Salam Korea Episode 18

Salam Korea Urdu Novels

Salam Korea
by Vaiza Zaidi

سلام کوریا قسط 18

New Urdu Web Travel Novel : Salam Korea Featuring Seoul Korea.
Bookmark : urduz.com
kuch acha perho
Salam Korea is urdu fan fiction seoul korea based urdu web travel novel by desi kimchi. A story of Pakistani naive girl and a handsome korean guy
Episode 
urdu adab,
urdu digests,
raja gidh,
urdu novels list,
raqs e bismil novel,
novels in urdu pdf,
urdu books,
best urdu novels,
famous urdu novels,
free urdu digest,
naseem hijazi,
best urdu novels list,
raja gidh pdf,
urdu books library,
new urdu novels,
jangloos,
list of urdu books,
urdu story books,
bano qudsia books,
pdf urdu books,
famous urdu novels list,
best pakistani novels in urdu,
urdu stories pdf,
naseem hijazi novels,
urdu novels online,
udaas naslain,
best urdu novels pdf,
latest urdu novels,
short novels in urdu,,
romantic story urdu,
urdu best books,
best urdu books to read,
pakeeza anchal online reading,
ismat chughtai books,
urdu digest novels,
urdu books online,
urdu literature books
Salam Korea Episode 18

کم خاندان کی یادگاری آخری آرام گاہ ۔۔۔
کسی عجائب گھر کی طرح انکی آخری سات پشتوں کے ہر فرد کی آخری آرام گاہ جس میں بڑے سے لان میں درجنوں خوش رنگ پھولوں کے کنج تھے تو ایک قطار میں درخت بھئ آب و تاب سے کھڑے تھے۔ ہر درخت کے ساتھ زمین پر ایک تختی لگی تھی۔ جس پر کسی مرحوم یا مرحومہ کیلئے توصیفی کلمات پیدائش اور وفات کی تاریخیں درج تھیں۔۔۔اونچے اونچے ان درختوں کو دیکھ کر بخوبی اندازہ کیا جا سکتا تھا کہ مرحوم مرحومہ کو دنیا سے گئے بھی ایک طویل عرصہ ہوچکا ہے۔ کچھ بالکل نئے پودے بھی تھے
کچھ کے نام کے پودے مرجھا گئے تھے انکی جگہ تازہ پودے لگائے گئے تھے۔اس بڑے سے لان کے دائیں جانب ہال نما عمارت تھی جس کے اندرچہار اطراف دیوار گیر شوکیس بنے ہوئے تھے ۔ہر شوکیس میں ایک چھوٹے چوکور خانے میں مرحوم یا مرحومہ کی باقیات کورین روائتی مرتبان میں سجی تھی ساتھ اہل خانہ کی پسند کے مطابق انکی تصویر اکیلی یا اہل خانہ کے ہمراہ فریم میں سجی تھی۔ ملاقاتی پھولوں کا گلدستہ اسی خانے میں سجا دیتے۔۔ وہ کتنی ہی دیر سے وہ اس شوکیس کے سامنے کھڑا بے بسی سے اپنی ماں کی تصویر کو دیکھ رہا تھا۔ باقی شوکیسوں کے برعکس اسکی ماں کی تصویر سجی تھی۔اسکے برابر والے خانے میں اسکے باپ کی باقیات اور انکی تصویر تھی۔ دونوں خانوں میں اس کا خاندان احوال چارٹ میں بھی ذکر نہ تھا
پہلے اسکے باپ کے خانے میں اسکی بچپن کی اپنے باپ کے ہمراہ بیس بال کیپ پہنے خوبصورت تصویر سجی تھی۔وہ اسکی ماں نے ہٹائی تھی۔ اور اب اسکی ماں کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے اسے کاٹ کے الگ کردیا گیا تھا۔
اس آرام گاہ کی دیکھ بھال پر معمور ملازم اسے دیکھ کر سیدھا اسکے پاس چلا آیا تھا۔ ادب سے جھک کر کورنش بجا لایا۔ جوابا وہ بمشکل سر کے اشارے سے جواب دے سکا۔
آپ کیلئے تازہ پھولوں کا گلدستہ منگوا دوں۔
اسے خالی ہاتھ کھڑا دیکھ کر اس نے فورا اپنی خدمات پیش کیں۔
پھول ۔۔۔ اس نے نا سمجھنے والے انداز میں دیکھا۔ پھر خیال آیا۔
پھول ہاں کم از کم وہ پھول تو لا سکتا تھا۔ مگر وہ یونہی یہاں خالی ہاتھ جھلاتا چلا آیا۔
اس نے خانے کے شیشے پر دھیرے سے ہاتھ رکھ کر جیسے اپنی ماں کا لمس محسوس کرنا چاہا۔
یہ مرتبان چھوٹا سا نہیں ہے؟
اسکے جواب کا منتظر ملازم اسکے سوال پر چونکا
دے؟؟۔ وہ سمجھ نہ سکا اسکا مطلب۔
میری ماں کا قد بہت اچھا تھا۔ پانچ فٹ سات انچ۔مجھے ۔۔
اسکے گلے میں آنسوئوں کا گولہ سا اٹکا۔ آواز بھرا سا گئ۔
مجھے اچنبھا ہے کہ انکی باقیات اتنے سے مرتبان میں کیسے سمٹ پائیں۔
جملہ مکمل کرتے اس نے اسی شیشے پر سر ٹکا دیاتھا۔ اسکے بے آواز آنسو بہہ نکلے تھے۔
سچ پوچھیں تو یہ مرتبان آدھے خالی ہی ہیں۔سیمیٹری سے انسان بس ذرا سی راکھ دھول بن جاتے ہیں آگ اتنی ہی بے رحم ہے۔
ملازم یہی سمجھا تھا کہ اسے وہم ہورہا ہے کہ اسکی والدہ کی باقیات ضائع ہوئی ہیں وغیرہ سو انداز سادہ سا صفائی دینے والا ہی تھا۔ مگر اسکے جملے پر علی خود پر ضبط کھو بیٹھا۔ قدموں سے جیسے جان سی نکلتی گئ۔ وہ وہیں گھٹنوں کے بل گر سا گیا تھا۔
اس آگ سے آپکو بچانا چاہتا تھا یہ آگ آپکو لپیٹ لے گئ آہماں۔۔
وہ مٹھیاں بھینچے بلک بلک کر رو نے لگا۔ ملازم بے چارگی سے اسے دیکھتا رہا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایڈون اسے اور اریزہ کو اس مشہور ہندوستانی ملبوسات کی دکان پر لایا تھا۔ رنگوں کی بہتات جھلمل ملبوسات دونوں کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ انگرکھے، لہنگا چولی سے لیکر راجستھانی فراک ساڑھیاں۔ سب کچھ بے حد خوبصورت تھا۔مگر سارا جوش آدھے گھنٹے میں ختم ہوچکا تھا۔
اریزہ کو راجستھانی فراک پسند آئی پشواز کی جامنی نیلے امتزاج کی خوب گھیر والی فراک جس پر سنہرا کام تھا دیدہ زیب اور سادہ ساتھ سنہرا ہی چوڑی دار ۔۔ مگر گلا آگے پیچھے سے خوب گہرا۔ اس گہرے ترین گلے پر پیچھے بس ایک سنہری ڈوری تھی۔
سیلز گرل نے اسکی دلچسپی بھانپ کر اس جوڑے کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے شروع کردیئے۔
آپکا رنگ اتنا صاف ہے یہ تو خوب کھلے گا آپ پر۔اس کی آستین دیکھئے اس پر کام دیکھیں۔ آپکے سڈول گورے بازو اس میں دمکیں گے۔
چلو چھٹی ہوئی۔ آستین مکمل سی تھرو تھی وہ بد دل سی ہوئی۔
آپ پہن کر دیکھ لیں۔
اس نے اکسایا۔ وہ ابھی بھی شش و پنج میں تھی۔
سنتھیا نے نارنجئ پٹے ہوئے سلور کام والی مختصر سی سلک کی قیمض اور غرارہ پسند کیا تھا۔ اسی وقت چینجنگ روم میں جا کر پہن بھی آئی۔
اسکے نازک وجود پر یہ لباس خوب بیٹھا تھا۔ وہ قد آدم آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر خود کو دیکھ رہی تھی۔
اریزہ فراک اپنے ساتھ لگا کر دیکھ رہی تھی جب ایڈون کی آواز پر چونک کر مڑی۔۔۔
سنتھیا یہ آف وائٹ کام والا لو نا یہ ذیادہ پیارا ہے۔ یہ اورنج تو اوور سا لگ رہا ہے۔
اسکا انداز سادہ سا تھا۔ وہ بھی دل ہی دل میں متفق ہوئی۔ واقعی یہ لباس اتنا اچھا نا تھا۔ دور سے ایسے لگ رہا تھا جیسے آگ سی لگی ہو۔ شائد کچھ لوگوں کو ایسا رنگ ایسے کام کے ساتھ پسند آتا ہوگا جبھی تو ڈیزائنر نے یہ ڈئزائن کیا مگروہ کچھ لوگ اس وقت دکان میں موجود نہ تھے کم ازکم۔ وہ جل کر اریزہ کے پاس چلی آئی۔
اریزہ بتائو یہ کیسا لگ رہا ہے مجھ پر ۔
وہ یقینا تعریف سننا چاہ رہی تھی۔
اریزہ نے سرتاپا اسے دیکھا پھر متاثر ہوجانے والے انداز میں بولی۔
بہت سلم بہت اسمارٹ لگ رہی ہو یار۔ روزے رکھ رکھ کر میں اتنی پتلی نہ ہوسکی جتنئ تم لگ رہی ہو بالکل ماڈلز کیے جیسی ۔۔
اس نے دل سے بے ساختہ تعریف کی تھی مگر سنتھیا پر اوس سی آن گری۔ بس دبلی پتلی؟ وہ تو تھی ہی مگر یہ لباس کیا اس پر جچ رہا بس شکل نہ دیکھو تب؟ اس نے بلا ارادہ اپنےملبوس پرہاتھ پھیرا۔ اپنے سانولے ہاتھوں کو اس گہرے نارنجی رنگ پر مزید سنولاتا دیکھا تو جھٹ سے ریلنگ پر سے ایک ہنگر اٹھاتی اندر بدلنے چلی گئ۔ اریزہ نے ابھی وہی ہینگر لگایا تھا اب پلٹ کر دوسرے لباس دیکھنے لگی۔
گلابی اور پیچ کے امتزاج کا ڈبل بریس کرتا پاجامہ ساتھ سنہری کام والا دوپٹہ تھا۔ ڈھیلا ڈھالا۔ سادا سا۔ بس گلے سے دامن تک سنہرئ کام والی پٹی آرہی تھی۔ اس نے قیمت پوچھی تو نہایت انکساری سے سیلز گرل نے جواب دیا۔
ساڑھے تین لاکھ وون ۔۔
ساڑھ۔۔ اسکا منہ کھلا رہ گیا۔
سونے کی تاروں کا کام کیا ہوا ہے کیا ؟
اس نے طنز نہیں کیا تھا حقیقتا یہی سمجھی تھی۔ ڈیزائنر ڈریس ہے کچھ بعید نہیں۔
آنیا۔
وہ بوکھلائی۔
یہ بھی عجیب معاملہ۔تھا۔ ہندوستانی دکان کورین باجی نوکر تھیں اور انہیں انگریزی خوب اچھی آتی تھی۔
آپ چاہیں تو قسطوں میں ادائیگئ کر لیں۔
اس نے اسے مشکل میں دیکھا تو مدد کو بولی۔۔
آندے۔ ا س نے گہری سانس لی۔
اسی وقت موبائل میں ایکسچینج ریٹ دیکھا۔ گو کورین وون لاکھوں میں ہوں تو پاکستانئ عدد میں آدھے بن جاتے مگر ۔۔۔۔
اس نے موبائل کائونٹر پر رکھا اور والٹ میں جھانکنے لگی۔
کیا میں اس فضول خرچی کی متحمل ہو سکتی ہوں۔
وہ شش و پنج میں مبتلا تھی۔۔
کیا ہوا ؟ پیسے کم پڑ گئے کیا؟
ایڈون اسکے پاس آکھڑا ہوا ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میچنگ سینڈلز ائیر رنگز انہوں نے خوب دل کھول کر شاپنگ کی تھئ۔ اسے سب شاپنگ تھما کر ٹیکسی میں بٹھا کر ایڈون اور سنتھیا خود آگے کہیں چلے گئے۔۔ سنتھیا کا موڈ تھوڑا سا آف تھا پھولا ہوا تھا۔ وہ سر جھٹکتی ٹیکسی میں بیٹھ گئ ۔ ٹیکسی نے اسے ہاسٹل کے باہر اتارا تھا۔تین اسکے تین ہی سنتھیا کے بڑے بڑے شاپنگ بیگز ۔۔ وہ سنبھالتے سنبھالتے ہلکان سی ہونے لگی۔ راہداری سے ہاسٹل کی سیڑھیوں تک درجنوں لڑکیاں گزریں مجال ہے کسی نے اپنی خدمات پیش کی ہوں۔ بے مروت لڑکیاں۔ وہ دانت پیستی سیڑھیاں چڑھتی اوپر آئی سانس وانس پھول چکی تھی۔ شاپنگ کمرے کے اندر داخل ہوتے ہی وسط میں ڈھیر کی پھر تھک کر سنتھیا کے بیڈ پر گر سی گئ۔
اف توبہ۔ ایسے بے مروت لوگ نہ دیکھے۔ ابھی پاکستان ہوتا تو۔۔۔۔
وہ چڑ کر اٹھ بیٹھی۔ سنتھیا کے شاپنگ بیگز اسکی الماری میں رکھ کر اپنے بیگز لیکر وہ اوپر چلی آئی۔
سب بیگز نکال کر بیڈ پر پھیلائے۔
بلاگ پر اسٹیٹس لگانا تھا سو ابھئ بس شاپنگ بیگز کی تصویریں چاہیئے تھیں۔ اس نے ایک انداز سے سب کو لگاکر بیگ سے موبائل نکالنے کیلئے بیگ کھولا۔ ہاتھ ڈالا۔ چیزیں نکلتی گئیں۔والٹ، گھڑی ، پین ، ہینڈزفری، شاپنگ کی رسید ائیررنگز، لاکٹ نہیں نکلنا تھا تو موبائل نہیں نکلا۔
اسکے ہاتھوں کے طوطے کبوتر سب اڑ گئے۔
آخری بار موبائل اس نے نکالا تھا کورین وون کی پاکستانی روپے میں قیمت کا اندازہ کرنے اور۔ کائونٹر پر رکھا۔ پھر اٹھایا۔۔ نہیں ۔۔
اسکی روح فنا ہوئی۔ موبائل بس رکھا ہی تھا اٹھایا نہیں۔۔
وہیں کائونٹر پر چھوڑ دیا۔ وہ صدمے کی حالت میں دل تھامتی وہیں گھٹنوں کے بل بیٹھتی چلی گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیلز گرل نے اسکی شکل دیکھتے ہی فون نکال کے سامنے رکھ دیا تھا۔
گومو وویو۔ فون لیکر وہ کوریائی انداز میں رکوع میں ہی چلی گئ تھی۔ دو تین بار جھک جھک کے شکریہ ادا کیا۔
وہ اسکے انداز پر مسکرا دی۔
پرس سنبھالتی موبائل کو حقیقتا سینے سے لگائے وہ دکان سے باہر نکلی تھی۔ اتنے دنوں میں پہلی بار اکیلی خود پر بھروسہ کرکے نکلی تھی۔ ٹیکسی سے آئی تھی۔ اوراب پھر ٹیکسی لینی تھی۔ اب چونکہ موبائل ہاتھ میں تھا سو آرام سے ٹیکسی منگوا سکتی تھی۔ خراماں خراماں دکان سے نکل کر حسب عادت ادھر ادھر دیکھے بنا سڑک کی جانب رخ کیا۔ سر ایک کھمبے سے بندے سے ٹکرایا تھا موبائل ہاتھ سے چھوٹا گول گول چکر کھا کر لمحہ بھر کو چمکا پھر اندھیرے میں ڈوب گیا۔ بھونچکا سی اس افتاد پر اپنے موبائل کو روہانسی انداز میں دیکھتی رہ گئ۔
ٹکرانے والا بیان کہتا نکل لیا تھا۔
اتنئ منحوسیت؟؟؟
وہ دلگرفتہ سی موبائل اٹھا کر دیکھنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے لگا تھا ہم عید کے دن بھی یونیورسٹی جا رہے ہوں گے۔
کانوں میں میچنگ ائیر رنگ ڈالتے اریزہ نے ہنس کر کہا تھا۔
ہاں شکر ہے ہفتے کی عید پڑی ہے۔ پاکستان میں کب ہے عید؟
سنتھیا بالوں کو ہیئر ڈرائیر سے سوکھا رہی تھی۔
شائد کل اور پشاور والوں نے تو آج منا لی ہوگی۔ جانے کیا مزا آتا ہے ہر سال یہ تفریق پیدا کرکے۔
وہ جھلائی ۔۔سنتھیا مسکرا دی۔
یہاں بھی تو دیکھو عید منا رہے ہیں بنا کسی جھگڑے کے۔
وہ مزید کہتی آئینے کے سامنے سے ہٹ گئ۔ اب سنتھیا کے تیار ہونے کی باری تھی۔۔۔
سرمئی فراک اسکا کھلا گہرا گلا ۔۔۔ سنتھیا کے لانبے بال احتیاط سے ایک طرف کرکے آگے کیئے پھر اسکے گلے کے پیچھے ڈوریاں کس کر گرہ لگادی۔۔
شکریہ۔ سنتھیا نے سر جھٹک کر کہتے بال پیچھے کر لیئے۔۔کمر تک لانبے سنتھیا کے گھنے سیاہ بال اسکی پشت کو ڈھانک گئے۔
یار میرے بال اسٹریٹ کر دو پیچھے سے۔
نا اسکے سنتھیا جیسے گھنے سلکی بال تھے نا اسکے جتنے لمبے کہ بنا ان کے ساتھ دو دو ہاتھ کیئے وہ تیار نہ ہو سکتی تھی۔۔۔ سومنت بھرے انداز میں بولی۔
سنتھیا نے اپنا میک اپ ادھورا چھوڑا اور اسکے ہاتھ سے اسٹریٹنر لیکر بال اسٹریٹ کرنے لگی۔
دو تین بار دوپٹہ الجھا تو دوپٹہ اتار کر رکھ دیا ایک طرف۔
گو سامنے اریزہ ہی تھی اور اس وقت تو سر جھکائے بیٹھی موبائل میں مگن تھی پھر بھی اسے جھجک سی آئی۔
یار یہ گلا کچھ ذیادہ گہرا ہے۔ تم ہی کھڑی ہو جائو میں اس سے ذیادہ نہیں جھک سکتی۔
وہ جھکتے جھکتے رکی۔ پھر جھلا کر بولی
اریزہ نے سر اٹھا کر اسکی جھلائی شکل دیکھی پھر ہنستی اٹھ کھڑی ہوئی۔
یہ لو۔ یہ ڈریس لیتے لیتے میں نے اسی وجہ سے چھوڑا تھا۔
اسکی بات پر سنتھیا کے ہاتھ جہاں تھے وہاں رک سے گئے۔
کیا مطلب؟ وہ چونک سی گئ۔
یہ ڈریس لینے لگی تھی میں مگرایک تو گلا اتنا گہرا ہے آگے پیچھے سے۔ اوپر سے آستینیں الگ سی تھرو۔جبھئ واپس رکھ دیا تھا آ۔۔
اسٹریٹنر اسکی چندیا پر گرم گرم لگا توجملے کے آخرمیں چیخ سی پڑی۔
اوہ۔ سوری ۔۔ سنتھیا نے سٹپٹا کر ہاتھ پیچھے کیا۔ اسکے سر کے بیچوں بیچ میں سے بالوں کی موٹی سی لٹ سے دھواں اٹھ رہا تھا۔
ہاہ۔ سنتھیا کی بچی سر جلا دیا میرا۔
وہ تڑپ کر اپنا سر سہلاتی وہیں بیٹھ گئ۔
آئم سو سو سو ری۔ اس کو کچھ سمجھ نہ آیا۔ اریزہ کی آنکھوں میں ضبط کے باوجود آنسو آگئے تھے۔ سنتھئا کو کچھ سمجھ نہ آیا تو گلاس میں پانی لاکر سر پر چھڑکنے لگی۔
آئم سو سوری۔اریزہ بالکل غلطی سے ہوا سو سوری۔
وہ معزرت کرتی روہانسی سی ہوگئ۔
اٹس اوکے۔۔ شکر ہے بال نہیں جل گئے۔ بس تھوڑی سی جلن ہے۔
اسے اتنا پریشان ہوتا دیکھ کر اریزہ الٹا اسے تسلی دینے لگی۔
سنتھیا نے دزدیدہ نگاہوں سے اسکا سر دیکھا پھر سر جھکا لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں تیار ہو کرباہر نکلیں تو ہاسٹل کے گیٹ تک درختوں تک نے منہ کھول کر انہیں دیکھا تھا۔ کچھ لڑکیاں تو انہیں خلائی مخلوق سمجھ کر انکے راستے سے بھی ڈر کر ہٹ گئیں۔ رہی سہی کسر گیٹ سے باہر نکل کر پوری ہوگئ۔
سالک شاہزیب ایڈون کے ساتھ یون بن کم سن ہایون اور گوارا بھی کھڑے تھے۔ گوارا تو دوڑ کر انکے پاس آئی۔
یہ۔ یہ تم لوگوں نے بھارتی لباس پہنا ہے؟ اف میں نے بھی پہننا تھا۔ کہاں سےلیا۔ کتنا پیارا ہے۔ وہ کھلے دل سے تعریف کر رہی تھی۔
اور یہ کیا ہے۔ اس نے بڑی حیرت سے اریزہ کے سر پر جمے دوپٹے کو چھوا۔
اسکو سر پر بھی لیتے ہیں۔
سنتھیا نے حفظ ماتقدم کے طور پر اسکا ہاتھ پیچھے کردیا۔
ہاں ایسے انڈین برائڈز سر پر لیتی ہیں نا۔ گوارا کی معلومات پکی تھیں۔
چلو آدھے ہایون کی گاڑی میں آدھے یون بن کی گاڑی میں چلیں گے۔
ایڈون انکے قریب آکر بولا۔۔
اریزہ کو سچ مچ اپنا آپ دلہن لگنے لگا تھا۔ اس وقت وہ مرکز نگاہ تھی۔ اس نے سٹپٹا کر گھورا
ان لوگوں کو ساتھ لے جانے کی کیا ضرورت تھی۔
انکو ساتھ لے جانے پر مفت میں سواری مل رہی ہے اور کیا چاہیئے۔
ایڈون شرارت سے بولا۔
چلو آجائو سارے۔
یون بن بلا رہا تھا
اریزہ تم بہت پیاری لگ رہی ہو۔
اس نے بے تکلفی سے جملہ چسپاں کیا۔ یہی جملہ کسی دیسی نے کہا ہوتا تو برا مان جاتی اس وقت بھی اچھا تو نہ لگا مگر ہونٹ بھینچ گئ۔
تمہارا ہبئ بہت لکی ہے۔ سونے پر سہاگہ۔ اس کا سارا موڈ غارت ہوا۔
نو ڈائوٹ تم پیاری لگ رہی ہو۔
ہایون نے بھی اسے سراہنا فرض سمجھا۔
اریزہ پیارئ لگ رہی ہو۔
سالک شاہزیب دونوں جان کے باری باری انگریزی میں بولے۔
ہاں سچ میں پیاری لگ رہی ہو
گوارا دل سے بولی۔
ایڈون بھی انکی شرارت میں شامل ہوگیا۔۔
اریزہ تم ۔۔
اریزہ حقیقتا اپنا پرس گھما کر اسے لگانے لگی تھی کہ وہ بچتا ہنستا ہوا بھاگا۔ وہ سب اب اریزہ کو ہوٹ کررہے تھے۔ اسکے گرد دائرہ بنا کر تالیاں بجاتے اسی جملے کی گردان کر رہے تھے۔ اریزہ کا ہنستے ہوئے اور کچھ خفت سے منہ سرخ ہو چکا تھا۔
سنتھیا نے گہری سانس لی۔ یہاں موجود سب لوگوں کو وہ شائد نظر بھئ نہیں آرہی تھی اریزہ کے سامنے۔
اس نے یونہی اپنا موبائل نکال کر وقت دیکھا تبھی کوئی اسکے قریب آگیا اس نے چونک کے سر اٹھایا۔
سنتھیا تم پیاری نہیں۔۔۔ کہنے والا ذرا سا تھما۔۔
حسین لگ رہی ہو۔
چندی آنکھوں والا وہ لڑکا ماتھے پر بکھرے بال وہ شائد اس سے دوسری بار مخاطب ہوا ہوگا۔ وہ اتنی حیران رہ گئ کہ بس ٹکر ٹکر دیکھتی رہی۔
کم سن اسکی حیرانی پر مسکرادیا۔ بھر پور مگر سادہ سی مسکراہٹ وہ نا سمجھنے والے انداز میں اسے دیکھتی رہی وہ سر جھٹکتا مڑا ان کی ہلڑ بازی سے بے نیاز سب سے پہلے جا کر ہایون کی گاڑی کے پاس جا کھڑا ہوا۔
ہایون نے اسے دیکھ کر فورا گاڑی انلاک کردی تھی۔
آئو سنتھیا۔
ایڈون پکار رہا تھا اسے۔ اریزہ اور گوارا باتیں کرتی یون بن کی۔گاڑی کی۔جانب بڑھ چکی تھیں۔۔ وہ سر جھٹکتی ایڈون کے پاس چلی آئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عید کی مناسبت سے پاکستانی سفارت خانے میں تقریب کا اہتمام تھا۔ ایک جانب کھانے پینے کی چیزوں کے اسٹالز تھے روائتی پاکستانی پکوان کی خوشبو چار سو پھیلی تھی تو دوسری جانب پاکستانی آرٹس اینڈ کرافٹس کے اسٹال سجے تھے۔ کچھ فنکار پرفارم کرنے آئے تھے۔ پاکستانی کمیونٹی اور مسلم کمیونٹی کے ساتھ ساتھ ہندوستانی و غیر ملکی بھی بڑی تعداد میں رونق میلہ دیکھنے آئے ہوئے تھے۔ ۔۔۔ یہاں آکر انکو اندازہ ہوا تھا کہ کوریا میں صرف وہ چار پانچ لوگ ہی بس پاکستان سے نہیں آئے تھے بلکہ ایک بڑی تعداد موجود تھی۔۔۔ وہ پانچوں ذیادہ تیار ہو کر آئے تھے اپنی جانب سے مگر یہاں تو رنگ و بو کا سیلاب آیا ہوا تھا۔۔۔۔
اف گوارا کو ضرور وئک اینڈ پر گائوں جانا تھا ورنہ اسے تو ضرور دکھاتئ میں پاکستانی لباس بلکہ اسے بھی پہنواتی میں۔
اریزہ کو افسوس ہو رہا تھا۔ اور اس سے ذیادہ سنتھیا کو اسے دیکھ دیکھ کر۔
سوری اریزہ۔
ہاسٹل سے یہاں تک کے سفر میں جانے کتنے ہزار دفعہ وہ یہ دہرا چکی تھی کہ اریزہ کو جھنجھلانا پڑا
تمہارے سوری کہنے سے میری چندیا کی جلن ختم ہورہی ہے نا جلے ہوئے بالوں کی جگہ چمکدار گھنے لمبے بال اگ آئے ہیں سو اپنا سوری اپنے پاس رکھو۔
اریزہ کے جملوں پر اسکا مزید منہ اتر گیا۔
اریزہ شرمندہ ہوگئ۔
اچھا نا بس کرو۔ وہسے بھی تم نے اتنا اچھا دوپٹہ سیٹ کیا ہے میرے سر پر کہ ناممکن ہے کسی کو پتہ لگے کہ میرے بالوں کا کیا حشر ہوا ہے۔
وہ دانستہ ہنسی ۔۔ سنتھیا بھی مسکرا دی۔ درجن بھر پنیں ٹھونک کر اس نے دوپٹہ اسکے سر پر ٹکا دیا تھا اور سچ تو یہ کہ دوپٹے کے ہالے میں اسکا چہرہ مزید سنہرا لگ رہا تھا۔
یہ لو سویاں۔ پھر نہ کہنا کہ عید پر سویاں کھانے کو نہ ملیں۔
ایڈون نے ڈسپوزایبل پیالہ لا کر اسے تھمایا۔
میرے لیئے؟ سنتھیا سوالی ہوئی۔
یار اس اسٹال پر سب سے ذیادہ رش تھا یہ کورینوں سے پاکستانی کھانے کھائے نہیں جا رہے سب سی سی کرتے سویوں پر ٹوٹ پڑے یہ آخری پیالہ تھا ۔ میں نے شکر ہے کھایا نہیں تھا ورنہ یہ بھی نہ بچتا۔
ایڈون ہنس ہنس کر بتا رہا تھا۔ سنتھیا کا منہ بن گیا۔
کوئی نہیں اتنی ذیادہ ہے یہ ہم سب کھا سکتے ہیں۔یہ لو سنتھیا۔
اریزہ نے چمچ اسکی جانب بڑھاتے ہوئے کہا تو وہ درشتی سے بولی۔
تم کیا چاہتی ہو ہر چیز مجھے تمہاری چھوڑی ہوئی ہی ملا کرے۔ مجھے نہیں چاہیئے۔
ارے۔ اسکی۔بات پراسکا منہ کھلا رہ گیا۔
ایڈون کی پیشانی پرناگواری کی کئی شکنیں پڑ گئیں۔
جنہیں دیکھ کر اسکو مزید غصہ آگیا ۔۔ تن فن کرتی آگے بڑھ گئ۔
اسے کیا ہوا۔
اریزہ کو سمجھ نہ آیا اسکا غصہ۔
پاگل ہوگئ ہے اور کیا ہوا۔ ایڈون جل کر بولا۔ پھر خود کو گہری سانس لیکر پرسکون کرنے کی کوشش کرتا اسکے پیچھے چل پڑا۔
اس نے کندھے اچکا کر بڑا سا چمچہ لیا ابھی منہ میں رکھا ہی تھا فون بج اٹھا اس نے بے دھیانی میں چمچ منہ میں ہی رکھے رکھے چھوٹے سے پرس سے موبائل نکال کر مزے سے دیکھنے لگی کہ کس کی کال ہے کہ کلک کی سی تصویر کھنچنے کی آواز پر چونک سی گئ۔
اس پر کوئی فلیش آیا تھا اور تصویر کھنچ گئ تھی۔ یا شائد وہم ہوا تھا۔منہ میں چمچہ لیئے وہ صدمے سے چمچ منہ سے نکالنا بھول گئ۔
سر اٹھا کے ادھر ادھر دیکھا۔ وہ داخلی حصے میں کونے میں کھڑی تھئ کچھ فاصلے پر اسٹالز تھے لوگ یہیں سے گزر کر آ جا رہے تھے۔ کئ فوٹرگرافر وی لاگرز آئے ہوئے تھے کیمرہ تھامے کئی صحافی اس تقریب کا احوال محفوظ کر رہے تھے۔ دو تین تو سامنے ہی تھے ایک نے فوری اسے اپنی جانب دیکھتا پا کر رخ بدلا تھا۔ اسے یہ اتفاق نہ لگا۔
ہیلو ۔۔ اریزہ۔ صارم اسکی جانب سے کوئی جواب نہ ملنے پر پکار رہا تھا۔
صارم۔
وہ روہانسی ہوئی۔ چمچ منہ سے نکال کر غصے میں پھینک ہی دیا۔
میری تصویر کھنچ گئ ہے او رمجھے پتہ بھی نہیں کہ کس نے کھینچئ۔
تو کیا ہوا۔ صارم حیران ہوگیا۔
کون ہے میں چھوڑوں گی نہیں اسے۔۔۔ اسکا غصہ بے قابو ہونے کو تھا۔
بعد میں بات کرتی ہوں تم سے۔
اس نے فون بند کرکے بیگ میں رکھا اور اپنی تصویر کھینچنے والے فوٹوگرافرکی تلاش میں نکل کھڑی ہوئی۔
تیز تیز قدم اٹھاتی اسکا رخ سیدھا اسی چندی آنکھوں والے ڈی ایس ایل آر تھامے لڑکے کی جانب تھا جو اسکو دیکھ کر رخ بدل گیا تھا۔
اریزہ ادھر۔۔۔
ہایون اسکے ایکدم سامنے آگیا جانے کیا کہنے لگا تھا اس نے اپنے ہاتھ میں تھاما پیالا اسے تھمایا اور تن فن کرتی آگے بڑھی۔۔
ہایون نے حیرت سے اپنے ہاتھ میں تھمایا ہوا پیالہ دیکھا پھر مڑ کر اسے دیکھا۔
لمحہ بھر کو ہی ہایون نے توجہ بھٹکائی تھی اسکی۔اور وہ لڑکا نظر سے اوجھل ہوگیا تھا۔ ایکدم بھیڑ میں گھس کر غائب۔۔وہ بیچ راستے میں کھڑی متلاشی نگاہوں سے دیکھ رہی تھئ۔
کیا ہوا۔ ؟ ہایون نے پوچھا
وہ ۔۔ وہ لڑکا ۔۔ اس نے میری تصویر کھینچ لی۔ وہ بھی اتنی بری۔۔ ۔ میں اسکی جان نکال دوں گئ۔
وہ مٹھیاں بھینچ کر بولی۔
کس نے۔ ہایون فورا سنجیدہ ہوا۔
وہ ادھر کھڑا تھا۔ بلو اپر پہنے تھا۔ہڈ سر پر لیا ہوا تھا۔ مجھے دیکھ کر بھیڑ میں گھس گیا۔
ہایون نے لمحہ بھر بھی تاخیر نہ کی تیز تیز قدم اٹھاتا بھیڑ کی جانب بڑھا۔ وہ بھی اسکے پیچھے بھاگئ آئی۔ چند لمحے لگے تھے اسے ڈھونڈنے میں۔ وہ اب ایک پاکستانی کپل کی تصویر بنا رہا تھا۔ جو گول گپے کھا رہے تھے۔
ہایون اسکے سر پر جا پہنچا۔۔۔
یہ لو۔ اس نے پیالہ اسکی جانب بڑھایا ۔ وہ کچھ نہ سمجھتے ہوئے کیمرہ ایک ہاتھ میں لیکر دوسرے ہاتھ سے تھام گیا۔۔
وے؟ ۔۔۔ وہ پوچھ رہا تھا۔ ہایون نے اسکے ہاتھ سے کیمرہ چھین کر فورا تصویریں دیکھنی شروع کردیں۔ وہ لڑکا حیران پریشان اسے دیکھ رہا تھا۔وہ دبلی پتلی جسامت کا اوسط قد کا حامل لڑکا تھا اسکے مقابلہ ہایون کا چھے فٹ سے اوپر قد اور جارحانہ انداز۔وہ قدرتی طور پر رعب میں آگیا تھا۔
ویو؟کیا مسلئہ ہے آپکے ساتھ۔
چوری چھپے تصویر کھینچتے ہو لڑکیوں کی شرم نہیں آتی۔ ؟ میں تمہیں پولیس کے حوالے کردوں گی۔ سمجھے۔
اریزہ کی بھاگتے سانس پھول چکی تھی۔ مگر لڑکا وہی تھا۔ قریب آتے ہی اس پر چڑھ دوڑی۔۔ مگر اردو میں ۔وہ بے چارہ حیران پریشان اس افتاد پر بھونچکا سا کھڑا بٹر بٹر دیکھے جا رہا تھا۔
کیا کہہ رہی ہو آگاشی۔
ہایون نےجلدی جلدی اسکی پچاس سے اوپر تصویریں دیکھ لیں۔ مگر اسے اریزہ نظر نہ آئی۔
اس نے اریزہ کو آنکھوں سے اشارہ کیا کہ بس کرے۔
اسکا کیمرہ ہی توڑ دو تاکہ باز آجائے یہ۔
اریزہ مزید تیز ہو کر بولی۔۔ ۔ ہایون نے کھسیانی سی مسکراہٹ کے ساتھ اسکی جانب کیمرہ بڑھایا۔
میں یہاں کا سرکاری فوٹوگرافر ہوں اس تقریب کے اہم مناظر عکس بند کرنے کیلئےمجھےبلایا گیا ہے خاص طور پر ۔۔۔۔
وہ گلے میں لٹکا کوئی کارڈ دکھاتا درشتی سے بولا۔۔۔
تم ہوتے کون ہو میرے کیمرے کو ہاتھ لگانے والے۔
اس نے سارا رعب لحاظ بالائے طاق رکھا اور مڑ کر انتظامیہ کے اہلکاروں کو بلانے لگا۔ اتفاق یا بد قسمتی
گول گپے ہی کھا رہے تھے شائد انہی کی تصویر بھی بنا رہا تھا وہ۔
سیکیورٹی۔۔ ادھر آئو۔
اس کے پکارنے پر منہ میں گول گپے بھرے وہ چندی آنکھوں والے اہلکار فورا متوجہ ہوئے۔ اس سے قبل کہ وہ یہ چند قدم کا فاصلہ طے کرتے ہایون نے کیمرے کا بڑا سا اسٹریپ اسکے گلے میں ڈالا اریزہ کا ہاتھ تھاما اور دوڑ لگا دی۔
