Desi Kimchi Episode 45

Desi Kimchi Urdu Novels

قسط 45

وہ اپنے معاہدے کو اچھی طرح پڑھ کر دستخط کر نے ہی لگا تھا جب بھاگتے ہوئے قدموں کی آواز اسکے ڈورم کے دروازے پر آکر رکی تھی۔
وہ فطری تجسس سے قلم چھوڑتا دروازے کی جانب بڑھا ہی تھا جب دھاڑ سے دروازہ کھلا تھا اور کئی انجان لوگ اندر گھستے چلے آئے۔
وہ بھونچکا سا کھڑا تھا جب اسے جانور کی طرح گھسیٹ کر ڈورم سے نکالنے لگے۔
کیا ہوا ہے؟ آخر میرا قصور کیا ہے؟ مجھے بتائو تو سہی۔
وہ چلا رہا تھا ایک آدمی کا زور دار تھپڑ اسکو تارے دکھا گیا ۔
کتے کے بچے جس ملک کا کھاتے ہو اسی کی جڑیں کھوکھلی کرتے ہو
چینی زبان میں کف اڑاتے اس اہلکار کی بات نے اسکا دماغ چکرا دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکو اندھیرے کمرے میں ہاتھ پائوں کرسی سے باندھ کر بٹھایا گیا تھا۔ نجانے کتنے دن ہو چلے تھے اسے کچھ اندازہ نہیں تھا۔ بس یاد تھا تو اتنا کہ ہمیشہ ہوش اس نے لاتوں مکوں گھونسوں پر تکلیف سے بے حال ہو کر کھوئے تھے۔ مگر آنکھ اسکی جلد ہی کھول دی جاتی تھی کبھی تیز ٹھنڈا پانی منہ پر پھینک کر کبھی گرم پانی اسکےجسم پر گرا کر۔۔
اسے نہیں یاد تھا کہ اس نے کچھ کھایا تھا یا نہیں۔
ہاں اسکے ہوش میں آنےپر بس کچھ مخصوص سوال اس سے پوچھے جاتے تھے جنکا جواب اسکے پاس سوائے نفی میں سر ہلانے کے کچھ نا تھا۔ اسکا چہرہ سوجھ چکا تھا اور وہ اب بولنے سے بھی قاصر تھا۔
تمہارا بھائی کہاں ہے؟
اسکے ریشمی بال کسی مضبوط استخوانی شکنجے میں جکڑے تھے۔
اس نے نفی میں سر ہلایا۔
کس بات پر نفی میں سر ہلا رہے ہو؟
میں پوچھ رہا ہوں تمہارا بھائی کہاں ہے۔
اہلکار چلا رہا تھا۔
اس نے دوبارہ نفی میں سر ہلایا۔ کمزوری کے باعث اسکی آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔
میرا خیال ہے ہمیں اس سے مزید کوئی معلومات نہیں مل سکتی۔
اسکو آواز سے اندازہ ہوا تھا کہ یہ اسکو مارنے والے کی آواز نہیں تھئ۔
اسکو بجلی کے جھٹکے دیتا ہوں فر فر بولے گا۔
وہ چنگھاڑا
بچہ ہے۔ بمشکل سترہ اٹھارہ سال کا ہے پہلے ہی اتنا مار پیٹ چکے ہو یہ عقوبت خانے میں مر مرا گیا تو ہمیں اوپر جواب دینا پڑے گا۔
یہ آواز نسبتا نرم تھئ۔ کم از کم اس آواز میں غصہ نہیں تھا۔ یوں بات کر رہا تھا جیسے صبح ناشتے کا مینیو بتا رہا ہو۔ اطمینان سکون سے۔
بہت پکا ہے۔ یہ بچہ۔ اتنے دن سے سوائے سر نفی میں ہلانے کے ایک لفظ نہیں بولا۔
یہ آواز اس نے آواز کامنبع جاننے کو آنکھ ذرا سا کھولی۔
منظر دھندلا سا تھا۔
ایک شخص اسکے مقابل کرسی ڈالے بیٹھا تھا اسکے گرد چار اہلکار کھڑے تھے۔ کرسی پر بیٹھے شخص کا لباس ان چاروں سے مختلف تھا۔
اسکی پلکیں بوجھل ہونے لگیں۔
آنکھیں تک تو کھول نہیں پا رہا ، منہ سوجا ہوا ہے بولے گا خاک۔۔۔ تم لوگ جسم کو اس قابل بھی تو چھوڑا کرو کہ اسکے اعضاء بیچ سکو۔ مجھے تو لگ رہا اسکی ٹانگ بھی ٹوٹی ہوئی ہے۔
بولنے والا اسکے بے حد قریب آچکا تھا۔اسکے چہرے کو چھو کر دیکھتے اس انسان کی گرم سانسیں محسوس ہو رہی تھیں اسے اپنے چہرے پر۔
اس نے اسکے بے جان پڑے پائوں کو ہلکی سی ٹھوکر ماری۔ درد کی لہر اسکے رگ و پے میں دوڑ گئ مگر منہ سے بس ہلکی سی کراہ سی نکل سکی۔
تو ٹانگیں کونسا کسی کام آتی ہیں۔ ہم نے پسلیاں وغیرہ چھوڑ دیں ہیں، دل گردے پھیپھڑے سب کام کر رہے ہوںگے پانی بھی پلواتے رہے ہیں نکلواتے بھی رہے ہیں۔ ویسے بھی چار دن ہی ہوئے ہیں اسے ابھی مار کھاتے۔
اس پر الزام کیا تھا ۔ یہ نرم آواز۔۔
اسکا بھائی دہشت گرد تنظیم کا رکن نکلاہے۔ اسکا اتا پتہ ڈھونڈتے اسکے گھر گئے تھے وہاں بس اسکے ماں باپ تھے۔ ہم نے انکو تو تربیتئ مرکز پہنچا دیا ہے انکی ٹیوننگ ہوچکی ہوگی۔۔ ( طنزیہ قہقہہ) بھائی کا پتہ نہیں چل رہا۔۔
اپنے والدین کے ذکر پر اسکے جسم نےجھٹکا سا کھایا تھا۔کپکپی جیسا جھٹکا۔ اسکو اپنے ہاتھ پر نرم سا دبائو محسوس ہوا۔
خیر مجھے اس کے حالات خراب ہی لگ رہے مجھے نہیں لگتا صبح تک زندہ بچے گا یہ۔۔
نرم آواز والے نے اسکے پاس سے اٹھتے ہوئے بےزارکن سے انداز میں کہا۔
چلو کوئی اور دکھا دیتے ہیں۔۔
اس آدمی کا انداز لاپروا سا تھا
اسکا کیا کروگے؟ نرم آواز والے نے سر سری سے انداز میں پوچھا۔
مرگیا تو پیچھے جنگل میں جانوروں کی دعوت ہوجائے گی بچ گیاتو کسی اور کے ہاتھوں بیچ دیں گے۔چلو تمہیں آج جو مرغا پکڑا وہ دکھا دیں۔ اسکی ابھی ہڈی پسلی ایک نہیں کی ایکدم جوان چوڑا سا لڑکا ہے۔
نہیں یہی چاہیئے اگر اسکو واقعی سینے کمر پر تشدد نہیں کیا تم لوگوں نے تو اسکے جوان اعضا کام آئیں گے۔ مجھے چوڑی جسامت سے کیا لینا مجھے اندر سب مشینری فٹ چاہیئے۔
نرم آواز والے ہنس کر کہا تھا ۔۔
جسکی زندگی کا فیصلہ ہو رہا تھا وہ نڈھآل ہوش کھو رہا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نرم گرم سی دھوپ اسکے چہرے پر پڑی تھی جب اس نے دھیرے دھیرے سے آنکھیں کھولی تھیں۔ سفید دیواریں سفید بستر سفید ملبوس میں اسکے بیڈ کے بالکل سامنے والی کھڑکی کے پردے ہٹاتی نرس۔ اس نے اپنا ذرا سا ہاتھ اٹھایا تبھی پردے ہٹا کر مڑتی نرس کی نگاہ اس پر پڑی تو خوش دلی سے احوال پوچھنےلگئ۔
نی ہائو۔۔ اب کیسی طبیعت ہے؟ شستہ چینی امریکی لہجے میں بولنے والی وہ سنہری رنگت والی نرس یقینا چینی نہیں تھی۔
نرس آگے بڑھ کر اسکی کلائی چھوکر نبض دیکھنے لگی۔
میں۔ اس نے بولنا چاہا مگر جبڑے سے سے اٹھتی درد کی لہر اسکو بولنے سے باز کرگئ
آپ بولیئے مت۔۔۔ آپکے چہرے پر ٹانکے ہیں۔۔آپ اس وقت اسپتال میں ہیں تھوڑے سے زخمی ہیں مگر جلد ٹھیک ہو جائیں گے۔میں آپکے گھر والوں کو خبر کرتی ہوں۔ مطمئن رہیے۔
نرس اسے تسلی دینے والے انداز میں کہتی عجلت میں باہر نکل گئ۔
کیا تھا سب جو اس پر بیتا کوئی خواب؟ یقینا ابھی ماں باپ دوڑے آئیں گے اسکے پاس۔ مگر وہ اسپتال میں کیوں ہے اور یہ درد کی ٹیسیں۔۔
وہ خود کو ہلا بھی نہیں پا رہا تھا اس نے کوشش کرکے اٹھنا چاہا تو معلوم ہوا اسکی دونوں ٹانگوں پر پلستر ہے۔ جبھی وہ یوں چت پڑا تھا
۔یہ خواب ہے ابھی میری آنکھ کھلے گی تو منظر بدل چکا ہوگا۔۔ اس نے خود کو یقین دلاتے آنکھیں موندیں۔۔تبھی دروازہ کھلنے کی آواز پر اس نے دوبارہ آنکھیں کھول دیں۔ کوئی تیزی سے بولتا ہوا اسکے قریب چلا آیا۔ انداز میں بے تابی مگر آواز یکسر اجنبی تھی۔ اس نے پوری آنکھیں کھول کر دیکھنا چاہا۔ وہ ایک چالیس پینتالیس سال کا چست سا لمبا چوڑا مرد تھا شکل پر پریشانی۔۔ مگر۔۔
کیسے ہو ژیہانگ۔۔۔ شکر ہے تم ہوش میں آگئے کتنا پریشان کیا ہے تم نے اپنے باپ کو۔ پورے پانچ دن بعد ہوش میں آئے ہو۔ کون سے خبیث لڑکے تھے جو تمہیں پہاڑ سے گرتا دیکھ کر بھاگ گئے بجائے تمہاری مدد کرنے کے سچ بتائو کسی نے دھکا تو نہیں دیا تھا۔۔ میرے بیٹے۔ انہوں نے آگے بڑھ کر اسکی پیشانی چوم لی۔
اس کی لگاتار باتوں کو سن کر سمجھنے کی کوشش کرتا ذکریہ چونکا۔۔
یہ اسکے پاپا نہیں۔ کیا وہ اپنے پاپا کو نہیں پہچان رہا یاد داشت کھوچکا ہے؟ اس نے الجھن بھرے انداز میں دیکھا
پرشفقت انداز لیئے وہ جو کوئی بھی تھے جہاں تک اسے یاد تھا اسکے پاپا نہیں تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہنگن دریا پر نگاہ جمائے وہ اسکے برابر بنچ پر بیٹھا اپنی بپتا سنا رہا تھا۔
تائی ژی ہانگ میرا نام مجھے میرے مسیحا نے دیا۔۔۔ تائی ژوژائو ایک امریکی سماجی ادارے سے منسلک تھے جو چین میں دہشت گرد قرار دیئے جانے مسلمانوں اور انکو تربیتی مراکز میں جبری مشقت کروانے کے بارے میں امریکی نشریاتی ادارے کیلئے خفیہ رپورٹ بنا رہے تھے جب ایک دن انکو میرا چچا ذاد بھائی علیم ملا۔ مجھے ڈھونڈنے اور بچانے کئ درخواست کرتا وہ نوجوان اتنا باخبر تھا کہ میں کہاں کس سیل میں ہوں یہ تک اس نے انہیں بتایا تھا۔
انسانئ اعضاء کا اسمگلر بن کر وہ گئے تو بس مزید پیسے کمانے کی نیت سے تھے مگر وہاں میری حالت دیکھ کر انسانی ہمدردی کے ناطے وہ مجھے وہاں سے خرید کر بچا کرلے آئے۔۔۔۔
میں کچھ عرصہ تائیوان رہا وہاں سے امریکہ گیا ژوژائو کا بیٹا میری نئی شناخت تھی۔۔۔ میں وہاں ایک پاپ گروپ کا حصہ بنا میری نئی زندگی شروع ہو چکی تھی۔ میں گلو کاری کر رہا تھا ایکسو نا سہی اسٹار شائن کا حصہ بن چکا تھا۔۔ تب لارا مجھے امریکہ میں ملی۔
اسکی آواز معدوم سی ہوئی۔ الف نے چونک کر سر اٹھایا۔ دور جلتی روشنیوں کا عکس اسکے چہرے کے تآثرات کو ڈھانپ رہا تھا۔وہ کسی معمول کی طرح سب بتاتا جا رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عروج کو سیونگ رو عمارت کے باہر ہی چھوڑ کر گیا تھا۔
اسکی گاڑی سے اترتے اس نے بغور سیونگ رو کو دیکھ کر اسکے مزاج کا اندازہ لگانا چاہا مگر وہ سپاٹ چہرے کے ساتھ ونڈ اسکرین پر نگاہ جمائے تھا۔ اسکے دروازہ بند کرنے پر احتیاط سے گاڑی آگے بڑھا گیا۔ وہ اسکے چہرے سے کوئی اندازہ نہ لگا پائی تو کندھے اچکا کر پلٹی۔
لابئ سے گزر کر لفٹ کی۔جانب بڑھتے یونہی طائرانہ نگاہ اس نے ڈالی تو الف کو صوفے پر دھنسا بیٹھا پایا۔
ارے الف۔؟ وہ لفٹ تک جاتے جاتے مڑ آئی۔
تم یہاں کیوں بیٹھی ہو۔ اس نے خاصی حیرت سے پوچھا
اپنے دھیان میں شولڈر بیگ کو گود میں رکھے اس پر تھوڑی ٹکائے گہری سوچ میں گم الف چونک سی گئ۔
آں ۔ وہ بس تھک گئ تھئ۔ اس نے سرعت سے سیدھے ہوتے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔
تم رو رہی ہو؟ ۔۔۔ عروج اسکے بھیگے گال اور آنکھیں دیکھ کر چونکی۔۔
کیا ہوا؟ کسی نے کچھ کہا؟ یونیورسٹی میں؟ ریڈیو میں کوئی بات ہوئی؟؟
عروج کے پے در پے سوال پر وہ خود کو سنبھالتی اٹھ کھڑی ہوئی۔
ارے کچھ نہیں تھک گئ تھی سر میں درد بھی بہت تھا سو اوپر فورا جانے کی ہمت نہ ہوئی بس اسی لیئے۔ وہ دانستہ بشاش سے انداز میں کہنے لگی۔
چلو چلیں۔ وہ عروج سے بھی پہلے لفٹ کی طرف تیز قدموں سے چل دی۔
لفٹ میں جانے کی ہمت نہ ہوئی؟
عروج سوچ کر رہ گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہائے میں مر گئ۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے انجان دیس میں کیسے روکوں کیسے ٹوکوں۔؟؟؟ میرا تو بھائی بھی چھوٹا ہے۔ ابھی پچھلے سال تک تو پیپر میں سپلی آنے پردلاور کے ہاتھوں تھپڑ کھا چکا ہے وہ تو انکے آگے چوں بھی نہیں کر سکتا۔۔۔ میرا تو کوئی جیٹھ بھی نہیں ہے۔ ہائے امی جی۔۔۔۔
گھرکا داخلی دروازہ کھول کر اندر داخل ہوتی الف اور عروج نے یہ بین سن کر ایک دوسرے کی پہلے تو شکل دیکھی پھر تجسس کے مارے دوڑ ہی لگا دی۔ منے لائونج تک کا فاصلہ ہی کتناتھا فورا رکنا بھی پڑا۔اندر کا منظر خوب روشن تھا۔ منے لائونج میں خوب رونق لگی تھی۔
فاطمہ منے صوفے پر صارم کو گود میں لیئے بیٹھی اسکے منہ میں فیڈر ٹھونسے ایک ہاتھ سے اپنا پائوں سہلاتی خفا خفا نگاہوں سے ان سب کو گھور رہی تھی۔
اسکے برابرمیں طوبی بیٹھی دوپٹے سے ناک رگڑ رگڑ کر چہکوں پہکوں رو رہی تھی۔ واعظہ اسکے لیئے پانی کا گلاس بھر کر لائی تھی مگر اسے فرصت نہیں مل رہی تھی پینے کی۔طوبی آہ بھر بھر کر بین بھی کر رہی تھی۔
ہائے امئ۔۔۔۔ مجھے اکیلا کوریا بھیج دیا یہاں تو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں مجھے۔۔
اسکے لمحہ بھر کی بریک لگانے پر واعظہ نے جھٹ پانی کا گلاس بڑھایا تو اس نے بھی غٹا غٹ چڑھا لیا
زینت گڑیا کو عزہ ایک جانب لیئے بیٹھی تھی۔دونوں بچیاں خوب دلچسپی سے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بنائے اس پر چہرہ ٹکائے ماں کو۔دیکھ رہی تھیں۔
عشنا منہ کھولے منے قالین پر آلتی پالتی مارے بیٹھی طوبی کے بین سن رہی تھی۔
طوبی جی بچیاں پریشان ہو رہی ہیں۔۔ آپ رونا تو بند کریں۔عزہ نے کہا تو وہ خم ٹھونک کر میدان میں دوبارہ اتری آخر ابھی تو پانی کی کمک پہنچی تھی۔ عروج اور الف کے سوالیہ چہرے
ہوا کیا ہے طوبی ؟ دلاو ربھائی تو ٹھیک ہیں؟
الف نے پوچھا تو وہ سیدھی ہو کر انکی۔جانب مڑی۔ان سے ہی مخاطب ہوئی
دلاور ہی تو ٹھیک نہیں ۔۔میرا ماتھا اسی دن ٹھنکا تھا جس دن انکو بار میں دیکھا تھا۔ ارے یہ سیول کے بار کوئی ایسے ویسے تھوڑی ہوتے لڑکیاں ہی لڑکیاں شراب ہی شراب۔
مگر طوبی پی تو آپ۔ آآااا۔
الف نے کلمہ حق بلند کرنا چاہا تو عزہ نے بیٹھے بیٹھے ہی ٹانگ لمبی کرکے زور دار ٹھوکر ماری اسکی پنڈلی پر۔
الف نے ایک ٹانگ پر اچھلتے تڑپ کر اسے گھورنا چاہا جواباگھوری کے ساتھ اسکے کچکچاتے دانت بھی دیکھنے پڑ گئے۔ وہ ان بچیوں کی جانب اشارہ کر رہی۔تھی یقینا یہ بات انکے سامنے کرنے کی نہیں تھی وہ وہیں دھپ سے بیٹھ گئ۔
ہاں اور پتہ ہے سیول کے نائٹ کلبوں میں تو۔۔
عشنا جانے کیا بتانے لگی تھی۔ باقی سب تو باقی طوبی بھی چپ ہو کر دیکھنے لگی اسکی شکل تو گڑ بڑا سی گئ۔
آپ بات پوری کریں طوبی کوئی اتنی اہم بات بھی نہیں
اس دن میرااتنا خیال رکھا میرے لیئےکھانا پکانے کھڑے ہوگئے،اب نا پہلے کی طرح دفتر سےواپسی پر منہ بنا ہوتا ہے نا بات بے بات غصہ کرتے ہیں۔اور تو اور شام کو چائے بنانے خود کھڑے ہو گئے۔۔ میں الماری ٹھیک کر رہی تھی تو صارم رو اٹھا اسے نا صرف اٹھا کر بہلاتے رہے بلکہ فیڈر بنا رکھا تھا کچن میں خود جا کر اٹھایا اور پلانے بھی لگے۔ ۔۔
طوبی پر بولتے بولتے پھر رقت طاری ہونے لگی۔
تو ؟ طوبی جی یہ تو اچھی بات ہے کہ وہ سدھر۔عروج سیدھا سیدھا بولنے لگی تھئ کہ بروقت بریک لگا کر جملہ بدلا۔۔ میرا مطلب ہے انکو تو ایسا ہی ہونا چاہیئے نا ہاتھ بٹانے والا۔
پہلے یہ سب نہیں کرتے تھے دلاور بھائی؟
واعظہ سنجیدگی سے یوں پوچھ رہی تھی کہ اگر طوبی ہاں کہے تو فورا کان سے پکڑ لے جا کر دلاور کو۔
دلاور بھائی تو اچھے ہیں نا پھر۔ عشنا نے نتیجہ نکالا۔۔ پاکستانی مرد کہاں کرتے اتنا کام۔۔
تمہیں کیسے پتہ پاکستانی مردوں کا۔؟ فاطمہ جلبلائی۔ واعظہ نے بھی جانچتی نگاہوں سے دیکھا تو وہ کھسیا سی گئ۔
وہی تو۔ طوبی جوش سے سیدھی ہو بیٹھی۔
پاکستانی مرد کہاں ہوتے بیویوں کا اتنا سوچنے خیال رکھنے والے؟ اگر بیٹھے بٹھائے آپکا شوہر آپکا حال احوال پوچھنے لگے؟ گھر کے کاموں میں مدد کرنے لگے بچوں کو وقت دینے لگے آپکی جا بے جا تعریف کرنے لگے تو اسکا کیا مطلب بنتا ہے؟
طوبی فہد مصطفی کی طرح اپنی آئیڈینز سے مخاطب تھی۔
یہی کہ وہ سدھر گیاہے؟ الف نے اندازہ لگایا۔
بیوی کی کمیٹی نکلنے والی ہے جس پر اسکی نظر ہے ؟۔
یہ فاطمہ تھی۔
میرا خیال ہے اسکو کوئی لاعلاج بیماری لگ گئ ہے اور وہ اپنا آخری وقت سکون سے گزارنا چاہتا ہے۔ ڈاکٹر عروج اور کیا کہہ سکتی تھیں
ہو سکتا ہے بیوی کولا علاج بیماری ہوگئ ہو اور وہ آخری وقت میں۔۔۔ عشنا نے بتاتے بتاتے سب کے ردعمل کو دیکھتے پھر جملہ ادھورا چھوڑا۔
طوبی نے رخ عزہ کی جانب موڑا
ہو۔سکتا ہے اس نے بیوی کی باتیں سن لی ہوں اور اب اپنی کی گئ زیادتیوں کا مداوا کرنا چاہ رہا ہو۔ عزہ نے طوبی کو دیکھتے تھوڑا سا ڈر تے ڈرتے کہا۔ اسے واقعی یہی لگ رہا تھا۔
طوبی نے واعظہ کی جانب گردن موڑی۔ اسکی دیکھا دیکھی سب واعظہ کو دیکھنے لگ گئیں۔ واعظہ سب کو گھورتا پا کر گڑبڑا سی گئ
مجھے کیا پتہ میں کسی کا شوہر تھوڑی ہوں۔
اسکا جواب اتنا مایوس کن تھا کہ طوبی نے سر جھکا لیا ہونٹ لٹکا لیئے
اس دن میرے ساتھ بازار گئے بنا ماتھے پر بل ڈالے جلدی جلدی کا شور مچائے بچہ اٹھا کر بھی مجھے پورا سودا سلف بھائو تائو کرکے دلارہے تھے تو کورین آہجومہ بھی متاثر ہو کر بولیں۔۔ ۔۔۔طوبی کے کندھے کے اوپر فلیش بیک نمودار ہوا۔ سب قسط نمبر 43 کے اس منظر کو دوبارہ دیکھنے لگیں۔۔
شوہر ہے تمہارا۔
آہجومہ اسکی قمیض کا دامن پکڑ کر متوجہ کرنے لگیں۔۔
جی؟ اسکی سمجھ میں خاک پتھر نہ آیا
شوہر۔ کبھی ناک پر انگلی رکھتیں کبھئ اسکے بچے کی جانب اشارہ کرتیں جب اپنے پیٹ پر خوب ہاتھ پھیر کر بڑھنے کا اشارہ کیا تو طوبی سٹپٹا کر اثبات میں سر ہلا گئ۔
بہت اچھا شوہر ہے تمہارا۔ بہت خیال رکھنے والا۔
خوش رہو۔
خوش ہو کرا نہوں نے ہمکتے ہوئے صائم کو کھیرا تھما دیا۔
سمجھ تو نہیں آرہا آپ کیا کہہ رہی ہیں مگر اچھا ہی کہہ رہی ہوں گی
اس نے کہتے ہوئے زرا سا سر جھکایا سلام لینے کو۔آگے سے آہجومہ اس سے بھی زیادہ دو دو فٹ آگے جھک گئیں۔
اس کو ہنسی ہی آگئ۔ انکے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیر دیا
چلیں آج آپ کیلئے میری دعائیں سہی۔۔۔۔
وہ ہنس دی۔۔۔۔ پھر ذرا سا سنجیدہ سی ہو کر جھکی
مگر آہجومہ یہ اتنے اچھے بنے ہوئے ہیں نا اس سے خوف آرہا مجھے۔ خیال تو قربانی کے جانورکا بھی بہت رکھا جاتا ہے مگر اسے اتنا ٹھنسانے پر نیت یہ ہوتی کہ جب حلال ہوگا تو گوشت ذیادہ اترے گا۔۔۔۔۔
آہجومہ مسکرا کر سر ہلانے لگیں۔۔
فلیش بیک ختم ہوا مگر طوبی کا سر یونہی جھکا رہا
کیا مطلب ہوا اس بات کا؟ دلاور بھائی قصائی کا کام کرنے لگے ہیں؟
عشنا حیران ہو کر بولی۔
ہیں۔مگر کیوں؟ الف پریشان ہوئئ۔۔
اوہ تو دلاور بھائئ کی نوکری۔ختم ہوگئ۔ عروج کو اب معاملہ سمجھ آیا تھا۔۔ گہری سانس لیکر تسلی دینے والے انداز میں بولی
آپ پریشان نا ہوں طوبی ہم ہیں نا آپکے ساتھ۔۔ سب ٹھیک ہو۔جائے گا۔
اور۔کیا۔ انجینئر ہیں کوالیفائڈ ہیں جلد دوسری جگہ لگ جائے گی نوکری پریشان نہ ہوں آپ۔
فاطمہ نے کندھا تھپتھپایا۔
شکر کریں دلاور بھائی چڑ چڑے نہیں ہو گئے۔ہمارے ایک کزن کی دکان میں آگ لگ گئ تھی سب جل گیا تھا تودو تین مہینے انکو گھر بیٹھنا پڑ گیا تھا۔قسم سے اتنا انہوں نے بھابی سے جھگڑا کیا لڑے کہ وہ میکے چلی گئی تھیں غصے میں۔
عزہ رقت آمیز انداز میں تسلی دے رہی تھی۔
واعظہ نے لمحہ بھر سوچا۔ پھر کندھے پر ہاتھ رکھا۔
آپکو کرائے کا مسلئہ ہے نا ہم سب مل ملا کر انتظام کر دیں گے۔
طوبی نے سر اٹھا کر دیکھا۔ فاطمہ، الف عشنا ، عروج ، عزہ اور واعظہ سب کی سب فکر مند تھیں اسکو تسلی دے رہی تھیں بیٹھے بٹھائے چھے بہنیں جو جان نثار کرنے کو تیار تھیں مل گئ تھیں۔وہ اکیلی کہاں تھی طوبی نے متشکرانہ نگاہوں سے دیکھنا چاہا مگر ناکام رہی۔ ایک فرق تھا ان سب میں اور خود اس میں۔وہ تھا شادی۔ ان سب کی سوچ کی اڑان اونچی ہو۔کر بھی اسکی پریشانی نہ بھانپ سکی۔
اس نے منہ بنایا۔
تم میں سے کوئی میرا مسلئہ سمجھ نہیں سکا سمجھو گی بھی کیسے تم میں سے کسی کی شادی جو نہیں ہوئی۔
طوبی کی بات پر وہ سب جز بز ہوئیں۔۔
مرد اچانک سے مہربان ہو جائے بیوی پر اسکے آگے پیچھے پھرنے لگےاسکا خیال کرنے لگے اسکا ہاتھ بٹانے لگے بے جا لگائو جتائے تو اسکا مطلب ہوتا ہے۔۔
طوبی نے ڈرامائی وقفہ لیا۔ سب نے سانسیں روک لیں۔ سب کو ہمہ تن گوش دیکھ کر طوبی کو خود پر اپنے تجربے کارانہ انداز پر مزید ناز ہوا۔۔ مزید تجسس پھیلا کر اعلان کرنے والے انداز میں بولی
اسکا مطلب ہوتا ہے۔۔ وہ دوسری شادی کرنے لگا ہے۔۔۔۔۔۔
وہ سب دم بخود ٹکر ٹکر طوبی کی شکل دیکھنے لگیں۔
دکھ افسوس پریشانئ۔۔ کیا کیا نا تھا ان پانچوں کےچہرے پر۔۔
مجھ سے ذیادہ تو انکو صدمہ لگا ہے۔
طوبی حیران ہی رہ گئ انکے تاثرات دیکھ کر۔۔ پانچ وہ۔چونکی
صرف پانچ پریشان چہرے چھٹی ۔۔۔ وہ عشنا کی۔جانب مڑی۔جو سر۔کھجاتے ہوئے معصومیت سے پوچھ رہی تھی۔۔
پھر وہ قصائی والی کیا بات تھی۔۔؟؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اف میرا سر دکھ گیا۔ آج بہت تھکا دینے والالمبا دن تھا میرے لیئے۔
باتھ روم سے فریش ہو کر۔نکلتی عروج تولیہ سے بال سکھاتے بڑبڑائی۔۔۔
مجھ سے ذیادہ نہیں۔ پہلےیونی پھر بے بی سٹنگ اور اب طوبی ۔۔ اتنا بہلا پھسلا کر ہم نے طوبی کو گھر تو بھیج دیا مگر یقین کرو اگر طوبی کا میکہ کوریا میں ہوتا نا تو خود انکو میکے چھوڑ کر آتی۔ ایسے میاں کے ساتھ ایک پل نہ رہنے دیتی۔ مجھے تو لگا تھا اس دن کے بعد سدھر گئے ہوں گے دلاور بھائی۔
عزہ نے جوش سے کہا۔۔ تو عروج رک کر اسے دیکھنے لگی
احمق ایسے موقعے پر جوش سے نہیں ہوش سے کام لیا جاتا ہے۔ ابھی لڑ بھڑ کر طوبی کو صرف نقصان پہنچے گا۔ شوہر پہلے ہی دامن چھڑا رہا لڑنے سے تو اسے موقع مل جانا الٹا۔۔
عروج نے کہا تو وہ قائل ہونے والے انداز میں سر ہلانے لگی۔
تمہیں کیا لگتا الف دلاور بھائی واقعی دوسری شادی کرنے لگے ہیں؟۔
اس نے مڑ کر الف سے پوچھا وہ اپنے بیڈ پر آنکھوں پر بازو رکھے لیٹی تھی ۔ بازو ہٹا کر اسے دیکھنے لگی۔۔
کیا ؟۔۔۔
ہیں تم سو رہی تھیں۔ سوری۔یار۔۔ مجھے نہیں پتہ تھا۔
سرخ آنکھیں ستا ہوا چہرہ عزہ کو کچی نیند سے اٹھانے پر۔شرمندگی ہونے لگی۔
تم واقعی سو گئ تھیں۔ عروج نے جانچتی نگاہوں سے دیکھا۔ کچھ ایسی ہی شکل اسکی گھر واپسی پر بھی بنی تھی۔ جیسے سو رہی ہویا رو رہی ہو۔
دلاور بھائی کی بات کر رہی ہو۔ الف نے عروج کو دیکھتا دیکھ کر عزہ کی جانب کروٹ لے لی پھر بولی۔
کوریا میں دوسری شادی کرنا آسان نہیں۔۔ اور ضرورت بھی کیا ہے۔۔۔۔ جب شادی کا۔جھنجھٹ کیئے بنا بھی ہزار مواقع ہیں یہاں۔ ویسے دلاور بھائئ مجھے ایسے لگتے نہیں۔ بس طوبی زرا سمجھداری سے کام لے ان سے جھگڑے نا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طوبئ کیوں جھگڑ رہی ہو خوامخواہ میں۔
دلاور بے چارگی سے صارم کو گود میں اٹھائے منت بھرے انداز میں کہہ رہے تھے ۔۔ صارم نے الگ چیخ و پکار مچا رکھی تھی۔۔ طوبی بیڈ کے بیچوں بیچ آلتی پالتی مارے بیٹھی دوپٹے سے چہرہ۔ڈھانکے روئے جا رہی تھی۔
جھگڑوں گئ خوب جھگڑوں گی چیخوں گی چلائوں گی میرا گھر اجڑ رہا ہے۔ ہائے میں اف بھی نہ کروں۔
کیسے ؟ صارم کو چپ کراتے وہ زچ ہو رہے تھے۔
مجھے کیا پتہ۔۔ ایک تو یہاں چمڑی بھی سب کی چٹی ہے۔کھلتے رنگ والیاں بھی کالی لگنے لگتیں۔مگر دلاور کون جانے اصلی صورت کیا ہے انکی۔ اتنے اتنے آپریشن کراتی ہیں آنکھ ناک ہونٹ سب مصنوعی ہے۔ جب چہرے میں دھنسا سلیکون باہر آئے گا نا تو احساس ہوگا بیوی کے گال موٹے سہی مگر اندر کچرا نہیں بھرا ہوا۔ ہاں۔
بولتے بولتے جزباتی ہو کر دوپٹے والا ہاتھ ہی نچا دیا نتیجتا اتنی دیر سے نقاب ہوا چہرہ کھل کر سامنے آگیا۔
بیوی کے گال موٹے تو اتنے نا تھے مگر بالکل خشک تھے۔ دلاو رکا منہ کھلا رہ گیا۔
تم رو نہیں رہی تھیں۔۔ میں سمجھ رہاتھا ۔۔۔۔۔
ہاں تو کتنا روئوں شام سے رو رہی ہوں خشک ہوگئے آنسو۔
طوبی نے سٹپٹا کر آنکھیں رگڑیں پھر خود بگڑ کر بولی۔
اور فائدہ کیا رونے کا کونسا مجھے چپ کرانے کی کوشش بھی کی۔ الٹا جھگڑے جا رہے ہیں۔
اسے انکی بے حسی پر سچ مچ رونا آگیا۔
بیوی بچہ اکٹھے رو رہے ہوں تو شوہر کیا کرے۔ اسکا تو پتہ ہمیں جھگڑتے دیکھ کر رو پڑا تم کیوں رو رہی ہو۔
دلاور بے چارگی سے بولے تو طوبی جل ہی تو گئ
دل کر رہا آج موسم اچھا ہو رہا ہے نا تو سوچا رو کر انجوائے کروں۔۔۔۔
سچ مچ آنکھیں آنسوئوں سے بھر گئیں جن سے دانستہ نظر چراتے انہوں نے بیٹے کو اسکی گود میں ڈال دیا۔
خیر اچھی بات ہے اب اسے چپ کرائو یہ سچ مچ رو رہا ہے۔۔۔۔
بچے تک کو سنبھالنے کو تیارنہیں۔ شوق مزید ایک دو کرنے کا ہو رہا۔۔
اسکا اشارہ شادی کی طرف تھا۔
بڑ بڑاتے ہوئے طوبی نے آنکھیں رگڑیں۔ اور زور زور سھ صارم کو تھپکنے لگی۔
اوہ۔
دلاور نے بیوی پر گہری نگاہ ڈالی۔ وہ فورا سمجھ گئے۔۔ وہ بھی بالکل الٹ غلط۔۔
تو یہ بات ہے۔۔۔۔ ابھی صارم چھوٹا ہے اتنی جلدی پر گھبرا گئ ہے لگتا ہے۔ غیر متوقع سہی مگر خوشی ہے۔ مجھے طوبی کا مزید خیال رکھنا چاہیئے۔
وہ یہی سب سوچتے ہوئے اپنی جگہ بستر پر آن لیٹے۔
بچے کو۔تھپکتی طوبی کا دل جل گیا۔
ہاں ہاں بیوی ہے نا نوکرانی سنبھال لے گی بچے۔۔ مردوں کو کیسا اطمینان ہوتا ہے نا۔۔ آرام سے ادھر ادھر منہ مارتے پھرتے۔ اور بیوی۔۔
اس نے گود میں اونگھتے بچے کو غور سے دیکھا پھر جھک کر پیشانی چوم لی۔۔
ماں بن کر سوچتی ہے تو سب برداشت کر جاتی ہے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *