Desi Kimchi Episode 20

Desi Kimchi Urdu Novels

قسط 20
دھیرے سے دروازہ کھٹکا کر اس نے اندر آنے کی اجازت مانگی تھی مگر جواب ندارد تھا۔ اس نے پھر دستک دے کر ذرا سی دروازے کی درز سے جھانکا تو ہے جن مسہری پر سر جھکائے بیٹھا تھا دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پھنسائے کسی گہری سوچ میں گم۔
اس نے شاپنگ بیگ سنبھالتے ہوئے اسکے قریب جا کر ہائو کیا۔ وہ نہ ڈرا نہ چونکا جوں کا توں بیٹھا رہا الٹا منہ پھیر کر جلدی سے آنکھیں صاف کرنے لگا۔ وہ بیگز بیڈ پر پھینک کر اسکے پاس ہی بیٹھ گئ۔ پیار سے اسکا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں لیکر اپنی جانب کیا تو اسکی آنکھیں سرخ ہو کر سوجی ہوئی تھیں۔ یقینا ابھی اس نے اپنے آنسو صاف کیئے تھے۔ سرخ ہوتا چہرہ وہ پریشان سی ہو اٹھی
کیا ہوا خیریت تو ہے ہے جن؟
اسکے اتنا سا پوچھنے کی دیر تھی وہ اس سے لپٹ کر رو پڑا۔
کیا ہوا ہے جن بتائو تو سہی۔ اسکی پشت تھپکتے اس کو پرسکون کرنے کی سعی کرتے ہوئے واعظہ پوچھ رہی تھی۔
نونا میں بہت برا ہوں میں بہت گناہگار ہوگیا ہوں۔ اللہ کا بھی اور بدھا کا بھی۔ میرا کرما میرے سامنے آئے گا تو کیسے سہہ پائوں گا؟
وہ بلکے جا رہا تھا۔ واعظہ چپ سی ہو گئ۔ کئی لمحوں کے بعد اسکی ہچکیاں تھمی تھیں۔ آنسو پونچھتا وہ سیدھا ہو بیٹھا پھر شرمندہ سے انداز میں کہنے لگا
پریشان کردیا نا آپکو بھی نونا۔
اسکی گلابی رنگت سرخ ہو رہی تھی ۔ سرخ ناک سرخ سی آنکھیں وہ بالکل معصوم چھوٹا سا بچہ لگ رہا تھا۔
مجھے دل سے نونا سمجھتے ہو نا؟ اس نے ہے جن کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے سوال کیا۔
دے۔ اس نے معصومیت سے سر ہلایا۔
بتائو پھر کیا ہوا؟ کیوں پریشان ہو۔ اس نے بہت پیار سے اسکا ہاتھ تھام کر پوچھا جوابا وہ سر جھکا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے طوبی نے فون کرکے بلایا تھا۔ اسے لائونج میں بٹھا کر خود وہ اندر کچھ لینے چلی گئ تھئ۔ بچے ٹی وی پر کارٹون دیکھ رہے تھے۔ اسکا بیٹا کشن کے سہارے بیٹھا تھا جھنجھنے سے کھیل رہا تھا جب ایکدم سے مڑنے سے منہ کے بل کارپٹ پر آیا۔ چوٹ تو نہیں لگی تھی مگر جانے کیوں خوب زور سے رونے لگا۔
اس نے آگے بڑھ کر اٹھایا اسے بہلانا چاہا مگر وہ چپ ہی نہیں ہو رہا تھا وہ اسے لائونج سے ملحق لیکر بالکونی میں لے آیا۔ تھپکنے اور باہر کی فضا میں آکر وہ چپ ہو ہی گیا۔ وہ یونہی اسے تھپکتے بالکونی سے جھانکنے لگا تبھی اسکی نگاہ نیچے سے گزرتے چھوٹے سے جلوس پر پڑی دس پندرہ بدھ متی پنڈت گیرواں چولے جیسا لباس پہنے گلے میں مالائیں لٹکائے مخصوص الاپ الاپتے گزر رہے تھے۔ لوگ ان سے دعائیں لیتے کچھ ساتھ ہو جاتے کچھ ہدیہ دیتے آگے بڑھ جاتے۔
