مسیحامحترمہ ہجوم تنہائی۔۔ نفسیات دان۔عالمہ پی ایچ ڈی زندگی کے تجربات
۔۔۔۔۔ لکیر وقت
ایک عمر سے اس نے نگاہ نفسیات دان کی آنکھوں پر جما رکھی تھی۔جیسے
آنکھوں سے اسکے دل کا حال پڑھ لینا چاہتا ہو۔
مگر دل کا حال نگاہوں سے بیان کرنا اسے نہیں آتا تھا۔ جبھی مریض کی نگاہوں کا مرکز وہ نفسیات دان صرف الجھن ذدہ تھی کہ آخر اس ٹھیک ٹھاک سمجھدار دکھائی دینے والے انسان کو کیا معاملہ درپیش ہے جو یوں وحشت زدہ سا پلک جھپکائے بنا اسے گھورے جا رہا تھا۔ آج کا پہلا اور شائد آخری مریض یہی ہونے والا تھا۔ ہجوم کو گھنٹہ لگا تھا اس نتیجے پر پہنچنے میں کہ اگلی ملاقات کو وقت دے یا نہیں۔اس نے گہری سانس لیکر انٹرکام پر اپنی ذاتی معاون ملازمہ کو ہدایت دی کہ بقیہ تمام ملاقاتیں منسوخ کرکے انکو نئے اوقات کار بتا دے۔
فون رکھ کر اس نے بلا ارادہ اس نے میز پر دھری اپنی پسندیدہ تجریدی عجیب و غریب گھڑی کو دیکھا جو صرف چار سوئیوں پر مشتمل تھی۔ یہ سوئیاں ہوا میں معلق تھیں انکے کنارے ایک سکے جتنی چھوٹی مشین میں پیوست تھے۔ ایک سوئی سیکنڈوں کے حساب سے مسلسل حرکت میں تھی باقی دو گھنٹے اور منٹ بتاتی تھیں مگر کیسے یہ صرف ہجوم تنہائی کو خبر تھی۔ چوتھی سوئی عموما الارم کی ہوتی ہے مگر عام گھڑیوں میں اس خاص گھڑی میں یہ سوئی کسی خاص مقصد کیلئے تھی۔
اس پر نگاہ جمائے اسکا مریض اس گھڑی کی طرف اشارہ کرکے پوچھ رہا تھا۔
کیا وقت ہو رہا ہے؟
بنا پلک جھپکائے ہی اس نے پوچھا تھا۔
ایک بج کر پینتالیس منٹ۔
ہجوم نے گہری سانس بھری۔ تو یہ لکیر وقت میں الجھا مسافر ہے۔ اسکا مسلئہ وہ لمحوں میں حل کر سکتی تھی۔ مگر وہ اس مسلئے میں الجھ کر یقینا ایک عمر گنوانے والا تھا۔
میں بارہ بج کر پینتالیس منٹ پر آیا تھا۔ دیکھا آپکو خبر بھی نہ ۔ہوئی اور ایک گھنٹہ گزر چکا ہے۔۔
دبے دبے جوش سے وہ چیخ اٹھا تھا۔ہجوم کو اپنا کان سہلانا پڑا۔
دیکھیئے آپ
آپکے خیال میں مجھے یہاں بیٹھے کتنا وقت گزر چکا ہے۔
پانچ منٹ۔ ہجوم گڑ بڑائی۔
نہیں مجھے گھنٹے سے اوپر ہو چکا ہے یہاں بیٹھے۔
اس نے بے تابی سے بات کاٹ کر تصحیح کی۔
اچھا۔ ہجوم نے ہنکارہ بھرا۔ اسکی بات کو غلط کہنا یا ثابت کرنا اسے مشتعل کر سکتا تھا۔
میں اپنی زندگی میں بہت کچھ کرنا چاہتا ہوں مگر وقت نہیں رہا ہے میرے پاس مجھ سے چھنتا جا رہا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کب صبح ہو تی ہے کب لمحہ بھر کے وقفے سے سہ پہر کب شام۔ مجھے اتنا کچھ کرنا ہے جو میں وقت کی کمی کے باعث نہیں کر پا رہا ہوں۔ اور مجھے سمجھ نہیں آتا میرے سوا کسی اور کو یہ احساس کیوں نہیں ہو رہا ہے کہ زمین کروٹ لے چکی ہے اب وقت گزر نہیں رہا بھاگ رہا ہے یہ ہاتھوں سے پھسل رہے ہیں لمحے۔
وہ بنا رکے بولتا چلا گیا تھا۔ دونوں ہاتھوں کو اس نے اسکے آگے پھیلا دیا تھا جیسے واقعی وقت اسکی مٹھی سے ریت کی طرح پھسلتا جا رہا ہے۔
کیا یہ اچھی بات نہیں کہ آپکا وقت گزرتا جا رہا ہے؟
ہجوم نے بغور اسکی کیفیت جانچتے ہوئے سوال کیا تھا۔
ہرگز نہیں۔ وہ میز پر زو رسے ہاتھ مارتا اٹھ کھڑا ہوا
مجھے وقت ہی اتنا نہیں دیا گیا جتنا مجھ سے قبل نسل انسانی کو دیا جاتا رہا ہے اور مجھ سے میں توقع رکھتا ہوں زماں و مکاں کھوج لینے کی کیسے کروں؟ یہ کہاں کا انصاف ہے جب لوگوں کے پاس وقت تھا تب سوچ نہیں تھی اب میرے پاس سوچ ہے تو وقت کا دھارا رفتار پکڑ چکا ہے۔کیا یہ میرا قصور ہے کہ میں آج اس دور میں پیدا ہوا جب وقت پھسل رہا ہے ؟ مجھے اس و قت کیوں نہ پیدا کیا گیا جب وقت تھا؟ اور اگر مجھے اب پیدا کیا ہے تو مجھے اس لکیر وقت میں پھنسا دیا ہے جہاں صبح و شام پلک جھپکنے جتنے دور رہ گئے ہیں؟۔۔
اسکی آنکھوں میں خوف خلفشار بے بسی غصہ کیا کچھ نہ تھا۔ اسکا سوالیہ وجود خود ایک نیا سوال تھا۔ مگر کیا یہ فانئ وجود جانتا تھا کہ
اسکے سوال بے مایہ تھے۔یہ ہجوم تنہائی کے بس میں تو نہ تھا کہ اسکی لکیر وقت پلٹ دے ہاں اس کیفیت سے گزر چکی تھی بلکہ گزر رہی تھی سو اسکو سمجھنے والی شائد وہ اسکی دنیا کی واحد انسان تھی۔ ورنہ لوگوں کو تو احساس بھی نہ تھا کہ دنیا کیسی قیامت کی چال چل چکی ہے۔ ان سے لمحے گزارنے کا حق چھین لیا گیا تھا۔کیونکہ اب انجام قریب تھا۔
ہر چیز کا انجام ۔۔۔
لیکن ادراک ایک ایسا زنداں ہے جو قیدیوں کو ذہنی کشمکش میں ڈالتا ہے۔ ان سے جسمانی نہیں روحانی بیگار لیتاہےاور یہ بیگار بے کار ہے۔
یہ گھڑی دیکھ رہے ہیں آپ؟
اسکے غیر متوقع سوال پر فانی نے بد مزا سا ہو کر اسے دیکھا۔
آپکے خیال میں چوتھی سوئی کس مقصد کیلئے ہے؟
ہجوم نے اسکے تاثرات یکسر نظر انداز کیئے۔
اسکی بات کے جواب میں فانی وجود گھڑی کو گھورنے لگا۔ اسکی آنکھوں کی پتلی پھیلی سکڑی بے تحاشہ متحیر ہو کر اس نے ہجوم کو دیکھا۔
یہ جو بنا جھٹکا لیئے بنا رکے چلتی چلی جا رہی ہے لمحوں یا سیکنڈوں کی سوئی ہے۔
ہجوم تنہائی اسکے کسی اور ذہنی الجھن میں نہیں ڈالنا چاہ رہی تھی سو خود ہی اس گھڑی میں وقت دیکھنا سکھانے لگی۔
یہ جو وقفے وقفے سے چل رہی ہے منٹوں کی ہے اور یہ جو رکی ہوئی ہے یہ گھنٹہ مکمل ہونے پر چلے گی۔ اور یہ چوتھی عموما الارم کی ہوتی ہے مگر۔
یہ یہ۔۔ الارم کی نہیں ہے ۔ ہے نا؟
فانی نے بے تابی سے بات کاٹی۔
اس وقت اس گھڑی میں ایک بج کر پینتالیس منٹ ہو رہے ہیں ہیں نا؟
وہ پرجوش تھا۔ ہجوم چونکی۔ یہ پہلا انسان تھا اس کے سوا جس نے اس گھڑی کو دیکھ کر وقت کا درست اندازہ لگایا تھا۔
خلا میں تھرکتی سوئی لحظہ بھر رکی افسوس سے دونوں وجودوں کودیکھا پھر بڑھ گئ۔ یہ لمحوں کی سوئی کی حرکت دونوں محسوس بھی نہ کرسکے۔ اس لحظے نے گھڑی کو روک دیا تھا لمحہ بھرکیلئے نہیں ایک عمر کیلئے مگر ابھی یہ دونوں ادراک کی اس منزل تک نہ پہنچ پائے تھے۔
ہاں۔ یہ الارم کی نہیں ہے۔ بالکل صحیح سمجھے آپ۔اور شام ڈھل رہی ہے آپکا بہت وقت ضائع ہوگیا ہے۔
ہجوم نے سمجھانا چاہا۔
یہ دیکھیں میری گھڑی۔
اس نے اپنی کلائی ہجوم کی نگاہوں کے سامنے کی نہایت مہنگی اینڈرائڈ گھڑی شام پانج بج کر پینتالیس منٹ وقت بتا رہی تھی۔
وہ کف افسوس ملنے لگا۔
اب آپکو سمجھ آیا کہ میرا گھنٹہ تیزی سے گزر رہا ہے مجھے آپ سے ملاقات کیلئے آئے ایک گھنٹہ ہوا ہے اور شام ہونے لگی ذرا ملاقات کا وقت دیکھیئے صبح بارہ پینتالیس۔ اس نے اپنی ڈائری کھول کر سامنے رکھی۔
ابھی آپ سے چند منٹ قبل وقت پوچھا تو آپ نے ایک بج کر پینتالیس منٹ بتایا تھا اور اب دیکھیں چند منٹوں میں گھنٹے گزر گئے ہیں۔ کیا یہ میرے ساتھ قدرت کا مزاق نہیں؟
وہ متوحش سا پوچھ رہا تھا۔
اس گھڑی کے مطابق آپکو یہاں چار گھنٹے سے زائد وقت ہو چکا ہے ۔
ہجوم تنہائی نے دراز سے ایک ڈیجیٹل گھڑی نکال کر سامنے رکھی۔
آپ بارہ پینتالیس پر ہی آئے تھے یہ وقت آپکی گھڑی آپکے موبائل کی گھڑی اس دنیا کی گھڑی کے مطابق وقت بتا رہی ہے۔
اور یہ گھڑی ۔۔ اس نے عجیب و غریب سوئیوں والی گھڑی کی جانب اشارہ کیا
دنیا کا وقت اسے ہی بتاتی ہے جو دیکھنا چاہتا ہے۔
فانی نے ہجوم پر نگاہ جما لی دوبارہ۔
پورے پینتالیس سیکنڈ میں نے پلک نہیں جھپکائی مگر پلک
جھپکتے ہی چار گھنٹے گزر چکے تھے۔۔
ہم وقت روک نہیں سکتے فانی۔
ہاں ادراک ہو گیا ہے آپکو کہ وقت تیزی سے گزر گیا ہے۔ یہ تو نہیں کہوں گی کہ اچھا ہوا ۔ جان جانا جان لیوا احساس ہے مگر اب
اسی احساس کے ساتھ یہ بھی جان لیں کہ شام ڈھل رہی ہے۔۔
ہجوم نے اپنی پشت پر گلاس وال کی جانب اشارہ کیا۔ جس سے باہر کی رواں دواں زندگی عریاں ہو رہی تھی۔ شام کے دھندلکے رات کی تاریکی میں بدل رہے تھے مگر شہر کی روشنیاں تاریکی پھیلنے نہیں دے رہی تھیں۔ ایک چمکتا دمکتا روشن شہر۔
جسکو ابھی لمحوں کی چال کا ادراک نہیں ہوا تھا
فانی نے سٹپٹا کر ہجوم کو دیکھا جسکے چہرے پر طویل ترین دن کی تمام تھکن اتر آئی تھی۔
تو کیا آپکو بھی ادراک ہوا ہے یہ کہ وقت معمول سے تیزی سے گزر رہا ہے؟
فانی نے بے یقینی سے دیکھا اسے۔
ہجوم نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ فانی کا وجود ایک دم ڈھیلا سا پڑ گیا۔ کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح چند لمحے میز پر دونوں ہاتھ رکھ کر جھکا کھڑا اپنی سانسیں بحال کرتا رہاپھر یونہی بنا مڑ کر دیکھے باہر جانے لگا۔
یہ چوتھی سوئی جانتے ہیں کس چیز کی ہے؟
ہجوم کی آواز اسے پشت پر سنائی دی۔ وہ ٹھٹکا۔ ایک زخمی مسکراہٹ چہرے پر در آئی۔ مڑ کر دیکھا۔ہجوم کو جواب معلوم تھا مگر پھر بھی وہ اسے سوالیہ نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔
یہ ادراک کی سوئی ہے۔ اور میری اور آپکی اس ملاقات کے درمیان چار مرتبہ اپنےمدار میں چکر مکمل
کر چکی ہے۔
اس نے لحظہ بھر کو ہجوم کے جواب کا انتظار کیا۔ مکمل خاموشی اسکا جواب تھی۔
وہ تیز قدموں سے نکلتا چلا گیا۔
پانچ بار ۔ ہجوم نے گہری سانس بھری۔ وہ یقینا ایک منزل پیچھے تھا ۔
اسکے نکلتے ہی اسکی ذاتی معاون اندر چلی آئی۔
میم میں نے کل کی ملاقاتوں کی فہرست بنا دی ہے کل آپ کو آج کےدو منسوخ ہو جانے والے ملاقاتیوں
سے بھی ملنا پڑے گا۔
ہجوم تنہائی نے ہنکارہ سا بھرا وہ اسی عجیب گھڑی پر نگاہ جمائے کرسی کی ہتھی پر کہنی ٹکائے ہتھیلی کے پیالے میں چہرہ دھرے گہری سوچ میں تھی۔
یہ بتائو یہ چوتھی سوئی کتنے چکر لیتی ہے ایک گھنٹے میں؟
سوال اچانک تھا
معاون نے غور سے گھڑی کو دیکھا۔
مگر مادام اس میں تو چوتھی سوئی ہے ہی نہیں؟
اسکا جواب ہجوم کیلئے غیر متوقع نہیں تھا
سو ہلکے سے مسکرا کر سر کے اشارے سے اسے جانے کی اجازت دی۔
باہر نکلتے ہوئے اس نے یونہی مڑ کر دیکھا۔ ہجوم تنہائی مسکراتے ہوئے گھڑی پر نگاہ جمائے گلوب کی شکل کے پیپر ویٹ کو انگلیوں میں تیزی سے گھما رہی تھی۔
مادام چوتھی سوئی کا حساب کرنے بیٹھ تو نہیں گئیں؟ پچھلی بار گھنٹوں کھوئی رہی تھیں اسکو دیکھنے میں ۔ جبھی اسکے وجود سے ہی انکاری ہو گئ میں آج۔
باہر نکلتے ہوئے اس نے سرجھٹکا۔
پتہ نہیں یہ عجوبہ ملا کہاں سے ہے انہیں۔ چار سوئیوں والی بے ڈھب گھڑی جس میں نا ڈائل نہ ہندسے۔
جانے مادام وقت کیسے جانتی ہیں اس سے۔
اس نے سوچا پھر کندھے اچکا تی اپنے کائونٹر کی جانب بڑھ گئ۔
چوتھی سوئی لمحے میں سینکڑوں بار گھومتی ہے لمحوں کی سوئی مات کھا جاتی ہے کون حساب رکھ سکتا ہے بھلا اسکا کہ ایک گھنٹے میں کتنی بار چکر لگا گئ؟
ہجوم تنہائی نے سوچا تھا۔
پھر اپنی دراز سے ریکارڈ والی ڈائری نکالی۔
کیس نمبر658
فانی ادراک کے لمحے کا اسیر ہے۔
جسکو ادراک ہو جائے وہ یا تو پاگل ہو جاتا ہے یا پاگل کہلاتا یے۔
یقینا فانی اب پاگل ہی کہا اور سمجھا جائے گا۔
اسکو جھٹلا کر عام انسان بنایا جا سکتا ہے مگر یہ کام میں کیوں کرتی جبکہ مجھے پتہ ہے وہ پاگل نہیں ہے۔
اس نے لکھ کر قلم بے چینی سے میز پر پٹخا۔
کمرے میں گھٹن کا احساس بڑھتا جا رہا تھا۔اس نے گھڑی پر نگاہ کی تو گھنٹہ مزید گزر چکا تھا۔
ہائش۔
وہ تیزی سے اپنا سامان سمیٹنے لگی۔ زندگی کی دوڑ میں وقت کی لگام اسکے ہاتھوں سے چھٹ رہی تھی۔ اور وہ بے چین تھی۔ بد حواس اور متوحش بھی۔
از قلم واعظہ زیدی (ہجوم تنہائی) #اردو #اردوویب #ناول #hajoometanhai