اس نے اس تصویروں سے سجے چھوٹے سے کمرے میں بیٹھی ان معصوم صورتوں والی ان کم عمر دوشیزائوں کو اپنی جانب جی جان سے متوجہ دیکھا تو بمشکل اپنے چہرے کے تاثرات قابو کیئے اور اپنے سامنے دھرے ایزل پر سجے خالی کینوس کی طرف متوجہ ہوگئ۔ وہ سب نادان بچیاں مصوری کا ہنر سیکھنے آئی تھیں۔آئی بھی کس کے پاس۔ وہ دل ہی دل میں ہنسی۔خالی کینوس اسے دعوت دینے لگا۔مجھے بھر دو رنگوں سے ۔ اس نے برش کو تازہ بنائے گئے رنگوں پر رگڑ کر کینوس پر پھیرنا شروع کیا۔ جب ذہن میں نہ کوئی سوچ ہو نہ کچھ کر دکھانے کی امنگ تو کاغذ ہو یا کینوس دونوں ہی شاہکار تخلیق کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ بنتا ہے کچھ ایسا جو نا کسی باذوق کی حس کو تسکین دے نہ کسی بد ذوق کو ہنسنے کا موقع فراہم کرے۔ ابھی جیسے اسکا کینوس آڑی ترچھی رنگین لکیروں سے سج گیا تھا۔
اپنے ہر فن پارے کو جب وہ ناقد کی حیثیت سے دیکھتی تو خود کو طفل مکتب تصور کرتی وہ بھی اتنا کند ذہن جو مصوری تو دور ایک خاکہ ایک لکیر درست کھینچ لینے پر قادر نہ تھی۔ اور یہ اسکی طالبات۔ اسکے ہنر اسکی صلاحیتیوں کی تعریف میں ذمین آسمان کے قلابے ملاتیں۔ اسکے فن پاروں کو پکاسو سے تشبیہہ دیتیں۔یہ تک کہتیں کہ وہ ناقدین نہیں ناقدروں کے درمیان ہے۔جنہیں نہ اسکا کوئی شاہکار دکھائی دیا آج تک کوئی اسکی تصاویر کے اندر چھپے مقصد کو نہ جان سکا جبھئ تو وہ یوں گمنام مصورہ بن کے گمنام علاقے میں چند گمنام فنکاروں کو لکیر کھینچنا سکھانے پر معمور ہے۔ یہ تو یقینا ان گنتی کی پانچ طالبات کی محبت تھی۔ وہ خود کبھی سوچتی تھی آخر اسے قدردانوں کی ضرورت ہی کیا ہے۔اسکا ہنر کسی کی ستائش کا محتاج نہیں۔ اگر اسکا ہنر ان پانچ دیوانی لڑکیوں کو اسکا گرویدہ کر سکتا ہے تو اسے پانچ سو لوگوں کی واہ واہ کیا کرنی جنہوں نے چار تصاویر دیکھنی دو کے ساتھ کھڑے ہو کر اپنی ہی تصویر بنانی ( ہم نمائش دیکھنے گئے تھے بھئ واہ واہ کرو ہم کتنے باذوق ہیں ) ایک آدھ خریدنی نہیں تو یونہی ہاتھ جھلاتے آرٹ گیلری سے نکل جانا۔ دنیا کی پذیرائی کا تو وہ متمنی ہو جسے دنیا جانتی ہو جو دنیا جان بیٹھے اسکو اسکی بے ثباتی پر گلہ ہو بھی تو کس سے؟ دنیا سے ؟ یا دنیا بنانے والے سے؟ دونوں سے ہی گلہ کرنے لائق وہ خود کو اہل نہیں سمجھتی تھی ۔
ایک خالی کینوس پر رنگ بکھیرتے وہ انہی لا یعنی لامتناہی سوچوں میں گم تھی۔ اسکی پانچوں شاگرد بیٹھی اسکے چہرے کے اتار چڑھائو سے اسکے خیالات پڑھنے کی ناکام کوشش میں مصروف تھیں۔ آج انکو نیا سبق ملنا تھا مگر انکی استانی صاحبہ خود کوئی نیا سبق پڑھ رہئ تھیں زندگی کا شائد جبھی گرد و پیش سے بے نیاز کینوس پر نگاہ ٹکائے مسلسل ہاتھوں کو حرکت دیئے جانے کیا الا بلا بنائے چلی جا رہی تھیں۔ جب اسکی ایک شاگرد نے اسکی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجائی۔
آج ہم سے کچھ انوکھا بنوائیں۔
جیسا کہ؟ گمنام مصورہ نے ابرو اچکا کر دیکھا
کچھ ایسا جو اس دنیا سے الگ ہو۔ جو کبھی نہ بنا ہووہ خیال جو دنیا میں اب اترا ہو۔
اسکی شاگرد کے انداز میں جوش تھا امنگ تھی تمنا تھئ۔ اسے ہنسی آگئ
لاحاصل کی تمنا نہ پالو۔ ایسا کچھ بنانا اس دنیا کے باسیوں کے لیئے ناممکن ہے۔ بڑے بڑے سورما ہارے۔ انکے کینوس کچھ نیا تخلیق کرجانے کی آس میں خالی رہ گئے۔ اور مصور دنیا خالی کر گئے مگر ناکام رہے ۔ ہم تو جو جیسا بن چکابس اسے اپنا ہنر آزما کر نقل کر سکتے ہیں۔ یوں سمجھو مصور بس نقلچی ہے۔ جو منظر جو شے دیکھی نہ ہو اسکا نہ مقصد سمجھ پاتا ہے نا اسکی منظر کشی کر پاتا ہے۔ ایک مصور کو اپنی حد پتہ ہونی چاہیے۔
اسکا انداز ناصحانہ تھا۔ اسکی شاگرد مایوس سی ہوگئ۔ تسلیم کیا
ہاں نہیں بنا پاتے ہم کچھ بھی نیا۔
ہم کوئی ایسی مخلوق نہ بنائیں جو دنیا میں پہلی دفعہ آئی ہو؟ خلائی مخلوق؟
وہ اپنے اچھوتے خیال سے اچھل پڑی۔ اسکی باقی چاروں شاگرد بھی چونک کے دیکھنے لگیں۔
ہاں ہم آج خلائی مخلوق بنائیں؟یہ تو آج تک جس نے بھی بنایا کوئی نیا پیکر بنایا ہم بھی خلائی مخلوق کی کوئی نئی شکل تخلیق کرتے ہیں۔
وہ سب اتنی پرجوش ہوگئی تھیں کہ مصورہ کو ہار ماننا پڑی۔
ٹھیک ہے بنائو مگر ہر خلائی مخلوق کے پیکر کے پیچھے تمہاری اپنی کوئی نئی سوچ کوئی اچھوتا خیال ہونا چاہیئے آخر یہ خلائی مخلوق کیا کرنے آئی ہے کیوں آئی ہے اور تم نے کیوں بنانا چاہا اسے۔
انکو انکا آج کا کام سمجھاتے مصوری کا ایک اہم باب بھی سکھا دیا تھا۔
وہ سب سر ہلا کر جھٹ مصروف ہوئیں۔ایزل درست کیا کینوس لگایا اور پھر کوئی کینوس خالی نہ رہا۔
کئی گھنٹے بیتے اسکی سب شاگردوں کا کام ختم ہونے کو تھا وہ سب کے پاس جا کر ان سے آج کے کام کی بابت پوچھنے لگی۔
پہلی وہی شاگرد تھئ جس نے خیال دیا تھا۔
کندھے اچکا کر بولی
دنیا سے الگ کچھ بنانا تھا جبھی خلائی مخلوق بنا رہی ہوں۔
اسکی تصویر مکمل تھی۔ وہ سر ہلا کر دوسری کی جانب بڑھئ اسکی خلائی مخلوق ادھورے بدن سہمی کھڑی تھی کینوس پر۔
وہ لڑکی بھی ۔ آنکھوں میں ہراس لیئے بولی
انسانوں سے خوف آتا ہے اسلیئے خلائی مخلوق کی تصویر بنا رہی ہوں۔
اس سے اس کی نگاہوں میں تادیر دیکھا نہ جا سکا نگاہ چرا کر تیسری شاگرد کی جانب بڑھی
اسکی خلائی مخلوق رنگوں سے سجی تھی مگر کیا سر کیا پیر کچھ سمجھ نہیں آتا تھا۔ اس لڑکی نے سنجیدگئ سے سر اٹھا کر اسکو مخمصے سے نکالتے ہوئے بتایا۔
یہ دو خلائی مخلوق ہیں۔
مگر یہ تو مجھے ایک ہی مخلوق لگ رہی ہے۔
مصورہ الجھن میں پڑی۔۔
دونوں آپس دوست ہیں انہوں نے ایک دوسرے کا وجود آپس میں مدغم کرلیا ہے یوں کہ شناخت ممکن نہیں۔
ایساکیوں؟ مصورہ مزید الجھی۔
اس مخلوق کو رنگ نسل مذہب سے فرق نہیں پڑتا۔
اس لڑکی کی نگاہوں میں بغاوت کے سائے مدغم ہو رہے تھے۔ وہ سٹپٹاکر آگے بڑھ گئ
آدھی درجن آنکھوں سے سجی یہ خلائی مخلوق بس چہرہ رکھتی تھی۔ نہ خدو خال نہ وجود۔
بنانے والی کا مزید کچھ بنانے کا ارادہ ہی نہ لگتا تھا۔
اسکے کسی سوال سے پہلے ہی اس نے بتایا
میں ایسی مخلوق کی تصویر بنا رہی ہوں جس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔
اسے بہت زور کی ہنسی آئی
احمق لڑکی۔
اس نے سوچا ۔لڑکی ستائش کی متمنی تھی مگر اسکو ہنسی آئے چلی جا رہی تھی اس لڑکی کی سنجیدگئ دیکھتے روک کر منہ پھیر کر آگے بڑھ گئ۔
پانچویں لڑکی بڑی بڑی آنکھوں والی خلائی مخلوق بنا رہی تھی جو ہوا میں تیر رہی تھی اسکے پر لیکن بازو کی جگہ ٹانگوں پر تھے۔
شائد اس نے پرواز افقی طو رپر نہیں عمودی طور پر بھرنی تھی۔
آسمانوں پر کمند؟ اس نے سوچا۔
یہ میں ہوں ۔ میں اس دنیا میں خلائی ہی مخلوق ہوں جو دنیا سے مطابقت نہیں رکھتی۔
اسکی توقع کے برعکس جواب نے اسے حیرت میں مبتلا کیا۔
اسکی سوچ اسکی تصویر سے عیاں تو نہ ہوتی تھی۔
خیر اس نے گہرئ سانس بھری۔
بس آج کا یہی سبق تھا تم لوگوں کا۔ اب چھٹی ہوئی تم سب کی۔
جی؟ کیا ؟ ہیں؟
ان پانچوں میں کھلبلی مچ گئ
مگر ہمیں بتائیے تو ہم نے کیا سیکھا؟
وہ یک زبان ہو کر بولیں۔
آج تم لوگوں نے حقیقت اور ترجیحات کا فرق سیکھا ہے۔ حقیقت تم لوگ ہو اور ترجیحات کینوس پر بکھری ہیں۔
اس نے مسکرا کر کہا ۔ وہ سب کچھ سمجھتی کچھ نہ سمجھتی مزید بولی کچھ نہیں اپناسامان سمیٹنے لگیں۔
مصورہ نے کینوس پر نگاہ جمائی۔
بکھرے رنگوں میں چند چہرے ابھر رہے تھے کوئی چہرہ مضمحل تھا کوئی خوشی سے نہال کسی کے چہرے پر حالات ثبت تھے کسی نے خالی سپاٹ تاثرات سجا رکھے تھے سب سے نمایاں تھا ایک حیران متوحش چہرہ۔
یہ چہرہ بوڑھا تھا۔ اس نے دنیا دیکھ رکھی تھی۔ دنیا کی حقیقت بھی۔
یہ چہرہ اسکا اپنا تھا۔ تصور میں۔ اور حقیقت میں؟
اس نے جھک کر اپنے پیروں کے قریب رکھے اپنے بستے سے آئینہ نکالا ۔ اپنا چہرہ ہر زاوئے سے دیکھا۔ دل بھر کے دیکھا
جواں سال صحتمندی کی چمک لیئے خوبصورت چہرہ ۔
اسکے چہرے کے تاثرات مایوس کن سے ہوتے چلے گئے ۔
اسکی شاگرد سامان سمیٹتی اب جا رہی تھیں جاتے ہوئے اسے الوداع کہہ رہی تھیں۔
آج جو سیکھا اس پر خوش تھیں آج جو وہ سب نہیں سیکھ سکیں اس پر وہ خود اداس ہو رہی تھی۔
کینوس پر جگہ نہیں تھی ۔ اس نے آہ بھر کر سوچا
مجھے لوگوں کی حقیقتیں نہیں ترجیحات حیران کرتی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد
Kesi lagi apko yeh kahani Rate us below