ہے جن ۔ طوبی اسے لائونج میں سے پکار رہی تھی۔
دے۔ وہ جلدی سے پلٹا۔ طوبی اسکیلئے کچھ شاپر میں لیئے کھڑی تھئ۔
اسے بٹھائو صوفے پر اور جلدی سے مجھے یہ پہن کر دکھائو ویسے تو سب ناپ واپ کر سیا ہے پھر بھی کوئی کمی بیشی ہو تو مجھے بتائو میں ٹھیک کر دوں۔
وہ خوشی سے کافی پرجوش تھی۔ اس نے احتیاط سے اسکے بیٹے کو صوفے پر بٹھایا اور طوبی کے ہاتھ سے شاپر لیکر دیکھنے لگا۔
طوبی نے اپنے ہاتھوں سے اسکے لیئے سفید کرتا پاجامہ سیا تھا جسکے گلے پر کوریائی طرز کے ہنبق پر جو پھول پتیاں بنی ہوتئ ہیں انکو سرمئی اور کالے دھاگوں سے کاڑھا تھا۔کڑھائی کی خوبصورت اور صاف بنت ماہر کاریگری اور کوریائی اور پاکستانی طرز ثقافت کا خوبصورت ملاپ وہ کرتا جدید انداز کا صفائی سے سلا تھا۔ کھڑا پاجامہ پینٹ کی طرز کا سلا تھا۔ اتنا خوبصورت لباس اسکے چہرے پر اشتیاق کے رنگ پھیلتے دیکھ کر طوبی کو لگا اسکی محنت وصول ہوگئ۔
وہ اپنے ساتھ لگا کر دیکھ رہا تھا
یہ تمہاراعید کا لباس ہے میری جانب سے تحفہ میرے منے بھائی کیلئے ۔ تم اسکو پہن کر ہی عید کی نماز پڑھنا۔ سمجھے۔ اسکی بات پر ہےجن کا چہرہ بجھ سا گیا تھا۔
طوبی کا۔دھیان اس پر نہیں تھا
جائو جلدی سے پہن کر دکھائو مجھے بسم اللہ پڑھ کر پہننا آج جمعتہ الوداع ہے۔ بہترین دن ہے۔ جائو جلدی۔ اس نے اسے کمرے کی جانب دھکیلا تھاپھر صدق دل سے دعا کی۔
اللہ میرے بھائی کو دین پر استقامت سے چلنے کی توفیق عطا کرے آمین۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نونا آپکو بتایا تھا نا میں نے میں تارک الدنیا بننا چاہتا ہوں۔ میں واقعی بننا چاہتا ہوں مگر بجائے میں دنیا سے منہ موڑتا میں روزے رکھ رہا ہوں طوبی آپی کو لگتا میں انکے دین پر آتا جا رہا ہوں۔ نماز روزے کی جانب راغب ہوں وہ سمجھتی ہیں میں پورک کو چھوتا بھی نہیں مگر نونا پورک میرا پسندیدہ کھانا ہے۔۔
ہے جن بے چین سا ہو کر اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ اپنے بالوں میں انگلیاں پھنسا کر سر جھٹکتا وہ بے حد پریشان دکھائی دے رہا تھا۔ واعظہ اسے خاموشی سے دیکھتی رہی۔
طوبی نونا مجھے دین کی باتیں بتاتی ہیں میں ان سے جھوٹ کہہ دیتا کہ میں نے پورک کھانا چھوڑ دیا مگر نونا میں نہیں چھوڑ سکتا۔ میں آپ لوگوں کی طرح لمبی لمبی پانچ دفعہ نمازیں نہیں پڑھ سکتا میں ایک دو روزے شغل میں رکھ سکتا ہوں مگر یہ دیکھیں۔ اس نے آگے بڑھ کر بیڈ سے شاپر اٹھایا۔ اس میں سے کرتا پاجامہ نکال کر اسے دکھایا۔
طوبی نونا نے میرے لیئے خود عید کا کرتا کاڑھا ہے۔ وہ چاہتی ہیں میں یہ کرتا پہن کر عید کی۔نماز پڑھوں۔میں یہ پہن سکتا ہوں عید میں آپ سب کے ساتھ شریک ہو سکتا ہوں مگر۔۔
اس نے لحظہ بھر کا توقف لیا پھر جیسے تھک کر بولا۔
مگرمیں عید کے دن نماز نہیں پڑھ سکتا مجھے قرآن کی کہانیاں دلچسپ لگتی ہیں مگر میں انکو رٹ نہیں سکتا۔میں نے قل آیت الکرسی یاد کی ہیں میں درود پڑھتا ہوں مگر میں ہمیشہ انکو پڑھتا ہوں تو میرے دل پر بوجھ آگرتا ہے۔ مجھے آپ لوگوں کا اللہ ٹھیک لگتا ہے مگر مجھے اپنے بدھا سے بھی محبت ہے۔ میں نہ بدھا کا رہا ہوں نا اللہ کا ہو سکا ہوں۔ مجھے لگتا میری اپنی ماں مجھے شاکی نظروں سے دیکھتی ہے جب طوبی آپی میرے لاڈ اٹھاتی ہیں۔میری ماں مجھے کبھی معاف نہیں کرے گی اگر اسے پتہ لگا کہ میں یہاں مسلمان بن رہا ہوں۔
نونا میں مسجد جاتا ہوں سب جیسے ورزش کرتے میں اسکی نقل کرتا ہوں ۔دلاور بھائی روز مجھے اپنے ساتھ وضو کرواتے رہے مجھے نماز سکھاتے رہے مگر نونا مجھے یاد نہیں ہوتی عربی۔۔ بہت مشکل زبان ہے مجھ سے تلفظ بھی صحیح ادا نہیں ہوتا نونا۔ میں نبی ص کے بارے میں کتابیں پڑھتا رہا وہ بھئ اچھے انسان تھے لیکن مجھے بدھا بھی اچھے لگتے ہیں۔
بے چارگی سے کہتے وہ واعظہ کے سامنے گھٹنے کے بل آبیٹھا۔
نونا میں نے کچھ بھی کسی کو دھوکا دینے کی نیت سے نہیں کیا۔ مجھے پتہ ہے طوبی آپی مجھے عزہ نونا کا بھائی سمجھتی ہیں اسلیئے وہ مجھے بھی مسلمان بنانا چاہتی ہیں مگر نونا سچ تو یہ نہیں نا۔ میں رمضان میں جھوٹ بولتا رہا روزہ رکھتا رہا مگر پورک بھی کھاتا رہا۔ عزہ نونا اس دن پورک کھا کر اتنا روئیں کہ انکو لگا ان سے کوئی بڑا گناہ سرزد ہوگیا آپکے مذہب میں پورک اتنا برا سمجھا جاتا ہے اور میں آپکے اللہ کا روزہ رکھتا رہا اور پورک بھی کھاتا رہا وہ تو مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا۔ نونا۔۔ نونا مجھے لگ رہا ۔۔
وہ ایکدم متوحش سا ہوگیا۔
میں۔ وہ گھبرا کر اٹھنے لگا تو واعظہ نے اسکو دونوں کندھوں سے تھام کر روکا پھر خود بھی بستر سے اتر کر اسکے سامنے دوزانو ہو بیٹھی۔ دھیرے سے اسکا ہاتھ تھام کر اسی کے بائیں پہلو پر رکھ کر بولی
اپنی دھڑکنوں کو محسوس کرو اور غور سے سن کر مجھے جواب دینا۔۔
وہ یونہی اسے خالی نگاہوں سے دیکھتا رہا ۔ وہ چند لمحے بغور اسے دیکھتی رہی۔
تم مسلمان ہو؟
نہیں۔ اس نے بلا توقف جواب دیا۔
تم بدھ متی ہو۔۔
وہ اتنا برملا انکار نا کر سکا ۔ سر جھکا لیا۔
ہاں۔ اس نے کچھ توقف سے جواب دیا۔
بدھا کیسے تھے ؟ معاف کرنے والے پیار کا درس دینے والے سچے ہمم؟
وہ اس سے پوچھ رہی تھی۔
اس نے حیران ہو کر سر اٹھایا۔
بڈھسٹوں کے ساتھ تعلیم حاصل کی ہے اتنی انجان نہیں تمہارے مذہب سے۔۔
وہ محظوظ سے انداز میں مسکرائی۔
ہاں وہ ایسے ہی تھے۔ مگر وہ کہتے کہ اگر کوئی برائی کروگے تو ضرور اسکا بدلہ پائو گے۔
وہ۔خوفزدہ تھا۔
اچھا۔ تو تم نے کیا برائی کی ؟ کسی دوسرے مزہب پر گئے کسی لڑکی کے منہ بولے بھائی بنے کسی کا دل نہ توڑنے کی نیت سے اسکے مذہب کئ کچھ روایتوں کی پیروی کی تو اسکا بدلہ تمہیں کیا ملے گا کوئی تمہارا منہ بولا بھائی بن کر تمہارا دل نہ ٹوٹے یہ سوچ کر تمہارے ساتھ بدھ متی روایتوں کی پاسداری کرے گا؟
وہ بہت نرم سے انداز سے پوچھ رہی تھی۔
وہ جوابا کچھ بولا نہیں۔
بدھا اگر برے عمل کا برا نتیجہ ملے گا ایسا کہتے تو تم نے تو اچھا عمل بھی کیا کسی کے پیار کا پیار سے جواب دیا کسی۔
وہ مزید بھی کچھ کہہ رہی تھی مگر اندرونی کسی خلفشار سے گھبرا کر وہ اسکی بات کاٹ گیا۔۔
اور اللہ؟؟ وہ وہ مجھے معاف کردے گا۔
واعظہ اسکی بے تابی پر مسکرا دی۔
کم از کم اللہ کے بارے میں میں وثوق سے کہہ سکتی ہوں۔ وہ تم سے خفا نہیں۔ وہ جس سے خفا ہوتا اسکو بھی نہیں چھوڑتا ۔ اللہ تو پیار ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ وہ ستر مائوں سے ذیادہ اپنے بندوں سے پیار کرتا ہے۔ وہ غلطی کی سزا فورا نہیں دیتا ہاں عمل کا ثواب فورا دے ڈالتا۔ وہ نیتوں کا حال جانتا تمہارا ہر عمل اس سے چھپا نہیں۔ تم مسلمان نہیں ہوئے مگر مسلمانوں کے ساتھ رہے انکے عقیدے کا احترام کیا انکے ساتھ روزہ رکھا جہاں تک ہو سکا پیروی کی۔کتنے مسلمان ہیں جو روزہ نہیں رکھتے نماز نہیں پڑھتے تم مسلمان نہیں بھی ہو پھربھی اسکے احکامات کی پیروی کی کوشش کرتے ہو۔ ہو سکتا ہے تمہیں اتنا کچھ کرنے کا دل چاہا ہی اسی لیئے کہ اللہ کو تمہاری کوئی ادا پسند آگئ۔ اس نے چاہا کہ تم جانو اسکے بارے میں اسکے پیارے نبی ص کے بارے میں۔
مگر۔ وہ ابھی بھی بے چین تھا۔ مگر واعظہ نے ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا
اگر تمہارے دل پر ابھی بھی بوجھ ہے۔ تو سنو اللہ تمہاری نیت شروع سے جانتا تھا تم مسلمان ہو ہی نہیں تو تم نماز پڑھو نہ پڑھو اس سے اسکو کوئی غرض نہیں۔ تم دل سے نماز نہیں پڑھتے تھے تو بدھا تم سے کیوں خفا ہونگے تم مسلمان ہو تو نہیں گئے نا؟ تم واحد جس کے گناہ گار ہو جس سے تم نے جھوٹ بولا اسکے بارے میں تم نے سوچا ہی نہیں۔
وہ نرم سے انداز میں جتا کر بولی۔
کون ۔۔۔۔۔۔ اس نے چونک کر واعظہ کی شکل دیکھی
طوبی۔۔ اس نے کہہ کر توقف لیا
تم نے اسے کہا کہ تم عزہ کے بھائی ہو اور پھر ہم سب نے اس سے سچائی چھپائی اس جھوٹ میں ہم سب شریک ہوتے گئے تم تو چھوٹے تھے ہمیں سمجھداری سے کام لینا چاہیئے تھا۔اور ہماری اس غلطی کی وجہ سے تمہیں اتنا کچھ کرنا اور سہنا پڑا۔ ہمیں بھی ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا۔ تمہارے حوالے سے جھوٹ بولنے کی وجہ سے تمہیں جو اتنا کچھ سہنا پڑا اسکے لیئے ہمیں معاف کردو ۔۔۔میں ہم سب کی۔جانب سے تم معافی مانگتی ہوں۔ واعظہ کی آنکھیں بھرسی گئیں ہے جن نے تڑپ کر اسے گلے لگا لیا
آندے نونا ایسا مت کہیں۔۔ یہ سب میری وجہ سے ہوا میں خود جا کر طوبی نونا سے معافی مانگوں گا۔
ٹھیک ہے اب یہ رونا دھونا بند کرو ۔ واعظہ نے اسے پیار سے چمکارا۔
یہ کرتا ضرور پہننا عید کے دن اسے پہننے میں حرج نہیں ۔ طوبئ نے بہت پیار سے بنایا ہوگا تمہارے لیئے۔ واعظہ اسے سمجھا نے والے انداز میں کہہ رہی تھی اس نے آنکھیں پونچھ کر سر ہلایا تبھی اسکی نگاہ واعظہ کے لائے شاپنگ بیگ پر پڑی۔ واعظہ توصیفی نگاہ سے کرتا پاجامہ دیکھتے ہوئے اسے احتیاط سے تہہ کرنے لگی۔
یہ کیا ہے۔ ہے جن نے پوچھا تو وہ چونکی ۔۔
یہ ۔ وہ مسکرا دی
تمہارے لیئے عید کا تحفہ لائی تھی۔ ہم سب عید پر خوب اچھی طرح تیار ہوتے ہیں تو تمہارے لیئے مجھے ۔۔
ہے جن نے اسکا جملہ سنتے ہی جھٹ شاپر کھول لیا تو وہ چپ کر گئ۔
سی گرین بے حد خوبصورت پلین ڈریس شرٹ تھی ساتھ میچنگ کیمل کلر کا کاٹن ٹرائوزر۔ اسکو بے حد پسند آئی۔۔
بہت اچھی ہے نونا۔ کھمسامنیدہ۔ میں اسکو چیک کرتا ہوں
وہ بچوں کی طرح خوش ہوتا ہوا باتھ روم بھاگا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سحری میں وہ سب بیدار تھیں۔ آج جانے سورج کہاں سے نکلا تھا کہ واعظہ سب کیلئے پراٹھے بنانے کھڑی ہوگئ۔ عروج چیز آملیٹ تیار کر رہی تھی فاطمہ چائے بنا رہی تھی۔ عزہ نے جلدی جلدی لسی بنانے کی تیاری شروع کردی تھی۔ الف اور عشنا میز پر سر رکھے اونگھ رہی تھیں۔
ہے جن کو تو اٹھایا ہی نہیں جائو عزہ اسے تو اٹھا دو۔
بندیاں گنتے ہوئے عروج کو ہی خیال آیا۔
میں لسی بنا رہئ۔عزہ نے فٹ انکار کیا۔
عشنا مارے باندھے سستی سے دوپٹہ کندھے پر برابر کرتی اٹھنے لگی
رہنے دو اسے رات کو دیر سے سویا ہے سونے دو۔ آخری پراٹھا اتار کر چولہا بند کرتے ہوئے واعظہ نے منع کردیا۔
ہو سکتا ہے آج آخری روزہ ہو وہ جاگ کر شکوہ کرے گا اٹھا دو۔
عزہ نے اعتراض کیا تو واعظہ نے قصدا تھوڑا سا سخت انداز میں کہا
تو کونسا وہ مسلمان ہے اسکا روزہ رکھنا نہ رکھنا برابر ہے ایویں اس بے چارے کو فاقہ کرواتے ہیں اپنے ساتھ۔ کم از کم۔
اسکی بات ادھوری تھئ کہ دروازہ کھول کر ہےجن جمائی لیتا ہوا باہر آگیا۔وہ چپ ہوگئ۔ عزہ نے جتانے والے انداز میں دیکھا اسے۔
آپ لوگوں نے اٹھایا ہی نہیں مجھے سحری کا وقت ختم تو نہیں ہوگیا؟ وہ پوچھ رہا تھا۔
واعظہ بس ایک نظر دیکھ کر پلٹ گئ ۔ پراٹھوں والا ہاٹ پاٹ یونہی کھول کر دیکھا پھر بند کر دیا۔
کیا ہوا پراٹھے کم ہیں ؟ آٹا تو ہے لائو میں بنا دیتی ہوں۔
اسکے ماتھے پر تفکر کی لکیر دیکھ کر فاطمہ یہی سمجھی کہ شائد کم پڑ گئے۔
آں۔ وہ چونکی۔ نہیں میں ذیادہ ہی بنا گئ ہوں ۔ چلو ناشتہ کریں۔
واعظہ نے فورا سنبھل کر جواب دیا اور ہاٹ پاٹ اٹھا لیا۔
ہمارا بھائی کتنے روزے رکھ چکا۔ آملیٹ لا کر میز پر رکھتے ہوئے عروج نے اسکو شرارتا کہنی مار کر پوچھا
12۔ اس نے اطمینان سے جواب دیا ان سب کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔
تو تم جو سارا سارا دن غائب رہتے تھے تو کچھ کھاتے پیتے نہیں تھے؟ عزہ کو تشویش ہوئی۔اس کے سامنے بھر کر لسی کا گلاس رکھ دیا۔
اس نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا۔ وہ سب اسکے جزبے سے شدید متاثر دکھائی دینے لگیں۔
ایک کلمے کی دیر ہی رہ گئ روزے تو رکھنے لگا ہی ہے یہ اسکو پکا مسلمان بنا دیں گے ہم۔ الف متاثر ہوئی تھی۔
خود پکے مسلمان ہم بنیں نہ بنیں دوسروں کی خوب فکر رہتی ہے ہمیں۔ واعظہ بڑ بڑائی۔ فاطمہ چونکہ پاس ہی کھڑی تھئ سو صرف وہی سن پائی۔ اسے واعظہ الجھی الجھی سی لگ رہی تھئ۔
ہےجن جو لسی کا گلاس اٹھا کر منہ سے لگانے لگا تھا جانے کیوں رک سا گیا۔
فاطمہ ناشتے کا سامان لا کر میز پر رکھنے لگی۔
واعظہ نے میز پر ہاٹ پاٹ رکھتے ہوئے جان کراردو میں بولی۔
ایمان لانا الگ ہوتا ارکان دین پورے کرنا الگ۔ جس طرح نماز روزہ نہ رکھنے سے آپ کافر نہیں ہو جاتے اسی طرح نماز روزہ رکھ کر آپ مسلمان کہلائے جانے کے حقدار بھی نہیں ہو جاتے۔ کیا فائدہ جب وہ دل سے ایمان نہیں لایا بھلے وہ کھائے پیئے یا فاقہ کرے ایک ہی بات ہے۔
اسکا انداز سادہ تھا مگر عروج کو جانے کیوں برا سا لگا
تم نے بڑا اسکے دل میں جھانک کر دیکھا ہے۔ کیا خبر اسکے روزے خدا کو پسند آرہے ہوں اور وہ ہدایت کے در وا کردے۔
اسکے ہدایت کے در وا کروانے سے پہلے ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیئے۔
واعظہ تلخ سے انداز میں بولی۔
ایک کم عمر اسکول جانے والے بچے کو مخصوص دینی ماحول میں رکھ کر سیدھا سیدھا برین واش کر رہے ہیں ہم اسکا۔
کیا مطلب واعظہ ہم نے کب اسکی کنپٹی پر بندوق رکھ کر روزہ رکھوایا ہے۔ عزہ بھی حیران ہو کر بحث میں الجھی۔
ہے جن خاموشی سے ان سب کو دیکھ رہا تھا۔الفاظ سمجھ نہیں آرہے تھے نہ ہی وہ اندازہ لگا پارہا تھا کہ آیا موضوع گفتگو کیا ہے۔
ہم نے نہ سہی طوبی نے زبردستی جب سے رمضان شروع ہوا ہے اسکو مسجد بھیجا ہے اپنے میاں کے ساتھ وہاں اسکو نماز بھی سکھاتے رہے وہ اور قرآن بھی پڑھاتے رہے۔ اورطوبئ نے ایسا اسلیئے کیا کہ وہ اسے تمہارا بھائی سمجھتی ہے۔ ہم نے اسکی غلط فہمی اس مقدس مہینے میں بھی دور نہیں کی۔ ہے۔۔ وہ نام لیتے لیتے رکی۔ پھر نام لیئے بنا بولی۔
مانا اس نے جھوٹ بولا مگر ہم سب اس جھوٹ کو نبھاتے بھی رہے ہیں جسکا نتیجہ یہ ہے کل کلاں کو کچھ ہواتو کچے ذہن کو زبردستی اپنے دین پر راغب کرنے کی بھی دفعات
وہ جوش میں تھوڑا اونچئ آواز میں بولنے لگی الف نے ہاتھ اٹھا کر اس کو روکا۔۔
ٹھہرو اگر ہے جن نے یہ جھوٹ بولا ہے ہم نے نبھایا ہے تو تم نے بھی تو سیہون کو بیٹھے بٹھائے عزہ کا بھائی بنا دیا تھا خود تم نے بھی تو جھوٹ بولا نا پھر ہم نے تو وہ جھوٹ بھی نبھایا ہے۔
الف کے اس طرح کہنے پر وہ ایکدم چپ سی ہوگئ۔ اسے یوں چپ ہوتے دیکھ کرعزہ کو برالگا۔
اب تم اس بات کو یہاں نہ جوڑو۔وہ جھوٹ نہیں تھا۔ چھوٹا سا مزاق تھا بس۔ اور سیہون میرا بھائی بنا ہے تم فکر نہ کرو۔۔

ہاں تو وہ دھوکا دہی نہیں ہے؟ جب وہ سیہون تمہارے اغوا ہونے کا سن کر دوڑا دوڑا حال پوچھنے آیا تھا اسپتال؟ عروج الف کی مدد کو میدان میں اتر آئی۔
نونا کیا بحث چل رہی ہے سحری کریں لڑیں مت۔ ہے جن کو معاملہ سنگین ہوتا دکھائی دیا تو میدان میں کودا
میں۔نے واعظہ تلملا کر جانے کیا کہنے والی تھی کہ
۔ تبھی بیرونی دروازے پر آہٹ ہوئی سیہون تھکا تھکا سا اندر داخل ہو رہا تھا۔
تم لوگ سحری کر لو یہ بحث بعد میں بھی ہو سکتی ہے۔
فاطمہ جو اب تک بالکل خاموش بیٹھی تھی سنجیدگی سے بولی۔ تو وہ سب بھی آخری روزے کا خیال کرکے چپ ہوگئیں۔ سیہون ان سب سے بے نیاز سیدھا کمرے میں گھس گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اختتام ۔۔۔ جاری ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *