مختصر افسانہ
ایک دن مجبوری کے ساتھ۔۔
مصنفہ: واعظہ زیدی
۔
صبح ہو گئ تھی مجبوری کیلئے۔ یکے بعد دیگرے بس کام ہی کام اسکی توجہ کے منتظر تھے۔ آج اتوار تھا تو ضمیر لمبی تانے لیٹے یقینا نا اٹھنے کے ارادے سے سوئے پڑے تھے۔ دونوں بچوں کی بھئ چھٹی تھی سو چین کا ناشتہ دیر سے ہی ہوا۔۔ ناشتے کے برتن دھو تے دھوتے ہی سورج سوا نیزے پر آچلا تھا۔ اتنی رویوں کی گرمی تھی کہ دانتوں پسینہ آ چکا تھا پھر بھی اسکے بڑے صاحبزادے غیرت میاں موقع پا کر گھر سے نکل چکے تھے۔ حیا کا تو گھر میں ہونا نا ہونا ہی برابر ہوتا تھا۔ کہیں کسی کونے میں موبائل ہاتھ میں لیئے بس کھٹ کھٹ انگلیاں چلاتی مصروف رہتی۔۔ ماں پکارتی رہے کسی کام کیلئے مجال ہے جو ہوں ہاں میں بھی جواب دے جائے۔کبھی کبھی تو مجبوری کو لگنے لگتا بس وہ اکیلی ہی ہے دنیا کے سب آزار جھیلنے کیلئے۔
ابھی بھی بس ناشتہ ہو پایا تھا۔۔ کام والی ماسی بی فرصت ہمیشہ کی طرح بنا بتائے رخصت لے چکی تھیں۔۔ گھر بکھرا پڑا تھا ۔۔ اور مجبوری وہ ہر اس ماں کی طرح جسکو مجبوری کا نام ملا تھا ورثے میں کام کرتے ہوئے بڑ بڑا رہی تھی
” اف خدایا اتنا کچھ لینا باقی ہے۔چین سکون خوشیاں تھوڑی سی بے مروتی ۔ کیا کروں۔؟ فرصت ہی نہیں آتی ہے گھر میں دل تو کرتا کہ فرصت کو باندھ کر گھر بٹھا لوں۔” جھاڑن سے نصیب کی گرد جھاڑنے کی کوشش کرتی وہ زہنی طور پر نڈھال زیادہ تھی۔۔
اف آج تو بازار زندگی کا چکر لگا ہی لوں۔۔ضمیر گھر پر ہیں بچوں کو دیکھ لیں گے یا ضمیر کو ساتھ لے چلوں۔۔
خیال اچھا تھا مگر پچھلے تجربے کی یاد نے رونگھٹے کھڑے کر دیئے۔
۔دنیا کی نئی ریت بھی تو ہے کہ ضمیر کو ساتھ لے کر کبھی زندگی کا رخ نہ کرو۔ رہنے دیتی ہوں۔۔انہیں گھر ہی۔۔۔ مجھے تو کچھ سمجھتے ہی نہیں بیچ بازار میں کچوکے لگا بیٹھتےہیں اچھا ہے گھر میں رہیں بچوں کو لے جاتی ہوں چھوٹی موٹی خوشیاں سنبھال لیں گے۔۔
اس نے صوفے پر گرتے ہوئے سوچا ۔ حیا کو ہی ساتھ لے جاتی ہوں۔ کبھی کبھی مان جاتی تھی اسکی بات بنا چوں چرا کیئے۔۔ بیٹی جو ٹھہری۔۔
حیا ۔۔ حیا بیٹا تیار ہو جائو امی کے ساتھ بازار چلی چلو۔۔
انداز تحکمانہ تو کیا ہوتا منت بھرا سا ہوگیا۔۔
حیانے لمحہ بھر کا توقف کیئے بنا ہی کمرے سے ہی جواب دے ڈالا۔۔
:میں نہیں جا رہی برا حال ہو جاتا ہے میرابازار میں۔۔
غیرت بھائی کو لے جائیں
مجبوری ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گئ۔۔
تم ساتھ جانے کو تیار نہیں غیرت کہاں جانے کو تیار ہوگا۔ابھی تو گھر میں ہے بھی نہیں۔ تم ہمت کردو بیٹا میں ہمت کرکےاکیلی چلی جاتی ہوں۔۔میری چادر اور پرس اٹھا لائو کمرے سے۔۔
ہمت ایپ حیا نے موبائل میں انسٹال کر رکھی تھی۔ جب کبھی کہیں جانا ہو ماں کو ہمت ایپ سے گاڑی منگوا دیتی تھی سچ تو یہ ہے کہ ہمت آنے سے مجبوری کو کافی آرام ہو گیا تھا۔جب کبھی کہیں جانا ہوا جھٹ ہمت کرلی۔
اچھا مما کر دیتی ہوں۔۔۔
حیا بے زارئ سے موبائل تھامے کمرے سے طلوع ہوئی۔چادر اور پرس ماں کو تھما کر حسب عادت پہلی منزل صوفے پر ہی ماں کے پاس آن گری۔۔ اس سے زیادہ چلنا پھرنا حیا کو تھکا دیتا تھا۔۔ مجبوری اسکی بیماری کی وجہ سے زیادہ سختی بھی نہیں کر پاتی تھی ابھی بھی اسکے پاس بیٹھتے ہی اسکے سر کر اپنے کندھے پرٹکا کر دھیرے دھیرے انگلیاں پھیرنے لگی۔۔ دو تین انگلیاں موبائل پر مار کر حیا نے سواری بک کر دی تھی۔۔
ابھی ہمت کو آنے میں پانچ منٹ تو لگ ہی جائیں گے دور ہے ابھی کافی۔۔۔ اس نے موبائل میں جگہ دیکھ کر ماں کو بتایا تھا۔۔
ایک تو ہمت ایپ کبھی جو بروقت آجائے گھنٹوں انتظار کراتی ہے۔ اف۔
۔ مبجوری پر یک بیک تھکن سوار ہوگئ تھی۔اپنے لیئے تو ایک کپ چاہیئے بھی بنانے کا دل نہیں کرتا تھا اسکا مگر بازار جانا بھئ ضروری تھا ۔۔ زندگی کا سودا سلف کے بغیر گزارا کہاں ہوتا۔۔ ہمت آتی تو اٹھنا پڑتا ہی۔۔ رات سے ضمیر کی طبیعت بھی بوجھل سی ہے شوہر کا خیال آیا تو وہیں صوفے پر پڑے پڑے ہی پکارکر پوچھ ڈالا۔۔
۔ ضمیر میں بازار زندگی جا رہی ہوں کچھ منگوانا ہے تو بتا دیں سو تو نہیں رہے؟۔۔
ضمیر جوابا کافی دیر کھانستے ہی رہے۔۔ پھر بمشکل بوجھل سی آواز میں جواب دیا۔۔
طبیعت ٹھیک نہیں کل بہت بہت زلت و خواری اٹھا لی ہے ایسا کرو تھوڑی سی بے حسی لے آنا بے مول بک رہی ہے آجکل تو معاشرے میں۔۔
حیا کا موبائل ٹن سے بجا۔۔
یور کیپٹن ہیز ارائیوڈ۔(۔ آپکا کپتان پہنچ چکا ہے)
امی جلدی کریں ہمت آگئ ہے ۔۔ حیا نے بتایا تو مجبوری بجلی کی تیزی سے چادر اوڑھنے لگی۔۔
اچھا ٹھیک ہے ضمیر آپ سو جائیں اگر بے مول ملی بے حسی تو لے آئوں گی۔
ضمیر کےخراٹے لائونج تک گونج رہے تھے۔۔
مجبوری : حیا بیٹا دروازہ بند کر لو پاپا تو سوگئے تمہارے میں خوار ہوتے ہی واپس آجائوں گی ٹھیک ہے؟
حیا سر ہلا کر دروازہ بند کرنے لگی۔۔ ٹھیک ہے
دروازہ کھول کر گاڑی میں بیٹھ ہی رہی تھی پھر بھی ہمت نے ٹوک دیا
میڈم جلدی کریں
مجبوری بھنا ہی تو گئ۔۔ چمک کر بولی۔۔
زرا صبر نہیں ہے ہمت ایک تو آنے میں خود اتنی دیر کر دی مجھے اتنے کام تھے ۔۔
ہمت ہو ں میڈم بہت کام ہوتے ہیں مجھے۔۔۔کبھی خود ہمت کیا کریں ۔ ابھی اتنے لوگوں کو انکی منزل پر پہنچا کر آرہا ہوں وقت تو لگنا ہے نا۔
ہمت کے انداز میں محسوس کیئے جانے والا تفاخر تھاجو مجبوری کو ٹھیک ٹھاک کھلا۔
ہاں تو میں نے خود ہی اپنے موبائل سے ہمت کی کونسا کسی اور سے کروائی ہے۔۔ بڑ بڑاتی ہی رہ گئ ۔۔ تھوڑا سفر ہی طے ہوا تھا کہگاڑی ہچکولے کھاتی رک گئ۔
بس میڈم آپکی اتنی ہی ہمت تھی منزل آپکی بہت دور ہے آگے کا راستہ خود طے کر لیں۔۔ ہمت کے انداز میں بے نیازی سی تھی
ارے ارے ابھی تو بازار شروع بھی نہیں ہوا اتنی جلدی کیسے۔۔ مجبوری روہانسی سی ہوگئ
دیکھیں مجبوری بہن آپ خود جانتی ہیں مجبوری کیا کیا کراتی اب ہمت کہاں تک ساتھ دے؟
ہمت کہاں مجبوریاں دیکھے سو بے مروتی سے جواب پکڑا دیا۔۔
پھر بھی۔۔ وہ بےچارگی سے بولی
آپ مجبوری ہیں آگے سمجھوتہ کر لیں۔
ہمت کا انداز ہنوز تھا۔۔
مجبوری گہری سانس لیتے ہوئے اترنے لگی۔
ٹھیک بھائی شکریہ آپکا زندگی کی شروعات پر ہی ساتھ چھوڑ دیا آپ نے سمجھوتہ کر لیتی ہوں دیکھتے ہیں اور کیا کیا دکھاتی ہے دنیا۔۔
خدا حافظ باجی شکریہ۔۔ ہمت نے کہہ کر زن سے گاڑی دوڑا دی۔۔ مجبوری بھونچکا سی ہو کر پلٹی
ہیں اسکو کیسےپتہ چلا؟۔۔
کہ مجبوری کا دوسرا نام شکریہ ہوتا ہے۔۔۔؟؟؟ وہ حیران تھی مگر ہمت جا چکی تھی۔۔
تیز چبھتے رویوں کا سورج ، حالات کے گرم تھپیڑے ۔۔ اور بے رحم سوداگروں کا بازار اسکی ہمت یہیں جواب دینے لگی تھئ۔۔
اف۔ زندگی کی شروعات میں ہی میں تو تھک گئ بری طرح پوری خریداری کیسے کروں گی۔۔اس نے سوچا تو مگر بازار سے بنا خریداری کون آتا واپس۔۔؟ سو اونچی دکانوں کے نیچ سے دکانداروں سے دو دو ہاتھ کرنے کو کمر کس لی۔۔ سامنے ہی بڑی سی خوشیوں کی دکان نظر آئی۔ گھر سے بنا کر لائی سودے سلف کی فہرست چین سکون بے مروتی سب بھلا کر بے تابی سے ایک ماں بڑھی تھی دکان کی جانب جسے یاد تھا تو بس اتنا کہ بچوں کو بہت عر صے سے یک گونہ خوشی نصیب نا ہوئی
اب اگرخوشیاں مل رہی ہیں دام تو پتہ کر لوں۔۔
دکاندار سے بڑے شوق سے دریافت کیا
اے بھائی خوشی کیا بھائو بکتی ہے؟
دکاندارخوشیو ں پر پانی پھیرتا اچٹتی نگاہ خریدار پر ڈال کر سرسری سے انداز میں بولا۔۔
بہن عنقا اور نایاب جنس ہے آپ بتائیں کیا مول لگا سکتی ہیں۔۔انداز غیر شعوری طور پر بھی تضحیک آمیز ہوگیا۔۔ جیسے پوچھتا تو ہے اوقات کہ خوشیاں خرید سکو؟
مجبوری پر یاسیت سی چھا گئ۔۔ دھیرے سے مری مری آواز میں بولی۔
بنا پیسے کے جو مل سکتی ہو تھوڑی سی چاہیئے۔۔
دکاندار جانے کیوں ہنس پڑا۔۔
وہ تو آسانی سے مل سکتی ہیں مگر صاف دل والوں کوہر کسی کے بس کی بات نہیں خوش ہونا وہ بھی بنا پیسے کے۔آپ یوں کریں خوشیاں دے لیں۔۔
مجبوری خوش ہی ہوگئ : وہ کیسے؟
دکاندار: کسی کی دلجوئی کر لیں کسی معصوم کے آنسو پونچھ لیں، کسی غریب پر ترس کھا کر ضرورت پورئ کر دیں کسی کا غم بانٹ لیں کسی سے دو بول پیار سے بات کر لیں دل شانت ہو جائے گا
مجبوری اس بے موقع تقریر کو ہضم کرنے کے موڈ میں نا تھی۔
اچھا چھوڑو بھائی یہ بتائو بے حسی کا کیا حساب ہے؟
دکاندار نے پانی پھیر کر جگ ایک طرف رکھ کر ہاتھ جھاڑ دیئے۔
بھری پڑی ہے معاشرے میں بہن جتنی مرضی لے لو ہاں مگر ضمیر مر جاتا ہے زیادہ استعمال سے۔۔۔۔ ہاتھ روک کر لیجئے گا۔۔
مجبوری بھی جانتی تھی مگر ضمیر کو بہت آرام ملتا تھا سو لیکر جانا بھی ضروری تھا۔۔ ٹھنڈی آہ بھر کر مانگ لی
تھوڑی سی دے دو۔۔
دکاندارنے پاس پڑا پورا گٹھر اٹھا کر تھما دیا۔۔
جائو بہن گھر ۔۔۔حیا اور غیرت کو گھر سے نکال دو ضمیر کو مار دو سکون سے گزرے گی زندگی۔۔
مجبوری بھونچکا رہ گئ۔۔ آدھا گٹھر واپس ہی کر دیا۔ بس بس اتنی بے حسی نہیں دکھا سکتی شکریہ بھائی اور نہیں چاہیئےاتنی ہی بہت ہے۔۔
خدا حافظ ۔۔ وہ کہہ کر رکی نہیں جھٹ چادر سنبھالتی آگے بڑھ گئ۔۔
دکاندار اسکے انداز پر قہقہہ لگا کر ہنسا تھا۔۔
بازار زندگی خریداروں سے کھچا کھچ بھرا تھا۔گ
کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔۔مجبوری ڈولتے قدموں سے چلتی ہوس پرستوں سے بچتی آگے بڑھتی رہی۔۔
پھیری والا آوازیں لگاتا جا رہا تھا۔
غم لے لو مفت لے لو تھوڑا سا احساس لے لو
تھوڑا سا آرام دے کر لے لو۔۔
مجبوری ہنس پڑی ۔لو بھلا بتائو غم بھی کوئی لیتا مفت ہی سہی اور احساس لیں آرام کے بدلے؟آرام تو سونے کے بھائو مل رہا کون پاگل لے گا ۔۔۔
مجبوری ہلکی سی آوازآئی۔ کوئی پکار رہا تھا مجبوری کو بھرے بازار میں۔
مجبوری چونک کر مڑی۔کون پکار رہا اب مجھے۔
حسرت دور سے پکارتی چلی آرہی تھی۔جدید تراش خراش کے کرتے پاجامے میں ملبوس سنگھار کیئے دراز زلفیں ادا سے لہراتی اونچی ایڑھی والی جوتی میں لہرا لہرا کر چلتی اسکی بچپن کی سہیلی حسرت۔۔ آج بھی مجبوری سے کہیں زیادہ جوان لگتی تھی۔ یقینا کافی خریداری کر چکی تھی بڑا سا شاپنگ بیگ ہاتھ میں تھامے اسکا اونچے درجے کی بیگمات والا حلیہ ۔۔ مجبوری کو اسے دیکھ کر اب بھی احساس کمتری سا محسوس ہونے لگا۔وہ پھر پکار رہی تھی
مجبوری رکو سنو تو سہی
مجبوری بےزار سی ہو کر مڑ کر دیکھنے لگی۔ اوہو یہ حسرت کہاں مل گئ بازار میں مجھے۔ اب جان تھوڑی چھوڑے گی اف کیسے دیکھ لیااس نے مجھے اب ملنا پڑ جائے گا ۔۔
حسرت نے تیز قدموں چل کر اپنے اور مجبوری کے درمیان کے صدیوں کے فاصلے پلک جھپکتے ختم کیئے اور مجبوری کی بےزاری کو خاطر میں لائے بنا لپٹ گئ۔۔
ارے مجبوری کیا حال ہے کیسی ہو؟ کب سے پکار رہی ہوں سنتی ہی نہیں ؟ کتنی بڑی لگنے لگی ہو؟
چہکتے ہوئے وہ یوں گویا تھی جیسے برسوں کی بچھڑی سہیلی ملی ہو
مجبوری کا انداز بالکل الٹ سا تھا۔۔ دنیا جہان کی بےزاری چہرے پر سجا کر گویا ہوئی تھی۔۔
آں ہاں سنا نہیں تھا میں نے۔۔ بڑی کیا ہمیشہ سے ہی مجبوری بڑی ہی ہوتی ہے تم سنائو ایک دم جوان لگتی ہو بہت ساری آرزوئیں تشنہ رہ گئیں میری لگتا ہے
ہاں ہے تو ایسا ہی ۔۔حسرت کھلکھلائی۔۔ مگر تم سے مرتے دم تک ساتھ نبھانے کا وعدہ ہے۔ اور سنائو ہمت ہار دی نا زندگی کی شروعات میں ہی؟
مجبوری دانت پیس کر رہ گئ۔۔طعنے دینے کی عادت حسرت کی اتنی ہی پرانی تھی جتنی پرانی حسرت خود تھی۔۔
بس وہ اب کہاں تک ساتھ نبھائے ہمت چھوڑ کر ابھی پکڑی ہے تم سنائو بھائی امید کیسے ہیں؟ خوب نبھ رہی ہے سنا ہے تم دونوں کی۔ اس نے ایک ہی سانس میں ساری مروت نبھا دی۔۔
حسرت نے اونچا سا قہقہہ لگایا۔۔۔
انہوں نے تو اوپر کی کمائی سے دوسری شادی کر لی ہے۔ خرچہ دینا کم کر دیا تھا۔مجھے تو زہر بھی دینے لگے تھے جان چھڑائی میں نے ان سے ۔۔ حسرت کھلکھلا کر یوں بتا رہی تھی جیسے پتہ نہیں کتنی مسرت کی بات بتا رہی یے۔۔
حسرت ہوں اتنی آسانی سے تھوڑی مر سکتی
اس نے آنکھ دبا کر کہا اور پھر ہنسنے لگی۔۔
مجبوری کو اسکی زہنی حالت پر شک سا ہوا۔حسرت جتنی بھی کمینی سہی مگر اچھا نہیں ہوا اگر یہ سب ہوا تھا تو اس نے بہت دلگیری سے افسوس کیا۔۔۔
ایسا ہونا نہیں چاہیئے تھا حسرت مجھے بہت افسوس ہوا سن کر اور بچے؟ سکھ و چین؟
حسرت نے ایک ادا سے اپنے بال لہرائے۔۔
سکھ چین دونوں کو گروی کر دیاہے کسی عابد کے گھر رہتے کبھی کبھی ملنا ہوتا
مجبوری کو واقعی بہت دکھ ہوا
پھر تم کیسے وقت گزار تی ہو؟
حسرت کا انداز ہنوز تھا۔ لاپروائی سے بولی۔
میں آج کل زندگی کے ساتھ رہ رہی ہو اپنے جیسی دو چار اور حسرتیں جمع کر لیتی ہوں آہیں بھرتی ہوں وقت گزر جاتا ہے۔۔
مجبوری اسکی بے حسی پر رشک کرکے رہ گئ۔مزید کلام کی خواہش ہی پیدا نا ہوئی سو جان چھڑانا چاہی
اوہ۔۔ چلو حسرت دامن گیر رہنا ابھی زرا میں تھوڑی سی پریشانیا ں فکریں لینے آئی تھی سو آزار جمع ہو چکے زندگی میں گزارنے کیلئے سوچا آج یہ خریداری مکمل کر لوں۔ وہ جس دل سے ہنس کر بتا رہی تھی یہ وہی جانتی تھی۔۔
حسرت نے مصنوعی حیرت کے اظہار کے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے۔۔
اب خریدتا کون یے آن لائن آرڈر کرو گھر آجائیں گئ
پھر ہاتھ میں پکڑا شاپنگ بیگ زبردستی تھمانے لگی۔۔
تم یہ غم رکھ لو مجھے ابھی مفت ہی ملا اب حسرتیں کیا پالو گی غم ہی غلط کرتی رہنا بچے خوش ہو جائیں گے
مجبوری اس سے خوشی تک نا لیتی نا کہ غم سو جھٹ انکار کرنا چاہا۔۔
ارے ارے مجھے غم نہیں چاہیئے کیا ہوا جو میری حسرت پوری نا ہوئی کیا کروں گی اسکا پہلے ہی بہت سے غم لاحق ہیں مجھے
مجبوری ہو منع نہیں کر سکتیں حسرت کو ۔حسرت کا انداز جتانے والا تھا جیسے کہہ رہی ہو اوقات نہیں تمہاری کہ حسرت سے مقابلہ کر سکو۔۔
لو۔۔غم رکھو میں چلتی ہوں ٹا ٹا۔ وہ کہہ کر اپنی اسی فاخرانہ چال سے چلتی آگے بڑھ گئ۔
مجبوری نے شاپر کھول کر جھانکا تو رونا ہی آگیا۔۔ کم از کم سالوں کیلئے کافی غم تھا۔۔
اف ۔ یہ حسرت کاش کہ کبھی گلا دبا کر مار سکوں میں اسے جھولی بھر کر غم دے گئ خود کیسا کھلکھلاتی پھرتی ہے اک میری روح ہے بے چین کر گئ ہونہہ۔اس نے کھڑے کھڑے بیچ بازار ہی۔رونا شروع کردیا۔۔۔۔ کیا قصور تھا میرا زندگی ۔۔۔ اسے اب زندگی پر غصہ آرہا تھا
ضروری تھااپنی حسرت سے یوں ٹاکرا ہوجاتا میرا۔۔
آسمان کی جانب چہرہ کرکے یوں چلائی جیسے آسمان سے سیدھا جواب اسکے سر پر ہی آن گرے گا
اسکے پاس سے ہمت کی مشہور گاڑی گزری ۔۔تھوڑا آگے جا کر رکی پھر پیچھے واپس آکر سیدھا اسکے قریب آن رکی۔۔ وہی ہمت ڈرائور جو اسے بیچ راستے چھوڑ کر آگے بڑھا تھا کھڑکی کا شیشہ نیچے کر کے مسکراتے ہوئے پوچھنے لگا
ہمت ہوں میڈم چاہیئے تھوڑی؟ واپس چلنا ہے ؟
مجبوری کو مجبور دکھائی دینا تو ہرگز پسند نہیں تھا آنسو پونچھتی الٹ ہی تو پڑی اس پر۔۔
ایک تم کیا بن بلائے مہمان کی طرح آگئے ایسے بلاتے رہو کبھی وقت پر نہیں آتے
ہمت نے محظوظ قہقہہ لگایا جانے مجبوری کی بات بری نا لگی یا ہمت کو جب آنا ہوتا تو اسکو پھر کسی بات سے فرق نہیں پڑا کرتا۔مزے سے خوب ہنس کر بولا
: مجھے پکڑ لیں بی بی پوری زندگی باقی ہے کب تک حسرت پر روئیں گی ڈھیٹ بنئے
اور خوشیوں پر فاتحہ پڑھ لیں ایسے ہی نہیں مل جاتی خوشیاں۔ احساس کرنا پڑتا ہے دوسروں کو دیکھ کر خوش ہونا سیکھیں خوشیاں خود دستک دیں گی۔۔
مجبوری گھور کر رہ گئ۔۔ایک تو مجبوری کو کیا کیا سننا سہنا پڑتا یہ دو ٹکے کی ہمت تک کی باتیں سنو۔۔ اف۔۔ ضمیر جاگنے والے ہوں گے بے حسی تو مل گئ ہے خوشیاں پھر کبھی سہی گھرجاتی ہوں ضمیر جاگنے والے ہوں گے
ہمت اسکی خود کلامی سے بور ہو کر ہارن بجانے لگا: آرہی ہیں میڈم یا بس خود سے باتیں کرتی رہیں گی؟
مجبوری نے فیصلہ کرکے گاڑی کا دروازہ کھولا اور ا در بیٹھنے لگی۔۔
شکریہ بھیا گھر تک پہنچا دو۔۔
ہمت سر ہلا کر گاڑی اسٹارٹ کرنے لگا
تبھی ایک تباہ حال حلیئے میں روشن چہرے والی لڑکی شیشی بجانے لگی۔۔ٹھک ٹھک ۔۔ اللہ کے نام پر کچھ دے دو اللہ خوش رکھے۔۔ انداز ہرگز بھی فدویانہ نا تھا بلکہ محسوس کی جانےو الی بے نیازی تھی۔
مجبوری نے شکل تو کیا دیکھنی تھی حلیئے سے بھکارن ہی سمجھ لیا۔۔
ایک تو یہ بھکاری ناک میں دم کیئے رکھتے چلو بھائی جلدی چلو۔۔ وہ اب جلد از جلد یہاں سے نکلنا چاہتی تھی۔
لڑکی برا ہی تو مان گئ۔۔ بھنا کر بولی۔۔
بھکاری نہیں ہوں میں ۔ شہزادی ہوں مرضی سے آتئ ہوں مرضی سے جاتی ہوں خوشی نام ہے میرا
مجبوری کی اپنی مجبوری تھی۔ ضمیر کے جاگنے سے پہلے گھر پہنچنا تھا۔۔ سو ہمت بڑھانے لگی
چلو بھائی جلدی کرو۔۔
ہمت نے گاڑی اسٹارٹ کرتو لی تھی مگر خوشی کو دیکھ کر بڑھائی نہیں تھی بلکہ مجبوری کو ٹوک بھی دیا
اب خوشی دستک دے رہی تھی تو آپ نے لوٹا دی۔۔
کون یہ یہ۔خوشی تھی ۔۔ بھکارن
مجبوری پریشان ہو گئ۔۔
میں نے پہچانا نہیں ارے سنو خوشی۔۔
مجبوری نے شیشے سے جھانکا تو خوشی دور تیز تیز قدموں سے جاتی دکھائی دی
ہمت نے کندھے اچکا دیئے۔
۔اب تو چلی گئ آپ نے بے دردی سے لوٹا دیا اسے اب تھوڑی آئے گی ۔اب تو دیجئے گا کسی کو
مجبوری کو ایک اور حسرت دامن گیر ہوگئ۔۔
میں کہاں دے سکتی کسی کو خوشی۔۔ آہ بھر کر۔۔ میں تو مجبوری ہوں خوشی کو بھگا سکتی ہوں بس
چلو بھائی ضمیر جاگ گیا تو مجبوری کو نہیں دیکھتا بس اپنی کرتا ہے پھر۔۔
اس نے نشست کی پشت سے سر ٹکا کر آنکھیں موند لیں۔ ایک پچھتاوے کا آنسو پلکوں کی باڑ توڑتا مجبوری کےگال پر آٹھہرا تھا۔۔۔
اردوز ویب ڈائجسٹ کی تمام تحاریر کے جملہ حقوق محفوظ ہیں بلا اجازت ان تحاریر کو استعمال کرنے پر انضباطی کاروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔۔ از قلم واعظہ زیدی (ہجوم تنہائی) #اردو #اردوویب #ناول #
visit: hajoometanhai