قسط 26
میں معزرت خواہ ہوں آپ دونوں کو ڈرا دیا میں نے۔
یون بے ٹھیک ٹھاک شرمندہ سی تھی۔ دونوں اسے کینہ توز نظروں سے ہی گھو ررہی تھیں جان نکال دی تھی اس نے۔ اب سامنے بیٹھی انہی کے پیش کردہ سینڈوچ کو چباتے ہوئے بار بار جھک جھک کر معزرت کر رہی تھی۔
آنیو۔ (کوئی بات نہیں۔) جس خشک انداز میں واعظہ نے کہا تھا اسکی رہی سہی جان بھی فنا ہو چلی تھی۔
وہ دراصل مجھے آپکے گھر میں کھائے ان پکوڑوں کا ذائقہ بھولا ہی نہیں۔ مجھے نام بھی نہیں پتہ تھا ورنہ ضرور آن لائن ڈھونڈ ہی لیتی۔ اب یاد رہے گا وہ پکوڑے تھے۔ ابھی آپ کو دیکھ کر مجھے یہی بہتر لگا آپ سے براہ راست ہی ترکیب پوچھ لوں۔
اسکی چندی آنکھیں مسکراتے ہوئے مزید چندی ہو چلی تھیں۔
پیاز تھی ، پالک تھی اور بینگن مگر لپیٹا کس چیز میں تھا انکو؟
بیسن ۔ یہ عروج تھئ۔ اردو میں جواب دیتی
کارن فلور۔ واعظہ پر بدلہ لینے کا بھوت سوار تھا۔عروج نے گھور کر دیکھا مگر وہ چہرے پر نہایت پر خلوص مسکراہٹ سجائے تھی کہ یون بے کو شک بھی نہ گزرا۔
اوہ یعنی مکئی کا آٹا۔
اس نے جیسے خوش ہو کر چٹکی بجائی
میں ضرور بنائوں گئ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واعظہ عروج اور سیہون اکٹھے ہی رات گئے گھر میں داخل ہوئے تھے۔گھر میں مکمل خاموشی اور اندھیرے کا راج تھا۔تینوں کو تھکن اتنی سوار تھی کہ بس سیدھا اپنے اپنے کمروں میں گھس گئے۔سیہون جب کمرے میں آیا تب ہے جن بے سدھ پڑا تھا وہ آہٹ کیئے بنا احتیاط سے تازہ دم ہونے غسل خانے میں گھس گیا تھا۔اسے پھر بھی آہٹ محسوس ہوئی کہ کیا اس نے پٹ آنکھیں کھول لی تھیں۔
صبح اتوار تھا سب نے خوب نیند پوری کی گیارہ بجے کے قریب ان سب کے کمزور سیل جان پکڑنا شروع ہوئے۔ ایک ہی باتھ روم تھا ان سب کو ایک دوسرے کا انتظار کرتا جھگڑتا چھوڑ کر وہ کمرے سے باہر نکل آئی۔سیہون کے کمرے کا دروازہ دھیرے سے کھٹکا کر جھانکا پھر سٹپٹا کر بند کردیا۔ ہے جن شرٹ بدل رہا تھا اسے جھجک کر دروازہ بند کرتے دیکھ کر خود دروازہ کھولنے لگا۔ واعظہ پلٹ کر واپس فاطمہ کے کمرے کی جانب مڑ گئ تھی
آجائیں انی ۔ہے جن نے پکارا تو پلٹی
تم ہوجائو تیار میں بس ویسے ہی ۔۔ وہ کھسیا سی گئ تھی
میں بس تیار ہو رہا تھا ہو گیا اچھا ہوا آپ مل گئیں رات کو تو آپ کافی دیر سے واپس آئیں۔
وہ دروازہ کھول کر بولتا ہوا اندر کمرے میں چلا آیا ۔
کمرے میں بس ہے جن ہی تھا
سیہون چلا گیا نوکری پر ۔ اس نے یونہی پوچھا
جی ۔۔ اسکا جواب مختصر تھا۔ وہ ایک طرف ہوکر اپنے بیڈ پر سے والٹ اٹھانے لگا۔
واعظہ کی بیڈ پر نگاہ پڑی تو ٹھٹک سی گئ۔ ۔ بیڈ پر اس کا تیار بیگ رکھا تھا اس نے آگے بڑھ کر زپ بند کی ۔ واعظہ سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔ وہ نظر چرا کر تیز تیز بولتا گیا
مجھے دراصل آپکو بتانا تھا میں فلیٹ سے صبح جا کر اپنا سب سامان لے آیا تھا ہیونگ(بھائی سہیون کے بارے میں بات ہو رہی ہے) سے چابی لے لی تھی میں نے ۔ ویسے تو مل کر ہی جاتا میں اس وقت ذیادہ وقت نہیں میرے پاس۔ بس کا وقت ہونے والا۔ہے میں جا رہا ہوں۔ بس مجھے آپکا بے حد شکریہ ادا کرنا تھا نونا۔ ہے جن کی آنکھیں جھلملا رہی تھیں۔واعظہ حیرانی سے اسے دیکھ رہی تھی اس نے آگے بڑھ کر واعظہ کے ہاتھ تھام لیئے۔
آپ نے میرا بہت خیال رکھا میری مشکل ترین وقت میں مدد کی۔ میں آپکا احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گا۔آپ میری سچ مچ بہن ہیں میری نونا۔ آپ مجھے زندگی کی آخری سانس تک یاد رہیں گی سارانگھیئے نونا۔ اس نے اسکے ہاتھ عقیدت سے چوم لیئے۔
کیا مطلب کہاں جا رہے ہو؟ وہ بھونچکا سی رہ گئ
جہاں جانے سے آپ مجھے چند مہینے قبل روک کر یہاں لے آئی تھیں۔
وہ تھکے تھکے انداز میں مسکرایا۔ اسکی رنگت بے حد زرد مگر آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ جیسے وہ یا بہت رویا ہو یا ساری رات نہ سویا ہو۔
تم تارک الدنیا۔واعظہ کی آواز گنگ سی ہوتی گئی۔ وہ یقین کرنا نہیں چاہ رہی تھی جس بچے کو وہ انگلی پکڑ کر چلا کر دنیا میں واپس لائی تھی وہ یوں ایکدم واپس دنیا چھوڑنے جا رہا تھا
۔تم تارک الدنیا ہونے جا رہے ہو۔ اس نے پھر تصدیق چاہی ۔ اسے شدید صدمہ پہنچا تھا ۔ وہ لمحہ بھر کو تو چپ سی کھڑی رہ گئ تھئ
ہے جن کو اس سے اسی ردعمل کی توقع تھی۔ اور یہ بھی کہ وہ پھر اسے روکے گی ساری رات اس نے وہی حیلے بہانے گڑھتے ہوئے گزاری تھی جن سے وہ اس وقت اس اچھی لڑکی کو مطمئن کر سکتا تھا مگر سب بے سود رائیگاں جاتا نظر آرہا تھا کہ وہ سب کچھ بھول گیا تھا یاد تھا تو اسے چند مہینے قبل کا وہ بس کا منظر۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے نگاہ بس پر دوڑائی تو بس ایک بچےکے برابر کی نشست خالی نظر آئی ۔وہ جھٹ اسکے پاس دھم سے آ بیٹھی۔ کھڑکی سے سر ٹکائے کانوں پر ہیڈ فون چڑھائےبانہوں میں اسکول بیگ سینے سے بھینچے بیٹھا آنکھیں بند کیئے وہ سولہ سترہ سال کا لڑکاہوگا جو شائد سو رہا تھا ۔ جبھی واعظہ کے برابر آبیٹھنے پر بھی نہ چونکا نا آنکھیں کھولیں۔ پچھلی نشست سے اٹھ کر آتا وہ چندی آنکھوں والا ادھیڑ عمر کرخت سے چہرے والا مرد سخت بد مزا ہوا تھا
آگاشی۔ یہ میری جگہ ہے؟۔
اس نے بلا تکلف واعظہ کے کندھے پر ہاتھ رکھا اس نے تڑپ کر اسکا ہاتھ پیچھے کیا
ہاتھ لگائے بنا بات کریں
وہ بھنا کر اٹھنے کو تھی کہ بے نیاز سے بیٹھے اس بچے نےبیگ پر سے ہاتھ ہٹا کر واعظہ کی کلائی تھام کر روکا۔
یہ نشست میرے برابر ہے یہاں وہی بیٹھ سکتا ہے جسے میں بیٹھنے کی اجازت دوں گا۔
آنکھیں پوری کھول کر جس تحکمانہ انداز میں وہ لڑکا بولا تھا اس نے اس ادھیڑ عمر آدمی کو پسپا ہونے پر مجبور کردیا تھا۔ بکتا جھکتا وہ پلٹ گیا۔
اسکو پلٹتے دیکھ کر ہے جن نے کلائی چھوڑی اور سابقہ انداز میں واپس سیدھا ہوبیٹھا۔واعظہ بھنوئویں اور کندھے اچکا کر سیدھی ہو بیٹھی۔
او نام کوئئ نیگا ہاسو دامیان۔
اسکے ہیڈ فون سے آواز باہر تک آرہی تھی۔
بی ٹی ایس۔ واعظہ کے کان کھڑے ہوئے۔
یہ اسکا پسندیدہ گانا تھا۔
وہ یونہی گانے سے محظوظ ہوتی گردن ہلا ہلا کر بول بے آواز گنگنانے لگی۔
اس لڑکے نے فورا گانا بدل دیا تھا اس نے بد مزا سا ہو کر اسکے ہاتھ میں تھامے اس آئی پوڈ سے ملتے جلتے سستے سے ایم پی تھری پلیئر کو گھورا جو اسکی انگلی کی جنبش کے باعث کسی گانے پر ٹک نہیں رہا تھا۔ اسکی کلائی کے اندرونی جوڑ پر عین نبض کے قریب ایک ٹیٹو سا تھا۔ مٹا مٹا سا اسٹیکر جیسا۔ جیسے اسکو رگڑ کر اتارا جائے تو شائد اتر جائے۔ مگر اس اسٹیکر پر جو لکھا تھا اسکا مفہوم سمجھ نہ آسکا انگریزی میں سکس اور۔ آگے کچھ مٹا مٹا سا تھا
9 لکھا ہوا تھا یہاں۔
اسکے کہنے پر وہ جو تھوڑا سا جھک کر غور سے دیکھ رہی تھی سٹپٹا کر سیدھی ہوئی
چھے سو ہمبندا۔۔ ( میں معزرت خواہ ہوں)
اس نے جھک کر معزرت کی۔ جوابا وہ بچہ ہنس پڑا۔
آنیو۔ آپ متجسس تھیں اسلیئے بتا دیا ۔ یہ میرا ماضی ہے آدھا مٹا چکا ہوں آدھا مٹا دوں گا۔ پھر میری کلائی صاف ہو جائے گی۔ وہ دھیرے سے اس پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ وہ اسٹیکر جیسا جو اتر رہا تھا وہ کھال تھی اسکی۔
اوہ کیا کر رہے ہو۔ اس کی ریڑھ کی ہڈی تک سنسناہٹ دوڑی تھی جھٹ اسکو ٹوکا۔
آپکو کیا ہوا میری کلائی ہے آپ تو یوں ڈری ہیں جیسے آپکی کھال اتر رہی ہو۔
خالص نوجوان بدتمیز بچوں والے انداز میں وہ تسمخر اڑاتا زور سے ہنسا تھا۔
میں اپنے ساتھ اتنا ظلم نہیں کر سکتی۔ کہ اپنی کھال خود اتارنے بیٹھ جائوں۔ دنیا کم ہے ستانے کو کہ ہم خود بھی اپنے آپکو تکلیف دینے بیٹھ جائیں۔۔ہمیں تو بلکہ دنیا کے آزار سے خود کو بچانے میں اپنی توانائیاں خرچ کرنی چاہیئں ۔
واعظہ ذرا جو بدمزا ہوئی ہو۔ اسکے اندر کی جھکی واعظ دینے کو تیار واعظہ انگڑائی لیکر بیدار ہوئی تھی۔ اسکے جملوں نے غیر محسوس سے انداز میں ہے جن پر اثر کیا تھا زخم کریدتی انگلیاں سست پڑیں۔ واعظہ مسکرا دی
ویسے ٹیٹو تو اب اتر جاتے ہیں لیزر سے انکو یوں اتارنے کی کیا ضرورت ؟
پیسے لگتے ہیں اس میں۔ اس نے جتایا۔پھر بیگ سے کم باپ نکالنے لگا۔
آپ ویسے ان کاسٹیوم والی لڑکیوں کی کئیر ٹیکر ہیں کیا؟
آپ سب سے پہلے بڑھی تھیں بس کی جانب سب سے آخر میں چڑھی تھیں
کم باپ اسکی جانب بڑھا تے وہ سادگی سے پوچھ رہا تھا۔
وہ یقینا اتنا بے خبر بیٹھا نہیں تھا جتنا دکھائی دے رہا تھا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یار لڑکیاں گنو تو پتہ چلے ہر لڑکی کو پانچ منٹ بھی لگیں تو چالیس منٹ کہیں نہیں گئے۔ یار بارہ ہونے کو آئے ابھی باتھ روم سے فارغ نہیں ہوئے ہیں باہر کیا خاک پتھر جا پائیں گے
تم لوگ کوئی پروگرام بنانا تو دور بنا بنایا پروگرام بھی برباد کرنے میں ماہر ہو۔
یہ تقریر الف جھاڑ رہی تھئ۔ فاطمہ کا باتھ روم میں منہ بند کرکے منہ دھونا محال ہوگیا۔بھنا کر بند دروازے کو گھور کر رہ گئ۔ ۔
یہ حساب کیسے لگایا تم نے؟۔
عموما ایسا سوال عشنا کی جانب سے آتا تھا مگر آج عروج میتھس ٹیسٹ لینے کے درپے تھئ۔ بیڈ پر دراز موبائل پر انگلیاں چلا رہی تھی۔
ہم آٹھ لڑکیاں ہیں ایٹ فائوز آر فورٹی۔
الف نے چٹکئ بجائی
ہم آٹھ کہاں رہ گئیں؟ عزہ نے انگڑائی لی
ابیہا پاکستان چلی گئ ، نور جیل میں ہے واعظہ سیہون کے واش روم میں چلی گئ ہے لے دے کر رہ گئیں میں، تم ، عروج اور فاطمہ چار لڑکیاں۔ بس۔
حساب کرتے کرتے وہ چونکی۔
ایک دو تین۔ ہم تین لڑکیاں ہیں کمرے میں۔
عروج بھی چونکی۔
ہاں تو ایک باتھروم میں ہے نا فاطمہ۔
الف نے مکھی اڑائی کان پر سے۔
عروج ، عزہ ، فاطمہ، واعظہ باہر، میں ادھر نور جیل میں ابیہا پاکستان میں۔ رہ کون گیا؟
الف نے دوبارہ گنتی کی۔
عشنا۔ تینوں اکٹھے چیخی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنا نام پکارے جانے پر وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھی۔ اسکے پاس پیسے تو تھے نہیں سو قریبی پارک میں بنچ پر آ بیٹھی ۔ واعظہ کو فون ملانا تو دور موبائل کی بیٹری ہی فین میٹنگ کی تصاویر او رویڈیوز بناتے ہوئے ختم ہوچکی تھی۔
سامنے کالے لانگ عبایا میں ملبوس بھاری تن و توش کی وہ عورت شدید حیرت سے اسے گھور رہی تھی۔
تم یہاں کیا کر رہی ہو؟
خالہ آپ۔ نقاب میں بھی عشنا پہچان کر سٹپٹا کر اٹھ کھڑی ہوئی تھئ
تم یہاں کیا کر رہی ہو عشنا وہآں پاکستان میں سب سمجھ رہے ہیں کہ تم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جانے کیا اجزاء ہوں کم۔باپ کے اس نے بہت سلیقے سے معزرت کر لی تھی۔وہ کندھے اچکا کر کھانے لگا بڑے بڑے نوالے۔ واعظہ ٹوکتے ٹوکتے رہ گئ۔ انکا رواج ہی اور تھا ۔ ہم جسے بدتہذیبئ بد تمیزی سے کھانا گردانتے وہ انکی ریت تھی۔ چھوٹے سے دہانے میں پورا کم۔باپ ڈال کر کلے پھلا کر کھاتا وہ بالکل بھالو لگ رہا تھا اس نے منہ پھیر کر مسکراہٹ چھپائی۔ ہے جن نے گہری نگاہ اس پر ڈالی تھی اسکی حرکت چھپی نہ رہ سکی تھی
آپ پڑھتی ہیں؟ وہ یونہی پوچھ بیٹھا۔
ہاں۔ اس نے سر ہلایا۔ ماسٹرز کر رہی ہوں اور
تم تو اسکول میں پڑھتے ہوگے؟ اس نے حسب عادت لمبی بات کی۔
ہاں ہائی اسکول کا طالب علم ہوں ۔ چھٹی پر گائوں جا رہا ہوں۔ آپ اور آپکی بچیاں بہت مختلف سی لگ رہی ہیں
آپ لوگ کسی کاسٹیوم پارٹی پر جا رہی ہیں۔۔
بڑی دیر سے متجسس ہے جن پوچھ ہی بیٹھا۔۔
آنیو۔۔ واعظہ نے نفی میں سر ہلایا۔۔
صبح صبح کونسی کاسٹیوم پارٹی۔۔
واعظہ ہنسی۔۔
پھر یہ کیا پہنے ہیں۔؟ اس نے اچک کر عزہ اور نور کو دیکھتے ہوئےپوچھا۔۔
اچھا یہ ۔۔۔ یہ ۔۔۔ یہ مزہبی لباس ہے انکا۔۔
واعظہ کو سوجھا نہیں کہ عبایا کو انگریزی میں کیا کہے۔۔۔۔
ہے جن ہائی اسکول کا طالب علم تھا سیول میں پڑھتا تھا ہفتے کے آخر میں اپنے گائوں جا رہا تھا سیول میں بھی اسکول جانے والے بچے انگریزی پڑھتے اور سیکھتے ہیں اتنی کہ ہماری طرح بات کر ہی سکتے ہیں۔۔ تھوڑا سوچ کر سہی۔
ہمم۔ تو یہ اسلامی نن ہیں۔ جیسے کرسچنز کی نن ہوتی ہیں ویسی یہ ڈیوٹڈ ہیں اسلام کیلئے۔۔
ہے ان نے اندازہ لگایا پھر تصدیق چاہنے والے انداز میں دیکھنے لگا۔۔
نہیں ڈیوشن کا کانسیپٹ اسلام میں نہیں ہے۔ بس یوں کہہ لو یہ مزہبئ ہیں مگر اسلام آپکو دین کیلئے دنیا چھوڑ دینے کا درس نہیں دیتا۔۔ ہم عام زندگی گزارتے ہیں مگر اسلامی اصولوں کے ساتھ۔۔
واعظہ نے اپنی طرف سے مدلل جواب دیا۔۔
خیر ۔۔ ہے جن نے گہری سانس لی۔۔
میں بھی ڈیووٹ کردوں گا خود کو اگلے کچھ سالوں میں میں خود کو نارنجی چولے میں مالائیں گلے میں ڈال کر سر منڈوائے کسی ویران پہاڑی پر آسن جمائے بیٹھا دیکھتا ہوں۔۔
آنکھیں بند کرتا وہ جیسے سچ مچ خود کو بدھ مت کا راہب بنا تصور کر رہا تھا جیسے۔۔
یہ تصور اتنا روشن تھا کہ ایک لمحے کو واعظہ بھی خود کو کسی ویران پہاڑی پر ایک سترہ سالہ گنجے
نارنجی لبادے میں ملبوس راہب کے سامنے بیٹھا محسوس کرنے لگئ۔۔
نہیں۔۔
اس نے جھر جھری لی اور چونک کر جے ہن کو دیکھنے لگی۔۔۔۔ آنکھیں بند کیئے جے ہن کیلئے بھی تصور اتنا روشن تھا کہ اسکی چندی آنکھوں کے کنارے بھیگ چلے تھے واعظہ کا دل موم ہوگیا۔۔
بمشکل سولہ سترہ سال کا دبلا پتلا سا ہے جن جسکی مسیں بھئ ابھی پوری نہ بھیگی تھیں ہلکا سا ہی رواں تھا ابھی جوانی ڈھنگ سے آئی نہیں تھی اور دنیا تیاگ دینے کو تیار بیٹھا تھا۔۔
نہیں منے میں تمہیں ایسا نہیں کرنے دوں گی۔۔
واعظہ کے اندر کی بڑی بہن جاگ اٹھی تھی۔۔
واٹ؟۔ منا آنکھیں کھول کر ان جملوں کو سمجھنے کی ناکام کو شش کرنے لگا تھا۔۔
دے ؟
میرا مطلب ہے تمہیں کیا پڑی ہے ابھی تو زندگی شروع ہوئی ہے تمہاری ابھی تو تمہاری عمر کے لڑکے کھیلتے کودتے پھرتے ہیں لڑکیوں کے چکر میں پڑتے ہیں پڑھائی مکمل کرتے ہیں کیریر بناتے ہیں تمہیں کیا پڑی ہے اپنی زندگی برباد کرنے کی یوں دنیا تیاگ کر۔ وہ جوش سے کہتی چلی۔گئ۔
آپ نہیں جانتی زندگی کتنی دشوار ہے میرے لیئے۔
یہ جملہ اس سترہ سال کے بچے کے منہ سے پھسلاتھا۔
بریک اپ۔ واعظہ نے لمحے کے ہزارویں حصے میں اندازہ لگایا تھا اور اسکے خیال میں یہ اندازہ سو فیصد درست تھا۔
میرے لیئے زندگی نے بس دو راستے چھوڑے ہیں۔ یا تو میں بے غیرتی کا تر نوالہ اڑائوں یا عزت کی روٹی کھائوں جنگلوں میں دنیا سے کٹ کر بدھا کی عبادت میں اپنے دانستہ نادانستہ گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے۔ اب دنیا میں رہنے کے قابل نہیں رہا میں ۔
اسکا انداز چٹخا ہوا سا تھا۔
یہ کیا بات ہوئی۔ سیول میں کہاں رہتے ہو؟
اسکی ہمدردانہ طبیعت جوش ما ررہی تھی
کہیں نہیں ۔ وہ ہنسا۔ میرا سیول میں کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں۔
اوہ یعنئ رہائش کا مسلئہ ہے؟ سیول میں؟ پڑھتے نہیں ہو کیا اسکول میں تم؟ نوکری کرو۔ پڑھائی کا خرچ اٹھائو جوان بچے ہو کیا کمی ہے زندگی میں؟ اگر رہائش کا بہت مسلئہ تو میں انتظام کر دیتی ہوں میرا ایک فلیٹ ہے سیول میں تم وہاں رہو۔ ویسے ہے تو چھوٹا سا ہم لڑکیاں بھی بہت ذیادہ ہیں ۔مگر کچھ نا کچھ انتظام ہو ہی جائے گا۔ تم بس پڑھائی پر توجہ دو صبح اسکول جائو شام کو جاب کرو سب بچے یہی تو کرتے اتنے مایوس کیوں ہو تم؟
حسب عادت اپنے ذہن سے اسکے مسائل کا اندازہ لگا کر وہ جھٹ پٹ حل نکالنا شروع ہوگئ تھی۔
آپ مجھے رکھیں گی اپنے گھر؟ کتنا چارج کریں گی؟ ویسے میں چھوٹا سہی مگر ۔۔۔ اتنا چھوٹا نہیں۔۔
اسکی بات اسکا انداز واعظہ کے سر پر سے گزرا تھا۔
آپ ویسے اتنی بڑی تو نہیں ہیں آپکو تو کوئی اچھا بوائے فرینڈ بھی مل جائے گا۔ آپ مجھے کیوں رکھنا چاہتی ہیں۔؟
وہ استہزائیہ کہہ کر خود ہی جیسے خود پر ہنسا۔
کیا مطلب اسکا اس بات سے کیا تعلق؟
وہ الجھئ۔۔
مطلب بنا مطلب تو آپ مجھے نہیں رکھنے والی ہیں نا؟ میں آپکے مطلب کا ہوں کیا؟ آپ مجھے رہائش دیں گی تو مجھے آپکا مطلب پورا کرنا ہوگا ہے نا۔
وہ کھل کر بولا انداز استہزائیہ سا تھا زن سے واعظہ کے دماغ میں جیسے کوئی گولی سی گزری تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بے ہنگم شور کے باعث بس الٹتے الٹتے بچی تھی۔ عروج نے اس ادھیڑ عمر آدمی کو فوری طبی امداد دی واعظہ کی توجہ بٹ گئ تھی عروج کی مدد کرواتے ایمبولنس کی آمد تک وہ اور عروج ایک دوسرے سے نامانوس زبان میں باتیں کر رہی تھیں وہ بہت غور سے اسے دیکھتا رہا تھا۔ایمبولنس کی آمد پر جب مریض کو اسٹریچر پر ڈال کے لے جا رہے تھے واضح طور پر اس نے اسے سکھ کا سانس لیتے دیکھا تھا۔ اسکے ساتھ آئی لڑکیاں اسے جانے کیا کہہ رہی تھیں ایک اسکے کندھے سے جھول کر کچھ کہہ رہی۔تھی تو دوسری اسکا بازو کھینچ کر کچھ بتا رہی تھی۔ اسکی پیشانی پر بل تک نہیں تھا۔ وہ ہنستے ہنستے سر ہلانے لگی تو سب ایکدم سے ہنستی ہوئی اس سے آلپٹی تھیں۔ وہ بھی ہنس دی تھی۔ اسے ہنستا دیکھ کر اسکے اپنے چہرے پر مسکراہٹ در آئی تھی۔ اور احساس ہوتے ہی مدھم بھی پڑ گئ۔ وہ لڑکی عجیب تھئ اس سے چند سال بڑی ہوگی مگر بات کرنے کا انداز ایسا تھا جیسی اسکی ماں ہی ہو۔ اب تک کی زندگی میں اسے ٹکر جانے والی پہلی انسان جس نے اس کو بچہ سمجھا ۔ سترہ سال کا بچہ؟ عجیب ہی تھی۔
بس روانہ ہونے کو تیار ہوئی سب جھٹ پٹ بس میں سوار ہونے لگے۔ اسے یقین تھا اب وہ اسکے پاس والی نشست پر نہیں آکر بیٹھے گی۔ سو آرام سے اس نشست پر اپنا بیگ رکھا۔ وہ بچہ اور اسکی ماں جس طرح اسے گھور رہے تھے عزہ کیلئے دوبارہ وہاں جا بیٹھنا ممکن نہ تھا ۔
واعظہ تمہاری جگہ میں بیٹھنے لگی ہوں۔
عزہ نے اردو میں ہانک لگائی ۔ اسکے مطابق واعظہ نے اس لڑکے کو شرافت ٹیسٹ میں پاس کر دیا تھا۔ سو اسکے ساتھ بیٹھا جا سکتا تھا لیکن جیسے ہی وہ اس نشست کی۔جانب بڑھی جانے جان بوجھ کر یا اتفاقیہ ہے جن نے اپنا بیگ ساتھ والی نشست پر رکھ دیا وہ بد مزہ ہو کر اسے گھورتی واپس اپنی جگہ چلی آئی۔ واعظہ حسب عادت سب سے آخر میں چڑھی ان سب کو گن کر سیدھا اپنی نشست کی جانب بڑھی ہے جن کا بیگ اٹھا کر اسکی گود میں پٹخا اس نے چونک کر آنکھیں کھولیں
میں نے سوچا ہے کہ تمہیں رکھ لوں اپنے پاس اپنے مطلب کیلئے۔
وہ سنجیدگی سے کہتی اسکے پاس بیٹھ گئ۔
مجھے۔ اس نے کچھ کہنا چاہا مگر واعظہ نے موقع نہیں دیا
میں نے بہت سوچا دماغ سے۔۔ وہ سانس لینے رکی ہوگی
کب ؟ کس وقت۔ اس نے مزاق اڑانا چاہا۔ مریض کو اسٹریچر پر ڈالتے وقت جو عروج کو سینیٹائزر تھما رہی تھی بیگ سے نکال کر تب ؟ یا سہیلیوں کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتے وقت۔
۔ اور فیصلہ دل سے کیا ہے۔ مجھے تم اچھے لگے ہو دل سے سو میں تمہیں پیشکش کرتی ہوں کہ میرے گھر میں آکر رہو۔ میرے چھوٹے بھائی بن کر۔ وہ کہہ کر مسکرا دی
میں نہیں کوئی بھائ۔
وہ تیزی سے نفی میں سر ہلاتے ہوئے چونکا۔ یہ کیا۔کہہ رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ابھی تارک الدنیا نہیں ہورہا۔ میں خود کو سوچنے کا مزید وقت دینا چاہتا ہوں۔ اسلیئے فی الحال سیول سے جا رہا ہوں۔
اس نے رخ پھیر کر اپنا انداز سادہ رکھ کر وضاحت دی مگر پھر جب واعظہ کا کوئی ردعمل نہ آیا تو چور سی نگاہ اس پر ڈالی۔ وہ بے آواز رو رہی تھی۔
نونا مت روئیں۔ وہ تڑپ سا گیا۔ اس نے بے دردی سے آنسو پونچھے۔
تم ان سب کی وجہ سے جا رہے ہو نا ۔مت جائو ۔ تم ہماری وجہ سے اپنا تعلیمی سلسلہ منقطع نہ کرو چھے بال۔ ( پلیز)
تم یہاں کسی ہاسٹل میں شفٹ ہو جائو پلیز مت جائو میری غلطی ہے میں تمہیں ہم سب میں لے آئی تم مت گھبرائو کچھ نہیں ہوگا تم بڈھسٹ ہی رہو گے ہے جن۔۔
پلیز اپنے ساتھ ایک اور ظلم مت کرو تم پڑھ لوگے تو زندگی بدل جائے گی تمہاری ہے جن۔
وہ منت بھرے انداز میں اسکو کہہ رہی تھی۔ اسکیلئے بلک رہی تھی۔ اس نے بانہوں میں بھینچ لیا ۔
نونا میرے امتحان ہو چکے ہیں ۔اور آگے کیلئے میں نے تبادلے کی درخواست دی ہے پکا وعدہ میں اپنی تعلیم مکمل کروں گا۔میں گائوں کے اسکول میں اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھوں گا مت روئیں چھے بال۔
تم کیوں جا رہے ہو مت جائو نا۔
اسکے کہنے پر اسکے چہرے پر زخمی سی مسکراہٹ بکھر گئ۔
نونا مجھے خود کو جاننا ہے میں کیا چاہتا ہوں میں اس وقت بہت مخمصے میں ہوں۔ میرا دل و دماغ بہت الجھا ہوا ہے مجھے کچھ وقت اس سب سے دور اپنے آپ کے ساتھ گزارنا ہے ۔شائد میں اپنی زندگی کا بہتر رخ دیکھ سکوں ۔مجھے مت روکیں نونا۔
اسکا انداز التجائیہ ہوا تو اسکی ہچکیاں تھمنے لگیں۔بہت حوصلے سے وہ اس سے الگ ہوئی۔ اپنا بیگ اٹھاتا وہ تیزی سے کمرے سے نکلا کہ کہیں باقیوں سے ٹاکرا نا ہوجائے۔ فی الحال سب کمرے میں ہی بند تھے
عزہ سے تو مل لو۔ اسے تیزی سے بیرونی دروازے کی جانب بڑھتے دیکھ کر واعظہ نے کہنا چاہا۔اسکے قدم سست پڑے مگر وہ نا پلٹا ذرا سا رک کر بولا۔
عزہ نونا کو سوری کہہ دیجئے گا میری جانب سے۔ میں ان سے نگاہ نہیں ملا پائوں گا۔ وہ بہت اچھی ہیں انکو ذرا سا جھوٹ برداشت جب انکو پتہ لگے گا کہ میں ہی سراپا جھوٹ ہوں تووہ سہہ نہیں پائیں گی۔ اپنا خیال رکھیئے گا نونا اللہ حافظ۔
وہ کہہ کر تیزی سے نکلتا چلا گیا تھا۔۔ واعظہ بس دیکھ کر ہی رہ گئ تھی اسے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپی یہ تھی میری اصلیت یقینا قابل فخر نہیں تھی اگر آپ جانتیں تو کیا تب بھی مجھے اپنا سمجھ پاتیں؟ نہیں نا بس اسی لیئے اپنا ماضی چھپاتا رہا آپ سے آپ مجھ سے
ناراض ہیں نا ؟ مجھ سے خفا ہیں آپکو ہونا بھی چاہیئے میں اسی لیئے معافی مانگ رہا ہوں معاف کر دیں پلیز خود کو۔ خود پر اپنی سادگی پر آپکو غصہ آرہا ہے نا آپی آپکا قصور نہیں یہ دنیا مجھ جیسوں سے بھری پڑی ہے آپ جیسے لوگ کم ہیں خو دکو نا بدلیئے گا۔ ۔ جو ہوا اس میں آپ کی کہیں کوئی غلطی نہ تھی۔ آپی۔بس یہ جان لیں کہ ایک بدکردار بد قماش انسان آپکو دھوکا دے گیا مگر اس بات پر خود کو بدل کر انسانوں پر اعتبار کرنا مت چھوڑ دیجئے گا۔
دراصل انی ہوتا کچھ یوں ہے کہ ہم اپنے آپ میں کچھ پیمانے رکھتے ہیں لوگوں کو ناپنے کے انسانوں کو جانچنے کے پھر اس میں کمی بیشی آ جانے پر ہم اپنے آپکو مورد الزام ٹھہراتے ہیں کہ ہم نے صحیح نہیں جانچا غلط ماپا مگر دراصل غلط وہ پیمانہ ہوتا جو صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنے کیلئے ہم نے تھام رکھا ہوتا ہے۔ یہ کام انسانوں کے بس کا ہوتا توجنت کا تصور ہی نہ رہتا۔ ہے نا؟ سب سزا دیتے منصف بن کر سب مجرم ٹھہرتے کسی نا کسی کی عدالت میں۔۔
میں آپکی عدالت میں مجرم ہوں اور اپنی عدالت میں بھی سب قصور میرے نکلتے ہیں سو معافی کا طلبگار ہوں۔ ایک جرم آپکا بھی ہے میں اس پر معافی بھیج رہا ہوں مگر آپکو ملے گی تب جب آپ اپنا جرم جان جائیں گی۔
ہے جن ۔۔
خط پڑھ کر طوبی نے گہری سانس لی تھی۔ناشتے کی میز پر دلاور نے خط لا کر اسے دیا تھا ۔ بچے اتوار کی وجہ سے سو رہے تھے اس نے بھی انکو سونے دیا دونوں میاں بیوی ناشتہ کرنے کیلئے اٹھ گئے تھے۔ دلاور اخبار لینے بیرونی دروازے پر گئے تو چوکھٹ سے اندر انہیں زمین پر پڑا ملا ایک سفید لفافہ۔ لفافے پر نام نہیں تھا سو انہوں نے کھول لیا دو پرچے نکلے تھے انہوں نے تجسس میں پڑھ تو لیا مگر پھر سوچ میں پڑے وہیں کھڑے رہ گئے ۔ طوبی ناشتہ میز پر لگا کر آوازیں دینے لگی تب چونکے۔گہری سانس لیکر کچھ سوچا۔ پھر طوبی کو لفافہ لا تھمایا۔ طوبی نے پوچھا بھی کس کا خط ہے مگر انہوں نے یہی کہا کہ خود پڑھ لو ۔ دلاور بہت غور سے اسکا چہرہ دیکھ رہے تھے
یہ۔خط آپکو کہاں سے ملا؟ ۔ لفافے سے نکلنے والا پرچہ احتیاط سے لفافے میں ڈالتے ہوئے اس کا انداز سرسری سا تھا۔
دروازے پر پڑا تھا۔ تم نے معاف کردیا ہے جن کو؟
دلاور نے بے صبری سے پوچھا۔
ظاہر ہے۔ پتھر دل تو نہیں ہوں۔معاف ہی کرنا ہے ابھی تو غصہ کم ہوا ہے میرا ختم نہیں۔ ہاں مگر اب پہلے جیسا سب کچھ تو نہیں ہو سکتا جب تک میرا دل صاف نہ ہو جائے۔ بھئ ایسی بھی کیا بات تھی کہ جھوٹ پر جھوٹ گڑھو۔ اور بھئی میری بھی غلطی نکال دی بلکہ کرائم یعنی جرم نکال دیا میرا ۔ ہاں بھئ سب صحیح میں غلط ہوں جسکو سادہ سمجھ کر جسکا جو دل چاہے سلوک کرے۔۔
وہ بھنا گئ تھی اسکے آخری جملے پر۔اسکے بھنانے پر دلاور ہنس ہی پڑے۔ جوابا وہ اور خفا ہوئی
ہاں اب یہ رہ گیا کہ آپ بھی مزاق اڑائیں میرا۔ شرافت کا زمانہ ہی نہیں بھئ۔ خیر کب آرہی ہیں یہ لوگ واپس آپ نے پتہ کیا تھانے میں؟ کتنے دن بے چاریوں کو انکے اپنے ہی گھر آنے نہیں دیں گے؟
معاملہ تو نمٹ گیا اب تو آسکتی ہیں یہ لوگ واپس گھر میرا خیال ہے عید کی وجہ سے دیر ہوئی ہے انہیں۔
دلاور لقمہ توڑتے ہوئے بتا رہے تھے
ہممم۔ میں نے غصے میں کل دھیان ہی نہیں دیا فاطمہ عروج واعظہ ان کی بھئ تو دعوت تیار کی تھی اتنا کھانا بچا ہے۔ اگر آج آجاتیں تو انکو گھر ہی۔بھجوا دیتی کھانا پکانے سے بچ جاتیں۔
وہ حسب عادت بڑ بڑا بڑ بڑا کر سوچ رہی۔تھی
دلاور ان سے بے نیاز کسی سوچ میں گم تھے۔
میں چائے لیکر آتی ہوں۔ وہ دم پر رکھی چائے نکالنے اٹھ گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد ۔
جاری ہے