Salam Korea Episode 24

Salam Korea Urdu Novels

Salam Korea
by vaiza zaidi

seoul korea based urdu web travel novel featuring seoul korea salam korea episode 24 by vaiza zaidi
Salam Korea Episode 24


قسط 24
اسکا فون بجے جا رہا تھا کافی دیر سے۔ گوارا باورچی خانے میں کھڑی کافی بنا رہی تھی جب مسلسل بجتی گھنٹی سے تنگ آکر کمرے میں آئئ۔۔ اریزہ بیڈ پر آلتی پالتی مارے بیٹھے تھی۔ نگاہیں اپنے سامنے اہتمام سے رکھے فون پر ہی تھیں۔جو بجے جا رہا تھا بجے جا رہا تھا۔
شاباش اعلی۔ سامنے فون رکھا ہے بج رہا ہے تم بیٹھی دیکھ رہی ہو۔ اٹھائو نا
وہ جھلائی
بجنے دو۔ نہیں اٹھانا۔
وہ منہ پھلا کر بولی۔
گوارا نے ایک نظر دیکھا اور آگے بڑھ کر اٹھا لیا۔اریزہ ایکدم الرٹ ہوئئ
خبردار مت اٹھانا۔۔
اس نے انگلی اٹھا کر دھمکی دینے والے انداز میں کہا۔
گوارا نے اسے گھور کر دیکھا۔
فون میں ایک سہولت یہ ہوتی ہے کہ فون کی بیل بند کردی جائے تاکہ فالتو شور نہ ہو دوسری سہولت ناپسندیدہ کال کو نظر انداز کرنے کیلئے اسے بلاک کرنے کی بھی۔
اس نے اسکا فون سائلنٹ کرکے نگاہوں کے سامنے لہرایا۔
جانتی ہوں۔ اس نے سر جھکالیا
مگر بلاک نہیں کر سکتی۔ بھائی ہے اور اٹھا نا بھی نہیں چاہتی کیونکہ اس خبیث بھائی نے رج کے زلیل کیا ہے مجھے۔
اسے شدید غصہ آیا ہوا تھا۔
گوارا ہنس پڑی۔
اچھا چلو آئو ہم مل کر ٹیرس میں گپیں مارتے ہوئے کافی پئیں۔۔۔
اس کے بہلانے والے انداز پر وہ منہ پھلاتی اٹھ گئ۔تبھی موبائل پھر بج اٹھا تھا۔ اس نے سرسری سی نگاہ ڈالی اس بار پاپا کی کال تھی سو لپک کر فون اٹھا لیا۔
اب کیوں اٹھا لیا فون ؟ گوارا نے آنکھیں پھاڑیں۔
پاپا ہیں۔
اس نے بتا کر فورا فون اٹھا لیا۔
اسلام و علیکم پاپا کیسے ہیں؟
اس کے جوش و خروش سے ظاہر تھا وہ کتنا یاد کر رہی تھی باپ کو۔ گوارا کے ساتھ کمرے سے نکل کر اسکا ارادہ لائونج میں بیٹھنے کا تھا وہیں مڑی مگر وہاں صوفے پر ہوپ دراز کوئی ڈرامہ دیکھ رہی تھی سو پھر یو ٹرن لیتی ٹیرس میں آگئ۔
صارم جلا بھنا بول رہا تھا۔
پتہ تھا تمہارے ہاتھ میں فون ہوگا پھر بھی نہیں اٹھا رہی تھیں۔
حد ہوتی ہے اریزہ اتنا کمینہ پن۔۔۔
اس سے بھی ذیادہ۔ تمہارا فون نہیں اٹھا رہی تھی تو سمجھ نہیں آئی کہ تمہاری منحوس آواز بھی سننا نہیں چاہ رہی ڈھیٹ بن کے پاپا کے نمبر سے بھی فون ملا لیا۔
اسکی بات کاٹ کر وہ بنا لحاظ بولتی چلی گئ۔
تم ہوگئ منحوس لڑکی ایک تو سب تمہاری فکر میں پاگل ہو رہے تمہارے مزاج ہی۔۔
جوابا وہ بھنایا مگر پاپا نے اسکے ہاتھ سے فون لے لیا۔
اچھا بس میری بیٹئ کو کچھ نہ کہوجائو تم اپنی خالہ سے کہو چائے بنا کر بھیجیں میرے لیئے۔
اس کو پہلی فرصت میں چلتا کیا وہ انہیں شاکی نظروں سے دیکھتا پیر پٹختا چلا گیا۔
باپ کی حمایت اسے ڈھیر ساری خوشی دے گئ تھئ اتنی بڑی مسکراہٹ اسکے چہرے پر آگئ تھی۔
کیسی ہو بیٹا۔۔ اطمینان سے اپنی اسٹڈی روم کی میز پر آک ربیٹھتے وہ فکرمندی سے پوچھ رہے تھے۔
میں ٹھیک ہوں پاپا۔۔ مس یو سو مچ۔
وہ اب ٹیرس میں ٹہل ٹہل کر وہ فون پر بات کررہی تھی۔ ہوا میں اچھی خاصی خنکی محسوس ہونے لگی تھئ۔
مس یو ٹو بیٹا۔ آجائو بیٹا واپس اگلے سمسٹر میں پھر آجانا۔۔
پاپا سے اس نے کچھ نہیں چھپایا تھا۔۔
واپس آنا مشکل ہو جائے گا پاپا۔ کیونکہ آئی مس یو ٹو۔۔
اسکی آواز بھرا گئ۔۔
تو کوئی بات نہیں یہیں پڑھ لینا بیٹا میں تمہاری ماں کو سمجھادوں گا جب تک میری بیٹی کی تعلیم مکمل نہیں ہوگی اسکی شادی وغیرہ کا کوئی ذکر نہیں ہوگا ۔۔
وہ اسے منا رہے تھے مان بھی جاتی اگر اسے ایک فیصد بھی اپنی ماں پر بھروسہ ہوتا
وہ بہت ضدی ہیں آپ انہیں کتنا روکیں گے۔۔۔ پتہ ہے پاپا یہاں میں نے جاب شروع کر دی ہے خود بس سے آتی ہوں جاتی ہوں۔ شاپنگ بھی کر لیتی ہوں اور اب مجھے راتوں کو ڈرائونے خواب بھی نہیں آتے۔ یہاں گھومتے پھرتے یہ ڈربھی نہیں لگتا کہ کہیں کوئی دھماکا ہوجائے گا۔
بیٹا جاب کی کیا ضرورت پڑ گئ۔ میں اور پیسے بھجوا دیتا ہوں ۔ وہ تڑپ ہی اٹھے۔۔
پاپا بات ضرورت کی نہیں ہے مجھے چوزہ بن کے زندگی نہیں گزارنی وہاں اکیلے گاڑی میں بھی نکلنے نہیں دیتی تھیں امی میں یہاں سکون سے ہوں پاپا۔ میرا بس چلے تو یہیں رہ جائوں کبھی واپس نہ آئوں۔۔
اسکے انداز میں جو بے چینی اور بےزاری تھی یقینا انکے غلط رویوں نے ہی پیدا کی تھی وہ اس وقت اسے جتنا بھی بلا لیں وہ آ بھی جائے تو بھئ یقینا دل سے ان سے خفا ہی رہے گی اور وہ اس سے اتنے شرمندہ تھے کہ اسکے دل سے ہلکا سا بھی ملال مٹ جانے تک اسکو چھیڑنا نہیں چاہتے تھے۔۔
ملنے تو آیا کروگی نا مجھ سے؟ انہوں نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا تواسے بھی احساس ہوا کیا فضول بکے جا رہی ہوں۔
میں آجاتی ہوں پاپا اگلے سمسٹر کیلئے اپلائی کردوں گی ۔۔
وہ فورا شرمندہ ہوئی
اسکے فورا پیترا بدلنے پر وہ ہنس دیئے۔
اچھا بس اتنئ فرمانبرداری کی ضرورت نہیں۔ یہ بتائو ہاسٹل کب چھوڑنا ہے؟ مائکل کا فون آیا تھا مجھے بتا رہا تھا رہائش الگ کرنی پڑے گی کہہ رہا تھا اریزہ اور سنتھیا اکٹھے رہیں تو اطمینان رہے گا ایڈون کوئی گھر یا اپارٹمنٹ کا انتظام کرے گا تو دونوں بہنیں مل کر رہیں۔ تم دونوں ایک ہی جگہ انتظام کرنا تاکہ مجھے بھی اطمینان رہے اور پیسوں کی فکر مت کرنا جتنے چاہیئے ہوں بتا دینا۔ میں بھجوا دوں گا۔ ٹھیک ہے۔۔ ۔۔۔۔ بولتے بولتے انہیں طویل خاموشی کا احساس ہوا
ہیلو اریزہ۔۔ وہ سمجھے کال۔کٹ گئ ہے
جی بابا۔۔ وہ چونکی۔
کیا ہوا بیٹا چپ کیوں ہو گئیں؟ سب ٹھیک ہے نا؟ کوئی مسلئہ تو نہیں۔ وہ حسب عادت پریشان ہو گئے۔
نہیں ۔ ٹھیک ہے میں ویسے انتظام کر چکی ہوں۔ میری ایک کورین دوست ہے اسکا اپارٹمنٹ ہے۔ کرایہ بھی مناسب ہے۔ سنتھیا کا مسلئہ نہیں ایڈون ہے اسکے ساتھ۔
اس نے لمحہ بھر ہی سوچا۔ جتنے مائکل انکل اور بابا کے تعلقات تھے کچھ بعید نہیں تھا وہ سر ہوجاتے جبکہ اب اسے سنتھیا کے ساتھ اپارٹمنٹ شئیر کرنا ناممکن لگ رہا تھا۔
بیٹا تو سنتھیا کو اپنے ساتھ ایڈجسٹ کر لو نا۔ مائکل کافی فکر مند تھا۔اسے سنتھیا کی فکر ہو رہی تھی۔ لا ابالی سی ہے اریزہ سمجھدار ہے اسکے ساتھ رہے گی تومجھے اطمینان رہے گا میں نے کہا میری یہی رائے اریزہ کے بارے میں ہے سنتھیا سمجھدار بچی ہے اریزہ کے ساتھ رہے گی تو مجھے اطمینان رہے گا۔ وہ ہلکے پھلکے انداز میں ہنس کر بتا رہے اریزہ کا منہ اتر گیا۔
بابا آپ نے انکو ایسے ہی کہہ دیا۔۔
اسے برا لگا تھا کم از کم اسکے بارے میں ایسا کسی اور کے سامنے نہیں کہنا چاہیئے تھا۔
بالکل نہیں۔ وہ مسکرا دیئے۔مزاق کر رہا تھا بیٹا۔
اسکو کیوں کہتا جبکہ مجھے پتہ ہے میری بیٹی بہت سمجھدار اور ذمہ دار ہے۔ اس پربھروسہ ہے مجھے جبھی تو اتنی دور بھیج دیا ۔ انکے لہجے میں فخر بول رہا تھا۔
واقعی پاپا آپ ایسا سمجھتے ہیں۔۔ وہ سنجیدہ سی ہوگئی۔۔
بالکل۔ سو فیصد۔ انکے انداز میں تیقن تھا۔
میری بیٹی ایک ذہین سمجھدار مضبوط شخصیت کی مالک لڑکی ہے۔ مجھے اس پر فخر ہے۔۔۔
انکا مضبوط لہجہ تھا۔ جانے وہ اس کو جتا رہے تھے یا سچ مچ ایسا سمجھتے تھے۔ وہ اندازہ نہ لگا پائی۔
اچھا خیر سنتھیا کو اپنے ساتھ رکھنا مائکل نے بہت تاکید کی ہے مجھے۔
انہیں خیال آیا تو پھر تاکید کر ڈالی۔
بابا سنتھیا شائد میرے ساتھ رہنے پر نہ مانے۔ وہ اب کافی بدل گئ ہے پھر اسکا خیال رکھنے کو ایڈون ہے نا۔ وہ اسکو کسی اچھی جگہ۔۔
اس سے مزید جھوٹ نہ بولا گیا۔ جوابا بابا چپ ہوگئے تھے۔ پھر چند لمحے توقف سے بولے۔
بیٹا ایڈون اسکا خیال رکھتا ہوگا مگر مائکل نے مجھے خاص تاکید کی ہے۔ وہ اسکا منگیتر ہے خاندان کا لڑکا سہی مگر رشتوں کی نزاکتیں ہوتی ہیں۔۔ اب اس نے مجھے خاص تاکید کی ہے کہ تم سنتھیا کے ساتھ رہو تو کوئی وجہ ہوگی نا۔
انکی بات پر اسکے ذہن میں پچھلے کئی مہینے کے واقعات گھوم سے گئے۔۔
تمہاری سہیلی ہے تم بچپن سے واقف ہو اس سے اسکے ساتھ رہنا آسان ہوگا تمہارے لیئے بھی۔ اپنی اس کورین سہیلی سے کہو نا اسکی بھی جگہ بنا لے اپنے گھر میں۔ پیسے کی فکر نہ کرنا بس بیٹا۔۔۔۔
ٹھیک ہے بابا۔ کہتی ہوں اسے۔
وہ مزید کیا بحث کرتی۔
اچھا جاب کہاں کی ہے؟ کیا کام ہے؟
انہیں خیال آیا۔۔ وہ سٹپٹا سی گئ۔
بس وہ۔۔ یہ۔ بابا وہ چھوٹی سی جاب ہے۔ ری۔۔ ریسسیپشن پر کھڑا ہونا ہے ایک چھوٹی سی کمپنی ہے۔
کچھ نہ کچھ سوجھ گیا۔
اچھا ۔۔ انکو پسند تو نہ آیا مگر قصدا ناگواری کا اظہار نہ کیا
چلو جب تک فارغ ہو کر لو پھر جیسے ہی پڑھائی شروع ہو چھوڑ دینا۔ ٹھیک ہے خود کو ہلکان کرنے کی ضرورت نہیں۔
انہیں اب اسکی فکر ہو رہی تھئ۔
ٹھیک ہے۔ بابا ۔۔ وہ مسکرا دی۔
اچھا چلو اپنا خیال رکھنا اور صارم سے خفا نہ ہوا کرو تم فون نہیں اٹھا رہی تھیں اتنا پریشان ہوا وا تھا۔ پیار کرتا ہے بھائی بس ایسے ہی چھیڑا کرتے ہیں انکی باتوں کو دل پر نہیں لگاتے۔
انہوں نے لگے ہاتھوں ہلکی پھلکی کلاس بھی لے لی
ٹھیک ہے بابا۔ اپنا خیال رکھیئے گا ۔۔ اس نے بھی بحث نہ کی۔
جی خدا حافظ۔۔۔
فون بند کرکے دانت کچکچا کر ٹہلنے لگی۔
کمینہ بابا نے ذکر تک نہیں کیا پلاٹ کا اس کو ذیادہ درد اٹھ رہے تھے۔ مجھے ایویں گلٹی کرا دیا۔ اب تو جھوٹ بھی بول دیا کہ۔جاب کر رہی ہوں۔ اب تو پیسے منگوانے سے بھی گئ۔
یہاں تو موسم۔۔ اس نے سر اٹھا کر آسمان کو دیکھا۔
بادل چھا رہے تھے۔ خنک سی چبھنے والی ہوا۔
یہاں تو گرمیاں بھئ سردیوں سے کم نہیں۔ ایک میں گدھی تھوڑا سا جغرافیہ ہی پڑھ آتی کیسا موسم ہوتا کوریا کا دو چار موٹے جوڑے لے آتئ سردیوں کے نہ سہی لان کی بجائے کاٹن کے ہی لے آتی۔
موبائل ہاتھ میں گھماتئ سست روی سے چکر کاٹ کے مڑی تو گوارا کافی کے مگ تھامے حیرت سے دیکھ رہی تھی۔
تم بول بول کے سوچتی ہو ؟
نہیں۔۔ وہ کھسیائئ۔ بس اپنی اردو کوہوا لگا رہی تھی مجھے لگ رہا انگریزی بول بول کے میرا منہ جمتا جا رہا ہے۔۔
اس نے باقائدہ اپنے گال تھپتھپا کر کہا تھا۔
تو کورین سیکھو نا۔
گوارا کا مشورہ وہ اسے دیکھ کر رہ گئ۔
پھر مستقل خراش رہنے لگے گی گلے میں۔ دو تین تو سر نکلتے ہیں سیدھے گلے کے۔ ورنہ مفہوم ہی بدل جاتا ایک ہی لفظ کا۔ قدر کرو پاکستانیو اردو کیسی آرامدہ زبان ہے نہ گلے کی آوازیں الگ الگ نکالنے کی ضرورت نا منہ ٹیڑھا کرنے کی ۔۔
گوارا نےاس کی خاموشی سے اکتا کر خود ہی کوئی نئی بات شروع کردی۔ ہاں ا س بار یہ سب گفتگو اس نے ذہن میں ہی سوچئ بولنے کی غلطی نہ کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بے خبر سو رہا تھا جب مسلسل بجتی گھنٹی کی آواز پر اسکی آنکھ کھلی۔ چند لمحے تو سمجھ بھی نہ آیا کہ کہاں ہے۔ پھر سستی سے سائیڈ ٹیبل کا لیمپ جلاتا اٹھا۔ شام کے آٹھ بج رہے تھے۔ وہ تقریبا چار گھنٹے سے سو رہا تھا۔ مکمل پرسکون نیند نے اچھا خاصا طبیعت کو بشاش کر دیا تھا۔ اپنے بازو کھینچتا وہ باہر آیا اپنے لائونج کی بتی جلائی بالوں میں ہاتھ پھیرتا لابی میں آیا دروازہ کھولا جی مکدر ہوگیا۔
کم من جون اسکا چچا ذاد بھائی کھڑا مسکرا رہا تھا۔
آنیانگ۔ اسکے چہرے کے تنے تاثرات سے حظ اٹھاتا وہ اسکی دعوت کا انتظار کیئے بنا بےتکلفی سے اندر چلا آیا۔۔
اس نے ٹھنڈی سانس بھر کر دروازہ بند کیا۔ لابی میں رکھے شو ریک سے جوتے بدلتا وہ سیدھا اندر چھوٹے سے لائونج میں چلا آیا تھا۔ تھری پیس سوٹ میں وہ نک سک سے تیار ہو کر یقینا اسکے گھر کا جائزہ لینے نہیں آیا تھا مگر اس وقت طائرانہ نگاہ اسکے پورے گھر پر ڈال رہا تھا
یہ تو شروع ہوتے ہی ختم ہوگیا۔
لائونج کے بیچ کھڑا وہ استہزائیہ انداز میں کہہ رہا تھا۔
بس یہ لائونج اور ایک کمرہ ۔۔۔ تم رہ لیتے ہو اتنی سی جگہ میں؟
اسکی حیرت حد سے سوا تھی۔ وہ سامنے کھلے دروازے سے اسے بیڈ روم میں جھانک رہا تھا۔
ایک ادھربھئ ہے کمرہ۔
دروازے ساتھ ساتھ ہی تھے جانے تجاہل عارفانہ تھا یا اسے ستانا مقصود۔ وہ بتا کر اوپن کچن میں چلا آیا۔ گھر میں دشمن بھی چلا آئے تو مہمان نوازی فرض ہے۔ وہ فریج سے اورنج جوس نکالنے لگا۔
ہوں۔ اس نے ہنکارا بھرا۔ دوسرےکمرے کا دروازہ ذرا سا کھول کے جھانکا۔
خالی ہے یہ تو۔ اسے حیرانگئ ہوئی۔
علی خاموشی سے کائونٹر ٹیبل پر گلاس میں جوس بھر کر رکھنے لگا۔ وہ اپنا تفتیشی دورہ مکمل کرکے ادھر ہی چلا آیا۔
بس ایک ہی کمرے میں سامان ہے تمہارے ۔ اور یہ ٹی وی بھی چھوٹا سا ہے۔۔
من جون کرسی کھینچ کر بیٹھتے بھرپور حیرت کا اظہار کر رہا تھا۔
ہاں بس اتنے ہی پیسے تھے میرے پاس آہستہ آہستہ دوسرے کمرے کا سامان بھی ڈال دوں گا۔
علی کے انداز میں بے نیازی تھی۔ اسکے چہرے پر اتنا اطمینان تھا کہ من جون دیکھ کر رہ گیا۔
تم اپنے کمرے کا سامان لا سکتے ہویہاں۔ تمہارا کمرہ ابھی بھی استعمال نہیں ہوتا لاکڈ ہے۔ تمہاری چیزیں ہیں لے آئو۔
اسے حقیقتا افسوس ہوا تھا۔ اتنے چھوٹے تو انکے سرونٹ کوارٹرز بھی نہ تھے۔
چیزیں ہی توہیں۔ ماں کو لا نا سکا اس گھر سے چیزیں کیا کرنی ہیں۔
علی نے ذرا سا ہنس کر کہا تھا۔ وہ بخوبی طنز سمجھ گیا تھا۔
میں نے آہبوجی سے کہا تھا کہ تمہاری امی کی میت تمہارے حوالے کردیں۔ مگر وہ مانے نہیں۔ انہیں اپنی ساکھ بہت عزیز ہے۔
اسکا انداز صفائی دینے والا تھا۔
اب تو ویسے بھی یادگار گھر میں رکھی ہیں باقیات انکی۔ تم چاہو تو وہاں سے انکی باقیات لیکر دفنا دو جہاں دل چاہے۔ تمہارا قبر بنانے کا خواب بھئ۔۔۔۔۔

پلیز۔ انکے جلنے کا ذکر مت کرو۔۔ علی نے جیسے اذیت سے آنکھیں میچ لیں اسکی کنپٹی کی رگیں ابھر آئی تھیں۔ وہ سمجھ نہیں سکتا تھا اسکا کرب۔
اسکے ایکدم ٹوکنے پر خاموش ہوتو گیا مگر دزدیدہ نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا۔ علی نے مالٹے کے رس کا گلاس اسکی جانب بڑھا دیا۔ اس نے حیرت سے دیکھا تھا۔ سوجو ، کولڈ ڈرنک یا ہلکی پھلکی کوئی دوسری شراب کی جگہ جوس۔۔۔ وہ بلا ارادہ سوال کر گیا
تمہارا بالکل ارادہ نہیں ہے واپس اپنے مذہب پر آنے کا؟
اسکے پوچھنے پر علی نے جواب نہ دیا۔ دوسرا گلاس اٹھا کر اپنے لیئے بھی پیکٹ سے جوس نکالنے لگا۔۔
کیسے آنا ہوا۔
وہ اب تھوڑا بے مروت بن کے کہہ رہا تھا۔
اس نے ایک گھونٹ لیا۔۔
شادی کا بلاوا دینے آیا ہوں۔
اس نے جیب سے کارڈ نکال کر سامنے رکھا۔
علی نے اس سادہ مگر قیمتی گرے کارڈ کو نگاہ بھر کر دیکھا
گنگشن اچھی لڑکی ہے۔۔تم خوش رہو گے اسکے ساتھ۔ پر کوشش کرنا وہ بھی خوش رہ سکے تمہارے ساتھ۔
اسکی بات پر جون من نے ابرو اچکا کے دیکھا اسے۔
تمہارے نئے مذہب میں ادب آداب کی جگہ نہیں؟ تم مجھے ہیونگ کہتے تھے آپ جناب کرکے بات کرتے تھے تین سال بڑا ہونے کا کافی لحاظ تھا تمہیں میرا اب خاصے بے مروت ہو چلے ہو۔
اس نے ڈانٹ ہی دیا۔
یہ میری بشری کمزوری ہے اسکو میرے مزہب کی تبدیلی سے نہ جوڑیں۔
علی جل بھن ہی گیا۔ ایک تو اسکے مزاج کے ہر رخ کو اسکے مزہب سے جوڑا جاتا تھا۔
رہی بات لحاظ کی تو آپ بہتر جانتے ہیں ادب لحاظ صرف میری بول چال میں تھا میں پہلے ذیادہ بد تمیز اور سر پھرا تھا۔
اسکی بات پر جون من کو ہنسی سی آگئ۔علی یونہی خفا خفا دیکھتا رہا۔
خیر۔ اس کی ناراضی محسوس کرکے وہ صلح جویانہ انداز میں بولا۔
میں نے آہبوجی سے بات کی ہے۔ تم مزہب تو جائداد میں حصہ نہ ملنے کے باوجود بدلنے کو تیار نہیں ہو۔ مگر بہر حال تم میرے بھائئ ہو۔ مجھے تمہارا یوں یہاں ایسے مشکل زندگی گزارنا گوارا نہیں ہے۔ میرے بس میں ہوتا تو تمہارا حصہ پورا تمہیں دلواتا مگر جب تک میرے ابا زندہ ہیں ایسا ناممکن ہے بہر حال تم اپنا گھر لے سکتے ہو۔ وہ میں تمہارے نام کر دیتاہوں۔ چاہو تو بیچ کر اپنا کوئی کام شروع کرلو یا وہیں رہنا شروع کردو مرضی ہے تمہاری۔
بات ختم کرکے انہوں نے ایک سانس میں جوس پی کر گلاس ایک جانب رکھا۔ علی حیران سا اسکی شکل دیکھ رہا تھا۔
سوچ لو۔ اسکی حیرانئ پر وہ مسکرا دیا۔
میں اتنا برا نہیں ہوں جتنا سمجھتے ہو تم مجھے۔
وہ کہہ ہی گیا۔
اچھا میں چلتا ہوں۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا
شادئ اگلے ہفتے ہے۔ آنا ضرور۔۔
اسکے کہنے پر علی سر ہلاتا اٹھ کھڑا ہوا۔
میں چلتا ہوں۔ وہ گہری سانس بھرتا داخلی دروازے کی جانب بڑھا۔ اسکو حقیقتا افسوس ہوا تھا۔ اتنے چھوٹے گھر میں بنا سہولتوں کے رہنا یقینا علی کے لیئے مشکل ہوگا۔ اتنا ضدی ثابت ہوگا وہ اپنے نئے مزہب کیلئے انہوں نے سوچا نہ تھا۔
ہیونگ۔ ( بھائی )وہ جوتے بدل رہا تھا جب اسے اپنے پیچھے علی کی آواز سنائی دی۔ اس نے مڑ کر دیکھا۔
مجھے گھر نہیں چاہیئے۔ گھر لوگوں سے ہوتا ہے۔ مجھے اگر کچھ دینا ہے میرا بھائی دے دیں مجھے۔
اسکا جملہ ۔۔ جون من اسے چند لمحے حیرانگی سے دیکھتا رہ گیا۔ علی مسکرا دیا تو چونک کر اثبات میں سر ہلا دیا۔
مگر گھر والی بات پر غور کرنا۔ وہ جاتے جاتے بھئ ایک بار پھر یاد دہانی کر گیا تھا۔ علی بھی مزید بحث کی بجائے خاموشی سے سر ہلا کر رہ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح اسکی آنکھ کھلی تو چند لمحے سمجھ بھی نہ آ سکا کہاں ہے۔دھیرے دھیرے ذہن بیدار ہونا شروع ہوا تو ایک کراہ سی منہ سے نکل گئ۔ اس نے سائیڈ ٹیبل کا سہارا لیا اٹھ بیٹھی۔ سرہانے پانی کی بوتل اور گلاس رکھا تھا جمائی روکتے ہوئے اسکی جانب ہاتھ بڑھایا نیند میں تھی یا لاپروائی کر گئ گلاس نیچے گر گیا۔ پلاسٹک کا گلاس اس نے جھک کر اٹھایا تو اٹھاتے ہوئے خیال ہی نہ رہا جگہ تنگ ہے سر سیدھا میز کے کونے سے لگا تارے ناچ سے گئے۔
آہ۔ وہ گلاس چھوڑ کر سر پکڑ کر بیٹھ گئ۔ موٹے موٹے آنسو جھٹ پٹ آنکھوں میں اتر آئے چند لمحے اپنی بے بسی پر وہ بے آواز روتی رہی پھر ہچکیاں بندھ گئئیں۔ درد سے ذیادہ اپنی حالت زار اسے رلا گئ۔
تبھئ دروازے پر دستک ہوئئ۔۔ ایک دو۔ اس نے گھٹنوں میں منہ دیا اور گھٹ گھٹ کر رونے لگی۔
تبھئ کسی نے ہینڈل گھمایا دروازہ کھلتا چلا گیا۔ ایڈون سر پکڑ کر رہ گیا۔ہاتھ میں پکڑا شاپر میز پر رکھا پھر شروع ہی ہوگیا۔۔
یہ کیا تم نے دروازہ لاک ہی نہیں کیا ہوا ؟ سنتھیا ہم اب ہاسٹل میں نہیں ہیں ہر قماش کا انسان رہتا ہے یہاں۔ ویسے تو ہاسٹل میں بھی۔ بولتے بولتے اسکی نگاہ اس کے سسکتے وجود پر پڑی تو گھبرا کر پاس آیا۔
کیا ہوا ؟ رورہی ہو ؟ کیا ہوا سنتھیا؟
وہ بری طرح پریشان ہو کر اسکے بازو ہٹا کر چہرہ دیکھنے لگا۔ رو رو کے سوجی آنکھیں سرخ چہرہ کیا کیا برے خیال نہ آگئے۔
بتائو نا سنتھیا کیا ہوا ہے ایسے کیوں رو رہی ہو۔
اسکی گھبراہٹ کے مارے آواز کانپ گئ۔ رونے دھونے سے فرصت ملی تو سنتھیا کو کلیجے میں ٹھنڈ پڑی محسوس ہوئئ۔ وہ یقینا اکیلی نہیں تھی یہاں۔ایڈون سے سب گلے جاتے رہے اس وقت اسکی پریشان صورت دیکھ کر۔ دل کو تسلی ہوئی تو آنسو پونچھ کر بولی
اتنا تنگ کمرہ ہے گلاس گر گیا اٹھانے لگی تو پورا میز کا کونہ سر میں گھس گیا۔
وہ رندھے گلے سے بولی تو وہ بے اختیار ٹھنڈی سانس بھر کے رہ گیا۔
دکھائوکہاں چوٹ لگی۔
وہ اسکا سر سہلانے لگا۔ سنتھیا کی کراہ سی نکل گئ فورا اسکا ہاتھ ہٹایا
آہ۔ شائد گومڑا پڑگیا ہے۔ سنتھیا خفت بھرے انداز میں بولی۔
اچھا چلو اٹھو منہ ہاتھ دھو لو۔ ادھر لابی کے آخر میں واشرومز بنے ہیں۔ میں کچھ ناشتے کا سامان لایا تھا کھالو ۔ دس بج رہے ہیں مجھے گیارہ بجے ڈیوٹی پر پہنچنا ہے مجھے دیر ہو رہی ہے آکر بات کرتا ہوں اور۔۔ اسے خیال آیاتو جیب سے والٹ نکال کر کچھ پیسے نکالے۔
یہ پیسے رکھو دوپہر میں سامنے سیون الیون ہے وہاں سے کچھ لیکر کھالینا۔ اسکے ہاتھ میں پیسے تھما کر وہ عجلت میں ہی پلٹنے لگا۔
اوکے بائے
سنو۔وہ بے تابی سے پکار بیٹھی۔ وہ جوابا بولے بنا مڑ کر دیکھنے لگا۔
میں سارا دن یہاں ا س کمرے میں اکیلی بیٹھی رہوں گئ؟
اسے حقیقتا سوچ کے گھبراہٹ ہوئی۔
سامنے پارک ہے وہاں گھوم آنا اچھا میں چلتا ہوں بائے۔
وہ مشورہ دیتا ٹھہرا ہی نہیں۔ سنتھیا کے لب نیم وا ہو کے رہ گئے۔
میں سارا دن یہاں اس کمرے میں اکیلے۔ وہ گھبرا کے اٹھ کھڑی ہوئئ۔
ہاتھ میں پکڑے پیسے اپنا بیگ اٹھا کر اس میں ڈالے ۔بیگ سے ٹوتھ پیسٹ اور فیس واش لیکر باہر نکل آئی۔ لمبی راہداری کے آخر میں کچھ روشنی دکھائی دے رہی تھی وہ اندازے سے چلتی ادھر چلی آئی۔ یہاں ایک جانب خواتین کے لیئے ٹوائلٹس بنے تھے دوسری جانب مردوں کیلئے۔ اس نے جھجکتے دروازہ کھولا تو اندر بس چار کیبن تھے جن میں بیت الخلا تھا دوسرے چار کیبن غسل خانے کے تھے۔ اسوقت سب خالی ہی تھے۔ یقینا صبح جانے والے تیار ہو کر جا چکے تھے۔الجھن کے مارے کتنے لمحے سوچنے میں گزر گئے۔۔
منہ ہاتھ دھو کر باہر نکلی تو راہداری میں کمرے سے کوئی نکل کر جا رہا تھا۔وہ اپنا ٹوتھ پیسٹ اور فیس واش اٹھا لائی تھئ۔ مرے مرے قدموں سے چلتی اپنے کمرے کے قریب آئی تو دروازہ کھلا تھا۔پوری راہداری میں سے بس یہی دروازہ کھلا تھا۔ نکلنے والا یقینا اسکے کمرے سے نکلا تھا۔ اس کے اندر بجلی سی بھرگئ تیزی سے کمرے میں داخل ہوئی تو ایک لمحے کو چکرا گئ۔ اسکا پورا بیگ الٹا پڑا تھا وہ لاکٹ ٹاپس چھوٹی موٹی جیولری ایک چھوٹے سے پائوچ میں اپنے بیگ میں رکھے تھے پاوئچ غائب تھا اسکا والٹ خالی تھا اس نے مڑ کر میز پر دیکھا تو شاپر بھی الٹا ہوا تھا۔لوٹ کر لے جانے والا اسکا ناشتہ بھی لے جا چکا تھا۔
نہیں۔ اسکی آنتیں بھوک سے پلٹیاں کھا رہی تھیں۔وہ پوری قوت سے دوڑتئ باہر نکلی تھی۔ کمپائونڈ تک مگر کسی زی نفس کا نام و نشان بھئ نہ تھا۔ وہ بے بسی سے سر پکڑ کر رہ گئ ۔۔
فون کروں ایڈون کو۔ صحیح ناراض ہوگا مجھ سے کہہ کر بھی گیا تھا کمرہ لاک رکھا کرو
اسکی ذرا سی لاپروائی اسے ٹھیک ٹھاک مہنگی پڑنے والی تھئ۔ کیا کروں اس نے ذہن کے گھوڑے دوڑانے چاہے تو ایک بار پھر ساکت رہ گئ۔
اسکاچاکلیٹ بن تک چرا لے جانے والا موبائل خدا واسطے تھوڑی چھوڑ کر گیا ہوگا۔
وہ الٹے پیر واپس آئی اس بار اسکے کمرے کے باہر دو لڑکیاں کھڑی تھیں۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتئ انکے پاس آئی۔
ہے کیا کررہی ہو یہاں۔
اس کا لہجہ سخت ہوگیا نا چاہتے ہوئے بھی۔ اسکی انگریزی سن کر دونوں چندی آنکھوں والیاں سٹپٹا سی گئیں۔
یہ تمہارا کمرہ ہے ؟ ایسے کھول کر مت جایا کرو چوری ہو جائے گئ۔
ایک نے ہنگل میں اسے سمجھایا اسکے سر پر سے گزرا۔
کیا ؟ اسکو پہلے ہی جھلاہٹ چڑھ رہی تھی۔
روم اوپن، ڈینجرش۔ تھیوز ہیئر۔
دوسری نے اپنی ہائی اسکول کی سیکھی سب انگریزی الٹ دی۔
اوہ۔ سنتھیا کچھ ٹھنڈی پڑی۔
دے۔ گھمسامنیدہ۔
اس نے جھک کر شکریہ ادا کردیا اس مفت مشورے کا۔
آنیانگ۔ دونوں اب الوداعیہ انداز میں کہہ کر منتظر کھڑی تھیں
آنیانگ۔ اس نے بھی سر جھکا لیا۔۔ اب جائو بھی۔ اسے الجھن ہوئی انکو یوں کھڑے دیکھ کر۔
دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھ کر کچھ کہا پھر منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنس دیں۔ سنتھیا نے گھو رکر دیکھا۔
اندر جائو۔ ان سائئڈ گو۔
دونوں ہاتھ کے اشارے اور جو جو لفظ سمجھ آرہا تھا بول کے اسے اندر جانے کا کہہ رہی تھیں۔ اوہ۔ اسکے دماغ کی بتی روشن ہوئئ۔
ظاہر ہے اس تنگ راہداری میں کھڑی وہ انکا راستہ روکے تھی۔
سوری۔ رئیلی سوری۔
وہ کھسیا کر فورا کھلے دروازے سے اندر گھسی۔ دونوں لڑکیاں ہنس کر ہاتھ ہلاتی آگے بڑھ گئیں۔ اس نے جھلا کر دروازہ بند کیا۔
کمرے میں اسکے کپڑوں کے بیگ جوں کے توں ان چھوئے رکھے تھے یقینا اسکو انکو کھولنے کا موقع نہیں ملا تھا۔آہ۔ اسکے منہ سے حقیقتا آہ نکل گئ۔ موبائل ڈھونڈنے کی بھی کوشش نہ بستر پر گر سی گئ
صبح چوٹ نے رلا دیا اب بھوک کی وجہ سے آنسو آرہے تھے اس نے آنکھوں پر بازو رکھا او رتسلی سے رونے لگئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ گوارا کیلئے ناشتہ بنا رہی تھی۔ کائونٹر ٹیبل پر بیٹھی اورنج جوس کی چسکیاں لیتی اپنے موبائل میں وہ نوٹس پڑھ رہی تھی۔
سب تمہاری غلطی ہے اچھی بھلی مجھے عادت تھی ناشتہ نہ کرنے کی تم نے ڈال دی۔ ورنہ میں دو وقت کھانے پر چلتی ہوں دوپہر اور رات۔ اب دیکھ لو تمہیں میرے لیئے ناشتہ بنانا پڑ رہا ہے۔ ویسے میں خود بھی بنا سکتی ہوں ناشتہ مگر سختی سے میری ڈرماٹولوجسٹ نے کہا ہے گرمی کے دھوپ کے قریب بھئ نہ جانا۔ جبھی یہ ڈھاٹا خرید کے لائی ہوں۔
اس نے کرسی پر سے ڈھاٹا اٹھا کر دکھایا۔ کیپ جمع اسکارف تھا بڑا سا جس میں نقاب بھئ بنا ہوا تھا۔ اس نے اکثر لڑکیوں کو یہاں یہ پہنے دیکھا تھا۔ پی کیپ کے اندر فل پردہ جھولتا تھا آگے سے منہ ڈھکتا صرف آنکھیں نظر آتیں اور پیچھے سے بال ڈھکنے کیلئے اسکارف ۔۔
اسکو ہم ٹوپی والا برقعہ کہتے ہیں بس اندر ٹوپی گول ہیٹ جیسی ہوتی ہے۔
اریزہ نے اسکی معلومات میں اضافہ کیا۔
یہ کوریا کی ایجاد ہے۔ گوارا اترائی۔
ہم نے بہت سی چیزیں دی ہیں ایشیاء کو۔ لڑکیوں کی جلد نازک ہوتی ہے باہر کے موسم ا س پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ لڑکوں کی سخت جلد کو دھوپ کی سختیاں کملا دیتی ہیں ہم لڑکیوں کو تو اور احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ منہ بال ڈھک کر نکلنا چاہیئے باہر۔
گوارا کی بات پر اسے ہنسی ہی آگئ۔۔۔ اچھی تقریر تھی پردے کے حق میں۔
تھیبا۔ یہ تو ٹاپک میں نے پڑھا ہی آج ہے۔ ڈیفیوژن آف اننوویشن۔ یہ کیا بلا ہے بھئی۔ وہ اب ہنگل میں شروع تھی۔
دفع دور ۔۔ ویسے بھئ دو چار وائیوا لے کر یونیورسٹی والوں نے کونسا میرا جی پی اے بڑھا دینا ہے ۔
وہ اب آدھی ہنگل آدھی انگریزئ ملا جلا کر بول رہی تھی۔
خوامخواہ زحمت کر رہی ہو نیا کچھ پڑھنے کی جو پڑھا ہوا اسی کے نوٹس پر دھیان دو وائیوا کی ہی تیاری ہوجائے۔
اسکے سامنے پراٹھا آملیٹ رکھتے اریزہ نے کہا تو
اس نے فورا موبائل ایک طرف رکھ دیا۔ اور رغبت سے ناشتہ کرنے لگی۔
اریزہ اپنا ناشتہ گرم چائے کا کپ لیکر مقابل آبیٹھی۔ تبھئ تیار ہو کر کمرے سے ہوپ نکلی تھی۔ ان پر نگاہ غلط ڈالتی سیدھا رخ باہر کی جانب تھا۔ وہ داہنے پیر پر ذرا کم وزن ڈال رہی تھی۔ ایک بار کے بعد دوبارہ جانے اس نے خود پٹی کی بھی تھی کہ نہیں۔ افسوس ہوا اسے اپنی لاتعلقی پر
یونا۔ اریزہ اسے بے اختیار پکار بیٹھی۔ جوابا اس نے ترچھی نگاہ ڈالی پھر جواب نہ ملنے پر مڑ کر کر گھورا
یونا۔ اریزہ کو توقع نہ تھی کہ۔مڑ کر دیکھے گئ سو خوش ہو کر دعوت دی
آئو ناشتہ کرکے جائو۔ اب کیسی طبیعت ہے تمہاری۔پائوں ٹھیک ہوا۔؟۔
ایک تو یہ اریزہ کا سوشل ورک۔ گوارا ہنگل میں بڑبڑائی
یوآنہ نام ہے میرا اور میرے لیئے ناشتہ مت بنایا کرو کتنی دفعہ کہا ہے تمہیں۔
وہ جھلائی اور پیر پٹختی سی واپس آئی انکے پاس۔
بیان۔( معزرت) یوآنہ۔
اریزہ نے جیسے ڈر کر فورا تصحیح کی۔ اور پلیٹ اسکی جانب کھسکا دی۔ وہ کونسا کورین تھی نام بولنے میں زبان رواں تھئ مگر نام سمجھ بھی تو آئے ۔یوآنہ اس بات پر بھی اس سے لڑ سکتی تھی۔
یہ پھر وہی بنایا ہے اس دن والا۔۔ یو آنہ کا انداز تفتیشی تھا۔
اریزہ کچھ نہ بولی۔ گوارا نے گہری نگاہ سے یوآنہ کو دیکھا جو بظاہر جھلائی سی گرم پراٹھے پر آملیٹ پھیلا کر رول بنا رہی تھی۔ رول بنا کر اسکو دیکھ کر بولی
میرے لیئے زحمت مت کیا کرو مجھے بالکل کسی سے اپنا کام کروانا پسند نہیں۔
اریزہ نے سر ہلادیا۔ اور چائے کا کپ اٹھا کر گھونٹ بھرنے لگی
آننیانگ۔۔
وہ کہہ کر تیز تیز قدم اٹھاتی چلی گئ۔ اریزہ کا پورا پراٹھا لیکر۔
آ بیل مجھے مار، پائوں پر کلہاڑی مارنا ، حلوائی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ۔ اور ناجانے کتنی ضرب المثل اسے یاد آکے رہ گئیں۔
اور وہ کونسا محاورہ تھا۔ دوستی بھی بری دشمنی بھی۔ مگر کس کی۔
گوارا نے اپنی پلیٹ اسکی جانب بڑھا دی۔۔آدھا پراٹھا بچا تھا۔
یہ لو میں کھا چکی۔ وہ ہاتھ جھاڑتی اٹھ کھڑی ہوئی
ارے میں اور بنا لوں گی۔ ا س نے انکار کرنا چاہا وہ سہولت سے منع کر گئ
اسی کو کھالو مجھے پتہ ہے تم اور نہیں بنائو گی۔
وہ ہنس کر بولی تو اریزہ کھسیا کر سر ہلا گئ
اچھا میں چلتی ہوں۔ وہ اپنا بیگ اٹھانے لگی۔ آننیانگ۔
سارا دن پڑا تھا اسکے پاس کرنے کو کچھ بھی نہ تھا۔ اس نے سستی سے نوالہ توڑا۔
گوارا جاتے جاتے مڑی ۔۔ اسکی بیزار شکل دیکھی تو خیال آیا
تم کوئی جاب کیوں نہیں کر لیتیں۔ ؟
ہاں کرنی ہے نا جاب۔ وہ ایکدم پرجوش ہوئی۔
بلکہ میں تو کہنے والی تھی مجھے کہیں جاب دلوا دو میں اپنا خرچہ خود اٹھانا چاہتی ہوں۔ اگلے سمسٹر کا۔
اسکی بات پر گوارا نے اطمینان سے جواب دیا
ٹھیک ہے کل میری کمپنی میں آجانا میں ایم ڈی رکھ لوں گی تمہیں۔
کیا؟ اسکا منہ کھلا رہ گیا۔ گوارا زور سےہنس پڑی۔
مزاق نہ اڑائو۔ اریزہ کو برا لگ گیا۔
میں تو مشورہ دے رہی تھی میں کونسا ایل جی کی مالک ہوں سہیلی۔ جو جھٹ سے کہیں جاب لگا دوں تمہاری۔
اس نے آگے بڑھ کر اسکے پھولے گال پر چٹکی بھری
اریزہ گھور کے رہ گئ۔
اچھا دیکھتی ہوں کوئی آتے جاتے پارٹ ٹایم جاب کے ایڈز دیکھتی آئوں گئ آتے وقت پریشان نہ ہو مگر بنا ہنگل سیکھے جاب کرنا مشکل ہوگا تمہارے لیے۔۔پہلے بتا دوں۔ یہاں کسی کو ایک لفظ انگریزی نہیں آتی۔
اس نے ڈرایا۔
ہمم۔ وہ کیا کہتی آگے سے۔
اوکے میں کسی ہنگل کلاسز کا بھی پتہ کرتی ہوں تم سارا دن فری ہوگئ جاب کے ساتھ ہنگل بھی سیکھ لینا۔ فکر نہ کرنا۔اوکے بائے۔
وہ عجلت میں بولتی ڈھاٹہ چڑھاتی خدا حافظ کہتی بھاگ گئ۔
خدا خدا کرکے تھوڑی انگریزی بہتر ہوئی ہے تو نیا کھڑاگ کورین سیکھو۔
وہ سوچ کے رہ گئ۔
اگلا نوالہ ذرا بڑا لیا ۔۔ اب احساس ہوا کہ وہ آدھا پراٹھا اتنی فراخ دلی سے کیسے اسے دے گئ۔ اس کا منہ بنا۔
نمک آملیٹ میں ذیادہ تھا۔ اپنے لیئے نئے سرے سے ناشتہ کیا بناتئ وہی ختم۔کرنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روتے روتے آنکھ لگ گئ تھی کہ کیا۔ فون بجنے پر آنکھ کھلی۔
وہ چند لمحے حواس ہی بحال کرتی رہ گئ۔ پھر اٹھ بیٹھی۔ باہر کھڑکی سے اسٹریٹ لائیٹ کی روشنی اندر آرہی تھی۔
وہ ہڑبڑا سی گئ۔ جانےوہ اتنا وقت سوتی رہی یا بھوک سے بے ہوش ہو گئ۔ فون لگاتار بجے جا رہا تھا۔ اسکی جیسے جان میں جان آئی۔ادھر ادھر دیکھا بستر تکیہ ہٹا کر دیکھا۔ ٹٹول کر بتی جلائی فون بجنا بند ہو گیا۔
اف۔
فون بج رہا تھا یعنی چوری ہونے سے بچ گیا مگر اس چھوٹی سی کٹیا میں جانے کہاں چھپا تھا۔ دوبارہ کچھ وقفے سے بجنا شروع ہوا۔آواز کا منبع اس نے تلاشتے ہوئے نیچے دیکھا تو بیڈ اور میز کے بالکل کنارے اوندھا پڑا تھا۔یقینا رات کو تکیئے کے پاس رکھ کر سوئی اور وہ پھسل کر گر گیا نیچے۔
اسے جیسے ہفت اقلیم کی دولت مل گئ جھٹ سینے میں بھینچ لیا۔
فون ابھئ بھئ بج رہا تھا۔ اس نے خداوند کا شکر ادا کرکے سینے پر صلیب بنائئ اور فون اٹھا لیا۔ بابا تھے۔
کیسی ہو کہاں تھیں نا کوئی جواب نہ بات دوپہر سے فون کر رہا ہوں ۔۔
چھوٹتے ہی وہ ڈانٹنے لگے۔
وہ سو رہی تھی کیسے ہیں آپ۔ وہ بات بدل گئ
میں ٹھیک ہوں یہ بتائو انتظام کیا ایڈون نے کسی اپارٹمنٹ کا؟ میں نے اریزہ کے پاپا سے بھی بات کر لی ہے تم اور اریزہ مل کر رہنا ایک جگہ۔ اسکے ساتھ ہوگی تو مجھے اطمینان رہے گا۔
بابا میں بچی تھوڑی ہوں۔ وہ چڑ گئ
میرے لیئے تو بچی ہی ہو۔ وہ مسکرائے
اریزہ تو جیسے دادی اماں ہے میری۔ وہ بحث میں لگ گئ
ایک سے بھلے دو ہوتے ہیں بیٹا۔ وہ اسکی کج بحثی سے تنگ سے ہوئے۔
اچھا چھوڑو یہ سب یہ بتائوکیا ارادے ہیں اگلے سمسٹرکا بیٹھ کے انتظار کرنے کی بجائے کوئی چھوٹا موٹا کورس کرلو۔
وقت ضائع نہ کرو۔ ایڈون بتا رہا تھا اس نے کورین سیکھنی شروع کردی ہے تم بھی سیکھو۔
بابا۔ وہ ایکدم ٹوک کر بولی۔
ہاں بولو۔ وہ بھی ہمہ تن گوش ہوئے
بابا وہ ایڈون کا بھی رہائش کا مسلئہ ہے میں اور اریزہ اسکو بھی اپنے فلیٹ میں رکھ لیں۔
اس نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔۔
ایڈون تو بتا رہا تھا کہ اس نے کسی کمرے کا انتظام کر لیا ہے تمہیں نہیں بتایا؟ ویڈیو کال کی تھئ اسے میں نے اس نے دکھایا ٹھیک تھا ایک چھڑے چھانٹ کیلئے کہہ رہا تھا ایسا ہی کمرہ ڈھونڈ دے گا تمہیں میں نے صاف منع کیا۔ اسے۔۔میری بیٹی ایسی فضول سی جگہ نہیں رہ پائے گئ۔
گوشئ وون کہتے ہیں اسے۔
اس کے منہ سے بمشکل آواز نکلی۔
ہاں وہی۔گوشی جو بھی ہے۔ نام جیسا بھی ہو مجھے تو بالکل جگہ پسند نہیں آئی۔ دیکھا نہیں تھا تم نے بالکل چھوٹا سا کمرہ اس سے بڑا تو باتھ روم ہے ہمارا۔۔۔ مجھے پتہ ہے تم اتنے تنگ سے کمرے میں نہیں رہ پائوگئ اسے کہہ دیا میں نے پیسوں کی فکر نہ کرے۔ لڑکوں کا کیا ہے آنکھیں بند کرتے ہیں تو سڑک کنارے بھی سو سکتے ہیں۔ تمہیں ویسے بھئ گرمی ذیادہ ہی لگتی ہے۔
اسکے بابا کا لہجہ محبتوں سے چور تھا۔ اس نے چور نگاہ اپنے گرد ڈالی اور سر جھکا لیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بیزاری سے لائونج میں بیٹھی چینل پر چینل بدل رہی تھی۔ گوارا کا میسج آیا تھا۔ اس نے فون اٹھا کر دیکھا
میں رات کو دیر سے آئوں گئ۔
اس نے بنا جواب دیئے فون صوفے پر رکھ دیا۔
ہوپ بھی دس بجے تک ہی آتی تھی۔ اکیلے ڈھنڈار فلیٹ میں ٹھیک ٹھاک بوریت اور قنوطیت محسوس ہو رہی تھی۔ سو سو کے تھک چکی تھی اس وقت ۔ ٹی وی پر کوئی گیم شو ریپیٹ ٹیلی کاسٹ ہو رہا تھا ہنگل میں مزاق اڑاتے وہ ایک لفظ سمجھے بنا بس دیکھ رہی تھی۔
میرا تو دن ہی نہیں گزر رہا ۔ اس نے وال کلاک کی جانب دیکھا سات بج رہے تھے۔ صبح کا آدھا پراٹھا کھایا ہوا تھا اس وقت بھوک بھی لگ رہی تھی۔ اس نے ٹی وی بند کیا اور ڈھیلے ڈھیلے قدم اٹھاتئ کچن میں چلی آئی۔
دالیں لوبیا سب کچھ تھا چاول بھئ تھے۔ مگر ان سب کو پکانے کیلئے کوئی مصالحہ نہ تھا۔
اس نے ایک دفعہ گوارا سے پوچھا تھا تم مصالحے وغیرہ نہیں خریدتی ہو تو وہ ہنس کر بولی
کمچی سے لیکر سادے سالن چٹنیاں ہر چیز کے تیار ڈبے ملتے وہ بھئ گوشت کے اضافی ذائقے کے ساتھ ضرورت ہی نہیں ہے الگ سے لینے کی۔
اس وقت بھی الماری میں قطار سے ڈبے سجے تھے چٹنیوں مربوں کےمگر اسکے لیئے ایکدم بےکار تھے۔
ٹماٹر ادرک لہسن پیاز بھئ موجود تھا مگر نمک مرچ ہلدی و دیگر مصالحے ندارد تھے۔
کیا عذاب ہے۔۔۔۔ وہ جھلا کر رہ گئ۔
رائس ککر میں چاول پکانے چھوڑے۔ مسور کی دال چڑھائی۔
ساتھ لہسن کی چٹنی بنانے کیلئے لہسن کوٹ لیئے۔ نمک کے نام پر اجینو موتو تھا۔ چمچ بھر کر ڈالتے ڈالتے ہاتھ روک لیا۔
نمک تو خرید ہی لائو ساتھ ٹماٹر اور جو کوئی مصالحہ ملا۔
اس نے ارادہ باندھا۔
وہ سویٹ شرٹ اور ٹرائوزر میں ملبوس تھی۔ اس حلیئے میں باہر جانے کو دل نہیں مانا ۔ اس وقت اہتمام سے اپنا لان کا جوڑا نکالا تیار ہو کر باہر آئی دال کا چولہا بند ہی کردیا۔ اب باہر نکلنا ہی تھا تو گوشت ڈھونڈا جا سکتا تھا وہ بھی حلال۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے پاس حلال گوشت نہیں ہوتا۔
مسکرا کر اس سیون الیون والی لڑکی نے بتایا تھا۔
ویسے یہ ہوتا کونسا جانور ہے آپ مجھے اسکا ہنگل نام بتائیں تو میں بتا دیتی ہوں ویسے ہمارے پاس خنزیر ، گائے ، بکرے گدھے مرغئ سب کا گوشت موجود ہے۔
ایک چھوٹا سا پمفلٹ نکال کر اس نے ایک ایک پر انگلی رکھ کر اسے بتایا۔
گھمسامنیدہ۔۔ اب حلال نامی جانور بتائو اسے۔
اس نے بس سادہ نمک خریدا اور شکریہ ادا کرکے قیمت اداکرکے نکل آئی۔
کیسے ناشکرے ہیں ہم یہ نمک کیسا ہم دھڑلے سے استعمال کرتے ہیں فریج سے برف نکالنی ہے نمک چھڑک دو ،چیونٹیان بھگانی نمک چھڑک دو کوئی ناپسندیدہ مہمان آجائے اسکے جاتے وقت چوکھٹ پر چھڑک دو کسی کے زخموں تک پر چھڑکنے کو تیا ررہتے یہاں مٹھی بھر پیسوں میں چٹکی بھر نمک خریدیں نا تو زندگی بھر نمک سوائے کھانے کے کہیں استعمال نہ کریں۔غرارے بھی بس گرم پانی کے کرلیں اتنا مہنگا نمک۔۔ چلتے چلتے ٹھوکر سی لگی۔تو خود کو کوس بھی لیا
جہنم میں جائو اریزہ۔۔
¹وہ سر جھٹکتی سوچتی جا رہی تھی جب کوئی چلتے چلتے اسکے ہم قدم ہوا۔۔
سلام۔ کیسی ہو۔۔؟۔۔
وہ چھوٹتے ہی پوچھ رہا تھا۔
ایک تو یہ ہایون۔۔اردو میں احوال بھی پوچھنا سیکھ لیا۔ ایک میں ہوں نام کی ہنگل نہ سیکھ پائی۔
اسکی سوچ اسکے چہرے پر لکھی تھی۔
ٹھیک ہوں۔۔ ۔ تم کیسے ہو۔
اس نے مروتا پوچھا۔
تم لگ تو نہیں رہی ہو۔۔ منہ کیوں پھلایا ہوا ہے۔
وہ دوستانہ انداز میں پوچھنے لگا۔
میں نے ۔ اس نے فورا منہ پر ہاتھ رکھا۔
میرا پیدائشئ ہی اتنا ہی بڑا منہ ہے۔
اچھا۔۔ ویسے چھوٹا ہوا ہے تھوڑا۔ کبھی غور سے آئینہ نہیں دیکھا۔
اسکا انداز سرسری تھا ۔۔
اریزہ کا پورا منہ کھلا
یہ کیا اسے باڈی شیمنگ کی گئ تھئ اور اسے یقینا برا ماننا چاہیئے تھا۔ وہ حیرانی کے مارے سوچتی ہی رہ گئ کیا ردعمل دے۔
ویسے مجھے یقین تو تھا کہ تم آج کے دن کے حساب سے تیار ہوئی ہوگی جتنے تم سب لوگ جزباتی ہو مگر تم منائوگی کس کے ساتھ۔ تمہارے دوست واپس چلے گئے جو یہاں ہیں وہ تم سے لڑتے ہی رہتے ہیں۔
وہ چلتے چلتے بائیں جانب گلی میں مڑ گیا۔ وہ بے دھیانی میں اسکے ساتھ ہی مڑ چکی تھی۔
کون ؟ کون لڑتا رہتا ہے مجھ سے ؟
اسے حقیقتا سمجھ نہ آیا۔
تمہاری سہیلی۔ وہ یقینا تمہاری دوست نہیں ہے۔تمہیں اس سے دور رہنا چاہیئے۔ بجائے اسکے کہ رویا کرو اسکی باتوں پر۔
وہ چلتے چلتے رک کر اسکے مقابل آکر جتانے والے انداز میں بولا۔
وہ سٹپٹا سی گئ۔ اپنی طرف سے منہ ہاتھ دھو کرواپس آئی تھی میز پر ۔باقی لوگ ہایون کو تنگ کرنے میں مگن تھے ہوٹنگ کر رہے تھے اس نے تو یہی سمجھا تھا کسی نے دھیان بھی نہیں دیا اسکی متورم آنکھوں پر مگر وہاں ہایون ہی اس پر دھیان دیئے تھا۔۔
ویسے مسلئہ کیا ہے اسکے ساتھ۔ اچانک ہی۔ کہاں تو اتنی شیر و شکر تھیں تم دونوں کہ گمان ہوتا تھا کہ
وہ اگلوانے کے موڈ میں تھا اس سے قبل اپنی غلط فہمی دوبارہ دہراتا اس نے بات کاٹ دی۔
ہم لڑتے رہتے ہیں ۔ بچپن کی دوست ہے وہ میری ہمارا تعلق تمہاری سوچ سے ذیادہ گہرا ہے۔
اسکی بات پر وہ کندھے اچکا کر ایک طرف ہو کر اسکے ہم قدم ہو لیا
میرا خیال ہے کہ تعلق گہرا ہونے کا تعلق دل سے ہوتا ہے وقت سے نہیں۔ کبھی مختصر عرصے کی رفاقت انسان کو ذیادہ قلبی دوستی سے نواز دیتی ہے کبھی سالوں کے تعلق لمحوں میں ٹوٹ جاتے ہیں۔
وہ تو یونہی کہہ رہا تھا مگر بات گہری تھی۔ انگریزی میں کوئی بات کہی جائے تو ذیادہ ہی گہری لگتی ہے۔ وہ بات کے فسوں میں کھوئی تھی جب اچانک چلتے چلتے اسکے سامنے گاڑی کا کھلا دروازہ آگیا۔ وہ چونک کے ایک طرف ہوئی۔
ہایون اس سے ایک قدم آگے ہو کر پنسجر سیٹ کا دروازہ کھولے ہوئے تھا اسکے لیئے۔۔
وہ حیران سی اسکی شکل دیکھنے لگی تو وہ ہنس کر بولا
میں تمہارے گھر ہی آنے والا تھا پر تم میرے ساتھ میرے گھر ہی آگئ ہو۔۔۔
اسکی بات پر چونک کے اس نے اردگرد دیکھا۔ وہ واقعی رہائشی بلاک کی جانب آچکی تھی ہایون کی ہمراہی میں ۔یہاں سے تو واپسی کا راستہ بھی نہیں آتا تھا اسے۔ اسے ٹھیک ٹھاک خفت سئ محسوس ہوئی۔ وہ ہایون کے بنگلے کے سامنے کھڑے تھے۔
اندر آنے کو کہتا پرتم پورک کھاتی نہیں ہو۔ گھر میں پورک اسٹیک ہی بنا ہوا ہے۔
وہ بول رہا تھا مگر اسے سنائی نہیں دے رہا تھا اپنی ذہن کم کم چلانے کی عادت پر غصہ ہی بہت تھا
مر جائو اریزہ۔ اسے شرمندگی سے گڑمرنے کو دل کیا۔
بیٹھو۔ نا۔ اس نے ٹوکا تو وہ مرے مرے انداز میں گاڑی میں بیٹھ گئ۔ ہایون گھوم کر ڈرائیونگ سیٹ پر آن بیٹھا
میں نے چائینیز نہیں کھانا اور میری جانب سے دعوت ہوگی میں پے کروں گی۔
اریزہ نے گاڑی میں بیٹھ کر شرطیں رکھیں۔۔
سیٹ بیلٹ باندھ لو۔۔ ہایون نے جیسے سنا ہی نہیں۔۔
اریزہ نے گھور کر دیکھا۔۔
ہم پاکستانی ڈرائیونگ کرتے نہیں باندھتے۔ پسنجر سیٹ کو سیٹ بیلٹ بندھوا رہے۔ آئے بڑے۔۔
وہ بڑ بڑائی۔۔ مگر مڑ کر سیٹ بیلٹ کھینچ لی۔
وے؟۔۔ وہ پوری طرح متوجہ تھا
اسے ترجمہ کرکے بتانا پڑا۔۔
واقعی؟۔۔ وہ حیران پریشان رہ گیا۔۔
ہاں۔۔ ہم اسلام آباد داخل۔ہوتے ہوئے پھر یاد سے بیلٹ باندھ لیتے مگر پنڈی میں سب چلتا۔۔ اور لڑکی ڈرائیو کر رہی ہو تو بالکل بھی نہیں روکتے جب تک کوئی بڑامسلئہ کھڑا نہ کر لو۔
وہ مزے لے کر بتا رہی تھی۔
واقعی۔۔ لڑکیوں کیلیئے کوئی قانون نہیں؟۔ وہ حیران تھا
اب یہ بھی نہیں۔۔ اریزہ سٹپٹائی۔۔
جبھی تمہاری ڈرائونگ ٹھیک بھی نہیں
وہ جیسے نتیجے پر پہنچ گیا۔۔
اس دن جب ہم واپس آرہے تھے تو مجھے تم سب کا ایک حصے میں گھر پہنچنا مشکل لگ رہا تھا۔۔
ڈولتی گاڑی کا منظر اسکے زہن کے پردے پر لہرایا۔۔
اریزہ کھسیائی۔۔
ایسی بھی کوئی بات نہیں میں بہت اچھی ڈرائونگ کر لیتی ہوں۔۔ اسے برا لگا تھا
اس دن اگر تم میرے ہی ساتھ نہ ہوتیں تو میں یہی سمجھتا تم پی کر چلا رہی ہو۔۔
وہ سراسر مزاق اڑا رہا تھا
پہلی بار بائیں ہاتھ والی ڈرائونگ والی گاڑی چلا رہی تھئ عادت ہی نہیں مجھے اسکی جبھی ایسا ہوا۔ اس نے منہ پھلا کر صفائی پیش کی۔۔
کیا مطلب ؟۔۔ وہ سمجھا نہیں
پاکستانی گاڑیوں میں یہ سب کچھ یہاں اس والی نشست پر ہوتا۔ اس نے اشارے سے گئیر اسٹیرنگ سب کو اپنے سامنے رکھا۔۔
رائٹ ہینڈ ڈرائیو۔۔ وہ سمجھ گیا۔۔
ہاں۔۔ اریزہ نے سر ہلایا۔۔
اسے جانے کیوں ہنسی آگئ۔۔ کھل کر ہنستا گیا۔۔ اریزہ اسے حیرانئ سے دیکھ رہی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریستوران کے باہر کھڑی وہ بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھئ۔ ہایون نے مسکرا کر سر ہلایا۔۔ وہ بے تحاشہ مشکور ہوئی۔۔ہایون کی معیت میں اندر داخل ہوئی۔تو سچ مچ آنکھیں بھر آئیں۔۔
میز کرسیاں تو عام ریستوران جیسے ہی تھے مگر ایک کونے میں مینار پاکستان کا قد آدم ماڈل رکھا تھا جس سے روشنی پھوٹ رہی تھی کیا خوبصورت لیمپ تھا دوسرے کونے میں فیصل مسجد کے ڈیزان کا لیمپ سجا تھا
دل سے میں نے دیکھا پاکستان ۔۔ دھیمی آواز میں چل رہا تھا
پورا ریستوران سبز اور سفید قمقموں غباروں جھنڈیوں اور انہی رنگوں کی آرائشوں سے سجا تھا
ایک جانب چودہ اگست کی مناسبت سے قمقمون سے جشن آزادی مبارک لکھا تھا
آج چودہ اگست ہے۔ اسکی آنکھیں بھرا گئیں۔ کیا کیا منصوبے بنائے تھے یوں چودہ اگست منائیں گے سفید لباس زیب تن کریں گے اور جھںڈا گلے میں ڈال کر۔۔۔ اور جب سچ مچ یہ دن آیا تھا تو سب جدا بھئ ہو چکے تھے اور بھول بھی گئے۔
اسکا دل اداس ہو گیا تھا۔انکے لیئے پہلے سے ریزرویشن ہوئی وی تھی سو سیدھا اسی میز پر لا بٹھایا تھا ہایون نے۔
اسلام و علیکم۔۔ پاکستانی ویٹر نے جھک کر ان دونوں کو سلام کر کے انکے سامنے میز پر مینیو کارڈ رکھا
مجھے تو کوئی اندازہ نہیں بس ایک بار یہاں چکن کڑاہی کھائی ہے۔۔ سو تم اپنی پسند سے کچھ بھی منگوا لو مگر۔۔ وہ رکا۔۔
اریزہ جو سر ہلاتی مینیو کارڈ پر نظر دوڑا رہی تھی۔۔ چونک کر دیکھنے لگی۔۔
کل دوبارہ اس پر نظر پڑی تھی تو مجھے فورا خیال آیا تمہارا سو یہ دعوت میری جانب سے ہی ہوگی۔۔ منظور۔۔ وہ منوانے والے انداز میں دیکھ رہا تھا۔۔
وہ مسکرا کر اثبات میں سر ہلا گئی۔۔
اس نے چکن کڑاہی اور بریانی ہی آرڈر کی تھی۔۔ ساتھ ایک مختصر سی تاکید بھئ۔
دل سے میں نے دیکھا پاکستان دوبارہ لگا دیں۔
ویٹرسر ہلا کر مڑ گیا تھا۔ وہی گانا دوبار لگ گیا تھا۔ وہ بلا ارادہ گنگنا بیٹھی۔ ہایون کے چہرے پر محظوظانہ مسکراہٹ در آئی۔ تو وہ کھسیا کر بولی۔
یہ گانا بہت پسند ہے مجھے۔
ہایون نے سر ہلا دیا۔ پھر پورا گانا سن کر ہی خیال آیا کہ ہاتھ دھو لینا چاہیئے۔
میں ابھی ہاتھ دھو کے آتی ہوں۔۔ وہ بتا کر ریسٹ روم چلی گئ۔۔
ویٹر کھانا لگا رہا تھا جب اسکی واپسی ہوئی۔۔
نان کی بجائے اس نے توے والی روٹی منگوائی تھی۔۔ گرم گرم روٹی دسترخوان میں لپٹی کتنے دن بعد نصیب ہوئی تھی۔۔
ہیون نے دیکھا تو وہ سالن نکال کر روٹی دسترخوان سے نکال رہی تھی۔ ہایون ہاتھ بڑھاتے بڑھاتے رک گیا۔۔
کیا ہوا۔۔ اریزہ نے پوچھا۔۔
تمہارے اس کھانے کو تو ہاتھ سے کھانا پڑے گا تو ہاتھ دھلے ہونے چاہیئں۔۔
اس نے تائد چاہی۔۔
میں ہاتھ دھونے ہی گئ تھی۔۔ تم نے دھونا تو تم بھی دھو آئو۔۔
اریزہ نے روٹی دوبارہ لپیٹ کر رکھ دی۔۔ وہ سر ہلاتا اٹھ گیا۔۔ ہاتھ دھو کر آیا تو وہ اسکے انتظار میں ہاتھ روک کر بیٹھی تھی۔۔
بیانئے ۔۔ اس نے فورا معزرت کی۔۔
کوئی بات نہیں۔۔ وہ اسکا انتظار ہی کر رہی تھی ہیون نے اپنے لیئے کھانا نکالا تو وہ وہ مزے سے بسم اللہ پڑھ کر شروع ہو گئ تھی۔۔ اسکو نوالا بنانے میں مشکل آرہی تھئ وہ دز دیدہ نظرون سے اریزہ کو دیکھتا۔۔ اریزہ چھوٹے نوالے بنا رہی تھی خوب چبا کر کھا رہی تھی۔۔ ساتھ ساتھ جو ڈش خود اٹھاتی اسکی پلیٹ مین بھی تھوڑا سا ڈال دیتی۔۔
اس نےبریانی نکالی تو چمچ کی بجائے وہ بھی ہاتھ سے ہی کھانے لگی۔۔ ہایون اسے دلچسپی سے دیکھنے لگا۔۔ وہ بہت نفاست سے نوالا بنا رہی تھی۔۔
وہ بہت رغبت سے کھا رہی تھئ۔۔
۔۔ ہیون کی نظروں کا احساس ہوا تو جھجک کر ہاتھ نیچے کیا۔
وہ چمچ تھا تو۔۔ وہ کھسیا کر ہاتھ پونچھنے لگی۔
آنیو۔ ہیون نے فورا روکا۔
تم جیسے کھاتی ہو ویسے ہی کھائو۔۔ جس میں تمہیں آسانئ ہو۔۔ بلکہ میں بھی کوشش کرتا ہوں۔۔ اس نے بھی چمچ رکھ دیا۔۔
جس طرح اریزہ کیلیئے چاپ اسٹک سے نوالہ بنانا مشکل ہو رہا تھا اسی طرح ہایون بھی منہ تک لے جانے میں کتنے ہی نوالے گرا چکا تھا۔۔
ایسے۔۔ اریزہ مسکراہٹ دبا کر اسے نوالہ بنانا سکھانے لگی۔
بیک گرائونڈ میں وہی ملی نغمہ بجے جا رہا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھانا کھا کر باہر نکلے تو اسے کون نظر آگئ۔۔
آئیسکریم کھائیں۔۔ اس نے پوچھا۔۔
ہیون کون شوق سے نہیں کھاتا تھا یہی بتانے کو منہ کھولا مگر اریزہ نے موقع نہیں دیا۔
اس بار بھاگ کر گئ۔۔ خود خرید کر لے آئی۔۔
ہیون اسکی پھرتی دیکھ کر رہ گیا۔۔
مجھے کون بہت پسند پاپا تو کون کی مشین خریدنے لگے تھے مگر امی آڑے آگئیں۔۔
اس نے منہ بنا کر بتایا۔۔
امی۔۔ ہیون پاپا تو سمجھ گیا تھا۔۔
آہمو جی۔۔ اس نے وضاحت کی۔۔ اسکی کون پگھلنے کو تھئ۔۔
اسکو یہاں سے چاٹو۔۔ پگھل رہی ہے ایسے۔۔
اریزہ نے فورا اسکو توجہ دلائی۔۔
پھر اپنی کون کو کونے سے زبان لگا کر گویا اسے عملی طور پر سکھایا کیسے کون کھاتے۔۔
تمہارے آہبو جی تم سے بہت پیار کرتے ؟۔۔ اس نے بات برائے بات پوچھا۔۔
بہت زیادہ میں لاڈلی ہوں انکی۔ اس نے اترا کر بتایا تھا۔۔
اور آہمو جی۔۔ ہایون اسکے بچوں جیسے انداز پر مسکرا رہا تھا۔۔
وہ نہیں کرتیں۔۔ پیار مجھ سے۔ اسکا انداز خفا خفا سا ہوگیا۔
کیوں۔ ہیون چونکا۔ اریزہ کی ماں بھی کیا اسکی ماں کی طرح سوتیلی ہے۔۔
انکو بھائی پیارا تھا ۔۔ وہ بھائی کے ذکر پر اداس سی ہوئی۔۔
بچپن کی کوئی یاد تازہ ہوئی تھی۔۔
ہائے میرا حماد چلا گیا۔۔ آپا۔
خالہ سے لپٹ کر بلکتی اسکی ماں وہ خالہ کی آمد کا سن کر بھاگتی آئی تھی ڈرائنگ روم میں ابھی دروازے پر ہی تھئ کہ ماں کے بین سنائی دیئے۔۔
ایک بیٹا تھا میرا بس آپا۔۔ خدا کو لینا تھا تو بیٹی لے لیتا۔۔ میرا بیٹا کیوں چھین لیا ۔۔ ہمارا اکلوتا سہارا تھا بڑھاپے کا میرا جوان بیٹا چلا گیا آپا۔
ماں کے بین اسکا دل چیر گئے تھے۔۔ ماں صدمے میں تھی حواس کھو رہی تھی مگر وہ بھی تو ایک بارہ سال کی بچی ہی تھی ان جملوں کو سہہ نہ سکی رو پڑی بھلا نہ سکی آج تک یاد تھے
پاگل مت بنو صفیہ۔۔ خدا کی امانت تھی اس نے لے لی شکر ادا کرو اریزہ بچ گئ۔۔ وہ بھی تو وہیں تھی۔
یہی تو کہہ رہی آپا وہ بھی تو وہیں تھی۔۔ میرا حماد کیوں چلا گیا۔۔ میرا ایسا سلجھا ہوا تابعدار بیٹا۔۔
ماں کے بین نہ تھمے۔۔
ہوش کر و صفیہ۔۔ مت فضول بکو۔۔ خدا کا لاکھ شکر ہے گود خالی نہ ہوئی تمہاری۔۔بیٹی تو بچ گئ۔۔ اسکی شکل دیکھو حوصلہ پکڑو۔۔ خالہ نے ڈپٹ دیا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکو آئیسکریم کھانے کا طریقہ سکھاتی لڑکی اب اپنے ہاتھ خراب کر چکی تھی سوچوں میں گم ہو کر۔۔
ہیون اسکی سوچیں تو نہیں پڑھ سکتا تھا مگر سوچیں تکیلف دہ ہی تھیں اتنا تو اسکا چہرہ پڑھ گیا تھا سو بات بدل کر بولا۔۔
تم نے کبھئ یہ کھیلا ہے۔۔ اس نے تھوڑی دور ایک کائو نٹر کی جانب اشارہ کیا۔۔
کیا؟۔۔
اریزہ چونکی۔۔
ادھر آئو۔۔ وہ اسے کہتا آگے بڑھا اریزہ نے بھی تقلید کی۔۔
وہ ایک چھوٹا سا کیبن تھا جس میں چھوٹے چھوٹے اٹفڈ ٹوائز گڑیائیں بھالو ، سینڈیز اور چھوٹے موٹے تحائف پڑے تھے۔۔ کیبن شیشے کا تھا اسکے آگے ایک چھوٹا سا ہنڈل بنا ہوا تھا اس ہینڈل سے متصل ایک آہنی پنجہ سا لٹک رہا تھا اس ہینڈل سے وہ پنجا ہلتا جلتا تھا انہیں اپنی مرضی کا تحفہ اٹھا کر باہر نکالنا تھا اس آہنی پنجے کے زریعے۔۔ یہ جتنا آسان لگ رہا تھا اتنا تھا نہیں۔۔ چند سیکنڈ کے بعد پنجا کھل جاتا تھا انکو چاہے وہ راستہ پورا کر چکا ہو یا نہین۔۔ ہیون اسکیلیئے ایک دو پونیوں والی گڑیا اٹھانے کی کو شش کر تا رہا۔۔
اسے ایک چھوٹا سا گڈا پسند آگیا تھا۔۔
اس نے ہایون کا خوب مزاق اڑا کر اس سے ہینڈل چھین لیا تھا۔۔ تین ناکام کو ششوں کے بعد چوتھی بار وہ کامیاب ہوئی تھی۔۔ اس نے وہیں اچھلنا شروع کر دیا تھا۔۔ اس نے حقیقتا چڑا چڑا کر اسکی ناک میں دم کر دیا تھا اتراہٹ سے اسکا برا حال تھا۔۔
پہلی بار کھیلا ہے میں نے۔۔ اس نے جتایا
تم عظیم ہو بھئی۔۔
اس نے ہاتھ جوڑ دیئے تھے۔۔
اریزہ اس گڈے کی مختلف انداز میں تصویریں کھینچ رہی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پورے شہر کی روشنیاں اسکی نگاہوں کے سامنے تھیں۔ دامن کوہ سے کبھی اسلام آباد شہر کا شام میں نظارہ کرو تو لگتا ہے جیسے ایک بڑی سی جھیل میں روشنی کے دیئے تیر رہے ہوں۔ مگر یہاں نام سان ٹاور کے قریب بنے اس بڑے سے پارک کی بالکونی سے سیول شہر کو دیکھتے اسے لگا تھا کہ ستاروں کی بارات اتر آئی ہو اسکے آنگن میں۔ سیول کی فلک بوس عمارتیں اور ان سے پھوٹتی روشنیاں۔ وہ مبہوت سی ہوگئ تھی۔ اوپر ٹاور تک کیبل کار تھی جسکا الگ سے ٹکٹ لینا پڑتا۔ اس نے یہیں کھلی فضا کو ترجیح دی تھی۔ پھر وقت بھی کم تھا کیبل کار بند ہی ہونے والی تھی۔
تم مجھے بتا دیتیں میں چھٹی لیکر آجاتا۔
ایڈون نے اسکو کوک تھمائی اس نے چونک کر کین اسکے ہاتھ سے لے لیا۔۔۔
اسکا جواب سنتھیا دانستہ ٹال گئ۔ اسے ہلکی ہلکی سرد ہوا کو سہتے یہاں ملگجے اندھیرے میں کھڑے ہو کر شہر کی روشنیاں دیکھنا اچھا لگ رہا تھا۔ اس وقت وہ بس اس لمحے میں جینا چاہ رہی تھی۔
کتنی ہی دیر گزر گئ۔ دونوں خاموشی سے برابر برابر کھڑے بس سامنے دیکھ رہے تھے اپنی اپنی سوچ میں گم۔
کتنی ہی دیر کے بعد جانے کس تکلیف دہ سوچ کو ٹالنے اس نے سر جھٹک کر دائیں جانب دیکھا تو ایڈون کو بھی کسی گہری سوچ میں گم پایا۔
کیا سوچ رہے ہو۔
اس نے پوچھا تو ایڈون نفی میں سر ہلانے لگا۔
کچھ خاص نہیں۔
تمہیں پتہ ہے میں کیا سوچ رہی تھی۔
سنتھیا نے ناز سے کہا تھا۔۔ جوابا ایڈون نے پوچھا ہی۔نہیں چند لمحے انتظارکے بعد وہ خود ہی بولی۔
میں سوچ رہی تھی کہ آج سے پانچ سات سال بعد بھی ہم دونوں یہاں آئے ہوں یونہی کھڑے اس نظارے کو دیکھ رہے ہوں یہی موسم ہو یہی شہر ہو بس ۔۔۔۔۔۔۔
وہ لحظہ بھر رکی۔ پھر ایڈون کو دیکھ کر بولی
ہم دونوں خاموش نہ ہوں۔۔۔۔
ایڈون گہری سانس لیکر ریلنگ پر بازو ٹکا کر اپنی پیشانی سہلانے لگا۔
پانچ سات سال بعد کی بجائے ابھی کا سوچو۔ لگ رہا ہے بارش ہوگی ہمیں اب چلنا چاہیئے۔
ایڈون آسمان کو دیکھتے ہوئے بولا۔ ہلکے ہلکے بادل چھا رہے تھے۔
آج چودہ اگست ہے۔ یاد ہے پچھلے سال اس دن ہم پنڈی میں چھت پر سے جھنڈیاں اتار رہے تھے۔ بارش جو شروع ہو گئ تھی۔
سنتھیا کا دل واپس اسی کٹیا میں جانے کا نہیں کر رہا تھا۔
سو بات بدل گئ۔
کتنا مزا آتا تھا جھنڈیاں لگانے کا سب سے بڑا پرچم لگانے کا۔ یہاں تو سب کیلئے عام سا دن ہے۔
وہ بور سے انداز میں بولی۔
جھنڈیاں لگانے کونسا ہماری حیثیت بدل جاتی تھی۔ رہتے ہم وہی اقلیت کے اقلیت تھے۔ پوری جھنڈے کا چھوٹا سا حصہ۔ جتنا کھل کے یہاں پھر رہے رات کے دس بج رہے کسی کو جوابدہ نہیں ہم یہاں وہاں آزادی سے اتنی رات کو کسی پبلک پلیس پر گھوم سکتے تھے ہم پاکستان میں ؟
ایڈون میں اتنی تلخی پاکستان کیلیے پاکستان میں رہتے بھی تھی یا اب اچانک پیدا ہوئی تھی وہ درست اندازہ نہ لگا سکی۔ الجھن بھرے انداز میں پوچھنے لگی
تمہیں کوریا پاکستان سے ذیادہ پسند ہے؟
اب میں اس وقت کوریا پاکستان کے موازنے کے موڈ میں نہیں ہوں مگر اتنا کہوں گا پاکستان میں بےجا پابندیاں ہمیں اقلیت ہونے کی وجہ سے سہنی پڑتی ہیں وہ ملک مسلمانوں کیلئے ہی ہے بس۔
ایڈون نے ہاتھ جھاڑے۔۔۔
خیر۔۔۔میں بہت تھک گیا ہوں۔ جاب اسکے بعد اکیڈمی اس وقت دل کررہا تھا بس بستر ہو اور میں سوجائوں۔ ہنگل کے سبق روز کے روز ملتے ان مشقوں کو دہرانا اور یاد کرنا پڑتا ہے۔ آج تو وقت نہیں ملنا مجھے۔۔ اسی لیئے یہاں آنے سے منع کر رہا تھا۔
وہ سرسری سے انداز میں بتا رہا تھا۔ تھکن اسکے انداز سے واضح تھی۔
مگر تمہیں میری فرمائش پر یہاں آنا پڑگیا۔
وہ فورا چڑی تھی۔ ایڈون ہونٹ بھینچ کر رخ موڑ گیا۔ اسکی یہ حرکت اسے مزید غصہ دلا گئ۔ وہ پھٹ سی پڑی۔
کوئی اندازہ ہے تمہیں میں نے سارا دن کیسے گزارا ایک تنگ کوٹھری میں بند۔ بھوک سے آنتیں پلٹ رہی تھیں میری۔ مگر گھٹن کا احساس سب پر حاوی تھا۔ مجھے لگ رہا تھا ساری دیواریں مجھ پر آن گریں گی۔ مجھ سے ایک گھنٹہ اس گوشی وون میں گزارنا مشکل ہے کجا وہاں رہناسانس نہیں آرہی تھی مجھے ۔
ایڈون یونہی رخ موڑے کھڑا تھا اس نے آگے بڑھ کر اسے کندھے سے پکڑ کر اپنی جانب موڑا۔
۔ ایک بات تو بتائو بابا اتنے پیسے بھیج رہے ہیں کہ فلیٹ لیا جاسکے مگر تم منع کیئے چلے جا رہے ہو۔
اتنا دشوار ہے تمہارے لیئے ایک کمرے کا فلیٹ ارینج کرنا؟ یا تم مجھ سے اتنے عاجز ہو کہ میرے ساتھ رہنا گوارا ہی نہیں ہے۔۔
مجھ میں اس وقت تم سے لڑنے کی بھی ہمت نہیں ہے سنتھیا۔
وہ عاجز سا ہو کر بولا۔
تمہیں احساس کیوں نہیں ہو رہا کہ میں گوشی وون میں نہیں رہ سکتی۔
وہ بے بسی سے رو پڑی۔ اسے کوئی سخت سا جواب دیتے دیتے رہ گیا ایڈون۔
میں کچھ پیسے بچانا چاہ رہا تھا۔۔ تم نے فیصلہ کرنا ہے اس بچے کیلئے۔ اگر اس معاملے کو ختم کرنا ہو تو بھی اور اگر تم اسکو ۔۔ وہ بولتے بولتے رک گیا۔ پھر دھیرے سے اسکے کندھے تھام کر اپنے مقابل کرلیا۔ سنتھیا نے آنسوئوں بھری نگاہیں ا س پر جما دیں۔
ہمیں اسکی پرورش کیلیے بھی پیسے چاہیئے ہوں گے۔ ہم اپنے والدین سے پیسے نہیں مانگ سکتے اس سب کیلئے۔۔۔ تم نے کیا سوچا ہے ؟ کیا کرنا۔
میرا فیصلہ؟ وہ چونک کے اسکی شکل دیکھنے لگی۔
ہاں۔ ایڈون نے تھوک نگلا۔
تم جو بھئ فیصلہ کروگی مجھے منظور ہوگا۔ اگر تم چاہتی ہو ہم اپنے والدین کو اعتماد میں لے کر یہاں شادی کر لیں تو بھی اور اگر تم چاہو تو ہم اس معاملے کو خاموشی سے ختم کر لیں گے۔
سنتھیا نے لمحہ بھر سوچا۔
میں اس بچے کو پیدا کرنا چاہتی ہوں۔
ایڈون کو لگا کہ پورا سیول لمحہ بھر کیلئے تھم گیا تھا اسکے لیئے۔۔۔۔
…………………………….
وہ اسے اپارٹمنٹ کے باہر چھوڑ کر گیا تھا۔ اس نے کہا بھئ کوئی بات نہیں میں چلی جائوں گی۔۔ مگر وہ اسے چھوڑنے اوپر تک آیا تھا۔۔
گوارا ابھی گھر نہیں لوٹی تھی۔۔ وہ کمرے میں آئی تو ہوپ بیڈ پر بے خبر سو رہی تھی۔۔اس کے پائوں کے زخم پر پپڑی آچکی تھئ مگر اتنی خشک کہ لگتا تھا ابھی خون چھلک پڑے گا۔ اس نے لمحہ بھر سوچا۔ گوارا کے پاس چوٹ پر لگانے والی دوا پڑی تو تھی ۔ اس نے اٹھا کر احتیاط سے ٹیوب سے اسکے زخم پر دوا لگا دی تھی۔ ہوپ ذرا سا کسمسائی وہ فورا پیچھے ہٹی۔کچھ بعید نا تھا کہ یوں دوا لگانے پر لات ہی مار دے۔ اس نے اسکے دوبارہ گہری نیند میں جانے کا انتظار کیا اور ایک رومال لاکر اسکے پائوں کے نیچے بچھا دیا۔ سب کاروائی کرکے فریش ہونے باتھ روم گھس گئ۔ نہا دھو کر تازہ دم ہو کر نکلی تو تھکن سے براحال تھا۔ گوارا کا انتظار کرنے کی بجائے وہ آکر لیٹ گئ۔۔ اب بلاگ اپڈیٹ کرنے کی باری تھی۔۔
زندگی میں پہلی بار کوئی کھیل کھیلا اور انعام بھی جیتا ہے۔ اس نے یہی عنوان دیا۔۔
اور اس گڈے کی سب تصویریں لگا دیں۔
کمنٹ آرہے تھے اس نے کھولا
پہلا کمنٹ : آج کے دن کے حوالے سے تو کچھ پوسٹ کرتیں تم
دوسرا کمنٹ: انعام یہ ہے تو کھیل بھی کوئی گھٹیا سا ہوگا
تیسرا کمنٹ: پاکستانی ہو کر اتنی محنت کی۔ اندر تار ڈال کر نکال لینا تھا۔
چوتھا کمنٹ : اس مشین پر ایک پتھر مارتیں ایک گڈے کی بجائے سب مل جاتے دکان کھول لیتیں اپنی تم
پانچوان کمنٹ: بارش شروع ۔ چودہ اگست ہو اور بارش نہ ہو نا ممکن۔
چھٹا اسی کمنٹ کا جواب کھول کھول کر سب پوچھ رہے تھے کس شہر کی بات کر رہے کہاں ہو رہی ہے بارش۔
اور ہایون پیغام بھیج کر پوچھ رہا تھا
کونسا گانا تھا جو وہاں چل رہا تھا سن کے مزے کا لگا تھا۔
اس کے چہرے پر مسکراہٹ آگئ ۔ جھٹ گانا یوٹیوب پر ڈھونڈ کر اسے لنک بھیجا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیون کو اسکے اتنی جلدی جواب بھیجنے کی توقع نہیں تھئ۔۔
جلدی جواب دینے والے بھی نعمت دوست ہوتے۔۔ اس نے سوچا۔۔ اسکا بھیجا گانا لگانے لگا پھر خیال آیا۔
یاہ آئی ایم آلاییو۔۔ مورم اسکول کا او ایس ٹی ۔۔ وہ یہی گانا سن رہا تھا یہی اسے بھی بھیج دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیغام۔کی گھنٹی بجی۔۔
اس نے کھول کر دیکھا تو کوئی لنک تھا
اس نے فورا کھولا جیسے ہی موسیقی کی آواز بلند ہوئی ڈر کر بند کر دیا۔ ہوپ بے خبر سو رہی تھی۔۔ اس نے اٹھ کر سائڈ ٹیبل سے ہنڈز فری نکال کر کانوں میں ٹھونس لی پھر دوبارہ چلایا۔۔
چند لمحے سن کر وہ لب ہلانے لگی
یاہ آئی ایم آل رائٹ۔۔ آگے کچھ اور ہی زبان تھی۔۔۔ سمجھ نہیں آرہا تھا مگر سننے میں اچھا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد
جاری ہے۔

Kesi lagi apko Salam Korea ki aaj ki qist ? Rate us below

Rating

سلام دوستو۔کیا آپ سب بھی کورین فین فکشن پڑھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں؟
کیا خیال ہے اردو فین فکشن پڑھنا چاہیں گے؟
آج آپکو بتاتی ہوں پاکستانی فین فکشن کے بارے میں۔ نام ہے Desi Kimchi ..
دیسئ کمچی آٹھ لڑکیوں کی کہانی ہے جو کوریا میں تعلیم حاصل کرنے گئیں اور وہاں انہیں ہوا مزیدار تجربہ۔۔کوریا کی ثقافت اور بودوباش کا پاکستانی ماحول سے موازنہ اور کوریا کے سفر کی دلچسپ روداد
پڑھ کر بتائیے گا کیسا لگا۔ اگلی قسط کا لنک ہر قسط کے اختتام میں موجود یے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *