بڑھ گئیں وہ انکے پیچھے تھئ جب
آگاشی۔
کسی نے اسے پکارا تھا۔ وہ چونک کے مڑی۔
چندی آنکھوں گیرواں لباس سر پر اسکارف۔ اس کے ذہن میں جھماکا ہوا۔ یہ انہی خواتین میں سے ایک خاتون تھیں جن کے گھر کی وہ بن بلائے مہمان کے طور پر دعوت اڑا کر آئی تھی۔
اسکے چہرے پر شناسائی کی رمق دیکھ کر وہ مسکرا دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قریب ہی ایک چرچ کے زیر انتظام یتیم خانے میں انکی تنظیم نے بچوں میں نئے کپڑے کھانے پینے کی چیزیں وغیرہ بانٹنے کا کام رضاکارانہ طور پر تقسیم کرنے کا ارادہ کیا تھا۔
عموما سینٹا کلاز کے کاسٹیوم پہن کر رضاکار یہ خدمات سرانجام دیتے تھے مگر اس نے نرمی سے معزرت کر لی تھی۔ وہ بچوں میں مٹھائیاں تقسیم کر رہا تھا۔ بچوں کیلئے مٹھائی سے ذیادہ سینٹا کلاز میں کشش تھی۔ سو وہ تقریبا ساری ہی مٹھائی میز پر سجائے دلچسپی سے بچوں کو غباروں کاٹن کینڈی اور مٹھائی سے مٹھیاں بھرے ادھر ادھر بھاگتے دیکھ رہا تھا۔ تبھئ ذہنی رو بہک سی گئ۔ ریچل اور وہ دونوں ہی بچوں سے بہت پیار کرتے تھے انکا ارادہ جلد ہی والدین بننے کا تھا۔اگر رچل کی زندگی ساتھ دیتی تو یقینا انکی زندگی میں بھی بچہ آچکا ہوتا شائد سال دو سال کا ہوتا اور۔
ایک پانچ چھے سال کے بچے کو بھاگتے دیکھتے اس پر نظر جمائے وہ سوچوں میں گم ہوتا چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلام ۔۔ اس نے آداب کے انداز میں سلام کیا جوابا وہ خوب زو رسے ہنس دیں۔ دو بڑے بڑے تھیلے بمشکل اٹھائے اسکو جانے کیا کہہ رہی تھیں۔
آگے ہنگل کی ریل گاڑی چھک چھک کرتی گزری۔
اس نے سٹپٹا کر ادھر ادھر دیکھا۔ گوارا او رہوپ چند قدم کے فاصلے پر ہی تھیں۔
وہ مجھے ہنگل اتنی سمجھ نہیں آتی۔
اس نے بنیادی ہنگل اور ہاتھ کے اشاروں سے مدعا سمجھایا۔
وہ خاتون انہی بھاری تھیلوں کو اٹھائے اٹھائے جانے ہاتھ ہلا کر کیا کہنے لگیں۔
میں آپکی مدد کرائوں؟
اس نے آگے بڑھ کر تھیلا تھام لیا۔ وہ تو نثار ہی ہوگئیں۔ پیار سے اسکا چہرہ چھوا۔
ریل گاڑی پھر چل پڑی۔ وہ کان لگا کر سن رہی تھی مگر پلے نہ پڑا۔ گوارا کی آواز کان میں پڑی
مجھے پتہ ہے یہ پچھلے سال کا مال ہے مجھے الو مت بنائو پرانے اسٹاک پر نیا ریٹ مت لگائو یہ مہمان ہیں میرے ساتھ کیا سوچیں گی کیسے ہیں گائوں کے لوگ چالاک چلتر۔
گوارا کو ایک اسکارف پسند آگیا تھا سو اب جھگڑ کر قیمت کم کروانا چاہ رہی تھی۔
آگاشی الزام نہ لگائو یہ کل ہی چین سے مال آیا ہے خالص ریشم ہے یہ ۔
دکاندار چیخ ہی پڑا۔
پچھلے سال بھی میں یہاں انہی دنوں یہیں کھڑی تھی وہاں۔۔اس جگہ۔ وہ ہاتھ کے اشارے سے بتا رہی تھی کہ اریزہ نے آئو دیکھا نہ تائو بازو سے کھینچ کر اسے اسی جگہ پہنچا دیا۔ وہ اسکارف ہاتھ میں لیئے گھسٹتی چلی آئی۔
آگاشی۔ دکاندار نے مال جاتے دیکھ کر چیخ ماری۔ ہوپ نے تاسف سے دونوں کو جاتے دیکھا اور اپنا پرس کھول کر چیختے دکاندار کو اسکی مطلوبہ رقم نکال کر تھمائی ۔
یہیں قریب ہی چرچ میں یہ سامان لیکر جارہی ہیں وہاں بانٹیں گی۔ کوئی اولے بھی وہیں ہے تم چلو گی انکے ساتھ؟
آہاں۔۔ وہ تھیلا تھامے بے چارگی سے دیکھنے لگی۔
ایک تو اسکی مروت۔۔
گوارا جھلائی۔ ہوپ نے دانت پیسے۔
خاتون نے جیسے خوش ہو کر سر ہلایا اور آگے آگے چلنے لگیں۔ اریزہ نے تقلید کی تو گوارا اور ہوپ بھی اسکے ساتھ ہولیں۔ ایک گلی کا فاصلہ تھا۔ سامنے خوب قمقموں سےسجا ہوا دلکش گرجا گھر تھا۔جسکے احاطے میں کافی سارے اسٹالز لگے تھے۔ چھوٹے چھوٹے بچے چرچ کے لان میں ادھر سے ادھر بھاگتے پھر رہے تھے۔ انکو تھیلے اٹھائے آتے دیکھ کر رضاکار لڑکے فورا آگے بڑھے تھے اور انکے ہاتھ سے سامان لے لیا۔ وہ خاتون انکو اندر آنے کی دعوت دینے لگیں۔
اریزہ سلیقے سے معزرت کرکے گوارا کی شکل دیکھنے لگی۔ گوارا نے سمجھ کر ترجمہ کیا ۔ وہ یونہی لان پر نگاہ دوڑانے لگی جب اسکی نظراس چار پانچ سال کے گول مٹول سے سرخ سویٹر پہنے بچے پر پڑی۔ زور زور سے ہنستے ہوئے وہ بھاگتا بالکل چھوٹا سا گڈا لگ رہا تھا۔ سرخ پھولے پھولے گال سرخ لب گورا چٹا اسکا دل ایکدم سے اسکے گالوں پر چٹکی لینے کا چاہا۔ جبھئ بھاگتے بھاگتے اسکا پیر رپٹا اور وہ منہ کے بل گھاس پر آن گرا۔ وہ ایکدم سے بھاگ کر اسکے پاس آئی تھی اسے اٹھاتے ہوئے گلے سے لگا لیا تھا۔
کچھ نہیں ہوا مٹی جھڑ گئ۔ بہادر بچہ ہے یہ تو گر کر روتا تھوڑی ہے۔
وہ اسکا سر سہلاتی بول رہی تھی یہ خیال ہی نہ آیا کہ وہ بچہ اسکی بات سمجھ نہیں سکتا مگر محبت کی اپنی بھی شائد ایک زبان ہوتی ہے جبھی وہ بچہ اسکے کندھے پر سر رکھ کر سسک اٹھا تھا۔
ہوپ بھی اسکے پیچھے ہی بھاگی آئی تھی ہنس دی
اسکو ایک لفظ سمجھ نہیں آیا ہوگا۔ کیا کہا تم نے۔
کرے۔ وہ کھسیانی ہوئی۔
بچے کے آنسو پونچھے اسے خوش کرنے کو اپنی جیکٹ کی جیب سے مندر کا تبرک نکال کر تھمایا وہ چوٹ بھول کر خوشی سے ریپر اتارنے لگا۔
تم مندر میں اس مٹھائی کیلئے ندیدی ہورہی تھیں اب مزے سے اسے دے دی ۔ تمہیں دل سے پسند چیزیں بانٹنا پسند ہے کیا؟ ہوپ نے کہا تووہ حیرت سے ہاتھ جھاڑتئ اٹھی۔
ہیں۔ کیا مطلب؟ وہ واقعی نہیں سمجھی۔
مطلب اگر یہ مٹھائی اتنی پسند تھی تو کسی اور کو کیسے دے دی؟
ہوپ شائد بحث کے موڈ میں تھی۔
کھمسامنیدہ ۔۔۔
بچہ جھک کر شکریہ ادا کرتا بھاگ گیا۔
وہ رو رہاتھا اسلیئے دیکھو بھول گیا اپنی چوٹ۔
اسے بھاگ کر جاتے دیکھ کر اریزہ نےبہت پیار سے کہا۔
یعنی کوئی رو کر مانگے تو اپنی عزیز از جان چیز تھما دو گی اسے؟ ہوپ کا انداز عجیب ہو چلا تھا۔ کافی دنوں بعد ہوپ اپنے مزاج پر واپس آئی تھی۔ سچی بات تو یہ کہ اسے لگتا تھا جو اس پر گزری ہے اس سے اسکی کڑواہٹ میں اضافہ ہوگا مگر پچھلے کچھ دنوں میں جو خیال رکھنے پیار بھرے انداز میں پیش آنے والی ہوپ اسے نظر آرہی تھی اسے دیکھ کر لگتا تھا پرانی ہوپ ایک زرہ بکتر تھی اس ہمدرد لڑکی کا خود کو بچانے کی خاطر اختیار کیا گیا مصنوعی خول ۔ افسوس یہ اوتار بھی وقتی نکلا۔
وہ ابھی اسکا سوال ہی سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی جواب کیا دیتی کہ اپنے پیچھے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا ۔ مڑ کر دیکھا تو حیرت کی انتہا نہ رہی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بچہ بھاگتے ہوئے لڑکھڑا کر منہ کے بل گرا تھا۔ وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا تو فورااسےاٹھانے کو بڑھا۔مگر فاصلہ ذیادہ تھا۔ برائون لانگ اونی اسکرٹ میں وہ لڑکی اس سے پہلے بھاگ کر اس بچے کے پاس پہنچی چکی تھی اسے گلے سے لگایا تھا۔ اسکی جانب پشت تھی پھر بھی اسے یقین تھا وہ آگے بڑھ کر اسکی شکل دیکھے گا تو وہ رچل ہی ہوگی۔ وہ کسی معمول کی طرح کھنچتا آیا تھا۔وہ لڑکی کسی ماں کی طرح اسکے آنسو پونچھ رہی تھی ۔ بچہ کھلکھلایا تو وہ چونکا۔ آگے بڑھ کر اس لڑکی کو چھو کر متوجہ کرنا چاہا کہ وہ ایکدم سے بچے کا ہاتھ تھامتی اٹھ کھڑی ہوئی۔ کندھوں تک کالے سیاہ بال درمیانی قامت رچل تو خوب لمبی سی تھی۔ پشت دیکھنے کے باوجود بھی اسے احساس ہوگیا تھا کہ یہ لڑکی کوئی بھی ہے رچل نہیں۔ اس لڑکی کو بھی اپنے پیچھے کسی کی موجودگی کااحساس ہوا تھا کہ کیا یونہئ مڑ کر دیکھا۔
آپ۔ وہ چونکی۔
ایک طلسم سا تھا جو ٹوٹ گیا تھا۔ علی کے چہرے پر مایوسی سی در آئی۔
آپ یہاں؟ اس نے حیرت سے چرچ کو پھر اسے دیکھا۔علی فوری جواب نہ دے سکا تو پھیکی سی مسکراہٹ سجا لی چہرے پر۔
آپکو نہیں پتہ غیر مسلموں کے ساتھ رہنے انکے تہواروں کو منانے سے ہم ان جیسے ہوتے جاتے ہیں ؟ ہم میں اور غیر مسلموں میں کچھ فرق نظر آنا چاہیئے نا میں تو آپکو یہاں کھڑے دیکھ کر کرسچن ہی سمجھ بیٹھتی۔
اسے تو موقع ملا تھا۔کمر پر ہاتھ ٹکا کروہ چمک چمک کر بولی تھی ۔ ہوپ نے حیرت سے اسکا یہ انداز دیکھا۔ وہ تو جیسے لڑنے کو تیار بیٹھی تھی۔
علی نے اسکے انداز کا بالکل برا نہ ماناالٹا اسکی مسکراہٹ گہری ہوگئ تھی۔
کرسمس کے تحائف بانٹنے آئے ہیں ہم۔ یہ اسٹال نجی مسلمانوں کی تنظیم کی جانب سے مزہبی رواداری بڑھانے کی نیت سے ہی لگایا گیا ہے۔
اسکے مفصل جواب نے تھوڑا خفت زدہ کیا تھا مگر وہ متاثر ہونے کے موڈ میں نہیں تھی جبھی سر جھٹک دیا۔ گوارا اور وہ خاتون بھی ادھر چلی آئیں۔
میں نے اسے بازار میں دیکھا تو بتایا کہ تم یہاں ہو تو یہ بھی یہاں چلی آئی۔ میں علی سے کہہ رہی تھی نیک کاموں میں شریک حیات کو ساتھ رکھنا چاہیئے ثواب ملتا ہے ۔ مگر یہ بولا تم خوامخواہ تھک جائو گی آخر کو سارے دن کا ہلا گلا ہے یہ۔
وہ خاتون رواں ہنگل میں بولی تھیں۔ گوارا اور ہوپ نے سٹپٹاکر ایک دوسرے کی شکل دیکھی۔ اریزہ مطمئن سئ کھڑی گوارا کے ترجمے کا انتظار کر رہی تھی۔
اب تم کھانا کھا کر ہی جانا۔ ہماری جانب سے تنظیم کے رضاکاروں کیلئے حلال کھانے کا مکمل انتظام کیا گیا ہے۔ بلکہ تم دونوں بھی کھانا کھا کر جانا۔
بولتے بولتے انہیں خیال آیا تو ان دونوں کو بھی دعوت دے ڈالی۔
نہیں شکریہ ہمیں دیر ہو جائے گئ ۔ میرا خیال ہے اب ہمیں چلنا چاہیئے۔ اریزہ تم اگر یہاں مزید وقت گزارنا چاہو تو رک سکتی ہو ہم رات کو ملتے ہیں۔
ہوپ نے کہا تو وہ منہ کھول کر رہ گئ۔
مگر میں؟
آہجومہ ہمیں بہت ضروری کام ہے ہم چلتے ہیں اب۔ گوارا نے بھی وقت ضائع کیئے بنا ان خاتون سے اجازت چاہی جھک جھک کر آننیانگ کہتی دونوں نے اسکی جانب دیکھنے سے بھی احتراظ کیا تھا۔
مم مگر۔گوا۔۔
وہ کہنا چاہ رہی تھی مگر خاتون نے پیار سے اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔
آئو میں آج تمہارا مکمل تعارف کرواتی ہوں اپنے گھر کی خواتین سے۔
اس نے مدد طلب نگاہوں سے علی کی جانب دیکھا جیسے کہہ رہی ہو کیا کہہ رہی ہیں مطلب تو بتا دو۔ وہ سمجھ کربھی کندھے اچکا گیا۔
اسکا مترجم بننے کا فی الحال ارادہ نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچوں نے کرسمس کی مناسبت سے کچھ ترانے گائے ایک ٹیبلو بھی پیش کیا۔ پھر ایک چھوٹی سی تقریر پادری اور ایک مولوی نے حضرت عیسی کی شان میں کی ۔ ایک لفظ سمجھ نہ آنے کے باوجود اسے یہ سب دیکھنا اچھا لگ رہا تھا۔
ایک ہی اسٹیج پر دو مختلف مزاہب کے عالم دین اپنے اپنے عقائد کے مطابق حضرت عیسی کی شان بیان کر رہے تھے ۔ نا بحث نا مباحثہ تقریب کے آکر میں باقائدہ ہاتھ تھام کر دعا کروائی۔
ایک ہم لوگ ہیں ایک مزہب کے مختلف فرقوں کے دو عالم دین اس رواداری سے ایک جگہ اکٹھے نہیں ہوتے۔
وہ ویڈیو بناتے ہوئے کہے بنا نہ رہ سکی۔ یہ ویڈیو بنتے ہی اس نے صارم کو بھیجنی تھی۔
تقریب ختم ہو چکی تھی ۔ اس نے ویڈیو بند کرکے اپنی گیلری میں ابھی ریکارڈ کی گئ ویڈیوز گنیں۔ اس نے بچوں کے ٹیبلو کی بھی دو تین ویڈیوز بنائی تھیں۔ ایک تو بہت پیاری تھی۔ چھوٹے چھوٹے سے آدھے درجن سینٹا کلاز جب ٹیبلو کرتے ایک دوسرے سے ٹکرائے تو سب کے سب گرتے گئے۔ ہنسے اٹھ کھڑے ہوئے او ردوبارہ وہیں سے اسٹیپ اٹھائے جہاں سے گڑبڑ ہوئی تھی۔ یہ ویڈیو بناتے بھی وہ ہنس پڑئ تھی ابھی دوبار سامنے آئی تو دوبارہ پلے کرتے ہوئے بھی ہنس دی۔ علی اسکے ساتھ ہی کھڑا تھا۔ ہنستے ہوئے اس نے سر اٹھایا تو اسے اپنی ہی جانب متوجہ پایا
تمہیں بچے بہت پسند ہیں لگتاہے۔
اس کے کہنے پر وہ محظوظ سے انداز میں ہی سر ہلانے لگی۔
بہت ذیادہ۔ میں تو راہ چلتے بھئ بچوں کو پیار کرنے رک جاتی ہوں۔ سنتھیا کو بچے ذیادہ پسند نہیں تھے۔ وہ میری عادت سے چڑتی تھی کہتی تھی مجھ میں ایک ماں چھپی ہے۔ دوسروں کے بچوں سے اتنا پیار کرتی ہو اپنے بچوں کو تو چوم چوم کر پاگل کردوگی اور میں کہتی تھی اورتم میں سوتیلی ماں چھپی ہے اپنے بچوں کو بھی گھور گھور کر خون خشک کردیا کروگی انکا۔۔۔ وہ پرانی باتیں یاد کرکے ہنس دی۔پھر خیال آیا تو وضاحت کرنے لگی۔
سنتھیا میری بچپن کی دوست ہے۔۔ علی کو اندازہ ہو گیا تھا۔ جبھی حیران نہیں ہوا۔
اچھا میں نے جتنئ بھی لڑکیاں دیکھیں ہیں انہیں بچوں کے ساتھ بہت پیار بھرا برتائو کرتے ہی دیکھا ہے۔ مجھے لگتا ہے لڑکیوں میں ماں والی فطرت ہوتی ہی ہے۔
علی کی بات پر وہ متفق نہیں تھی۔ مگر بحث نہیں کی۔
چلو کھانا کھا لیں۔ علی نے کہا تو وہ مزید کچھ کہنے کا ارادہ موقوف کرتی اسکے ساتھ ہی چلی آئی۔ علی بہت اچھا میزبان تھا۔ یہاں خواتین اور مردوں کا علیحدہ انتظام نہیں تھا بس دو ہی میزیں حلال کھانے کیلئے مخصوص تھیں ۔ وہ ایک کونے میں میز کرسی سنبھالےرش کم ہونے کا انتظارکرتی رہی۔ علی اسکے لیئے بھی پلیٹ بنا لایا۔
شکریہ۔ وہ شرمندہ ہورہی تھئ
کوئی بات نہیں۔
علی کا انداز سادہ سا تھا۔ اسکو کھانے کی پلیٹ تھما کر وہ بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کرچکا تھا۔ اس نےایک دو بار نگاہ اٹھا کر دیکھاتو اسے مکمل طور پر کھانے میں مگن پایا۔ وہ تین چار دفعہ اکٹھے کھانا کھا چکے تھے لیکن اس نے آج پہلی دفعہ نوٹ کیا تو خیال آیا وہ عام کورینز کی نسبت منہ بھر کر کھانا کھانے کی بجائے ٹھہر ٹھہر کر چھوٹے لقمے کھا رہا تھا۔

میں ہاتھ سے کھا نہیں پاتا ابھی عادت نہیں ہے مجھے۔چاول کھاتے ہوئے بہت گراتا ہوں اسی لیئے۔ جب اکیلا ہوتا ہوں صرف تب ہاتھ سے کھانے کی کوشش کرتا ہوں ۔
اس نے چاپ اسٹکس سے کھانا کھانے کی وضاحت کی تھی۔ وہ خفت زدہ سی ہوئی۔ بے دھیانی میں اسے دیکھ رہی تھی وہ سمجھا شائد اسکے چاپ اسٹکس استعمال کرنے پر حیران ہے۔ شائد اسکے باتیں سنانے کی وجہ سے وضاحت بھی کردی۔ بہر حال اسے یوں باتیں سنانی چاہیئے بھی نہیں تھیں۔
آئیم سوری۔ میں اس وقت جانے کیوں وہ سب کہہ گئ۔ میرا وہ مطلب نہیں تھا۔
اس نے ہمت کرکے معزرت کر ہی ڈالی۔علی نے غور سے اسکی شکل دیکھی۔ وہ شرمندہ تھی۔ اس نے مسکرا کر گلاس اٹھا کر ایک گھونٹ پانی پیا۔ پھر بولا
خیر ہے میں نے برا نہیں مانا۔ لیکن اگر اس معزرت کے جواب میں آپکو لگتا ہے میں نے کل آپکو جو کچھ کہا اس پر میں بھی معزرت کروں گا تو معزرت۔ میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں۔
اس نے تین سانسوں میں گلاس ختم کیا تھا۔اریزہ کی ساری شرمندگی بھک سے اڑ گئ۔
حالانکہ اسلام یہ بھی سکھاتا ہے کہ انسان کو اپنی غلطی کا اعتراف کرنے میں شرم نہیں کرنی چاہیئے۔ دل آزاری سب سے بڑا گناہ ہے۔
اس نے جتایا۔
علی جیسے سوچ میں پڑا۔ چند لمحے پرسوچ انداز میں اسے دیکھتا رہا۔ وہ جزبز سی ہونے لگی
اگر میری کل کی باتوں سے آپکی تھوڑی سی بھی دل آزاری ہوئی ہے تو میں معزرت خواہ ہوں۔ میں ابھی اسلام کی بہت سے باتوں سے ناواقف ہوں مگر کل جو کچھ کہا وہ اپنی محدود معلومات کی روشنی میں جو درست سمجھا وہ کہا پھر بھی شائد کل میں نے لاعلمی میں دل دکھایا ہے آپکا۔ میری معلومات محدود ہیں۔میں جانتا ہوں۔۔۔۔
اسکا انداز متاسفانہ ہو چلا تھا۔ اریزہ ہونٹ کاٹ کر رہ گئ۔ یہ معزرت ذیادہ شرمندہ کرنے والی تھی۔
ان دونوں کے درمیان خاصا طویل وقفہ خاموشی کا در آیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واپسی پرانہیں نو بج گئے تھے۔ گائوں اور سردی کے لحاظ سے آدھی رات مانو ہو گئ تھی۔ سڑک پر نہ بندہ نہ بندے کی ذات ۔ ہائی وے پر پھر کچھ ٹریفک نظر آجاتی یہاں اونچی نیچی گلیوں میں تو بالکل سنسانی تھی۔ علی اسکے ساتھ چل رہا تھا مگر جانے کس سوچ میں گم تھا۔ وہ خود بھی اس وقت گوارا اور ہوپ کے یوں اسے چھوڑ کر بھاگنے کی وجہ ہی سوچ رہی تھی ساتھ ساتھ راستے کی سنسانی بھی دل بوجھل کر رہی تھی۔ اس نے یونہی سر اٹھا کر آسمان دیکھا تو چاند پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ سیاہ آسمان پر دمکتا چاند جس کےگرد بنے ہالے نے تاروں کو مدھم کر ڈالا تھا۔ چاندنی نے اسکا سایہ بھی بڑا گہرا کر دیا تھا۔ زمین پر اپنے پڑتے سائے کو دیکھتی وہ سر جھکائے قدم بڑھانے لگی۔ بے ڈھنگے بے ہنگم سائے کی جگہ اس وقت اسکا سراپا خاصا نازک سایہ بنا رہا تھا۔ کوئی اور وقت ہوتا تو شائد خوشی سے پھولے نہ سماتی مگر اس وقت اسکا ذہن کسی اور ہی جگہ اٹکا تھا۔۔
مصائب کی جڑ لگائو ہے۔۔ اسکا ذہن اس جملے میں الجھ سا گیا تھا۔ بس یہی جملہ چپکا تھا آگے پیچھے کوئی سوچ نہیں۔۔لگائو ؟ اس نے کونسی ایسی چیز سے لگائو محسوس کیا ہے جو اسکے لیئے دکھ کا باعث بننے والی تھی؟۔۔ اس نے سوچنا چاہا۔۔۔ اسکا دل بوجھل سا ہونے لگا تھا۔ سانس رکنے سی لگی۔ شائد کھانا ذیادہ کھا لیا تھا۔ اس نے گھبرا کر گہری سانس کھینچی۔ وہ حقیقتا ماحول سے بے پروا ہوگئ تھی۔ اپنے حواس بحال کرکے یونہی گردن گھمائی تو حق دق سی رہ گئ۔ وہ اکیلی اس شاہراہ پر کھڑی تھی۔ اسکے ساتھ چلتا علی جانے کب کہاں پیچھے چھوٹ گیا۔ اسے احساس بھی نہ ہوا تھا۔
اسکو ایک لمحے کیلئے حقیقتا اپنا دم رکتا محسوس ہوا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنتھیا سو رہی تھی۔ کم سن اسکے سرہانے کھڑا ایک ٹک اسے دیکھ رہا تھا۔ ہیون نے کمرے کا دروازہ کھولا تو پہلی نظر اس پر ہی پڑی تھی۔ اسکے قریب آکر اس نے دھیمی آواز میں سرگوشی کی۔
اب تمہیں آرام کرنا چاہیئے۔ رات بہت ہو گئ ہے۔
کم سن چونکا۔پھر گہری سانس لیکر بولا
ہوں۔۔
سنتھیا کو ایک نظر بھر کر دیکھنے کے بعد وہ ہیون کے ساتھ احتیاط سے دروازہ بند کرتا باہر نکل آیا۔
ایڈون سے رابطہ ہوا؟ کم سن پوچھ رہا تھا۔ ہیون نے نفی میں سر ہلایا۔
صبح دوبارہ کوشش کروں گا۔ ہیون نے تسلی دی تھی۔ وہ اسے لیکر کیفے ٹیریا آیا تھا۔۔ دوپہر سے دونوں یہیں تھے۔ نرس نے اسکو اطلاع دی تھی۔ وہ اس وقت ہیون کی ہی فرم کے ساتھ میٹنگ کر رہا تھا ۔ اسے عجلت میں نکلتے دیکھ کر ہیون نے ہی باقی میٹنگ سنبھالی تھی اور فارغ ہوتے ہی اسکے پیچھے آیا تھا۔ سنتھیا کو ڈپریشن اٹیک ہوا تھا۔ اسکی اور بچے کی حالت دونوں سیریس تھی۔ جب تک ڈاکٹروں نے تسلی بخش جواب نہیں دیا کم سن حقیقتا جلے پیر کی بلی کی طرح حواس باختہ رہا تھا۔
بوفے سے اپنے لیئے دونوں ٹرے بنا کر ایک کونے کی میز پر آبیٹھے۔ یوں تو احساس نہیں ہو رہا تھا مگر کھانا سامنے آیا تو بھوک شدید محسوس ہوئی۔ دونوں خاموشی سے کھانا کھانے لگے۔
ہمیں اریزہ کو اطلاع کرنی چاہیئے؟ ۔ ہیون نے پوچھا تھا۔۔

رہنے دو۔ کم سن نے منع ہی کردیا۔

سچی بات ہے مانا سنتھیا کو اس وقت اسکی ضرورت ہے مگر سنتھیا نے جو سلوک اسکے ساتھ کیا ہے وہ ایسے رویئے میں حق بجانب ہے۔ ہمیں اسکی اچھائی کو اتنا نہیں آزمانا چاہیئے۔
کم سن نے دیانتدارئ سے تجزیہ کیا۔ ہیون ہونٹ بھینچ کر رہ گیا۔ اسکے موبائل کی بیپ بجی ۔۔ اس نے دیکھا تونونا کا پیغام آیا تھا۔
اگر تو یہ کام تمہاری منشاء سے ہوا ہے تو تم پر مجھے فخر ہے میرے بھائی ۔ تم صحیح اپنے باپ کی اولاد ہو۔ اور اگر اسکی تمہیں خبر بھی نہیں تو مت بھولنا تم کس باپ کی اولاد ہو۔
ساتھ لنک تھا۔
ایک نونا پہلیاں بجھواتی ہیں۔
اس نے لنک کھولا ۔ کسی میڈیا ویب سائٹ کا آرٹیکل تھا۔ لی گروپ کی بہو کی اپنے مارٹ کےاسٹاف سے اچانک ملاقات۔ دوستانہ انداز سے دل موہ لیا۔
اسکا دل سکڑ کر پھیلا تھا
کیا ہوا؟
کم سن نے اسکا واضح طور پر رنگ اڑتا دیکھا تو پوچھے بنا نہ رہ سکا
اس نے اپنا موبائل اسکے سامنے کردیا۔ وہ بھی کھانا چھوڑ کر آرٹیکل پڑھنے لگا۔
بہت غلط ہوگیا ہے یہ۔
پہلی بات اسکے منہ سے یہی نکلی تھی۔ ہیون کو بھی احساس تھا۔۔
چاول گوشت کے پارچے اور سوپ ۔۔ کھانا بد مزا نہیں تھا مگر اسکا ایکدم سے دل اچاٹ ہوا تھا۔
چاپ اسٹکس بے دلی سے پلیٹ میں رکھ کر وہ بوتل اٹھا کر پانی پینے لگا۔
کھانا کیوں چھوڑ دیا؟
کم سن نے حیرت سے اسکی حرکت دیکھی۔
کھانا تو کھائو۔ اس بارے میں کیا کرنا سوچتے ہیں۔ ریلیکس کرو ہیون۔
میں جا رہا ہوں۔ گائوں۔
وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
ابھی؟ کم سن نے بے یقینی سے دہرایا۔
گلاس وال سے باہر برفباری ہو تی صاف دکھائی دے رہی تھی۔
ہاں۔ تمہیں پہنچ کر کال کردوں گا۔
وہ کہہ کر رکانہیں۔۔ تیزی سے داخلی دروازے کی جانب بڑھا۔
تیری تو۔ کم سن نے کھانے کی ٹرے کو حسرت سے دیکھا ۔صبح کے بعد اب کھانے بیٹھے تھے۔ اسکے پیچھے جانے کا ارادہ کیا۔ پھر ٹال دیا۔ میز پر نگاہ پڑی تو دو عدد موبائل محو استراحت نظر آئے۔
ہائش۔۔ اس نے جھلا کر جلدی سے چمچ بھر کر سوپ پیا گوشت کا پارچہ منہ میں رکھتے فون اٹھا کر اسکے پیچھے بھاگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیون ہیون ۔۔۔آوازیں دیتے ہوئے بھاگ کر ہیون کو اس نے لابی میں جا لیا۔
بات تو سنو۔۔۔
اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر روکنا پڑا تھا۔
ہینڈ فون ۔۔ ہینڈ فون تو۔۔۔۔۔ لیتے جائو۔
منہ میں نوالی بھاگنے سےسانسیں پھولی ہوئی تھیں ۔ ہانپتے ہوئے بمشکل اس نے جملہ مکمل کیا۔
ہینڈ فون ۔۔۔
ہیون کو خیال آیا توجیکٹ کی جیبیں ٹٹولنے لگا۔
وہیں کیفے میں رہ گیا ہے۔ آوازیں دے رہا تھا سنا ہی نہیں تم نے۔ چلو چل کر لے آتے ہیں۔
اس نے غیر محسوس انداز میں فون جیکٹ کی جیب میں ڈال لیئے۔
ہیون نے آنکھیں سکوڑ کر گھورا۔ اس نے چوری پکڑے جانے والے انداز میں ہونٹ بھینچے۔ جیب سے فون نکال کر اسکے ہاتھ پر رکھا۔
فون کرلو اسے بات کر لو تسلی ہو جائے گی۔ ۔صبح تک برفباری رک چکی ہوگی تو صبح چلے جانا ۔۔
کم سن کو اسکے مان جانے کی ایک فیصد امید بھی نہیں تھی مگر کہنا فرض تھا۔ ہیون نے سر ہلا کرفون اسکے ہاتھ سے لے لیا۔
چلتا ہوں۔ اسکے کندھے کو تھپتھپا کر وہ رکا نہیں تیز قدموں سے باہر نکل گیا۔ ۔ یہ اسکا مخصوص انداز تھا۔ فکر نہ کرو میں کروں گا مگر وہی جو مجھے کرنا ہوگا۔
کم سن نے اس دفعہ اسے روکنے کی بھی کوشش نہ کی۔ سر جھٹک کر واپس ہولیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برفباری کی شدت کے باعث موٹروے بند کر دیئے گئے تھے۔ برفباری کے باعث شہریوں کو شہر سےباہربلا ضرورت سفر کرنے سےبھی منع کردیا گیا تھا۔
پولیس افسر نے نہایت پیشہ ورانہ انداز میں اسے تفصیلات سے آگاہ کیا تھا۔ گاڑی واپس موڑ لینے کی ہدایت کرتا وہ پلٹ گیا
ہیون اسٹیئرنگ پر ہاتھ مار کررہ گیا۔ ہیون نے لمحہ بھر سوچا۔
کم سن کی بات یاد آئی فون کرلو تسلی ہوجائے گی ۔۔
اٹھاتئ ہی نہیں ہے فون میرا۔
وہ بے بسی سے بڑبڑاتے ہوئے فون ملا رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اریزہ کے ہمراہ دعوت سے رخصت چاہتے وقت مجید ارباب بطور خاص اسے ایک طرف لے گئے۔
عبدالہادی کو میں نے اپنا بیٹا بنایا ہوا ہے۔ اس نے مجھ سے ذکر کیا تھا کہ تمہارے لیئے لڑکی دیکھوں۔ دراصل میرے بڑے بیٹے کی سالی ہے۔ صوم صلوات کی پابند ہے۔ حجاب کرتی ہے۔ عبدالہادی نے بس یہی شرائط بتائئ تھیں تمہاری۔ مگر شائد وہ اس لڑکی کے بارے میں انجان تھے۔ اس دن تمہیں دعوت اسی لیئے دی تھی کہ اتفاق سے وہ بچی آئی ہوئی تھی ۔ابھی میں نے گھر میں بات نہیں کی تھی۔ میں چاہتا تھا تم دیکھ لو مل لو پسند آجائے تو بات آگے بڑھائیں۔لیکن تمہیں دیکھ کر لگتا ہے تم لڑکی پسند کر چکے ہو ۔اگر ایسی بات ہے تو بھی مجھے خوشی ہے۔۔۔
وہ کہتے کہتے رکے جیسے فیصلہ نہ کر پارہے ہوں مزید کچھ کہیں نہ کہیں۔ چند لمحے اس کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد خود ہی گہری سانس لیکر بولے۔
علی۔۔ بیٹا تم اب مسلمان ہو اپنے لیئے ایسی لڑکی منتخب کرو جو تمہارے ایمان کو مضبوط کرنے میں مدد کرے ناکہ ایسی لڑکی جو خود پردے شرع وغیرہ سے نابلد ہو۔ تم میرے بیٹے جیسے ہو میں اسلیئے اتنی جسارت کر گیا ہوں۔ اگر تو یہی تمہاری مرضی ہے تو بیٹا تم بالغ ہو بہتر فیصلہ کر سکتے ہو۔
اپنے مخصوص نرم سے انداز میں وہ اسکو کہتے چلے گئے تھے۔ اسکے جواب کا بھی انتظار نہیں کیا بات مکمل کی کندھا تھپکا اور آگے بڑھ گئے۔ وہ انجان نہیں تھا اس بات سے۔ یہاں خاص طور پر عبدالہادی کے ضد کرکے اسے بھیجنے کے پیچھے یہی وجہ تھی کہ وہ وہاں جا کر لڑکی دیکھ لے۔ اسے شادی میں ہی دلچسپی نہیں تھی ۔ عبدالہادی جس طرح اسے شادی کرنےپر زور دے رہے تھے انہیں لگتا تھا کہ شادی کرنے سے وہ بہل جائے گا رچل کی یادوں سے نکل آئے گا۔ وہ بھی بچہ نہیں تھا
مستقل ڈپریشن نے اسکی صحت خراب کر رکھی تھی۔ اس سب کے باوجود وہ خود کو شادی کرنے پر تیار نہیں کرپارہا تھا۔۔ اس دن اس نے بنا سوچے یونہی اریزہ کو دعوت دے دی تھی۔ اسے خیال بھی نہ آیا تھا کہ یوں خاص الخاص دعوت دینے کا مطلب اسکا بر دکھوا کروانا بھی ہو سکتا ہے۔ورنہ شائد اریزہ کو ہرگز نہ لے جاتا۔
اس نے ساتھ قدم اٹھاتئ اریزہ کر دیکھا۔ لانگ اسکرٹ لانگ جیکٹ کورٹ شوز میں وہ مکمل مغربی لباس میں ملبوس تھی۔ اسکے بال کندھوں تک تھے اور یونہی کھلے تھے۔ ہلکی سرد ہوا سے لہراتے۔ وہ اپنی کسی سوچ میں مگن تھی ورنہ وہ اتنا تفصیل سے اسے دیکھ رہا تھا کہ کم از کم چونکتی ضرور۔
اس نے گہری سانس لیکر رخ موڑ لیا۔سیدھا اپنی راہ چلتے وہ لاشعوری طور پر اسے ہی سوچنے لگا۔ اب تک جتنی بھی ملاقاتیں رہیں ان سے وہ یہی نتیجہ نکال پایا تھا کہ وہ بظاہر بہت عملی مسلمان نہیں تھی۔ اس بات کی جانب ارباب نے اشارہ کیا تھا۔ اسکی اپنی بھی رائے شائد یہی تھی ۔ کل بحث کرتے ہوئے آج شکوہ کرتے ہوئے اس نے اس پر سوچ کا نیا در وا کیا تھا۔ وہ کون ہوتا ہے کسی کی نیت کو کسی کے اخلاق و کردار کو اسکی ظاہری شخصیت سے ناپنے والا۔ وہ پردہ نہیں کرتی تھی مگر جس طرح حرام حلال کی فکر تھی اسے ؟؟۔ شدید بھوک میں تو انسان کیا کھارہا ہوں یہ نہیں سوچتا اور وہ حرام اجزا پر ناصرف کھانا چھوڑ کر اٹھ گئ تھی بلکہ اپنی اس غلطی پر کتنا پشیمان ہوئی تھی۔ ر وپڑی تھی۔ سور کا گوشت دھولیا تو نماز جانے کی فکر نے ہلکان کردیا تھا۔ اس نے کبھی اسے ہیون کے ساتھ بھی غیر ضرورئ بے تکلف ہوتے نہیں دیکھا تھا۔ شائد وہ واقعی بس اسے دوست ہی سمجھتی تھی۔۔ اگرایسا تھا تو یقینا اسکے بارے میں سوچنے میں حرج نہیں تھا۔
وہ پردہ نہیں کرتی تھی لیکن پیدائشئ مسلمان تھی۔ باقی سب دین کے ارکان تو ازبر تھے اسے۔ تو ایسی لڑکی اسکی زندگی میں آجائے تو کیا اسکے لیئے بہتر نہیں رہےگا۔اس پر یقینا وہ اچھا اثر ڈال سکتی ہے۔ کیا خبر کل کو وہ پردہ بھی کرنے لگے۔ اپنی سوچ پر اسے خود ہی ہنسی آئی تھئ۔ موڑ مڑتے اس نے سر جھٹکا۔
میں نے بھی کہاں تک سوچ لیا۔ مجھے مسلمان لڑکی سے شادی کرنی ہے پردے کی شرط اس نے یوں رکھی تھی کہ عبدالہادی نے اسے جس مراکش سے آئی طالبہ سے ملوایا تھا وہ پردہ دور کپڑے بھی مناسب پہننے پر یقین نہیں رکھتی تھی۔ اپنی ناپسندیدگی جتانے کیلئے سب سے ہلکے پھلکے الفاظ استعمال کرتے ہوئے اس نے پردے کا ذکر کیا تھا۔ پردہ کرتی ہوگی تو اتنی عملی مسلمان تو ہوگی ہی جو اسکے ایمان کو مکمل کردے ناکہ وہ خود اسے ایمان پر لانے کیلئے کوششوں میں لگ جائے۔
وہ کسی نتیجے پر پہنچ گیا تھا۔ سر اٹھا کر سامنے دیکھا تو چند کوس کے فاصلے پر گوارا کا گھر تھا۔ باقی سوچیں کل پر ڈالتے اس نے اپنے ساتھ آتی اریزہ کو دیکھنا چاہا تو احساس ہوا وہ تو اکیلا ہی اس گلی میں کھڑا تھا۔ اس نے گھبرا کر دائیں بائیں آگے پیچھے دیکھا ۔ جانے کب کہاں وہ لڑکی اس سے چھوٹ گئ تھی جسے وہ اپنی زندگی کا ہم سفر بنانے کا سوچ رہا تھا۔ اپنی غفلت پر وہ خود کو کوس کر رہ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ع۔عا۔۔ علی۔
اسکے منہ سے بمشکل اتنی ہی آواز نکل پائی تھی کہ وہ خود ہی سن سکے۔
آگے سنسان سڑک تھی دائیں بائیں گلیاں جانے کس گلی میں مڑنا تھا اسے کہاں علی مڑ گیا اسے خبر نہ ہوسکی۔۔
اندھیرا اتنا نہیں تھا جتنا سنسانی سے اسکی جان نکلنے لگی تھی۔ اس نے مڑ کر واپس آنا شروع کیا۔ اسے پینک اٹیک آنے لگا تھا شائد۔ اسکی سانس ایکدم پھول گئ تھی۔ ہاتھ کانپنا شروع ہوگئے تھے۔ لڑکھڑاتے قدموں سے وہ سیدھی سڑک پر بھی چل نہیں پا رہی تھئ۔
علی۔۔ اس نے حلق کے بل پکارنا چاہا تھا مگر آواز نکل ہی نہیں پا رہی تھی۔ تبھی اسکا فون بجا۔ اتنئ تیز آواز نے اسے پہلے تو خوفزدہ ہی کردیا۔ دل تھام کر اس نے جلدی سے جیکٹ کی جیب ٹٹول کر فون نکالا ہیون کالنگ لکھا آرہا تھا۔
اس نے بے تابی سے فون اٹھا کر کان سے لگایا۔
ہیون۔ اسکا نام لیتے ہی وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی ۔۔
ہیون میں راستہ بھول گئ۔ میں گھر کیسے جائوں گی؟ بالکل یاد نہیں سڑک پر اکیلی کھڑی ہوں۔گوارا کا گھر۔۔ ہچکیوں کے درمیان وہ بمشکل بول پائی تھئ۔
اریزہ؟ وہ اسکے رونے پر پریشان ہو گیا تھا۔
پھر آگے جو کچھ وہ بولی وہ بھی سمجھ نہیں آیا۔
اریزہ انگریزی میں بولو کیا ہوا کہاں ہو؟ رو کیوں رہی ہو۔ ؟
ہا ہاہیون۔ ہچکیاں لیتے اس سے بولا بھی نہیں جا رہا تھا۔
مم میں۔ گوارا کا گھر بھول گئ۔ کیسے گھر جائوں۔
اس نے بمشکل ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں مدعا سمجھایا۔ ہیون پریشان ہوگیا۔
تم اکیلی باہر کیوں نکلیں؟ گوارا کہاں ہے؟ اریزہ روئو مت۔
گوارا گھر چلی گئ تھئ میں اکیلی نہیں تھی۔ وہ مجھے چھوڑ گیا۔ اس کو گھبراہٹ میں نام ہی بھول گیا۔
کون کون چھوڑ گیا؟
ہیون کے پوچھنے پر اسے اور رونا آنے لگا۔
نام ابھئ بھی یاد نہیں آرہا تھا۔
ابھی آواز دی میں نے۔ سنا نہیں۔ اب مجھے یاد بھی نہیں آرہا۔
اریزہ۔ سب چھوڑو غو رسے میری بات سنو۔ رونا بند کرو۔ چھے بال۔۔آنسو پونچھو اپنے۔
ہیون نے اسے بچوں کی طرح پچکارا وہ اپنے آنسو پونچھنے لگی۔
پونچھ لیے؟ وہ پوچھ رہا تھا
ہوں۔ اس نے ہنکارابھرا۔ اسکا رونا بند ہوگیا تھا
ہیون کے لیئے یہی بہت تھا۔
اب ایسا کرو اس وقت جہاں بھی ہو وہیں بیٹھ جائو۔
ہیون نے کہا تو اس نے ارد گرد بے چارگی سے دیکھا۔ سنسان سڑک دور کہیں جھینگروں کی آواز آرہی تھی یا کتوں کے بھونکنے کی۔
یہاں؟۔۔ اسے تامل ہوا۔
مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔
وہ پھر بلک اٹھی ۔۔
ہاں۔ سڑک پر بیٹھ جائو۔ وہیں۔ ہیون نے زور دے کر کہا تووہ وہیں اکڑوں بیٹھ گئ۔
آنکھیں بند کرکے گہری سانس لو۔ ہنا دول سیت۔ وہ روانی میں ہنگل بول گیا۔
واٹ؟ اریزہ کو سمجھ نہ آیا۔
گہری سانس لو۔ ون ٹو تھری۔آنکھیں بند کرو۔ صرف میری آواز سنو۔ ون ٹو تھری۔
شاباش۔ اور گہری سانس لو۔
وہ مستقل بول کر اسےشانت کرنا چاہ رہا تھا۔
اس نے اسکی ہدایات کی تعمیل کی تو واقعی دل کو کچھ قرار آیا۔
تم اکیلی نہیں ہو میں ہوں تمہارے ساتھ۔ بالکل پریشان مت ہو۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔
اسکی دلاسہ دیتی آواز ۔۔ سچ مچ اسکا دل ٹھہرنے لگا۔
تم آرہے ہو۔۔ اس کو تسلی چاہیے تھی۔
ہاں میں ابھی آرہا ہوں۔
ہیون نے ایسے کہا جیسے ابھی واقعی آرہا ہو۔ اور اسے بھی تسلی ہوگی جیسے۔۔
اریزہ۔۔
ہیون نے پکارا۔
ہوں۔ وہ اب بہتر محسوس کر رہی تھی۔
میں ہوں لائن پر۔۔۔
تم فون بند مت کرنا میں گوارا کو کال کرتا ہوں۔ اسکا علاقہ اتنا بڑا نہیں ہے۔ بس ہمت نہ ہارنا۔ ابھی وہ آجائے گی تم بس جہاں ہو اسکے قریب کوئی لینڈ مارک ہو تو بتائو۔
لینڈ مارک۔ اس نے سر اٹھا کر ادھر ادھر دیکھا۔ کوئی بورڈ کوئی سائن نہیں تھا۔ بس چوراہے پر جو بڑے سے شیشے لگے ہوتے ہیں وہ سڑک کے موڑ پر لگا تھا۔۔
وہ یہاں۔ ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ کال کٹ گئ تھی۔ اس نے آواز بند ہونے پر کان سے ہٹا کر فون دیکھا۔اسکے فون نے آخری جھپکی لی تھی اور بند ہو گیا۔
اس ایک آواز سے کتنی ڈھارس ملی تھی اور اب۔ وہ اکڑوں سے وہیں دھپ سے بیٹھ گئ۔
گہری سانس لو۔ اریزہ۔
اسے ہیون کی آواز آرہی تھی۔
اس نے آنکھیں بند کرکے گہری سانس لی۔
میں ٹھیک ہوں۔ مجھے سب پتہ ہے راستہ میں۔ ابھی خیریت سے گھر پہنچ جائوں گی۔
وہ اردو میں خود سے کہہ رہی تھی۔
ارےزہ۔
دور کہیں سے آواز آئی تھی۔ اس نے پٹ آنکھیں کھولیں۔
بھاگتے قدموں کی آواز ۔ وہ پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے سمت کا اندازہ نہیں لگا پائی۔
اری ۔۔ زااا۔
اپنے نام کا اتنا برا تلفظ ۔ وہ کپڑے جھاڑتئ اٹھ کھڑی ہوئی۔
دل کو یک گونہ سکون میسر آیا۔
میں یہاں۔ اس نے پکارنے کی کوشش کی تو خراش سی ہوگئ۔ کھانسی آگئ۔ اسکی کھانسی کی آواز بھی خاصی گونج گئ۔ علی فورا چونکا۔ وہ دو گلی پیچھے پکار رہا تھا۔
اریزہ۔۔۔ اس بار اسکی آواز نسبتا تیز آئی تھی۔
میں یہاں ہوں۔ اس نے بھی کھانسی پر قابو پا کرپکارا اس بار خاصی کراری آواز نکلی۔
کیا نام تھا۔ وہ پیشانی مسلنے لگی۔ اسکی آواز علی تک پہنچ گئ تھئ۔ وہ بے چارہ گلی سے بھاگتا ہوا باہر نکلا۔ پہلے سڑک کے بائیں جانب
دیکھا۔ وہ دائیں جانب تھی۔اسکو دیکھ کر دوبارہ پکارا تو وہ بھاگتا ہوا اسکے پاس آیا۔ اسکی سانس بری طرح پھول چکی تھی۔ وہ پچھلی دو تین گلیوں میں بھاگ بھاگ کر دیکھتا آیا تھا۔ اسکے قریب پہنچ کر گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر ہانپنے لگا۔
آئی ایم سورئ۔ وہ مگن ہو کر مجھے پتہ نہ چلا میں آگے نکل آئی۔
اس کی حالت دیکھ کر اسے سچ مچ شرمندگی ہوئی تھی۔
مائی بیڈ۔
وہ سانسیں بحال کرتا سیدھا ہوا۔
مجھے بھی پتہ نہ لگا۔ مجھے لگا تھا ذیادہ سے زیادہ پچھلی گلی میں ہوگی تن ۔ تو میں نے آواز دینے کی بجائے پہلے گلی میں ڈھونڈا۔تم تو کافی آگے نکل آئی ہو۔ ویسے تم ٹھیک ہونا؟
علی کی بولتے ہوئے اسکی شکل پر نظر پڑی تو پوچھے بنا نہ رہ سکا۔ اسکی ناک اور آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔
میں ٹھیک ہوں۔ اس نے کمال صفائی سے جھوٹ بولا۔
تمہیں راستہ نہیں آتا؟ ۔۔ وہ اب حیرت سے پوچھ رہا تھا۔
آں۔ ۔ اس سے جواب نہ بن سکا۔
یہ راستہ مین ہائی وے کو جاتا ہے۔
علی کے کہنے پر اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو دور چھوٹی سی کوئی گاڑی گزری تھی۔ وہ اگر گھبرانہ جاتی تو اس سڑک سے اسکا گزر ہوچکا تھا مانا دن اور رات میں فرق ہوتا ہے مگر اتنا بھئ نہیں۔۔ تم کبھی بڑی نہ ہونا اریزہ وہ خود کو کوستی ہونٹ کاٹنے لگی۔ گوعلی نے شرمندہ کرنے کی نیت سے نہیں کہا تھا مگر وہ ہو گئ تھی۔
چلیں۔ وہ اسکی شرمندگی محسوس کرکے بات بدل گیا۔ جوابا اس نے سر ہلا دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


گوارا اور ہوپ دونوں موٹی والی گھٹنے تک کی جیکٹیں پہن کر باہر نکل رہی تھیں جب وہ گلی میں مڑے۔ ہوپ تودروازے سے دیکھ کر اطمینان سے پلٹ گئ ۔ گوارا اسے دیکھ کر بھاگی ہوئی پاس آئی۔۔
کین چھنا؟ کیا ہوا؟ راستہ بھٹک گئ تھیں؟
وہ پریشان ہوئی وی تھی۔
میں ٹھیک ہوں۔
اریزہ شرمندہ ہو رہی تھی۔
فون کیوں بند ہے تمہارا پتہ ہے کتنی دیر سے ٹرائی کررہی تھی میں۔۔
چارجنگ ختم ہوگئ تھی۔
اریزہ منمنائی۔
حد ہے ایسی لڑکی نہ دیکھی میں نے جسے فون کا کوئی ہوش ہی نہیں۔
گوارا تاسف سے سر ہلاتی بولتے ہوئے علی کی جانب مڑگئ۔
سن بے آپ ساتھ نہیں تھے اسکے؟ یہ ہماری چھوٹی بچی ہے اسکو راستے واستے نہیں آتے ۔ گم گئ تھئ یہ۔ آپکو اندازہ نہیں یہ کتنی عزیز ہے ہمیں۔ اسکو آپکے پاس چھوڑ کر آئے تھے خیال نہیں رکھا آپ نے۔
وہ اب علی کی ہنگل میں کلاس لینے لگی۔الفاظ اریزہ کو سمجھ آتے تو یقینا ان دونوں کی یہیں لڑائی ہو جاتی۔ علی نے بمشکل مسکراہٹ دبائی۔ اریزہ خفت سے سرخ چہرہ لیے اسکو ہلکے ہلکے کندھے پر مکے مار رہی تھی۔
بس کرو۔ گوارا۔
بیان ۔ چلو اب گھر چلو ٹھنڈ بہت ہورہی ہے۔
علی نے فراخ دلی سے معزرت کرکے بات بدلی۔
ادھر ہاتھ پکڑائو اپنا۔ کہیں کھو گئیں تو میں تمہارے نگہبان فرشتے کو کیا جواب دوں گی۔
گوارا اسے چھیڑے جا رہی تھی۔ وہ دانت کچکچا کر گھور رہی تھی۔ علی ان کو شب بخیر کہتا سیدھا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ وہ دونوں کمرے میں آئیں تو ہوپ اطمینان سے کمفرٹر اوڑھے فون میں لگی تھی۔ گوارا دھپ سے اسکے برابر آن گری۔
اف اتنی پیاری نیند سو رہے تھے ہم دونوں۔ گوارا نے لمبی سی جمائی لی اور ہوپ کے بازو پر سر رکھ دیا۔ ہوپ نے اسے بے مروتی سےپرے کیا ۔ گوارا شاکی نگاہوں سے دیکھتی سیدھی ہوئی۔
تمہیں کیسے پتہ چلا میں گم گئ تھی؟ اریزہ نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔اندازہ تو ہورہاتھا
تمہارے نگہبان فرشتے نے بتایا۔ گوارا ترنگ میں بولی پھر خیال آیا۔
بتا دو اس بے چارے ہیون کو اتنا پریشان ہو رہا تھا فورا ہمیں فون کرکے تمہارے پیچھے جانے کو کہا۔ میں نے کہا بھی وہ اکیلی تھوڑی ہوگی سن بے ہوں گے ساتھ اسکے۔ وہ ابھی کہہ ہی رہی تھی کہ اسکا فون بجنے لگا۔ ہیون ہی کی کال تھی اس نے فون اریزہ کی جانب بڑھا دیا
لو خود بات کرلو۔
اس نے فون اٹھایا تو ہیون بے تابی سے ہنگل میں پوچھنے لگا
ملئ اریزہ؟ ٹھیک تو ہے نا وہ؟
میں اریزہ بول رہی ہوں ٹھیک ہوں میں اب۔۔ اریزہ نے اطمینان دلایا۔ اسکی آواز سن کر اس نے سکھ کی سانس لی۔
گھر آگئ ہو؟گوارا پہنچ گئ تھی؟ فون کیوں بند ہوگیا تمہارا؟
اسکے پے در پے سوال آور بے تابی ظاہر کررہے تھے کتنا پریشان تھا وہ
ہاں وہ بیٹری ختم ہوگئ تھی۔ میں ٹھیک ہوں گھر آچکی ہوں ۔ بس اب میں سونے لگی ہوں۔ تھینک یو سو مچ ہیون ۔ تم نہ ہوتے تو شائد میں بے ہوش ہوجاتی وہیں۔
وہ قصدا رخ موڑ کر دھیمی آواز میں بولی۔
تھائی نیئے۔ اس نے شکر کا کلمہ پڑھا۔۔
مجھے یہی فکر ہو رہی تھی کہ پینک اٹیک ہوا ہے کہیں وہیں بےہوش نہ ہو جائو۔ شکر ہے۔
اچھا میں صبح بات کرتی ہوں ٹھیک ہے؟ خدا حافظ۔
گوارا اسکو محظوظ انداز سے گھور رہی تھی چہرے پر اتنی شرارتی مسکراہٹ تھی کہ اس نے جھٹ بنا ہیون کی بات سنے فون بند کردیا۔
وے؟ فون اسے تھماتے ہوئے پوچھے بنا نہ رہ سکی۔
تو آخر کار تم نے چن لیا اپنا ہم سفر؟ گو وہ ہیون نہیں ہے اسکا افسوس ہے مجھے مگر تمہارے آج کے لال ٹماٹر چہرے کو دیکھ کر میں تمہارے لیئے خوش ہوں۔
وہ اطمینان سے آلتی پالتی مار کر بیٹھتے ہوئے بولی۔ انداز سے لگتا تھا تفصیل سے بات کرنے کا ارادہ ہے۔ ہوپ نے بھی موبائل ایک طرف رکھا او رتکیے پر کہنی ٹکا کر اسکی جانب یوں متوجہ نظروں سے دیکھنے لگی کہ اریزہ سٹپٹا سی گئ۔
کیا مطلب کیا کہہ رہی ہو؟ کیا کیا میں نے؟
ہم سے چھپایا جبکہ ہم تمہارے کہنے کے مطابق تمہاری بہنوں جیسی سہیلیاں ہیں۔ تمہیں لگاتھا چونکہ میں نے ہیون کے لیئے تمہیں منانے کی کوشش کی تھی اور ہیون دوست ہے میرا تو تم نے مجھ سے بھی چھپایا۔ پھابو۔ میں تمہاری بھی دوست ہوں۔
گوارا اندازوں پر اندازے لگا رہی تھی۔ اس کی پیشانی شکنوں سے پر ہوگئ۔
کیا کہہ رہی ہو صاف کہو مجھے سمجھ نہیں آرہا ۔۔
وہ بری طرح جھلا گئ۔ ہوپ نے چونک کے اسکی شکل دیکھی۔ گوارا اپنے ازلی بےتکلف انداز میں کہہ رہی تھی
یقین جانو تم سے اس بات پر تھوڑا خفا ہونے کے باوجود کہ تم نے مجھے خود نہیں بتایا میں بہت خوش ہوں تمہارے لیئے۔ سن بے بہت بہت اچھے انسان ہیں۔ ہائی اسکول میں ہم جونئیر لڑکیوں کے بھئ کرش ہوتے تھے سن بے۔ گاڈ کیا وقت تھا وہ بھی۔ آدھا سکول۔
وہ جانے کیا قصہ سنا رہی تھی۔ اریزہ بھنا اٹھی
کون سن بے؟ یہ علی کی بات کر رہی ہو؟ کیا نہیں بتایا میں نے بھلا؟ یہ کہ وہ ٹیچر ہیں میرے؟

یہی نہیں بتایا نا کہ چپکے چپکے تم نے سن بے کا انتخاب کیا ہے جیون ساتھی کیلئے۔
گوارا نے اس پر بم پھوڑا تھا۔
کیا؟ وہ اتنی حیران ہوئی کہ چیخ ہی تو پڑی۔۔
گوارا اور ہوپ نے بہت حیرانگی سے اسکا ردعمل دیکھا پھر دوپہر میں ان خاتون کی کہی بات من و عن دہرا دی۔


حد ہے۔ ایک تو زبان مجھے صحیح سمجھ نہیں آتی اوپر سے جس کا جو دل چاہتا اپنے سے آگے جوڑ کر بات لگا دیتا۔ میرے وہ استاد ہیں ہم مزہب ہونے کے ناطے انکی کھانے کی دعوت قبول کرنے کا گناہ سرزد ہو گیا ہے مجھ سے بس اسکا یہ مطلب تھوڑی کہ میں ان سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔
اریزہ کا بس نہیں چل رہا تھا وہ خاتون سامنے آجاتی وہ کچا چبا جاتی انہیں۔
ٹھیک ہے۔ ہو سکتا ہے انہیں غلط فہمی ہوگئی ہو۔ مگر تم اتنا غصہ کیوں کر رہی ہو؟۔
ہوپ اسکا غصہ سمجھنے سے قاصر تھی۔
مجھے خود سمجھ نہیں آرہا اسے غصہ کس بات پر آرہا ہے۔
گوارا بھی انجان تھی اسکے غصے کی اصل وجہ سے۔۔ جبکہ وہ جھاگ اڑا رہی تھی منہ سے۔
میں پوچھوں گئ صبح ان سے آخر انہوں نے ایسی غلط فہمی ہونے کیوں دی انہیں چھوڑوں گی نہیں۔۔
اس کا ارادہ اٹل تھا۔ گوارا اور ہوپ نے کندھے اچکا دیئے۔ پھروہ دونوں تو فورا سو گئیں اسکی نیند جانے کیوں اڑ گئ۔ کچھ دیر سونے کی کوشش کرتی رہی پھر موبائل کھول لیا۔ بلاگ کے نوٹیفیکیشن آئے تھے۔ اس نے کتنا عرصہ ہو گیا تھا بلاگ کھولا ہی نہیں تھا۔ یونہی کھول کر نوٹیفیکیشن دیکھنے لگی۔ اسکا فالور اسکے پرانے مراسلے پر لکھ کے گیا تھا۔

ہمیشہ اس بلاگ سے مجھے فیصلہ لینے میں مدد ملی ہے اپنی زندگی کا مشکل ترین فیصلہ کرنے لگا ہوں مگر آج یہاں کچھ نہیں۔ ہو سکے تو کچھ لکھ دو۔
اس نے اس عبارت کو کئی مرتبہ پڑھا تھا۔
اسکے عام سے بک بک پر مبنی بلاگ سے کیا مدد ملتی رہی ہوگی۔ اس نے بھنا کر سوچا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اس نے اٹھ کر اپنے کوٹ کی جیب کھنگالی۔ وہی کاغذ نکالا۔ اسکی تصویر کھینچی۔ اور یہی تصویر شائع کردی۔
یہاں ہنگل میں لکھا ہے۔

The root of suffering is attachment.

تو جناب اگر آپ کسی بھی شخص جگہ یا چیز کے لگائو میں مبتلا ہیں تو خود کو علیحدہ کیجئے ورنہ خود سے علیحدہ ہو جائیں گے۔
آہ کیا لکھ ڈالا۔ اس نے خود ہی اپنا کندھا تھپکا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلا کمنٹ۔
یہ کونسے کیڑے مکوڑے جمع کر رکھے ہیں ایڈمن۔۔
دوسرا کمنٹ۔
ابھی زندہ ہو مجھے لگا اب کبھی یہ بلاگ کا نوٹیفیکیشن نہیں آئے گا۔ مگر قسمت میری ابھی تھک کر سونے لیٹا تھا۔
تیسرا کمنٹ
یہ کونسی زبان ہے؟ اتنی لمبی عبارت کا بس اتنا سا ترجمہ بنا؟
چوتھا کمنٹ
میں بھی بچپن میں ایسےکیڑے مارتا تھا تب مجھے لکھنا نہیں آتا تھا۔
اس نے بیزاری سے اوپر نیچے کیا۔ کوئی اسکے لکھےقول کی تعریف کرنے کو تیار نہ تھا۔
تیسرا کمنٹ۔ وہ چونکی۔
اتنی لمبی عبارت کا بس اتنا ترجمہ بنا؟؟
وہ غور سے تحریر کی تصویر کو بڑا کرکے دیکھنے لگی۔ ہنگل میں اوپر نیچے جو لکیریں ہوتی ہیں وہ مکمل لفظ بن جاتی ہیں پھر بھی یہاں ان لفظوں کی بھی تین سطریں تھیں۔ اسے اچھی طرح یاد تھا ان پجاری جی نے اسے انگریزی میں بس اتنا کہا تھا
The root of suffering is attachment
وہ یہی سمجھی کہ انہی سطروں کا ترجمہ ہے۔ اسے الجھن ہونے لگی۔۔ اجنبی زبان کی عبارت اسے معمہ لگ رہی تھی۔ سامنے لکھے الفاظ اور وہ معنی سے نا واقف ۔ اس نے حروف کو پہچاننے کی کوشش کی ۔
آخر میں۔۔
وہ اتنا ہی پڑھ سکی۔ مصائب کی جڑ لگائوہے میں آخر لفظ تو آیاہی نہیں۔ یہ ضرور کچھ اور لکھا ہے۔ پڑھنے کی کوشش میں اسے خیال آیا۔ ہنگل سکھانے کیلئے اسے ایک ایپ بھی موبائل میں ڈائونلوڈ کروائی گئ تھی تاکہ اسائنمنٹس بنانے میں مدد مل سکے۔ اس نے وہی ایپ کھولی تصویر اپلوڈ کی اسکرین پر الفاظ ابھر آئے۔
“آخر میں، صرف تین چیزیں اہمیت رکھتی ہیں: آپ نے کتنا پیار بانٹا، آپ نے کتنی عاجزی سے زندگی گزاری، اور آپ نے کتنی خوش اسلوبی سے ان چیزوں کو چھوڑ دیا جو آپ کے لیے نہیں ہیں۔”
یعنئ وہ جو پوچھ رہی تھی پوچھنا چاہ رہی تھی ان پجاری جی سے وہ بات تو اہم تھی ہی نہیں۔۔۔
اسے اب سمجھ آیا تھا۔ اورتبھئ ایک نوٹیفیکشن آیا تھا۔ کسی نے اسکے بلاگ پر تبصرہ کیا تھا۔ اس نے نوٹیفیکشن کھولا۔
ہمیشہ کی طرح تم نے مدد کی۔ میں آخر کار آگے بڑھنے کا فیصلہ کرتا ہوں۔ اور علیحدہ کرتا خود کو ان سب یادوں سےجنہوں نے مجھے جکڑ رکھا تھا۔ شکریہ۔ کل میری زندگی کا اہم دن ہے۔ میں ایک بہت جرات مندانہ قدم اٹھانے لگا ہوں ۔ دعا کرنا میں اب وہ چین پا لوں جو مجھ سے چھن چکا ہے۔۔
پہلی آئی ڈی جس نے اسکے لکھے کو ہی پڑھا تھا۔ سمجھا تھا۔مان بھی لیا تھا۔ اور اریزہ نے اسے پہچان بھئ لیا تھا۔ یہ وہی تھااسکا واحد کورین پرستار۔ اسکا استاد۔۔۔
اس نے بلاگ بند کر دیا۔ موبائل رکھ دیا آنکھیں بند کرلیں۔ کمبل منہ تک تان لیا۔ نیند کے سب لوازم پورے تھے بس ایک نیند میسر نہیں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد
جاری ہے۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *