مجھ میں ہی ہے رنگوں کی کمی
قسط 3
صبح وہ حقیقتا یونیورسٹی میں ماہا کو ڈھونڈتی پھری تھی۔ جانے کہاں غائب تھی۔ بے دلی سے پیریڈز اٹنیڈ کرنے کے بعد وہ خاصے خراب موڈ میں گھر واپس آرہی تھی جب ماہا کی کال آئی۔ فورا سڑک کنارے بائک روک کر اس نے فون اٹھا لیا۔
کہاں ہو صبح سے فون کر رہا ہوں اگر آج یونی نہیں آنا تھا تو بتا تو دیتیں میں بھی نہ آتا
ہائے میرا جانو اداس ہو گیا میرے بن۔ ماہا آگے سے یوں کھلکھلائی جیسے وہ کوئی رام کہانی سنارہی ہو۔
یار قسم سے یونیورسٹی آئی تھی مگر یہ عادل کے بچے نے اغوا کر لیا مجھے۔ موبائل تک بند کروادیا۔ یہاں مونال لا کر سرپرائز دیا ہے اپنی ہی سالگرہ کا مجھے۔ اف اتنا بے ایمان موسم ہو رہا ہے۔
وہ خوش تھی بے تحاشہ خوش اسکی آواز سے جھلک رہا تھا۔
اچھا بس بھی کرو کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے۔۔ عادل کی آواز آئی تھی
میں بھی آتا ہوں۔
اس نے کہا توماہا آگے سے خو ش ہوگئ
یہ صحیح رہے گا تم بھی آجائو ابھی ۔
وہ جانے کیا کہنے جا رہی تھی کہ عادل ڈپٹ کر بولا
پاگل تو نہیں ہو وہ کیسے مونال آئے گی بائک پر اوپر سے بارش ہونے والی ہے کتنی تو پھسلن ہو جاتی ہے سڑک پر۔
میں آرہا ہوں میرا انتظار کرنا۔
اسے عادل کا کہنا چیلنج سا لگا سو ضدی انداز میں بولی
نہیں جانو عادل صحیح کہہ رہا ہے ۔ ماہا ڈر گئ تھی۔ عادل بھی دانت پیس رہا تھا۔
ہم پھر کسی دن آئیں گے مل کے۔خفا نہ ہونا میری جان آج وہسے بھی عادل کی سالگرہ یہ ہمارے ساتھ کباب میں ہڈی بنا رہے گا کسی دن ہم دونوں بائک پر آئیں گے بس ہم دونوں۔
ماہا مسکا لگا رہی تھی مگر مزنہ کے دل کو جیسے ٹھنڈ سی پڑی۔
یہ ٹھیک ہے کسی دن۔ اس نے کہنا چاہا مگر ماہا نے عجلت میں بات کاٹ دی۔
اچھا میرے جانو غصہ نہ کرنا کل ملتے ہیں اپنا خیال رکھنا با بائے۔ موا۔
اس نے فلائنگ کس بھیج کر فون بند کر دیا۔
اس نے سر جھٹک کر فون بند کرکے جیب میں ڈالا بائک کوکک لگا کر دوبارہ اسٹارٹ کرنا چاہا تو کچھ فاصلے
پرکھڑے ان دو لڑکوں پر نظر پڑی جو اسے عجوبہ روزگار
سمجھ کر ویڈیو بنا رہے تھے اسکو اپنی طرف متو جہ ہوتے دیکھ کر چونکے پھر تیزی سے بھاگ بھی اٹھے وہ بس گھور کر رہ گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر حسب معمول وہ چار بجے کے قریب پہنچی تھی مگر عام دنوں کے برعکس کافی چہل پہل تھی گھرمیں۔کنزی اور امی کچن میں لگے ہوئے تھے حفصہ لائونج کے کونے میں لگے استری اسٹینڈ پر کپڑے استری کر رہی تھی
خیریت ایک ہی ہفتےمیں دو چکر۔ عامر بھائی سے طلاق لینے کا تو ارادہ نہیں۔
قریب جا کر اس نےزور سے ہنستے ہوئے کہا تو حفصہ نے بنا لحاظ دو ہتھڑ لگا دیئے
سوچ سمجھ کے بولا کرو کچھ بھی بول دیتی ہو۔برا لگ رہا ہے بہن کا آنا۔
اس نےمصنوعی خفگی جتائی۔
برا تو نہیں البتہ حیران کن لگ رہا ہے۔ وہ صاف گوئی سے بولی۔
آپی ڈرائینگ روم کی اچھی طرح جھاڑ پونچھ کر دی ہے اور رول بھی بنا دیئے اور کوئی کام کرنا ہے تو وہ بھی بتا دیں۔
کنزی مصروف سی دوپٹے سے ہاتھ پونچھتی اسکے پاس چلی آئی۔
خیریت کوئی آرہا ہے کیا ؟
مزنہ کوتجسس ہوا۔
حفصہ مسکرا دی پیار سے تھوڑی چھو کر بولی
ہاں ایک نہایت اچھی سی خاتوں آرہی ہیں تمہیں دیکھنے۔
کیوں دیکھنے آرہی ہیں مجھے ؟ مجھ پر ٹکٹ لگ گیا ہے کیا؟ کوئی فلم ہوں میں کیا۔
وہ جانے سمجھی نہیں یا جان کے انجان بن گئ
فلم نہیں تم تو ڈرامہ ہو مزنہ وہ بھی ہارر۔
کنزی اپنی سابقہ ناراضگیاں بھلا کر شرارت سے بولی۔مزنہ کے ماتھے پر بل پڑگئے تو حفصہ نے بات کا اثر ذائل کرنے کو کنزی کو ڈانٹ دیا
بری بات کنزی بڑی بہن ہے تمیز سے بات کیا کرو۔
آستین پر استری پھیر کر نیا نکور کاٹن کا جوڑا تھما کر بولی
یہ لو جائو نہا کر یہ جوڑا پہن لو۔
مزنہ بدک گئ
میں کیوں یہ پہن لوں یہ آپکا ہے اور میں ویسےبھی ایسے کپڑے نہیں پہنتا پتہ ہے آپکو یہ بات۔
اسکے صاف انکار نے بھئ حفصہ کو بد دل نہ کیا۔ پچکار کے بولی
بیٹا مہمان آرہے ہیں انکے سامنے سب ہی اچھا سا حلیہ بنا کر جاتے ہیں کنزی امی اور میں نے بھی کپڑے بدلے ہیں تم بھی بدل لو ویسے بھی وہ تمہیں دیکھنے آرہی ہیں۔
حفصہ نے اپنی طرف سے سبھائو سے بات کی مگر وہ پٹھے پر ہاتھ بھی دھرنے نہ دے رہی تھی
میں نہیں پہن رہا یہ کپڑے اور انہوں نے مجھے دیکھنا ہے تو ایسے ہی دیکھیں میں ان کپڑوں میں بھی دکھائی دے رہا ہوں غائب نہیں ہوگیا۔
مزنہ بگڑکر بولی توکنزی ہنس دی
آپکو ایسے دیکھ کر انکو دلہا نظر آئے گا جبکہ انکو اپنے بیٹے کیلئے دلہا نہیں دلہن درکار ہے۔ میری بہنیا بنے گی دلہنیا سمجھیں مزنہ بی بی
اسکے مزاحیہ انداز پر حفصہ بھی ہنس پڑی۔مزنہ نے جھلا کر کپڑے زمین پر پھینک دییئے
یہ کیا مزاق چل رہا ہےمجھے نہیں پہننے یہ کپڑے
کیوں بھئ؟ اسکے رویئے نے حفصہ کو ٹھٹکا دیا سنجیدہ سی۔ہوگئی۔ بڑی بہن والا رعب ڈال کر ڈپٹ کر بولی
کیوں نہیں پہن رہیں یہ کپڑے۔۔خبردار جو اس حلیئے میں انکے سامنے آئیں۔جائو کپڑے بدلو اور کنزی اسکا تھوڑا میک اپ بھی کردینا۔
مگر آپی میں یہ سب نہیں کرتا۔اس نے احتجاج کرنا چاہا جسے وہ خاطرمیں نہ لائی
مگر اب کرو۔تھوڑا سجنا سنورنا شروع کرو۔تھوڑی لڑکیوں والی حرکتیں بھی کر لیا کرو۔۔
وہ سمجھانے والے انداز میں بولی جوابا ایکدم مزنہ چلا اٹھی
میں لڑکی نہیں ہوں۔۔۔
حفصہ ایکدم چپ ہو کر دیکھنے لگی تبھی داخلی دروازے پر دستک ہوئی۔ امی جو مزنہ کے چلانے پر کچن سے نکل آئی تھیں جلدی سے دروازہ کھولنے لگیں۔ واقعی مہمان خاتون ہی تھیں۔
دو منٹ میں کپڑے بدل کر آئو۔ حفصہ نے گھور کر سخت لہجےمیں کہا تو وہ پیر پٹختی اندر بڑھ گئ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چائےکا پرتکلف دور چلا۔ رول سموسے کباب اور پیٹیز۔ کنزی کے ہاتھ کی مزیدار چائے بیگم اصفہانی نے خوب تعریفیں کرکرکے انصاف کیا۔ صفیہ کو بھی بیگم اصفہانی فورا پسند آگئیں۔گوری سی پروقار انداز گفتگو خوش لباس خاتون انکے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر نظر گھما گھما کر گھر کا جائزہ لینے کی بجائے انکی مکمل توجہ کا مرکز صفیہ اور حفصہ ہی تھیں۔ ادھر ادھر کی باتیں کرکے سیدھا مدعے پرچلی آئیں
میری بڑی بہو نے آپکی بہت تعریف کی بتا رہی تھی کیسے آپ نے بیوگی اور اکلوتے بیٹے کی موت کا صدمہ جھیلا پھر بھی ہمت نہیں ہاری۔
امی انکساری سے مسکرا دیں۔
بس برا وقت تھا گزر گیا۔شکر ہے خدا کا بیٹیاں سعادت مند اور نیک ہیں میری۔حفصہ کی تو پانچ سال پہلے شادی کردی۔تھی اب مزنہ کی باری ہےما شا اللہ سے میری بیٹی بہت کام کاجو ہے باہرکا سب کام دکانوں کا حساب
وہ سادگی سے کہے جا رہی تھیں حفصہ نے سٹپٹا کر ماں کو گھورا تو جملہ ادھورا چھوڑ گئیں
بیگم اصفہانی بھی شائد بال کی۔کھال نکالنے کی عادی نہ تھیں مسکرا کر بولیں
اچھا ما شا اللہ گھر بیٹی نے سنبھال رکھا ہے؟ظاہر ہے حفصہ تو اب مہمان ہے اس گھر میں۔کنزی تو پڑھائی میں مصروف ہوتی ہوگی۔
امی گڑبڑا گئیں
جی جی ۔۔ آپ چائےلیجئے۔
چائے تو بہت مزے کی ہے۔ گھونٹ بھر کر وہ ہنس دیں
میرا بیٹا ماشا اللہ سے بہت خوش خوراک ہے صاف بات کروں گی بہن۔ کہتا ہے امی شکل وکل سے مجھے سروکار نہیں بس کھانا لذیذ بناتی ہو ۔۔ سچ بتائوں آپکے یہاں ایک ایک چیز میں ذائقہ ہے اور یہ جان کے تو بہت خوشی ہوئی کہ بچی کام کاجو ہے سب گھر سنبھال رکھا ہے۔
امی نے حفصہ کی شکل دیکھی اس نے اشارے سے انہیں دھیرج رکھنے کا اشارہ کیا۔
یہ آپکی بیٹی ہے؟
انکی خود ہی دروازے کی اوٹ میں کھڑی مزنہ پر نگاہ پڑی تو پوچھ لیا۔ حفصہ اور صفیہ نے بھی مڑکر دیکھا تو حیران رہ گئئیں۔ہر وقت اوٹ پٹانگ حلیہ بنائے رکھنے کی وجہ سے اندازہ نہ ہوا مگر اس وقت بڑی بڑی آنکھوں میں کاجل ہونٹوں پر گلابی لپ اسٹک گلابی ہی سوٹ میں دراز قد مزنہ بے حد حسین لگ رہی تھی۔
خاتون بھی ایک ٹک دیکھتی رہ گئیں۔
ما شا اللہ ادھر آئو بیٹا۔ بڑی تعریفیں سنی ہیں بھئ تمہاری۔ بہت سگھڑ ہو بھئ بچیاں تو کام کرتی ہی اچھی لگتی ہیں۔
وہ پیار سے یونہی بات برائے بات کہہ رہی تھیں مگر مزنہ کے تو جیسے تلوے سے لگی سر پر بجھی
دو قدم اندر آکر انکے پاس جانے کی بجائے وہیں تن کر کھڑی ہوکر بولی
کیوں بیٹیاں نوکرانیاں ہوتی ہیں؟جو کام کرکے اچھی لگتی ہیں آپکو یا بہو کے روپ میں کام والی چاہیئے آپکو۔
اسکے تند و تیز لہجے پر وہ خاتون گھبرا سی گئیں
نہیں وہ۔میرا مطلب
حفصہ گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئی
مزنہ کیا بدتمیزی ہے یہ۔
نہیں تو اور کیا فخر سے کہہ رہیں کہ بیٹا خوش خوراک ہے۔ انکو اپنے پیٹو بیٹے کیلئے روٹیاں تھوپنے والی نوکرانی درکار ہے
خاتون کا رنگ ہتک سے سرخ ہوگیا امی نے ڈپٹا
مزنہ چپ کرجائو
یہ کیا بدتمیزئ ہے آپ لوگ یوں گھر بلا کر مہمانوں کو بے عزت کرتے ہیں ۔بہت منہ زور بیٹی ہے آپکی۔
بیگم اصفہانی سب مروت لحاظ بالائے طاق رکھ کر گرجیں
بیٹی نہیں بیٹا ہوں میں انکا بیٹا۔ اور گھر میں گھس کر چائے پانی نہیں کرتا باہر کے سب کام سنبھالتا ہوں۔
اسکے بولنے پر خاتون بولنا بھول کر حیرت زدہ رہ گئیں
یہ یہ کیسے بول۔رہی ہے
حفصہ اسکو بازو سے پکڑ کر باہر لے جانے لگی مگر وہ اسے ہلا بھی نہ پائی
ایسے ہی بولتا ہوں میں ۔اگر آپکو اپنے پیٹو بیٹے کیلئے دلہا درکار ہے تو یہاں بیٹھیں ورنہ چلتی پھرتی نظرآئیں
اتنی منہ زوری بد زبانی مہمان خاتون تو گنگ ہوگئیں البتہ امی نےبلا۔لحاظ اسکے منہ پر تھپڑ دے مارا
بند کرو بکواس یہ تربیت دی ہے میں نے تمہیں۔
امی کی غیض و غضب سے آواز پھٹ سی گئ۔ کنزی ہنگامہ سن کر بھاگی آئی بیگم اصفہانی تنفر سے انہیں دیکھتی باہر نکل گئیں۔
حفصہ کے روکنے پر بھی نہ رکیں
کیا ہوا امی۔ کنزی نے آگے بڑھ کر تھر تھر کانپتی ماں کو سہارا دیا
پاگل ہو گئ ہو کیا تم یہ کیا حرکت کی ہے تم نے۔حفصہ نے پلٹ کر اسے جھنجھوڑ دیا
ہاں ہاں میں پاگل ہوگیا ہوں۔ماں کے تھپڑ نے مزنہ پر جو سکتہ طاری کیا تھا وہ حفصہ کے جھنجھوڑ ڈالنے پر ٹوٹ گیا۔حلق کے بل چلا اٹھی
اپنے کاموں کیلئے تم سب نے مجھے پاگل بنایا ہےمیں خود ایسا نہیں بناتم لوگوں کے کام کرتے کرتے بن گیا ہوں میں اب
کام کام کی کیا رٹنی لگا رکھی ہے تم نے؟
امی بگڑ کر بولیں
باہر کے دو چار کام کرلینے سے تم خود کو لڑکا ہی سمجھنے لگ گئ ہو واقعی بہت ڈھیل دے دی ہے میں نے تمہیں ۔ کتنا بے عزت کرایا ہے ماں کو آج تم نے؟ایسی بد لحاظ اور نافرمان۔۔۔
کیا نافرمانی کی ہے میں نے۔بیٹوں کی طرح گھر کا بوجھ اٹھایا ہے ہمیشہ خود دوڑدھوپ کی کبھی آپ سب پر آنچ نہ آنے دی۔منٹ منٹ پرباہر کے چکر لگائے ہر کام بیٹے کی طرح کیا کبھی بیٹے کی کمی محسوس نہ ہونے دی اب میں آپکا بیٹا ہی بن چکا ہوں بھول جائیں میں لڑکی پیدا ہوئی تھی
وہ گرج رہی تھی۔بھاری آواز مضبوط انداز وہ تینوں ششدر سی اسے دیکھتی رہ گئیں۔
یہی یہی سب میں آپکو بتا رہی تھی مگر میری کوئی سنتا نہیں۔کنزی بولی تو حفصہ اسے دیکھ کر رہ۔گئ
امی کے ہاتھ پائوں بے دم سے ہونے لگے۔ حفصہ آنکو سہارا دے کر بٹھانے لگی۔
میں کیا کروں میری تو کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ امی رو ہی دیں۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی طرف سے تو اس نے داد چاہنے والے انداز میں ماہا کو اپنا کارنامہ سنایا تھا مگر اسکے ہر اچھے برے فعل میں اسکا کندھا تھپتھپانے والی ماہا کا ردعمل بالکل غیر متوقع تھا۔ وہ اس پر چلا اٹھی تھی۔ یونیورسٹی کے گرائونڈ میں بیٹھ کر سموسمہ اڑاتے اس نے ہنس ہنس کر قصہ سنایا مگر ماہا ہنسنے کی۔بجائےاسے یوں دیکھنے لگی جیسے اسکے سر پر سینگ نکل آئے ہوں۔
پاگل تو نہیں ہو گئ ہو؟ کیا ضرورت تھی تمہیں ان خاتون سے اتنی بد تمیزی کرنے کی کوئی اندازہ ہے تمہیں وہ کتنا بدنام کر سکتی ہیں تمہیں؟ لوگ تو دشمنی پر اتر آتے ہیں احمق۔ اگر لڑکا پسند نہیں تھا تو بعد میں حفصہ آپی سے بات کر لیتیں آنٹی کو منا لیتے میں آنٹی سے بات کرتی
میں نے کونسا دیکھا تھا لڑکا۔ اس نے اطمینان سے کندھے اچکائے
پھر اتنی بدتمیزی کی وجہ۔جتنا میں جانتی ہوں آنٹی تمہاری پسند ناپسند کو اہمیت ضرور دیں گی۔انکے دل میں تمہاری الگ ہی جگہ ہے۔ بجائے اسکے کہ تم ان کو اپنی پسند نا پسند بتائو تم نے ایک غیر خاتون کے سامنے انکو شرمندہ کروادیا۔ انہوں نے ایک تھپڑ مارا میری اماں تو ڈنڈے سے پٹائی کرتیں میری اگر میں نے یہ حرکت کی ہوتی تو۔
سموسے کو چٹنی میں بھگوتے وہ صاف گوئی سے کہہ رہی تھی
لڑکیاں اتنی ہی مجبور ہوتی ہیں۔ مزنہ کو اس پر ترس آگیا
ہاں تم تو جیسے لڑکا ہو نا۔بی بی ہو تم بھی لڑکی ہی۔ہونی تمہاری بھی شادی ہی ہے۔ ابھی بائک اڑا رہی ہو بعد میں کسی ببلو ڈبو کو گود میں لے کر سیاں جی کا۔کندھا دبوچ کر بیٹھا کروگی سمٹ کر بائک پر
لہک۔لہک کر کہتی شرارت آنکھوں میں بھرے وہ کھلکھلا رہی تھی۔ مزنہ کو اس پر۔غصہ آنے کی بجائے ہنسی ہی آگئ
دیکھی جائے گی۔ مزنہ نے کان پر سےمکھی اڑائی
یہ بتائو آج شام کا کیا پروگرام ہے ریفریشمنٹ سینٹر چلیں؟
بیگ اٹھا کر کھڑے ہوتے اس نے پوچھا مگر خلاف توقع ماہا نفی میں سر ہلا گئ
نہیں بھئ آج ڈنر عادل کے ساتھ کرنا ہے۔ تم مجھے گھر چھوڑ دو
ماہا بھی ہاتھ جھاڑتی اٹھ گئ۔
مزنہ کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔
ڈنر کیوں؟ رات کو کیا ضرورت ہے عادل کے ساتھ ڈنر پر جانے کی؟ یہاں ہر وقت اکٹھے پھر پھرا کر دل نہیں بھرتا؟ یہاں تو چلو انکو پتہ نہ چلے یوں رات گئے پھرنے سے نہیں روکتے گھر والے تمہیں۔
ماہا منہ کھولے اسکی جھاڑ سنتی گئی پھر اسکے کندھے پر مکا مار کر بولی
بس بس ذیادہ ڈائلاگ بازی مت کرو۔فیملی ڈنر ہے عادل کے گھروالے اور میرے گھر والے بھی ہوں گے۔ اور۔
وہ بولتے بولتے مسکائی
کوئی کینڈل لائٹ رومینٹک ڈنر پر نہیں جا رہے ہم۔ ماہا نے جتایا تو وہ سر جھٹک کر رہ گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہا کو اسکے گھر چھوڑ کر وہ آدھے پنڈی کا چکر لگا کر واپس گھر پہنچ پائی تھی۔ نو بج رہے تھے امی اسکے انتظار میں ٹہل رہی تھیں۔ دو دن سے اس سے مخاطب نہ ہونے باوجود وہ اسکے کھانے پینے کا اسی طرح خیال رکھ رہی تھیں۔
کنزی سو گئ۔ اس نے یونہی پوچھا تھا مگر وہ جواب دیئے بنا کچن میں چلی گئیں۔
وہ تھکی تھکی سی اپنے کمرے میں آکر بیڈ پر گر سی گئ۔
اسلام آباد میں اپنے ماہی منڈے والے حلیئے میں سارا دن گھومنے میں بھی اسے ان نظروں اور جملوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا تھا جو گلریز پنڈی میں ماہا کو اسکے گھر چھوڑنے کے بعد اسے گلیوں میں سے گزرتے سڑک پر آتے سگنل پر رکتے سننا پڑا تھا
ماہی منڈا،اوئے لڑکے، اوئے۔سن یہ بتا دے لڑکا ہے یا لڑکی، غلیظ جملے بازی ریس لگائے گا؟ نہیں ریس لگائے گی بول
سنو شش۔۔
آوازیں شور روشنیاں۔۔۔
ماں کی نرم سی آواز۔ ۔۔۔
مزنہ۔
اس نے جھٹ آنکھیں کھول دیں۔امی کھانے کی ٹرے لیئے کھڑی تھیں۔وہ ذہنی طور پر ابھی بھی شائد گھر نہ پہنچی تھی۔خالی خالی نگاہوں سے دیکھتی رہی جیسے انکے وہاں کھڑے ہونے کا مقصد سمجھ نہ آرہا ہو
سرخ لال بوٹی سی آنکھیں تپا۔ہوا چہرہ۔ ماں کا کلیجہ تڑپ سا گیا۔
ٹرے سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر اسکے پاس آبیٹھیں۔
کیا ہوا مزنہ طبیعت تو ٹھیک ہے نا بیٹا۔
امی آپ بھی مجھ سے نفرت کرتی ہیں؟
وہ یونہی دیکھتی رہی کہنا کیا تھا کہہ کیا گئ۔۔اس نے انکی گود میں منہ چھپا لیا۔
نہیں میری جان تم تو میری سب سے لاڈلی بیٹی ہو ۔۔
امی تڑپ ہی تو گئیں اسے اپنے بازوئوں کے حلقے میں لے لیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہا بے خوش خوش یونیورسٹی آئی تھی۔ اسکو دیکھتے ہی بھاگی آئی گلے سے جھول ہی گئ۔ اسکے بے ساختہ اظہار پر اسکا سارا گلہ جاتا رہا موڈ بھی اچھا ہوگیا۔
کیا ہوا خیریت ہے؟ بہت خوش نظر آرہی ہو اور آج تو عادل کا دم چھلا بھی ساتھ نہیں ہے۔
پوچھتے پوچھتے بھی وہ طنز کیئے بنا نہ رہ سکی۔
اب سے وہ میرے آس پاس بھی نہیں پھٹکا کرے گا۔
وہ کھلکھلائی
کیوں بھئ منگنی ٹوٹ گئ کیا تمہاری۔
اسے سچ مچ یہی خیال گزرا تھا۔ کوئی اور وقت ہوتا تو ماہا اسکے گھونسا دے جڑتئ پر آج وہ اور ہی ہوائوں میں تھئ۔جھوم کے بولی
اللہ نہ کرے بس ہماری شادی طے ہوگئ ہے دو مہینے بعد کی تاریخ رکھی گئ ہے سو اب سے ملنا جلنا بند دو مہینے تک ہک ہا۔ میں کیسے رہوں گی یار۔۔۔۔وہ اسکے ساتھ ساتھ قدم بڑھا رہی تھی مگر اسکی بات سن کر اسکے قدم رک سے گئے
بس جلدی جلدی سب کام ہونے ہیں ڈھیروں شاپنگ کرنی ہے مجھے اور اب سے تم اگلے دو مہینے تک آفیشلی میری ڈرائیور ہو ساری شاپنگ۔۔۔۔۔ بولتے بولتے اسے احساس ہوا کہ اکیلی چلتی جا رہی ہے تو چونک کر مڑی
کیا ہوا آئو نا کلاس شروع ہونے والی ہے ۔۔
اس نے یاد دلایا۔
کیوں شادی کرنے لگی ہو ابھی نا تمہاری پڑھائی مکمل ہے نا عادل کی کماتا وماتا تک نہیں ہے۔۔ اس نے اتنا منہ بنا کر کہا تھا کہ ماہا کو ہنسی آگئ
پکا لڑاکا پھپھیوں کی طرح اعتراض اٹھائے ہیں۔ ہا ہا ہا۔
بھئی ہمارا بی ایس کا آخری سمسٹر ہے اسکا ایم بی اے کا۔مڈز تو ہو چکے ہمارے فائنلز بھی ختم ہو جائیں گے دو مہینے تک پھر کیا کرنا میں نے تو شادی ہی سہی۔
وہ بے حد خوش اور مگن تھی سو آرام سے تاویلیں گھڑتی گئ۔۔
مگر دو مہینے میں عادل کی نوکری تو نہیں لگ جائے گی۔
اس نے ذرا بھنا کر کہا۔
تو عادل نے کونسا نوکری کرنی ہے ۔تایا ابو کا کاروبار ہی سنبھالنا ہے۔ چلو اس فالتو بحث میں پراکسی نکل جائے گی۔
وہ اسکا بازو تھام کے کھینچ لے گئ ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہا نے اپنا کہا سچ کر دکھایا نا امتحانوں کی فکر تھی نا ہی کوئی اور کام دھندہ بس شاپنگ کا پروگرام بنا کر فون کھڑکاتی اور سارا دن اسے لیئےلیئے بازاروں کے چکر لگواتی رہتی۔ دھوپ میں پھر پھر کر اسکا رنگ سیاہ ہوگیا نا دوپہر کے کھانے کی فکر نا شام کے امی نے کچھ دن تو برداشت کیا اسکا یہ معمول مگر جب شام کو تھک ہارکر وہ جب بسترپر گری اور تھکن کے مارے کھانے سے بھی انکار کردیاتو انکےصبر کاپیمانہ لبریز ہوگیا بھنا کر باہر آئیں۔کنزی برتن دھورہی تھی انہوں نے ساری بھڑاس اسکےسامنے نکال دی۔
اتنا سا منہ نکل آیا ہے مزنہ کا۔نوکر ہی سمجھ رکھا ہے ماہا نے ۔صبح یونیورسٹی شام کو شاپنگ جانے دن بھر کچھ کھاتی پیتی بھی ہے کہ نہیں۔عجیب لڑکی ہے بھئ اپنی ماں بہن کے ساتھ شاپنگ کرے گاڑی میں گھومے میری بیٹی ملازمہ ہے کیا اسکی کہ اسے لیئےلیئےبازاروں کے چکر لگائے۔۔۔
روٹی پکاتےانہوں نے تھپ تھپ سارا غصہ نکال دیا۔ کنزی نے ماں کا غصے سے لال بھبھوکا چہرہ دیکھا تو مسکرا دی
ارے امی ماہا باجی اکلوتی تو ہیں کہاں کوئی بہن بھائی ہے انکا اور آنٹی کے ساتھ تھوڑی کھل کے گھوم پھر کر شاپنگ کر سکتی ہوں گی۔ جبھی مزنہ کے ساتھ جاتی ہیں کہ آرام سے دونوں سہیلیاں گھوم پھر کر چیزیں لیتی ہوں گی۔
ہاں تو کوئی حد ہونی چاہیئےنا روز روز کا یوں بازاروں میں پھرنا ابھی بھئ مزنہ کا چہرہ لال ہو رہا تھا ہلکا ہلکا بخار بھی لگ رہا تھاجیسے۔تھکا ڈالامیری بیٹی کو ابھی آئے ذرا اسکا فون خبرلیتی ہوں میں اپنے ابا کی گاڑی کو ہوا لگائے نا۔۔
کوئئ ضرورت نہیں اسکی خبر لینے کی۔دو چار دن کی ہی بات ہے اورجب مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے تو۔۔
مزنہ شائد پانی پینے آئی تھی کچن کے دروازے کا سہارا لیئے انکی بات سن کر فورا بولی۔
حال دیکھو اپنا نچڑ گئ ہو چار دن میں کھانا وانا بھی چھٹ گیا ہے اس طرح تو بیمار پڑ جائو گئ۔
امی فکر مندی سے اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیکر بولیں۔انکی بات پر کنزی نے بھی ذرا غور سے اسکی شکل دیکھی۔پژ مردگئ چہرے سے عیاں تھی۔ مضمحل سی وہ دروازے کا یوں سہارہ لیئے کھڑی تھی جیسے چکرا کر گر جائے گی۔
بس آج کھانے سے انکار کیا تھا دل نہیں تھا۔چلیں ابھی پیٹ بھر کر کھانا کھاتا ہوں آپکی فکر دور کرنے کو ٹھیک ہے۔
اس نے بشاشت طاری کرتےہوئےجیسے انکو بہلایا۔وہ بہل بھی گئیں۔تینوں نے اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھایا مگر رات کو اسکو شدید بخار ہوگیا۔ صبح امی اٹھانے آئیں تو بخار میں پھنکتےکراہ بھی رہی تھی۔ امی کے تو ہاتھ پائوں پھول گئے۔ کنزی کو بھئ کالج جانے سے روک دیا اسکے سرہانےہی تسبیح لیکر بیٹھ گئیں۔ کنزی نے دودھ گرم کرکے لا کر دیا تو امی کو ڈبل روٹی یاد آئی
ڈبل روٹی ہی لے آئو بھوک لگ رہی ہوگی اسے۔
امی ڈبل روٹی تو ختم ہوگئ ہے۔ کنزی نے دھیرے سے بتایا
تو وہ اسےلانےکا کہتے کہتے رک گئیں
ہاں کل مزنہ کو یاد کرایا تھا لانا بھول گئ شاید۔
مزنہ کی پیشانی سہلاتے انہیں خیال آیا۔
لانے والی ہی وہی تھی ہر چیز۔
دوپہر تک بخار کا زور کم تو ہوا مگر سودا سلف ہر چیز کیلئے وہ دونوں بیٹھی رہ گئیں۔
گھر میں بس آلو تھے وہی پکا لیئے۔دلیہ ختم تھا دودھ بھی ختم تھا۔سونے پر سہاگہ موٹرالگ چلتے چلتے رکی تو دھواں دے گئ۔ابھی مزنہ ٹھیک ہوتی تو فورا مکینک لے آتی ۔ ڈاکٹرتک بلانے کیلئے وہ دونوں بیٹھی تھیں۔
امی مزنہ بیمار ہوئی ہے تو گھر کاہر کام ہی رک گیا ہے۔آج تو موٹر بنا بھئ گزارا ہو جائے گا کل کیا کریں گے ۔سودا سلف کیلئے کیا کریں؟
کنزی نے کہا تو وہ سوچ میں پڑ گئیں۔پھر حفصہ کو فون ملا دیا۔ حفصہ میاں کے ساتھ چکوال گئ ہوئی تھی وہ الگ پریشان ہو گئ مزنہ کی طبیعت کتنی خراب ہے جو ایسے فون کرناپڑا مشکل سے اسے مطمئن کرکےفون بند کیا۔
قریبی مارکیٹ سے سودا تو میں جا کر لے آتی ہوں باقی پانی احتیاط سے خرچ کرنا تم۔اور مزنہ سے کہو تھوڑی ہمت پکڑے قریبئ کلینک لے چلتے ہیں۔
امی نےخود ہی حل نکالا۔کنزی سر ہلاگئ۔ برسوں سے گھر سے نکلنے کی عادت نہیں تھی۔اللہ بخشے شوہر سخت گیرتھےکبھی انکے ساتھ بھی بازار جانے کی نوبت نہ آئی۔ہاں انکے بعد حالات نے خواریاں کٹوائیں ان سے مگر اب پھر پچھلے کئی سالوں سے اکیلے تو گھر سے نکلی ہی نہ تھیں۔ مگر بڑھتی عمرتھوڑا بہت با اعتماد کر ہی گئ تھی سو چادر
اوڑھ کرنکلیں تو سودے سلف کے بعد مکینک کو بھی بلا لائیں۔موٹر اپنی نگرانی میں ٹھیک کروائی کنزی ماں کو دیکھ دیکھ کر حیران ہوئی
امی ایویں ہی ہم نے سب کام مزنہ پر ڈال رکھے ہیں یہ سب کام تو آپ بھی کر سکتی ہیں ہم ایویں مکینک بلانےتک کیلئے بھی مزنہ کا انتظار کرتے تھے۔
کنزی مزنہ کے لیئے دودھ ڈبل روٹی لے جاتے ہوئے یونہی کہہ رہی تھی انہوں نے سر ہلا دیامگر یہ تو انکو پتہ تھا سائکلوں والے کے پاس جا کر موٹر ٹھیک کرنے کیلئے کاریگر کو بلارہی تھیں۔وہ تو بھلا انسان تھا مزنہ کو بھی جانتا تھا انکو گھربھیج کر خود مکینک کو فون کرکے بھجوا دیا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دو دن مزنہ کا بخار چڑھتا اترتا رہا۔ حفصہ پریشان ہو کر فورا اگلے دن واپس آئی۔عامر ڈاکٹر کو بلا کر لائے دوائیں وغیرہ وہ ہی سب خیال رکھتے رہے۔ پھر بھی دو دن میں مزنہ نچڑ سی گئ۔ بخار کبھی سر پر چڑھنے لگتا کبھی چہرہ تھر تھرانے لگتا۔ ڈاکٹر نے شدید تفکر کا نتیجہ بتایا۔ امی نے مصلہ سنبھال لیا جانے کتنے نفل مان لیئے تیسرے دن وہ مکمل ہوش میں آئی تو فورا سجدے میں جا گریں۔کنزی پچھلے دو دن سے اسکے پاس ہی بیڈ پر سو رہی تھی امی کا میٹرس بھی اسی کمرے میں بچھا لیا تھا۔حفصہ کوشش کے باوجود رہ تو نہ سکی مگر تھوڑی تھوڑی دیر بعد فون کرکے خیریت پوچھ لیتی تھی۔ اس دن بھئ وہ مزنہ کے ساتھ سو رہی تھی جب اچانک مزنہ کا بخار بڑھنے لگا۔ کنزی نے اٹھ کر اسکے تھرمامیٹر لگا کر بخار دیکھا پھر پانی لا کر سر پر پٹیاں رکھنے لگی۔۔ وہ جانے کیا بخار میں منہ ہی منہ میں بڑبڑانے لگی۔اس نے کان لگا کر سننا چاہا ۔۔ ادھورے ٹوٹے جملے۔ وہ ماہا کو پکار رہی تھی۔ اسے اسکی حالت دیکھ کر خوف ہی آنے لگا۔ امی کی شائد ابھی آنکھ لگی تھی اس نے ایک دو بار پکارا مگر جب وہ ٹس سے مس نہ ہوئیں تو خود ہی جو جو سورت سمجھ آئی پڑھنے لگی۔ اس نے ایکدم اپنی لال انگارہ آنکھیں کھول کر دیکھا۔
تم تم ماہاتم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آگے جو ٹوٹے پھوٹے الفاظ تھے کہ زلزلہ تھے۔ انہوں نے کنزی کے سر پر جیسے پہاڑ گرا ڈالا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح اسکا بخار ختم ہو چکا تھا۔خود ہی اٹھ کر منہ ہاتھ دھو کر کپڑے بدلےناشتہ کیا سب دوائیں بنا چوں چراں کیئے کھا لیں۔ ۔یونیورسٹی جانے کی تو امی نے اجازت نہ دی۔ کنزی کی لگ رہا تھا طبیعت خراب ہوگئ تھی۔ سر بوجھل ہو رہا تھا آنکھیں رت جگے سے سرخ بھی ہو رہی تھیں پھر بھی یونیفارم پہنے تیار کھڑی تھی کالج جانے کو۔ ناشتے تک کوتیار نہ تھی۔
میں چھوڑ آئوں تمہیں کالج۔ اس نے بغور اسکی ڈھیلی طبیعت کو دیکھتے ہوئے آفر کی
نہیں ۔اس نے فورا انکار کیا
ساری رات تو بخار رہا ہے اب جاکے طبیعت سنبھلی ہے تو ذیادہ تھکن مت لو۔ ابھئ بھی ناشتے کے بعد جا کے سوجانا۔ ڈاکٹر نے ذیادہ سے ذیادہ آرام کرنے کا بتایا ہے۔ بتائو ایسے چہرہ تھر تھرا رہا تھا تمہارا بخار میں میری تو جان ہی نکل گئ۔
امی نے بھی فورا گھرکا وہ خاموشی سے کان دبا کے سنے گئ۔ کنزی نے دزدیدہ نگاہوں سے اسے دیکھا پھر جلدی سے اپنا بیگ اٹھا کر باہر گیراج میں چلی آئی۔حالانکہ ابھی اسکی وین آنے میں پورے دس منٹ باقی تھے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امی کے حسب ہدایت وہ آکر کمرے میں لیٹ تو گئ مگر نیند کوسوں دور تھی۔ یونہی وقت گزاری کیلئے موبائل استعمال کرنے لگی۔ماہا نے مشہور ریستوران کا چیک ان لگایا ہوا تھا۔
ہمراہ عادل۔ اسکے تن بدن میں آگ سی لگ گئ۔ کہاں کہہ رہی تھی اگلے دو مہینے تک عادل سے ملنا ملانا بند اور اب اسکے ساتھ ہوٹلنگ ہو رہی ہے۔
اس نے اسی وقت یہی سب لکھ کر واٹس ایپ کر ڈالا۔
اسکا پیغام اس نے فورا پڑھا تھا مگر جواب نہیں دیا۔
کیا بات ہے جواب کیوں نہیں دے رہی ہو؟ یا عادل نے منع کیا ہے جواب دینے سے بھی۔
اسکا یہ پیغام بھئ پڑھ لیا گیا تھا جواب ندارد
تمہارے گھر والے جانتے ہیں تم باہر کس کے ساتھ گلچھرے اڑا رہی ہو؟
اسکو اتنا غصہ آیا کہ اس نے یہی لکھ بھیجا
میرے گھر والے بھئ ساتھ ہیں میرے اور تم اپنی چھوٹی سوچ اپنے پاس رکھو۔عادل نے منع نہیں کیا تھا جواب دینے سے میں کھانا کھا رہی تھی۔ہاں اور اگر وہ منع کرتا تو میں واقعی میں منع ہو جاتئ جواب نہ دیتئ۔
اسکا سچ مچ اسکی فضول بات پر دماغ گھوم گیا تھا سو سخت ہی جواب دیا اسے۔
اتنا اہم ہو گیا ہے وہ دو ٹکے کا عادل تمہارے لیئے کہ تم مجھے ایسے کہہ رہی ہو۔
اسے اتنے سخت جواب کئ توقع نہ تھی۔اسکے پیغام کو اس بار پڑھا بھئ نہیں گیا تھا۔اس نے جھلا کر فون ملا لیا۔ دو تین بیلوں کے بعد لائن کاٹ دی گئ۔ اس نے دوبارہ فون ملایا تو ماہا نے فون ہی بند کردیا۔
ہائش۔اس نے غصے میں آکر فون پوری قوت سے زمین پر پٹخ دیا۔وہ تو شکر ہے میٹرس بچھا ہونے سے بچت ہوگئ۔اسی وقت حفصہ جو کمرے میں داخل ہورہی تھی گھبرا کر ٹوکنے لگی
ارے ارے کیا کر رہی ہو۔ ؟
حفصہ کو دیکھ کر وہ بھی گڑ بڑا گئ۔ آگے ہو کر موبائل کی باقیات پر نظر ڈالی
شکر ہے بچت ہوگئ۔ حفصہ نے آگے بڑھ کر فون اٹھایا اور گھورنے لگی
لگتا ہے طبیعت ٹھیک ہوگئ تمہاری۔ دوبارہ جناتی غصہ وارد ہو رہا ہے تمہارا۔ شکر ہے۔ پتہ ہے امی کتنا پریشان ہوگئ تھیں تمہارے لیئے کبھی اتنی شدید بیمار نہ پڑیں تم ۔
حقیقت تو یہ کہ اسے ٹھیک ٹھاک بیٹھا دیکھ کر حفصہ نے اطمینان کا سانس لیا تھا۔مزنہ کھسیا کر فون اسکے ہاتھ سے لینے لگی
ہاں آج بہتر ہوں۔
بہتر ہوتے ہی غصہ کس پر آگیا تمہیں ہیں؟ حفصہ اطمینان سے اسکے بیڈ پر برابر آن بیٹھی
وہ بس۔ وہ جز بز سی ہوئی
اور وہ تمہاری رگ جاں ہم نوالہ ہم پیالہ ماہا صاحبہ کہاں مصروف ہیں ؟ تین دن سے بیمار ہو ایک بار بھی خیریت پوچھنے کو بھی فون نہیں کیا اس نے کیسی دوست ہے۔
حفصہ نے کہا تو اسکا غصہ پھر واردہو گیا
موصوفہ عادل کے ساتھ لنچ کر رہی ہیں۔ دو مہینے بعد شادی ہے ان دونوں کی پھر بھئ ہر وقت اکٹھے رہتے ہیں۔گھر والےتک نہیں روکتے ان دونوں کو۔۔۔
اس نے اتنےدل جلے انداز میں کہا تھا کہ حفصہ کو ہنسی ہی آگئ مگر اسے منہ پھلائے دیکھ کر سمجھانے والے انداز میں بولی
تمہیں کیوں اتنا غصہ آرہا ہے؟ سہیلی پرائی ہورہی ہے تمہاری اب تمہارے ساتھ تھوڑی وقت گزارا کرے گی اپنے منگیتر کے ساتھ گھوما پھرا کرے گی۔
کیوں بھئ۔ شادی کر رہی ہے تو بس اب سب کچھ عادل ہے میری کوئی حیثیت نہیں رہی اسکے نزدیک
وہ دلی جزبات زبان پر لے آئی۔ حفصہ اسکے بچپنے پر مسکرا کر رہ گئ
یہی ہوتا ہے چندا۔ اب ہم تینوں بہنیں کیسے ہر وقت سر جوڑ کے بیٹھی رہتی تھیں اب مہینہ ہو جاتا مجھے تم دونوں کی شکل بھی دیکھے۔
اس نے پیار سے اسکے بال بگاڑے
شادی ہم لڑکیوں کی زندگی بدل دیتی ہے۔ہماری ترجیحات بھی بدل۔جاتی ہیں۔ اپنے بہن بھائئ گھر والے دور ہو جاتے ہیں دوستیاں تو بالکل ہی ختم بھی ہو جاتی ہیں۔ اگر سیاں جی قسمت سے اچھے مل جائیں تو ہی دوستیاں قائم رہتی ہیں ورنہ سب ختم۔۔۔
میں ایسا نہیں کروں گا۔میرے لیئے ماہا ہمیشہ میری سب سے بہترین قریبی دوست رہے گی۔۔
وہ اٹل انداز میں ضدی انداز سے بولی
اب یہ تو وقت بتائے گا کیا پتہ تم شادی کے بعد سیاں سیاں کرو اور سہیلیاں بھول جائو۔
وہ بھی جوابا ہلکے پھلکے انداز میں بولی۔
میں شادی ہی نہیں کروں گا پھر۔ اس نے حفصہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تو حفصہ کی آنکھوں میں الجھن تیر گئ۔ اسکی طبیعت بھی ٹھیک نہ تھی سو بحث میں نہ پڑی۔
بات بدل دی۔
اچھا یہ بتائو۔ گریڈز کیسے آئے ہیں مڈز میں تمہارے؟
اس نے بڑے پیار سے پوچھا تھا مگر مزنہ کی پیشانی پر بل پڑگئے
کیوں گریڈز کیوں یاد آگئے۔ ؟
ایسے ہی۔ حفصہ نے ٹالنا چاہا۔ گھما پھر کر پوچھنے لگی
کوئی جھگڑا وگڑا تو نہیں ہوا کوئی یونیور سٹی میں کوئی ٹیچر وغیرہ تو نہیں دشمن بنا ہوا ؟ اگر کوئی مسلئہ ہے تو تم کھل کر مجھے بتا سکتی ہو۔۔
ایسا کچھ نہیں ہوا اگر ہوا بھی ہے تو میں خود نمٹ سکتی ہوں ایسے معاملوں سے۔ مزنہ قطیعت سے بولی
کبھئ کبھی ہمیں لگتا ہے ہم بہت مضبوط ہیں اور ہم ہوتے بھی ہیں مگر بہت پریشانی ہو نا کسی بات کی تو ذہن پر بوجھ بہت بڑھ جاتا ہے ایسے موقعے پر کسی کے ساتھ باتیں کرکے وہ بوجھ بانٹ لیا جائے تو نا صرف انسان ہلکا پھلکا ہوجاتاہے بلکہ ہو سکتا ہے اگلا اتنا اچھا مشورہ دے کہ الجھن پریشانی ہی ختم ہو جائے۔ تمہارے ذہن پر بھی اگر کوئی بوجھ کوئی الجھن ہے تو تم مجھ پر بھروسہ کر سکتی ہو بتا سکتی ہو کیا چیز پریشان کر رہی ہے۔
حفصہ اس سے اسکی پریشانی کی اصل وجہ اگلوانا چاہتی تھی۔ ڈاکٹر نے صاف کہا تھا کہ اسکے ذہن پر شدید دبائو ہے جسکی وجہ سے اسکو فٹس پڑنے لگے تھے بہتر ہوگا اسکی ذہنی پریشانی میں کمی لائی جائے اس سے بات کریں اسکا خیال رکھیں اسکو احساس دلائیں کہ اسکے گرد محبت کرنے والے لوگ ہیں جو اسے مطمئن اور خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔
مزنہ اسے بے تاثر نظروں سے دیکھتی رہی
بتا دوں مجھے کیا پریشانی ہے؟۔
اسکا انداز عجیب سا ہوگیا تھا
ہاں نا میری جان مجھے نہیں بتائوگی تو پھر کسے بتائوگی؟
حفصہ نے محبت سے اسکےپیشانی کے بال سمیٹے۔
ماہا مجھ سے دور جا رہی ہے آپی۔ میں اسکے بغیر نہیں رہ سکتا۔۔۔
اس نے سر جھکا کر اپنا مسلئہ صاف صاف بیان کر دیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد
جاری ہے