Salam Korea
by Vaiza Zaidi
قسط 22
میں واپس پاکستان جا رہا ہوں۔۔۔۔
وہ سر جھکائے اپنے کمرے میں داخل ہوا تھا ادھر ادھر دیکھے بنا سیدھا اپنے بیڈ پر اوندھا جا لیٹا تھا۔ سالک نماز پڑھ رہا تھا وہ اسکے آگے سے ہی گزر کر آگیا تھا۔ سالک نے سلام پھیر کر اسے بتایا تھا۔ پھر جاء نماز تہہ کرکے دراز کھول کر اس میں ڈال لی۔
اس نے یہ پورٹ ایبل جاء نماز کے بارے میں سداکو سے سنا تھا۔جاپانی مسلمان ایک پانی کا اثر نا محسوس کرنے والی جاء نماز جیب میں لیئے پھرتے ہیں اور جب جہاں نماز کا وقت ہو صرف وضو کیلئے پانی ڈھونڈنا پڑتا تھا کہیں بھی پاک جگہ بچھا کر نماز پڑھ لی۔
ایڈون پر مطلق اثر نہ ہوا۔ یون بن اپنے بیڈ پر لیٹا لیپ ٹاپ میں کچھ دیکھ رہا تھا۔سالک نے گہری سانس لی اس بار قریب آکر ایڈون کو ذرا سا ہلا کر متوجہ کیا۔ وہ بازو میں منہ چھپائے تھا۔۔ سر اٹھا کر گھورنے لگا۔۔
اس کی سرخ سرخ سی آنکھیں دیکھ کر سالک کو یہی لگا پھر پی آیا ہے سو فورا پیچھے ہوا۔۔
پی نہیں ہے میں نے۔
وہ اکھڑ سے انداز میں ہی بولا۔
اور کل تک تو بڑے دعوے تھے یہاں رہ کر محنت مزدوری کروں گا پڑھائی کا خرچہ خود نکال لوں گا اب کیا ہوا؟
وہ اٹھ بیٹھا۔
یہاں چار سال لگیں گے واپس جائوں گا تو دو سال میں ڈگری مکمل ہوگی۔ بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے۔
سالک رسان سے کہتا اپنے بیڈ پر آن بیٹھا۔
اور شاہزیب؟
وہ بھی واپسی کا سوچ رہا ہے۔ تم بتائو تم نے کیا فیصلہ کیا؟ ہم تو اسی ہفتے واپس جا رہے ہیں کم از کم وہاں جا کے امتحان تو دے سکیں گے۔ سنتھیا نے بھی واپس جانا ہو تو بتا دو تینوں اکٹھے کی فلائٹ لے۔۔۔
وہ نہیں جا ئے گی ۔۔۔۔۔ وہ تیزی سے بات کاٹ کر بولا۔
وہ تو کہہ رہی تھی کہ واپس جانا چاہتی ہے۔
سالک نے یونہی کہا تھا۔۔ مگر ایڈون بھڑک گیا۔۔
اب نہیں جا نا چاہتی تم کیا زبردستی ساتھ لیکر جائوگے؟
نہیں۔۔ سالک گڑبڑا سا گیا۔
سوری۔ ایڈون نے اپنے پیشانی مسلتے معزرت کی۔
اسکی پریشانی اسکے چہرے سے ہویدا تھئ۔
کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے نا؟
سالک نے دلگیری سے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا۔۔
آنیا۔۔۔۔کین چھنا۔۔۔۔ میرا مطلب نہیں۔۔ ٹھیک ہے سب۔
وہ روانی میں ہنگل میں کہہ بیٹھا پھر تصحیح کی۔
دیکھا تم بھی روانی میں ہنگل بولنے پر آگئے۔۔ ہم کورین اپنا رنگ چڑھا ہی دیتے ہیں۔۔
یون بن نے ہنس کر مزا لیا تھا۔ دونوں مستقل اردو میں بول رہے تھے سو وہ بےدھیان تھا مگر اپنی مادری زبان کا لفظ بلکہ جملہ چونکا ہی گیا اسے۔۔
مطلب؟ ایڈون نے تیوری چڑھائی۔رواں انگریزی میں بولا۔
کیا اثر ڈالا ہے تم لوگوں نے مجھ پر؟
تم پر ہی نہیں ہم سب پر اثر ڈالتے ہیں۔ایک دنیا کورین ڈراموں کی پرستارہے لوگ شوقیہ ہنگل سیکھتے ہیں اور کوریا تو جو آئے اسے سیکھنی پڑہی جاتی تم لوگوں کی طرح یہاں انگریزی نا ہونے کے برابر ہی استعمال ہوتی ہے۔
اسکا انداز سادہ تھا مگر خاصے فخرسے بتا رہا تھا۔
پتہ ہے چین میں ہنبق شوق سے پہنے جانے لگے ہیں خاص کوریا کے بنے ہوئے ایکسپورٹ ہوتے ہیں حالانکہ انکا روائتی مشرقی لباس ذرا سا مختلف ہے کڑھائی اور رنگوں کے اعتبار سے۔۔
خود تمہیں تو کبھی روائتی لباس پہنے نہ دیکھا۔
سالک نے فورا ٹوکا۔ وہ نماز ہمیشہ لباس بدل کر شلوار قمیض میں ہی پڑھتا تھا۔ابھی بھی اسی میں ملبوس تھا۔
یار ہنبق بڑا مہنگا لباس ہے اور غیر آرام دہ بھی۔ اف سوچ کے حیرا نی ہوتی اتنے پرتوں والا موٹا ریشمی لباس کیسے پہنتے تھے پرانے زمانے میں۔ وہ لیپ ٹاپ بند کرکے ایک طرف رکھتا انگڑائی لیتا بیڈ سے اترا۔۔رخ باتھ روم کی جانب تھا۔۔ وہ کافی دیر سے زبانی امتحان کی تیاری ہی کر رہا تھا ۔۔
کچھ پڑھ بھی لو ہمارا تو بیڑا غرق ہوگیا تمہارے تو امتحان چل رہے ہیں نا۔
سالک نے ٹوک ہی دیا۔ اس وقت فارغ پھرتے سب ہی زہر لگ رہے تھے۔
پڑھ ہی تو رہا تھا۔وہ حیران ہوا۔
لیپ ٹاپ میں۔سالک اس سے زیادہ حیران ہوا۔
ہاں۔ ساری تیاری انٹرنیٹ سے کرتا ہوں دو درجن کتابیں پڑھنے کی بجائے مخصوص ٹاپکس پر آرام سے اہم مواد مل جاتا ہے۔ انٹرنیٹ ایج ہے دوست اب کتابوں کا زمانہ گیا۔
وہ واقعی ایک ترقی یافتہ ملک کا باشندہ تھا۔
ہم انٹرنیٹ پر بھروسہ نہیں کر سکتے اس پر بھروسہ کر بھی لیں تو بجلی پر بھروسہ نہیں کرسکتے۔ اس پر بھروسہ کر لیں تو جو لیپ ٹاپ نصیب ہوتا ہے ہمیں وہ۔۔
سالک جوش سے خطاب ہی کرنے لگا تھا
چپ کرو سالک۔ ہر وقت بولتے رہتے ہو دماغ خراب کر دیا۔
ایڈون ایکدم سے چلایا ۔۔ وہ دونوں چپ ہو کر دیکھنے لگے اسے۔
کیا کہا اس نے۔ یون بن نے اشارے سے پوچھا۔۔
کیا ہو گیا ہے ایڈون ۔۔۔۔۔پریشان ہو
سالک برا ماننے کی بجائے الٹا فکرمند سا پوچھ رہا تھا۔
پاگل ہو گیا ہوں۔ وہ کھسیا کر پیر پٹختا دونوں کے بیچ سے ہو کر باتھ روم میں گھس گیا۔
اے میں جا رہا تھا۔
بیچارہ یون بن پیچھے سے پکار کر رہ گیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح اسکی معمول کے مطابق ہی آنکھ کھلی تھی۔۔
اٹھ کر اس نے پہلے ہوپ کو دیکھا رات جس کروٹ سوئی تھی اسی کروٹ پڑی تھی گڑبڑا کر اسکی ناک کے آگے انگلی رکھ کر تسلی کی کہ سانس چل رہی ۔۔ پٹ آنکھیں کھول کر ہوپ نے گھورا تھا۔۔
ہائش۔۔ اسکے گھورنے پر گوارا بھنا کر رہ گئ۔۔
اپنے اوپر سے کمبل ہٹاتی مسہری سے اتری۔۔
دروازے کی چوکھٹ میں کھڑے ہو کر لائونج میں جھانکا تو کم سن لائونج کے صوفے پر کمبل میں سکڑا پڑا تھا۔۔
تین لوگوں کا ناشتہ بنانا پڑے گا ۔۔
اس نے بیزاری سے سر کھجایا
تبھی اپنے پیچھے آہٹ ہوئی ہوپ غسل خانے کا دروازہ کھول رہی تھئ۔
اے رکو میں پہلے جائوں گی ۔۔ گوارا چیخی۔۔
ہوپ نے بے زاری سے اسے دیکھا اور غڑاپ سے دروازہ کھول کر گھس گئ ۔۔
آہش۔۔ گوارا بلبلا کر دوڑی تبھی داخلی دروازے کی گھنٹی بج اٹھی۔۔
آہش۔ دانت کچکچاتی دروازہ پکڑ کر بے بسی سے غسل خانے کے بند دروازے کو دیکھتی رہی۔
تبھی دوبارہ اطلاعی گھنٹی بج اٹھی۔۔
صبح صبح کون آگیا۔ کم سن بھی کمبل کی قبر سے کسمسا کر نمودار ہوا ۔
اب گوارا کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔۔ صبر سے کام لیتی دروازہ کھولنے چلی آئی۔۔
بنا حفاظتی بین میں دیکھے دروازہ کھول ڈالا۔۔
دنیا کے کسی انسان کو اسوقت دیکھ کر اسے خوشی نہ ہوتی جتنی ابھی نواردکو دیکھ کر ہوئی تھی۔۔
اریزہ شا۔۔
وہ بھاگ کر اس سے لپٹ گئ۔۔
اریزہ بھونچکا رہ گئ تھی تو کم سن اور ہایون بھی منہ کھولے اسکی بے تابی دیکھ رہے تھے
اس نے چٹا چٹ گال چوم لیے۔۔
کہاں رہ گئیں تھیں میں نے اتنا یاد کیا۔۔
وہ دوبارہ اسکے گلے لگ گئ تھئ
پوگو شپو؟۔۔ اریزہ نے سوالیہ نظروں سے ہایون کو دیکھا۔۔
تم تم اسے یاد کر رہی تھیں یقینا کوئی کام ہوگا ؟
ہایون نے جزباتی گوارا کی لگاتار بولی جانے والی ہنگل کا ترجمہ کرنے کی بجائے سیدھا اسی سے پوچھ لیا۔۔
گوارا نے گھور کر دیکھا پھر سیدھی ہوئی۔۔
تم نے ناشتہ تو نہیں کیا ہوگا۔۔ چلو آج ہم پاکستانی ناشتہ کرتے ہیں۔۔ تمہارے ہاتھ کے پراٹھے کھائے بہت دن ہو گئے۔۔
اسکی چالاکی پر ہایون اور کمسن بھونچکا رہ گئے تو اریزہ نہال ہو چلی۔۔
ہم تو ناشتہ کر کے آئے ہیں میں تمہارے لیئے جھٹ پٹ بنا دیتی ہوں۔۔
اس نے مسکرا کر بتایا تو گوارا جیسے دوبارہ جی اٹھی۔۔
ہایون سر جھٹکتا اریزہ کا بیگ گھسیٹتا اندر لے آیا۔۔
اریزہ وقت ضائع کیئے بنا سیدھا باورچی خانے کی جانب بڑھی۔
ہوپ اٹھ گئ۔۔۔
کم سن نے یونہی پوچھا تھا مگر گوارا نے ٹھیک ٹھاک گھور ڈالا۔۔
وہ کھسیا کر کان دباتا اٹھ کر کمبل تہہ کرنے لگا۔۔ ہایون اسکا بیگ کمرے میں رکھ کر اریزہ کے پاس چلا آیا۔۔
میں کوئی مدد کرائوں۔۔؟۔۔
اریزہ پیاز کآٹتے چونکی۔۔
نہیں۔۔ ٹھیک ہے۔۔ بس پیاز ہی کاٹنی تھی۔۔
اسکی آنکھیں جل رہی تھی۔۔ سرخ ناک آنکھوں میں آنسو۔۔ دگرگوں حالت کے ساتھ بھی مسکرا کر منع کر رہی تھی
لائو دو مجھے۔۔ ہایون نے اسکے ہاتھ سے چھری لے لی۔
اریزہ نے جھینپ کر ہاتھ فورا پیچھے کیا مگر ہایون لاپروا سا تھا۔۔
آرام سے اسکے ہاتھ سے پیاز چھری لے کر ماربل سلیب پر ایک کونے میں ٹک کر تندہی سے پیاز کاٹنے لگا۔۔ وہ کسی ماہر خانساماں کی طرح کھٹ کھٹ چھری چلا رہا تھا۔
اریزہ نے متاثر ہو جانے والے انداز میں اسکی تیزی کو دیکھا۔
آٹا گندھا ہوا نہیں تھا۔۔ اس نے ایک پیالے میں نکال کر گوندھنا شروع کیا ۔۔
یہ کیا کر رہی ہو۔۔ یہ کم سن تھا اسے دیکھ کر حیرانی سے پوچھ رہا تھا۔۔
آٹا گوندھ رہی اس سے پراٹھا بنائوں گی کھائو گے تم بھی؟۔۔ ۔اس نے مصروف سے انداز میں کہہ کر دوبارہ مکیاں لگائیں۔۔
وائو۔۔ ہاں کھائوں گا میں بھی۔۔
یہ تو پریشانی سے نجات دینے والی ترکیب ہے۔۔ غصہ آئے تو آٹا گوندھ لو خیالی مکے مارو غصہ ٹھنڈا پڑے تو آرام سے پیٹ بھر کر کھائو بھی۔۔ وہ ہنس کر کہہ رہا تھا
یہ تو ہمیں کبھی خیال ہی نہ آیا۔۔ مکے لگاتی اریزہ کے ہاتھ رکے۔۔
پھر جیسے بجلی ہی بھر گئ ہو اس میں۔۔
ہایون اور کم سن منہ کھولے اسے دیکھ رہے تھے۔۔
وہ آرام سے مکے لگا کر فارغ ہوئی تو مزاج بھی مزید بہتر ہو چکا تھا۔۔
ناشتہ بنا کر اس نے اہتمام سے میز پر چنا ہایون اور کم سن اسکے ساتھ ساتھ لگے رہے وہ پراٹھے ڈالتی تو ہایون آملیٹ بنا رہا تھا کم سن نے میز پر دیگر ناشتے کا سامان چن دیا تھا
ہوپ اور گوارا میز پر ناشتے کے انتظار میں انکی کارکردگی ملاحظہ کرتی رہیں۔۔ ۔گھی میں تر بتر پراٹھا اور انڈہ جہاں گوارا نے شوق سے نوالہ بنایا وہاں ہوپ جھجکی اور کم سن مدد طلب نظروں سے ہایون کو دیکھ کر رہ گیا۔۔ اسکی حالت ہایون کو محظوظ کر گئ کھل کر ہنس دیا۔۔
کیا ہوا۔۔ پانی رکھتی اریزہ مڑ کر دیکھنے لگی۔
کم سن کو اچھا لگا ناشتہ۔۔ وہ بھی مستی کے موڈ میں تھا
واقعی۔۔ اریزہ اشتیاق سے اسے دیکھنے لگی۔۔ ۔
ہاں۔۔ وہ گڑبڑا کر جلدی سے نوالہ منہ میں رکھ گیا۔۔
میں اور بنائوں پراٹھا؟۔ اریزہ نے پوچھا تو ہوپ اور کم سن اکٹھے ہی بول پڑے
آنیو۔۔ نہیں۔۔ کافی ہے۔۔
گوارا اور ہایون کھلکھلا کر ہنسے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
.” “Motherhood: All love begins and ends there.”
وہ ایک بے حد پیاری ماں بیٹے کی ویڈیو تھی بچہ گھٹنیوں چلتا ہمک ہمک کر ماں کو بلا رہا تھا ماں خود آگے بڑھنے کی بجائے اسکے سے کچھ فاصلے پربیٹھی اسکو بلا رہی تھی۔ بچہ نے جیسے ہی رونے والا منہ بنایا اس نے لپک کر گود میں اٹھا لیا۔
شئیر کا بٹن دباکر اس نے پہلے کیپشن لکھا۔۔
ایک اسٹیٹس شئیر ہو چکا تھا۔ دوسرا ایک بے حد پیارےانگریز آٹھ نو ماہ کے بچے کی تصویر اپلوڈ کی جس پرعنوان میں بڑا بڑا لکھا تھا۔۔
“Children are the anchors that hold a mother to life.
وہ اپنے بستر پر لیٹی موبائل استعمال کر رہی تھی جب ایڈون کی کال آئی۔ چند لمحے اسکرین کو دیکھنے کے بعد ہونٹوں پر آئی مسکراہٹ دباتے اس نے کال ریسیو کی۔
کیا کر رہی ہو؟
ایڈون کی گمبھیر آواز وہ ایکدم الرٹ سی ہوئی
کچھ نہیں فیس بک پر اسٹیٹس ۔۔۔
وہی دیکھ رہا ہوں ۔۔۔ ایڈون نے بات کاٹ دی۔
تم کیا ساری دنیا کو بتانا چاہتی ہو کہ تم۔ وہ بری طرح بگڑا تھا۔۔۔
اس کو تپتے دیکھ کر اسکے جلتے دل کو قرار سا آیا۔۔ جتا کر بولی۔۔
میں ساری دنیا سے زیادہ دیر چھپا بھی نہیں سکتی۔
ایڈون چند لمحے چپ رہ گیا پھر سنجیدگی سے بولا۔
باہر آئو۔
کیوں۔ وہ کہتے کہتے رک سی گئ
اچھا۔۔ اس نے مزید بات نہ کی فون ہی بند کردیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دس منٹ بعد وہ باہر آئی تو ایڈون گیٹ کے پاس ہی کھڑا تھا۔
بے چینئ اسکے انداز سے مترشح تھی۔
فکر تو ہے میری۔ اسکے اندر اطمینان کی لہر سی دوڑی۔
وہ تیز تیز قدم اٹھاتئ اسکے پاس آکھڑی ہوئی۔
میں نے ٹیکسی منگوائی ہے آتی ہوگئ۔۔
نا سلام نہ دعا اسے دیکھ رک چھوٹتے ہی بتایا۔اسکا منہ بن گیا۔
کہاں جانا ہے؟
اسپتال اور کہاں۔ ایڈون کا جواب نپا تلا تھا۔
کیوں۔ وہ بدکی۔۔
کیوں کا کیا مطلب۔ جوابا وہ تیوری چڑھا کر بولا۔
اسپتال جا کر مکمل چیک اپ کروائو اور کیا۔
اسکا انداز ہرگز بھی فکر کرنے والا نہیں تھا۔ سنتھیا سناٹے میں آگئ۔
مکمل چیک اپ کے بعد ہی فیصلہ ہوسکے گا نا آگے کیا کرنا۔۔
اس نے کوشش سے اپنے لہجے کو مدھم کیا مگر انداز ہنوز ہی تھا۔ بیزار سا۔۔
تمہیں میری بات کا یقین نہیں؟
وہ صدمے سے چور لہجے میں بولی۔
تم نے وہ گولیاں استعمال نہیں کی تھی نا جو میں نے لا کر دی تھیں۔
ایڈون کا انداز تفتئشئ سا تھا۔
کتنی بار کہوں کی تھیں ۔مستقل استعمال سے بیمار بھی ہوگئ تھئ کبھی احساس ہوا تمہیں میرا؟
سنتھیا چڑ گئ۔
تھوڑی بہت تو ہوتی ہے طبیعت اوپر نیچے تم نے یقینا کھانئ چھوڑی تھیں تبھی تو یہ مسلئہ کھڑا ہوا ہے نا۔۔
وہ اپنی بات پر قائم تھا۔
وہ اسے تاسف سے دیکھ کر رہ گئ۔
یہ مسلئہ نہیں بچہ ہے ہمارا۔ ہمارے پیا۔۔۔۔
او شٹ اپ۔ یہ اسٹار پلس والے ڈائلاگ نہ دہرانا میرے سامنے۔ فی الحال میں شدید پریشان ہوں۔ اس مصیبت سے کیسے نکلنا اسکو بھئ مجھے ہی دیکھنا ہوگا۔
وہ سامنے سے آتی ٹیکسی دیکھ کر بڑبڑاتا ڈرائیور کو ہاتھ ہلانےلگا۔۔
اب آئو بھی۔ چند قدم بعد اسے احساس ہوا کہ وہ اپنی جگہ سے ہلی بھی نہیں ہے تو جھنجھلا کر ٹوکا۔ وہ ضبط کرتی اسکے پیچھے چلی آئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یون بن اور گوارا کا کہیں جانے کا پروگرام تھا۔یون بن اسے لینے آیا تو کم سن نے بھی اجازت چاہی تھی اسکو لگا تھا ہایون بھی چلتا بنے گا مگر خلاف توقع وہ آرام سے انکو رخصت کرتا جانے ہنگل میں انکو کیا کہتا کیا سنتا دروازہ بند کرکے واپس چلا آیا۔۔
وہ حسب عادت برتن سمیٹ رہی تھی۔ احتیاط سے سب سمیٹ کر سنک میں ڈالے تو ہایون اسکے پاس آگیا۔۔
لائو میں کرتا ہوں۔۔ اس نے سہولت سے گلوز اٹھا کر پہنے
میں کر لوں گئ رہنے دو مدد کی ضرورت نہیں۔۔
اسکے سب جملے اس نے ایک کان سے سنے دوسرے سے نکالے اریزہ ٹھنڈی سانس بھر کر ہٹ گئ۔۔ اسے برتن دھوتے چھوڑ کر کمرے میں جا بیٹھنا بھی بد اخلاقی ہوتی سو وہیں کائونٹر کے پاس اسٹول گھسیٹ کر بیٹھ گئ۔۔
ہلکی گلابی ٹی شرٹ بلو جینز میں ملبوس کالے ایپرن کو کمر سے باندھے وہ بہت تندہی سے برتن دھو رہا تھا۔۔ اس کا ارادہ تو نہیں تھا مگر بڑی جانفشانی سے اسکا جائزہ لے ڈالا۔ گوری چٹی رنگت کلین شیو میں کیا کسی لڑکی کی نازک جلد ہوگئ جو اسکی لگ رہی تھئ۔ اسکے بال بھی بہت خوبصورت سے تھے وہ بھی شہد رنگ کے۔ عموما کوریائی لوگوں کے بال کالے ہوتے ہیں مگر اسکے نہیں تھے اب اگر ڈائی کیئے تھے تو حیرت کی بات نہیں تھی کوریا میں لڑکے بھی اپنی ظاہری شخصیت نکھارنے پر خوب توجہ دیتے تھے۔ اسکی نظریں ہایون کو اپنی پشت پر محسوس ہوئی تھیں سو اس نے پلٹ کر اچٹتی سی نگاہ ڈالی وہ واقعی متوجہ تھی۔
یہاں تمہیں ٹھنڈ لگنئ شروع نہیں ہوئی؟
ہایون نے گردن موڑ کر یکدم ہی پوچھا۔۔
کہنیاں کائونٹر پر ٹکائے ہتھیلی پر تھوڑی جمائے وہ اتنے انہماک سے ملاحظہ کر رہی تھی کہ بری طرح گڑبڑا گئ
ہاں نہیں۔۔ ہاں وہ میرا ارادہ ہے شاپنگ پر جانے کا۔۔
وہ یونہی پہلو بدل کر بلا وجہ کائونڑ کی چیزیں چھیڑنے لگی۔۔
ہایون کے چہرے پر بڑی خوبصورت محظوظ مسکراہٹ در آئی۔۔
تم لوگ سردیوں میں بھی اپنا روائتی لباس ہی پہنتی ہو؟۔
وہ برتنوں کو نتھار تے ہوئے بے نیازی سے پوچھ رہا تھا
ہاں ہم لوگ روائتئ ہی لباس زیادہ پہنتے ہیں۔
اریزہ کی خفت زائل تو نہیں ہوئی تھی مگر کب تک شرمندہ رہ سکتی تھی سو سنبھل کر جواب دیا۔
پھر بھی تمہیں یہاں کی سردیوں کیلئے خریداری کرنی پڑے گی۔ گرم کوٹ وغیرہ
ہایون نے کہا تو وہ کچھوے کی طرح گردن لمبی کر کے بیٹھ گئ
وہ تو مجھے بھی پتہ مگر پیسے بھی تو ہوں۔وہ حسب عادت اردو میں بڑبڑائی
تم پاکستان میں جاب کرتی تھیں؟
ہایون کو اسکے جواب میں دلچسپی تو بہت تھی مگر اسکا انگریزی ترجمہ کرنے کا ارادہ نہ دیکھ کر دوسرا سوال داغ دیا
نہیں۔ اس نے کندھے اچکائے۔
کبھی ضرورت نہیں پڑی ۔ پاپا نے کافی اچھا جیب خرچ دیا ہمیشہ۔۔ اسکے لاپروا انداز پر وہ مسکرا دیا
کافی امیر ہوگی پھر تم۔ میرے پاپا مجھے اچھا جیب خرچ دیتے تھے ہمیشہ اور اس بات پر میں ہمیشہ بلنگ (bullying) کا شکار رہا۔ میرے دوست مجھ پر نہ صرف رشک کرتے تھے بلکہ ٹھیک ٹھاک بے عزت بھی کرتے آئے ہیں۔ ہڈ حرام کہتے تھے مجھے
کیوں۔ اریزہ نے آنکھیں پھیلائیں۔۔
یہ کہ میں باپ کے پیسے پر عیش کرتا ہوں خود کچھ نہیں کرتا۔ آج اپنے جیسی لڑکی کے بارے میں جان کر اچھا لگا
وہ شرارت سے مسکرایا۔ اریزہ ہنس دی
اس لحاظ سے تو ہر پاکستانی لڑکی ہی ہڈ حرام ہوئی۔۔
ہم لڑکیاں خاص طور سے پیرا سائٹ جیسئ زندگی گزارتی ہیں پاکستان میں۔ کھانا پینا پڑھائی اور پھر شادی سب والدین کی ذمہ دارئ۔۔
اریزہ کا انداز ہرگز رشک بھرا نہیں تھا مگر پھر بھی ہایون متاثر ہوگیا۔۔
واقعی ایسا ہے؟ تھیبا(زبردست)۔ پاکستانی لڑکیاں خوش قسمت ہیں پھر تو۔ ہمم۔ مجھے پاکستان کا نام بھی نہیں پتہ تھا مگر اب سوچتا ہوں کبھی وہاں کی بھی سیر کروں ۔ تم سمسٹر ختم ہونے تک پاکستان جائوگی تو میں بھی چلوں گا۔۔
وہ تولیئے سے ہاتھ پو نچھتا ہوا اسکے مقابل آبیٹھا
میرے ساتھ۔۔ وہ حیران ہوئی۔
میرا بس چلے تو یہیں رہ جائوں۔ ۔ اردو میں بڑبڑاتے ہوئے اس نے سر جھٹکا۔ہایون مکمل طور پر اسکی جانب ہمہ تن گوش تھا
میرا ابھی تو کوئی ارادہ نہیں ہے۔ میں جاب کروں گی سمسٹر کی فی جمع کروں گی خود اپنا خرچہ اٹھائوں گی۔۔
وہ پکے عزم سے بولی۔
تم نے کہیں جاب تلاش کی؟ ہایون کا سوال منطقی تھا ۔
آں ہاں نہیں۔ میرا مطلب۔۔ وہ گڑبڑا گئ۔۔
ادھوری تعلیم کے ساتھ بلو کالرجاب ہی ملے گی۔۔
ویسے جاب ملنا کوریا میں آسان نہیں ہے۔ لوگ جوتیاں چٹخاتے پھر رہے ہیں
ہایون کا انداز جتانے والا تھا۔۔ وہ چڑی بھی۔۔
ایڈون ہے نا ڈھونڈ دے گا کوئی۔۔ وہ حسب عادت اردو میں ہی بولی۔۔ ہایون اسے اسی طرح دیکھتا رہا تو وہ تھوڑی کھسیائی
ایڈون ول فائنڈ آ سوٹ ایبل جاب فارمی۔۔ اسے یقین تو تھا مگر پھر بھئ کچھوے کی طرح گردن لمبی کر کے بیٹھ گئ
میں بھی ڈھونڈ سکتا ہوں۔
ہایون نے جتانے والے انداز میں کہا تھا۔
تم تو خیر مجھے مینجر بھی لگوا سکتے ہو سناہے کافی کمپنیاں ہیں تمہارے ابا کی۔ وہ کہہ کر ہنسی۔ ہایون مسکرا دیا۔
ہاں تو تم نے مینجر بننا ہے؟
وہ سنجیدگی سے مسکراتے ہوئے پوچھنے لگا۔
آں۔ آنیا۔۔ اس نے گڑ بڑا کر نفی میں سر ہلایا۔
ایسے ہی مزاق کر رہی تھی میں۔
توبہ ہی ہے کورینز میں حس مزاح نام کو نہیں۔۔ وہ جان کر اردو میں بولی۔۔
حس ؟ ہایون سوالیہ انداز میں دیکھ رہا تھا۔۔
وہ سر تھام گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریسیپشن کے قریب صوفے پر بیٹھا تھا۔ کبھی اٹھتا ایک چکر لگاتا پھر بے چین سا واپس آکر بیٹھ جاتا۔
تبھی ریسیپشن پر اسکا نام پکارا گیا۔
دے۔ وہ فورا اٹھ کر آیا۔
آپ ادھر چلے جائیں۔ کمرہ نمبر 8۔۔
بمشکل انگریزی میں اٹک اٹک کر بتا پائی تھی۔
وہ سر ہلاتا اسی جانب بڑھ گیا۔ دھیرے سے دروازہ کھٹکا کر اجازت ملنے پر داخل ہوا۔۔اپنے کرسی پر براجمان سامنے میز پر رکھے مانیٹر کی جانب متوجہ ڈاکٹرنئ سہولت سے اسے دیکھ کر اپنے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کرنے لگی۔
اسلام وعلیکم۔۔ عادتا اسکے منہ سے نکلا تھا۔خجل سا ہو کر وہ کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا
سنتھیا اسکے برابر والی کرسی پر سر جھکائے ہی بیٹھی تھی۔
میں تو آگاشی کو کہہ رہی تھی تم بہت چھوٹی سی ہو مگر تمہیں دیکھ کر لگتا تم بھی ذیادہ عمر کے نہیں ہو۔
وہ مسکرا کر بولی۔ ان دونوں سے چند ہی سال بڑی ہوگی۔
ایڈون چیں بہ چیں سا ہوا۔۔
بہر حال پیار کا بچہ ہے یقینا بہت عزیز ہوگا تم دونوں کو سو خوب خیال رکھنا ہے اچھا کھانا پینا ہے۔ ابھی تو سب ٹھیک ہے۔۔ بس معمول کا چیک اپ کرواتی رہنا۔۔ یہ کچھ طاقت۔۔۔۔
اس سے آگے بھی وہ رواں ہنگل میں بولے گئی مگر سنٹ سے بیٹھے ایڈون کی سماعتیں سائیں سائیں ہی کر رہی تھیں۔
اسے شک تھا کہ شائد سنتھیا نے اسکو تنگ کرنے کیلئے جھوٹ بولا ہے۔ اگر یہ سچ تھا تو۔۔۔۔
اس تو نے حقیقتا اسکے ہاتھ سے طوطے اڑا دیئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح کے وقت۔۔۔۔۔
دروازہ ہلکے سے کھٹکا کر جی ہائے اندر داخل ہوگئ تھی۔۔ کمرہ خالی۔تھا ہاں غسل خانے سے پانی گرنے کی آواز آرہی تھی۔ سنتھیا یقینا شاور لے رہی تھی وہ ہاتھ میں پکڑا پائوچ اسکی سائیڈ ٹیبل پر رکھتے رکھتے رک کر اسکے بیڈ پر ہی بیٹھ کر اسکے باہر نکلنے کا انتظار کرنے لگی
سنتھیا تولیہ سے سر رگڑتی باہر نکلی تو اسے بیڈ پر بیٹھے دیکھ کر چونک گئ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باہر چلیں۔ ہایون برتن دھو کر ہاتھ تولیہ سے خشک کرتا اسکے سامنے آبیٹھا
ہوپ یقینا اندر دوبارہ سو چکی تھی۔ وہ فورا ہاں کہتے کہتے جھجک سی گئ۔ ایک لمحے کو بند دروازے پر نگاہ کی تو دوسری نظر سامنے دیوار پر لگی گھڑی پر کی۔ ڈیڑھ بج رہا تھا پورا دن باقی تھا گوارا سے کچھ بعید نہیں تھا کہ واپس آتی بھی نہ یا رات گئے تک ہی آتی پڑھنا تو تھا نہیں ۔۔ ہزار وجوہات تھیں اس مخلصانہ پیشکش کو خوشی خوشی قبول لینے کی مگر پھر بھی جانے کیوں اسے جھجک سی محسوس ہورہی تھی۔۔
ہایون پوری توجہ سے اسے دیکھ رہا تھا اور جواب کا منتظر تھا۔۔
ہوپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ہمیں اسے اکیلے چھوڑنا نہیں چاہیئے۔۔ اسے یہی جواب سوجھا۔۔ ہایون مسکرا دیا جیسے اسے اس سے اسی جواب کی توقع ہو۔
جیسے تمہاری مرضی۔۔ ہایون گہری سانس لیکر اٹھ کھڑا ہوا تھا شائد جانے کیلئے ہی۔
تبھی دروازہ کھول کر ہوپ باہر نکلی اریزہ کو مکمل طور پر نظر انداز کرکے ہایون سے مخاطب ہوئی
تمہاری بہن فون نہیں اٹھا رہی ہے میرا وجہ جان سکتی ہوں؟
ہایون اس سے اس سوال کی توقع نہیں کر رہا تھا فوری طور پر سمجھا بھی نہیں
دے؟ کیا؟ اسکے منہ سے پھسلا تھا
تمہاری بہن گنگشن پچھلے کئی دنوں سے میرے بارہا فون کرنے کے باوجود میرا فون نہیں اٹھا رہی ہے میں نے انجان نمبر سے بھی اس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو میری آواز پہچان کر اس نے فون بند کر دیا۔ تم میری ابھی اسی وقت اس سے بات کروا سکتے ہو؟
اسکا انداز سادہ نہیں بلکہ کسی حد تک سخت تھا ۔ہایون کو کافی برا بھی لگا وہ اسکے باپ کا نوکر نہیں تھا جس سے وہ اتنے تحکمانہ انداز میں بات کرے مگر پھر بھی اپنی فطری رواداری نبھا کر نرم سے انداز میں بولا تھا
ایسی بات نہیں وہ کوریا میں ہیں ہی نہیں چین گئ ہوئی ہیں دو ہفتے ہو رہے ہیں وہ مصروف ہوں گی آئیں گی تو رابطہ کر لیں گی تم سے۔۔
اس نے اپنی طرف سے بڑا مفصل جواب دیا تھا مگر ہوپ اسے یونہی گھورتی رہی
تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ گھر نہیں جانا تمہیں؟ نہ گوارا ہے نہ یون بن کس کیلئے رکے ہو یہاں۔؟
اس نے چبھتے ہوئے لہجے میں بہت طنزیہ انداز میں پوچھا تھا ہایون کے تن بدن میں جیسے آگ سی لگ گئ تھی
تم سے مطلب نہیں۔وہ اس کے منہ لگنا نہیں چاہ رہا تھا
ہوپ کے چہرے پر مسکراہٹ در آئی۔ یہ مسکراہٹ طنزیہ نہ تھی بلکہ اسکے چہرے کے تنے نقوش اس مسکراہٹ سے نرم سے پڑ گئے تھے۔ اسکے کھال منڈھےزرد گالوں پر یہ مسکراہٹ بہت بھلی لگی تھی
کیا ہوا۔۔ خاموشی سے دونوں کی اجنبی زبان میں گفتگو سنتی انکے تنے تاثرات سے اریزہ کو بس یہی اندازہ ہوا کہ یقینا کوئی بحث چل رہی ہے دونوں کے درمیان سو پوچھے بغیر نہ رہ سکی۔۔
تم دونوں لڑ رہے ہو؟
آنیو۔۔ ہایون نے فورا اپنےتاثرات بدلے
نہیں کچھ نہیں۔ میں پہلے جاتا ہوں۔۔
وہ قصدا ہوپ کی طرف سے رخ پھیرتا اسے الوداعی انداز میں جھک کر بائے کہتا تیزی سے باہر نکل گیا
تم کیا کر رہی ہو یہاں بیٹھئ؟
ہوپ جانے کس خیال میں تھی بڑی سہولت سے اسکے سامنے اسٹول کھینچ کر بیٹھ کر پوچھنے لگی
اریزہ اسکے اپنائیت بھرے انداز پر حیران بھی ہوئی اور خوش بھی یقینا اسکے دل میں جمی گرد اڑی تھی جو آج اسے اریزہ سے خیر سگالی کا خیال آیا
کچھ خاص نہیں ہایون نے برتن دھوئے اورساتھ ساتھ ہم باتیں کر رہے تھے۔۔۔
اریزہ نے بھی جوابا گرم جوشی سے ہی جواب دیا تھا
تمہیں برتن دھونے نہیں آتے ہیں؟ ہوپ اس کو بہت غور سے دیکھ رہی تھی۔۔ اریزہ کا انداز لاپروا سا تھا ابھی بھی بات بڑھانے کو بڑے آرام سے ہنس کر بتانے لگی
مجھے تو سب کام آتا ہے کھانا برتن ۔ میری امی تو ہٹلر تھیں اس معاملے میں انہوں نے ڈانٹ ڈانٹ کر سب سکھایا ہے مجھے۔
یہ جو ابھی تم نے بنایا تھا یہ کیا تھا؟ ہوپ نے اسکی بات کاٹ کر پوچھا تھا
یہ ۔۔۔۔ اریزہ ہنسی
یہ پراٹھا ہوتا ہے آٹے کو گوندھ کر بناتے ہیں اسے کافی مشکل کام ہے اچھا پراٹھا بنانا وہ بھی گول ۔۔ پتہ ہے جب پہلی بار میں نے پراٹھا بنایا تو سری لنکا کے نقشے جیسا بنا تھا۔۔
وہ زورسے ہنسی
سری لنکا کا نقشہ؟ ہوپ اسکے انداز پر مسکرا کر پوچھ رہی تھی
سر ی لنکا کا ںقشہ نہیں پتہ ؟ بتاتی ہوں۔ وہ کائونٹر کے پاس ہی رکھا اسٹکی نوٹ کا پیڈ اور پین کھنیچ کر باقائدہ نقشہ بنانے لگی۔۔
ایسا ہوتا ہے۔ مجھے تو پتہ بھی نہیں تھا کیسا ہوتا ہے میرے بھائی نے مزاق اڑاتے ہوئے بتایا مجھے ایسے ہی بنا کر اور پہلی بار میری امی نے میری حمایت میں اسے ڈانٹا کہ پہلی دفعہ بنایا ہے۔مزاق نہ اڑائو ورنہ تو وہ بہت لاڈلا ہے انکا اسکے آگے تو اپنی سگی بیٹی کو نہیں پوچھتی ہیں۔ اور بابا انہوں نے تو مجھے پانچ سو روپے دیئے تھے بہت چڑایا پھر میں نے اسے۔۔۔
وہ بہت جو ش و خروش سے قصہ سنا رہی تھی ہنس رہی تھی عادتا تالی مار کر بات کر رہی تھی۔۔
اسے دیکھتے دیکھتے ہوپ کی آنکھوں میں پانی اترنے لگا۔ منظروں پر منظر بدلے ایک منظر حاوی رہا گلابی چہرے والی لڑکی کی بے فکر ہنسی اسکو آئینے میں اپنا چہرہ دکھائی ہی نہ دیا بس وہ چہرہ حاوی رہا۔ اس نے دھیرے سے آئینے پر ہاتھ پھیر کر اس عکس کو مٹا کر اپنا عکس تلاشا۔۔ خیالی عکس دھندلاتا گیا ایک فاقہ زدہ محنت کش شمالی کوریائی محاجر لڑکی کا عکس گہرا ہوتا گیا۔ کھنچی ہوئی آنکھیں کھال منڈھے ہوئے زرد گالوں پر ٹکی تھیں۔ انتہائی خشک اور روکھے پتلے سے کندھوں تک آتے بال شانوں پر بکھرے تھے۔ ناک بھدی سی تھی تو ہونٹ پتلے پتلے چھوٹے سے۔ان ہی نقوش پر اگر گال بھرے ہوتے تو بھی شائد کچھ پیاری لگتی۔۔ اس نے یاسیت سے اپنا چہرہ دیکھا
یہ یہ کمی ہے مجھ میں۔ خوش باش ہنستے کھیلتے چہروں کو اس اداس آنکھوں والی فاقہ زدہ گالوں والی بد صورت سی یوآنا میں کیا دلچسپی محسوس ہونی ہے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کم سن اسکیلئے پھل اور کچھ جوسز وغیرہ لیکر آیا تھا۔لا کر اسکے بیڈ کی سائڈ ٹیبل پر دھر دیئے
آننیانگ۔۔ بہت ادب سے جھک کر سلام کیا تھا اس نے
۔ ہوپ اسے دیکھ کر رہ گئ۔۔ دو دن بستر پر اینڈتے ہوئے وہ بری طرح تھک چکی تھی۔ سو چادر ایک طرف کرتی اٹھ بیٹھی۔۔
جتنی تیزی سے وہ اٹھی تھی کم سن نے ڈر کر سائڈ ٹیبل سے دونوں شاپر اٹھا لیئے۔ہوپ نے حیرانگی سے اسکی حرکت دیکھی۔۔
وہ ۔۔ مجھے لگا تم انہیں اٹھا کر پھینکنے والی ہو۔۔ وہ خود بھی کھسیا گیا تھا۔۔ اتنی معصومیت بھری بے چارگی سے بولا کہ بے ساختہ ہی ہوپ کے چہرے پر مسکراہٹ در آئی۔۔
میں کم از کم کھانے پینے کی کوئی چیز کبھی نہیں پھینک سکتی۔۔
وہ دھیرے سے کہتی اٹھ کر اپنی چپل ڈھونڈنے لگی۔۔
کیوں۔ کم سن کے منہ سے بھی بے ساختہ ہی پھسلا تھا۔۔ اسکا جواب دینے کا ہرگز ارادہ نہیں تھا۔پیروں میں چپل پھنساتی وہ چپل گھسیٹتی باتھ روم کی جانب بڑھ گئ۔۔ کم سن نے گہری سانس لیکر دونوں شاپر وہیں ٹکائے اور خود بھی گہری سانس لیتا باہر نکل آیا۔۔
گوارا اور اریزہ اوپن کچن کے کائونٹر پر کہنیاں ٹکائے اسٹول پر بیٹھئ اسی کی جانب متوجہ تھیں۔۔
کیا ہوا انکار کر دیا اس نے لینے سے؟ دونوں نے ہی سوال کیا تھا مگر اپنی اپنی زبان میں۔۔
اقرار نہیں کیا مگر انکار بھی نہیں کیا۔ خیر رکھ دیا میں نے اسکی سائڈ ٹیبل پر کھا ہی لے گی۔۔
وہ کندھے اچکاتا انکے پاس ہی آبیٹھا۔۔اس نے دانستہ جواب انگریزی میں ہی دیا تھا
میں نے اس لیئے کہا کہ یہاں رکھی ہوئی کوئی چیز استعمال نہیں کرتی اور لائے ہی تم اسی کیلئے تھے۔۔اگر اسے نہیں وصولنے تو انکار بھی تمہیں ہی کرے۔۔ گوارا نے صفائی دینا ضروری سمجھا۔۔
کیا کر رہی ہے۔؟ اریزہ کو تجسس ہوا۔۔
واش روم گئ ہے ۔ کم سن نے بتایا تو گوارا تیزی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
ہاہ ٹوائلٹ رول تو ختم ہے۔ میں تبھی تو کہہ رہی تھی میرے ساتھ گروسری شاپنگ پر چلو۔
باتھ روم میں تو ہوگا۔ یہاں کوئی اضافی کیبنٹ میں نہیں رکھا ہوا۔۔ اریزہ نے تسلی دینی چاہی۔۔
وہاں بھی نہیں ہوگا کیونکہ ابھی تھوڑی دیر پہلے میں گئ تھی واش روم اور میں ختم کرکے آئی تھی جبھی تو تمہیں کہہ رہی تھی ساتھ چلو شاپنگ پر۔ گوارا کے چہرے پر واقعی پریشانی تھی۔۔
تبھی انکے پیچھے کافی زور سے کمرے کا دروازہ بند ہوا تھا۔۔
تینوں نے چونک کر دیکھا ۔۔
یقینا یہ ہوپ تھی اور اب ٹوائلٹ رول کا متبادل انتظام کر رہی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم خیریت۔۔ سنتھیا سنبھل کر خوش اخلاقی سے پوچھ رہی تھی۔
جی ہائے کا انداز اسکے بالکل برعکس تھا۔ سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوئے اس نے پوچھا تھا۔۔
تم مسلمان ہو؟
نہیں: سنتھیا اسکے انداز پر الجھ سی گئ۔۔
پھر؟ جی ہائے تفتیشی انداز میں بولی تھی
عیسائئ۔۔ کیوں؟ سنتھیا کو اسکا انداز اچھا نہیں لگا تھا مگر دو دن سے جس طرح وہ اسکا خیال رکھ رہی تھی اس کا لحاظ کرکے نرمی سے جواب دیا۔
اور اریزہ؟ جی ہائے کا انداز ہنوز تھا۔۔
وہ مسلمان ہے ۔ سنتھیا الجھ کر تولیہ گرل پر لگاتئ اسکے پاس چلی آئی۔ بیڈ پر بیٹھی جی ہائے ایکدم سے تنک کر اٹھ کھڑی ہوئی۔۔
ہائش۔۔ مجھے پہلے اندازہ کیوں نہ ہوا۔۔ اس نے جھلا کر پائوچ پوری قوت سے بیڈ پر اچھال دیا۔۔
یہ۔۔ یہ تو اریزہ کا ہے۔ اسکے انداز سے الجھتی سنتھیا نے فورا پہچان لیا تھا۔ آگے بڑھ کر پائوچ اٹھایا تو پٹخنے سے اسکا کلچ ٹچ کی آواز سے کھل گیا۔ اللہ کے نام کا پیارا سا لاکٹ اس میں سے باہر آگیا تھا۔۔
اوہ احتیاط سے اسے بلا ارادہ چوم کر واپس ڈال کر پائوچ بند کرکے مڑی تو جی ہائے کو خشمگیں نظروں سے خود کو گھورتے پایا۔
گوارا جانتی ہے کہ اریزہ مسلمان ہے؟
اسکی تفتیش ختم نہیں ہوئی تھی۔۔
جانتئ ۔۔ وہ کہتے کہتے رکی۔۔ مسلئہ کیا ہے آخر؟ اریزہ مسلمان ہے تو کیا ہوا؟ اس نے کیا بگاڑا ہے تمہارا جو یوں غصے میں ہو۔
ہائش۔۔ جی ہائے سر پکڑ کر گھوم گئ۔۔
یقینا گوارا نہیں جانتی ہوگی مجھے اسے بتانا پڑے گا وہ اپنے گھر میں مسلمان کو رکھے ہے احمق بے وقوف لڑکی۔
وہ ہنگل میں زیر لب بڑبڑا تی پیر پٹختی باہر نکل گئ۔۔
ارے سنو ۔۔ پیچھے سے سنتھیا اسے پکار کر رہ گئ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاسٹل کی جانب سے پیغام آیا تھا۔ ایک نئی مصیبت اسکے سامنے تھی۔۔
یہ ہاسٹل صرف ان طلباء کیلئے ہے جو یہاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اگر آپ کسی موجودہ ڈگری سے منسلک نہیں ہیں تو برائے مہربانی اپنا انتظام کیجئے۔کیونکہ آپکا کمرہ دوسری طالبہ کو دے دیا جائے گا۔۔
مسکرا کر چندی آنکھوں والی اس لڑکی نے کمپیوٹر پر اسکی ساری تفصیلات دیکھ کر اسکے سر پر انگریزی میں بم پھوڑا۔
وہ چند لمحے اسے یونہی دیکھتی رہی ۔ چندی آنکھوں میں رحم اتر آیا جانے کس مشکل سے گزر رہی ہے بے چاری۔۔
آپ کے پاس ابھی چند دن ہیں اپنا کہیں اور انتظام کر سکتی ہیں۔اگلا سمسٹراگلے پیر سے شروع ہوگا طلبا یقینا ہفتے کے آخر تک ہی آئیں گے۔آج منگل ہے تو آپ کے پاس ابھی چار دن ہیں۔۔ اس نے بڑے خلوص سے مشورہ دیا تھا۔مگر ہنگل میں ۔ اسکے خاک پلے پڑتا۔۔ کم سن اتفاق سے اپنی فیس جمع کروانے آیا تھا اسے دیکھ کر اسکے پاس آکھڑا ہوا اس سے پہلے کہ متوجہ کر پاتا کلرک کے سر پر پھوڑے بم کے زیر اثر اسے ساکت کھڑے دیکھا تو لبوں پر مسکراہٹ دبا کر اسکی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجائی۔۔
وہ بری طرح چونکی۔۔
آہجوشی ۔ آپ انکو انگریزی میں بتا سکتے ہیں کہ انکو اپنے رہنے کا الگ انتظام کر نا ہوگا یونیورسٹی صرف یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کو ہی ہاسٹل میں رہائش دیتی ہے۔
چندی آنکھوں والی نے دوبارہ اتنی ہی تفصیل سے بتایا تھا۔ اسکی انگریزی ختم ہوگئ تھی سنتھیا کی ہمت کی طرح۔۔
کم سن نے اثبات میں سر ہلاکر مطلوبہ معلومات انگریزی میں دہرا دیں بمعہ اسکا مشورہ ۔
دے۔ سنتھیا گہری سانس بھر کر پلٹ گئ۔
کم سن نے اپنا فارم اور پیسے کلرک کی جانب بڑھائے ۔۔ سنتھیا باہر کی جانب گلاس ڈور دھکیلتی جا رہی تھی۔ اس نے لمحہ بھر سوچا کلرک کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو نظر انداز کرکے اپنا فارم اور پیسے واپس شولڈر بیگ میں ڈال سنتھیا کے پیچھے دوڑ لگا دی۔ وہ خلاف معمول خاصے تیز قدم اٹھا رہی تھی۔
بس اسکی کمی تھئ۔۔ اس نے بیزاری سے سوچا
چلتے چلتےاس نے شکوہ کناں نگاہ آسمان پر ڈالی۔
کیا مجھے معافی نہیں مل سکتی؟؟؟
اسکی آنکھیں بھر گئیں۔بے دردی سے آنکھیں رگڑ لیں تبھی کوئی اسکے بالکل سامنے آن کھڑا ہوا۔۔
ہائے۔۔ کم سن بھرپور انداز سے مسکرایا۔۔
ہائے۔۔ وہ کسی اور ہی موڈ میں تھی اسکے پاس سے ہو کر آگے بڑھنے کو تھی ۔ اسکا ارادہ بھانپ کر کم سن نے اسکو بازو سے تھام کر روکا۔اس بےتکلفی پر سنتھیا نے گھور کر دیکھا تھا مگر مقابل ڈھیٹ بن گیا۔۔
کیسی ہو؟ اسکے پرتپاک انداز میں پوچھنے پر بھی وہ ٹھس سی اسے دیکھتی رہی۔
کم سن اسکے ناک بھنوئیں چڑھانے پر اسکا بازو چھوڑ کر کھل کر ہنس دیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کورین ریستوران میں کم سن لیکر آیا تھا۔ لانے کی وجہ اسکے سامنے ریسیپشن پر کھڑا تھا۔
وہ دانستہ نظر چرا کر ایک کونے میں کرسی سنبھال گئ۔ کم سن کو لگا تھا وہ بھی سیدھا ایڈون کے پاس جائے گی۔ وہ کندھے اچکا کر اسکے پاس آبیٹھا۔
کیا کھائو گی؟
جواب ندارد تھا۔
یہاں کا پورک اسٹیک بہت اچھا ہوتا ہے ایڈون تو کھا چکا ہے اسے پسند بھئ آیا تھا تم کھائو گئ۔؟
وہ نرم سے انداز میں پوچھ رہا تھا۔۔
۔ سنتھیا نے اثبات میں سر ہلایا۔
کم سن اطمینان سے کرسی پر بیٹھ کر دونوں ہاتھوں کی مٹھیوں پر تھوڑی ٹکا کر اسکے بیزار بیزار سے چہرے کو دیکھنے لگا۔۔ اسکے دیکھنے کے انداز نے ٹرے لیکر آتے ایڈون کو ٹھٹکا دیا تھا سنتھیا البتہ بے نیازی سے گلاس وال کے باہر سڑک پر نظر جمائے بیٹھی تھی۔
ایڈون نے پٹخنے کے انداز میں ٹرے دونوں کے درمیان رکھی تھی۔ اس افتاد پر دونوں اچھلے تھے۔ سنتھیا نے گھور کر دیکھا تھا اسے۔۔
کم سن اسکا لال بھبوکا چہرہ دیکھ کر محظوظ سے انداز میں مسکرایا۔ پھر اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے بولا۔۔
تم دونوں کے جو بھی اختلافات ہیں یہاں بات کرکے دور کرسکتے ہو۔۔ میں نے انکل سے کہہ دیا ہے ایڈون جتنی دیر یہاں بات کرے گا اتنی دیر اسکی زمہ داری میں اٹھا لوں گا۔۔
وہ ہاتھ کے اشارے سے ایڈون سے اسکا ایپرن مانگ رہا تھا۔۔ ایڈون کیلئے اسکی یہ آفر قطعی غیر متوقع تھی۔ ہکا بکا کھڑا دیکھ رہا تھا۔ کم سن نے ابرو اچکائے تو میکانکی انداز میں اپنا ایپرن کھول کر اسکے تھما دیا ۔۔ وہ معمول کے سے انداز میں اسکا ایپرن اپنی کمر کے گرد لپیٹتا نئے آنے والے صارفوں سے آرڈر لینے چل دیا۔۔
ایڈون گہری سانس لیتا اسکے سامنے کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔۔
سنتھیا اسے مسلسل نظروں میں رکھے تھے۔۔ ایڈون اسکی نظریں خود پر گڑی محسوس کر رہا تھا۔۔ احتیاط سے اپنے پلیٹ میں اس نے کھانا نکال کر پلیٹ سنتھیا کی جانب بڑھا دی۔۔
سنتھیا یونہی چپ گھورتی رہی۔۔
کھانا تو شروع کرو۔۔ گھورنے کا شغل کھانے کے دوران بھی جاری رکھ سکتی ہو۔ ایڈون نے ہلکا پھلکا انداز اپنایا تھا۔۔
ہم یہاں کیوں ہیں ایڈون؟ سنتھیا کا سوال ایڈون کے لئے غیر متوقع تھا۔ وہ سمجھا نہیں تھا سنتھیا نے دوٹوک بات کرنے کی ٹھان لی۔۔
ڈگری ہم لے نہیں رہے چھے مہینے یہاں ضائع کرنے کی بجائے پاکستان واپس چلتے ہیں۔تم نے اگر مزید پڑھنا تو وہاں پڑھ سکتے ہو۔ میں مدد کروں گی تمہاری ہر طرح سے ہم شادی کر لیتے ہیں۔۔
سنتھیا کے جملے اسکے اندرونی انتشار کے عکاس تھے۔
ایڈون ٹھٹک کر اسے دیکھنے لگا۔
مجھے نکاح کرنا ہے۔ مجھ سے اب مزید یہ گلٹ برداشت نہیں ہوتا۔ ایڈون۔۔ اسکا انداز بھرا گیا تھا۔۔
کیسا گلٹ؟ ایڈون نے تجاہل عارفانہ سے کام چلانا چاہا۔۔
تم اچھی طرح جانتے ہو میں کیا کہہ رہی ہوں۔
سنتھیا بےتابئ سے دونوں ہاتھ میز پر مار کر چلا اٹھی تھی۔۔ ارد گرد کئی گردنیں انکی۔جانب مڑی تھیں۔۔ ان سے کچھ فاصلے پر میز صاف کرتا کم سن چونکا تک نہ تھا۔۔ تندہی سے میز چمکاتا رہا تھا۔
آرام سے۔ ایڈون ناگواری چھپا نہ سکا۔۔ ڈپٹ دیا۔۔
تم کیوں عدم تحفظ کا شکار رہتی ہو۔ ؟تمہیں کیوں لگتا ہے ہم نے کچھ غلط کر ڈالا ہے۔ ہم نے کچھ دنیا سے الگ انوکھا نہیں کیا منگنی ہو چکی ہے ہماری محبت کرتے ہیں ایک دوسرے سے جلد شادی کر لیں گے ۔ تم صرف گرل فریںڈ نہیں فیانسی ہو میری ۔ ارے گرل فرینڈ بوائے فریںڈ تو رہتے اکٹھے ہیں ہم نے تو بس کبھی کبھی ساتھ وقت گزاراہے۔ یہاں اس معاشرے میں عام بات ہے یہ ۔۔تم پاکستان میں رہ کرقدامت پسند ہوگئ ہو بس۔
سختی سے کہتے کہتے ایڈون کا انداز آخر میں سمجھانے والا ہو چلا تھا۔
ہم پاکستانئ ہی ہیں ایڈون ہم کوریا میں رہ کر بھی وہیں کہیں زہنی طور پر پھنسے ہیں۔ یہ سب مطالبات تم پاکستان میں کرتے تو مر کر بھی ہاں نہ کرتی مگر یہاں اس دوسرے ملک کے خمار میں میں اپنی حد پار کر گئ ہوں۔ اور تمہاری نظروں میں اپنا پہلے سا مقام بھی کھو بیٹھی ہوں۔۔۔ سنتھیا آج کھل کر سب کہہ دینا چاہتی تھی۔۔ اسکے گالوں پر آنسو بہہ نکلے تھے۔
ایسی بات نہیں ہے۔ ایڈون اسکی آنکھیں لبا لب بھری دیکھ کر نرم پڑا۔
کھانے کی ٹرے ایک طرف کر کے اسکے میز پر دھرے ٹھنڈے یخ ہاتھ تھام لیئے۔
اگر اس وقت کی بات کرتی ہو تو میرا بھی کسی لڑکی کے اتنا قریب جانے کا پہلا موقع تھا ۔ مانتا ہوں ہم معاشرتی طور پر ابھی ایک نہیں ہوئے مگر ہم نے جو کیا وہ گناہ نہیں تھا ہم مسلمان تھوڑی ہیں جو ایسی فالتو روایات میں الجھیں ۔رہا شادی کا سوال تو ہماری شادی طے ہے آپس میں ہی ہوگی ۔ آج یا جب کبھی۔
پاکستان چلو میں یہاں نہیں رہنا چاہتی۔ بھلے وہاں جا کر پڑھائی مکمل کرو یا جو بھی کرو مگر میرے ساتھ واپس چلو۔
سنتھیا ضدی انداز میں بولی۔
میں تو میں تم اب واپس جا سکتی ہو؟ یہ جو مصیبت ۔
وہ روانئ میں بول گیا احساس ہواتو جملہ ادھورا چھوڑا۔
جب تک اس مسلئے کا حل نہیں نکل سکتا ہم واپس نہیں جا سکتے۔نا تم نا میں۔۔
یہی حل تو بتا رہی ہوں۔ہم یہاں شادی کر لیتے ہیں۔ہم گھر والوں سے کہہ دیں گے ہمیں اکٹھے رہنا تھا ہاسٹل سے ہم دونوں کو نکال دیا گیا تھا وغیرہ۔۔ یہی بہترین راستہ ہے۔
وہ سمجھا رہی تھی ایڈون بری طرح چڑ گیا۔۔
پاگل تو نہیں ہوگئ ہو تم؟ یہ ڈھول ہمیشہ کیلئے گلے میں لٹکا کر پھرنا ہے تم نے؟
سنتھیا اسکے جھلاہٹ بھرے انداز کو ساکت سی دیکھتی رہ گئ۔
اس نے گہری سانس لیکر سنتھیا کے ہاتھ تھامتے ہوئے سمجھانا چاہا
میں دو دن سے صرف اسی معاملے کا حل سوچ رہا ہوں۔
میرے پاس کچھ پیسے ہیں کچھ اوور ٹائم کرکے سیو کروں گا۔ کچھ تم کوئی بہانہ بنا کر پاکستان سے منگوائو۔
اسکا انداز اسکی باتیں ۔سنتھیا خالی الذہنی سے نا سمجھنے والے انداز میں دیکھ رہی تھی۔
کیوں؟
ہم اس معاملے کو ختم کرا لیتے ہیں۔ آئیندہ احتیاط کریں گے۔بس۔۔ آئی پرامس آئیندہ تم پر کوئی مشکل وقت نہیں آنے دوں گا۔۔
اسکا ہاتھ سہلاتے وہ سبھائو سے کہہ رہا تھا۔
کیا مطلب۔ سنتھیا ایکدم سناٹے میں آگئ۔۔
تم اسے۔۔۔۔
وہ بات مکمل نہ کرپائئ۔
تو اور کیا۔ تمہیں اندازہ بھی ہے کتنی بڑی ذمہ داری ہے؟
ابھی میری تمہاری عمر ہی کیا ہے؟ ہم شادی بچوں کے چکر میں کیسے پڑ جائیں۔۔ ابھی ذیادہ دیر نہیں ہوئی ہے۔۔ سنتھیا مجھے اپنا کیرئر بنانا ہے یہاں تعلیم مکمل کرکے میں یہاں ہی سیٹل ہونا چاہتا ہوں پاکستان میں رکھا کیا ہے ؟ نا۔۔
اسکی آگے کی لمبی تقریر ہزار بار کی سنتھیا نے سنی تھی جبھی اسکی بات کاٹ کر بولئ۔
میں اس قتل کا حصہ نہیں بنوں گی ۔۔۔ چاہے کچھ ہو جائے۔۔
ایڈون ہکا بکا رہ گیا تھا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اسکے ایک کئی منزلہ عمارت کے باہر لایا تھا۔دو زینے چڑھ کر اس نے ایک فلیٹ کا دروازہ کھولا تھا۔ سامنے ایک لمبی راہ داری تھی اتنی تنگ کہ بس ایک درمیانی جسامت کا انسان دیواروں سے بچتا سیدھا چل سکے۔ راہد اری میں دروازے ہی دروازے آمنے سامنے تھے ایک دو تین چار آمنے سامنے دروازوں کو وہ بلا ارادہ گننے لگی۔
تبھی ایک ہلکی سی کھڑک کے ساتھ سامنے بائیں جانب کا دروازہ کھلا تھا ایک لحیم شحیم افریقی حبشی نکلا تھا۔ یقینا اسے باہر جانا ہوگا راہداری کے آغاز پر وہ کھڑے تھے اسے راستہ دینے کی غرض سے انکو یقینا باہر نکلنا چاہیئے وہ واپس مڑنے کو تھی جب ایڈون نے اسکا ہاتھ تھام کر ایک دروازے میں چابی گھما کر کھول دیا۔ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جو انکے داخل ہوتے ہی ختم ہو گیا تھا۔ اسکو اندر داخل ہو کر ایک جانب سرعت سے ہونا پڑا تھا ایڈون نے احتیاط سے دروازہ بند کیا۔ بمشکل اسکے گھر کے باتھ روم جتنا کمرہ جس میں ایک جانب ٹرین کے برتھ جیسا بیڈ تھا دوسری جانب ایک چھوٹا سا کائونٹر تھا جس پر لیپ ٹاپ رکھنے کے بعدبس دو کتابوں کی جگہ تھی۔ اوپر راڈ لگے تھے جن پر ایڈون کے کپڑے لٹکے تھے۔
بیٹھو۔۔ ایڈون نے اسے بیڈ پر بیٹھنے کا ہی کہا تھا اور تو کہیں کوئی جگہ نہ تھی ہر چیز منہ پر آ رہی۔تھی اسکا دم گھٹنے لگا تھا۔
باہر چلیں۔۔کھینچ کر سانس لیتے ہوئے وہ بس یہی۔کہہ سکی۔۔
وہ اسے قریبی پارک لے آیا تھا۔۔اسے ایکدم تازگی اور سکون کا احساس ہوا تھا۔ایڈون اسکیلئے کافی لیکر آیا تھا اپنے لیئے سیول کی مشہور زمانہ سوجو۔
کوریا کا موسم بالکل بدل چلا تھا جہاں اس تنگ کمرے میں اسے شدید گھٹن کا احساس ہورہا تھا وہاں اس کھلی فضا میں گھگھی بھی بندھنے لگی تھی۔۔
کافی کا گھونٹ بھر کر اسکی گرمائش اندر اتارتے ہوئے اس نے گہری سانس لی تھئ
گوشی وون۔ کہتے ہیں اسے۔ غریب محنت کشوں کے لیئے رات گزارنے کا ٹھکانہ ۔بیڈ سونے کیلئے۔ الماری کپڑوں کیلئے۔ باقی رات کو کوریا میں تو فٹ پاتھ پر بھی سویا نہیں جا سکتا سو یہ کافی سے زیادہ ہے ایک انسان کیلئے۔۔
سالک اور شاہزیب واپس جا رہے ہیں مجھے بھی ہاسٹل سے نکلنا پڑے گا۔ اپنی رہائش کا یہ انتظام کیا ہے میں نے۔۔ اس تنگ راہدارئ کے آخر میں ہئ باتھ روم ہیں جو مشترکہ ہیں۔۔
گہری سانس لیکر ایڈون نے کہنا شروع کیا ۔ اس تمہید کا مقصد اسے بخوبی سمجھ آرہا تھا
میں تمہاری بات مان کر شادی کر بھی لوں تو تمہیں کہاں رکھوں گا ؟ پاکستان جا کر یہ حقیقت بتا کر ہمیں ہمارے والدین معاف بھی کردیں تو ہمارا کیا مستقبل ہوگا ۔ ا س بچے کا کیا مستقبل ہوگا۔ پاکستان میں ہم اقلیت ہیں متوسط طبقے کی اقلیت۔ ہمارے لیئے وہاں پر مواقع محدود ہیں میرےباپ نے ساری زندگی پیسہ پیسہ جوڑا اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر مجھے پڑھا یا۔ مجھ سے چھوٹی دو بہنیں ہیں مجھے انکورخصت کرنا ہے ابا کا سہارابننا ہے۔ وہاں نہ میں ایسی نوکری کرکے اتنا کما سکتا ہوں کہ اپنا خرچ اٹھا سکوں نہ مجھے ایسی کوئی امید نظر آتی ہے کہ پڑھائی مکمل ہونے کے بعد وہاں میرے لیئے کوئی نوکریوں کا ڈھیر پڑا ہوگا کہ میں چن کر زندگی عیش سے گزار سکوں۔ وہاں مسلمان بے روزگار پھر رہے ہم تو۔۔۔
اس نے گہری سانس لی۔
یہ سب باتیں تمہارے لیئے نئی ہوں گی۔ تمہارے بابا بہت امیر ہیں مگر میں ان کے ٹکڑوں پر کتنا عرصہ پل سکوں گا ۔
یہاں بھیجتے ہوئے تمہارے بابا نے مجھے کہا تھا کہ باہر کےملک کی ڈگری لیکر آئو تب ہی یہاں کہیں کہہ سن کر اچھی جگہ لگوا سکوں گا۔ وہ مجھے اپنے ہم پلہ بنانا چاہتے ہیں میں ان کو کیسے جا کر کہوں کہ۔۔۔
سنتھیا چند لمحے سوچتی ہی رہ گئ۔ وہ تمام ڈر خوف واہمے حقیقت بن کر سامنے تھے جنہوں نے اسکی مہینوں سے راتوں کی نیند اڑا رکھئ تھی۔ حقیقت بس اتنی سی تھی۔ وہ ایڈون کے ارادوں سوچوں خیالوں میں کہیں نہیں تھئ۔ اس بات کو سوچ کر اسکا دم رکنے لگتا تھا۔یوں لگتا تھا کہ وہ مرہی جائے گی۔
اپنے ماں باپ اپنی بہنوں یہاں تک کے اسکے باپ تک کی فکر تھی ایڈون کو مگر ایک بار بھی شائد اس نے یہ نہ سوچا تھا کہ سنتھیا پر اسکے فیصلوں کا کیا اثر ہوگا۔۔ اسے جتنا بھیانک لگتا تھا سوچنے میں یہ انکشاف وہ آج سمجھ آگیا تو کتنے آرام سے بیٹھئ تھی۔ کچھ بھی تو نہ ہوا نہ دل بند ہوا نہ ہی وہ پھوٹ پھوٹ روئئ۔
اس نے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنی چاہی
مڑکر ایڈون کے بے حد قریب اپنا چہرہ لائی ایڈون نے اچنبھے سے اسے دیکھا تھا۔کیا وہ چاہ رہی تھی ؟ ایڈون نے گہری سانس لیکر سوجو کی بوتل رکھی اور مڑ کر اسکا چہرہ دونوں ہاتھوں کے پیالے میں لے لیا۔ وہ پہل کرنا چاہ رہا تھا سنتھیا نے سرعت سے اسکا ہاتھا ہٹایا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔
ایڈون ہم اپنے راستے الگ کر لیتے ہیں۔ اس کا انداز سخت سا تھا
ایڈون سر جھٹک کر رہ گیا۔
اس نے چند لمحے انتظار کیا۔ مگر ایڈون پارک پر نگاہ جمائے سوجو کے گھونٹ بھررہا تھا۔
سنتھیا ضبط کھو کر بے آواز رو پڑی۔ اس سے سسکیاں چھپانے پلٹ کر جانا چاہا تب ایڈون کی اسے آواز آئئ
میں رات کو فون کروں گا۔ اٹھا لینا۔۔
اس نے رک کر سنا تھا پھر رکی ہی نہیں۔ تیزتیز قدم اٹھاتئ پارک سے نکلتی چلی گئ اور ایڈون کی زندگی سے بھی۔اپنی دانست میں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاسٹل آکر وہ جلے پیر کی بلی کی طرح ادھر سے ادھر ٹہل رہی تھی۔زندگئ میں پہلی دفعہ اسکی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ تھا اور وہ اریزہ سے مشورہ بھی نہیں کر سکتی تھی۔
اریزہ کو اس حقیقت کے بارے میں بتانے کیلئے بہت ہمت درکار تھی۔
خداوند بتائیں میں کیا کروں۔ ؟
وہ تھک کے بیڈ پر گر سی گئ۔
پاکیزہ مریم آپ تو جانتی ہیں نا یہ مرحلہ میرے لیئے کتنا مشکل ہے۔ میں نے گناہ کر لیا ہے۔ مجھے سنگسار کر دیں گے سب۔۔ وہ تکیے میں منہ دے کر رو پڑی۔
میں یہاں نہیں رہ سکتی میں واپس نہیں جا سکتی۔ میرے بس میں کچھ بھی نہیں ہے۔۔ کیا کروں میں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ گوارا اور ہوپ کے ساتھ صوفے پر لائین سے بیٹھئ ڈرائی فروٹ اڑا رہی تھی ۔۔گوارا اور ہوپ سوجو اور چکن اڑا رہی تھیں۔بھاپ اڑاتا لال لال مصالحے سے بھرپور تلا ہوا چکن جس پر کالی ساس تھی سرخ کٹی ہوئی مرچ سنگ جانے کیا کچھ تھا۔۔خوشبو اتنی اچھی تھی کہ نگاہ بھٹک گئ اسکی۔ جلدی سے خود کو گھرک کر اس نے کاجو منہ میں رکھا۔۔
بری بات۔۔ حرام ہے چاہے جتنا بھی اشتہا انگیز لگ جائے یہ ۔۔۔۔۔۔۔
ونگز اٹھا کر کھاتے گوارا نے پھر اسے پوچھنا چاہا۔
ذرا سا چکھ کے تو دیکھو۔ چکھنے سے تھوڑی تمہارا ایمان جاتا رہے گا۔۔
آنیا۔ اس نے زور و شور سے نفی میں سر ہلایا۔ ہوپ نے تیکھی نگاہوں سے دیکھا۔
اب چکن بھئ حرام ہے اسکے مزہب میں کیا۔
اس نے واضح طو رپر۔گوارا سے پوچھا تھا مگر اس نے جواب دینے کی بجائے ٹی وی پر۔نگاہ جما دی۔
ہوپ ہونٹ بھینچ کر نئئ سوجو کی بوتل کھولنے لگی۔
انہوں نے ٹی وی پر لیجنڈ آف بلو سی لگایا ہوا تھا۔ اریزہ کو ڈائلاگز سمجھ تو نہیں آرہے تھے مگر کہانی کردار سب انوکھے اوپر سے اعلی درجے کی اینیمیشن وہ بھی بڑی دلچسپی سے دیکھ رہی تھی گوارا اسکیلئے مترجم کے فرائض انجام دے رہی تھی۔
یہ لڑکا بہت خوبرو ہے۔ اریزہ نے کہا تو گوارا زور سے ہنس دی۔
پتہ ہے آدھا کوریا مرتا ہے اس پر ای منہو نام ہے مگر یہ اسکا آخری ڈرامہ ہے اسکے بعد بے چارہ چلا جائے گا ملٹری۔۔ اسے تاسف ہوا تھا
کیوں؟ ملٹری کیوں جا رہا اگر اسے اتنا فیم مل چکا ہے پیسہ بھی خوب ہوگا اسکے پاس۔
اریزہ کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ مارنے لگی ہے بلکہ پورا چھتہ اپنے اوپر الٹنے والی ہے۔
شمالی کوریا کئ وجہ سے پورے جنوبی کوریا کے لڑکوں پر ملٹرئ میں تین سال گزارنا فرض ہیں۔ہر وقت جنگ مسلط کرنے کو تیار ہیں ہم پر جبھی حکومت چاہتی ہے کہ ہمارے جوان ان سے نمٹنے کو تیار رہیں
گوارا اسکی جانب جھکتے ہوئے رازدارانہ انداز میں بتا رہی تھی مگر والیم نہ نہ کرتے بھی اتنا تھا کہ پاس ہی بیٹھی ہوپ نے آرام سے سنا تھا۔۔
اور جنوبی کوریا کی وجہ سے شمالی کوریا کی خواتین پر بھی ملٹرئ کی پابندئ ہے۔ جب ہم سے جنگ ہوگی تو ہماری عورتیں گھروں مین بیٹھی اپنے اوپائوں کی لاشوں پر بین نہیں کریں گی بلکہ جنگ کے میدان میں ایسے اوپائوں کی لاشیں گرا رہی ہوں گی۔
چبھتے کڑخت انداز میں اس نے اتنے تنفر سے کہا تھا کہ گوارا اور اریزہ حق دق دیکھتی رہ گئیں۔گوارا کو تو لی منہو خون میں ڈوبا پڑا نظر آرہا تھا تو اریزہ کو خون سائرن دھماکا کیا کیا نا نظروں میں گھوم گیا۔۔
ہماری وجہ سے؟۔ گوارا ہوش میں آکر تن کر بیٹھی۔
تم لوگ ہو بیمار ذہن بس جنگ و جدل زہن پر سوار ہے بھوک سے مر رہے ہو مگر اپنے اس دوٹکے کے کنگ کے تلوے چاٹ رہے ہو جس نے اپنی حکومت قائم رکھنے کیلئے تم سب کو اپنا بے دام غلام بنا رکھا ہے تو ہم پر چڑھائی کے الگ خواب دیکھتا ہے۔
تم لوگ تو بیمار ذہن نہیں ہو نا۔ پھر کیوں مارنا چاہ رہے ہو ہم بیمار ذہنوں کو۔ کیوں جنگ کی تیاریوں میں لگے ہو کیوں
ہوپ بھی سیدھی ہو بیٹھی۔۔
باس اسٹاپ اٹ۔ پاگل ہو گئ ہو کیا تم دونوں؟
اریزہ جو بائیں جانب بیٹھی تھی اٹھ کر دونوں کے بیچ میں آکر بیچ بچائو کرانے کی کوشش کرنے لگی۔۔
ہم اگر جنگئ جنونی ہوتے تو تم شمالی کوریائی محاجروں کو پناہ نہ دیتے اپنے ملک میں۔ یہاں میرے ملک میں سکون سے بیٹھ کر ٹی وئ دیکھ رہی ہو اپنے ملک میں ہوتیں تو کسی کچرے دان سے خوراک چن رہی ہوتیں
شٹ اپ۔ ہوپ حلق کے بل چلائی اس نے گوارا پر ہاتھ اٹھا دیا تھا جسے اریزہ نے پکڑ کر گوارا کو بچایا تھا۔۔
تم ہوتی کون ہو۔ مجھ پر ہاتھ اٹھانے والی۔۔ گوارا بپھر کر آگے بڑھئ۔۔
بس کر جائو پلیز۔۔ بس خدارا ۔۔ اریزہ کا بس گوارا پر ہی چل رہا تھا اس سے لپٹ کر اسے ہی سمجھانے کی کوشش کرنے لگی۔۔اب دونوں زبانی گولہ باری کے ساتھ ہاتھا پائی پر بھی اتر آئیں
دونوں کے بیچ اریزہ کا حلیہ بگڑ گیا تھا۔ ہوپ کے تھپڑ گوارا تک پہنچے نہ تھے مگر وہ بل۔کھا کر اسے مارنے دوڑ رہی تھی۔
تم لوگوں کئ وجہ سے ہم نہ صرف بھوکے مر رہے ہیں بلکہ پیٹ کاٹ کر جنگ کیلیئے تیاریاں کرتے رہتے ہیں۔۔ مگریاد رکھنا بھرا پیٹ جنگ نہیں کرتا جب ان خالی پیٹ والوں سے مقابلہ ہوا نا تو۔۔
ہوپ نے بیچ بچائو کراتی اریزہ کو جھٹکا ۔۔
بس کر جائو تم۔ اس بار اریزہ چلائی تھی۔۔
اسکے بال۔بکھر چکے تھے دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کرتے اسکو خاصی خراشیں آچکی تھیں۔۔ بازو گوارا کے لمبے ناخنوں سے چھل گیا۔ تو ہوپ کا کرارا ہاتھ بھی کئی جگہیں سرخ کر گیا تھا۔
گوارا اور ہوپ دونوں چپ سی ہو کر دیکھنے لگیں
جنگ نہ ہوگئ ٹافی ہوگئ دونوں لڑ رہی ہو جنگ کیلئے۔ آمنے سامنے ہو کر لو فیصلہ مارو ایک دوسرے کو مگر جیتے گی صرف جنگ اور مرے گی انسانیت۔ مزہب ایک زبان ایک ملک بھی کبھی ایک تھا کبھی سوچا بھی ہے تفرقات ہوتے کیا ہیں۔ مجھ سے پوچھو ۔مزہب زبان زمین ،ذات پات کا فرق ، برادری کا فرق ، رہن سہن ، بودوباش ، ثقافت طرز رہائش۔ اتنے تفرقات ہیں میرے ملک میں اورتم لوگ ایک سرحد کے فرق پر مرنے مارنے پر تل جاتی ہو۔
اریزہ کی بات ابھی ختم نہ ہوئی تھی مگر ہوپ نے تنفر سے بات کاٹ دی۔
تم کچھ نہیں جانتی ہو بیچ میں نہ بولو کبھی جنگ دیکھی ہے؟ میں نے دیکھی ہے خانہ جنگی خون خرابہ ایک نوالے کے پیچھے قتل ہوتے بات کرتی ہو۔ مجھے اب کسی بات سے فرق نہیں پڑتا۔ جنگ سے ایسے عیش و آرام میں پلے لوگ ڈرتے ہیں میرے جیسے ملٹرئ ٹرینڈ نہیں۔۔
ہوپ کی آنکھوں میں بے خوفی تھی مگر اریزہ متاثر نہ ہوئی
تم ۔۔۔۔ بہت فخر ہے جنگ سے نہیں ڈرتیں یا ملٹری ٹرینڈ ہو۔ اس سب کا فائدہ کیا ہے تمہیں؟ یہاں ایک دوسرے ملک میں پناہ گزین ہو تم اور جو ملک تمہیں پناہ دے رہا ہے کھلا پلا رہا ہے اس سے نفرت ہے تمہیں؟؟؟؟
اریزہ کا سوال ہوپ سے دوٹوک تھا۔ ہوپ سے کوئی جواب نہ بن پڑا چپ سی رہ گئ ۔اریزہ نے روئے سخن اب گوارا کی جانب موڑا
ترقی یافتہ ملک میں ہر طرح کا عیش و آرام میسر ہے تمہیں زیب دیتا ہے کسی کو اسکی کمیوں پر طنز کرنا ۔مانا تمہیں سب میسر رہا ہے مگر جس کو یہ سب سہولتیں میسر نہیں اس سے ہمدردی دور تم اسے چڑا رہی ہو۔ جو باتیں شمالی کوریا کی بتاتی ہو اسکا ایک فیصد بھی سچ ہے تو کیا تمہیں اپنے جیسے خدو خال اپنے جیسی بود و باش ہم زبان لڑکی سے ہمدردی محسوس نہیں ہوتی جو کسی طور تم سے کم نہیں مگر حالات کی ستائی ہے۔ تمہیں اسکے ساتھ ہمدردی سے پیش نہیں آنا چاہیئے؟
اب سر جھکانے کی باری گوارا کی تھی۔۔
مجھے تم دونوں میں کوئی فرق نظر نہیں آتا تم دونوں کو آپس میں کوئی اپنائیت محسوس کیوں نہیں ہوتی۔۔
اتنی لمبی تقریر جھاڑ کر وہ جیسے تھک کر بولی تھی۔۔
نہیں ہوتی۔ گوارا فٹ سے بولی۔
ہوپ اور اریزہ نے گھور کر دیکھا اسےتو اس نے جیسے ڈر کر جملہ مکمل کیا
میرا مطلب تھا کہ اس سب کے باوجود اپنائیت مجھے تم سے محسوس ہوتی ہے جو شکل ، رہن سہن بودوباش زبان مزہب سب میں الگ ہے۔ سارانگھیئے اریزہ۔۔
اس نے اریزہ کو اپنے ساتھ لگایا۔۔ہوپ نے گہری سانس بھری اور رخ پھیر کر اندر جانے کو تھی کہ اریزہ نے اسکا ہاتھ تھام لیا۔
بس کرو لڑنا۔ ہم ایک ساتھ رہ سکتے
جی ہائے نے دھاڑ سےداخلی دروازہ کھولا تو وہ سب چونک کر دیکھنے لگیں۔۔
آئو جی ہائے آنیانگ۔ اریزہ خیر مقدمی انداز میں بولی
ہاں آئو جی ہائے تم بھی۔۔ ہم لڑ ہی رہے ہیں تم بھی حصہ ڈال لواپنا۔۔
گوارا جان کر ہوپ کو چڑانے کو بولی جو اسے گھور کر دیکھتی اریزہ سے ہاتھ چھڑا نے لگی۔
۔۔ جی ہائے کے تاثرات تنے تنے ہی تھے جیسے واقعی لڑنے آئی ہو۔ اریزہ کو اسکے برعکس کافی خوشی ہوئی تھی دیکھ کر آگے بڑھ کر ملنا چاہا مگر جی ہائے کے چہرے پر اتنے سخت تاثرات تھے کہ رک سی گئ
گوارا سے ملنے آئی ہوں۔ بے رخی سے اس نے کہا تھا۔
کین چھنا؟ خیریت غصے میں لگ رہی ہو ؟
گوارا نے فکرمندی سے پوچھا۔
آنیا۔ بالکل خیریت نہیں۔ میری زندگی میں منحوسیت نے ڈیرا جما لیا ہے پچھلے کئی سال سے خیریت کیسے ہو سکتی ہے۔
وہ چبا چبا کر ہنگل میں بولی۔
پتہ تو لگے کیا ہوا؟ ۔۔ گوارا کے ماتھے پر ناگواری کی شکن در آئی۔
اریزہ کو انکی۔گفتگو مکمل سمجھ تو نہ آئی مگر اندازہ ہوا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔
کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے نا؟
اریزہ نے اسکا ہاتھ تھام کر پوچھا تو وہ جھٹکے سے ہاتھ چھڑا گئ۔
تم لوگ جہاں ہو وہاں خیریت ہو سکتی ہے؟
انگریزی میں اسے جھاڑ کر وہ گوارا سے ہنگل میں بولی
پہلے اس شمالی کوریائی محاجر اب یہ پاکستانی لڑکی تمہیں کوئی اندازہ ہے کن طوفانوں کو اپنے گھر میں بسائے ہو؟
تمہیں میرے گھر کے اٹھتے طوفانوں سے کوئی مطلب نہیں۔
اس بے وجہ تقریر پر گوارا چڑ کر بولی۔
جی ہائے چند لمحے گھورتی رہی۔۔ پھر ناک چڑھا کر اریزہ کی جانب دیکھے بنا سر خم کرکے بولی
اور تم اپنی رہائش کا نیا بندوبست کرو۔۔ اپنا ہاسٹل سے سامان اٹھالینا کمرہ خالی کرنا ہوگا سنتھیا نے کہا تھا بتادوں تمہیں۔۔۔
اور یہاں کا بھی بستر گول سمجھو۔۔
سخت سے انداز میں کہہ کروہ گوارا کو بازو سے کھینچتی کمرے کی طرف بڑھتئ چلی گئ ۔۔
یہ تمہیں کہہ کر گئ ہے؟ وہ پلٹ کر ہوپ سے پوچھنے لگی تو پتہ لگا وہ اکیلی ہی لائونج میں کھڑی ہے ہوپ انکی گفتگو کے درمیان پلٹ کر شائد ٹیرس چلی گئ تھئ۔
سنتھیا نے اسکو بھی کچھ کہہ دیا ہےکیا ۔ اریزہ کو دکھ ہوا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو؟ گوارا نے اسکی بےتکی بات پر حیرانی سے دیکھاتھا۔
توکیا ؟ !کیا تمہیں نہیں پتہ مسلمان کیسےہوتے ؟ یہ جادوگر ہوتے ہیں دن میں کئی کئی بار عبادت کرتے ایسا اورکسی مزہب میں ہوتاہے؟ دھیرے دھیرے انکو دیکھنے سے آپ بھی ان کا اثر قبولنے لگتے ہیں۔ میرے آہبوجی باقاعدہ زیر اثر آکر اپنے دوست کا مزہب اختیار کرگئے کتنی کوشش کی انہوں نے مجھے اور آہموجی کو بھی مسلمان کرنے کی ۔ آہموجی الگ نہ ہوتیں تو شائد ہم دونوں کو بھی وہ اپنی طرح پاگل کر دیتے۔
ہر وقت میرے گھر میں عربی گونجتی تھی۔ تم اس ٹراما کا تصور بھئ نہیں کرسکتیں جس سے میں اور آہموجی گزرے۔
دیکھنا اس کی چیزوں میں بھی یقینا کوئی جادوئی لاکٹ ہوگا۔ کوئی کتاب۔ کوئی تعویز۔
وہ جنونی انداز میں کہتی اریزہ کے بیگ کی جانب بڑھی۔ اسکے بیگ کی زپ کھول کر اسکے سب کپڑے نکال کر بیڈ پر اچھالنے لگئ اسکا پرس الٹ دیا۔ گوارا بھونچکا سی اسکا جنونئ انداز دیکھ رہی تھی۔
اسکے ہاتھ سے اریزہ کا بیگ چھین کر اسکی چیزیں چھین کر واپس ڈالتے ہوئے کہنے لگی
آئیگو۔۔ جی ہائے آ۔۔ سب انسان ایک جیسے نہیں ہوتے سب مسلمان ایک جیسے نہیں ہوتے اور تمہارے آہبوجی مانا چاہتے تھے تم لوگ مسلمان ہو جائو مگر ایک اس بات کے علاوہ وہ کتنے اچھے تھے تم لوگوں کا کتنا خیال رکھتے تھے ہر خرچہ اٹھاتے تھے اور ابھی بھئ دو سال ہو رہے تمہیں ان سے ملے ہوئے پھر بھی وہ ہر تہوار تم کو تحائف بھیجتے ہیں تم پاکٹ منی استعمال کرو نا کرو تمہارے اکائونٹ میں پیسے ڈلواتے ہیں ۔۔۔۔
سب کچھ پیسہ نہیں ہوتا میری مام میرا پورا خرچہ اٹھاتی ہیں مجھے انکے پیسے کی ضرورت نہیں۔۔
جی ہائے نے غصے سے اسکی بات کاٹی۔۔
تمہارے آہبو جی مسلمان ہو گئے تم لوگوں کو بھی مسلمان ہونے پر زور دینے لگےاسکا اریزہ سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں بنتا ۔۔ تمہاری چڑ بالکل بلا جواز ہے۔۔
گوارا چیزیں سمیٹ کر واپس انکو انکی جگہ پر رکھتی قطعی انداز میں بولی۔۔۔
اریزہ تم کو بھی اپنے جیسا کر لے گی اور اسکا اثر میں دیکھ بھئ رہی ہوں تم اریزہ تو اریزہ مسلمانوں کے خلاف بھی ایک لفظ نہیں سن سکتی ہو۔۔ پوری دنیا ان متعصبی مسلمانوں سے عاجز ہے اور تم۔۔۔ جی ہائےشائد اپنی بات اچھی طرح سمجھا نہیں پا رہی تھی۔۔ گوارا نے ایک نظر اسے دیکھا پھر ہاتھ پکڑ کر اپنے برابر بیڈ پر بٹھا کر بولئ
دیکھو اریزہ پیدائشی مسلمان ہے وہ تمہارے آہبوجی کی طرح ایکدم سے کسی مزہبی جنون کا شکار نہیں ہوئی ہے۔۔ اسکے جو بھی عقائد قوائد اور روایات ہیں انہیں وہ بس خود اپنے اوپر لاگو کرتی ہے وہ مجھے یا ہوپ کو کبھی مجبور نہیں کرتی ۔ تم تو اریزہ کی مجھ سے پہلے دوست بنی تھیں اسے اتنا نہیں جان پائیں؟ وہ تو اسکارف تک نہیں لیتی ۔۔ بالکل بھی بنیاد پرست نہیں ہے وہ یار۔۔
ہے ۔۔ یہ لوگ ہوتے ہیں بظاہر جیسے بھی نظر آتے ہوں اندر سے کٹر ہوتے ہیں کبھی نہیں بدلتے…جی ہائے چلا کر بولی
تو نہ بدلے اسے کیوں بدلنا ہے تمہیں؟
گوارا نے زچ ہو کر کہا۔
وہ تمہیں بدل دے گی۔ بلکہ بدل رہی ہے۔ تم اسکی حمایت کر رہی میں کیا کہہ رہی کچھ فرق نہیں پڑ رہا تمہیں۔ وہ تمہاری دوست ہے یا میں۔۔
وہ جھنجھلا اٹھی۔
تم دونوں میری دوست ہو ۔ گوارا رسان سے بولی۔
یا تو وہ دوست ہوگئ یا میں۔فیصہ کرو۔ ابھی اس کو گھر سے نکالو۔۔۔ میں ایک مسلمان لڑکی کو کسی طور برداشت نہیں کر سکتی مجھے پتہ ہوتا تو میں۔۔۔ وہ جزباتی پن سے کہہ رہی تھی۔۔
گوارا نے اسکا اتنا چڑتے کئی بار دیکھا تھا ہمیشہ رسان سے اسکا پارہ نیچے لانے کی کوشش کی تھی ابھی بھی یہی کرنے لگی۔۔
تحمل سے کام لو جی ہائے۔ بیٹھو۔۔
میں یا وہ ایک فیصلہ کرو۔۔ نکالو اسے اپنے گھر سے
وہ۔حلق کے بل چلائی۔
میں تمہارے اس پاگل پن کی وجہ اسے اپنے گھر سے نہیں نکالنے والی۔
وہ بھی چڑگئ۔
جی ہائے کو بالکل توقع نہ تھی کہ وہ آگے سے یو ں بے مروتی سے کہہ دے گی۔
چند لمحے صدمے کی حالت میں اسے دیکھتی رہ گئ۔
بات سنو ۔۔ گوارا نے گہری سانس لیکر آگے بڑھ کر اس کے کندھے تھامنے چاہے۔
چھے سو۔۔ اس نے اسکے ہاتھ جھٹک دیئے تن فن کرتی کمرے کا دروازہ حقیقتا اپنے پیچھے آتی گوارا کے منہ پر بند کیا۔
ہائش۔۔ گوارا نے فورا دروازہ کھولا مگر تیز تیز قدم اٹھاتی۔ جی ہائے داخلی دروازہ بھی کھول کر نکل رہی تھی۔ سامنے ہایون تھا ٹکراتے ٹکراتے بچی۔۔
بیانیئے۔۔ وہ سنبھل کر جھک کر معزرت کرنے لگا۔۔
ہونہہ۔۔ وہ سر جھٹکتی رکی نہیں باہر نکلتی چلی گئ۔۔وہ اس وقت سننے کے موڈ میں نہ تھی۔ سواسے اسکےحال پر چھوڑ کر وہ ہایون کواندر آنے کا کہنے لگی۔۔
جانے دو اسے تم آئو اندر دروازہ بند کردینا۔
گوارا کا انداز خیر مقدمی تھا اور نارمل بھی۔
ہایون جو بلا ارادہ پرسوچ انداز میں جی ہائے کو لفٹ کی جانب پیر پٹختے جاتے دیکھ رہا تھا چونک اٹھا
پھر لڑائی ہوگئ تم دونوں کی؟ اب کتنے دن بول چال بند رہے گی۔۔
شکرو۔ (چھوڑو ) تمہیں ان تفصیلات کو جاننے کی ضرورت نہیں۔ آئو کھانا کھائو گے؟۔۔ اسکا رخ کچن کی جانب تھا جب اریزہ کی زور دار آواز آئی دونوں ٹیرس کی جانب بھاگے اریزہ بے چاری سی شکل بنائے بمشکل ہوپ کو سنبھالے کھڑی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چند ثانیئے قبل۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی ہائے گوارا کو جانے کیا چلا چلا کر بتارہی تھی باہر تک آواز آرہی تھی۔۔ وہ چند لمحے سوچ میں پڑی پھراندر جانے کا ارادہ ترک کرکے باہر ٹیرس میں چلی آئی۔
یہ کتیا۔۔ مجھے کہتی ہے میں انکے ٹکڑوں پر پل رہی ہوں
مجھے کسی کی مدد نہیں چاہیئے۔ میں کچھ بھی کر سکتی ہوں خود ۔۔ اور مجھ پر ترس کھانے کی ضرورت نہیں سمجھ آئی میں اپنا خیال خود رکھ سکتی ہوں۔۔
لڑکھڑاتے لہجے میں بڑ بڑاتی ہوپ کہہ کیا رہی تھی یہ تو اریزہ کو سمجھ نہ آیا تاہم اسکے بعد ہچکیاں لے کر رونے لگی تو ترس آگیا۔۔ اندر جانے کا ارادہ ترک کرتی وہ اسکے پاس آکھڑی ہوئی۔۔
تم یہاں کیا کر رہی ہو؟
اسکا انداز دوستانہ تھا
دیکھ رہی ہوں اتنی بجلی یہاں جلا کر ضائع کرتے وہاں میرے گائوں میں پورے دن میں پانچ گھنٹے بجلی آتی۔۔ ان سے کہو بند کریں ہم رات بھر بنا بجلی رہتے ہیں ۔۔ بند کرو بتیاں سول۔۔
ہوپ اسکے پاس آکھڑے ہونے پر اپنی طرف سے چلائی تھی مگر آواز اتنی نکل نہ سکی ۔۔
اریزہ کو اسکی ہنگل پلے نہ پڑی مگر انداز سے یہ لگا اسے اسکا پاس آنا ناگوار گزراہے۔۔ شراب کی ناقابل برداشت بو اسے ابکائی لینے پر مجبور کر گئ۔۔
ہوپ نے اسکو خود سے دور ہٹتے دیکھا تو ہاتھ میں پکڑی بوتل اٹھا کر اس پر اچھال دی۔۔ وہ بروقت پیچھے ہٹی بوتل اسکے دونوں پیروں کے درمیان ٹوٹ کر چور ہوئی ایک کانچ کا ٹکرا اسکی ایڑھی کے پاس کھب سا گیا۔۔
سی۔۔ وہ تڑپ کر وہیں اکڑوں بیٹھئ شکر ہے ٹکڑا چھوٹا سا تھا اس نے چٹکی سے نکال کر اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورا۔۔
پاگل ہو تم کیا ؟ ایک دنیا کو غم لاحق ہیں یوں دوسروں کو تکلیف نہیں پہنچاتا پھرتا کوئی۔ اور شراب سے تکلیف کم ہوئی ہے یا مزید دماغ خراب ہوا ہے تمہارا دل تو کر رہا مکا مار کر یہ پھینی ناک اور پچکا دوں تمہاری۔۔
اسکی انگریزی کہیں پیچھے رہ گئ تھی اردو میں اسے سنایا ہوپ بھی اسکے پاس اکڑوں بیٹھ گئ چندی آنکھیں بڑی بڑی کر کرکے معصومیت سے پوچھا
ویو؟ کیا ہوا؟بوتل ٹوٹ گئ؟
ٹھہرو میں اور لاتی ہوں اتنئ سارئ لائی ہوں تم بھئ پی لینا۔۔
لڑ کھڑاتی ریلنگ کا سہارا لیکر وہ اٹھنے لگی تو ہاتھ کانچ پر ہی رکھ کر وزن دے کر اٹھ گئ۔۔ اس سے ذیادہ زور سے چیخ اریزہ کے منہ سے نکلی تھی۔۔
نہیں۔۔۔ اس نے اٹھ کر سے تھاما ۔۔۔
پھی ۔۔پھیہہ۔ ہوپ اپنا کانچ کھبا ہاتھ دیکھ کر بڑ بڑائی۔۔ پھر لڑکھڑاتی آواز میں بولی۔۔
کین چھنا۔۔ (کوئئ بات نہیں)
کین چھنا کی بچی۔۔ اریزہ نے دانت کچکچائے
اسکا ہاتھ پکڑ کر کھبا ہوا کانچ کا ٹکڑا نکالا۔۔ خون فوارے کی طرح نکلا تھا ۔۔ اریزہ کو یہ ٹکڑا اپنے ہاتھ میں کھبا محسوس ہوا تھا۔۔ ہوپ نشے میں تھی پھر بھی تڑپ سی گئ ۔ پھیہہ آہمونی پھیہ۔۔
کہتی وہ لہرا کر اریزہ کے بازو میں جھول گئ۔۔
گوارا۔۔ اریزہ حلق کے بل چلائی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زخم بہت گہرا نہیں تھا۔۔ ہایون اسے احتیاط سے اٹھا کر کمرے میں لے آیا تھا بستر پر لٹا کر زخم کی پٹی بھی اسی نے کی تھئ۔۔ ہوپ بالکل بے سدھ تھی۔ ہایون ڈریسنگ کرکے ہاتھ دھونے باتھ روم گھسا تو اریزہ ہوپ کو کمبل اڑھاتی بتی بجھاتئ باہر نکل آئی۔۔ گوارا باورچی خانے میں چاول دم دے رہی تھی اریزہ نے دوپہر کو چنے کی دال بنائی تھی اس وقت ان چاولوں کے ساتھ اسے ہی کھانے کا ارادہ تھا تو گوارا پورک اسٹیک کے ساتھ چکن نوڈل سوپ اڑانا چاہتی تھی۔۔فضا میں گوشت بھننے کی بو پھیلی تھی۔
کونسا گوشت ہے یہ۔۔ اس نے تندہی سے گوارا کو گرل کرتے دیکھ کر یونہی پوچھا تھا
خنزیر۔ گوارا نے سرسری سا کہا پھر خیال آیا تو مڑ کر اریزہ کے تاثرات غور سے دیکھنے لگی۔۔
خنزیر کا نام سن کر بلا اردہ اس نے جھر جھری سی لی تھی۔۔
ہیون ہاتھ پونچھتا آیا تو گوارا میز ترتیب دینے لگی۔۔ اریزہ نے اپنی دال چاول کی پلیٹ بنائی پھر اٹھ کر لائونج کے صوفے پر جا بیٹھی۔۔
کیا ہوا ؟ ہیون نے کہا تو اس سے فوری بہانہ نہ بن سکا۔۔ گڑ بڑا سی گئ۔۔
وہ۔۔ اس نے سوچا پھر ٹی وی آن کر لیا۔۔
وہ سوچا ٹی وی دیکھتے ہوئے کھائوں۔۔ تم لوگ کھائو۔۔
وہ لوگ جو بھی کھا رہے ہوں اس سے مطلب تو نہیں تھا مگر فضا میں رچی گوشت کی بو اوپر سے ایک ایسا حرام جانور جس کے بارے میں بچپن سے صرف برا ہی سنا اسے کھاتے دیکھ کر اریزہ کو لگا تھا الٹی نہ بھی آئی تو بھی اسکے تا ثرات بگڑ جائیں گے۔۔ لہذا دوری بھلی۔۔
ہیون کا رخ اریزہ کی جانب ہی تھا بڑی فرصت سے اسے دیکھنے لگااریزہ ٹی وی میں منہمک تھی گوارا گہری سانس لیکر بولی۔۔
آج جی ہائے آئی تھی اسے آج پتہ چلا کہ اریزہ مسلمان ہے۔۔ بہت بگڑی مجھ سے بھی لڑی کہ اریزہ مجھے بھی مزہب بدلوا دے گی اسکے پاپا کی طرح مزہبی جنونی پن دکھا کر اور۔۔۔
اچھا۔۔ ہیون کا انداز لاپروا سا تھا
وہ بڑی رغبت سے اسٹیک کھا رہا تھآ
تو؟؟؟ ۔ اسے تو میں نے جھٹلا دیا مگر کچھ کچھ اسکی باتوں میں سچائی ضرور تھی۔۔ اریزہ کافی کٹر ہے اپنے مزہب میں اب ہم پورک کھا رہے ہیں تو وہ دیکھو دور جا بیٹھی ہے کبھئ بھی ڈرنکس میں ہمارے ساتھ شریک نہیں ہوتی ابھی اس کے اوپر الکوہل گر گئ تو کپڑے بدل کر پائوں دھو کر بیٹھی ہے۔۔۔۔
گوارا جانے کیا سمجھانا چاہ رہی تھی ہایون نے سکون سے سنتے ہوئے چاپ اسٹکس ایک جانب رکھ دیں۔۔
اسکے مزہب میں تو منع ہے پورک مگر میں صرف پسند نہ ہونے پر بہت سی سبزیاں کھاتا ہی نہیں ہوں۔ خاص کر بروکولی پکی ہو تو مجھ سے اسکی بو برداشت نہیں ہوتی ایسے ہی میز سے اٹھ جاتا ہوں۔ شراب مجھے پسند ہے مگر ایسا بھئ ہوا ہے کہ ایک بار چالیس سال پرانی قیمتی شراب پیتے ہوئے میرے کپڑوں پر گر گئ مجھ سے وہ بو اتنی ناقابل برداشت ہوگئ کہ مدہوش ہونے کے باوجود میں شاور کے نیچے جا کھڑا ہوا تھا تب یون بن نے ہی میری مدد کی تھی۔۔ وہی تمہارا بوائے فرینڈ نام تو سنا ہوگا۔۔
آخر میں وہ شرارت سے کہہ کر مسکرایا۔۔ گوارا بے ساختہ ہنس پڑی۔۔
تمہیں پتہ ہے مجھے تم چٹکیوں میں ہر بات اڑا کر ہنستے اچھے لگتے ہو۔ مگر ہر بات اتنی سادہ نہیں ہوتی۔ خیر سچی بات ہے تمہیں اریزہ سوٹ کرتی ہے میری دعا ہے کہ تم دونوں جلد از جلد محبوب جوڑا بن جائو ۔۔ آمین۔۔
چاپ اسٹکس رکھ کر دونوں ہتھیلیاں آپس میں جوڑ کر بدھا سے مانگنے کے مخصوص انداز میں گوارا نے خلوص دل سے دعا دی تھی۔۔ ہیون محظوظ سے انداز میں ہنستا چلا گیا۔۔
پھابو۔۔ بالکل سادھو سنت لگی ہو کہتے ہوئے۔ یہی کام شروع کردو بہت پیسہ ہے سنا ہے پجارنوں کو لوگ بہت چڑھاوے چڑھاتے ہیں۔۔
وہ مزاق اڑا رہا تھا مگر گوارا کو اس پر غصہ ہی نہ آیا الٹا
خود بھی اسکے کھل کر ہنسنے پر ساتھ دینے لگی۔ ٹی وی دیکھتی اریزہ نے چونک کر دونوں کو ہنستے دیکھا۔۔
لگتا ہے میں سارے ہی کپلز کو ٹوٹتے دیکھ لوں گی کوریا میں اب یہ دونوں ساتھ۔۔ سوچتے سوچتے وہ غیر ارادی طور پر ہیون کو دیکھنے لگی ۔۔۔ وہ بہت ہنستا تھا مگر اس وقت دل سے ہنس رہا تھا یہ اسے اتنے دنوں میں پہلی بار شائد لگا تھا۔۔ ۔ ہیون کی ہنستے ہنستے نظر پڑی تھی اسکی نظریں محسوس کرکے اسے ہاتھ ہلانے لگا گوارا بھی پلٹ کر اسے دیکھنے لگی تھی اور تب ہی اریزہ کا مسکراتا چہرہ پھیکا پڑتا گیا۔۔ بدقت رخ بدلتے وہ اس ایک نگاہ پر بعد میں بہت پچھتائی تھی۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر میں حسب معمول خاموشی کا راج تھا۔ وہ گہری سانس بھرتا سیدھا کمرے میں آیا تھا۔۔ کوٹ اتارے بغیر بیڈ پر دھپ سے گرا۔۔۔۔جانے کونسی سوچ چہرے پر مسکراہٹ بن کے بکھری تھی جس نے اطمینان بھر دیا تھا اسکے اندر۔۔ وہیں ویسے ہی آڑا ترچھا پڑے جانے کب وہ گہری نیند میں ڈوب چلا تھا۔۔ پرس کندھے پر لٹکائے تھکے تھکے قدموں سے گنگ شن کی اپنے کمرے میں جاتے ہوئے اسکے کمرے کےنیم وا دروازے پر پڑی تھی۔ موسم بدل چلا تھا بوئلر چالو نہیں ہو ئے تھے پھر بھی خنکی کا راستہ کھول کر سونا بیماری کو دعوت دینا ہی تھا قریب آکر اندر جھانک تو بیڈ پر ترچھا پڑا نظرآیا۔۔
یہ لڑکا آہش۔۔ وہ سر جھٹکتی اسے سیدھا کرنے کے ارادے سے اندر آئیں مگر جب اسکے چہرے پر نگاہ پڑی تو گہری نیند میں بھی اسکی پرسکون مسکان انکے اپنے چہرے پر بھی مسکراہٹ دوڑا گئ۔۔ احتیاط سے کہ اسکی نیند نہ کھل جائے اسے کمبل اڑھاتی وہ دروازہ بند کرتی باہر نکل آئیں۔۔
تم نے ٹھیکہ لے رکھا ہے شمالی کوریائی محاجروں کا؟ جانتی بھی ہو تم نہ صرف اپنی زندگی بلکہ میری کاروباری ساکھ سے بھی کھیل رہی ہو ۔۔
پشت پر سے آہبوجی کی دھاڑ پر وہ لمحہ بھر کو ٹھٹکی تھیں۔۔ پھر مڑ کر بڑے اطمینان سے جواب دیا تھا۔۔
میری زندگی کی آپکو فکر تو ہے نہیں ہاں یقین یہ دلا سکتی ہوں کہ آپکی ساکھ کو اپنی زندگی سے ذیادہ اہم سمجھتے ہوئے کوشش یہی کرتی ہوں کہ مر کر بھی اسے نقصان نہ پہنچنے دوں۔۔
تم بھول رہی ہو کہ میں تمہارا باپ ہوں۔۔
آہبوجی کےماتھے پر تفکر کی لکییر ابھری تھی لہجہ دھیما بھی پڑا تھا۔۔
میری بدقسمتی۔۔ وہ بڑبڑائیں
جانے تم دونوں بہن بھائی کس مٹی کے بنے ہو یہ عیش آرام سب اسی کاروبار کی بدولت ہے جس کو ملیا میٹ کرنے پر تلےہو تم دونوں۔۔ سوچا ہے کبھی کہ
آہبوجی۔۔ انہوں نے ہاتھ اٹھا کر روکا
آئیندہ کبھی آپکا نام استعمال نہیں کروں گی۔۔ مجھے بارڈر پر اریسٹ کیا جا رہا تھا جبھی مجھے آپکا نام اور ساکھ کو استعمال کرنا پڑا ۔۔ اگر میں محاجرین میں سے ایک سمجھی جاتی تو مجھے جنوبی نہیں شمالی کوریا بھیج دیا جاتا ۔۔ مجھے اپنی زندگی کا ڈر نہیں تھا مگر جن کو بچانے کیلئے اتنے پاپڑ بیلے انکو واپس اسی جہنم میں نہیں پھینک سکتی تھی
۔ مگر آپ سے وعدہ ہے آئیندہ آپ سے کوئی مدد نہیں مانگوں گی۔۔
مجھے تمہاری یقین دہانیاں نہیں چاہیئیں۔۔ آہبوجی چڑ گئے تھے۔۔
ہیون کے کمرے کے باہر کھڑے ہوکر اس گفتگو کو جاری رکھنے کا مطلب اسکی نیند خراب کرنا ہی تھا جبھی وہ بات ختم کرکے چلی جانا چاہتی تھیں۔۔
اگر تم یہ سب اسلیئے کر رہی ہو کہ میں اس شمالی کوریائی لڑکے سے تمہاری شادی کردوں تو ۔۔۔
وہ جانے کیا کہنے لگے تھے گنگشن کو زور سے ہنسی آگئ
اوفوہ ۔۔ وہ بات ختم ہوگی تھی اب میں اپنے لیئے نہیں جیتی فالتو وہم نہ پالیں۔ ایسا کچھ نہیں۔۔ سو جائیں رات ہو گئ ہے۔۔
ہا ہا ہا۔۔ وہ ہنسی روکتی اپنے کمرے کی جانب بڑبڑاتی بڑھ گئی۔۔
شادی ہائش۔۔ اچھا مزاق کرتے ہیں۔۔
آہبوجی کا جملہ انکے منہ میں ہی رہ گیا۔۔
میں کروا دیتا ہوں پر۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکے پاس اور کوئی چارہ نہ تھا کہ جا کر اپنی انا بالائے طاق رکھ کر ایڈون کو کہے کہ میرے رہنے کا انتظام کردو۔۔
بس دو دن ۔۔۔
پلیٹ میں چمچ سےچاول ادھر ادھر کرتی وہ کھانا بھول چکی تھی۔۔
کم سن اپنی ٹرے بنا کر بیٹھنے کی مناسب جگہ ڈھونڈ رہا تھا جب اسکی نگاہ اکیلی بیٹھی سنتھیا پر پڑی۔ اس نے لمحہ بھر کو سوچا پھر وہیں چلا آیا کرسی گھسیٹ کر اسکے سامنے ٹرے رکھ کر بیٹھ گیا تب بھی اس نے سر نہ اٹھایا۔۔
سنتھیا کی دھڑکن لمحہ بھر کو تھمی۔۔ پھر سر اٹھائے بغیر بولی۔۔
مجھے ہاسٹل چھوڑنا پڑے گا جب تک دوبارہ ہمارا سیشن نہیں شروع ہوتا اب میرے لیئے اگلے چھے مہینے کیلئے رہائش کا انتظام کرو۔۔
دے؟ ۔۔۔ کم سن کو کچھ پلے نہ پڑاتو حیرانی سے بول اٹھا
فرائڈ رائس کا چمچ بھر کر منہ میں رکھتے ہوئے اس نے سر اٹھایا تو ٹھیک ٹھاک حیرت کا جھٹکا لگا۔۔ منہ میں رکھا نوالہ چبانا بھول گئ۔۔
وہ یہی سمجھی تھی کہ ایڈون ہے۔۔
تم کیا کہہ رہیں تھیں؟۔ کم سن دوستانہ انداز میں پوچھ رہا تھا
کچھ نہیں۔۔ وہ سنبھل کر بولی تبھی حلق میں پھندا سا لگ گیا۔۔ بری طرح کھانستے اسکی سانس بند ہونے لگی۔۔
کم سن نے جلدی سے پانی کا گلاس بھر کر اسکی جانب بڑھایا۔ بے تحاشہ کھانستے اسکی حالت غیر ہونے لگی تھی شائد بوٹی کا کوئی ٹکڑا سالم حلق میں پھنس گیا تھا۔۔ اسکا چہرہ سرخ ہو چلا تھا بمشکل پانی پیا کچھ کھانسی تھمی۔۔ کم سن اپنا کھانا چھوڑ کر اسکی جانب جی جان سے متوجہ تھا۔۔
کین چھنا؟ ۔۔ آئی مین آر یو آل رائٹ نائو۔۔
سنتھیا نے بمشکل سر ہلایا۔۔ آنکھوں سے سیل رواں جاری تھا۔۔
ایکسکیوز می۔۔ وہ کھانا چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی
کھانا تو کھالو۔۔ کم سن کے کہنے پر وہ بس نفی میں سر ہلا کر جانے لگی
بات سنو ۔۔ تم ابھی کیا کہہ رہی تھیں؟ ہاسٹل ، سیشن۔۔ تمہیں رہائش کا مسلئہ ہے نا؟
کم سن کو باقی بات تو سمجھ نہ آئی مگر اس دن ہاسٹل کی بات چونکہ اسکے سامنے ہوئی تھی سو وہ ٹھیک اندازہ لگا بیٹھا۔۔
سنتھیا نے لمحہ بھر سوچا۔۔
پھر اثبات میں سر ہلا دیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دریا کنارہ شام کا منظر ہلکی سرد ہوا۔۔ سکوت و سکون۔ اور وہ کھڑی نئے سال کی آتش بازی دیکھ رہی تھی ۔ رنگ پٹاخوں کی آوازوں کے ساتھ آسمان پر بکھر رہے تھے۔ وہ مسحور سی ہو کر دیکھ رہی تھی جبھی کوئی اسکے برابر آکھڑا ہوا۔۔ اس نے من پسند انسان کی موجودگی محسوس کرتے ہی مسکرا کر دیکھا جوابا وہ بھی مسکرا دیا تھا۔۔
اسکی مسکراہٹ سمٹ سی گئ
پٹ آنکھیں کھلی تھیں اسکی۔۔ کمبل اپنے اوپر سے ہٹاتی وہ ایکدم اٹھ بیٹھی ۔ اسکے برابر ہی ہوپ بے خبر سوئی تھی تو ڈبل بیڈ کےدوسرے کنارے گوارا ترچھی پڑی سو رہی تھی۔۔
کیا بکواس خواب دیکھا ۔۔ وہ اپنے سر پر ہاتھ مار کر رہ گئ۔۔ سائیڈ ٹیبل سے موبائل اٹھا کر وقت دیکھا صبح کے پانچ ہو رہے تھے۔۔ گلاس ونڈو پر پردے پڑے تھے پھر بھی اندازہ ہو رہا تھا باہر روشنی کے آثار نہیں۔۔
اس نے دوبارہ کمبل تان کر سونا چاہا۔۔پھر شیطان پر لعنت بھیجتی اٹھ بیٹھی۔۔ ہمت کرکے اٹھی وضو کیا نماز پڑھ کر دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے۔۔ بس میرے حق میں جو بہتر ہو وہ ہو۔۔
دعائئں قبول ہو جائیں تو نئی خواہشیں پیدا ہونے تک لوگ ایسے ہی بے نیازی سے دعا میں خیر مانگتے پھر اگر فیصلے آسمان سے ہی آئیں تو دعائیں بدل کر ضد باندھ لیتے ہیں۔۔ فی الحال تو اریزہ کا دل غنی تھا سو خود کو مومن سمجھتی نماز لپیٹ کر رکھتی وہ باہر نکل آئی۔۔ سورج نکلنے تک اب اس نے سونے کا ارادہ ترک کر دیا تھا۔۔۔ باہر ٹیرس میں آکر ٹہلنے لگی۔ اپنے گھر میں تو ٹیرس پر جانے کون کون سی ہوائی مخلوق کا اندیشہ رہتا تھا کوریا میں آکر جیسے ہر خوف پیچھے رہ گیا تھا۔۔۔
چڑھتے سورج کو دیکھتے ہوئے اسکے اندر عجیب سی سرشاری بھرتی جا رہی تھی۔۔۔
اس سے کچھ بلاک دور کوئی اپنے کمرے سے ملحق ٹیرس پر کھڑا اسی منظر کو دیکھتے مسکرا رہا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چکراتے سر کے ساتھ وہ باورچی خانے میں کھڑی سوپ بنانے کی کوشش کر رہی تھی۔ سبزیاں ڈالتے بیف ڈالتے ہوئے وہ کئی بار انہیں لگا تھا کہ سوپ سمیت زمین بوس ہوگی مگر بچت رہی۔ گوارا اور اریزہ کہنیاں میز پر جمائے ہاتھوں کے پیالے میں چہرہ ٹکائے اسے بڑے اطمینان سے دیکھ رہی تھیں۔
مجھے لگتا ہے آج بنا ناشتے کے جانا ہی میرے لیئے بہتر رہے گا۔۔ گوارا اکتا کر بولی پھر اریزہ کے کندھے پر چپیڑ مار دی
آہ۔۔ اریزہ نے تڑپ کر بازو سہلاتے گھورا۔۔
وے۔۔؟؟؟؟(کیا؟)
تم نے مجھے ناشتے کی بری عادت ڈال دی ہے ورنہ اچھی بھلی یونیورسٹی تک ہمیشہ بنا ناشتے کے گئ ہوں۔۔
وہ دانت کچکچا رہی تھی۔۔
یہ لو۔۔ لہراتئ ہوپ نے سوپ کا بھرا پیالہ انکے سامنے لا رکھا۔۔
کھائو۔ آج ناشتہ میری طرف سے۔۔ وہ مسکرا کر کہتی کرسی پر گری ۔۔
تم مدہوش ہی رہا کرو اخلاقیات بہتر ہو جاتی ہیں تمہاری۔۔
گوارا کہنے سے باز نہ آئی۔۔ اسکے بنائے سوپ کا بھر کے چمچ چٹخارہ بھی لیا۔۔
میں مدہوش نہیں ہوں۔۔ ہوپ چڑی۔۔ کانپتے ہاتھوں سے چمچ منہ تک جاتے جاتے میز پر آبشار گرا چکا تھا۔۔
اریزہ اپنا ناشتہ بنانے کے ارادے اٹھی تو ہوپ نے اسکو بازو سے تھام لیا۔۔
تم کھائو نا میں نے تمہارے لیئے بھی بنایا ہے۔۔
میں ناشتے میں انڈہ کھائوں گی۔۔ وہ نرمی سے کہتی ہاتھ چھڑاتی ناشتہ بنانے کی نیت سے کائونٹر کی جانب بڑھ گئ۔۔
یہ کبھی میرے ہاتھ کا نہیں کھاتی۔۔ شمالی کوریا والے کم ذات ہیں کیا اسکی نظر میں۔۔
ہوپ ہونٹ لٹکا کر شکایتی انداز میں گوارا سے بولی۔۔
ہاں بلکہ یہ تو انہیں دہشت گرد بھی سمجھتی ہے۔۔ گوارا نے مزید تیلی لگاتے کہا۔۔
اچھا؟ ہوپ کی آنکھیں پھیلیں۔۔ پھر پلٹ کر چلائی
تم مجھے دہشت گرد سمجھتئ ہو؟ تم خود ہوگئ دہشت گرد کیہ سکی۔۔۔(پاگل کتیا)۔۔
اریزہ کو نہ اسکا چلانا سمجھ آیا نہ جملہ ہاں کیہہ سکی سمجھ آیا۔۔ غصے میں بھر کر اسکی جانب بڑھی
تم خود ہوگی کیہہ سکی۔۔ پاگل جاہل کمینی عورت ۔ جتنا خیال کرو تمہارا اتنا دماغ الٹ رہا ہے باہر سردی میں مرنے پڑنے چھوڑ دینا چاہیئے تھا یا اس گیلری سے ہی ٹن حالت میں گر مر جاتیں ٹھیک رہتا۔۔
اریزہ دانت کچکچا کر بولی تو۔۔ گوارا اور ہوپ دونوں چپکی رہ گئیں۔۔
اس نےکیا کہا بتائو مجھے۔۔ ہوپ ہوش میں آکر گوارا کا بازو ہلا رہی تھی۔۔
اس سے کیا پوچھ رہی ہو مجھ سے پوچھو۔۔ لعنت بھیج رہی ہوں تم پر۔۔ اس نے باقاعدہ ہاتھ کی پانچوں انگلیاں کھول کر دکھایا اسے اریزہ نے ساری تقریر اردو میں ہی جھاڑی تھی تو ہوپ ہنگل میں گٹ پٹ کر رہی تھی دونوں کو ککھ ایک دوسرے کی سمجھ نہیں آرہی تھی۔۔
اب یہ کیا ہے۔۔ یہ لڑ رہی ہے مجھ سے یا ہاتھ ہلا رہی ہے کوئی کل سیدھی ہے اسکی میں اسکی پھین ( فین) ہوں کیا جو مجھےگریٹ کر رہی ہے۔۔ ہوپ کو غصہ آرہا تھا
گوارا کو اریزہ پر پیار ہی آگیا ۔۔ لڑنا بھی نہیں آتا اسے آگے بڑھ کر اسے پیار سے ساتھ لگا لیا۔۔ اریزہ کی آنکھیں ابلنے کو تھیں۔۔
بیانئئے۔ ان دونوں کو چمٹتا دیکھ کر ہوپ کو بھی شرمندگی ہوئی آگے بڑھ کر وہ بھی ساتھ لگ گئ۔۔
عجیب ہے لڑ رہی تھی یا پیار جتا رہی تھی۔ کیہہ سکی ہی کہا تھا اس نے یا میں نے غلط سن کر اتنا کچھ سنا ڈالا۔۔
اریزہ بھی نرم پڑگئ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگست شروع ہوتے ہی ہوا کی خنکی بڑھنا شروع ہوگئ تھی۔۔
وہ اور گوارا شاپنگ کرنے نکلی تھیں۔ گوارا اسے جن مالز میں لیکر پھر رہی تھی وہ بس اسے دیکھ کر رہ گئ۔ کئی کئی ہزار وون کے جوڑے وہ بھی آدھے ادھورے۔۔ گوارا نے لانگ کوٹ لیا اسے بھی پسند آیا۔۔ کالے رنگ کا تھا ہر لباس کے ساتھ چل جاتا مگر جب قیمت دیکھی تو ایکدم بکواس سا لگنے لگا۔۔ گوارا نے ایک لحظہ اسے دیکھا پھر برا سا منہ بنا کر سیلز گرل سے کہنے لگی
کوئی نیا ڈیزائن تو لائے نہیں کھول کر بیٹھے ہیں بوتیک حد ہوتی ہے اب میری سہیلی سخت بیزار ہورہی ہے اور میں شرمندہ یہ سب پٹے ہوئے ڈیزائن ہیں پچھلے سال ہی امریکہ میں آچکے اف۔۔ میں بہت شرمندہ ہوں اریزہ۔۔
ریل گاڑی کی رفتار کو مات دیتی گوارا کی زبان اریزہ منہ کھولے ہی بس دیکھ کر رہ گئ۔۔ سیلز گرل بیانئے بیانئے کہتی دو مرتبہ گوارا اور دو ہی مرتبہ اریزہ کے سامنے جھکی تو گوارا شان بے نیازی سے اسے نظر انداز کرتی اریزہ کا ہاتھ تھامتی دکان سے باہر نکل آئی۔۔
آئو یہاں سب بکواس مال ہے میں تمہیں کسی اچھی جگہ لیکر جاتی ہوں۔۔
اریزہ کچھ سمجھتے نہ سمجھتے چل پڑی ۔۔
گنگم آسٹریٹ کے مشہور زمانہ کچھ کچھ پنڈی کے راجہ بازار سے مشابہہ بازار میں گوارا نے اسے لا کھڑا کیا تو وہ اسے آنکھیں پھاڑ کر دیکھے بغیر نہ رہ سکی۔۔
یہ اچھی جگہ ہے؟ اس نے اردو میں ہی کہا تھا
کھاجو۔۔ ( چلو) گوارا کی شان بے نیازی عروج پر تھی۔۔
رائس ڈرنک ، پھلوں سبزیوں کے ٹھیلوں سے بچتے بچاتے سڑک چھاپ کھانے پینے کی ریڑھیوں سے تنے بازار میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی مگرگوارا تیز قدموں سے جگہ بناتی اسے ایک تنگ گلیوں والے بازار لے آئی جہاں گرم کپڑوں کی دکانوں کو دیکھ کر اسے بالکل یہ خیال جاتا رہا کہ کوریا میں کھڑی ہے۔ دکانداروں کی شکل نہ دیکھو تو بالکل موتی بازار کا نقشہ تھا۔۔ اور قیمتوں میں ان بڑے مالز سے بالکل آدھے کا فرق۔۔ گوارا کو وہی پرانے پٹے ہوئے ڈیزائن کا لانگ کوٹ اسکن کلر میں مل گیا تھا ۔۔ اور ویسا ہی ڈارک برائون میں بڑے شوق سے اریزہ نے لیا۔۔ اتنے مہینوں سے بچت کر کرکے اور گھر سے سردیوں کی شاپنگ کی مد میں آتے ہی وقت جتنے پیسے لائی تھی سب اڑا دئیے۔۔
یہ ضرور لو اریزہ پچھلے سال کا ڈیزائن ہے میں نے لیا تھا مگر سچ پوچھو سب سے بہترین رہا یہ۔ گوارا نے گھٹنوں تک کا موٹا فوم بھرا جیکٹ جسے دیکھتے لگتا کہ کمبل لپیٹ کر پھر رہے ہوں۔ اس نے فی الحال تو کوریا میں کسی کو پہنے نا دیکھا تھا ۔۔ سو سہولت سے منع کر دیا۔۔
بالکل اچھا نہیں لگ رہا یہ مجھے۔ اتنا موٹا پہن کر گائو تکیہ لگوں گی میں۔۔
گائو تکیہ؟ گوارا سمجھی نہیں۔۔
تکیہ گول موٹا۔۔ اریزہ نے سمجھانا چاہا۔۔
اسکی نا پسندیدگی دیکھ کر اس نے واپس رکھ دیا۔۔
شام ہو رہی تھی۔ سیول کی رونقیں بڑھنا شروع ہو گئ تھیں۔۔
تنگ گلی میں یکدم روشن ہوتے برقی قمقمقے اسے دلکش لگے تو فورا اس نے تصویر کھینچ کر دستی بلاگ پر چڑھا دی۔۔
اس عنوان کے ساتھ۔
سیول میں شام طمطراق سے جلوہ افروز ہوتے ہوئے۔۔۔
کیا کر رہی ہو؟ گوارا نے شاپنگ بیگز سنبھالتے ہوئے پوچھا
بلاگ ہے میرا اس پر تصویر لگا رہی ہوں۔۔
اریزہ نے سرسری سے انداز میں کہا۔۔
دھیان سے لگانا کسی انجان چہرے کی تصویر نہ آنے پائے۔۔ کوریا میں سخت قوانین ہیں کسی کی بلا اجازت تصویر لگا دی نا تو جرمانہ اور قید بھی ہو سکتی ہے۔ انڈو پاک کے برعکس کورینز بالکل کیمرے میں آنا پسند نہیں کرتے۔۔ بلکہ سخت ناراضگی کا اظہار بھی کر سکتے اب اس آہجومہ کو دیکھو گھور رہی ہے تمہیں یہ سمجھ کر کہ تم نے اسکی تصویر تو نہیں لے لی۔ گوارا کے کہنے پر اس نے نظر کی تو واقعی سامنے ایک پانچ چھے سالہ بچے کا ہاتھ تھامے ایک خاتون کو درشت نظروں سے گھورتا پایا۔۔
ان دونوں کو اپنی جانب دیکھتا پاکر وہ انکی جانب بڑھ آئی
آننیانگ ہاسے او۔۔ دونوں نے گڑبڑا کر اکٹھے سلام۔کیا
آننیانگ آہجومہ۔۔ مجھے یہ شک گزرا کہ آپکی کھینچی گئ تصویر میں کہیں میں اپنے بچے کے ساتھ تو نہیں آگئ۔اگر ایسا ہے تو کیا آپ اپنے موبائل سے میری تصویر ضائع کرنا پسند کریں گی؟
انتہائی سخت لہجے میں وہ آہجومہ مخاطب تھی۔۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلا کمنٹ۔۔
راجہ بازار کی تصویر لگا کر سیول کہہ رہی ہو پاگل سمجھا ہمیں کیا؟
دوسرا کمنٹ
ایک تو چینی بہت آگئے ہیں پاکستان میں کل کو ہم ہی غیر ملکی لگا کریں گے پاکستان میں
تیسرا کمنٹ
سیول کیا ہے کوئی نیا برانڈ ہے کیا؟
چوتھا کمنٹ
کل میں نے بھی استنبول کی تصویر پوسٹ کی تھی۔۔ ہیش ٹیگ
نائٹ لائف کے ساتھ ۔۔
پانچواں کمنٹ
اوئے ایڈمن یہ چندی آنکھوں والا کون ہے؟
نیوز فیڈ انگوٹھے سے گزارتے ہوئے اس کمنٹ پر چونکی۔۔
تصویر کو زوم کیا تو فٹ پاتھ پر اپنی دھن میں گزرتے اس راہ گیر کی تصویر بے حد واضح تھی۔۔
اپنی طرف سے تو میں نے یہ تصویر دیکھ بھال کر لی تھی کہ کسی کورین کا چہرہ نہ آئے۔
یہ کون آگیا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تو میں ہوں۔۔
بلاگ دیکھتے وہ بری طرح چونکا تھا۔۔ کل گنگم اسٹریٹ گھومتے ہوئے وہ کسی کے کیمرے میں آگیا تھا۔۔ وہ کسی بھی اور کوئی نہیں یہی ایڈمن جس کو وہ کئی مہینوں سے فالو کر رہا تھا۔۔ یعنی وہ اسکے اتنے قریب ہے۔۔ اسی شہر میں۔۔ اسے خوشگوار حیرت ہوئی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد۔۔
جاری ہے۔۔
Kesi lagi apko salam Korea ki aaj ki qist ? rate us below