ہائیں۔ اریزہ بھونچکا سی اسکے ساتھ کئی قدم دوڑ گئ۔۔
میری تصویر۔۔
اریزہ نے ہاتھ چھڑاتے کہا۔ تو اس نے رک کر اسکا ہاتھ چھوڑا۔ اہلکار اس لڑکے تک چکے تھے اب معاملہ دریافت کیا جا رہا تھا۔
ہایون نے گہری سانس بھری اور پھر دوڑ لگائی۔ فوٹوگرافر اسے دوبارہ اپنے روبرو دیکھ کر ابھی صرف حیران ہی ہو پایا تھا۔
یہ میری دوست کا ہے۔ اس نے اسکے ہاتھوں سے سویوں کا پیالہ چھینا۔۔
بیانئے۔۔ بیانمیتا۔۔
معزرت بے حد معزرت۔
جھک کے کہتا وہ واپس بھی اتنی ہی تیزی سے آیا تھا۔ اریزہ بھونچکا سی کھڑی اسکی پھرتی دیکھ رہی تھی۔
بھاگو وہ پیالہ تھامے بھاگتا ہوا آیا تھا۔ اریزہ نے اسکے پیچھے دوڑ کر آتے اہلکاروں کو دیکھا پھر خود بھی دوڑ لگادی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھاگتے بھاگتے دونوں کانسرٹ والے حصے میں گھس گئے تھے۔ یہاں بھیڑ بھی تھی اور شور بھئ۔اسٹیج کے قریب بس دو رویہ بیٹھنے کا انتظام تھا باقی پورا لان کھلا تھا۔ جس میں نوجوان لڑکے لڑکیاں کھڑے ہو کر پروگرام سے حظ اٹھا رہےتھے۔ ۔ کوئی ابھرتا ہوا کامیڈین اردو میں مزاحیہ خاکہ پیش کر رہا تھا۔ یہاں بڑی تعداد میں جنوبئ ایشیائی شکلیں تھیں سو یہاں گم جانا آسان تھا۔۔ اریزہ کی سانس پھول گئ تھی۔۔وہ وہیں ایک کونے کی طرف بڑھ گئ۔ ہایون نے بھی اسکی تقلید کی۔ بھیڑ میں گزرتے ایک جوڑا باتوں میں مگن ہاتھ میں کپ آئس کریم پکڑے تھا اس نے آرام سے ان چھوئے والے کپ سے چمچ اٹھا لیا۔ پیالے میں رکھ کر پیالہ اسکی جانب بڑھا دیا۔
تصویر۔
ہایون نے یقینا طنز کیا تھا۔
تصویر۔ اریزہ نے آنکھیں پھاڑیں۔ یہ اچھا انکے بولے الفاظ یاد کر لیتا تھا۔۔ کمپیوٹر کہیں کا۔
اسکے کیمرے کو اچھی طرح دیکھا میں نے۔ ہایون اس بار انگریزی میں بولا۔ کوئی ایک تصویر بھی تمہاری نہیں۔۔
اتنی سی دیر میں سب دیکھ لیا؟ اریزہ مشکوک تھی۔
ہاں تو دو سال لگاتا ۔۔ وہ منہ بنا کر بولا۔
کھائو۔۔ اس نے پیالہ اسکی جانب پھر بڑھایا۔
آنیا۔ اس نے سر ہلادیا۔
جانے دو مجھے نہیں کھانا۔۔ اسکا موڈ خراب ہو رہا تھا۔ ہایون نے کندھے اچکا دیئے پھر خود کھانے لگا۔
سویٹ نوڈلز پہلی بار کھائے ہیں مزے کے ہیں۔
وہ چسکے لے رہا تھا۔
اریزہ نے کچھ کہنا چاہا پھر ہوںٹ بھینچ گئ۔ اس نے متلاشی نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھا۔ نہ سالک نہ شاہزیب نہ ہی ایڈون اور سنتھیا کوئی بھی تو دور دور تک نظر نہ آرہا تھا۔
اس کا منہ پھول گیا۔
اسکا فون اب دوبارہ بج رہا تھا۔ بابا کالنگ۔ وہ ایکدم خوش سی ہوگئ۔۔
عید مبارک بابا۔
اس نے خوشی سے زور دار آواز میں کہا۔ اسکی آواز سن کر بے ساختہ انکے چہرے پر بھی مسکراہٹ دوڑ گئ۔
عید مبارک بیٹا۔ کیسی ہو ؟
میں ٹھیک ہوں آپ کیسے۔؟
وہ محبت سے بولی۔
میں بھئ ٹھیک ہوں۔اور میری گڑیا تیار ہوئی عید پر؟
جی بابا۔۔ اس نے کہتے زور و شور سے سر ہلایا۔
چلو پھر میں ویڈیو کال کرتا ہوں۔
انہوں نے کہا تو اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ کان پڑی آواز سنائی نہ دے رہی تھی۔ اس نے ایک کان پر ہاتھ رکھا ہوا تھا تب بات سن پا رہی تھی۔
بابا ہینڈز فری نہیں ہے پاس اور میں یہاں باہر آئی ہوئی ہوں شور بہت ہے ہاسٹل جا کے بات کرتی ہوں ۔۔
چلو ٹھیک ہے میں ابھی جاگ ہی رہا ہوں اچھا آرام سے جب وقت ملے فون کر لینا۔۔
وہ بھی فورا مان گئے اسکے پیچھے سے آتا شور انکو بھی سنائی دے رہا تھا
اوکے بابا لو یو بائے۔
اس نے فون کو باقائدہ چوم کر خدا حافظ کہا۔ کال بند کرکے سر اٹھایا تو ہایون کو دلچسپی سے محظوظ انداز میں دیکھتا پایا۔
بوائے فرینڈ تھا ؟
دے؟ اسکی آنکھیں ابلیں۔
جی نہیں والد تھے میرے۔ اس نے ناک چڑھا کر بتایاپھر جتایا۔
حدہے پہلے سنتھیا کو میری گرل فریںڈ بنا دیا اب بابا کو۔۔ گرل فرینڈ بوائے فرینڈ کے علاوہ انسان کی زندگی میں اور بھی رشتے ہوتے ہیں۔
تو سنگل ہو یعنی؟
اس نے جیسے سمجھ کر سر ہلایا۔۔۔
اس نے سر جھٹکا پھر اپنی سیلفی لینے لگی۔
ٹوٹی اسکرین پر تصویر کے دو حصے ہو رہے تھے۔
کیا خبر تھی فون ٹوٹ جائے گا کچھ پیسے ہی سیو کرلیتی۔
اسے خود پر غصہ آیا۔۔
لعنت ہو مجھ پر۔ اس ڈریس میں جھونک دیئے اتنے پیسے۔
اس نے اپنے کپڑوں پر جھلا کر ہاتھ مارا۔
کیا ہوا ؟ سب ٹھیک ہے؟
اس کی بڑبڑاہٹ اسے سمجھ تو نہ آئی تھی مگر جھلاہٹ نے پوچھنے پر مجبور کر دیا تھا۔
کچھ نہیں۔ آئی مین۔ آنیا۔
اس نے سر جھٹکا۔
تصویر بنانئ ہے؟ لائو میں بنا دوں؟
وہ سیلفی ہی لے رہی تھی جبھی اس نے اندازہ لگایا۔ اس نے بھی اندھا کیا چاہے دو آنکھیں فورا موبائل اسے تھما دیا۔
پوری لینا۔ پورا ڈریس آنا چاہیئے۔
اس کو بابا کو ڈریس بھی دکھانا تھا اور اسکے پیسے بھی بتانے تھے۔
مجھے پہلے خیال کیوں نہ آیا۔ اسکی آنکھیں چمک گئیں۔ ہایون اسکے موبائل میں اسی کو فوکس کر رہا تھا۔
بابا کو قیمت بڑھا کے بھئ تو بتائی جا سکتی تھی۔ اس نے دزدیدہ نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھا۔ اسٹیج کی۔طرف ہی روشنی ذیادہ تھی اسٹیج کے بائیں جانب پھولوں کا کنج تھا
ادھر آئو۔
وہ اسکو کہتی تیزی سے اس کونے کی جانب بڑھی۔ ہایون کا منہ کھلا رہ گیا۔ اسے لگا تھا اسکے پل پل بدلتے تاثرات تصویریں بنوانے کیلئے ہی تھے۔ وہ دو تین اسکے موبائل میں کھینچ چکا تھا۔
خاموش تصویریں کلک تک کی آواز اسکے فون میں بند تھی۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے اسکے ہاتھ میں فون بھی بند ہو گیا۔
اریزہ پھولوں والی باڑ کے پاس جا کھڑی ہوئی۔
آئو نا۔ وہ پکا ررہی تھی۔ ہایون نے اسکے موبائل کا آن کا بٹن دبایا مگر وہ آن ہوا ہی نہیں۔
اریزہ ذرا سا ترچھئ ہو کر کھڑی پوز بنا رہی تھی۔ ایک بازو کہنی سے ترچھا کرکے دوسرے ہاتھ سےنزاکت سے ہاتھوں میں ہاتھ تھامے بالکل ماڈلز کی طرح۔
اس نے مسکراہٹ دباتے اسکی تصویر کھینچی۔
ایک ایسے۔
اب اس نے رخ بدلا تھا۔۔ تبھی اسکی نگاہ فاصلے پرسامنے سے آتےیون بن گوارا پر پڑی۔ گوارا اسے دیکھتے ہی ہاتھ ہلانے لگی تصویر بنانا بھول کر وہ زور و شور سے ہاتھ ہلاتی مسکرائی تھی۔ یہی منظر تصویر میں قید ہو گیا تھا۔
بس کافی ہے۔ چلو وہاں چلیں۔
اس نے فورا پینترا بدلا تھا۔ ہایون نے کندھے اچکا کر اسکا موبائل اسے واپس کر دیا۔ اور جوابا اس نے شکریہ بھی کہنا ضروری نہ سمجھا تھا تیزی سے گوارا کی جانب بڑھ گئ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہنگن دریا کے مشرقی کنارے اسے سنتھیا ضد کرکے لائی تھی۔ دریا کنارے بنے واکنگ ٹریک پر اس وقت بس وہی دونوں تھے۔ یہاں قدرے فاصلے سے لیمپ پوسٹ تھے جن کی روشنی خاصی ناکافی تھی پراسرار اور ملگجے اندھیرے سےسجے اس ٹریک سے نیچے نشیب تھا پھر گھنی جھاڑیاں تھیں اسکے نیچے چلتا ہوا دریا۔ فضا میں جھینگروں اور اوپر سے گزرتے پل پر رواں ٹریفک کا شور تھا۔
سنتھیا کو یہاں آکر یک گونہ سکون سا ملا تھا۔
اتنا تیار ہو کر یہاں لے آئی ہو کوئی ہوائی مخلوق عاشق ہوگئ نا تو مجھے ہی اٹھا کر سیدھا دریا میں پھینک دے گی۔
ایڈون نے محتاط سے انداز میں اسے یہاں آنے پر ہی ٹوکا تھا مگر سنتھیا بے نیازی سے بولی
میں نے صلیب پہن رکھی ہے۔ ہمارے قریب بھی کوئی نہیں آسکتا۔
پھر بھی یہ وقت یہاں آنے کیلئے مناسب نہیں ہے۔ ہم اجنبی ملک میں ہیں۔ یہاں کا ہمیں ماحول کا پتہ نہیں۔
ایڈون نے سمجھانا چاہا تو وہ چڑ گئ
پاکستان سے تو ذیادہ محفوظ ہے۔۔ اور جو تمہیں عید ملن چھوڑ کر آنے کا دکھ ہو رہا تو راحت فتح علی خان نہیں آنے والے تھے وہاں ۔ اور باقی کوئی سنگر تمہارا پسندیدہ نہیں تھا۔۔
وہ بحث کے موڈ میں تھئ۔ ایڈون نے خاموشی کو بہتر جانا۔۔
کتنی ہی دیر وہ دونوں خاموش ایک لفظ بولے بنا ٹہلتے رہے کہ سنتھیا خود سے لڑتے لڑتے تھک گئ۔ ٹریک کے ساتھ بنت سنگی بنچ پر خاموشی سے جا بیٹھی۔ ایڈون کو دو تین قدم چلنے کے بعد احساس ہوا کہ وہ ساتھ نہیں۔مڑ کر دیکھا تو وہ سنگی بنچ پر سر جھکائے دونوں ہاتھ ٹکائے ہارے ہوئے انداز میں بیٹھئ تھی۔ اس نے ذرا دھیان سے دیکھا اسے۔
سرمئی جامنی نیلے امتزاج کی اس فراک میں وہ نہایت نازک سی لگ رہی تھی۔ لانبا دوپٹہ اس نے کندھے پر ایک جانب ڈال رکھا تھا۔ اسکے بال گھنے سیاہ سیدھے اور کمر تک آتے تھے اس وقت بھی پشت پر آبشار سی بکھری تھی۔ ہلکے پھلکے میک اپ میں وہ اس وقت کافی حسین لگ رہی تھی۔ مگر اسکا دل بالکل خاموش سا تھا۔
جانے کیوں اسکے ساتھ یہ ہونے لگا تھا۔ اسکے پاس باتیں ختم سی ہوگئ تھیں۔سنتھیا اسکے ساتھ اکیلے وقت گزارنا چاہتی تھی باتیں کرنا چاہتی تھی مگر جانے کیوں اسکا ذہن بالکل خالی ہوجاتا تھا۔ کوئی بات کوئی چیز ذہن میں آتی ہی نہ تھی وہ کسی روبوٹ کی طرح اسکا ساتھ دینے کی کوشش کرتا تھا۔ اسے اپنی اس کیفیت سے خود خوف آنے لگا تھا۔
سنتھیا کو جانے اسکی نظروں کا احساس ہوا تھا یا یونہی اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو وہ چونک کر سنبھل کر مسکراتا اسکے پاس چلا آیا۔
بس تھک گئیں۔۔۔ ابھی تو ہمیں واپس بھی جانا ہے
وہ ہلکے پھلکے سے انداز میں کہتا اسکے برابر آن بیٹھا۔
ہمم۔۔ وہ قصدا مسکرائی۔
بھوک لگی؟ مجھے تو بہت ذوروں کی لگ رہی ہے۔ کیا کھائو گی؟
ایڈون نے پوچھا تو وہ سر جھٹک کر بولی
مجھے کورین کھانے نہیں کھانے کسی انڈین ریستوران چلتے ہیں۔
ہمم۔ چلو اریزہ کو بھی ساتھ لے لیں گے۔ اب تو تقریب بھی ختم ہونے والی ہوگی۔
وہ روانی میں کہتا اٹھا سنتھیا ہونٹ بھینچ کرچند لمحے سوچ کر بولی
اریزہ گوارا وغیرہ کے ساتھ ہے یقینا انکے ساتھ چلی جائے گی ہاسٹل ہم دونوں چلتے ہیں نا بس۔
اس نے کوشش کرکے اپنا بولنے کا انداز سادہ سا ہی رکھا تھا۔
ایڈون نے گہری سانس لیکر اسکے تاثرات دیکھے پھر سر ہلا دیا۔
ٹھیک ہے چلو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلاف توقع ان سب کو اس تقریب میں خاصا مزا آیا تھا۔ گوارا نے سندھی اجرک بڑے شوق سے خریدی تھی اب اپنے آف شولڈر ٹاپ کے اوپر کاندھوں پر ڈالے مزے سے پوز بنوا بنوا کر تصویریں کھنچوا رہی تھی۔ یون بن نے بھی سندھی ٹوپی خریدی تھی اس وقت جینز شرٹ کے اوپر یہی پہنے تھا۔ گھنے بال ماتھے پر بکھرے تھے۔ جو ٹوپی کے اگلے کٹائو سے جھانک رہے تھے۔کم سن کا چاٹ کھانے سے برا حال ہوا وا تھا سالک اور شاہزیب اسکا مزاق اڑا رہے تھے۔ ہایون گوارا کا فوٹو گرافر تھا۔ تصویریں کھینچ کھینچ کے وہ تھک گیا تھا یون بن بھی تھک گیا تھا مگر گوارا کی ہمت جوان تھی۔ وہ سب اس وقت باہر آچکے تھے پارکنگ کے قریب سڑک پر شغل جاری تھا۔ وہ تھوڑا بے چین سی ہو رہی تھی۔ رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ ان سب کا واپسی کا ارادہ نہیں تھا۔
اچھابس اب ہم چلتے ہیں۔ ہایون نے آخر اسکے اس فوٹو سیشن کا اختتام کردیا۔
چلو پھر آجائو میری گاڑی کی سواریوں۔
یون بن نے نعرہ لگایا پھر بندے گن کر پوچھنے لگا۔
ایڈون اور اسکی گرل فرینڈ کہاں ہیں؟
وہ دونوں کب کے جا چکے ہیں۔
شاہزیب نے بتایا تو وہ پریشان سی ہوگئ
سنتھیا کہاں چلی گئ مجھے چھوڑ کر؟
اسکے ایکدم پریشان ہونے پر سالک نے اسے تسلی دی۔
تو کیا ہوا ہم تو ہیں نا۔ چلو یار اب چلیں۔ وہ اب شاہزیب کم سن وغیرہ سے کہہ رہا تھا۔
چلو۔ کلب چلتے ہیں۔ یہ مشورہ ہایون کا تھا جس سے سب نے اتفاق کیا۔
ہاں ٹھیک ہے۔ وہ سب پر جوش سے ہوئے
ہم گاڑیاں نکال کر لاتے ہیں۔
یون بن اور ہایون پارکنگ کی جانب بڑھ گئے۔
گوارا تم تو گھر جائوگی نا ؟
اس کو واحد امید گوارا ہی لگی۔ اسکے پاس آکر امید بھرے انداز میں پوچھا۔
نہیں کیوں بھلا۔ کل چھٹی ہے اتنی جلدی گھر جا کر کیا کرنا اس شمالی کوریائئ لڑکی کو دیکھوں جا کر یار قسم سے بھوتنی ہے پوری۔ گھپ اندھیرے میں بیٹھی رہتی ہے ہر بات کا الٹا جواب سڑی سی شکل بناکر دیتئ عجیب نفسیاتی سی ہے۔ ہایون نے سفارش نہ کی ہوتی تو پکا۔۔
مجھے گھر جانا ہے۔ اریزہ نے اسکی بات کاٹ کر بے تابی سے بتایا۔
دیوار پھلانگنی آتی ہے؟
گوارا سنجیدگی سے پوچھ رہی تھی۔
نہیں کیوں؟ وہ اس بے محل سوال پر الجھن بھرے انداز میں دیکھنے لگی
اسلیئے کہ رات کے گیارہ ہو رہے ہیں ۔ ہاسٹل میں مین گیٹ دس بجے بند ہوجاتا اسکے بعد جا کر یا تو اپنی بستی کروا کر یو لگوا کر اندر جا سکتے یا دیوار پھلانگ کر ۔۔
گوارا بے نیازی سے بولی
پھر۔
اسکے تو ہوش اڑ گئے۔ گھبرا کر پوچھا۔
پھر یہ کہ میرے ساتھ چلنا فلیٹ پر۔مگر ابھی پہلے کلب چلو۔ میرا اتنی جلدی واپسی کا کوئی موڈ نہیں۔
یون بن گاڑی موڑ کر لے آیا تھا وہ اسکا ہاتھ تھامتی بولی تو اریزہ نے بھی بے چارگی سے خود کو حالات کے حوالے کردیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلب میں گوارا کا ہاتھ تھامے وہ کسی ننھی بچی کی طرح ہی داخل ہوئی تھی۔ داخلے سے لیکر راہداری سے گزرتے مین ڈانسنگ فلور تک لوگ ہی لوگ تھے مگر انکے لیئے سرعت سے راستہ بنتا جا رہا تھا۔لوگ پہلے چونک کے دیکھتے پھر گھورتے پھر فورا ایک قدم پیچھے ہو جاتے۔ وہ بری طرح سٹپٹا گئ تھئ۔ گوارا اسکے برعکس لاپروا سی تھی۔ اس نے ڈانسنگ فلور پر جا کر ہی اسکا ہاتھ چھوڑا تھا۔ او رخود بھی جھومنے لگی۔ یون بن سالک شاہزیب ہایون سب ڈانسنگ فلو رپر آچکے تھے۔ اجنبی دھن پر مگن ناچتے۔ اسے ایکدم یہ سب بہت برا اور عجیب سا لگا۔ ابھی کل تک رمضان تھا روزے رکھ رہے تھے عبادت میں مشغول تھے اور آج عین عید کے دن یہاں سب بھول بھلا کر ناچنا۔
وہ پلٹ کر ڈانس فلور سے اتر آئی۔ ڈسکو لائٹس ملگجی روشنی اسے اس منزل پر ہی شدید گھٹن ہونے لگی تھی۔
وہ انکو نظروں میں رکھتے ہوئے ہی فلور سے دور سجی نسبتا کونے میں رکھی میز کرسی پر آن بیٹھی۔
اسے شدید نیند آنے لگی تھئ۔ سحری کے بعد سونے کی عادت تھی رات کو نیند بھی دیر سے آئی تھی۔ اس وقت تو سر میں دھماکے سے ہونے لگے تھے۔
اس نے دونوں کہنیاں میز پر ٹکا کر اپنا چہرہ بازوئوں میں چھپا لیا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ایک پاکستانی ریستوران تھا۔ جس نے عید کی۔مناسبت سے نا صرف ریستوران کو آرائشی قمقموں سے سجا رکھا تھا خاصا ڈسکائونٹ دے رکھا تھا۔ کوئی وائوچر بھی تھا ایڈون کے پاس کھانا خاصا سستا اور ذائقے دار تھا۔ سنتھیا کا مزاج اب بہتر ہوگیا تھا۔مستقل بولتے ہوئے اس نے
بریانی چکن کڑاہی خوب دل بھر کے کھائی۔ پھر خیال آیا۔
اریزہ کو بھی لے آتے ہم اسے بریانی کھانے کا دل کر رہا تھا۔
وہ بے دھیانی میں بول گئ تھئ۔ ایڈون نے ایک گہری نگاہ ڈالی تھی اس پر بولا کچھ نہیں۔ وہ پھر بھی شرمندہ سی ہوگئ۔
خجل ہو کر بات بدل گئ۔
بابا نے عیدی بھجوائئ ہے؟ کہہ رہے تھے تمہیں بھیجیں گے۔
ہاں۔ ایڈون نے مختصر کہہ کر ویٹر کو بل لانے کا اشارہ کیا۔
وائو۔۔ مل گئ کتنی ہے؟ وہ بچوں کی طرح خوش ہوئئ۔
ہم کل جیجو آئی لینڈ چلیں ۔میں نے کبھی جزیرہ نہیں دیکھا۔ سنا ہے خاصئ خوبصورت جگہ ہے۔
ہم ابھی کہاں جائیں گے یہ سوچو۔ ایڈون نے اسکے انڈوں کی ٹوکری کو سر پر سے بے دردی سے گرادیا
کیوں؟ اسکا سوال بجا تھا۔
محترمہ ہم لیٹ ہو چکے ہیں۔ہاسٹل کے دروازے ہم پر بند ہو چکے ہیں۔گیارہ بج رہے ہیں۔
ایڈون نے اپنی کلائی اسکی نگاہوں کے سامنے کی۔ نئی چمکتے ڈائل والی گھڑی ۔ سنتھیا نے نگاہ چرا لی۔
پھر۔
ایڈون نے اپنی پیشانی مسلی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈانس فلور پر ناچتے جھومتے اسے اس لڑکی نے خود آکر ڈانس کی آفر کی۔ سنہری رنگت والی چندی آنکھوں میں نشے کا خمار تھا۔ اسکے ساتھ ناچتے ہوئے وہ ہوش کھو رہی تھی۔ اس نے اسکا ہاتھ تھاما اور اسے ڈانس فلور سے باہرلا کر ٹیبل پر لا بٹھایا۔ پاس سے گزرتی ویٹرس کو اسکے لیئے پانی لانے کا کہا۔ وہ وہیں میز پر سر رکھ کر ڈھے سی گئ۔
سومیا۔
کوئی لڑکی اسکا نام پکارتی اسکے پاس آئی۔
ہایون اسے اسکو سنبھالنے کا اشارہ کرتا خود کم سن کو ٹیکسٹ کرنے لگا
میں جا رہا ہوں گھر تم نے چلنا ہے۔
چند ہی لمحوں میں جواب آیا تھا۔۔
آندے تم جائو میں یہیں ہوں۔
اس نے گہری سانس لی۔ اسکا دل کلب سے جلدی بھر جاتا تھا جانے کیوں۔ شائد وہ سنگل تھا اسلیئے۔ مگر بہت سے سنگل لوگ بھی یہاں ہلڑ بازی کرتے ناچتے گاتے حظ اٹھاتے ہی تھے۔
تم ایک بوڑھی روح ہو ہایون۔ جوزن ایرا کے باسی جسکو آج سے کئی سو سال قبل پیدا ہونا تھا مگر لیٹ ہوگیا۔
نونا اسکے کان کھینچتے اکثر یہ جملہ کہتی تھیں۔ ابھی بھی ذہن میں انکے الفاظ گونجے تو وہ ذرا سا ہنس کر سر جھٹکنے لگا۔
پیدا تو خیر مجھے ابھئ بھی نہیں ہونا چاہیئے تھا بلکہ کبھی بھی نہیں ہونا چاہیئے تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گڑیا۔یہاں سو گئیں۔
کسی کی نرم سی آواز اسکے کان میں گونجی تھی۔ اس نے کسمسا کر اس نرم سے لمس کو محسوس کیا تھا۔
اتنے آرام سے ہلاتے رہو گے تواٹھے گی ہی نہیں۔ کتنی بار کہا ہے اسکو اپنے کمرے میں جا کے سویا کرے جانے اس صوفے پر کیسا نشہ ہے اسکول سے آکر بھی یہیں سو جاتی ہے۔
امی اسے اٹھاتے جھلا کر بول رہی تھیں
چھوڑیں امی سونے دیں۔ میں اسے گود میں اٹھا کر چھوڑ آتا ہوں۔
حماد نے نرمی سے اسکو بازوئوں میں اٹھایا تھا
سات آٹھ سالہ اریزہ کو گود میں اٹھا کر اسکے بستر پر لے جا کر بہت احتیاط سے لٹادیا تھا۔
اس نے کسمسا کر ذرا سی آنکھ کھول کر دیکھا۔ حماد کا مسکراتا چہرہ نگاہوں کے سامنے تھا۔
سو جائو ۔۔۔۔ اس نے پیار سے تھپکا۔
اس نے دوبارہ آنکھیں بند کیں پھر گھبرا کر کھولیں۔ حماد کی پیشانی سے خون کی لکیر سی اسکے گال تک بہتی چلی آئی۔ مسکراہٹ دھیمی پڑتی گئ۔ دھوئئیں کے بادل سے اسکے اورحماد کے بیچ حائل ہونے لگے
اس نے پکارنا چاہا ۔۔ اسکی زبان گنگ سی ہوگئ۔ بری طرح خوفزدہ ہو کر اس نے پکارنا چاہا۔ کہ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سرسری سی طائرانہ نگاہ کلب پر ڈالتا باہر نکلنے کو تھا کہ عجیب سا احساس ہوا۔ وہ بڑھتے بڑھتے رک کر پلٹ کر دیکھنے لگا۔۔ نیم تاریک اس کونے میں گلابی دوپٹے سے ڈھکاشناسا وجود۔میز پربازوئوں میں سر رکھے اسے مغالطہ ہوا تھا کہ کیا اسے لگا وہ کانپ رہی ہے۔ اس نے پلٹ کر گوارا وغیرہ کو دیکھا وہ سب ڈانس فلور پر ناچنے میں مگن تھے۔
وہ کچھ سوچ کر اسکے پاس چلا آیا۔
ہلکے سے گلا کھنکار کر پوچھا۔
اریزہ شا۔ گھر جانا ہے ؟
اسکے سوال کے جواب میں کوئی ردعمل سامنے نہ آیا تھا۔
اریزہ۔۔
اس نے جھک کر اسکو دیکھنا چاہا۔
اسکا چہرہ چھپا ہوا تھا دوپٹے میں۔ مگر اسکو دیکھنے پر اندازہ ہوتا تھا وہ لرز رہی ہے۔
حم۔ حماد۔ بھ۔ بھائی۔
وہ شائد کچھ بڑبڑا بھی رہی تھی۔۔
اریزہ۔۔۔
اس نے ذرا سا جھک کر اسکا کندھا ہلایا۔
اسکی ایکدم سے آنکھ کھلی تھی۔ ملگجا اندھیرا۔ نا مانوس ماحول شور۔ اسکی سانس بند ہونے لگی۔ وہ خواب سے جاگ کر بھئ جاگ نہ سکی تھی۔
اریزہ۔
ہایون نے جھک کر اسے ہلایا۔وہ ایکدم جھٹکے سے اٹھی اسکا بازو اس نے پوری قوت سے دور کیا تھا۔ اسکے منہ سے گھٹی گھٹی سی آوازیں نکلی تھیں جیسے وہ چلانا چاہ رہی ہو۔مگر آواز نہ نکل رہی ہو۔
حم۔۔ ۔۔ وہ پکار رہی تھی مگر لفظ منہ سے نکل نہیں رہے تھے۔
اریزہ۔ اسکی حالت سے گھبرا کر اس نے اسکو کندھوں سے تھامنا چاہا مگر اس نے بری طرح اسکو جھٹک کے پیچھے کیا۔ اسکا ہاتھ ہایون کی ناک پر لگا تھا۔ مگر وہ پھر بھی اسے تھامنے آگے بڑھا۔ اسکو سانس لینے میں سخت دشواری کا سامنا ہو رہا تھا۔ بری طرح ہانپتے ہوئے اس نے کھڑا ہونا چاہا مگر آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھانے لگا۔
اریزہ۔
وہ اسکے قریب آنے پر مزید بوکھلا رہی تھی۔ اس بار اس نے اسے تھامنے کی کوشش کرنے کی بجائے پکارنے پر اکتفا کیا۔فل بجتی موسیقی میں اسکو کافی زور لگا کر پکارنا پڑ رہا تھا۔
اریزہ ۔۔ اریزہ۔۔۔اس نے زرا زور سے پکارا۔
اس تیسری آواز پر اس نے پہچانا تھا اسے۔ اسکی آنکھوں میں شناسائی کی رمق دیکھ کر وہ ہمت کرکے اسے تھامنے بڑھا مگر لمحہ بھر کی ہی بات تھی ہانپتے ہوئے وہ لہرائی سہارے کیلئے کرسی کو تھامنا چاہا مگر ناکام ہوتے کھڑے قد سے لہرا کر زمین پر گر سی گئ۔ہایون دم بخود سا اسے گرتا دیکھ رہا تھا۔
کین چھنا۔ وہ گھبرا کے اسکی جانب بڑھا۔ پھر خیال آیا۔تو انگریزی میں بولا۔
آر یو آل رائٹ؟ اریزہ؟
ہایون نے آگے بڑھ کر سہارا دینے کیلئے ہاتھ بڑھایا وہ خالی خالی۔نگاہوں سے دیکھ کر رہ گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس بڑے سے سیون الیون کے باہر سجی میز کرسی پر وہ بیٹھی اپنی ہتھیلیاں مسل رہی تھی۔ ہایون بنانا ملک اور چیز سینڈوچ خرید کر لایا لا کر اسکے سامنے میز پر رکھا۔
اس نے خجل سا ہو کر سر اٹھا کر اسکی شکل دیکھی۔ ہایون نے سفید براق اپر پہن رکھا تھا۔ اسکا ہاتھ لگنے سے اسکی نکسیر پھوٹ گئ تھئ۔ اسکے اپر پر خون کے کئی چھوٹے چھوٹے دھبے تھے۔۔
اس نے ناک کے نتھنے میں ٹشو رول کرکے رکھا ہوا تھا۔
بیانئے۔ اس نے کہتے ہی سر جھکا لیا تھا۔
بیانئے خود سے کہو پہلے۔۔۔ وہ تیز ہو کر بولا۔
تمہیں پتہ ہے کتنا ذیادہ بی پی لو تھا تمہارا۔ بیہوش ہوتے ہوتے بچی ہو۔ کھانا نہیں کھایا ہوا تھا کیا تم نے؟
اس نے سر جھکائے جھکائے ہی نفی میں سر ہلایا
ہائش۔ اسکو اندازہ تھا۔ بس سر پیٹ کر رہ گیا۔
چلو یہ کھائو۔ پیور ویج ہے۔
اس کے تسلی دلانے پر اس نے سینڈوچ کی جانب ہاتھ بڑھایا۔
بھوک تو اسے واقعی لگ رہی تھی۔ مگر یہ خواب جانے کب اسکا پیچھا چھوڑنے والے تھے۔ اسے خود پر شدید غصہ آرہا تھا۔ جتنا وہ خود کو مضبوط بنانا چاہتی تھی اتنا کمزور پڑ جاتی تھئ۔
ہایون نے اپنے لیئے کاربونیٹڈ ڈرنک لیا تھا۔ اسکے مقابل بیٹھ کر وہ گھونٹ گھونٹ ختم کرنے لگا۔
تم ڈرائونا خواب دیکھ رہی تھیں؟
ہایون کو اپنا وقت یاد آگیا تھا سو نرمی سے پوچھا
اریزہ نے سر مزید جھکا لیا۔ یقینا وہ اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہ رہی تھی۔
تم لوگ عید کیسے مناتے ہو؟ میرا مطلب ہے پاکستان میں بھی کانسرٹ میں جاتے ہو ؟ ایسے ایونٹس ہوتے ہیں وہاں؟
وہ بات بدلنے کی غرض سے پوچھ رہا تھا۔
نہیں۔ وہاں ہم رشتے داروں کے گھر ملنے ملانے جاتے ہیں۔ دوستوں سے ملتے ہیں گھومنے پھرنے کا پروگرام بناتے ہیں۔ اور۔۔
اس نے سوچنا چاہا مگر احساس ہوا۔ پچھلی کئی عیدیں بیڈ پر اینڈتے امی کی صلواتیں سنتے گزاری ہیں۔ سنتھیا آجاتی تھی تب وہ بستر سے طلوع ہوتی تھی۔ تب امی کو اور غصہ آتا تھا۔ جب تیار ہو کر دونوں نیچے تو آجاتی تھیں مگر ڈائٹنگ کے نام پر انکی پکائی ایک چیز کو ہاتھ لگانے کو تیار نہ۔ہوتی تھیں
ناقدری ہو تم۔ ارے نصیب والوں کو عید کےدن اتنی نعمتیں نصیب ہوتی ہیں اور تم ناشکری کرتی ہو۔ اچھے سے اچھا کھانے کو موجود ہے پورا مہینہ اسکی رضا کیلئے بھوک ماری ہے تو آج اسکی نعمت کا شکر اداکرو۔۔ نماز پڑھو جی بھر کھائو خوش ہو۔ مگر یہ آج کل کی نسل ہی ایسی ہے۔ انکا سوچو جو عید کے دن بھی فاقے کررہے ہوتے ہیں کتنوں سے خوش نصیب ہو کیا یہ شکر کا مقام نہیں؟ نعمتوں سے منہ موڑنا ناشکری ہوتا ہے کسی دن عید پر اپنے ہاتھوں سے منہ میں نوالے ڈالنے والی ماں پاس نہ ہوگئ تو احساس ہوگا۔
ہر دیسی ماں کی طرح آخر میں وہ ایموشنل بلیک میلنگ پر اتر آتی تھیں۔اور وہ دونوں انکے دائیں بائیں کندھے پر جھک کر انکے گال چوم لیتی تھیں۔
اچھا نا صارم سے کہیں پہلے ہمیں گھما لائے پھر ہم پکا رات کو یہ سب کھائیں گے۔ وعدہ۔
کرما تھا یا مکافات عمل اسکے سامنے آگیا تھا۔ عین عید کے دن بھوک سے نڈھال ایک اجنبی کی عنایت ۔۔۔ اس نے جھر جھری سی لی تھی۔
تمہیں پینک ڈس اوڈر( Panic disorder) ہے؟
ہایون نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے اچانک پوچھا تھا۔ وہ بری طرح چونک کے دیکھنے لگی تھی اسے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اریزہ میری ناک دیکھو مجھے لگ رہا ہے مزید ڈھے گئ ہے۔۔
لفٹ میں لگے شیشے میں اپنا چہرہ دیکھتی گوارا پریشان ہو اٹھی تھئ۔ اس نے شیشے سے ناک چپکا رکھی تھی۔ جبھی یہ وہم ہو رہا تھا۔
نہیں بالکل ٹھیک ہے ادھر مت دیکھو۔
اریزہ نے اسکوبمشکل پیچھے کیا وہ لہرا کر دوبارہ شیشے پر آرہی اسکا منہ سیدھا شیشے پر لگتا جبھی اس بے فورا اپنی ہتھیلی آگے کردی۔ ٹھک سے اسکی ناک اسکی ہتھیلی پر لگی تھی۔
اس طرح مدہوش ہونے میں کیا مزا آتا ہے تم لوگوں کو۔
وہ خاصا چڑ کر بولی تھی۔
جوابا یون بن ہنسا تھا۔
یہ گوارا ایسے ہی کرتی ہے۔ میں تومدہوش نہیں ہوتا۔
وہ کہہ کر ہایون کے کندھے پر سر ٹکا گیا۔
ہایون یار اس لفٹ سے کہو اوپر جائے یہ دائیں جانب جارہی ہے۔۔
اریزہ نے تاسف سے دیکھا۔۔ ہایون اسکی جھلاہٹ پر ہنس دیا۔
میں نے پہلی دفعہ کسی کو کوئی ایسا تہوار مناتے دیکھا ہے جس میں شراب کا عمل دخل نہیں تھا۔
ہایون نے کہا تھا۔ اسے لگا تھا اریزہ کوئی وضاحت دے گی مگر وہ چپ رہی۔ تبھی لفٹ کا دروازہ کھل گیا۔ گوارا جو ابھی تک اسکی ہتھیلی سے ناک چپکائے کھڑی تھی ایکدم سے لفٹ کا دروازہ کھلتے ہی باہر نکلنے لگی
ارے رکو۔ اریزہ فورا مستعد ہوئی مگر تب تک وہ لفٹ کے باہر دراز ہوچکی تھی۔ ہایون نے یون بن کو چھوڑا او رآگے بڑھ کر اسے اٹھانے لگا۔
گوارا نے ہڑبڑا کر اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔
میری ناک گر گئ۔
کوئی نہیں گری لگی ہوئی ہے منہ پر۔
اریزہ چڑ کر بولی۔
یون بن اور ہایون اسے اور گوارا کو اپارٹمنٹ تک چھوڑنے آئے تھے۔ گوارا مکمل طور پر مدہوش تھی۔۔ یون بن بھئ جھوم رہا تھا مگر اسکا حال اتنا خراب نہ تھا۔ ہایون گوارا کو سہارا دیئے تھا
اریزہ میری ناک گر گئ باہر اٹھا لائو۔۔۔۔سیلیکون کی ہوگی۔۔
بہت۔۔
گوارا دہائی دے رہی تھی۔
ابھی اصلی ہی ناک ہے تمہاری اور لگی ہوئی ہے منہ پر تمہارے۔
نہیں گر گئ وہاں گری تھی میں نا تو۔۔ لا کر لگا دو واپس۔ میں لاتی ہوں
وہ دہائیں دے رہی تھی۔ ہایون نے اسے صوفے پر لا کر بٹھا یا تواٹھ کر جانے لگی۔
اریزہ کو اسکی بات پر اس بار ہنسی ہی آگئ تھی۔ ہلکے سے اسکی ناک دبا کر تسلی دی۔
یہ لو لگا دی واپس۔
تھائی نیئے۔اس نے اپنی ناک چھو کر تسلی کی۔ پھراطمینان ہوا تو دوبارہ بیٹھی۔۔ پھر خیال آیا تو بیٹھے بیٹھے رکوع میں اریزہ کے سامنے جھک گئ۔
گوما وویو اریزہ۔۔ تم بہت اچھی ہو میری ناک واپس لگا دی۔
ہایون نےیون بن کا کندھا تھپتھپایا۔
اچھا میں جا رہا ہوں تم نے چلنا ہے۔
جوابا یون بن مزید صوفے پر ںیم دراز ہو گیا۔
آنیا۔۔ بالکل ہمت نہیں۔۔۔
اس نے کہہ کر آنکھیں بھی بند کر لیں۔ اریزہ گوارا کو اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی۔
گوارا اندر کمرے میں چل کر لیٹ جائو۔۔
دے۔ ( اچھا) اٹھتی ہوں۔۔
وہ اسکا چہرہ تھپتھپا رہی تھی گوارا نے بات سمجھ کر اٹھنا چاہا مگر لہرا کر دوبارہ گر گئ صوفے پر۔ اریزہ اسے اٹھانے کے چکر میں خود بھی گرتے گرتے بچی تھی۔
اریزہ انکو یہیں چھوڑ دو۔۔
ہایون نے کہا تو وہ سر ہلاکر رہ گئ۔ ہایون نے ہلکا سا سر جھکا کر کہا
کرم۔۔۔۔۔۔
یہ اسکا خدا حافظ کہنے کا انداز تھا۔۔ وہ اسکی جانب دیکھنے سے احتراظ برت رہی تھی سو بس سر جھکانے پر اکتفا کیا۔
ہایون کو نکلتے نکلتے یاد آیا تو مڑا۔ وہ جو اپنی جھونک میں سر جھکائے اسکئ پہچھے آرہی تھی ٹکراتے ٹکراتے بچی۔
یہ یون بن کی گاڑی کی چابی ہے دے دینا اسے۔
اسنے جیب سے چابی نکال کر اسے تھمائی
دے۔ اس نے سر نہ اٹھایا۔
ہایون کے نکلتے داخلی دروازہ لاک کرکے جب مڑی تو گوارا اور یون بن خراٹے بھر رہے تھے۔اس نے چابی سامنے میز پر رکھی۔ لائونج کی کیبنٹ سے کمبل نکال کر ان دونوں پر ڈالا۔ مڑ ی تو دل اچھل کر حلق میں آگیا۔
ہائے اللہ۔۔ اس نے فورا دل پر ہاتھ رکھا تھا۔
سامنے دروازے میں ہوپ سرخ آنکھیں لیئے گھور رہی تھی۔
ابھی مزید کوئی اس ویک اینڈ سوپ کی قسط آنی ہے یا میں اب سو جائوں؟
دے ؟
اتنی ہنگل آتی ہوتی تو کورین ہی ہوتی وہ۔ آنکھیں پھاڑیں۔ ہوپ نے چڑ کر اس بار اپنی بات کا انگریزی ترجمہ کیا۔
آنیا۔ اس نے نفی میں سر ہلایا۔
یہ آخری قسط تھئ۔
اس نے اپنی جانب سے تسلی دی تھی۔ مگر وہ گھورتی ہوئی پلٹی اور دھماکے سے دروازہ بند کیا۔
گوارا چونک کے اٹھی تھی۔
اوہ۔۔ اریزہ میری ناک باہر ہی رہ گئ ۔۔ وہ اب لڑکھڑاتی اٹھی اور دروازے کی جانب جانے لگی۔
اریزہ نے دانت کچکچا کر گھونسا بنا کر اس کمرے کے دروازے کو دکھایا جس میں ابھی ہوپ گھسی تھی ۔۔
آنیا۔ میں نے لگا دی ناک واپس گوارا۔
اس سے قبل گوارا دروازہ کھول کے باہر نکل جاتی وہ کہتی ہوئی فورا اسکے پیچھے بھاگئ۔ جوابا گوارا باہر جاتے جاتے رکی احساس تشکر سے اسکی جانب پھر جھک گئ۔
گوما وویو تم بہت اچھی ہو اریزہ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چہرے پر کالے نقاب چڑھائے بالوں پر کالے ہی پی کیپ۔
وہ تینوں ہاسٹل کی دیوار پرسے کود کر نیچے اترے تھے۔ کیمپس لان میں ہو کا عالم تھا۔ اونچے اونچے درخت ملگجا اندھیرا جھینگروں کی آوازیں۔مگر یہ وقت ان چیزوں پر غورکرنے کا نہیں تھا۔ہاسٹل کا داخلی دروازہ بند تھا۔کم سن نے ہلا جلا کر دیکھا بند تھا۔ حسب عادت سالک آگے بڑھ کر کارڈ سوائپ کرنے لگا تو کم سن نے اسکا بازو پکڑ کر پیچھے کیا
تمہیں کیا لگتا میرے پاس کارڈ نہیں۔ رات کے تین بجے کارڈ سوائپ کروگے تو کیا بچوگے تم؟ آخری بندہ کون داخل ہوا اسکا ریکارڈ بن جائے گا پھابو۔
اسکے ڈانٹنے پر سالک ہونق ہو کر پوچھنے لگا
پھر کیا کریں۔
کم سن اسے دیکھ کر رہ گیا۔
اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ پھر ہاسٹل کے پچھلے حصے کی جانب انہیں لیکر آیا۔ ایمرجنسی سیڑھیوں کے اختتام پر ممٹی سی بنی تھی وہاں رات گزاری جا سکتی تھی۔
مگر دروازے پر موٹا تازہ تالا تھا۔ تازہ اسلیئے کہ نیا نیا لگتا تھا۔
شاہزیب نے ادھر ادھر دیکھا پھر کیاری کے کنارے سے بڑا سا پتھر اٹھا کر لایا۔ اس سے قبل کے دروازے کے تالے پر پوری قوت سے مار کر توڑ ڈالتا کم سن نے جیب سے چابی نکالی اور تالا کھول دیا۔
دونوں منہ کھولے اسے دیکھ رہے تھے۔
کھاجا۔ کم سن نے مسکرا کر انکو آنے کا اشارہ کیا۔ چار منزلہ سیڑھیاں چڑھ کر ٹیرس سا تھا۔ وہاں ایک کونے میں پیٹی سی رکھی تھی۔ اس نے پیٹی سے تین کمبل نکالے ۔۔
واہ یہاں تو پورا انتظام ہے۔
سالک متاثر ہونے والے انداز میں بولا
یہ اضافی کمبل وغیرہ یہاں رکھے جاتے تھے ۔ یہ جگہ ہم نے اتفاقا دریافت کی تھی۔ ورنہ اب تو اضافی سامان کیلئے ہاسٹل میں علیحدہ اسٹور بن چکا ہے۔ یہاں تو کوئی آتا بھی نہیں۔۔۔۔میں یون بن اور اکثر ہایون بھی ہمارے ساتھ یہاں چل کرتا ہے۔ کم سن نے بتایا تو شاہزیب نے سر ہلایا۔
میرے ہاسٹل میں سالک اور ایڈون بھی اکثر ایسے دھاوا بولتے تھے۔ میرے کمرے میں ہر چیز تین کے حساب سے ہوتی تھی۔
ایڈون کو تم لوگوں کے ساتھ اتنا دیکھا تو نہیں ہے ایک لڑائی کے بعد دوستی ختم ہوگئ ہے تم لوگوں کی۔
کم سن ٹیرس کی ریلنگ سے کمر ٹکاکر سگریٹ سلگا رہا تھا
نہیں رویہ تو اسکا ٹھیک ہے ہمارے ساتھ بس وہ اب سنتھیا کو ذیادہ وقت دیتا ہے۔ دینا بھی چاہیئے۔ گرل فریںڈ ہے آخر۔
شاہزیب کا انداز سادہ سا تھا۔
ہممم۔ یون بن بھی اب ہمارے ساتھ کم گوارا کے ساتھ ذیادہ نظر آتا ہے۔
کم سن متفق تھا۔۔۔
ایک بات پوچھوں؟ سالک دیوار سے ٹیک لگائے کمبل اوڑھے سکون سے بیٹھا تھا۔
کم سن نے ابرو اچکا کر اسے دیکھا۔ یہ اشارہ تھا کہ کیا پوچھنا ہے؟
تمہیں گوارا کے بعد کوئی لڑکی پسند ںہیں آئی؟ میرا مطلب تم اتنے وجیہہ ہو یہاں اتنی پیاری لڑکیاں ہیں پھر ابھی تک سنگل کیوں ہو ؟
سالک نے سیدھا سوال کیا۔ کم سن ہنس پڑا۔
مجھے تو پسند آجائے گی اسے میں پسند کیسے آئوں گا ؟۔ نہ میں ہایون کی طرح کا امیرزادہ ہوں نہ یون بن کی طرح کھاتے پیتے گھر کا۔۔۔ اپنے اخراجات پورے کیسے کروں جس کا دماغ یہ سوچتا رہتا ہو وہ محبت کا کھڑاگ کیسے پال سکتا ہے۔
اسکے سوال میں دم تھا۔ سالک متفق ہو کر سر ہلانے لگا۔
صحیح کہہ رہے ہو۔
غلط کہہ رہے ہو۔
شاہزیب نے فورا نفی کی تھی۔ کم سن اور سالک دونوں نے حیران ہو کر اسے دیکھا۔
محبت کا کھڑاگ پالا نہیں جاتا محبت ہو جاتی ہے۔ اگر یہ اختیاری معاملہ ہوتا تو غریب ہمیشہ سوچتے رہ جاتے صرف امیر ہی محبت کیا کرتے۔ شاہزیب کا انداز فلسفیانہ تھا۔
ہاں اس بے چارے کے حالات تو تم سے بھی خراب پھر بھی محبت ہوگئ تھی اسے۔
سالک نے اسکا مزاق اڑایا تھا۔ شاہزیب نے پاس پڑا کمبل اٹھا کے اسکے منہ پر مارا تھا۔
بکواس کیے جا بس۔ وہ ہنسے گیا۔ شاہزیب کا منہ سرخ ہو رہا تھا۔۔
اچھا پھر کیا ہوا ۔۔۔
کم سن کو دلچسپی ہوئی۔
اسکا مزہب مختلف تھا۔ بلکہ مزہب نہیں فرقہ کہنا چاہییے۔ اس بے چارے کی ہمت بھی نہ ہوئی اسے پرپوز کرنے کی۔ ابا کا ڈنڈا ذیادہ خطرناک تھا۔ اسکے نزدیک۔
ابا کا ڈنڈا؟۔۔۔ کم سن بھونچکا سا ہوا۔
یہ لوگ با محاورہ انگریزی ترجمہ نہیں کیا کرتے تھے بس روز مرہ کی عام گفتگو کا جو ترجمہ بنے وہی چپکا دیتے پھر جو چل سو چل۔۔۔۔
ابھی بھی ابا کے ڈنڈے کو ابا کا ڈنڈا ہی کہا تھا انگریزی میں۔
میرا مطلب ہے ابا نے مار مار کر بھرکس بنا دینا تھا سخت مزہبی ہیں اسکے ابا۔
سالک نے وضاحت کی۔
والد نے تو شادی نہیں کرنی تھی۔
کم سن کو یہ منطق سمجھ نہ آئی۔
خیر اس لڑکی نے کونسا مان جانا تھا۔۔
شاہزیب نے گہری سانس لیکر کہا۔
بس اتنی آہیں نہ بھر ۔۔۔۔پہوا کچھ ذیادہ ہی خنک لگنے لگی ہے
سالک کو اپنے مزاق پر افسوس بھی ہوا خوامخواہ اسے اداس کردیا۔ شاہزیب اسکے کندھے پر سر رکھ کر دراز ہو گیا تھا۔ اب اگر ہمدردی مل رہی تھی تو کیوں نہ پرسکون ہو کر سو ہی جایا جائے۔سالک اب اس پر کمبل ڈال رہا تھا۔
کم سن نے کندھے اچکا کر رخ بدل لیا۔
ان لوگوں کو تو آپس میں جتنی انسیت ہے انکو گرل فرینڈ ملنی بھئ نہیں ہے۔۔
یہ اسکا خیال تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو اللہ کی وحدانیت پر یقین نہیں لائے وہ کفر کی حالت میں ہی انتقال کر گئے۔ جس نے زندگی بھر اللہ کو نہ پہچانا اسکے لیئے مرنے کے بعد بخشش کی دعا کرنا نہ کرنا بے معنی ہے۔۔
وہ ان عالم دین کے پاس اپنی ماں کے ایصال ثواب کے لیئے اپنائے گئے طریقے کے بارے میں پوچھنے آیا تھا۔۔آخر کیا طریقہ اختیار کرے؟ مگر انکا جواب مفصل اور توقع کے برخلاف تھا۔اس وقت وہ اپنے گھر کے بڑے سے کمرے میں بیٹھے تھے۔ اس جیسے کئ نو مسلم اور دیگر ممالک کے مسلم طلباء انکا لیکچر لینے آئے تھے۔ فرشی نشستوں پر ایک علمی مجلس جاری تھی۔۔ ایک بندہ سوال کرتا ۔ سب خاموشی سے سنتے تھے۔ اب اسکی باری تھی اپنے ذہن سے سب شکوک و شبہات دور کرنے کی۔
وہ دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پھنسائے ہونٹ بھینچے انکے سامنے بیٹھا ضبط کے کڑے مرحلے سے گزر رہا تھا۔
اللہ نے اپنے رسول ص کو سرکش کافروں کیلئے دعا کرنے سے بھی منع کیا تھا۔ انکو جہنم کا عزاب دیا ہی جانا ہے اسکو ٹالا نہیں جا سکتا۔ تمہاری ماں تمہارے لیئے بے حد عزیز سہی مگر چونکہ کفر کی حالت میں دنیا سے گئ ہے اسکے لیئے تم چاہے قرآن بخشو یا کچھ بھی اس تک اسکا ثواب نہیں پہنچے گا۔۔۔ ان مفتی صاحب نے رسان سے سمجھایا تھا۔
مگر میں اپنی بیوی کیلئے بھی فاتحہ خوانی کرواتا رہا ہوں۔
اس نے صفائی دینی چاہی۔
تمہاری بیوی مسلمان تھی؟
انہوں نے الٹا سوال کیا۔ اس نے دھیرے سے نفی میں سر ہلادیا
یہی معاملہ اسکے ساتھ بھی ہے۔
انہوں نے لگی لپٹی رکھے بنا کہا۔ وہ مایوس سا ہو کر اٹھا آیا۔
عبد الھادی اسکا گھر کے باہر انتظار کر رہے تھے۔
وہ خاموشی سے پسنجر سیٹ پر آن بیٹھا۔
وہ گاڑی اسٹارٹ کرنے کی بجائے رخ موڑ کر اسے تکنے لگے۔ وہ بے حد مایوس اور آزردہ نظر آرہا تھا۔
کیا کہا انہوں نے؟
وہ پوچھے بنا نہ رہ سکے۔ اس نے جوابا آہ بھری او رنشست کی پشت سے سر ٹکا لیا۔
کہتے ہیں کوئی فائدہ نہیں انکے ایصال ثواب کیلئے کچھ بھی کرنے کا۔ آپ غلط تھے۔ مجھے رچل کیلئے بھی فاتحہ خوانی نہیں کرانی چاہیئے تھی۔
عبدالھادی گہری سانس لیکر سیدھے ہو بیٹھے۔
جب میں بڈھسٹ تھا تو مجھے ایک امید ہوتی تھی اس زندگی میں کچھ برا ہوا بھی تو میں دوبارہ دنیا میں آئوں گا۔ یہ نہ سہی اگلی زندگی اچھی ہوگی اچھے اعمال کروں گا تو میرے ساتھ اچھا ہوگا برا کروں گا تو برا۔ اسلام نے تو مجھ سے یہ امید ہی چھین لی ہے کہ شائد میں دوبارہ کبھی ہمیشہ کیلئے بچھڑ جانے والے اپنے پیاروں کو دوبارہ دیکھ بھی پائوں گا۔
تلخی سے کہتے اسکی آواز ڈوبتی سی گئ۔ اس نے چند لمحے ہونٹ بھینچ کر خود پر قابو پانے کی کوشش کی پھر مڑ کر ان سے پوچھنے لگا۔
میری ماں جہنم میں جائے گی میری بیوی بھی۔ میرا عقیدہ ہے کہ میں اپنے ہر گناہ کی سزا پاکر بھی اپنے ایمان کی وجہ سے جنت میں جائوں گا۔ تومیں ان دونوں سے تو ہمیشہ کیلئے بچھڑ گیا نا ؟میں تو انکے لیئے دعا بھئ نہیں کر سکتا۔ ۔۔۔۔ مجھے اجازت نہیں۔۔۔
عبد الھادی نے خاموشی سے سامنے دیکھتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کر دئ۔ گاڑی کو پہلے تھوڑا سا پیچھے کیا پھر گاڑی سیدھی کرکے دائیں جانب موڑ کر سڑک پر لے آئے۔۔۔۔۔
دنیا میں ہمیں سب سوال ہاں یا نہیں میں نہیں ملتے۔ کبھی کبھی سوچ کا زاویہ موڑنا پڑتا ہے تھوڑی لچک دکھانی پڑتی ہے۔ وہ زرا سا رکے۔۔ علی بے تاثر چہرہ لیئے سامنے سڑک پر نگاہ جمائے تھا۔ وہ اندازہ نہ لگا سکے کہ وہ سن رہا ہے کہ نہیں۔۔ انہوں نے اپنی بات جاری رکھی۔۔
کیوں؟ کیونکہ اللہ ہمیں خود سے اچھی امید رکھنے کا کہتا ہے۔ کہتا ہے دعا مانگو میں تقدیر بدلنے پر قادر ہوں۔
امید اور دعا ایک مسلمان کی زندگی کا بہترین اثاثہ ہوتے ہیں۔
نا امیدی تو کفر ہے بیٹا۔۔۔ اللہ بہت بے نیاز ہے۔۔۔ کیا خبر وہ تمہاری دعائیں تمہاری ماں کے حق میں قبول لےکیا خبر تمہارا دعائیں مانگنا خدا کو اتنا پسند آئے کہ وہ تمہیں وہ سب دے دے جو تم مانگو۔ حقوق اللہ تو اللہ کا معاملہ ہیں۔ اس سے کیا بعید کہ معاف کردے۔ تم اس امید پر عمل جاری رکھو صلہ اللہ کی مرضی۔
وہ کندھے اچکاکر بولے۔
مفتی صاحب کہتے ہیں کافروں کیلئے دعا کرنے کیلئے اللہ نے رسول ص کو منع کیا تھا۔
وہ بے چین سا ہوا۔۔
بے شک۔ مگر وہ اللہ اور رسول ص کا معاملہ تھا۔ جن سرکش کافروں کیلئے ہدایت کی دعا کیلئے منع کیا گیا تھا انہوں نے سرکشی اور ایزا رسانئ کی ہر حد پار کی تھئ۔۔۔۔ان جیسے تو مسلمان بھی ہو سکتے ہیں جو نام کے مسلمان ہوں منافق ہوں دل کہیں جھکتے ہوں زبان کچھ اور کہتی ہو جنہوں نے دنیا میں انسانوں کو بانٹ رکھا ہو فساد مچا رکھا ہو انکے قول فعل میں تضاد ہو جو کافر نہ سہی منافق ہوں۔ اور کافر اور منافق جہنم میں سب سے نچلے درجے پر اکٹھے کر دیئے جائیں گے۔ ایسے مسلمان اور کافر میں فرق ہے بھی تو کیا فائدہ؟ اسی طرح دنیا میں کوئی ایسے بھی کافر ہوں گے جن سے لوگوں کو فیض پہنچا جن کے لیئے کسی کے دل سے دعا نکلی ہو جن کا ایک عمل انکے لیئے صدقہ جاریہ بن گیا ہو جن کی اپنی بندوں پر رحم کرنے کی عادت اللہ کو اتنا خوش کردے کہ وہ ان پر رحم کردے انہیں جہنم کا ایندھن نہ بنائے۔
قیامت تک کی مہلت ہم سب کو دی گئ ہے۔ اگر ہاں اور نہیں پر جہنم دوزخ کا فیصلہ ہونا ہوتا تو قیامت کا انتظار کیوں سیدھا مرنے کے بعد دوزخ یا جنت میں کیوں نہیں پہنچا دیئے جاتے ؟ اسی لیئے کہ شائدکسی کاایسا کوئی ایسا عمل ہو جو قیامت تک ثواب کا سلسلہ جاری رہے اور اسکے گناہوں کا پلڑا ہلکا پڑ جائے۔
وہ جو کہنا چاہ رہے تھے انہیں علی کی شکل دیکھ کر اندازہ نہیں ہوپایا کہ وہ اپنی بات سمجھانے میں کامیاب ہوئے ہیں یا نہیں۔ سو مزید کچھ بھی کہنے کا ارادہ ترک کردیا۔ علی خاموشی سے سامنے دیکھ رہا تھا۔ سامنے سیدھی سڑک تھی۔
مگر سیدھی سڑک پر کب کہاں سے کوئی رکاوٹ آجائے کیا خبر تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد۔۔
جاری ہے

Kesi lagi apko Salam Korea ki qist ?Rate us below

Rating

سلام دوستو۔کیا آپ سب بھی کورین فین فکشن پڑھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں؟
کیا خیال ہے اردو فین فکشن پڑھنا چاہیں گے؟
آج آپکو بتاتی ہوں پاکستانی فین فکشن کے بارے میں۔ نام ہے Desi Kimchi ..
دیسئ کمچی آٹھ لڑکیوں کی کہانی ہے جو کوریا میں تعلیم حاصل کرنے گئیں اور وہاں انہیں ہوا مزیدار تجربہ۔۔کوریا کی ثقافت اور بودوباش کا پاکستانی ماحول سے موازنہ اور کوریا کے سفر کی دلچسپ روداد
پڑھ کر بتائیے گا کیسا لگا۔ اگلی قسط کا لنک ہر قسط کے اختتام میں موجود یے۔۔

“>> » Home » Urdu Novels » Salam Korea » Salam Korea Episode 18

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *